اکتوبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

پیکرِ تسلیم و رضا ___ میاں طفیل محمدؒ

سیّد منور حسن | اکتوبر ۲۰۰۹ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

میاں طفیل محمد ؒجماعت اسلامی کے اکابرین میں ایک نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان جیسی شخصیت اور مزاج کے حامل لوگ اب خال خال دیکھنے کو ملیں گے۔الفاظ کا ذخیرہ زیادہ دیر تک اور دور تک ساتھ نہیں دیتا وگرنہ درویش صفت کہنا، فقیر منش کا عنوان دینا، سادگی کا ان پر ختم ہوجانا اور للہیت کا پیکر ہونا، مزید یہ کہ بے غرضی اور بے نفسی کا سراپا ہونا، ایسی صفات ہیں جو گفتگواور تحریرمیں باربار گنوائی گئی ہیں، فی الحقیقت میاں صاحب مرحوم ان تمام صفات اور خصوصیات کامرقع تھے۔

میاں صاحب پر اللہ کا کرم ہوا کہ ان کا تعارف سید مودودی ؒ سے ہو گیا اور مولاناؒ کو ایک بے ریا، محنتی ، فرض شناس اور حقیقی معنوں میں متقی کارکن میاں صاحبؒ کی صورت میں انعام خداوندی کے طور پر مل گیا۔ دنیوی لحاظ سے تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا تھا کہ شان دار تعلیمی کیرئیر، اپنی ریاست میں پہلا مسلمان وکیل جس کے سامنے بے شمار مواقع و امکانات ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے،اور ریاست کا راجا مُصر تھا کہ ہائی کورٹ کی ججی دلوا دے گا مگر وہ میاں طفیل محمد ہی کیا جو ان چیزوں میں الجھ جاتے۔یہ ساری باتیںفی الحقیقت ان کی نظر میں فروعات کی حیثیت رکھتی تھیں، اصل بات فریضۂ اقامتِ دین تھا۔یہی ان کی بابرکت زندگی کا نصب العین اور جلی عنوان بنا۔ اس نصب العین کی معرفت انھیںسیدمودودیؒ سے حاصل ہوئی۔اس لیے وہ ساری عمر کے لیے سید علیہ الرحمہ کے احسان مند بھی ہوئے اور نیاز مند بھی۔ میاں صاحب ؒ بلاشبہہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سامنے دنیااپنی ساری رعنائیوںکے ساتھ کھڑی تھی مگر اس مردِ درویش نے اس پر ایک نگہِ غلط انداز ڈالنا بھی گوارا نہ کیا۔سچ بھی یہی ہے کہ جو آدمی یکسو ہوجائے اور اپنے مقصدِ حیات کی معرفت حاصل کرلے، اس کے سامنے دنیا کی حیثیت مردار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ علامہ اقبالؒ نے میاں صاحب جیسے لوگوں کے لیے کہا تھا   ع

نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے

بظاہر میاں صاحبؒ نے عسرت اور تنگ دستی کی زندگی گزاری مگر عشقِ الٰہی سے سرشار لوگوں کا نشہ کوئی ترشی اتار نہیں سکتی۔ سیدمودودی ؒ سے ان کی محبت اور عقیدت کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ  وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ میرے محسن ہیںاور مجھے ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ہیں۔ جس شخص کے ذریعے انھوں نے زندگی کے نصب العین کو سمجھا اور زندگی کے مقاصد کو پہچانا اور جس شخص کے ذریعے ان میں دنیاداری سے بہت دور اپنے آپ کو بسانے اور دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ بیدارہوا، اس کی قدرومنزلت، دل و دماغ کی دنیا میں اس کا مقام اور اس سے تعلّقِ خاطر ، بلاشبہہ یہ احسان شناسی ہے اور ساری عمر ’’مرہون منت‘‘ رہنے کا عنوان بھی۔یہ میاں طفیل محمدؒ کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو ہے جو انسانی قدروں اور اخلاقیات کے ہر تقاضے کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔

میاں طفیل محمدؒ اپنی سوچ اور فکر کے اعتبارسے پختہ راے کے حامل کہے جا سکتے ہیں۔ راے قائم کرنے میں جس بصیرت و بصارت اور فراست کی ضرورت ہوتی ہے، میاں صاحب ان تمام حوالوں سے آراستہ و پیراستہ تھے،اور کبھی کبھی سخت گیری کی حد تک بھی اپنی راے پر عمل درآمدکے لیے کوشاں نظر آتے تھے۔تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ اپنی راے کو پیش کرنے اور کسی مجلس سے اس کی ہم نوائی حاصل کرنے میں جس ملکہ اورجن خصوصیات کی ضرورت پڑتی ہے،بظاہر      میاں صاحبؒ کی شخصیت میں ان کی کمی محسوس ہوتی تھی،اور وجہ یہ ہے کہ وہ معروف معنوں میں زبان آور یا چرب زبان نہیں تھے،اکل کھرے آدمی تھے۔ کم لوگ اس بات کو پوری طرح جانتے ہوں گے کہ میاں صاحب ؒ کی تحریر میں جو جامعیت اور شستگی تھی، ان کی زبان و بیان ہرگز اس کا پاسنگ نہ تھے۔ ان کی تحریر میں بلاغت ،سلاست اور جامعیت ، سبھی کچھ پایا جاتاہے۔ تقریریا گفتگو میں ان کا لہجہ کچھ اورتھا۔ ان کی تحریر میںبعض دفعہ تو سید مودودیؒ کا رنگ جھلکتا نظر آتا تھا۔ جن لوگوں نے میاں صاحب کی دست نوشت تحریر دیکھی ہے، وہ گواہی دیں گے کہ اس میں بھی سیدمودودیؒ کے ساتھ مشابہت موجود تھی۔ اگر میاں صاحب لکھنا شروع کردیتے تو بلاشبہہ آسانی سے مصنّفین کی صف میں شامل ہو سکتے تھے مگر پھر جماعتی ذمہ داریاں کیسے پوری ہوتیں۔

