قرآن کریم اور سیرت پاکؐ کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو ہرہفتے نہیں تو کم از کم سال کے ۱۲ مہینوں میں کسی نہ کسی معروف رسالے میں تحقیقی مقالہ اور کسی معروف ناشر کے ذریعے کوئی علمی کتاب منظرعام پر آتی رہی ہے۔ لیکن اس کثرت کے باوجود قرآن کریم کے مضامین و موضوعات اور سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جہات کا احاطہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ استنبول کے ایک عظیم تحقیقی مرکز میں ۸۰۰ کے لگ بھگ قرآن کی تفاسیر ایک چھت کے نیچے پائی جاتی ہیں۔
زیرنظر کتاب جناب عبدالرشید صدیقی کی تازہ تالیف ہے۔ وہ ایک عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور وہاں کی اسلامی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں۔ کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے لکھا ہے۔
انگریزی اب ایک تجارتی زبان کی حیثیت سے وہی مقام اختیار کرچکی ہے جو ایک طویل عرصہ لغتِ قرآن کو حاصل رہا، اس لیے مغرب ہی کا نہیں خود مشرق میں بھی ان اقوام میں جن کی سیاسی آزادی صرف اور صرف اسلام اور قرآن و سنت کی سربلندی کے لیے حاصل کی گئی ہو، نیز ایسی اقوام میں بھی ذہنی غلامی اور انگریزی کے فروغ کے سبب قرآن کریم اور اسلام سے واقفیت کے لیے ایسی کتب کی ضرورت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جو عام انگریزی سمجھنے والے کو اسلامی فکر اور قرآنی مضامین سے متعارف کرا سکے۔ ان معنوں میں نہ صرف یہ کتاب بلکہ اس نوعیت کی مزید کتب اس دور کی ضرورت ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اصل ماخذ سے براہِ راست تعلق کے بغیر اسلام کا صحیح فہم حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ ان اصطلاحات میں بعض بہت بنیادی ہیں مثلاً اللہ، دین، زکوٰۃ، جہاد، انسان، آخرت، حسنات، فلاح، دعوۃ، بِّر، اخوہ، صوم، صدقہ، ایمان وغیرہ۔
کتاب میں ۱۴۰قرآنی اصطلاحات کا مفہوم انگریزی پڑھنے والے اور براہِ راست عربی مصادر تک نہ پہنچ پانے والے افراد کے لیے سادہ زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ ہر اصطلاح کا لغوی معنی، اس کا قرآن کریم اور عربی میں متبادل اور قرآن کریم میں اس کے استعمال کا حوالہ دینے کے ساتھ اختصار سے معنی بیان کیے گئے ہیں۔ معنی بیان کرتے وقت یہ خیال رکھا گیا ہے کہ اس کے پڑھنے والے ان الفاظ کے بارے میں جن شبہات کا شکار ہوں انھیں بھی رفع کر دیا جائے مثلاً جہاد کے حوالے سے اس کے مختلف مفاہیم کو بیان کرکے سمجھایا گیا ہے کہ اس سے محض قتال اور قوت کا استعمال مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک جامع اصطلاح ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابلِ تحسین علمی کام ہے اور اسلام اور اسلامی فکر کو سمجھنے میں غیرمعمولی طور پر مددگار۔
انتہائی کامیاب کوشش میں بھی ہمیشہ مزید بہتری کی گنجایش رہتی ہے۔ اس کتاب کو آیندہ مزید بہتر بنانے میں اگر چند امور کا خیال رکھ لیا جائے تو ان شاء اللہ اس کی افادیت میں اضافہ ہوگا۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ا ل ہ سے ال کے اضافہ سے اللہ کی اصطلاح بنی ہے(ص ۱۱)۔ اللہ کا کوئی مصدر نہیں ہے۔ مصدر صرف الٰہ کا ہے اور وہ ا ل ہ ہے (ملاحظہ ہو تفسیر ماجدی)۔ صدقہ کا ترجمہ charityگو عبداللہ یوسف علی نے بھی کیا ہے لیکن یہ درست نہیں ہے (ص۲۰۲)۔ درست ترجمہ تحفہ یا ہدیہ ہوگا۔ مفہوم بیان کرتے ہوئے مصنف کو شاید مہر کا ذکر کرنا یاد نہ رہا اسے بھی صدقہ کہا گیا ہے، جب کہ وہ charity نہیں ہے اور خلوصِ نیت اور سچی خواہش کے اظہار کا نام ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کو alms کہنا (ص ۲۶۸)گو مستعمل ہے لیکن اس کے مفہوم سے متضاد ہے۔ یہ خیرات نہیں ہے بلکہ عبادت اور حق ہے، یعنی right اور due۔ یہاں بھی غالباً عبداللہ یوسف علی صاحب کا ترجمۂ قرآن استعمال کرنے کے سبب مصنف نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس کے باوجود کتاب کی افادیت میں کمی واقع نہیں ہوتی اور خصوصاً نوجوان نسل کے لیے اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
مسلم اُمہ کو ہر زمانے میں مختلف فتنوں سے نبردآزما ہونا پڑا۔ ابتدائی زمانے میں مُسیلمہ کذاب نے جس جعلی نبوت کا اعلان کیا تھا، اس سلسلے کی ایک کڑی مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں اہلِ ہند کو دیکھنے کوملی۔ دیگر جعلی نبوتوں کے برعکس مرزاے قادیان کی ہرزہ سرائی کو اس زمانے کی سپرطاقت تاج برطانیہ کی پشت پناہی حاصل تھی، مقامی سطح پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی ہمدردی میسر تھی، اور آج کے مغربی سامراج کی طرف سے اسے مسلسل کمک بھی مل رہی ہے۔
کم و بیش سوا سو سال سے اس فتنے کی دل آزاریوں اور حشرسامانیوں پر اہلِ علم نے مختلف سطحوں اور مختلف حوالوں سے داد تحقیق دی، دینی اورسیاسی حوالے سے بھی بہت سارے گوشے وا کیے۔ بشیراحمد کی زیرتبصرہ کتاب: Ahmadiya Movement: British-Jewish Connection کے رواں اور شُستہ اُردو ترجمے پر مشتمل ہے۔ جس کے ۲۸ ابواب میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بہت سی ہوش ربا تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ یہ تفصیلات قادیانیت کے مغربی سامراجیوں اور یہودیوں سے گٹھ جوڑ کی گواہی پیش کرتی ہیں۔
جناب بشیراحمد ایک سنجیدہ محقق اور جاں کاہی سے مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے ایک ایک مقدمے کو مکمل حوالے، ثبوت اور غیرجذباتی تجزیے سے اس طرح پیش کیا ہے کہ معاملات کے پس پردہ بیش تر کردار ترتیب ِ زمانی کے ساتھ قاری کے سامنے آجاتے ہیں۔ فاضل مؤلف نے یہ کتاب ایک عالمِ دین کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مؤرخ کی حیثیت سے مرتب کی ہے، اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ کتاب فی الحقیقت قادیانیت کی ایک تاریخ ہے، جس کے آئینے میں اس باطل مذہب کے باطن کو دیکھا جاسکتا ہے۔ کتاب کی تقریظ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے تحریر کی ہے۔ آخر میں قادیانی لٹریچر کے عکس، جامع کتابیات و مآخذ کی فہرست بھی درج ہے۔ (سلیم منصور خالد)
عازمینِ حج کے لیے راہ نما کتابیں ہرقسم کی دستیاب ہیں۔ عام ضرورت ایسی کتاب کی ہے جو ہاتھ میں لی جاسکے اور ہروقت اس سے رجوع کیا جاسکے۔ زیرتبصرہ کتاب اس سے کچھ مختلف ہے۔ اس میں مؤلف نے حج کے ۵ ایام کے علاوہ، حج کے فضائل و ترغیب، عورتوں کے حج اور مختصراً زیارتِ مدینہ پر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ایک ترتیب سے جمع کردیے ہیں اور ہرایک کے بعد فائدہ کے عنوان سے اس کی وضاحت کردی ہے۔ ۳۰صفحات کی فہرست سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ۷۵۰ صفحے کی اس کتاب میں کتنی تفصیل سے تمام جنرئی مسائل تک زیربحث لائے گئے ہیں۔
حج کے دوران پیش آنے والے ہر طرح کے امکانات پر براہِ راست حدیث رسولؐ کی رہنمائی مل جاتی ہے۔ اختلافی مسائل پر بھی سب کا موقف بیان کر کے اچھی بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کو بجاطور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ حج و عمرہ کے متعلق شمائل، سنن و احکام کا وسیع اور مستند ذخیرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ (مسلم سجاد)
