تقریباً سات عشرے قبل مولانا مودودیؒ نے تحریکِ اسلامی کا جو بیج بویا تھا، آج وہ ماشا اللہ ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ آج اس درخت کی شاخیں ملک کے گوشے گوشے کے علاوہ بیرونِ ملک تک پھیل گئی ہیں جن کی ابتدا بھی جماعت اسلامی کے اُسی بنیادی لٹریچر سے ہوتی ہے جس نے اسلام کو سمجھنے اور ہمیں ہمارے مقصدِ زندگی سے روشناس کرانے میں مدد دی، اور مکمل اسلامی نظام کی عمارت کا وہ نقشہ پیش کیا کہ اپنی منزل واضح ہوکر سامنے آگئی۔
مقصد کے حصول کے لیے تنظیم سازی کی گئی اور لامحالہ تنظیم کو چلانے کے لیے چند اصول و ضوابط مقرر کر دیے گئے اور کچھ مطالبات اور تقاضے واضح کردیے گئے جن کو پورا کرنا تنظیم کو چلانے کے لیے ناگزیر ٹھیرا۔ اِن تمام تقاضوں کی فہرست اگر بنائی جائے تو باہمی تعلقات سے شروع ہونے والی یہ فہرست احتساب پر آکر ختم ہوتی ہے، جب کہ ان کے درمیان مشاورت، منصوبہ بندی، اطاعت ِ امر اور رپورٹ سسٹم پر عمل درآمد جیسے مطالبات بھی شامل ہیں۔
یہ تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ بہت اہم ہیں اور تنظیم و تحریک کے لیے کسی ایک چیز کی بھی کمی نقصان دہ ہے۔ جہاں ایک اسلامی تحریک کے ہر کارکن کو اس بات سے واقف ہونا بہت ضروری ہے، وہیں اس بات کا اندازہ ہونا بھی ضروری ہے کہ ان کا حق ہم تب ہی ادا کرسکتے ہیں اور فوائد کو تب ہی پوری طرح سمیٹا جاسکتا ہے جب یہ ایک نظام کے اندر اپنی اپنی روح کے ساتھ موجود ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جسم میں آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پائوں اور دیگر اعضا کی اہمیت ہے۔ ہم آنکھ کو جسم سے الگ کرکے یہ نہیں سوچ سکتے کہ یہ بینائی کا کام کرے گی، یا ہاتھ کاٹ کر یہ خواہش بھی بے معنی ہوجائے گی کہ یہ کٹا ہوا ہاتھ بھی ہمارا کام کرے گا۔ اپنے جسم کے اعضا سے ہم تب ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب وہ اس جسم کا حصہ ہوں، ایک نظام کے تابع ہوں، ایک دل و دماغ کی خواہش اور ارادے کے پیشِ نظر کام سرانجام دیں۔
بالکل اسی طرح کسی تنظیم کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقصد کو عظیم سمجھتے ہوئے تنظیم سے جڑنے والے ہر فرد کے باہمی تعلقات میں اُخوت و محبت ہو، رحمت و شفقت ہو، پھر تمام معاملات مشاورت سے طے کیے جائیں اور ساتھ کارکنان سے اطاعت کا مطالبہ ہو۔ مزیدبرآں کاموں کی بہترین منصوبہ سازی وقت کی ضرورت اور وسائل کا حقیقی تجزیہ کرتے ہوئے کی جائے، رپورٹ کا تمام تر نظام تجزیے کی درست بنیادوں پر ہو اور رہ جانے والی کمیوں اور سرزد ہونے والی انسانی کمزوریوں پر محاسبہ اور آیندہ کے لیے درست لائحہ عمل اور طریقہ وضع کیا جائے تو تنظیم یقینا اپنے مقصد کے حصول میں آگے اور آگے ہی بڑھے گی۔
ان تمام چیزوں کو درست بنیادوں پر رکھنا ہی تنظیم کو چلانا ہے جو کہ قیادت کی ذمہ داری ہے۔ قیادت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں نچلی سطح پر تحریکِ اسلامی کے کارکنان کو ایک تنخواہ دار ملازم کی طرح تو نہیں برتا جا رہا اور باقی لوازمات کو پورا کیے بغیر محض اطاعت کا مطالبہ تو نہیں کیا جا رہا۔ اگر ایسا ہو رہا ہو تو یہ ایک طرف تو ایمان و عمل میں دراڑیں لائے گا، جب کہ دوسری طرف تحریک کے قدم آگے بڑھنے کے بجاے آپس کے اختلافات اور ترجیحات کے غلط تعین میں اُلجھ کر اپنا راستہ کھو سکتے ہیں اور سفر کو سُست رفتار بنا سکتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے والے ذہن ماند پڑسکتے ہیں۔ باصلاحیت افراد اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے دوسرے راستے تلاش کرسکتے ہیں۔ اگر اسلام کو سمجھ لیا ہوگا تو اس کی خدمت کے لیے نئے نئے طریقے اور راستے تلاش کریں گے۔ لیکن اگر ناپختہ ذہن کے ساتھ وہ خلفشار کا شکار ہوگئے تو اُن کی تمام صلاحیتیں منفی امور پر استعمال ہوں گی اور غیراسلامی قوتوں کو مہمیز ملے گی۔
اس لیے اس بات کا سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ تنظیم و تحریک کے اندر ان تمام خوبیوں کا ہونا اور ان تمام کو ایک ساتھ برتنا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی ایک چیز کی عدم موجودگی یا عدم توجہی سے جو عدم توازن ہوگا، وہ بگاڑ کی طرف لے جائے گا، بنائو کی طرف ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ انسان پابندیاں تبھی قبول کرتا ہے جب کچھ حقوق اور اختیارات بھی ملیں اور ان کے اظہار اور استعمال کے مواقع بھی۔ اللہ کی بھی یہی سنت ہے۔ نظمِ جماعت کی یہ پابندی بھی چند حقوق اور اختیارات کے ساتھ مشروط ہے۔ انھی حقوق میں ایک حق احتساب کا بھی ہے جو یہ تحریک اپنے ہر کارکن کو دیتی ہے۔ قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسا ماحول بنائے جس میں دریاں بچھانے والا ایک کارکن بھی اپنے قائد کا محاسبہ جرأ ت مندانہ طور پر کرسکے۔ انسانی کاموں میں غلطیوں کا رونما ہونا فطری ہے، البتہ اس پر اصرار نہ صرف غلطی ہے بلکہ بہت بڑی بھول ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔ احتساب اپنی غلطیوں کی نشان دہی، رویوں اور فیصلوں پر نظرثانی کا دوسرا نام ہے۔
جس طرح ہم اپنے بیت المال کے نظام کو عین اسلامی بنیادوں پر شفاف اور صاف ستھرا بناتے ہیں اور ہر سال آڈٹ کراتے ہیں کہ کہیں مال کا لین دین کسی بھول اور غلطی کی نذر نہ ہوگیا ہو اور پائی پائی کے آمدوخرچ کو رسیدوں سے ثابت کرتے ہیں، نیتوں کے اخلاص کے باوجود کچھ طریقے اور اصول وضع کردیے گئے ہیں تاکہ مالیات کا سارا نظام شفاف ہو، بالکل اسی طرح ہمیں چاہیے کہ اپنی تنظیم کا سالانہ بنیادوں پر ٹیکنیکل آڈٹ کریں۔ ہرسطح پر مجلس ہاے شوریٰ کے سالانہ جائزہ اجلاس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ کام کو آگے بڑھانے کے لیے جو اصول و ضوابط اور طریقے مرتب اور مقرر کیے گئے تھے، اُن کا کتنا خیال رکھا گیا۔ کیے گئے فیصلے اور کی گئی منصوبہ بندی کس قدر حقیقی اور جائز بنیادوں پر تھی۔ نیتیں خالص ہونے اور ہر وقت کی دوڑ دھوپ کے باوجود یہ جائزہ ضروری ہے کہ معاملات کو برتنے اور اُصول و ضوابط پر عمل درآمد میں کسی بے حکمتی کا شکار تو نہیں ہوگئے۔ جس طرح شخصیت کی تعمیر میں کبھی کبھی دوسروں کی نظر سے دیکھنا فائدہ مند رہتا ہے، اسی طرح تنظیم اور تحریک کو چلاتے ہوئے دوسروں کی تنقیدی نظر کے نتیجے میں ہونے والے پروپیگنڈے کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ بعض اوقات خود منفی پروپیگنڈے کی تہہ میں بھی ہماری اصلاح کے کچھ پہلو چھپے ہوتے ہیں جن کو تلاش کر کے ہم خوب سے خوب تر ہوسکتے ہیں۔
