مسافر تباہ حال بستی سے گزرا تو پکار اٹھا: اب بھلا اس اوندھے منہ پڑی، کھنڈر بستی کو کیسے دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا؟ خالق نے کہا: خود ہی مشاہدہ کرلو، فوراً اسے اور اس کی سواری کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ پورے ۱۰۰ سال مُردہ حالت میں گزر گئے۔ پھر خالق نے اپنی قدرت سے مُردہ جسم میں دوبارہ روح پھونکی اور پوچھا: کیا خیال ہے کتنا عرصہ گزر گیا؟ ۱۰۰ سال تک مردہ پڑے رہنے والے مسافر نے کہا: ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ خالق نے بتایا: تم نے پورے ۱۰۰ سال گزار دیے۔ اب میری قدرت کا ایک اور مظہر دیکھو۔ تمھارا گدھا بھی ۱۰۰ برسوں میں پیوند خاک ہوگیا ہے ،لیکن تم اپنے ساتھ جو کھانا لے کر جارہے تھے وہ جوں کا توں پڑا ہے، باسی تک نہیں ہونے دیا گیا۔ اور اب دیکھو ہم تمھارے گدھے کو کیسے زندہ کرتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے راکھ بنی ہڈیوں کا ڈھانچا کھڑا ہوگیا، پھر ان پر ماس اور چمڑا مڑھ دیا گیا، تازہ دم سواری پھر سے تیار تھی۔ مسافر پکار اٹھا: پروردگار! میں بخوبی جان گیا کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
سورہء بقرہ میں تفصیل سے بیان کیے گئے اس واقعے سے کئی اسباق حاصل ہوتے ہیں، لیکن ایک اہم حقیقت جو اس منظر کی طرح دیگر کئی قرآنی مناظر سے بھی واضح ہوتی ہے یہ ہے، کہ گزرا ہوا وقت جتنا بھی طویل کیوں نہ ہو، مختصر ہی محسوس ہوتا ہے۔ بندہ اس حقیقت کا مشاہدہ و اظہار آخرت میں بھی کرے گا اور قرآن کریم کے الفاظ میں یہی تکرار کرے گا: ’’پروردگار! ہم تو دنیا میں ایک آدھ روز ہی گزار کر آئے ہیں‘‘۔ ’’ہم تو بس اتنی دیر دنیا میں رہے کہ ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرسکے‘‘، ’’بس چند ساعتیں ہی گزاری ہیں‘‘، ’’صرف چاشت کی کچھ گھڑیاں گزریں‘‘۔ حالانکہ ان سب لوگوں نے معمول کی زندگی گزاری ہوگی اور ان میں سے ایک بڑی تعداد کی پیٹھ پر گناہوں کا خوف ناک انبار لدا ہوگا۔
گزرا وقت مختصر لگنے اور گزرنے والا وقت تیز رفتار ہونے کا مشاہدہ ،انسان کو دنیا میں بھی ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ جتنی بھی عمر گزر جائے، آنکھیں بند کرکے دیکھیں تو کل کی بات لگتی ہے۔ ابتدائی بچپن کی یادیں، بھولے بسرے مناظر، گاہے اچانک مجسم صورت میں سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر وقت کا حساب کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ --- اچھا --- اتنا عرصہ گزر گیا۔
تازہ مثال دیکھ لیجیے، ابھی کل ہی ساری دنیا میں نئی صدی کے آغاز کا غلغلہ تھا۔ نئے ہزاریے، نئے ملینیم اور اکیسویں صدی کے بارے میں مختلف تجزیے اور تبصرے کیے جارہے تھے۔ طرح طرح کے دعوے، خدشے اور منصوبے سامنے آرہے تھے۔ وقت کی ایک ہی کروٹ میں آج ہم اس صدی کے پہلے ۱۰ سال پورے کرچکے ہیں۔ یکم جنوری ۲۰۱۰ء میں موجود ہر شخص ،آج صدی کا پہلا عشرہ مکمل کرچکا ہے۔ پل جھپکنے میں گزرنے والے اس عرصے کا مطلب ہے، ہم میں سے ہرشخص نے نئے ہزاریے کے ۳ہزار ۶ سو ۵۲ دن گزار لیے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ اطلاع دے دی تھی کہ ’’ایک وقت آئے گا کہ سال مہینے کی طرح گزر جائے گا۔ مہینہ ہفتے کی طرح، ہفتہ ایک دن اور ایک دن ایک ساعت کی طرح گزرتا دکھائی دے گا‘‘۔ (احمد، ترمذی)
تیزی سے گزرتا یہ وقت ہی انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے، لیکن انسان اسی قیمتی متاع کے بارے میں ہی سب سے زیادہ غافل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور ارشاد کے مطابق: ’’اللہ کی عطا کردہ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میںاکثر لوگ دھوکے کا شکار ہیں: ’’صحت اور وقت فرصت‘‘۔ صحت کی نعمت بھی اسی وقت قیمتی لگتی ہے، جب بندہ اس سے محروم ہونے لگے۔ ایک عرب محاورے کے مطابق صحت، صحت مندوں کے سر پر ایک ایسا تاج ہے جو صرف بیماروں کو دکھائی دیتا ہے۔ اور وقت کے بارے میں عرب شاعر کہتا ہے ؎