اسلام کی قوتِ تسخیر کا اندازہ کرنا ہو تو اس کا ایک حوالہ نومسلموں کے حالاتِ زندگی اور قبولِ اسلام کے واقعات کا مطالعہ ہے۔ واضح رہے کہ اسلام کی طرف یہ رغبت ان حالات میں ہے کہ مغرب میں عام طور پر اسلام کے اصل تصور کو مسخ کر کے، مسلمانوں کو وحشی، خون کے پیاسے اور تنگ نظر قوم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ اسلام کی خاطر نومسلم جس طرح سے جان، مال، خاندان، کیریئر اور ہر طرح کی قربانیاں دیتے ہیں، اس سے اسلام کے دورِ عزیمت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
زیرنظر کتاب اسی موضوع کے تحت ۳۲ افراد کے قبولِ اسلام کا ایک مطالعہ ہے۔ تاہم، اس کی انفرادیت یہ ہے کہ بیش تر واقعات کا تعلق عیسائی پادریوں کے قبولِ اسلام سے ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسائیت کے عقائد (بالخصوص تین خدائوں کا تصور، حضرت عیسٰی ؑ کا انسانیت کے گناہوں کی تلافی کے لیے قربانی دینا وغیرہ) عیسائی پادریوں کو بھی مطمئن نہ کرسکے۔ یہ عقیدہ بھی اُلجھن کا باعث ہے کہ گناہ کی معافی کے لیے کسی پادری کے سامنے اعتراف ضروری ہے، گناہ کے اعتراف کے لیے براہِ راست خدا سے رجوع نہیں کیا جاسکتا، جب کہ اسلام میں مذہبی پیشوا کا ایسا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ کسی دوسرے کے سامنے گناہ کا اعتراف ہی ضروری ہے۔ براہِ راست اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جاسکتی ہے۔ عیسائیت میں غوروفکر اور حقیقت کی تلاش کے لیے سوالات اُٹھانے کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، جب کہ اسلام کی تعلیمات، غوروفکر اور تدبر کی دعوت پر مبنی ہیں جو جدید ذہن کو اپیل کرتی ہیں۔ اسلام کی مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ اس لحاظ سے بھی مفید ہے کہ اسلام پر اٹھائے جانے والے اعتراضات اور ان کا جواب بھی سامنے آتا ہے جس سے تقابلِ ادیان کے ساتھ ساتھ اسلام کی فوقیت بھی ثابت ہوتی ہے۔(امجدعباسی)
اُردو ادب کی دنیا، بڑی حد تک پاکستان اور بھارت کی طرح، دو الگ الگ دنیائوں میں منقسم ہے، اس لیے اگر ڈاکٹر سید عبدالباری کا نام پاکستان کے ادبی حلقوں میں کسی قدر اجنبی محسوس ہو تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ موصوف اُردو کے معروف ادبی نقاد ہیں۔ اوائل میں وہ ’شبنم سبحانی‘ کے قلمی نام سے زیادہ تر شعرگوئی کرتے تھے۔ اب گذشتہ ۵،۷ برسوں میں ان کی متعدد تنقیدی کاوشیں (بشمول ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے) مطبوعہ صورت میں سامنے آئی ہیں (لکھنؤ کا شعروادب، ۱۸۵۷ء تک۔ لکھنؤ کے ادب کا ثقافتی و معاشرتی مطالعہ، ۱۹۴۷ء تک، ادب اور وابستگی، کاوشِ نظر، افکارِ تازہ، ملاقاتیں وغیرہ۔ ان میں سے بعض پر ترجمان میں تبصرہ بھی ہوچکا ہے)۔ فی الوقت وہ ماہنامہ پیش رفت دہلی کے مدیر اور ادارہ ادبِ اسلامی ہند کے صدر ہیں۔
ادبی تنقیدی مقالات کا زیرنظر پانچواں مجموعہ انھوں نے ہم فکر ادبی شخصیات ڈاکٹر ابن فرید اور ڈاکٹر عبدالمغنی سے منسوب کیا ہے۔ مرحومین کی طرح سید عبدالباری بھی ادب میں مثبت اور تعمیری نظریات و اقدار کے قائل ہیں۔ بجاطور پر وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُردو کی موجودہ ادبی تنقید زوال پذیر ہے، کیوں کہ ماضی کے برعکس موجودہ تنقید میں کوئی تعمیری، متوازن اور شائستہ طرزِ فکر سامنے نہیں آسکا۔ پروفیسر محمود الٰہی کے بقول ڈاکٹر سید عبدالباری حق و ناحق اور خیروشر کا ایک متعین پیمانہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے قلم کو جاہ و منصب کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اخلاص کے ساتھ ادب کی بے لوث خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔
مجموعے کا پہلا مضمون ’اکیسویں صدی میں ادب کی اہمیت‘ نہایت فکرانگیز ہے۔ انھوں نے مستقبل کی ادبی جہات و اقدار کی ممکنہ سمت نمائی کی ہے۔ انھیں کچھ تشویش بھی ہے مگر وہ پُرامید ہیں کہ ’’اہلِ قلم کی ایک معتدبہ تعداد درباری نفسیات کی گرفت میں نہ آسکے گی اور وہ حقیر مفادات سے اُوپر اُٹھ کر عام انسانوں کی بہی خواہی اور بلندمقاصد کے احترام کو مدنظر رکھ سکے گی (ص ۱۳)۔ معروف ترقی پسند شاعر مجروح سلطان پوری کے بارے میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ آخری دور میں ان پر اشتراکیت کا طلسم زائل ہوچکا تھا اور مجروح اپنی اصل سے وابستگی کو اپنے لیے باعثِ فخر تصور کرتے تھے۔ (ص ۸۱)
بعض مضامین کا تعلق چند ادبی شخصیات (غالب، میرانیس، شبلی، ابوالحسن علی ندوی، جگن ناتھ آزاد، کیفی اعظمی، عرفان صدیقی، مجروح سلطان پوری) اور ان کی تخلیقات سے ہے اور بعض کا تعلق ادب اسلامی کی تحریک کے وابستگان (سہیل احمد زیدی، رشیدکوثر فارقی، طیب عثمانی، ابوالمجاہد زاہد، ابن فرید، علقمہ شبلی، حفیظ میرٹھی) سے___ (رفیع الدین ہاشمی)
جیلانی بی اے (۲۷؍اکتوبر ۱۹۲۱ء- ۱۹ جنوری ۱۹۹۰ء) ایک بلندپایہ ادیب اور منجھے ہوئے افسانہ نگار تھے۔ عمر کا آخری حصہ کوچۂ صحافت میں گزرا۔ اس کے ساتھ وہ جماعت اسلامی کے ایک نمایاں راہ نما کی حیثیت سے بھی قابلِ قدر خدمات انجام دیتے رہے۔جماعت میں امیرضلع فیصل آباد، امیرضلع لاہور اور امیرصوبہ پنجاب کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کیں۔ صحافت میں وہ ہفت روزہ ایشیا کے مدیر رہے۔ صحافت میں اسلام کی سربلندی اور پاکستان کی ترقی کو مرکزی حیثیت دیتے تھے۔ اس طرح جیلانی بی اے کی ساری زندگی بامقصد حیات کا ایک نمونہ ہے۔ وہ ایک مقصدیت پسند ادیب تھے۔اسلامیہ کالج لاہور کے زمانۂ متعلمی میں مولانا مودودیؒ کے براہِ راست شاگرد رہے۔ اس نسبت کو انھوں نے عمربھر مولانا مودودیؒ کے راستے پر چل کر بخوبی قائم رکھا۔
بشیراحمد منصور نے زیرنظر کتاب میں جیلانی بی اے کے مذکورہ بالا حوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی حیات و خدمات کا جائزہ لیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب ایک تحقیقی مقالہ ہے جو ایم فل اُردو کی سند حاصل کرنے کے لیے تحریر کیا گیا تھا۔ اب اسے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب کو چھے ابواب میں منقسم کیا ہے، جن میں جیلانی بی اے کی سوانح اور شخصیت، ان کی افسانہ نگاری، اُن کی مضمون نگاری اور اُن کے قلم سے نکلنے والی دیگر اصنافِ نثر (ترجمہ، تلخیص، رپورتاژ، سفرنامہ، تعزیتی حاشیے اور صحافتی تحریریں)، نیز اُن کے اسلوبِ بیان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ آخری باب اُن کی مجموعی علمی و ادبی خدمات کے جائزے پر مبنی ہے۔
بشیر منصور نے مقالہ بڑی سلیقہ مندی سے مرتب کیا ہے۔ ان کی یہ ادبی کاوش اس اعتبار سے مستحسن ہے کہ انھوں نے ایک ایسے بلندپایہ ادیب اور افسانہ نگار کو، جو اَب تک گوشۂ گم نامی میں رہا، علمی و ادبی دنیا سے متعارف کروایا اور اس کی علمی و ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا۔ گو، اس مقالے سے جیلانی صاحب کے ادبی اور فنّی کمالات پوری طرح ظاہر نہیں ہوتے، تاہم اُن پر کام کرنے والوں کے لیے یہ کاوش دلیلِ راہ کا کام دے گی۔ معیارِ اشاعت اطمینان بخش ہے۔ موضوع اور شخصیت سے سرورق کی مناسبت قابلِ داد ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)