کہتے ہیں کہ ’’سکتے کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں۔ اگر آئینے پر کچھ دھندلاہٹ پیدا ہو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمھیں امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے مہینے میں دیکھو۔ اگر اس مہینے میں اس کے اندر کچھ تقویٰ، کچھ خوفِ خدا، کچھ نیکی کے اُبھار کا جذبہ نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے، اور اگر اس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو، فسق و فجور کے آثار نمایاں ہوں اور اسلامی حِس مُردہ نظر آئے، تو انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھ لو۔ اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس مسلمان کے لیے مقرر نہیں ہے‘‘۔ (سید مودودیؒ، کتاب الصوم)
اگر اس پیمانے سے ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو الحمدللہ ایسی مایوس کن صورت حال نہیں ہے۔ رمضان کے آتے ہی تقویٰ، خوفِ خدا اور نیکی کے لیے ایک نیا جذبہ اور ولولہ سامنے آتا ہے۔ ہرشخص کچھ نہ کچھ نیکی کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ مساجد میں رونق ہوجاتی ہے، تلاوتِ قرآن کا اہتمام ہوتا ہے، اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبے کے تحت اِنفاق اور حاجت مندوں کی امداد کی جاتی ہے۔ اجتماعی طور پر نیکی کا ماحول ہوتا ہے۔ نیکیوں کے لیے موسمِ بہار کا سا سماں ہوتا ہے۔ گویا اس حوالے سے ہمارا معاشرہ ایک زندہ معاشرہ ہے۔ کم و بیش پورے ماہِ صیام میں یہ سلسلہ چلتا ہے بلکہ آخری عشرے میں اعتکاف کا خصوصی اہتمام خصوصاً شب قدر کے موقع پر عبادت، نوافل کی ادایگی اور شب بیداری کے لیے لوگوں کا جذبہ دیدنی اور ایمان پرورہوتا ہے۔
دوسری طرف رمضان کے گزرتے ہی بلکہ چاند رات ہی کو یہ صورتِ حال بدلتی محسوس ہوتی ہے۔ جذبۂ ایمان سرد پڑنے لگتا ہے۔ روزے کی وجہ سے لوگ جن غلط کاریوں سے رُکے ہوتے ہیں ان کا پھر سے ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔ نماز کی ادایگی میں کمی آجاتی ہے اور مسجدوں کی رونق ماند پڑنے لگتی ہے۔ قرآن کی تلاوت اور قرآن سے وہ تعلق نہیں رہتا جو اس ماہ میں لوگوں کا معمول بن جاتا ہے۔ عبادت کے ذوق و شوق میں کمی آجاتی ہے۔ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی وہ تمیز گھٹنی شروع ہوجاتی ہے جس کا رمضان کے تقدس اور احترام میں اہتمام کیا جاتا ہے۔ گویا رمضان میں اگر قید یا پابندی تھی تو رمضان کے بعد ایک طرح سے پھر بے قیدی ہوجاتی ہے۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟
اگر غور کیا جائے تو اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ پہلا سبب تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں عبادت کا رسمی تصور پایا جاتا ہے، حقیقی شعور نہیں۔ لوگوں کے نزدیک نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی ادایگی اور کچھ نیک کام کر دینے کا نام عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان عبادات کا پوری طرح اہتمام کرتے ہیں۔ گویا ان کے لیے چند افعال کی ظاہری شکلوں کی ادایگی کا نام عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ رمضان میں روزے کے آداب اور دیگر عبادات کا بہت اہتمام کرتے ہیں لیکن رمضان کے گزرتے ہی ان کے معمولات میں فرق آجاتا ہے۔ گویا عبادت کا ایک مہینہ تھا، گزر گیا۔
عبادت دراصل ہر وقت اور ہر حال میں خدا کی بندگی اور اطاعت کا نام ہے۔ درحقیقت نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کے ذریعے پوری زندگی میں خدا کی بندگی اور اطاعت کی مشق کروائی جاتی ہے۔ نماز دن میں پانچ مرتبہ یہ یاد دلاتی ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں، ہمیں اسی کی بندگی اور اطاعت کرنی ہے۔ روزہ سال میں ایک مرتبہ مہینہ بھر خداخوفی اور خدا کی اطاعت کی مشق کرواتا ہے۔ ہم اس کے حکم پر کھانا پینا چھوڑتے ہیں اور اسی کے حکم ہی پر کھاتے پیتے اور دیگر خواہشات کی تسکین کرتے ہیں۔زکوٰۃ کی ادایگی سے ہمیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہمارا مال خدا کا عطیہ ہے اور ہمیں اسے خدا کی مرضی کے مطابق خرچ کرنا ہے اور اس میں ہمارے غریب بھائیوں کا حق بھی ہے۔ حج کے ذریعے خدا کی محبت اور اس کی بندگی کا گہرا نقش بٹھایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ تمام عبادتیں انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرتی ہیں جو کہ حقیقی عبادت ہے، یعنی زندگی کے ہرمعاملے میں خدا کی اطاعت اور بندگی۔