اس میدان میں میاں صاحب کی شخصیت اپنے مقصد زندگی کے علاوہ باقی معاملات سے بے نیاز نظر آتی ہے۔ ابتدا ہی سے جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریوں، رپورٹوں، ان پر تبصروں اور معاملات و تنازعات کو نمٹانے میں اس حد تک ڈوب کر اپنے آپ کو پانے کا عمل جاری رہا کہ سرکھجانے کی فرصت میسر نہ آتی تھی، اس پر مستزاد تنظیمی دوروں، کارکنوں کی خبرگیری، ان کے دکھ درد سے آشنا ہونے اور ان کی سیرت و کردار کے ہر جھول کو دور کرنے میں میاں صاحب ؒاس قدر مصروف رہے کہ قلم و قرطاس کے ذریعے اپنی تحریر کاذوق لوگوں میں پیدا نہ کرسکے۔ جماعت اسلامی کی رودادوں میں اوربعض دیگرمقامات اور عنوانات کے حوالے سے ان کی بعض تحریریں یا تقریریں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ان کے ذہنِ رسا کی گواہی دیتی ہیں۔ دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات میں ان کا مضمون اس کے باوجود کہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولاناامین احسن اصلاحیؒ کے مضامین کے ساتھ طبع ہواہے ،اپنی انفرادیت منواتا ہے اور ہر پڑھنے والے سے داد وصول کرتا ہے۔

مجھے ان کی کتابِ زیست کے اَن گنت اوراق اپنے سامنے کھلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی مربوط کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جیسے میاں صاحب ؒ نے نماز کو اپنی زندگی کا امام قرار دیاہواتھا۔انھیں نماز پڑھتا دیکھ کرپتا چلتا تھا کہ خاصانِ خدا کی نمازکیسی ہوتی ہے۔ ان کی کتابِ زندگی کی ورق گردانی کریں تو یہ بات واضح ہوجا ئے گی کہ ان کی زندگی کا محور نماز ہے اور نماز کے پرتوسے ان کی زندگی جگمگااٹھی ہے۔جس اہتمام و تیاری سے اور جس درجہ ڈوب کر انھیں ہمیشہ نماز پڑھتے دیکھا گیااورنماز کو باجماعت پڑھنے کی حرص کو ہمیشہ بیدار پایا گیا، ان کا یہ عمل دیکھنے والے کو مجسمۂ حیرت بنا دیتا تھا۔ میاں صاحب اپنی ذات میں اول و آخر جماعت تھے۔ نماز میں بھی باجماعت نماز کے حریص تھے۔ اور خشوع و خضوع ایسا کہ ادھر میاں صاحب نے اُٹھ کر نیت باندھی اور ادھر ان کا رابطہ دنیا سے منقطع ہوگیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی دوسری ہی دنیا میں پہنچے ہوئے ہیں۔ اس قدر ڈوب کر نمازپڑھتے تھے کہ خشوع وخضوع گویا ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ میاں صاحب کو اس عالم میں دیکھ کر کارکنوں کی نمازوں میں بھی نکھار پیدا ہوتاتھا۔ اس طرح کی نماز اپنے رب سے بندے کابراہ راست رابطہ قائم کروا دیتی ہے۔ یہ چیز حاصل ہوگئی تو دونوں جہانوں کی دولت نصیب ہوگئی۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں بینائی سے محرومی کی وجہ سے خود مسجد میں نہیں آسکتے تھے۔ ان کے بیٹے اور بعض اوقات پوتے ان کو مسجد میں لاتے تھے۔ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ میاں صاحبؒ ان کی اس خدمت پر اتنا شکریہ ادا کرتے تھے کہ یہ لوگ شرمندہ ہوجاتے۔ میاں صاحبؒ اس حوالے سے انفرادیت کے حامل تھے کہ جب نماز کے لیے آتے تو جہاں جگہ ملتی، وہیں نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ کبھی کبھی پچھلی صف میں کھڑے ہوئے، کسی کی نظر پڑ گئی تو اس نے پہلی صف میں جگہ پیش کی تو بڑی مشکل سے اس طرح کی پیش کش قبول فرماتے۔ میاں صاحب ؒ کی خوش قسمتی کا کیا ٹھکانہ کہ انھوں نے اپنی زندگی کی آخری نماز بھی باجماعت ادا کی اور اس روز سب ملنے والوں سے بڑی بشاشت سے ملے اور سب کو دعائیں دیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنی زندگی کے آخری رمضان کی تراویح مسجد میں آکر پڑھیں اورپوراقرآن کھڑے ہوکر سنا۔ ان کی زندگی سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ نماز سے اس میں نکھار پیدا کیا جائے اور پھر نکھری سنوری زندگی سے نماز کو’ کل سے بہترآج اور آج سے بہتر ہوکل‘ کا عنوان دیا جائے۔

