گذشتہ سالوں کی نسبت اس برس رمضان المبارک میں حرمین شریفین حاضری دینے والوں کی تعداد قدرے کم تھی۔ کچھ نہ کچھ عمل دخل اقتصادی بحران اور مہنگائی کا بھی تھا، لیکن زیادہ اہم وجہ سوائن فلو (H1M1) کی وبا تھی۔ اگرچہ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے لاکھوں لوگوں کی موجودگی کے باوجود، الحمدللہ اس وبا کے شکار افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن بدقسمتی سے بعض ممالک میں اس وبا کو ایک ایسا ہوّا بنا دیا گیا کہ آنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ رمضان المبارک میں عمرہ کرنے والوں اور زائرین کی تعداد میں گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی تجزیہ نگاروں کی نگاہ میں حج وعمرہ کی طرف لوگوں کی بڑھتی ہوئی یہ رغبت بھی دنیا میں دینی رجحان اور اسلامی بیداری میں اضافے کا ایک مظہروپیمانہ ہے۔ صرف حج و عمرہ ہی نہیں رمضان المبارک میں اعتکاف، دروسِ قرآن، ختم قرآن اور تراویح کے علاوہ آخری عشرے میں قیام اللیل کا مزید اہتمام بھی، اسی دینی روح میں اضافے کی علامت و دلیل ہے۔
بیت اللہ کے گرد دیوانہ وار طواف کرتے ان پروانوں کا ہجوم اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ حاضری کی تڑپ دل میں سجائے ان زائرین کو دیکھ کر اہلِ ایمان کے دل ہمیشہ مسرت سے جھوم اُٹھتے ہیں۔ سب سے زیادہ طمانیت اس امر کی ہوتی ہے کہ ہم ایک ہمہ گیر اُمت ہیں۔ دنیا کا کوئی کونہ، کوئی رنگ،کوئی نسل، کوئی زبان، کوئی قوم ایسی نہیں جو ہمارے جسد کا حصہ نہ ہو۔ ہم سب ایک ہی رب، ایک ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ایک ہی قرآن کے ماننے والے ہیں۔ رب کے دربار میں پہنچ کر ہر غنی و فقیر، ہر شاہ و گدا، ہر حاکم و محکوم، سب ایک ہی سفید لباس پہننے کے پابند ہیں۔ سب کی زبان پر ایک ہی نغمۂ توحید جاری ہوجاتا ہے۔ عالم و اُمّی ، عابد و عاصی سب اسی سے معافی اور اسی سے عافیت کی التجا کرتے ہیں۔
صوبہ صعدہ میں اب حُوثی قبیلے کے افراد سے ایک بڑی جنگ لڑی جارہی ہے۔ اگرچہ اس جنگ کی بنیاد مذہبی اختلاف نہیں ہے لیکن برسرِپیکار حُوثیین کی اکثریت زیدی ہے جنھوں نے مرکزی حکومت سے بغاوت کا اعلان کر رکھا ہے۔ واضح رہے کہ یمنی صدر خود بھی زیدی ہے۔ اس لڑائی میں اب تک سیکڑوں افراد کے مارے جانے کی اطلاعات آچکی ہیں۔ ہزاروں خاندان ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔ طرفین بھاری اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں۔ یمنی نوجوان جو اَب سعودی عرب کی ایک یونی ورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دے رہا ہے، بتا رہا تھا کہ اس لڑائی کے کئی پہلو ناقابلِ فہم اور کئی انتہائی تشویش ناک ہیں۔ سب سے ناقابلِ فہم بات تو یہ ہے کہ خود حکومت اس لڑائی کو طول دینا چاہتی ہے۔ ۲۰۰۴ء سے جاری اس بغاوت اور جھڑپوں میں کئی مواقع ایسے آئے کہ جب بغاوت کرنے والوں کا مکمل خاتمہ یقینی تھا، لیکن عین موقع پر صدر کی مداخلت کے باعث جنگ کو فیصلہ کن ہونے سے روک دیا گیا۔ دوسری طرف باغیوں کی طرف سے بھی ایک طویل مدتی جنگ لڑنے کے اعلان کیے جا رہے ہیں۔
عین رمضان المبارک کے تیسرے عشرے کے آغاز کے موقع پر صدر علی عبداللہ صالح نے الجزیرہ ٹی وی چینل کو مفصل انٹرویو دیتے ہوئے ایران کا نام لے کر بیرونی مداخلت کا الزام لگایا۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی حکومت تو نہیں، البتہ ایران کی اہم تنظیمات و شخصیات کی طرف سے باغیوں کو مدد دی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ مؤثر ایرانی ادارے اور افراد ہمیں مصالحت کروانے کی پیش کش بھی کررہے ہیں۔ اسی طرح عراق کے معروف شیعہ رہنما مقتدی الصدر بھی پیش کش بھی کررہے ہیں کہ وہ باغیوں اور حکومت میں مصالحت کروانے کے لیے تیار ہیں۔ صدرمملکت نے الزام لگایا کہ اس کا واضح مطلب ہے کہ ان لوگوں کا باغیوں سے رابطہ اور تعلق ہے، وگرنہ وہ کیسے مصالحت کروا سکتے ہیں۔ یمنی صدر کے ان الزامات کے بعد حُوثی باغیوں سے ہی نہیں دو مسلمان ملکوں کے درمیان کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جنگ کی ایک سنگینی اس کا عین سعودی عرب سرحدوں سے قریب ہونا ہے۔ سعودی عرب میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ صدر علی عبداللہ صالح اس لڑائی کے پردے میں سعودی عرب سے بھی کئی پرانے حساب چکانا چاہتا ہے کیونکہ سعودیہ اور یمن کے درمیان سرحدوں کی نشان دہی کے حوالے سے قدیم اختلافات چلے آرہے ہیں۔
اب اس جنگ میں سلفی عناصر کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سعودی سرحد سے قریب برسرِپیکار ایک شیعہ گروہ کا سامنا کرنے کے علاوہ باقاعدہ افواج کے ساتھ سلفی نوجوانوں کی شرکت ضروری ہے۔ بعض اہم سلفی قائدین نے صدر علی عبداللہ صالح کی تائید کا اعلان کرتے ہوئے ’دفاعِ وطن‘ کی خاطر مسلح جدوجہد کا اعلان بھی کیا ہے۔
علاقے میں جنگ کے باعث ایک خدشہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر یمنی مہاجرین کی بڑی تعداد نے سعودی سرحد پار کر کے وہاں پناہ لے لی تو پناہ گزین کیمپ کے مسائل کے علاوہ ، اس صورت حال کو مختلف عالمی اداروں کی طرف سے سعودی عرب میں مداخلت کا بہانہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔
امریکی مداخلت کے بعد سے مسلسل جاری ہلاکتوں کے اس خونیں کھیل میں، عراقی حکومت، پڑوسی ملکوں پر مداخلت کے الزامات لگاتی چلی آرہی ہے۔ حالیہ دھماکوں کے بعد عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے حکومتِ شام پر الزام لگایا ہے کہ وہ دہشت گردی کی پشتیبانی کر رہی ہے۔ سفارت کاروں کو دی گئی دعوت افطار سے خطاب کرتے ہوئے پڑوسی ملک پر الزامات کے اعادے نے شام اور عراق کے درمیان تلخی اور تنائو میں پھر اضافہ کر دیا ہے۔ عراق کے بقول امریکی افواج اور عراقی حکومت کے خلاف ’دہشت گردی‘ کی کارروائیوں میں شامی سرحد سے آنے والے ’انتہاپسند‘ شریک ہیں۔ اختلافات کی اس بڑھتی ہوئی خلیج کو کسی بڑے حادثے سے بچانے کے لیے علاقے کے دیگر ممالک بھی فعال ہورہے ہیں، بالخصوص ترکی کا کردار غیرمعمولی ہے۔ تازہ عراقی الزامات اور شام کی طرف سے جوابات کے بعد ترکی وزیرخارجہ نے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل سے مل کر عراق و شام کے وزراے خارجہ سے مشترکہ مذاکرات کیے ہیں جو فی الحال مثبت بتائے جارہے ہیں۔
حماس کے پُرعزم ذمہ دار نے کہا: فلسطینی قوم بڑی سخت جان اور ارادے کی پکی ہے۔ ۶۰سال سے قتل کی جارہی ہے، دھتکاری جارہی ہے لیکن فلسطینی پہلے سے بھی زیادہ سربلند ہیں۔ پہلے سے بھی زیادہ اٹل ارادے کے مالک ہیں۔
یکم رمضان المبارک کو غزہ کے تمام اسکولوں میں تعلیم دوبارہ شروع ہوگئی۔ تعطیلاتِ گرما میں غزہ کے بچوں کو قرآن کریم سے وابستہ کرنے کا ایک عجیب واقعہ سننے کو آیا۔ اگر بتانے والا معتبر نہ ہوتا تو شاید یقین نہ آتا۔ غزہ میں گرما کی تعطیلات کے دوران بچوں کو قرآن کریم حفظ کروانے کا اہتمام کیا گیا۔ صرف چھٹیوں کے تین ماہ کے دوران ساڑھے تین ہزار بچوں نے مکمل قرآن حفظ کرلیا۔ منتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کے ۱۶ سالہ صاحبزادے عائد نے توصرف ۳۵ روز کے اندر مکمل قرآن سینے میں محفوظ کرلیا، سبحان اللہ! عائد نے غزہ میں قائم ’تاج الوقار‘ کیمپ میں قرآن حفظ کیا۔
حرم میں اُمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اختلافات پر، خود پاکستان میں امریکی مداخلت اور بڑھتی ہوئی امریکی موجودگی پر، پریشانی اور دعائیں جاری تھیں کہ غزہ سے آنے والی اس خبر نے دلِ مضطر کو قرار سا عطا کر دیا۔ نظریں ایک بار پھر سفید احرامات میں کعبۃ اللہ کے گرد دیوانہ وار طواف کرتے فرزندانِ توحید کی جانب اُٹھ گئیں۔ وحدت و مساوات کا منفرد، عجیب اور اُچھوتا منظر… دل سے پھر دعا نکلی: پروردگارِ عالم! کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک!