اچھی حکومت کسی بھی معاشرے کے لیے نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ امن و امان اور عدل و انصاف کے قیام کے ساتھ عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ان کو مشکلات سے نکلنے میں مدد اور رہنمائی فراہم کرتی ہے اور اسے ہر دوسری سرگرمی پر اوّلیت دیتی ہے۔ لیکن آج جمہوریت کے نام پر جو زرداری- گیلانی حکومت ملک کے سیاہ و سپید کی ذمہ دار بنی ہوئی ہے، اس کا امتیازی وصف حکمرانی کا فقدان، عوامی مسائل سے غفلت، بیرونی عناصر کی کاسہ لیسی، کرپشن کا فروغ، حکومت کے ہر شعبے میں نااہلی اور نااہلوں کی سرپرستی، اور ملکی مفادات کو نظرانداز کرکے اپنے ذاتی اور گروہی اہداف کے حصول میں سرگرمی ہے۔ حکومت چلانے کے یہ انداز اور اطوار جمہوریت کے ماتھے پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اس کے مستقبل کے لیے خطرہ ہیں۔ حالات تبدیلی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور وقت اس امر کا تقاضا کر رہا ہے کہ تمام محب ِ وطن عناصر جو ملک میں بیرونی مداخلت کا باب بند کرنا، فوج کو اس کے دفاعی کردار تک محدود رکھنا اور عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب کرنا چاہتے ہیں، شخصی اور جماعتی سطح سے بلند ہوکر ملک اور جمہوریت کی بقا کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔
اس عمل کا نقطۂ آغاز ان تین نئے ٹیکسوں کے باب میں مشترک لائحہ عمل کی شکل میں ہوسکتا ہے، جن کے ذریعے اس ماہ حکومت نے اپنے ہی عوام کو معاشی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ سینیٹ کے ارکان کی اکثریت نے جس طرح ان ٹیکسوں کو رد کیا ہے، وہ معاشی اور سیاسی دونوں محاذوں پر ایک نئی تحریک اور قومی حکمت عملی کی تشکیل اور اس کے حصول کے لیے صف بندی کے لیے فتح باب کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
حکومت نے ۱۲ نومبر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جنرل سیلزٹیکس (GST)کا ایک نیا قانون جو دراصل VAT کے اصول پر مبنی ہے اور ایک مالیاتی بل پیش کیا ہے جس کے ذریعے سیلاب زدگان کے لیے سرچارج کے عنوان سے تمام انکم اور کورپوریٹ ٹیکس ادا کرنے والوں پر چھے ماہ کے لیے ۱۰ فی صد ٹیکس کا اضافہ کیا ہے اور ایکسائز ڈیوٹی میں ۱۰۰فی صد اضافہ کیا ہے، یعنی ایک فی صد سے بڑھا کر اسے۲ فی صد کر دیا گیا ہے۔
۱- حکومت کا جو معاہدہ آئی ایم ایف سے ہے، اس کے تحت مزید قرضے صرف اس صورت میں مل سکتے ہیں جب یہ ٹیکس عائد کیے جائیں۔ اس لیے معیشت کی گاڑی کو آگے چلانے، سرکاری اخراجات اور تنخواہوں تک کی ادایگی کو جاری رکھنے اور مزید قرض لینے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
۲- ملک میں مجموعی قومی پیداوار (GDP) اور ٹیکس کا تناسب خطرناک حد تک کم ہے، یعنی ۳ئ۹ فی صد، جب کہ دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں یہ شرح ۱۷ سے ۲۰ فی صد اور ترقی یافتہ ممالک میں ۳۰، حتیٰ کہ ۴۰ فی صد تک ہے۔ حکومت کو چلانے اور ترقیاتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافہ ناگزیر ہے اور یہ ٹیکس اس سمت ایک مثبت قدم ہے۔ پھر حالیہ سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے صرف اس کے متاثرین کی کم سے کم ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے___ اصل ضرورت تو ۸۰۰ ارب روپے کی ہے___ فوری طور پر اس سال ۲۰۰ سے ۲۵۰ ارب روپے درکار ہیں۔ وہ کہاں سے لائیں؟ باہر کے مدد کرنے والے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ اپنے وسائل کو بروے کار لائو۔ اس لیے ٹیکس کی آمدنی میں فوری اضافے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
