پاکستان میں نفاذِ شریعت کے امکانات کیا ہیں؟ ....[اس] سوال کے دو جواب ہیں:
ایک جواب یہ ہے کہ انسان پیہم اور مسلسل سعی کرے اور سوچ سمجھ کر سعی کرے، بیوقوفوں کی طرح نہیں، سوچ کر عقل مندی کے ساتھ، تو وہ بڑے سے بڑے پہاڑوں کے اندر سرنگ پیدا کرسکتا ہے۔ وہ سمندروں کے نیچے سے سرنگ نکال سکتا ہے، سمندروں کے اندر سے تیل نکال سکتا ہے، وہ چاند کے اُوپر پہنچ سکتا ہے۔ جب انسان یہ کچھ کرسکتا ہے تو انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم طاقتیں دی ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا تو اس کو بھی نافذ کرسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے جان لڑانی ہے، محنت کرنی ہے، عقل مندی کے ساتھ کام کرنا ہے اور مسلسل جان کھپانی ہے، اور اس کام کو وہ لوگ کرسکتے ہیں جو یہ شرط نہ لگائیں کہ ہم اس کو اپنے سامنے نافذ ہوتے دیکھیں، اس لیے کہ نہ معلوم کتنوں کو اس کے نفاذ کی کوشش میں پہلے ہی جان دینی پڑے۔ بدر میں جن لوگوں نے شہادت پائی، اگر وہ جان نہ دیتے اور یہ کہتے کہ ہمیں تو اس وقت کے لیے زندہ رہنا ہے جب اس نظام کو نافذ ہوتے دیکھیں گے، دنیا پر غالب ہوتے دیکھیں گے تو دنیا پر اسلام غالب نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ غالب ہوا اس طرح کہ بکثرت لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ انھوں نے اس بات کی فکر نہیں کی کہ یہ نافذ ہوسکے گا یا نہیں۔ انھوں نے یہ دیکھا کہ یہ ہمارا فرض ہے، ہمیں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنی ہے، جس کے نتیجے میں شہادت آتی ہے تو اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں۔ اس نظریے کے ساتھ، اس سوچ کے ساتھ وہ آئے اور انھوں نے آکر کام کیا اور ان کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ پہلے ہی قبول کرنے والا تھا، وہ قبول ہوگئیں، لیکن جو جان لڑانے والے تھے اور بچ رہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ ایسا دین غالب کیا کہ دنیا کے بڑے حصے پر چھا گیا، تو امکان یہ بھی ہے۔
اس امر کا بھی امکان ہے کہ آپ تمام عمر جدوجہد کریں اور پھر یہ نظام نافذ نہ ہو، اور اس کی وجہ اس نظام کی کمزوری نہیں ہوگی، اگر آپ اس نظام کے لیے سعی کرنے کا حق ادا کریں تو آپ کی بھی کمزوری نہیں ہوگی، وہ [اُس] قوم کی بدبختی ہوگی جو ایسے لوگوں کا ساتھ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو وہ چیز نہیں دیتا جس کا وہ اپنے آپ کو اہل ثابت نہیں کرتی۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ قوم اپنے آپ کو فساق وفجار کے لیے تیار کرے اور اس پر راضی ہوجائے اور چاہے کہ فساق و فجار ہی ان کے اُوپر معاملات چلانے والے ہوں، تو اللہ تعالیٰ ان کو صالحین اور متقی نہیں دیں گے۔ یہ نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جنھوں نے ایسی قوموں میں کام کیا اور اپنی عمریں ان کے اندر کھپا دیں اور ان کی قوم سیدھے راستے پر نہ آئی تو وہ ناکام نہیں تھے۔ وہ قوم ناکام تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام کے قصے میں آتا ہے کہ جس وقت فرشتے قومِ لوط پر عذاب دینے کے لیے بھیجے گئے تو انھوں نے کہا: فَمَا وَجَدْنَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ___ پوری قوم میں ایک مسلم گھر تھا۔ اس کے لوگوں سے کہا، نکل جائو اور حضرت لوط علیہ السلام سے کہا کہ بیوی کو چھوڑ جائو۔ یہ عذاب میں پکڑی جائے گی، یعنی اس گھر میں بھی کافرہ موجود تھی اور وہ بھی پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ ان کو چھوڑ دیا گیا اور اس کے بعد جو عذاب لایا گیا وہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں واضح ہے، تو ایک قوم نہ چاہتی ہو کہ ان کے اُوپر اسلامی نظام نافذ ہو، ایک قوم اگر نہ چاہتی ہو کہ اس کے معاملات ایمان دار اور خدا ترس لوگ چلائیں، ایک قوم خود بددیانت اور بے ایمان کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو زبردستی نیک لوگ نہیں دیتا۔ ان نیک لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے۔ وہ ناکام نہیں ہیں۔ اگر ان کی بات نہ چلے تو وہ ناکام نہیں ہیں، ناکام وہ قوم ہے۔
اس پہلو کو نگاہ میں رکھ کر کام کیجیے، اور یہ سمجھ کر نہ کیجیے کہ اس کا امکان ہو تو ہم کام کریں۔ یہ سوال جو لوگ کرتے ہیں کہ کیا امکان ہے، تو ان سے میں پوچھتا ہوں کہ بھائی فرض کرو کہ اس کا امکان نہیں ہے تو کیا آپ یہ رائے رکھتے ہیں کہ جس چیز کا امکان ہے اس کے لیے کام کریں۔ یہ تو پھر مومن کا کام نہیں ہے۔
مومن کا کام تو یہ ہے کہ اگر اس کے نافذ ہونے کا ایک فی صد امکان نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار بھی امکان نہ ہو تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے جان دے دینا کامیابی ہے اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم یا صدراعظم بن جانا بھی کامیابی نہیں، کھلی ناکامی ہے۔
اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ امکان کی شرط کے ساتھ آپ کو یہ کام نہیں کرنا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے کہ یہ ہمارے کرنے کا کام ہے اور اس کے سوا ہمارے کرنے کا کوئی کام نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی کے سامنے یہ سوال آئے کہ پیشاب بھی پینے کی چیز ہے تو جو آدمی طہارت کی ذرہ برابر بھی حِس رکھتا ہو تو وہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ یہ بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔ وہ برابر اسی تلاش میں رہے گا کہ اسے پینے کے لیے صاف پانی ملے لیکن کبھی اس کا ذہن اس طرف نہیں جائے گا کہ پیشاب بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔ اسی طرح وہ آدمی جو اسلام کا سچے دل سے قائل ہے وہ یہ سوچ نہیں سکتا کہ دوسرے جن راستوں میں آسانیاں ہیں، جن راستوں میں سہولتیں ہیں، عیش ہے،لذتیں ہیں، فائدے ہیں ان کی طرف جائے کہ ان کا امکان ہے اور اسلام کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے سوچنے کے قابل بھی وہ چیز نہیں۔ وہ کبھی حسرت بھری نگاہ بھی نہیں ڈالے گا ان کے محلات پر، ان کی کوٹھیوں پر، ان چیزوں پر، وہ کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ کاش! یہ دولت میرے پاس آئے۔ اس وجہ سے صرف وہ لوگ اس کام کو کرسکتے ہیں جو ’امکان ہے‘ کو چھوڑ کر یہ دیکھیں کہ ہمارا فرض کیا ہے۔ اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہرتکلیف، ہر مصیبت اور ہر مشکل برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی ان کے کرنے کا کام ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کردیے اور انھوں نے پوری ہمت کے ساتھ اس کے لیے کام کیا تو میں یہ نہیں سمجھتا کہ کون سی طاقت یہاں ایسی ہے جو انھیں آگے بڑھنے سے روک سکے۔ اللہ نے چاہا تو اس میں کامیابی ہی ہوگی۔
