دسمبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

جھوٹ سے بچیں

طلعت ملک | دسمبر ۲۰۱۰ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

آج معاشرے میں جھوٹ اتنا عام ہوگیا ہے کہ اب سچ بولنا اور سچ پر یقین کرنا قریباً ناپید ہے۔ آج اگر کوئی شخص کسی کی بات کو سچ سمجھ کر یقین کرلے تو اس کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے، اور فرض کرلیا گیا ہے کہ سب کچھ جھوٹ ہے، جب تک کہ کوئی سچ ثابت نہ کردے۔ تہذیبوں کی تاریخ میں ہمیشہ سچ کو یہ مقام حاصل رہا ہے لیکن آج ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر جھوٹ کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ جھوٹ بولا، سنا اور برتا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ ہماری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ سیاست سے لے کر تجارت، عدالت اور صحافت سارے کے سارے اداروں کا کاروبار بحیثیت مجموعی اسی سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم۔ اسی وجہ سے اب ہمارے معاشرے میں سماجی طور پر، اور ہمارے گھروں میں خاندانی طور پر، اور ہماری ذات میں انفرادی سطح پر بھی یہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ کسی صاحب ِ ایمان اور صاحب ِ عمل کے لیے بھی اپنا دامن بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ جب ایک بیماری وبا کی طرح عام ہوجائے تو کسی نہ کسی درجے پر ہر انسان اُس کا شکار ہوکر رہتا ہے۔

  • جہوٹ: جھوٹ سے مراد غلط بیانی یا جان بوجھ کر خلافِ واقعہ کوئی بات کہہ دینا ہے۔ اس کے گناہِ کبیرہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہمیں متواتر ایسی احادیث ملتی ہیں جس میں بڑے بڑے گناہوں، یعنی کبائر کے ذکر میں جھوٹ کا ذکر بھی ہے،اور پیارے نبیؐ کی حدیث اور سنت سے ثابت ہے اگر کسی کی اخلاقی تربیت مطلوب ہوتی تو اُس میں سرفہرست جھوٹ کو اُس کی جڑوں کے ساتھ اُکھاڑ پھینکنے کی تربیت تھی۔
  •  جہوٹ کی اقسام:جھوٹ کا چھوٹا یا بڑا ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ اس سے ہونے والا نقصان چھوٹا ہے یا بڑا، انفرادی ہے یا اجتماعی۔ اس لیے ہم اس کو دو اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
  • روز مـرہ زندگی میں جـہوٹ: پہلی قسم میں روزمرہ بولے جانے والے وہ   چھوٹے موٹے جھوٹ شامل ہیں جو ہم صرف اپنے دفاع، اپنے جائز و ناجائز حق کے تحفظ اور اپنی ساکھ کو درست رکھنے اور اپنی جان بچانے کے لیے بولتے ہیں۔ اس قسم کے جھوٹ کے اثرات محض ایک ذات تک محدود ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کو اُس سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے ہم اس کو جھوٹ بھی تصور نہیں کرتے، مثلاً ہمیں کسی جگہ وقت پر پہنچنا ہے اور دیر ہوگئی۔ ہماری سُستی یا بدنظمی کی وجہ سے ہونے والی دیر کو ہم جھوٹ بول کر اپنی پوزیشن کو بچا لیتے ہیں کہ فلاں کام پڑ گیا تھا، اچانک اس وجہ سے دیر ہوگئی۔ اس موقع پر ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔ اسی طرح کوئی کام ہمارے ذمے ہو اور ہم اُس کو درست طور پر نہ کرسکیں یا وقت پر نہ کرسکیں تو بجاے اس کے کہ اپنی کوتاہی کو سمجھیں اور اس کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ کریں عموماً اُلٹی سیدھی وجوہات تلاش کر کے پیش کردیتے ہیں۔ کوئی کام سرے سے کیا ہی نہیں لیکن لکھ دیا یا بول دیا محض اس خاطر کہ ہماری عزت رہ جائے اور سب کے سامنے شرمندگی سے بچ جائیں گے۔