جب ہم دنیا میں چھوٹے چھوٹے کورسز کرکے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں، ہم ڈرائیونگ سیکھتے ہیں، اپنے بچوں کو کراٹے اور دیگر کھیل کود کی سرگرمیاں سکھاتے ہیں، اپنی بچیوں کو کھانے پکانے اور سلائی کڑھائی کے مختلف کورسز کراتے ہیں تو اس سیکھنے کے عمل میں کئی غلطیاں ہوتی ہیں۔ اُن غلطیوں کو غلطیاں تسلیم کرکے اُن کی اصلاح کی جاتی ہے تاکہ اُس کام میں مہارت حاصل ہوجائے۔ اس لیے اصلاح کے لیے سب سے پہلا قدم غلطی کو غلطی سمجھنا ہے۔ تنظیم میں بھی ہمارا یہی رویہ ہونا چاہیے۔ جب اس میں نئے نئے لوگ آتے ہیں، ذمہ داریاں ملتی ہیں تو ساتھ ساتھ وہ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سیکھنے کے اس عمل میں لامحالہ غلطیاں ہوں گی، اُن کی اصلاح اُسی وقت ہوگی جب اُس غلطی کی تاویل یا جواز پیش کرنے کے بجاے اُس غلطی کو مان لیا جائے۔ اگر ہم غلطیوں پر پردہ ڈالیں گے تو وہ اپنی تربیت نہیں کرسکیں گے جس طرح بچوں کے ساتھ بے جا لاڈ پیار بچے کو بگاڑ دیتا ہے۔ ہمیں غلطی اور عیب کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہیے۔ عیوب پر پردہ ڈالنے کا حکم ہے، جب کہ غلطی کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔
محاسبہ یا احتساب کا عمل، آخرت میں کامیابی کے لیے تو ضروری ہے ہی، کہ ہم اپنی اصلاح یہیں کرلیں اور آخرت کی پکڑ سے بچ جائیں، البتہ دنیا میں بھی اپنے مقاصد کے حصول اور منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے احتساب ضروری ہے۔ جس طرح فرد کی زندگی میں آزمایش شرط ہے، اسی طرح تحریک و تنظیم بھی اندرونی اور بیرونی طور پر مختلف حالات و آزمایشوں سے گزرتی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد اللہ نے یہ بتایا ہے کہ کھرے کھوٹے کی پہچان ہوجائے۔ غزوئہ اُحد، غزوئہ خندق، غزوئہ تبوک، واقعۂ افک جیسے واقعات سے آج بھی ایک تحریک گزر سکتی ہے اور ان تمام واقعات کے بعد ان پر قرآن کے تبصرے اور حضوؐر کے طرزِعمل سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ قیادت کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ کس طرح اس ذمہ داری کو ادا کرتی ہے۔
تحریکِ اسلامی کا حصہ ہوتے اور کام کرتے ہوئے انفرادی کوتاہی اور کمزوری کی اصلاح ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اپنے خاندان،اپنے محلے اور اپنے ادارے میں ہمارا ایک ایک فرد اسلام کا ہی نہیں تنظیم کا نمایندہ بھی ہے۔ اُس کے رویے، اُس کے معمولات، اُس کے اخلاق اور اُس کی ساری زندگی میں کسی بھی غلطی کو تحریک و تنظیم کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔
انفرادی محاسبے کی بنیاد ہی ہمدردی اور خیرخواہی ہے۔ اس لیے اس کی غرض اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کا سہارا بن کر خدا کی راہ میں ایک ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آنے والی آزمایشوں کا مقابلہ کریں۔ ایک دوسرے کا دامن صاف کردینے والے ہوں۔ تعلق ایسا ہو کہ ایک رُکے تو دوسرا حوصلہ دے کر اُسے چلا دے۔ ایک گرے تو دوسرا بڑھ کر اُس کا ہاتھ تھام کر اُٹھا لے۔ آج کے دجّالی دورِ فتن میں ایمان کی یہ کمزوری تو ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے۔ تحریک میں شامل افراد کو محاسبے کی یہ فضا بنانی چاہیے۔ اس بات کو مولانا مودودیؒ نے یوں کہا:
