دراصل فطرت کے نظام میں اور انسانی تاریخ کے بازار میں اصل کامیابی حق اور نیکی ہی کے لیے مقدر ہے، یہی وجہ ہے کہ باطل اور برائی کے سوداگر جب بھی اپنا مال لاتے ہیں تو اس کو حق اور نیکی کے رنگ میں رنگ کر لاتے ہیں۔ وہ جھوٹ کو لاتے ہیں لیکن سچائی کے لیبل کے ساتھ، وہ ذلت کو لاتے ہیں لیکن عزت کے سائن بورڈ کے ساتھ، وہ شر کو لاتے ہیں لیکن خیر کے ٹریڈمارک کے ساتھ، وہ مفاد پرستی کو لاتے ہیں لیکن خدمت کا عنوان دے کر، وہ مضرت کو لاتے ہیں لیکن افادیت کا رنگ روغن چڑھا کر!
نیکی اپنے نام کے ساتھ آتی ہے، بدی کے نام کے ساتھ نہیں آتی، لیکن دوسری طرف بدی کبھی اپنے نام کے ساتھ نہیں آتی، نیکی کے نام کے ساتھ آتی ہے۔ خیر ٹھیک ٹھیک اپنے روپ میں آتا ہے، شر کے روپ میںنہیں آتا، لیکن شر اپنے روپ میں نہیں آتا بلکہ خیر کے روپ میں آتا ہے۔ حق پوری طرح بے نقاب ہوکر نمودار ہوتا ہے، اپنے چہرے پر باطل کی نقاب نہیں ڈالتا، لیکن باطل میں بے نقاب ہوکر آنے کی جرأت نہیں، وہ مجبور ہے کہ حق کی نقاب اوڑھ کر آئے۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حق اور نیکی ہی کے لیے اصل کامیابی ہے۔ وہ خود تو کجا ان کا نام بھی اتنا کامیاب ہے کہ باطل اور بدی بھی اسی نام کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس نام کا سہارا لیے بغیر وہ یکسر ناکام ہیں۔ باطل اور بدی کا حق اور نیکی کے نام یا روپ کو استعمال کرنا خود اس بات کی شہادت ہے کہ بازارِ حیات میں سارا فروغ حق اور نیکی کے لیے ہے۔
رہی یہ بات کہ حق کے روپ میں جو باطل لایا گیا ہو اس سے کتنے گاہک دھوکا کھا گئے یا نیکی کے لیبل سے جو بدی پیش کی گئی تھی اس سے کتنے خریداروں کی نظربندی ہوگئی، اس سے حق کی قدروقیمت اور نیکی کی کامیابی اور مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اگر کسی بازارِ صرافہ میں ہزاروں گاہک بھی روزانہ ملمع کی انگوٹھیاں سونے کے بھائو خرید لے جائیں تو اس سے سونے کی کامیابی، ناکامی سے اور پیتل کی کم قدری، قیمت کی گرانی سے نہیں بدل جاتی۔ کامیابی اور ناکامی تو ساری خریداروں کی ہوگی کہ وہ کھرے اور کھوٹے کی تمیز کرنے میں چابک دستی دکھاتے ہیں یا کوتاہی! (’حق اور باطل‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۵، عدد۲، صفر ۱۳۷۰ھ، دسمبر ۱۹۵۰ئ، ص۱۸-۱۹)