طلعت ملک


آج معاشرے میں جھوٹ اتنا عام ہوگیا ہے کہ اب سچ بولنا اور سچ پر یقین کرنا قریباً ناپید ہے۔ آج اگر کوئی شخص کسی کی بات کو سچ سمجھ کر یقین کرلے تو اس کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے، اور فرض کرلیا گیا ہے کہ سب کچھ جھوٹ ہے، جب تک کہ کوئی سچ ثابت نہ کردے۔ تہذیبوں کی تاریخ میں ہمیشہ سچ کو یہ مقام حاصل رہا ہے لیکن آج ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر جھوٹ کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ جھوٹ بولا، سنا اور برتا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ ہماری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ سیاست سے لے کر تجارت، عدالت اور صحافت سارے کے سارے اداروں کا کاروبار بحیثیت مجموعی اسی سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم۔ اسی وجہ سے اب ہمارے معاشرے میں سماجی طور پر، اور ہمارے گھروں میں خاندانی طور پر، اور ہماری ذات میں انفرادی سطح پر بھی یہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ کسی صاحب ِ ایمان اور صاحب ِ عمل کے لیے بھی اپنا دامن بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ جب ایک بیماری وبا کی طرح عام ہوجائے تو کسی نہ کسی درجے پر ہر انسان اُس کا شکار ہوکر رہتا ہے۔

  • جہوٹ: جھوٹ سے مراد غلط بیانی یا جان بوجھ کر خلافِ واقعہ کوئی بات کہہ دینا ہے۔ اس کے گناہِ کبیرہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہمیں متواتر ایسی احادیث ملتی ہیں جس میں بڑے بڑے گناہوں، یعنی کبائر کے ذکر میں جھوٹ کا ذکر بھی ہے،اور پیارے نبیؐ کی حدیث اور سنت سے ثابت ہے اگر کسی کی اخلاقی تربیت مطلوب ہوتی تو اُس میں سرفہرست جھوٹ کو اُس کی جڑوں کے ساتھ اُکھاڑ پھینکنے کی تربیت تھی۔
  •  جہوٹ کی اقسام:جھوٹ کا چھوٹا یا بڑا ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ اس سے ہونے والا نقصان چھوٹا ہے یا بڑا، انفرادی ہے یا اجتماعی۔ اس لیے ہم اس کو دو اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
  • روز مـرہ زندگی میں جـہوٹ: پہلی قسم میں روزمرہ بولے جانے والے وہ   چھوٹے موٹے جھوٹ شامل ہیں جو ہم صرف اپنے دفاع، اپنے جائز و ناجائز حق کے تحفظ اور اپنی ساکھ کو درست رکھنے اور اپنی جان بچانے کے لیے بولتے ہیں۔ اس قسم کے جھوٹ کے اثرات محض ایک ذات تک محدود ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کو اُس سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے ہم اس کو جھوٹ بھی تصور نہیں کرتے، مثلاً ہمیں کسی جگہ وقت پر پہنچنا ہے اور دیر ہوگئی۔ ہماری سُستی یا بدنظمی کی وجہ سے ہونے والی دیر کو ہم جھوٹ بول کر اپنی پوزیشن کو بچا لیتے ہیں کہ فلاں کام پڑ گیا تھا، اچانک اس وجہ سے دیر ہوگئی۔ اس موقع پر ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔ اسی طرح کوئی کام ہمارے ذمے ہو اور ہم اُس کو درست طور پر نہ کرسکیں یا وقت پر نہ کرسکیں تو بجاے اس کے کہ اپنی کوتاہی کو سمجھیں اور اس کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ کریں عموماً اُلٹی سیدھی وجوہات تلاش کر کے پیش کردیتے ہیں۔ کوئی کام سرے سے کیا ہی نہیں لیکن لکھ دیا یا بول دیا محض اس خاطر کہ ہماری عزت رہ جائے اور سب کے سامنے شرمندگی سے بچ جائیں گے۔

حقیقت میں اگر ہم جائزہ لینا شروع کریں تو ہم ایسے ایسے مواقع پر جھوٹ سے کام لیتے ہیں جہاں اس کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اپنے احباب، رشتہ داروں کے سامنے     شیخی بھگارنا ایک عام بیماری بن گئی ہے۔ یونہی محفل میں رنگ بھرنے کے لیے چند واقعات سنا دینا جس سے وقتی طور پر سب واہ واہ کر اُٹھیں، محض لوگوں کے اندر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے زندگی کے ناکردہ واقعات سنا دینا جن کو اب ثابت نہیں کیا جاسکتا وغیرہ۔ اس معاملے میں خواتین کا تناسب تھوڑا زیادہ ہوجاتا ہے کہ نبی کریمؐ نے معراج کے موقع پر خواتین کو جہنم میں زیادہ دیکھا تو اس کی تصریح یہی فرمائی کہ خواتین زبان کے معاملے میں زیادہ احتیاط نہیں برتتی ہیں۔ غیبت، بدزبانی، جھوٹ اور زیادہ تر اخلاقی برائیوں کا تعلق چونکہ زبان سے ہے اور عموماً خواتین اس کے استعمال میں غیرمحتاط اور جذباتی ہوتی ہیں اسی لیے وہ جہنم میں بھی زیادہ ہوں گی۔