۳- ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد محدود ہے۔ ۱۸ کروڑ کے اس ملک میں ٹیکس دینے والوں کے دائرے میں صرف ۳۰ لاکھ افراد آتے ہیں مگر عملاً انکم اور کورپوریٹ ٹیکس دینے والوں کی تعداد ۱۸لاکھ سے بھی کم ہے جن میں ۱۲ لاکھ سے زائد تنخواہ دار طبقہ ہے۔ اس سے ان کی تنخواہ کے ساتھ ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس لیے ٹیکس کے دائرے کو بڑھانا ضروری ہے۔
۴- ملکی معیشت کی دستاویز بندی (documentation) وقت کی ضرورت ہے۔ ماضی کی ساری کوششیں اس سلسلے میں ثمرآور نہیں ہوسکیں۔ اس کی وجہ سے ٹیکس کی چوری بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور کالا کاروبار بھی عام ہے۔ معیشت کو دستاویزی نظام میں لانے کے دوررس اثرات ہوں گے اور نیا جنرل سیلزٹیکس اس کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔
یہ وہ چار دلائل ہیں جو حکومت اور اس کے حامیوں کی طرف سے آئے ہیں۔ اس ناقابلِ فہم دعوے کے ساتھ کہ نئے ٹیکسوں سے عوام پر بوجھ اور ملک میں مہنگائی اور افراطِ زر پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، بلکہ ٹیکس کی شرح موجودہ ۱۷ سے ۲۳ فی صد کی شرح سے کم کرکے ۱۵ فی صد کی جارہی ہے۔ جس کے نتیجے میں قیمتوں میں کمی ہوسکتی ہے یا اگر اضافہ ہوا بھی تو بہت ہی معمولی اور ناقابلِ التفات ہوگا۔
ہماری نگاہ میں مہنگائی کے بارے میں حکومت کا دعویٰ اور ان ٹیکسوں کے جواز میں دیے جانے والے دلائل یا غلط فہمیوں پر مبنی ہیں یا عوام کو صریح دھوکا دینے کی جسارت ہے۔ ہم ان تمام پہلوئوں کا نہایت ٹھنڈے انداز میں اور صرف حقائق اور معاشی دلائل کی بنیاد پر جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
ہمیں جن باتوں سے اتفاق ہے وہ یہ ہیں کہ مجموعی قومی آمدنی کے تناسب کے اعتبار سے ٹیکس کا حجم فی الحقیقت شرم ناک حد تک کم ہے۔ حکومت کو وسائل کی ضرورت ہے اور قوم کو وہ وسائل کھلے دل سے فراہم کرنے چاہییں بشرطیکہ حکومت انھیں صحیح طور پر قومی مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ نیز معیشت کی دستاویزبندی بھی ایک مفید کام ہے اور معاشی ترقی اور معاشی انصاف کے قیام کے لیے ضروری اقدام ہے۔ ان بنیادی باتوں کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف جس پر ہے وہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو بطور دلیل یا جواز پیش کیا جا رہا ہے کیا فی الحقیقت ان کا حصول ان نئے ٹیکسوں کے ذریعے ممکن ہے یا یہ باتیں محض اشک شوئی کے طور پر کی جارہی ہیں تاکہ اصل حقائق پر پردہ پڑا رہے، اور معیشت کے اساسی مسائل سے اغماض اور عوام کی مشکلات کے حل اور ان کی مصیبتوں سے خلاصی کے باب میں حکومت کی مجرمانہ غفلت اور ناکامی سے توجہ ہٹائی جاسکے۔