اسلام میں عبادت کی اہمیت اس قدر ہے کہ اسے مسلمان کا مقصد ِزندگی قرار دیا گیا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo(الذاریات ۵۱:۵۶) میں نے جِن اور انسان کو اس کے سوا کسی اور غرض کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
اگر ایک مسلمان اپنے مقصدِ زندگی ہی کو نہ پاسکے تو یہ کتنی بڑی ناکامی اور خسارہ ہے۔ لہٰذا عبادت کے حقیقی شعور کا اُجاگر ہونا ناگزیر ہے۔ مسلمانوں میں جب عبادت کی حقیقی روح بیدار ہوگی تو پھر رمضان کے بعد بھی وہ خدا کی عبادت میں مصروف رہیں گے بلکہ رمضان جیسے بابرکت مہینے کی مشق ان میںتقویٰ اور پرہیزگاری میں اضافے کا باعث ہوگی۔
رمضان کے بعد عبادات میں کمی کا ایک دوسرا بنیادی سبب اجتماعی ماحول اور اجتماعیت کی کمی ہے۔ ماہِ رمضان میں پورے ماحول پر نیکی کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ نیکی کرنا آسان اور برائی کا ارتکاب مشکل ہوتا ہے۔ رمضان کے رخصت ہوتے ہی ماحول میں بڑی حد تک تبدیلی آجاتی ہے اور نیکی کرنا مقابلتاً مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیکی کا جذبہ سرد پڑنے لگتا ہے اور عبادات میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی طرف ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کو توجہ دلائی تھی کہ اب تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ روز مرہ زندگی میں، جب کہ ماحول بھی سازگار نہ ہو خدا کی مکمل اطاعت کرنا کوئی آسان کام نہیں اور اسی لیے آپؐ نے اسے جہادِ اکبر سے تعبیر فرمایا ہے۔
رمضان کے بعد نیکی کے لیے جذبے کو تروتازہ رکھنا ایک مسلمان کے لیے بڑا چیلنج ہے، جب کہ ماحول سازگار نہ ہو اور اس میں تبدیلی بھی آچکی ہو۔ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے اور اس کے مقابلے کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے۔ نبی کریمؐ نے مختلف مواقع پر اجتماعیت کی اسی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ بھیڑیا اُسی بھیڑ کو کھاتا ہے جو اپنے ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے۔ کہیں آپؐ نے فرمایا کہ جماعت پر خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ اسی طرح آپؐ نے اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے پر بہت زور دیا ہے۔ لہٰذا رمضان کے بعد نیکی اور پرہیزگاری کے عمل کے تسلسل کے لیے اجتماعیت سے جڑنا اور صحبت ِ صالح اختیار کرنا جہاں ضروری ہے وہاں نیکی کے جذبے کے ماند پڑجانے کا علاج بھی ہے۔ سورئہ کہف میں اجتماعیت اور صحبت ِ صالح کی اسی اہمیت پر زور دیا گیا ہے بالخصوص جب نیکی کے لیے ماحول سازگار نہ ہو، جیساکہ آج ہمارا معاشرہ ہے۔ فرمایا گیا ہے: ’’اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو‘‘ (الکھف ۱۸: ۲۸-۲۹)۔ گویا کہ یہاں واضح طور پر صالح اجتماعیت سے جڑنے کی تاکید کی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ماہِ رمضان کے موقع پر نیکی و پرہیزگاری کا حامل صالح عنصر اُبھر کر سامنے آجاتا ہے اور اپنی زندگی کا ثبوت دیتا ہے۔ منظم اجتماعیت کا تقاضا ہے کہ معاشرے کے اس صالح عنصر کو جو فی الواقع خیر کا علَم بردار اور حق و باطل کی کش مکش میں اہلِ حق کا قیمتی سرمایہ و اثاثہ ہے،ایک منظم قوت میں تبدیل کرلیا جائے۔ رمضان، یعنی نیکیوں کے موسم بہار کے بعد بھی یہ اجتماعیت سے جڑا رہے اور نیکی اور خیر کا عمل ایک تسلسل سے جاری رہے۔ اس کے نتیجے میں رمضان میں بیدار ہونے والے جذبۂ ایمان کو ایک تسلسل سے آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح نیکیوں کے موسمِ بہار کی فصل کے ثمرات سے بھرپور انداز میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