خواتین چونکہ اپنے میکے، شوہر اور بچوں کے معاملے میں حساس ہوتی ہیں اس لیے گھریلو سطح پر جھوٹ کی یہ بیماری رگوں میں سرایت کرگئی ہے۔ میکے اور سسرال میں پیدا ہونے والی مختلف  صورت حال میں جائز اور ناجائز طور پر محض اپنے دفاع کے لیے غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کوئی وجہ نہیں بھی ہوتی لیکن عادتاً ہی جھوٹ بول دیا جاتا ہے۔ بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو اُن کی بے جا تعریف میں اُٹھتے بیٹھتے رشتہ داروں اور سہیلیوں کے سامنے اس کا اظہار اس طریقے سے ہوگا کہ جو کام بیچارے نے نہ بھی کیے ہوں یا اگر کیے بھی ہوں تو بڑھا چڑھا کر اُس کو بیان کرنا۔ اس میں شک نہیں کہ اولاد کی محبت ایک فطری امر ہے اور ہمارا دل بھی کرتا ہے کہ بچے کے اچھے کام کی تعریف اور اُس کی حوصلہ افزائی کریں مگر ہماری چھوٹی سی یہ عادت خاندانوں کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ نکاح اور شادی جس کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اُس کی بنیاد ہی کئی طرح کے جھوٹ پر رکھی جاتی ہے۔ عمر، سلیقہ، اسناد اور تعلیم و تربیت کے متعلق اس قدر جھوٹ بولے جاتے ہیں یا مبالغے سے کام لیا جاتا ہے کہ اصل حقیقت جب بعد میں کھلتی ہے تو اعتماد کی ڈُور ٹوٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سب کچھ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا تو ظاہر ہے رشتے نہیں ہوں گے چاہے بعد میں اُس رشتے کا انجام ہی علیحدگی پر ہو۔ یہ ایک ایسا مروج جھوٹ ہے جو شروع تو ایک ذات سے ہوتا ہے مگر اس کے نقصانات وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتے چلے جاتے ہیں۔

گھریلو سطح پر بولے جانے والا یہ جھوٹ اب ایک نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے افراد اور خصوصاً خواتین کی اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی تربیت کی بھی ضرورت ہے، جس پر اہلِ علم حضرات کو توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ اہلِ مغرب کے مقابلے میں ہم اپنے خاندانی نظام پر فخر کرسکتے ہیں۔ لیکن اب بڑھتی ہوئی طلاقیں اور ناچاقیاں اس نظام کے درپے ہیں۔ اس لیے اس کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ دراصل یہ کثرت سے بولے جانے والے جھوٹ کی ہی بے برکتی ہے جو ہمارے خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔

  • معاشرتی سطح پر جہوٹ: اس قسم کے بولے جانے والے جھوٹ کے اثرات دنیا و آخرت میں محض ہماری ذات تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ہمارے گھر، اجتماعیت بلکہ ملک اور پوری قوم تک پھیلے ہوئے ہوسکتے ہیں۔ اسی کو قرآن کہتا ہے:

وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۲) اور (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔

جس جھوٹ سے کسی کی حق تلفی ہورہی ہو یا کسی کو انصاف نہیں ملتا، اس کی بنیاد پر کوئی ٹھیک اجتماعی فیصلہ اور صحیح راے قائم نہیں کی جاسکتی۔ یہ اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ اس کے نقصانات اجتماعی ہی نہیں ہوتے بلکہ دُوررس بھی ہوتے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دل خدا کے خوف سے خالی اور انسان خدا کی پکڑ سے بے نیاز ہے۔

اس کی بھی کئی شکلیں ہیں، مثلاً بعض اوقات ہم الفاظ سے جھوٹ نہیں بولتے لیکن صحیح بات کو معلوم ہونے کے باوجودچھپا لیتے ہیں، جس سے معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچا جاسکتا اور نتیجہ ایک غلط فیصلے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اجتماعی معاملات خواہ کسی بھی سطح کے ہوں اُس میں حق اور سچ کا ساتھ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ ملکی سطح اور معاشرتی سطح کے بڑے بڑے معاملات، یعنی ہماری سیاست، ہماری عدالتوں میں جھوٹی گواہی، جھوٹے مقدمے، تجارت میں جھوٹ اور دھوکا دہی،  تعلیمی اداروں کی جعلی اسناد، صحافت میں میڈیا کی غلط اور مبہم رپورٹنگ جس سے سچ اور جھوٹ گڈمڈ ہوکر رہ گیا ہے اور ایک عام آدمی کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ یہ سارے جھوٹ آج بولے جارہے ہیں۔ یہ سب کو نظر آرہے ہیں اور من حیث القوم ہم جس عذاب سے گزر رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے۔

  • جہوٹ کا جواز: ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مبالغہ یا جھوٹ اگر جائز ہے تو حدیث کی رُو سے اُس کی دو ہی صورتیں ہیں: ۱- لوگوں کے درمیان مصالحت کرتے ہوئے ۲-میاں بیوی کا ایک دوسرے کی محبت میں مبالغہ۔