سب سے پہلے آئی ایم ایف کو لیجیے۔ آئی ایم ایف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حصہ ہے اور تجارتی خسارہ اور ادایگیوں کے خسارے کی صورت میں وقتی قرض فراہم کرنا اس کا وظیفہ ہے۔ ہرملک کے لیے اس کی عالمی تجارت کی روشنی میں کوٹا مقرر ہے جو SDR کی شکل میں ہوتا ہے اور اس کوٹے کی حد تک کسی نئی شرط کے بغیر اس سے قرضہ لیا جاسکتا ہے جسے ۲۳مہینے میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس کوٹے سے زیادہ قرض کی درخواست کی جائے تو پھر ان کی شرائط کا معاملہ آتا ہے جو قرض کی مقدار کی مناسبت سے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ نیز ان کی شرائط کا ایک معروف و معلوم نظام ہے جسے Macro Stabilization Conditionalities کہا جاتا ہے۔ پھر ان کا اصل ہدف ایک معیشت کو گلوبل معیشت میں ضم کرنا، نج کاری اور آزاد تجارت اور سرمایے کی آزادانہ درآمد کو فروغ دینا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف ہمیشہ دوغلی پالیسیوں پر کاربند رہا ہے کہ اس کا اصل ہدف مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کا فروغ ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات جوزف اسٹگلٹز نے اپنی کتاب Globalization and Its Discontentsمیں ۴۰ سے سے زیادہ ان ممالک کے معاشی تجربات کو پیش کیا ہے جو ترقی پذیر دنیا میں آئی ایم ایف کے زیراثر پالیسی بنانے پر مجبور ہوئے ہیں، اور دو ایک کو چھوڑ کر یہ پالیسیاں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں بلکہ معاشی تباہی کا سبب بنیں۔ خود آئی ایم ایف کے تحت شائع ہونے والے تحقیقی مقالات میں اس کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین میں مارک ویزبورڈ نے اپنے مضمون The IMF's New Visionمیں لکھا ہے:
گذشتہ چند برسوں میں آئی ایم ایف نے دہرے معیارات اپنانے کی پالیسی جاری رکھی ہے۔ یہ زیادہ آمدنی والے ممالک کے لیے کساد بازاری کے موقع پر وسعت پذیر مالی اور زری پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے، جب کہ متوسط اور کم آمدنی والے ممالک کے لیے ایسا نہیں ہوتا۔ ۲۰۰۹ء میں آئی ایم ایف کے جن ۴۱ ممالک سے جاری معاہدے تھے ان میں سے ۳۱ معاہدے مالی یا زری پالیسیوں یا دونوں کو سخت کرنے والے تھے۔ یہ اس سے بالکل مختلف ہے جو آئی ایم ایف امریکا جیسے امیر ممالک کے لیے تجویز کرتا ہے، جہاں بہت زیادہ بجٹ خسارہ ہے، سود کی شرح صفر کے قریب رکھنے کی پالیسی ہے، اور کسادبازاری کا مقابلہ کرنے کے لیے ہزاروں ارب ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔(دی گارڈین، یکم اپریل ۲۰۱۰ئ)
آئی ایم ایف کے بارے میں سب جانتے ہیں اور خود ہمارا ۴۰ سالہ تجربہ ہے کہ وہ صرف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کا محافظ ہے۔ اس میں فیصلہ سازی کا کُل اختیار سرمایہ دارانہ ممالک کو حاصل ہے اور سب اس کا اعتراف کرتے ہیں: ’’وال اسٹریٹ اور یورپی بنکوں کو اب تک فنڈ کی سمت پر مکمل اختیار حاصل ہے‘‘۔ (دی گارڈین، یکم اپریل ۲۰۱۰ئ)