حقیقت میں اگر ہم جائزہ لینا شروع کریں تو ہم ایسے ایسے مواقع پر جھوٹ سے کام لیتے ہیں جہاں اس کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اپنے احباب، رشتہ داروں کے سامنے     شیخی بھگارنا ایک عام بیماری بن گئی ہے۔ یونہی محفل میں رنگ بھرنے کے لیے چند واقعات سنا دینا جس سے وقتی طور پر سب واہ واہ کر اُٹھیں، محض لوگوں کے اندر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے زندگی کے ناکردہ واقعات سنا دینا جن کو اب ثابت نہیں کیا جاسکتا وغیرہ۔ اس معاملے میں خواتین کا تناسب تھوڑا زیادہ ہوجاتا ہے کہ نبی کریمؐ نے معراج کے موقع پر خواتین کو جہنم میں زیادہ دیکھا تو اس کی تصریح یہی فرمائی کہ خواتین زبان کے معاملے میں زیادہ احتیاط نہیں برتتی ہیں۔ غیبت، بدزبانی، جھوٹ اور زیادہ تر اخلاقی برائیوں کا تعلق چونکہ زبان سے ہے اور عموماً خواتین اس کے استعمال میں غیرمحتاط اور جذباتی ہوتی ہیں اسی لیے وہ جہنم میں بھی زیادہ ہوں گی۔

خواتین چونکہ اپنے میکے، شوہر اور بچوں کے معاملے میں حساس ہوتی ہیں اس لیے گھریلو سطح پر جھوٹ کی یہ بیماری رگوں میں سرایت کرگئی ہے۔ میکے اور سسرال میں پیدا ہونے والی مختلف  صورت حال میں جائز اور ناجائز طور پر محض اپنے دفاع کے لیے غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کوئی وجہ نہیں بھی ہوتی لیکن عادتاً ہی جھوٹ بول دیا جاتا ہے۔ بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو اُن کی بے جا تعریف میں اُٹھتے بیٹھتے رشتہ داروں اور سہیلیوں کے سامنے اس کا اظہار اس طریقے سے ہوگا کہ جو کام بیچارے نے نہ بھی کیے ہوں یا اگر کیے بھی ہوں تو بڑھا چڑھا کر اُس کو بیان کرنا۔ اس میں شک نہیں کہ اولاد کی محبت ایک فطری امر ہے اور ہمارا دل بھی کرتا ہے کہ بچے کے اچھے کام کی تعریف اور اُس کی حوصلہ افزائی کریں مگر ہماری چھوٹی سی یہ عادت خاندانوں کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ نکاح اور شادی جس کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اُس کی بنیاد ہی کئی طرح کے جھوٹ پر رکھی جاتی ہے۔ عمر، سلیقہ، اسناد اور تعلیم و تربیت کے متعلق اس قدر جھوٹ بولے جاتے ہیں یا مبالغے سے کام لیا جاتا ہے کہ اصل حقیقت جب بعد میں کھلتی ہے تو اعتماد کی ڈُور ٹوٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سب کچھ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا تو ظاہر ہے رشتے نہیں ہوں گے چاہے بعد میں اُس رشتے کا انجام ہی علیحدگی پر ہو۔ یہ ایک ایسا مروج جھوٹ ہے جو شروع تو ایک ذات سے ہوتا ہے مگر اس کے نقصانات وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتے چلے جاتے ہیں۔

گھریلو سطح پر بولے جانے والا یہ جھوٹ اب ایک نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے افراد اور خصوصاً خواتین کی اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی تربیت کی بھی ضرورت ہے، جس پر اہلِ علم حضرات کو توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ اہلِ مغرب کے مقابلے میں ہم اپنے خاندانی نظام پر فخر کرسکتے ہیں۔ لیکن اب بڑھتی ہوئی طلاقیں اور ناچاقیاں اس نظام کے درپے ہیں۔ اس لیے اس کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ دراصل یہ کثرت سے بولے جانے والے جھوٹ کی ہی بے برکتی ہے جو ہمارے خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔

  • معاشرتی سطح پر جہوٹ: اس قسم کے بولے جانے والے جھوٹ کے اثرات دنیا و آخرت میں محض ہماری ذات تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ہمارے گھر، اجتماعیت بلکہ ملک اور پوری قوم تک پھیلے ہوئے ہوسکتے ہیں۔ اسی کو قرآن کہتا ہے:

وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۲) اور (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔

جس جھوٹ سے کسی کی حق تلفی ہورہی ہو یا کسی کو انصاف نہیں ملتا، اس کی بنیاد پر کوئی ٹھیک اجتماعی فیصلہ اور صحیح راے قائم نہیں کی جاسکتی۔ یہ اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ اس کے نقصانات اجتماعی ہی نہیں ہوتے بلکہ دُوررس بھی ہوتے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دل خدا کے خوف سے خالی اور انسان خدا کی پکڑ سے بے نیاز ہے۔

اس کی بھی کئی شکلیں ہیں، مثلاً بعض اوقات ہم الفاظ سے جھوٹ نہیں بولتے لیکن صحیح بات کو معلوم ہونے کے باوجودچھپا لیتے ہیں، جس سے معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچا جاسکتا اور نتیجہ ایک غلط فیصلے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اجتماعی معاملات خواہ کسی بھی سطح کے ہوں اُس میں حق اور سچ کا ساتھ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ ملکی سطح اور معاشرتی سطح کے بڑے بڑے معاملات، یعنی ہماری سیاست، ہماری عدالتوں میں جھوٹی گواہی، جھوٹے مقدمے، تجارت میں جھوٹ اور دھوکا دہی،  تعلیمی اداروں کی جعلی اسناد، صحافت میں میڈیا کی غلط اور مبہم رپورٹنگ جس سے سچ اور جھوٹ گڈمڈ ہوکر رہ گیا ہے اور ایک عام آدمی کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ یہ سارے جھوٹ آج بولے جارہے ہیں۔ یہ سب کو نظر آرہے ہیں اور من حیث القوم ہم جس عذاب سے گزر رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے۔

  • جہوٹ کا جواز: ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مبالغہ یا جھوٹ اگر جائز ہے تو حدیث کی رُو سے اُس کی دو ہی صورتیں ہیں: ۱- لوگوں کے درمیان مصالحت کرتے ہوئے ۲-میاں بیوی کا ایک دوسرے کی محبت میں مبالغہ۔

اسی طرح سچ بولنے کی اتنی فضیلت ہے کہ غیبت جیسی برائی بھی چند خاص صورتوں میں جائز ہوجاتی ہے، مثلاً مظلوم کی فریاد رسی اور انصاف کے حصول کے لیے، فتویٰ حاصل کرنے کے لیے، اور معاملات کی اصلاح کے لیے اُن لوگوں کے سامنے حال بیان کرنا جو اس کو درست کرنے کے ذمہ دار ہوں (اس سلسلے میں تفصیلی احادیث اور فقہا کا بیان ریاض الصالحین (حصہ اول) میں غیبت کا جواز کے بیان میں دیکھا جاسکتا ہے)۔

ان دونوں قسم کی احادیث کو دیکھتے ہوئے ہم اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ حقیقت میں اخلاق اور معاملات کی درستی مطلوب ہے، اور اسلام، مسلمانوں کے مابین محبتوں کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ اسی لیے محبتوں میں اضافے اور مصالحت کے لیے جھوٹ جیسے گناہِ کبیرہ کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم نے چیزوں کو اُلٹ دیا ہے۔ جہاں چھوٹا موٹا جھوٹ بول کر معاملات کو سنبھالا اور بچایا جاسکتا ہے وہاں تو ’بھرپور سچ‘ کا مظاہرہ کر کے دلوں کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے، اور جہاں حقیقت میں سچ کی تلاش میں معلومات لی جاتی ہیں تو ’کہیں غیبت نہ ہوجائے‘ کا سوچ کر ہم اصل سچ تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور نتیجتاً ایک بڑا نقصان منتظر ہوتا ہے۔ اس طرح ہم محبتوں کو پروان چڑھانے کے بجاے بدگمانیاں بڑھاتے ہیں۔