اسی طرح سچ بولنے کی اتنی فضیلت ہے کہ غیبت جیسی برائی بھی چند خاص صورتوں میں جائز ہوجاتی ہے، مثلاً مظلوم کی فریاد رسی اور انصاف کے حصول کے لیے، فتویٰ حاصل کرنے کے لیے، اور معاملات کی اصلاح کے لیے اُن لوگوں کے سامنے حال بیان کرنا جو اس کو درست کرنے کے ذمہ دار ہوں (اس سلسلے میں تفصیلی احادیث اور فقہا کا بیان ریاض الصالحین (حصہ اول) میں غیبت کا جواز کے بیان میں دیکھا جاسکتا ہے)۔

ان دونوں قسم کی احادیث کو دیکھتے ہوئے ہم اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ حقیقت میں اخلاق اور معاملات کی درستی مطلوب ہے، اور اسلام، مسلمانوں کے مابین محبتوں کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ اسی لیے محبتوں میں اضافے اور مصالحت کے لیے جھوٹ جیسے گناہِ کبیرہ کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم نے چیزوں کو اُلٹ دیا ہے۔ جہاں چھوٹا موٹا جھوٹ بول کر معاملات کو سنبھالا اور بچایا جاسکتا ہے وہاں تو ’بھرپور سچ‘ کا مظاہرہ کر کے دلوں کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے، اور جہاں حقیقت میں سچ کی تلاش میں معلومات لی جاتی ہیں تو ’کہیں غیبت نہ ہوجائے‘ کا سوچ کر ہم اصل سچ تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور نتیجتاً ایک بڑا نقصان منتظر ہوتا ہے۔ اس طرح ہم محبتوں کو پروان چڑھانے کے بجاے بدگمانیاں بڑھاتے ہیں۔

 جہوٹ سے کیسے بچا جاسکتا ھے؟

  • سب سے پہلے تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ میری وجہ سے کوئی بھی شخص ایسی صورت حال میں نہ پڑے کہ اُسے جھوٹ بولنا پڑے، یعنی ہم کسی کو جھوٹ بولنے پر مجبور نہ کریں۔ سورئہ حجرات میں تجسس نہ کرنے کا حکم اسی لیے ہے کہ دوسروں کے معاملات کی اتنی کُرید اور ٹُوہ نہ کی جائے اور نہ  اتنے سوالات ہی کیے جائیں کہ اُس کو جھوٹ سے کام لینا پڑے۔ بچوں کی تربیت کے معاملے میں بھی یہی طریقہ مناسب ہے کہ اُن کی بات پر اعتماد کریں اور اُنھیں ایسی صورت حال میں نہ لے کر جائیں کہ اُنھیں جھوٹ بولنے کے سوا کوئی راستہ نہ ملے۔
  • اللہ تعالیٰ سے حکمت طلب کریں۔ اس کے لیے پیارے نبیؐ نے جو دعائیں سکھائی ہیں وہ مانگیں تاکہ صورت حال کو سنبھالنے کے لیے جھوٹ کے بجاے حکمت سے کام لیں۔
  • اپنے بزرگوں سے حکمت کی باتیں سیکھیں۔
  • دوسروں کے کیے ہوئے اچھے کاموں کی دل کھول کر تعریف کریں۔ خصوصاً بچوں کی تربیت میں حوصلہ افزائی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ اس طرح اگر کسی کو اپنے کسی اچھے کام پر حوصلہ افزائی ملتی ہے تو وہ خواہ مخواہ جھوٹ سے کام نہیں لے گا۔

قرآن کی اس آیت پر اپنا ایمان پختہ کرلیں کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ کوئی اسے روک نہیں سکتا تو پھر کیوں ہم اپنی جھوٹی عزت بنانے کے لیے ایسے طریقے اختیار کریں جس سے آخرت میں تو رُسوائی ہوگی ہی لیکن دنیا میں بھی سب اس کا تعفن محسوس کرلیں۔ اس لیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سچ اور جھوٹ دنیا میں بھی واضح ہوکر رہنا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔

اپنے ذہن میں اس تصور کو پختہ کرلیں کہ اس دنیا میں جتنی بھی بڑی کامیابی ہو وہ بہرحال اس دنیا کی کامیابی ہے اور آخرت کی بڑی کامیابی کے سامنے اُس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح اس دنیا کی بڑی سے بڑی ناکامی بھی آخرت کی ناکامی کے سامنے ہیچ ہے۔ اس لیے آخرت کی کامیابی کے لیے، دنیا کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اُٹھانا پڑے تو سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے۔

  • ھماری ذمہ داری: ہم اپنے گھر کے اندر اور اجتماعیت کے حوالے سے مختلف حیثیتوں سے مکلف بنائے گئے ہیں اور قیامت کے دن ہم سب سے ہماری رعیت کے بارے میں جواب دہی ہوگی، لہٰذا اپنی اس رعیت کی تربیت کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ جس طرح ہم اپنی ذات سے اس اخلاقی برائی کو نکال باہر کریں، اسی طرح اپنے زیرتربیت افراد کی تربیت کی اُٹھان اور بنیاد بھی اس طرح ڈالیں کہ وہ جھوٹ سے پرہیز کرنے والے ہوں۔