میں نے دوسرا پہلو آپ کے سامنے پیش کیا وہ اس لیے کہ کامیابی کی شرط کے ساتھ آپ کام نہ کریں۔ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس ملک کے اندر ایک مٹھی بھر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہو جو پوری تنظیم کے ساتھ، پورے ڈسپلن کے ساتھ، عقل و ہوش کے ساتھ اور دیوانگی کے ساتھ، دونوں چیزیں ساتھ چاہییں، یہ کام کریں، اس میں جان لڑائیں اور مسلسل جان لڑاتے جائیں اور ہرتکلیف اور خطرے کو انگیز کرنے کے لیے تیار ہوں، تو وہ لوگ جو اس وقت ایک غیراسلامی نظام کو چلاتے ہیں وہ ایسی طاقت نہیں رکھتے کہ ان کے سامنے ٹھیرسکیں۔
واقعہ یہ ہے کہ آپ اس بات کو دیکھیے کہ جو لوگ اس نظام کو چلا رہے ہیں ان کی حالت کیا ہے۔ ان میں سے کوئی دو آدمی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہیں۔ ان کی دوستیاں بے غرضی پر مبنی نہیں، بے لوثی پر مبنی نہیں،قلبی محبت پر نہیں مفاد پر مبنی ہیں، جس کے ساتھ ہیں اس کا ساتھ بھی دے رہے ہیں اور دل میں گالیاں بھی دے رہے ہیں، بلکہ وہ اپنی پرائیویٹ مجلسوں میں جب دیکھتے ہیں کہ بات نہیں پہنچے گی تو وہ ان مجلسوں میں بھی کھلم کھلا کہتے ہیں۔ باطل نظام بظاہر بڑے زور کے ساتھ نافذ ہوتا ہے لیکن اصل میں کھوکھلا ہوتا ہے ٹھوس نہیں ہوتا۔ اس میں قائم رہنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے تو ایسے لوگوں کو موقع ملتا ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عقل مندی کرکے وہ تمام راستے بند کردیے ہیں جن سے خطرہ آسکتا ہے، لیکن ایک راستہ اللہ تعالیٰ نے ایسا رکھ چھوڑا ہے جدھر سے اس کو خطرہ لانا ہوتا ہے، وہ اس راستے کو بند نہیں کرسکتے۔ اس طرح سے ایسے نظام قائم ہوتے ہیں، وہ بار بار جمتے اور اکھڑتے ہیں۔ اور لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ایسا گروہ آئے جو ایک مضبوط بنیاد پر ان کے لیے ایک نظامِ حق قائم کرے۔ جب تک ایسا گروہ سامنے نہیں آئے گا اور اس مرحلے تک نہیں پہنچ جائے گا کہ وہ نظامِ حق کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرسکے، اس وقت تک یہاں کھوکھلے نظام قائم ہوتے اور بدلتے رہیں گے۔ آدمی بدلیں گے وہ کھوکھلا نظام جوں کا توں رہے گا۔ صرف اشخاص بدلتے چلے جائیں گے۔
آپ دیکھیے یہاں جو نظام [برسوں] سے چلا آرہا ہے اس میں صرف اشخاص بدلتے گئے، قسم ایک ہی رہی ہے، نظام کی نوعیت ایک ہی رہی ہے، اس کی فطرت ایک ہی رہی ہے۔ یہی صورت حال جاری رہے گی اس انتظار میں کہ کب وہ لوگ آتے ہیں۔ اگر وہ لوگ نہ آئے تو نہیں معلوم اس قوم کا کیا حشر ہوگا کہ یہ مسلسل انقلابات کو برداشت بھی کرسکے گی یا نہیں، اور یہ مسلسل انقلابات کے لیے زندہ بھی رہ سکے گی۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قوم کو کوئی بھی چیز بچاسکتی ہے تو یہی نظامِ حق ہے، وہ یہاں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو۔ قبل اس کے کہ خدا کا عذاب فیصلہ کردے کہ اس قوم کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ (جمعیت اتحاد العلما کے زیراہتمام راولپنڈی میں منعقدہ نفاذِ شریعت کانفرنس سے خطاب۔ ہفت روزہ ایشیا ،۱۴ مارچ ۱۹۷۶ء)