جو لوگ خدا کی خاطر کلمۂ حق کی سربلندی کے لیے ایک جماعت بنیں، انھیں ایک دوسرے کا ہمدرد و مددگار اور غم خوار ہونا چاہیے۔ انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے مقصدِ عظیم میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ بحیثیت مجموعی اخلاق اور نظم کے لحاظ سے مضبوط نہ ہوں، اور اس احساس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بنیں اور ان میںسے ہر ایک دوسرے کو سہارا دے کر خدا کی راہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ اسلام میں اجتماعی تزکیے کا طریقہ یہی ہے۔ میں گرتا نظر آئوں تو آپ دوڑ کر مجھے سنبھالیں، اور آپ لغزش کھا رہے ہوں تو میں بڑھ کر آپ کا ہاتھ تھام لوں۔ میرے دامن پر کوئی دھبہ نظر آئے تو آپ اسے صاف کریں اور آپ کا دامن آلودہ ہورہا ہو تو میں اسے پاک کروں۔ (تحریک اور کارکن، ص۱۶۷-۱۶۸)
خیرخواہی اور غم خواری ہوگی تو محاسبہ کرنے کا سلیقہ بھی آئے گا۔ایک صحیح بات اگر غلط طریقے سے کی جاتی ہے تو نہ صرف اپنا اثر کھوتی ہے بلکہ ردعمل کے طور پر ضد اور ہٹ دھرمی بھی پیدا کردیتی ہے۔ اس لیے محاسبے کا ٹھیک طریقے کا سیکھنا بھی ضروری ہے۔ جب کسی شخص کی کوئی بات کھٹکے تو جلدی کرنے کے بجاے معاملے کو اچھی طرح سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ صورت حال کا ہرپہلو سے جائزہ لیں، پھر اکیلے میں اُس سے بات کریں۔ اُس شخص کو اس بات کا احساس دلائیں کہ اُس کے مقام اور مرتبے کی وجہ سے اُس کی یہ چھوٹی غلطی بھی کس قدر نقصان دہ ہے۔ اُس فرد کو اس بات کا یقین دلائیں کہ یہ بات آپ نے اُس سے کہی ہے کسی اور سے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ آپ اُس سے اپنی اصلاح کا وعدہ لے لیں۔ احتساب کے اس عمل سے اُسے اپنی اہمیت کا احساس ہوگا، وہ اپنی تربیت کر کے ایک اچھا داعی بنے گا جو اُس کے لیے، تنظیم کے لیے اور معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
اجتماعی تنقید کی بنیاد خیرخواہی اور اصلاح ہے۔ اس حوالے سے مولانا مودودیؒ کہتے ہیں:
اندھے مقلدوں اور سادہ لوح معتقدوں کا گروہ خواہ کیسے ہی صحیح مقام سے کام کا آغاز کرے، اور کیسے ہی صحیح مقصد کو سامنے رکھ کر چلے، بہرحال آخرکار بگڑتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ انسانی کام میں کمزوریوں کا رونما ہونا فطرتاً ناگزیر ہے اور جہاں کمزوریوں پر نگاہ رکھنے والا کوئی نہ ہو، یا اِن کی نشان دہی کرنا معیوب ہو، وہاں غفلت کی وجہ سے یا مجبورانہ سکوت کے باعث ہر کمزوری، سکون و اطمینان کا آشیانہ پاتی چلی جاتی ہے اور انڈے بچے دینے لگتی ہے۔ جماعت کی صحت اور تندرستی کے لیے رُوحِ تنقید کے فقدان سے بڑھ کر کوئی چیز نقصان دہ نہیں، اور تنقیدی فکر کو دبانے سے بڑھ کر جماعت کے ساتھ کوئی اور بدخواہی نہیں ہوسکتی۔ یہی تو وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے خرابیاں بروقت سامنے آجاتی ہیں اور ان کی اصلاح کی سعی کی جاسکتی ہے۔ لیکن تنقید کے لیے شرط لازم ہے کہ وہ عیب چینی کی نیت سے نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ اصلاح کی نیت سے ہو۔ (تحریک اور کارکن، ص ۱۹۰)