اسلام میں عبادات کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد انسان کی اخلاقی تربیت ہے اور اخلاقی تربیت کی بنیاد ہی جھوٹ سے پرہیز اور سچ کی تلقین ہے۔ اگر ہم دنیا کے کسی بھی چھوٹے اور بڑے فائدے کے لیے بولے جانے والے جھوٹ کو اپنی ذات سے نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آخرت کی کامیابی یقینا ہماری منتظر ہے ہی، اس دنیا میں بھی من حیث القوم ہم پھر سے     نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے نظام کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

تقریباً سات عشرے قبل مولانا مودودیؒ نے تحریکِ اسلامی کا جو بیج بویا تھا، آج وہ ماشا اللہ ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ آج اس درخت کی شاخیں ملک کے گوشے گوشے کے علاوہ    بیرونِ ملک تک پھیل گئی ہیں جن کی ابتدا بھی جماعت اسلامی کے اُسی بنیادی لٹریچر سے ہوتی ہے جس نے اسلام کو سمجھنے اور ہمیں ہمارے مقصدِ زندگی سے روشناس کرانے میں مدد دی، اور مکمل اسلامی نظام کی عمارت کا وہ نقشہ پیش کیا کہ اپنی منزل واضح ہوکر سامنے آگئی۔

مقصد کے حصول کے لیے تنظیم سازی کی گئی اور لامحالہ تنظیم کو چلانے کے لیے چند اصول و ضوابط مقرر کر دیے گئے اور کچھ مطالبات اور تقاضے واضح کردیے گئے جن کو پورا کرنا تنظیم کو چلانے کے لیے ناگزیر ٹھیرا۔ اِن تمام تقاضوں کی فہرست اگر بنائی جائے تو باہمی تعلقات سے شروع ہونے والی یہ فہرست احتساب پر آکر ختم ہوتی ہے، جب کہ ان کے درمیان مشاورت، منصوبہ بندی، اطاعت ِ امر اور رپورٹ سسٹم پر عمل درآمد جیسے مطالبات بھی شامل ہیں۔

یہ تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ بہت اہم ہیں اور تنظیم و تحریک کے لیے کسی ایک چیز کی بھی کمی نقصان دہ ہے۔ جہاں ایک اسلامی تحریک کے ہر کارکن کو اس بات سے واقف ہونا بہت ضروری ہے، وہیں اس بات کا اندازہ ہونا بھی ضروری ہے کہ ان کا حق ہم تب ہی ادا کرسکتے ہیں اور فوائد کو تب ہی پوری طرح سمیٹا جاسکتا ہے جب یہ ایک نظام کے اندر اپنی اپنی روح کے ساتھ موجود ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جسم میں آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پائوں اور دیگر اعضا کی اہمیت ہے۔ ہم آنکھ کو جسم سے الگ کرکے یہ نہیں سوچ سکتے کہ یہ بینائی کا کام کرے گی، یا ہاتھ کاٹ کر یہ خواہش بھی بے معنی ہوجائے گی کہ یہ کٹا ہوا ہاتھ بھی ہمارا کام کرے گا۔ اپنے جسم کے اعضا سے ہم تب ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب وہ اس جسم کا حصہ ہوں، ایک نظام کے تابع ہوں، ایک دل و دماغ کی خواہش اور ارادے کے پیشِ نظر کام سرانجام دیں۔

بالکل اسی طرح کسی تنظیم کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقصد کو عظیم سمجھتے ہوئے تنظیم سے جڑنے والے ہر فرد کے باہمی تعلقات میں اُخوت و محبت ہو، رحمت و شفقت ہو، پھر تمام معاملات مشاورت سے طے کیے جائیں اور ساتھ کارکنان سے اطاعت کا مطالبہ ہو۔ مزیدبرآں کاموں کی بہترین منصوبہ سازی وقت کی ضرورت اور وسائل کا حقیقی تجزیہ کرتے ہوئے کی جائے، رپورٹ کا تمام تر نظام تجزیے کی درست بنیادوں پر ہو اور رہ جانے والی کمیوں اور سرزد ہونے والی انسانی کمزوریوں پر محاسبہ اور آیندہ کے لیے درست لائحہ عمل اور طریقہ وضع کیا جائے تو تنظیم یقینا اپنے مقصد کے حصول میں آگے اور آگے ہی بڑھے گی۔

قیادت کی ذمہ داری

ان تمام چیزوں کو درست بنیادوں پر رکھنا ہی تنظیم کو چلانا ہے جو کہ قیادت کی ذمہ داری ہے۔ قیادت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں نچلی سطح پر تحریکِ اسلامی کے کارکنان کو ایک تنخواہ دار ملازم کی طرح تو نہیں برتا جا رہا اور باقی لوازمات کو پورا کیے بغیر محض اطاعت کا مطالبہ تو نہیں کیا جا رہا۔ اگر ایسا ہو رہا ہو تو یہ ایک طرف تو ایمان و عمل میں دراڑیں لائے گا، جب کہ دوسری طرف تحریک کے قدم آگے بڑھنے کے بجاے آپس کے اختلافات اور ترجیحات کے غلط تعین میں اُلجھ کر اپنا راستہ کھو سکتے ہیں اور سفر کو سُست رفتار بنا سکتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے والے ذہن ماند پڑسکتے ہیں۔ باصلاحیت افراد اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے دوسرے راستے تلاش کرسکتے ہیں۔ اگر اسلام کو سمجھ لیا ہوگا تو اس کی خدمت کے لیے نئے نئے طریقے اور راستے تلاش کریں گے۔ لیکن اگر ناپختہ ذہن کے ساتھ وہ خلفشار کا شکار ہوگئے تو اُن کی تمام صلاحیتیں منفی امور پر استعمال ہوں گی اور غیراسلامی قوتوں کو مہمیز ملے گی۔

