دسمبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| دسمبر ۲۰۱۰ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

احمد علی محمودی ، بہاول پور

علامہ عنایت اللہ گجراتیؒ، ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ (نومبر ۲۰۱۰ئ) صاحبانِ علم و فضل کا تذکرہ نظر سے گزرا۔ بلاشبہہ یہ علم و تقویٰ، حسنِ اخلاق، صبر واستقامت کا پیکر اور اُمت مسلمہ کا عظیم سرمایہ تھے۔ ان کے   دنیا سے رخصت ہوجانے سے مذہبی، علمی و ادبی حلقوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے شاید یہ کبھی پُر نہ ہو۔


محمد عبداللّٰہ ،خوشاب

’مغرب میں مطالعہ اسلام‘ (نومبر ۲۰۱۰ئ) پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ فاضل مصنفہ نجیبہ عارف زیرتبصرہ کتاب کے مصنف کارل ارنسٹ کے اس دعوے سے اختلاف کا اظہار کرتی ہیں کہ ’’قرونِ وسطیٰ میں عیسائیوں کی نسبت یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان زیادہ قریبی تعلقات رہے ہیں‘‘ (ص ۶۴)۔ گذشتہ دنوں جامعہ دارالاسلام، خوشاب کے دو طلبہ ترک حکومت کے اسکالرشپ پر ترکی کے شہر ازمیر پہنچے تو ازمیر کی تاریخ کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ ترکی کا تیسرا بڑا شہر ہے اور استنبول کے بعد ملک کی دوسری بڑی بندرگاہ یہاں ہے۔ اس شہر کی ایک وجۂ شہرت ۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کا بھی بڑی تعداد میں جلاوطن ہوکر ازمیر میں آبسنا ہے۔ اس تاریخی حقیقت سے ارنسٹ کے نقطۂ نظر کو اس حد تک تقویت ملتی ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ ذمی رعایا خصوصاً یہود کے حقوق کا احسن انداز میں خیال رکھا اور رواداری برتی۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ اہلِ یہود نے جب بھی موقع ملا فائدہ اٹھایا اور اٹھارھویں صدی کے انگریز، اطالوی، فرانسیسی، ولندیزی استعمار کے دست و بازو بنے اور فلسطین کا نہ صرف مطالبہ کیا بلکہ اس پر قابض ہوکر بیٹھ گئے۔ بلاشبہہ اس مضمون سے غوروفکر کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔


اسامہ مراد ،کراچی

’رسائل و مسائل‘ (نومبر ۲۰۱۰ئ) میں ’’حقوق العباد اور عبادات میں ترجیح‘‘ کا موضوع بہت اہم اور روزمرہ زندگی سے متعلق ہے۔ جنگ کی حالت میں بھی نماز اپنے وقت پر پڑھنے کا طریقہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ اس سے حالت ِ جنگ تک میں جماعت کی اہمیت واضح ہورہی ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد نماز سے غفلت برتتی اور دنیوی امور کو ترجیح دیتی ہے۔ اگر سب مسلمان نماز باجماعت ادا کریں تو مسجدوں میں نمازکے لیے جگہ نہ ملے۔ تحریکی حلقوں میں بھی اجتماعات اور مصروفیات کی وجہ سے مسجد میں نمازِ باجماعت کی طرف سے لاپروائی برتی جاتی ہے اور پروگرام کے بعد نماز کی ادایگی کا اعلان ہوتا ہے جس میں کم تعداد شرکت کرتی ہے۔ پھر یہ کہ تکبیر اولیٰ کے ساتھ کتنے شرکت کرتے ہیں___ اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔


عبدالرؤف ،بہاول نگر

’مجالسِ حرم‘ (اکتوبر ۲۰۱۰ئ) سے ترکی کے حالات سے آگہی ہوئی۔ یہ امرخوش آیند ہے کہ اسلامی تحریک کے حامی لوگوں کے دورِ اقتدار میں ملک نے مروجہ پیمانوں پر ترقی کا سفر بھی جاری رکھا ہے (ص ۸۲)، اور  ریفرنڈم میں ۵۸ فی صد ووٹوں کا حصول بھی جمہوری انقلاب کی بڑی واضح مثال ہے۔ مقصد کے حصول کے لیے جو جدوجہد ۱۹۷۰ء میں شروع ہوئی، آج ۲۰۱۰ء میں کئی ناموں اور قائدین کی تبدیلی اور مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی اہم اہداف کے حصول پر منتج ہوئی ہے۔ اس تناظر میں ہمارے ملک کی اسلامی تحریک کے لیے بھی سبق ہے۔ کیا ہم بھی اپنے آپ کو عوام کے اعتماد کا حق دار ٹھیرا چکے ہیں، یا کسی مرحلے پر عوام میں ہم بھی زیربحث ہیں کہ اس ملک میں ترقی اور تبدیلی کا سفر اسلامی تحریکوں کے ساتھ چل کر ہی طے ہوسکتا ہے؟


افشاں نوید ،کراچی

سیلاب زدگان کے کیمپوں میں کام کرتے ہوئے چشم کشا حقائق سامنے آئے کہ لوگ دینی و دنیاوی ہر طرح کی تعلیم سے محروم ہیں (یا رکھے گئے ہیں)۔ ان کی سوچ بس ضروریات کے حصول اور پیٹ بھرنے تک ہی محدود ہے۔ دین کا فہم نہ ہونے کے باعث اخلاقی خرابیاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں، بالخصوص حیا کا فقدان اور صفائی کا شعور نہ ہونا۔ بچوں کو سلام کرنا اور سلام کا جواب تک دینا نہ آتا تھا۔ قاسم آباد (حیدرآباد) کے ایک گنجان کیمپ میں معلوم ہوا کہ صرف ایک بچی کو قرآن پڑھنا آتا ہے۔ میں نے بچی سے استفسار کیا کہ اسے کس نے سکھایا؟ اس نے کہا: ساتھ والے گھر میں استانی رہتی ہیں۔ جب ان سے درخواست کی کہ کیمپ کی عورتوں کو نماز اور قرآن کی ابتدائی تعلیمات آپ دیں، تو انھوں نے یہ روح فرسا انکشاف کیا کہ اس کیمپ میں مرد عورتوں کو ہمارے حوالے نہیں کرتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کو دین کی تعلیمات کا پتا چلے۔ یہ خود اپنی عورتوں کو جاہل رکھتے ہیں، اس لیے کہ یہ خود بھی جاہل ہیں۔ اگر یہ خود جاہل نہ ہوتے تو وڈیروں اور جاگیرداروں کی غلامی کیوں قبول کرتے___اس خاتون کا یہ دردمندانہ تجزیہ ہمیں بھی کچھ سوچنے اور آیندہ کا لائحہ عمل بنانے پر مجبور کرتا ہے۔


عطاء الرحمٰن ،قصور

امریکی سامراج کی اُمت مسلمہ کے خلاف سازشوں کے مختلف حربوں میں سے ایک حربہ فرقہ واریت کو ہوا دینا اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ صوفیاے کرام کے مزاروں پر حملے اسی سازش کا شاخسانہ ہیں۔ امریکا کی اس سازش کو قومی یک جہتی سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کی قیادت چند بنیادی نکات پر اتفاق راے اور ملّی یک جہتی کا مظاہرہ کرے۔