عبادت اور بندگی کے حقیقی شعور کی آبیاری اور صالح اجتماعیت سے جڑے رہنے کی ایک صورت قرآن مجید سے مستقل بنیادوں پر حقیقی تعلق کو قائم کرنا اور اس سے بھرپور استفادہ کرنا ہے۔ اس کی ایک عملی صورت گلی محلے کی سطح پر درسِ قرآن کے حلقے قائم کرنا ہے۔ حلقۂ درس کے قیام کے نتیجے میں ایک طرف قرآن کی تعلیمات اور خدا کی بندگی و اطاعت کا شعور عام ہوگا اور قرآن سے مستقل بنیادوں پر تعلق قائم ہوگا، تو دوسری طرف نیکی کے جذبے سے سرشار اہلِ ایمان کے لیے صالح اجتماعیت کی بنیاد فراہم ہوسکے گی۔ قرآن کے اجتماعی مطالعے کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ جہاں کہیں اچھا مدرس دستیاب ہو وہاں باقاعدہ درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جاسکتا ہے اور جہاں ایسا انتظام نہ ہوسکے وہاں تفہیم القرآن کا اجتماعی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ آج کل فہم قرآن کے حوالے سے بہت سی آڈیو وڈیو سی ڈیز بھی دستیاب ہیں جنھیں اہتمام سے سنا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی لٹریچر کی فراہمی کے ذریعے دینی شعور کو مزید پختہ کیا جاسکتا ہے۔
رمضان کے موقع پر خواتین میں بھی افطارو سحر کے اہتمام کے ساتھ ساتھ نماز، تلاوتِ قرآن، تراویح اور نوافل کی ادایگی اور انفاق کا جذبہ فزوں تر ہوتا ہے۔ رمضان کے بعد خواتین میں بھی اس جذبے کو ایک تسلسل سے آگے بڑھنا چاہیے۔ فہم دین اور اجتماعیت سے وابستہ رہنے کے لیے خواتین کی سطح پر بھی اسی نوعیت کا حلقۂ درسِ قرآن قائم کیا جاسکتا ہے۔ آس پاس کی خواتین کسی مرکزی جگہ پر جمع ہوکر باقاعدگی سے اس حلقے کو چلا سکتی ہیں۔ ایک دوسرے کو دعوت دینے اور توجہ دلانے سے یہ ایک مفید سرگرمی ثابت ہوسکتی ہے۔ مرد حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ خواتین کی حوصلہ افزائی کریں اور انھیں سہولت دیں کہ وہ بہ آسانی اس میں حصہ لے سکیں۔ یوں خواتین کی سطح پر بھی دعوت و تربیت کا ایک مستقل نظام وضع ہوسکتا ہے۔
رمضان المبارک درحقیقت تقویٰ، خوفِ خدا اور خدا کی اطاعت و بندگی کا احساس بھرپور انداز میں اُجاگر کرتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ آنکھ کا بھی روزہ ہوتا ہے اور زبان کا بھی، کان کا بھی روزہ ہوتا ہے اور ہاتھ پائوں کا بھی۔ گویا خدا کی مکمل اطاعت کا نام روزہ ہے۔ رمضان کے بعد اس احساس کو ہمیشہ تازہ رکھیں کہ ہمیں عمربھر خدا کی اطاعت کرنی ہے۔ یہی رمضان کا پیغام ہے۔ نمازوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ روزانہ چند آیات کی تلاوت اور ترجمہ پڑھیے تاکہ قرآن سے تعلق قائم رہے۔ کچھ نہ کچھ انفاق کا سلسلہ بھی جاری رکھیے کہ رمضان ہمدردی و مواخات کا مہینہ ہے۔ تزکیۂ نفس کے لیے دعوتِ دین سے جڑے رہیے۔ حلقۂ احباب میں دعوت کا کام کیجیے۔ اس کی عملی صورت درسِ قرآن میں باقاعدہ شرکت اور دوسروں کو اس کی دعوت دینا ہے، نیز دعوتی لٹریچر پھیلایئے۔ رمضان کے بعد بھی نفلی روزوں کا اہتمام کریں۔ نبی کریمؐ کا معمول تھا کہ آپؐ ہر ماہ تین دن کے روزے رکھتے تھے۔ رمضان کی انفرادیت قیامِ لیل ہے۔ رمضان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے۔ نمازِ فجر سے کچھ قبل اُٹھ کر تہجد کا اہتمام کیجیے۔ یہ جہاں تزکیۂ نفس کا اہم ذریعہ ہے وہاں رات کے آخری پہر میں اپنے رب سے مناجات اور اس کے قرب کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ اس طرح رمضان کے بعد بھی ایک طرح سے رمضان کا تسلسل جاری رہے گا۔
اگر اللہ کی بندگی و عبادت کا شعور عام ہو اور قرآن سے حقیقی تعلق قائم ہوجائے، اور افراد قرآن کی بنیاد پر اجتماعیت سے جڑے رہیں تو امید ہے کہ رمضان کے بعد جذبۂ ایمان سرد نہ پڑے گا بلکہ رمضان کی برکات اور ثمرات سے بھرپور انداز میں استفادہ کیا جاسکے گا، نیز اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اسلامی انقلاب کی منزل کی طرف بھی ایک تسلسل سے پیش رفت ہوسکے گی۔