اس لیے اس بات کا سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ تنظیم و تحریک کے اندر ان تمام خوبیوں کا ہونا اور ان تمام کو ایک ساتھ برتنا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی ایک چیز کی عدم موجودگی یا عدم توجہی سے جو عدم توازن ہوگا، وہ بگاڑ کی طرف لے جائے گا، بنائو کی طرف ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ انسان پابندیاں تبھی قبول کرتا ہے جب کچھ حقوق اور اختیارات بھی ملیں اور ان کے اظہار اور استعمال کے مواقع بھی۔ اللہ کی بھی یہی سنت ہے۔ نظمِ جماعت کی یہ پابندی بھی چند حقوق اور اختیارات کے ساتھ مشروط ہے۔ انھی حقوق میں ایک حق احتساب کا بھی ہے جو یہ تحریک اپنے ہر کارکن کو دیتی ہے۔ قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسا ماحول بنائے جس میں دریاں بچھانے والا ایک کارکن بھی اپنے قائد کا محاسبہ جرأ ت مندانہ طور پر کرسکے۔ انسانی کاموں میں غلطیوں کا رونما ہونا فطری ہے، البتہ اس پر اصرار نہ صرف غلطی ہے بلکہ بہت بڑی بھول ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔ احتساب اپنی غلطیوں کی نشان دہی، رویوں اور فیصلوں پر نظرثانی کا دوسرا نام ہے۔

تنظیمی کارکردگی کا آڈٹ

جس طرح ہم اپنے بیت المال کے نظام کو عین اسلامی بنیادوں پر شفاف اور صاف ستھرا بناتے ہیں اور ہر سال آڈٹ کراتے ہیں کہ کہیں مال کا لین دین کسی بھول اور غلطی کی نذر نہ ہوگیا ہو اور پائی پائی کے آمدوخرچ کو رسیدوں سے ثابت کرتے ہیں، نیتوں کے اخلاص کے باوجود کچھ طریقے اور اصول وضع کردیے گئے ہیں تاکہ مالیات کا سارا نظام شفاف ہو، بالکل اسی طرح ہمیں چاہیے کہ اپنی تنظیم کا سالانہ بنیادوں پر ٹیکنیکل آڈٹ کریں۔ ہرسطح پر مجلس ہاے شوریٰ کے سالانہ جائزہ اجلاس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ کام کو آگے بڑھانے کے لیے جو اصول و ضوابط اور طریقے مرتب اور مقرر کیے گئے تھے، اُن کا کتنا خیال رکھا گیا۔ کیے گئے فیصلے اور کی گئی منصوبہ بندی کس قدر حقیقی اور جائز بنیادوں پر تھی۔ نیتیں خالص ہونے اور ہر وقت کی دوڑ دھوپ کے باوجود یہ جائزہ ضروری ہے کہ معاملات کو برتنے اور اُصول و ضوابط پر عمل درآمد میں کسی بے حکمتی کا شکار تو نہیں ہوگئے۔ جس طرح شخصیت کی تعمیر میں کبھی کبھی دوسروں کی نظر سے دیکھنا فائدہ مند رہتا ہے، اسی طرح تنظیم اور تحریک کو چلاتے ہوئے دوسروں کی تنقیدی نظر کے نتیجے میں ہونے والے پروپیگنڈے کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ بعض اوقات خود منفی پروپیگنڈے کی تہہ میں بھی ہماری اصلاح کے کچھ پہلو چھپے ہوتے ہیں جن کو تلاش کر کے ہم خوب سے خوب تر ہوسکتے ہیں۔

جب ہم دنیا میں چھوٹے چھوٹے کورسز کرکے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں، ہم ڈرائیونگ سیکھتے ہیں، اپنے بچوں کو کراٹے اور دیگر کھیل کود کی سرگرمیاں سکھاتے ہیں، اپنی بچیوں کو کھانے پکانے اور سلائی کڑھائی کے مختلف کورسز کراتے ہیں تو اس سیکھنے کے عمل میں کئی غلطیاں ہوتی ہیں۔ اُن غلطیوں کو غلطیاں تسلیم کرکے اُن کی اصلاح کی جاتی ہے تاکہ اُس کام میں مہارت حاصل ہوجائے۔ اس لیے اصلاح کے لیے سب سے پہلا قدم غلطی کو غلطی سمجھنا ہے۔ تنظیم میں بھی ہمارا یہی رویہ ہونا چاہیے۔ جب اس میں نئے نئے لوگ آتے ہیں، ذمہ داریاں ملتی ہیں تو ساتھ ساتھ وہ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سیکھنے کے اس عمل میں لامحالہ غلطیاں ہوں گی، اُن کی اصلاح اُسی وقت ہوگی جب اُس غلطی کی تاویل یا جواز پیش کرنے کے بجاے اُس غلطی کو مان لیا جائے۔ اگر ہم غلطیوں پر پردہ ڈالیں گے تو وہ اپنی تربیت نہیں کرسکیں گے جس طرح بچوں کے ساتھ بے جا لاڈ پیار بچے کو بگاڑ دیتا ہے۔ ہمیں غلطی اور عیب کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہیے۔ عیوب پر پردہ ڈالنے کا حکم ہے، جب کہ غلطی کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔

احتساب کیوں؟

محاسبہ یا احتساب کا عمل، آخرت میں کامیابی کے لیے تو ضروری ہے ہی، کہ ہم اپنی اصلاح یہیں کرلیں اور آخرت کی پکڑ سے بچ جائیں، البتہ دنیا میں بھی اپنے مقاصد کے حصول اور منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے احتساب ضروری ہے۔ جس طرح فرد کی زندگی میں آزمایش شرط ہے، اسی طرح تحریک و تنظیم بھی اندرونی اور بیرونی طور پر مختلف حالات و آزمایشوں سے گزرتی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد اللہ نے یہ بتایا ہے کہ کھرے کھوٹے کی پہچان ہوجائے۔  غزوئہ اُحد، غزوئہ خندق، غزوئہ تبوک، واقعۂ افک جیسے واقعات سے آج بھی ایک تحریک گزر سکتی ہے اور ان تمام واقعات کے بعد ان پر قرآن کے تبصرے اور حضوؐر کے طرزِعمل سے ہم بخوبی   سمجھ سکتے ہیں کہ قیادت کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ کس طرح اس ذمہ داری کو ادا کرتی ہے۔

انفرادی محاسبہ اور حکمت

تحریکِ اسلامی کا حصہ ہوتے اور کام کرتے ہوئے انفرادی کوتاہی اور کمزوری کی اصلاح ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اپنے خاندان،اپنے محلے اور اپنے ادارے میں ہمارا ایک ایک فرد اسلام کا ہی نہیں تنظیم کا نمایندہ بھی ہے۔ اُس کے رویے، اُس کے معمولات، اُس کے اخلاق اور اُس کی ساری زندگی میں کسی بھی غلطی کو تحریک و تنظیم کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔

انفرادی محاسبے کی بنیاد ہی ہمدردی اور خیرخواہی ہے۔ اس لیے اس کی غرض اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کا سہارا بن کر خدا کی راہ میں ایک ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آنے والی آزمایشوں کا مقابلہ کریں۔ ایک دوسرے کا دامن صاف کردینے والے ہوں۔ تعلق ایسا ہو کہ ایک رُکے تو دوسرا حوصلہ دے کر اُسے چلا دے۔ ایک گرے تو دوسرا بڑھ کر اُس کا ہاتھ تھام کر اُٹھا لے۔ آج کے دجّالی دورِ فتن میں ایمان کی یہ کمزوری تو ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے۔ تحریک میں شامل افراد کو محاسبے کی یہ فضا بنانی چاہیے۔ اس بات کو مولانا مودودیؒ نے یوں کہا:

جو لوگ خدا کی خاطر کلمۂ حق کی سربلندی کے لیے ایک جماعت بنیں، انھیں ایک دوسرے کا ہمدرد و مددگار اور غم خوار ہونا چاہیے۔ انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے مقصدِ عظیم میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ بحیثیت مجموعی اخلاق اور نظم کے لحاظ سے مضبوط نہ ہوں، اور اس احساس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بنیں اور ان میںسے ہر ایک دوسرے کو سہارا دے کر خدا کی راہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ اسلام میں اجتماعی تزکیے کا طریقہ یہی ہے۔ میں گرتا نظر آئوں تو آپ دوڑ کر مجھے سنبھالیں، اور آپ لغزش کھا رہے ہوں تو میں بڑھ کر آپ کا ہاتھ تھام لوں۔ میرے دامن پر کوئی دھبہ نظر آئے تو آپ اسے صاف کریں اور آپ کا دامن آلودہ ہورہا ہو تو میں اسے پاک کروں۔ (تحریک اور کارکن، ص۱۶۷-۱۶۸)

خیرخواہی اور غم خواری ہوگی تو محاسبہ کرنے کا سلیقہ بھی آئے گا۔ایک صحیح بات اگر غلط طریقے سے کی جاتی ہے تو نہ صرف اپنا اثر کھوتی ہے بلکہ ردعمل کے طور پر ضد اور ہٹ دھرمی بھی پیدا کردیتی ہے۔ اس لیے محاسبے کا ٹھیک طریقے کا سیکھنا بھی ضروری ہے۔ جب کسی شخص کی کوئی بات کھٹکے تو جلدی کرنے کے بجاے معاملے کو اچھی طرح سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ صورت حال کا ہرپہلو سے جائزہ لیں، پھر اکیلے میں اُس سے بات کریں۔ اُس شخص کو اس بات کا احساس دلائیں کہ اُس کے مقام اور مرتبے کی وجہ سے اُس کی یہ چھوٹی غلطی بھی کس قدر نقصان دہ ہے۔ اُس فرد کو اس بات کا یقین دلائیں کہ یہ بات آپ نے اُس سے کہی ہے کسی اور سے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ آپ اُس سے اپنی اصلاح کا وعدہ لے لیں۔ احتساب کے اس عمل سے اُسے اپنی اہمیت کا احساس ہوگا، وہ اپنی تربیت کر کے ایک اچھا داعی بنے گا جو اُس کے لیے، تنظیم کے لیے اور معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