میاں طفیل محمد ؒ نے ایک لمبی عمر پائی اور لمبی عمر کی جتنی آزمائشیں ہوتی ہیں، ان سب سے وہ دوچار رہے۔بینائی کا ختم ہوجانا، سماعت کا حددرجہ متأثر ہونا، جسم وجان کی توانائیوں کا انحطاط و اضمحلال وغیرہ،لیکن ان حوالوں میں سے کوئی حوالہ ان کے لب ولہجے میں تندی و ترشی پیدا نہ کرسکااور گلے شکوے کا کوئی پیرایہ ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکا۔ میاں صاحبؒ ہمیشہ رضا بہ قضا   نظر آئے، صبر وتحمل کا کوہِ گراں دیکھے گئے اور کسی سطح پر بھی احتجاج اور آزار کا پہلو دیکھنے میں نہ آیا۔  کم و بیش ۹۶ سال عمرپانے والا ایک شخص زندگی کے آخری لمحے تک صبر ورضاکا پیکر رہے تو اسے کیا نام دیا جائے اور شخصیت کے اس دریا کو کس کوزے میں بند کیا جائے۔ انسانی سطح پر یہ کردار اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات پر گہرا ایمان رکھنے ، اس کے ہر فیصلے پر راضی رہنے اور اسی سے خیر وصلے کی بھرپور توقع رکھنے والے کا ہی ہوسکتاہے۔

جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد بھی تقریباً ۲۲ سال تک میاں صاحب ؒ جماعت میں رکنیت کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔مجھے یاد ہے کہ جب ۱۹۹۳ء میں پالیسی مسائل پر اختلافات ابھرے تو کئی اہم اور پرانے ذمہ دار حضرات الگ جماعت بنانے کے لیے کوشاں نظر آئے اور سب کو یہ بات واضح طور پر معلوم تھی کہ اس خلفشار میں میاں صاحبؒ کی شخصیت فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے، اختلافِ راے اور اظہارِ راے میں وہ پیش پیش بھی تھے لیکن ایک ایسی مجلس میں جس میں بالآخر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ ہوناتھا، میاں صاحب محترم نے یہ کہہ کربہت سوںکو ورطۂ حیرت اور بعض کو سکتے میں ڈال دیاکہ ’’ہم الگ جماعت کیوں بنائیں، ہماری جماعت تو جماعت اسلامی ہے، اگر اس میں خرابیاں ہیں تو ہم انھیں دُور کریں گے، اگر یہ اپنی منزل سے ہٹ رہی ہے تو اصلاح کریں گے‘‘۔ مزیدارشاد فرمایا: ’’اب سے پہلے جو لوگ جماعت سے الگ ہوئے اور ان میں سے بعض نے نئی جماعت بنانے کی کوشش کی، ان سب کی کارکردگی اور انجام کس سے مخفی ہے، لہٰذا ہم اندھیرے میں تیر چلانے کے بجاے جو کچھ نظروں کے سامنے ہے،اس کی کمزوری کو رفع کریں گے اور پوری جماعت کو صحیح رخ پر استوار کریں گے‘‘۔

میاں صاحب کے اس عزم نے اَن گنت لوگوں کو اپنی راے پرنظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔اس کے بعد ۱۶ سال تک میاں صاحبؒ جماعت میں رہے، خود بھی یکسوئی اور انشراح صدر کا پیکر بنے رہے اور جماعت کے ذمہ داران کو بھی تمام امور میں مشورہ دیتے رہے اور ان کے کیے کی تحسین کرتے رہے۔شفقت اور سرپرستی کا مظاہرہ بھی جاری رہا اور کہنے سننے کے دروبست بھی  کھلے رہے۔غرض میاں طفیل محمدؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،اپنی سوچ اور فکر میںتحریک اور انقلاب تھے اور اپنے عمل اور جستجو میں بامقصد اور باعمل تھے۔ ایک پورا دفتر ان کی زندگی کے  مختلف گوشوں کو بیان کرنے کے لیے کھولا جاسکتاہے۔ انفرادی سطح پرخوشہ چینی اور ان سے سیکھنے کے اَن گنت حوالے موجود ہیں۔ اور یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ  ع

بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا