ہماری نگاہ میں جس طرح ایسے قیمتی فانوس اور ایسے سنہرے شمع دان کا وجود و عدم برابر ہے جو کسی مزار کے سرہانے بے مصرف شعاعیں بکھیر رہا ہو اور آس پاس کے بیاباں میں انسانی قافلے بھٹک بھٹک کر اور ٹھوکریں کھا کھا کر رہزنوں کا شکار ہو رہے ہوں، بالکل اسی طرح وہ ایمان و تقویٰ قلب و ذہن کے لیے محض ایک سامانِ زیست ہے جو سیاست و تمدن کے ماحول کو روشن کرنے کے لیے میدان میں آنے کے بجاے مسجد کی چار دیواری میں مخالف طاقتوں کے خوف کی وجہ سے پناہ لیے پڑا رہتا ہے۔ ان جسموں کی صحت مندی کس کام کی جو لوگوں کو موت کا شکار ہوتے چھوڑ کر کسی کمین گاہ میں پڑے اپنی قوتوں کی تعمیر___ محض براے تعمیر___ کرتے ہیں۔ اخلاق کا وہ سرمایہ جسے ہمیشہ نقصان کے اندیشے کے پیش نظر تجوریوں میں مقفل رکھا جائے اور جو ہمیشہ غیرپیداآور (unproductive) رہے، اجتماعی زندگی کے لیے اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ایک مسلم فرد اور مسلم جماعت کے پاس اگر کچھ بھی سرمایۂ ایمان و اخلاق ہو تو اسے زندگی کی مارکیٹ میں گردش کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ پھر اگر صاحب ِ سرمایہ میں صلاحیت ہوگی تو اس کی پونجی منافع لے کے لوٹے گی اور اگر وہ نااہل ہو تو پھر منافع کیسا، اصل پونجی بھی ٹوٹے گی۔ لیکن پونجی کا مصرف ہے یہی کہ وہ مارکیٹ میں گردش کرتی رہے، ورنہ چاہے اس کی مقدار کتنی ہی بڑی ہو، وہ قطعاً کالعدم ہے۔(’اشارات‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۳، عدد۵، ذیقعد ۱۳۶۸ھ، اکتوبر ۱۹۴۹ء، ص ۴)