ہر سطح کی قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسا ماحول بنائے کہ ایک عام سے کارکن کے لیے سوال کرنا آسان ہو، اس بات سے قطع نظر کہ سوال اور تنقید درست ہے یا غلط۔ حضرت عمرؓ سے بھرے مجمع میں کُرتے کے زائد کپڑے کا سوال تاریخ سے ہمارے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ کسی کے تنقید کرنے پر اس کا محاسبہ کرنا اور گرفت کرنا درست نہیں۔ اس لیے کہ کارکن اُن تمام حالات سے شاید ناواقف ہو جو قیادت کے سامنے ہیں۔ ایک عام کارکن کا دینی علم و فہم بھی قائد کے مقابلے میں کم ہوسکتا ہے۔ اس لیے سمجھنے سمجھانے کا ماحول بنانا، محاسبے پہ محاسبہ کرنے کے بجاے کارکن کو اپنے رویے اور پالیسی پر مطمئن کرنا ذمہ داران ہی کا فریضہ ہے۔ تحریک کے اندر بے چینی کو نہ پھیلنے دینا اور یکسوئی سے اپنے مقصد کی طرف جدوجہد کرتے رہنا ہی قیادت کی کامیابی ہے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب سوال اور تنقید کرنے والوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ بالعموم سوال کرنے والی زبانیں کم ہی ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی معاملے کو اپنی نظر سے دیکھنا، اپنے ذہن کو اُس پر چلانا اور مختلف پہلوئوں پر غور کرنا اور سلیقے سے بات کہنے جیسی خصوصیات کے حامل لوگ شاید پانچ فی صد سے زیادہ نہیں ہوتے۔
دوسری اہم بات جو اجتماعی محاسبے کے لیے بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تحریک اور تنظیم اپنے ہردور میں ایک تاریخ مرتب کر رہی ہے، اس لیے وقت گزر جانے کے بعد بھی اجتماعی غلطیوں کو تسلیم کرنابہت ضروری ہوجاتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور صرفِ نظر کیا گیا تو بعد کی نسلیں کہیں ہماری آج کی کسی غلطی کو مثال نہ بنا لیں (۱۷ویں ترمیم پر سابق امیرجماعت اسلامی محترم قاضی حسین احمد کا قوم سے معافی مانگنا اس کی بہترین مثال ہے)۔
یہاں پر احتساب نہ کرنے کے نقصانات کو سمجھ لینا بھی ضروری ہے۔ جب ہم کسی خرابی کو محسوس کرتے ہیں خواہ وہ چھوٹی ہوتی ہے یا بڑی، انفرادی ہوتی ہے یا اجتماعی، لامحالہ تین رویے سامنے آئیںگے: ۱- صرفِ نظر کردینا اور غیراہم سمجھنا، ۲- شکایت کرنا، ۳-محاسبہ کرنا۔
اگر ہم بروقت اور درست مقام پر محاسبہ نہ کریں تو لامحالہ یہ ’شکایت‘ کہلائے گی۔ اپنے کسی ساتھی کی شکایت کسی دوسرے ساتھی یا ناظم/ناظمہ سے کردینے کو ہم غیبت اس لیے نہیں سمجھتے کہ ہماری نیت ’اصلاح‘ کی ہوتی ہے، مگر ذرا ٹھیر کر یہ سوچیے کہ کیا یہ طریقہ صحیح ہے کہ جب ہم فرد سے کہنے کا حوصلہ نہیں پاتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بُرا مان جائے گا، یا یہ کہ ہم کیوں اُس کی نگاہ میں بُرے بنیں، اس لیے ہم محاسبے سے اجتناب کرتے ہیں اور شکایات کا رویہ اپناتے ہیں۔ اگر ہم شکایت کا رویّہ نہ بھی اپنائیں تو سوچتے ہیں کہ صرفِ نظر ہی بہتر ہے کہ کون کہے؟ کس سے کہے؟ بہتر ہے کہ خاموش ہی رہا جائے۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے یہاں ٹھیر کر یہ سوچنا پڑے گا کہ اِن خرابیوں اور کوتاہیوں کے بوجھ کے ساتھ آگے بڑھنے سے لوگ کیا بددل تو نہیں ہوں گے؟ تحریک کی توسیعِ دعوت کی جدوجہد کہیں متاثر تو نہیں ہوگی؟ اس لیے پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے احتساب کا۔
محاسبہ کرتے ہوئے ان اصولوں کو پیشِ نظر رکھیے:
۱- ’’برائی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو‘‘۔ (القرآن)
اگر ہم کسی فرد میں، تنظیم میں، کسی چیز کو قابلِ اصلاح سمجھتے ہیں تو سب سے پہلے یہی آیت ہمیں مجبور کرے گی کہ ہم بے ڈھنگے طریقے سے وہ کام نہ کریں۔ ہمارا لہجہ اور الفاظ کا چنائو اس بات کے مظہر ہوں کہ ہم واقعی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ دل میں اخلاص اور فرض سے عشق، احتساب کے عمل کو احسن اور فطری بنائے گا۔