اجتماعی تنقید: غرض اور سلیقہ

اجتماعی تنقید کی بنیاد خیرخواہی اور اصلاح ہے۔ اس حوالے سے مولانا مودودیؒ کہتے ہیں:

اندھے مقلدوں اور سادہ لوح معتقدوں کا گروہ خواہ کیسے ہی صحیح مقام سے کام کا آغاز کرے، اور کیسے ہی صحیح مقصد کو سامنے رکھ کر چلے، بہرحال آخرکار بگڑتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ انسانی کام میں کمزوریوں کا رونما ہونا فطرتاً ناگزیر ہے اور جہاں کمزوریوں پر نگاہ رکھنے والا کوئی نہ ہو، یا اِن کی نشان دہی کرنا معیوب ہو، وہاں غفلت کی وجہ سے یا مجبورانہ سکوت کے باعث ہر کمزوری، سکون و اطمینان کا آشیانہ پاتی چلی جاتی ہے اور انڈے بچے دینے لگتی ہے۔ جماعت کی صحت اور تندرستی کے لیے رُوحِ تنقید کے فقدان سے بڑھ کر کوئی چیز نقصان دہ نہیں، اور تنقیدی فکر کو دبانے سے بڑھ کر جماعت کے ساتھ کوئی اور بدخواہی نہیں ہوسکتی۔ یہی تو وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے خرابیاں بروقت سامنے آجاتی ہیں اور ان کی اصلاح کی سعی کی جاسکتی ہے۔ لیکن تنقید کے لیے شرط لازم ہے کہ وہ عیب چینی کی نیت سے نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ اصلاح کی نیت سے ہو۔ (تحریک اور کارکن، ص ۱۹۰)

ہر سطح کی قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسا ماحول بنائے کہ ایک عام سے کارکن کے لیے سوال کرنا آسان ہو، اس بات سے قطع نظر کہ سوال اور تنقید درست ہے یا غلط۔ حضرت عمرؓ سے بھرے مجمع میں کُرتے کے زائد کپڑے کا سوال تاریخ سے ہمارے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ کسی کے تنقید کرنے پر اس کا محاسبہ کرنا اور گرفت کرنا درست نہیں۔ اس لیے کہ کارکن اُن تمام حالات سے شاید ناواقف ہو جو قیادت کے سامنے ہیں۔ ایک عام کارکن کا دینی علم و فہم بھی قائد کے مقابلے میں کم ہوسکتا ہے۔ اس لیے سمجھنے سمجھانے کا ماحول بنانا، محاسبے پہ محاسبہ کرنے کے بجاے کارکن کو اپنے رویے اور پالیسی پر مطمئن کرنا ذمہ داران ہی کا فریضہ ہے۔ تحریک کے اندر بے چینی کو نہ پھیلنے دینا اور یکسوئی سے اپنے مقصد کی طرف جدوجہد کرتے رہنا ہی قیادت کی کامیابی ہے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب سوال اور تنقید کرنے والوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ بالعموم سوال کرنے والی زبانیں کم ہی ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی معاملے کو اپنی نظر سے دیکھنا، اپنے ذہن کو اُس پر چلانا اور مختلف پہلوئوں پر غور کرنا اور سلیقے سے بات کہنے جیسی خصوصیات کے حامل لوگ شاید پانچ فی صد سے زیادہ نہیں ہوتے۔

دوسری اہم بات جو اجتماعی محاسبے کے لیے بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تحریک اور تنظیم اپنے ہردور میں ایک تاریخ مرتب کر رہی ہے، اس لیے وقت گزر جانے کے بعد بھی اجتماعی غلطیوں کو تسلیم کرنابہت ضروری ہوجاتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور صرفِ نظر کیا گیا تو بعد کی نسلیں کہیں ہماری آج کی کسی غلطی کو مثال نہ بنا لیں (۱۷ویں ترمیم پر سابق امیرجماعت اسلامی محترم قاضی حسین احمد کا قوم سے معافی مانگنا اس کی بہترین مثال ہے)۔

احتساب نہ کرنے کے نقصانات

یہاں پر احتساب نہ کرنے کے نقصانات کو سمجھ لینا بھی ضروری ہے۔ جب ہم کسی خرابی کو محسوس کرتے ہیں خواہ وہ چھوٹی ہوتی ہے یا بڑی، انفرادی ہوتی ہے یا اجتماعی، لامحالہ تین رویے سامنے آئیںگے: ۱- صرفِ نظر کردینا اور غیراہم سمجھنا، ۲- شکایت کرنا، ۳-محاسبہ کرنا۔