 جہوٹ سے کیسے بچا جاسکتا ھے؟

  • سب سے پہلے تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ میری وجہ سے کوئی بھی شخص ایسی صورت حال میں نہ پڑے کہ اُسے جھوٹ بولنا پڑے، یعنی ہم کسی کو جھوٹ بولنے پر مجبور نہ کریں۔ سورئہ حجرات میں تجسس نہ کرنے کا حکم اسی لیے ہے کہ دوسروں کے معاملات کی اتنی کُرید اور ٹُوہ نہ کی جائے اور نہ  اتنے سوالات ہی کیے جائیں کہ اُس کو جھوٹ سے کام لینا پڑے۔ بچوں کی تربیت کے معاملے میں بھی یہی طریقہ مناسب ہے کہ اُن کی بات پر اعتماد کریں اور اُنھیں ایسی صورت حال میں نہ لے کر جائیں کہ اُنھیں جھوٹ بولنے کے سوا کوئی راستہ نہ ملے۔
  • اللہ تعالیٰ سے حکمت طلب کریں۔ اس کے لیے پیارے نبیؐ نے جو دعائیں سکھائی ہیں وہ مانگیں تاکہ صورت حال کو سنبھالنے کے لیے جھوٹ کے بجاے حکمت سے کام لیں۔
  • اپنے بزرگوں سے حکمت کی باتیں سیکھیں۔
  • دوسروں کے کیے ہوئے اچھے کاموں کی دل کھول کر تعریف کریں۔ خصوصاً بچوں کی تربیت میں حوصلہ افزائی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ اس طرح اگر کسی کو اپنے کسی اچھے کام پر حوصلہ افزائی ملتی ہے تو وہ خواہ مخواہ جھوٹ سے کام نہیں لے گا۔

قرآن کی اس آیت پر اپنا ایمان پختہ کرلیں کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ کوئی اسے روک نہیں سکتا تو پھر کیوں ہم اپنی جھوٹی عزت بنانے کے لیے ایسے طریقے اختیار کریں جس سے آخرت میں تو رُسوائی ہوگی ہی لیکن دنیا میں بھی سب اس کا تعفن محسوس کرلیں۔ اس لیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سچ اور جھوٹ دنیا میں بھی واضح ہوکر رہنا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔

اپنے ذہن میں اس تصور کو پختہ کرلیں کہ اس دنیا میں جتنی بھی بڑی کامیابی ہو وہ بہرحال اس دنیا کی کامیابی ہے اور آخرت کی بڑی کامیابی کے سامنے اُس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح اس دنیا کی بڑی سے بڑی ناکامی بھی آخرت کی ناکامی کے سامنے ہیچ ہے۔ اس لیے آخرت کی کامیابی کے لیے، دنیا کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اُٹھانا پڑے تو سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے۔

  • ھماری ذمہ داری: ہم اپنے گھر کے اندر اور اجتماعیت کے حوالے سے مختلف حیثیتوں سے مکلف بنائے گئے ہیں اور قیامت کے دن ہم سب سے ہماری رعیت کے بارے میں جواب دہی ہوگی، لہٰذا اپنی اس رعیت کی تربیت کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ جس طرح ہم اپنی ذات سے اس اخلاقی برائی کو نکال باہر کریں، اسی طرح اپنے زیرتربیت افراد کی تربیت کی اُٹھان اور بنیاد بھی اس طرح ڈالیں کہ وہ جھوٹ سے پرہیز کرنے والے ہوں۔

اسلام میں عبادات کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد انسان کی اخلاقی تربیت ہے اور اخلاقی تربیت کی بنیاد ہی جھوٹ سے پرہیز اور سچ کی تلقین ہے۔ اگر ہم دنیا کے کسی بھی چھوٹے اور بڑے فائدے کے لیے بولے جانے والے جھوٹ کو اپنی ذات سے نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آخرت کی کامیابی یقینا ہماری منتظر ہے ہی، اس دنیا میں بھی من حیث القوم ہم پھر سے     نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے نظام کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