۲- ہم مچھر کو چھاننے اور ہاتھی کو نگلنے والے نہ بنیں۔ فرائض اور بنیادوں کی کمزوری پر کڑا محاسبہ ضروری ہے، جب کہ بشری کمزوریوں کے نتیجے میں جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں اُن پر ذرا سی توجہ سے کام کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
۳- محاسبہ ہر وقت، ہر مجلس اور ہر مقام پر نہ ہو۔ جس فورم کی بات ہو، وہیں پر کی جائے۔ نہ اُوپر کی بات نیچے ہو، نہ نیچے کی بات بلاضرورت اُوپر۔ پہلے اسی سطح پر درست کرنے کی کوشش کیجیے۔
۴- احتساب کرنے سے پہلے اعتراض کی بنیاد کا واضح ہونا بہت ضروری ہے۔ جس کا اظہار کسی واقعے سے ہوا ہو۔ محض گمان اور سنی سنائی بات پر احتساب سے نقصان اور فساد کا خدشہ ہے۔
۵- انفرادی محاسبے میں کم سے کم احتساب کرنے والے کو اُن باتوں کا احتساب کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو خود اُس فرد میں موجود ہوں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص خود وقت کا پابند نہیں تو اُسے وقت کی پابندی پر دوسروں کا احتساب کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، یا اگر کوئی شخص بھول کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرسکا تو بھول کی یہ رخصت سب کے لیے ہو۔ البتہ اس طرح کی کمزوریوں پر اجتماعی کوششوں اور ایک دوسرے کو یاد دہانی کے ذریعے سے قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم یہ بات مانتے ہیں اور گاہے بہ گاہے اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم بحیثیت انسان غلطیوں کا پتلا ہیں اور یہ کہ انسان ہی سے غلطیاں ہوتی ہیں وغیرہ، مگر حیرت ہے کہ ہم میں سے جب کسی کی بھی کسی غلطی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو ہمیں بُرا بھی لگتا ہے اور فی الفور ہم وضاحتیں پیش کرنے لگتے ہیں۔ ہم اُس وقت بھول جاتے ہیں کہ ہم سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میں بھی بحیثیت انسان غلطی کرسکتا/سکتی ہوں۔
وضاحت اور صفائی پیش کرنا اُس فرد کا حق ہے جس پر تنقید کی جارہی ہو مگر جب بھی کسی کا محاسبہ کیا جائے تو اُس شخص کو چاہیے کہ وہ پوری بات کو تحمل سے سنے۔ جب محاسبہ کرنے والا شخص خاموش ہوجائے تو انصاف کے ساتھ اُس بات پر غور کرنے کے بعد حق بات کو تسلیم کرلے، اور اگر وہ یہ سمجھتا ہو کہ محاسبہ کرنے والے فرد کو کسی قسم کی بدگمانی ہوگئی ہے یا وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہے تو دلائل کی قوت سے تردید کردے اور اپنے اُس طرزِ عمل کی وضاحت کردے جس پر تنقید کی جارہی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے تنقید سن کر طیش میں آجانے کو کبر اور غرور کی علامت گردانا ہے۔
محاسبہ کرنے والے کو اپنا دوست اور ہمدرد سمجھنا چاہیے اور اگر اس کے بعد محبت اور تعلق میں اضافہ ہو تو سمجھ لیجیے کہ اس کا حق ادا ہوگیا لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو تو پھر فکر کرنی چاہیے کہ جس عظیم مقصد اور بلند نصب العین کو لے کر ہم چلے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دلوں کی یہ خرابی دنیا اور آخرت میں ہماری ناکامی کا باعث بن جائے۔