دقات قلب المرء قائلۃ لہ
إن الحیاۃ دقائق و ثوان
(دل کی دھڑکنیں بندے کو ہر دم یہی سمجھا رہی ہیں کہ زندگی تو فقط یہی منٹ اور ثانیے ہیں۔ ہر طلوع ہونے والا دن مخلوق میں منادی کرتا ہے۔)
یا ابن آدم أنا خلق جدید، و علي عملک شہید، فتزود مني، فانی اذا مضیت لا أعود الی یوم القیامۃ ’’اے ابن آدم! میں نئی تخلیق ہوں۔ میں تمھارے عمل پر گواہ بنایا گیا ہوں۔ تم مجھ سے جتنا استفادہ کرسکتے ہو کرلو۔ میں چلا جاؤں گا تو پھرقیامت تک واپس نہیں لوٹوں گا‘‘۔ صرف یہی نہیں بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتادیا کہ تیزی سے گزرنے والے ان لمحات کے بارے میںہر انسان جواب دہ ہوگا۔روز محشر کسی شخص کو تب تک قدم نہیں ہٹانے دیے جائیں گے جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ جو مہلت عمر تمھیں دی گئی تھی، وہ کہاں فنا کی؟ عرب شاعر پھر یاد دلاتا ہے:
یسر المرء ما ذھب اللیالی
و کان ذھابہن لہ ذھابا
(بندہ خوش ہوتا ہے کہ روز و شب گزرگئے حالانکہ ان کا گزرنا خود بندے کا اپنی ہستی سے گزرتے چلے جانا ہے۔)
نئی صدی کے پہلے ۱۰ برس پلک جھپکتے مکمل ہوگئے۔ لیکن اگرسرسری سا جائزہ بھی لیں تو اس دوران عالمی، علاقائی اور ملکی سطح پر بہت بڑی بڑی تبدیلیاں روپذیر ہوچکی ہیں۔ نائن الیون کے بعد ایک نئی دنیا وجود میں آچکی ہے۔ اس نئی دنیا میں الفاظ کے معانی، اصطلاحات کے مفہوم اور روایات و اقدار سے لے کر، مختلف عالمی بلاک، ملکوں کے نقشے اور اپنے عہد میں سیاہ و سفید کے مالک بہت سے اصحاب اقتدار تک تبدیل ہوچکے ہیں۔ خود کو سپریم اور اکلوتی عالمی قوت سمجھنے والا امریکا، عراق اور افغانستان میں اپنا نشۂ قوت ہرن کروا چکا ہے۔ یہ اور بات کہ خود فریبی اورجھوٹی انا اب بھی اسے اعترافِ جرم و شکست سے روک رہی ہے، لیکن یہ حقیقت نوشتۂ دیوار ہے کہ اگر امریکی انتظامیہ نے خدائی کے جھوٹے زعم سے نجات نہ پائی تو بہت جلد ریاست ہاے متحدہ امریکا بھی سلطنتوں کے قبرستان میں برطانیہ عظمیٰ اور آنجہانی سوویت یونین کی طرح ماضی کی علامت بنا دکھائی دے گا۔ معاملہ صرف امریکا ہی کا نہیں، خود یورپ اور ناٹو سے لے کر عراق اور افغانستان کے پڑوسی ملکوں تک، سب بری طرح خاک و خون میں لتھڑ چکے ہیں۔ عالمی اقتصادی بحران کا کوڑا بھی سب کی کمر پر سڑاک سڑاک برس رہا ہے۔ پیٹرو ڈالر کے بلند مینار بنانے کی دوڑ میں لگی، کئی صحرائی ریاستیںسکتے کا شکار ہو گئی ہیں۔
مختلف معاشی، سیاسی اور معاشرتی بحرانوں کی فہرست طویل ہوسکتی ہے ، لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی بہت اہم ہے۔ اسی عشرے میں مفلوک الحال افغانوں، بے نوا فلسطینیوں اور کس مپرسی کے شکار عراقیوں نے مزاحمت، جدوجہد اور جہاد کے الفاظ کو نئے مطالب عطا کیے ہیں۔ ۶۳ سال سے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں نے بھی ثابت کردیاہے کہ جب اپنے بھی منہ موڑ لیں، تب بھی عزم و ارادے اور جذبۂ آزادی کی حفاظت کیوں کر کی جاتی ہے۔ غزہ میں محصور ۱۵ لاکھ فلسطینیوں نے حقوق انسانی کے جھوٹے دعویداروں کے مکروہ چہرے سے مکر و فریب کا پردہ نوچ ڈالا ہے ۔ بچوں، بوڑھوں اور خواتین نے بھی دنیا کو سکھادیا ہے کہ زندگی کی تمام راہیں مسدود کردی جائیں، تب بھی صرف اور صرف اللہ کے سہارے کیسے جیا اور آگے بڑھا جاتا ہے۔ اسی عشرے میں پاکستان کو تباہ کن زلزلے اور صدی کے بدترین سیلاب سے بھی دوچار ہونا پڑا، لیکن قیامت کی ان گھڑیوں میں اہل پاکستان نے من حیث القوم زندگی اور اسلامی اخوت کا ثبوت دیا۔