اگر ہم بروقت اور درست مقام پر محاسبہ نہ کریں تو لامحالہ یہ ’شکایت‘ کہلائے گی۔ اپنے کسی ساتھی کی شکایت کسی دوسرے ساتھی یا ناظم/ناظمہ سے کردینے کو ہم غیبت اس لیے نہیں سمجھتے کہ ہماری نیت ’اصلاح‘ کی ہوتی ہے، مگر ذرا ٹھیر کر یہ سوچیے کہ کیا یہ طریقہ صحیح ہے کہ جب ہم فرد سے کہنے کا حوصلہ نہیں پاتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بُرا مان جائے گا، یا یہ کہ ہم کیوں اُس کی نگاہ میں بُرے بنیں، اس لیے ہم محاسبے سے اجتناب کرتے ہیں اور شکایات کا رویہ اپناتے ہیں۔ اگر ہم شکایت کا رویّہ نہ بھی اپنائیں تو سوچتے ہیں کہ صرفِ نظر ہی بہتر ہے کہ کون کہے؟ کس سے کہے؟ بہتر ہے کہ خاموش ہی رہا جائے۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے یہاں ٹھیر کر یہ سوچنا پڑے گا کہ اِن خرابیوں اور کوتاہیوں کے بوجھ کے ساتھ آگے بڑھنے سے لوگ کیا بددل تو نہیں ہوں گے؟ تحریک کی توسیعِ دعوت کی جدوجہد کہیں متاثر تو نہیں ہوگی؟ اس لیے پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے احتساب کا۔

احتساب کا طریقہ

محاسبہ کرتے ہوئے ان اصولوں کو پیشِ نظر رکھیے:

۱- ’’برائی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو‘‘۔ (القرآن)

اگر ہم کسی فرد میں، تنظیم میں، کسی چیز کو قابلِ اصلاح سمجھتے ہیں تو سب سے پہلے یہی آیت ہمیں مجبور کرے گی کہ ہم بے ڈھنگے طریقے سے وہ کام نہ کریں۔ ہمارا لہجہ اور الفاظ کا چنائو اس بات کے مظہر ہوں کہ ہم واقعی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ دل میں اخلاص اور فرض سے عشق، احتساب کے عمل کو احسن اور فطری بنائے گا۔

۲- ہم مچھر کو چھاننے اور ہاتھی کو نگلنے والے نہ بنیں۔ فرائض اور بنیادوں کی کمزوری پر کڑا محاسبہ ضروری ہے، جب کہ بشری کمزوریوں کے نتیجے میں جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں اُن پر ذرا سی توجہ سے کام کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔

۳- محاسبہ ہر وقت، ہر مجلس اور ہر مقام پر نہ ہو۔ جس فورم کی بات ہو، وہیں پر کی جائے۔ نہ اُوپر کی بات نیچے ہو، نہ نیچے کی بات بلاضرورت اُوپر۔ پہلے اسی سطح پر درست کرنے کی کوشش کیجیے۔

۴- احتساب کرنے سے پہلے اعتراض کی بنیاد کا واضح ہونا بہت ضروری ہے۔ جس کا اظہار کسی واقعے سے ہوا ہو۔ محض گمان اور سنی سنائی بات پر احتساب سے نقصان اور فساد کا خدشہ ہے۔

۵- انفرادی محاسبے میں کم سے کم احتساب کرنے والے کو اُن باتوں کا احتساب کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو خود اُس فرد میں موجود ہوں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص خود وقت کا پابند نہیں تو اُسے وقت کی پابندی پر دوسروں کا احتساب کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، یا اگر کوئی شخص بھول کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرسکا تو بھول کی یہ رخصت سب کے لیے ہو۔ البتہ اس طرح کی کمزوریوں پر اجتماعی کوششوں اور ایک دوسرے کو یاد دہانی کے ذریعے سے قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اگر آپ کا احتساب کیا جائے

ہم یہ بات مانتے ہیں اور گاہے بہ گاہے اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم بحیثیت انسان غلطیوں کا پتلا ہیں اور یہ کہ انسان ہی سے غلطیاں ہوتی ہیں وغیرہ، مگر حیرت ہے کہ ہم میں سے جب کسی کی بھی کسی غلطی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو ہمیں بُرا بھی لگتا ہے اور فی الفور ہم وضاحتیں پیش کرنے لگتے ہیں۔ ہم اُس وقت بھول جاتے ہیں کہ ہم سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میں بھی بحیثیت انسان غلطی کرسکتا/سکتی ہوں۔

وضاحت اور صفائی پیش کرنا اُس فرد کا حق ہے جس پر تنقید کی جارہی ہو مگر جب بھی کسی کا محاسبہ کیا جائے تو اُس شخص کو چاہیے کہ وہ پوری بات کو تحمل سے سنے۔ جب محاسبہ کرنے والا شخص خاموش ہوجائے تو انصاف کے ساتھ اُس بات پر غور کرنے کے بعد حق بات کو تسلیم کرلے، اور اگر وہ یہ سمجھتا ہو کہ محاسبہ کرنے والے فرد کو کسی قسم کی بدگمانی ہوگئی ہے یا وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہے تو دلائل کی قوت سے تردید کردے اور اپنے اُس طرزِ عمل کی وضاحت کردے جس پر تنقید کی جارہی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے تنقید سن کر طیش میں آجانے کو کبر اور غرور کی علامت گردانا ہے۔

محاسبہ کرنے والے کو اپنا دوست اور ہمدرد سمجھنا چاہیے اور اگر اس کے بعد محبت اور تعلق میں اضافہ ہو تو سمجھ لیجیے کہ اس کا حق ادا ہوگیا لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو تو پھر فکر کرنی چاہیے کہ جس عظیم مقصد اور بلند نصب العین کو لے کر ہم چلے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دلوں کی یہ خرابی دنیا اور آخرت میں ہماری ناکامی کا باعث بن جائے۔