تصویر کے یہ دونوں رخ ،اور ان کے بہت سارے مزید پہلو بہت اہم ہیں۔ لیکن ہم اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو ہمارا ملک، قوم اور امت سب سنگین بحرانوں کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ہم ان بحرانوں کے اسباب کا جائزہ لے کر مختلف شخصیات حکومتوں اور سیاسی و دینی پارٹیوں میں سے ان کے ذمہ داران کا تعین بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ قوم، ملک اور امت آخر کیسے تشکیل پاتے ہیں___؟ کیا افراد کے بغیربھی کوئی قوم یا امت تشکیل پاسکتی ہے؟ تو پھر کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سب کو ہمیشہ دوسروں کے سر ذمہ داری ڈالنے اور تباہی کا رونا رو کر بیٹھ جانے کے بجائے، فرداََ فرداََ میدان میں آنا ہوگا۔ فرد میں بھی ہوں، آپ بھی ہیں، آپ کے اہل خانہ، دوست احباب، اہل محلہ، اہل علاقہ___ یہی سب افراد بالآخر قوم اور امت کی تشکیل کرتے ہیں۔
اگرہم میں سے ہرفرد سوچے، ہر فرد اس بات کاجائزہ لے کہ جتنی عمر گزر گئی، اس میں ایک فرد کی حیثیت سے اس نے اصلاح و نجات کی خاطر کیا کیا؟ حالیہ دس برس ہی کو دیکھ لیجیے۔ ہم ذرا دیکھیں کہ ان ۳ ہزار ۶ سو ۵۲ دنوں میں ہم میں سے ہر فرد نے کیا کارنامہ انجام دیا؟___ اپنے اور اپنے اردگرد بسنے والے ’افراد‘ کے دل میں کتنا احساس زیاں پیدا کیا___؟ اسی سوال کے جواب میں ہماری بہت سی مصیبتوں کا علاج چُھپا ہوا ہے۔
آئیے ۱۰ سال کے اس عرصے کی اہمیت، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی معروف حدیث میں فرمایا: کلمتان خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی المیزان، حبیبتان إلی الرحمن، تملآن ما بین السماء و الأرض، دو کلمے ایسے ہیں کہ ادا کرنے میں انتہائی آسان و مختصر، لیکن قیامت کے روز میزان میں انتہائی وزنی، رحمن کو انتہائی محبوب، اور اپنے اجر و ثواب سے زمین و آسمان کے مابین پوری فضا کو بھر دینے والے ہیں۔ اور وہ دو کلمے ہیں: سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم۔ خود کو اللہ کے سامنے کھڑا محسوس کرکے، سکون و اطمینان کے ساتھ یہ تسبیح ادا کرنے میں زیادہ سے زیادہ چھے سیکنڈ لگتے ہیں۔ کیا ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ ۱۰ سال میں ہم رب ذو الجلال سے کیا اور کتنا کچھ حاصل کرسکتے تھے۔
آج اتفاق سے ہجری اور عیسوی دونوں برسوں کا اختتام اور نئے برس بلکہ نئے عشرے کا آغاز ہورہا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر فرد یہ فیصلہ کرلے کہ اس نے صرف اللہ کا بندہ بن کر رہنا ہے، اسے سب کی بھلائی چاہنا ہے، سب کے لیے سراسر خیر ثابت ہونا ہے، ہر حرام سے بچنا ہے، رب ذوالجلال، اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب مجید کی محبت کو دیگر تمام محبتوں پر غالب کردینا ہے، اس کو اپنی تمام ذمہ داریاں تن دہی اور جاں فشانی سے انجام دینا ہیں، خود ہی اس راہ پر نہیں چلنا، جہاں تک آواز پہنچتی ہے، خیر کی اس آواز کو پہنچانا اور عام کرنا ہے، اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی وقت کا ایک ایک لمحہ رب کی قربت کا مستحق بننے کی سعی کرنا ہے___ اگر ہم میں سے ہرفرد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر شہری اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر امتی یہ پختہ فیصلہ کرلے___ پھر اللہ سے استعانت طلب کرتے ہوئے ،اس پر عمل شروع کردے تو یقینا… یقینا… یقینا آیندہ آنے والا وقت ہمارا ہوگا،اور آخرت کی سرخروئی اس سے بھی پہلے یقینی ہوجائے گی۔