اس لیے آئی ایم ایف سے قرضوں کے لیے ایس ڈی آر کوٹے جس کے ذریعے کسی وقت بھی چند سو ملین ڈالر حاصل کیے جاسکتے ہیں، کے راستے کو نظرانداز کرکے ۵ئ۷ ارب اور پھر ۱۱ارب ڈالر کے قرضوں کے لیے جانا ایک ہمالیہ کے برابر غلطی تھی۔ پھر یہ اقدام کسی قومی مشاورت کے بغیر ہوا۔ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر ملک کے بجٹ اور اس کی معاشی پالیسیوں کو آئی ایم ایف کی گرفت میں دے دیا گیا۔ نومبر ۲۰۰۸ء میں یہ سارے معاملات طے کرلیے گئے اور یکم جولائی ۲۰۱۰ء سے عملاً نافذ کردینے کا عہدوپیمان بھی کرلیا گیا، مگر نہ پارلیمنٹ سے اجازت لی گئی اور نہ ملک کو، حتیٰ کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور معاشی زندگی کی صورت گری کرنے والے تمام اہم اداروں تک کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ اس تبدیلی کے لیے تیار کیا گیا۔ اور اب جب پانی سر سے اُونچا ہوگیا ہے تو پارلیمنٹ کی کنپٹی پر آئی ایم ایف کا پستول تان کر قانون سازی کی جارہی ہے۔ یہ ہے ہمارا اصل اعتراض۔ اس تباہ کن پالیسی کی ساری ذمہ داری اس حکومت پر ہے جس کے پاس نہ کوئی معاشی اور مالی پالیسیوں میں کوئی ارتباط اور ہم آہنگی نہیں ہے۔ جس نے پونے تین سال کے عرصے میں چار وزراے خزانہ تبدیل کیے ہیں، چار وفاقی فنانس سیکرٹری تبدیل کیے ہیں، تین بار اسٹیٹ بنک کے گورنروں کو تبدیل کیا ہے اور رہا معاملہ پالیسیوں کا تو ان کا حال تو یہ ہے کہ ع
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں!
ٹیکس میں اضافے کی غلط حکمت عملی
اب دوسرے مسئلے کو لیجیے۔
اس سلسلے میں سب سے اہم طبقات بڑے زمین دار اور جاگیردار ہیں جو انکم ٹیکس سے عملاً مستثنیٰ ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ زراعت پر منحصر ہے۔ قومی آمدنی میں زراعت کے سیکٹر کا حصہ ۲۲فی صد کے قریب ہے مگر ٹیکس میں ان کا حصہ صرف ۲ئ۱ فی صد ہے۔ اور ستم یہ ہے کہ اصل فائدہ اٹھانے والے دیہی آبادی کے ۹۵ فی صد عوام نہیں بلکہ وہ ۵ فی صد زمین دار ہیں جن کے ہاتھوں میں زیرکاشت رقبے کا ۵۰ فی صد ہے اور جن کے رہن سہن کا انداز بادشاہوں جیسا ہے جو دیہات میں نہیں شہروں میں بھی محلات کے مالک ہیں۔ گیلانی صاحب کی حکومت نے یک قلم گندم کی قیمت خرید میں ۴۵۰ روپے فی من سے بڑھا کر ۹۵۰ روپے فی من کا جو اضافہ کیا تھا اس سے زرعی سیکٹر کی آمدنی میں ۳۸۰ ارب روپے کا اضافہ ہوا جس کا کم از کم ۷۵ فی صد ان ۶ ہزار زمین دار خاندانوں کے حصے میں آیا، جو بڑے بڑے رقبوں (farms) کے مالک ہیں مگر اس سے ایک روپیہ بھی قومی خزانے میں نہیں آیا، اس لیے کہ زرعی آمدنی، خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ اسی طرح زمین اور عمارات کی خریدفروخت اور capital gains وہ میدان ہیں جہاں دولت کی ریل پیل ہے اور ٹیکسوں کا فقدان۔ بڑے بڑے پیشہ ور ماہرین بھی اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ متوسط طبقے میں تاجروں، آڑھتیوں کا اور ٹرانسپورٹروں کا بڑا طبقہ ہے جو ٹیکس کے دائرے سے باہر ہے۔ مجوزہ ٹیکسوں میں ان کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوئی تدبیر نہیں بلکہ ان ۱۸ لاکھ افراد ہی پر ۱۰ فی صد کی مزید چٹی لگا دی گئی ہے جو طوعاً وکرہاً ٹیکس ادا کررہے ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے سیلزٹیکس کے نئے قانون کے ذریعے یہ ٹیکس جن اداروں اور تجارتی کمپنیوں پر لاگو ہوگا ان کی استثنا کی حد کو ۵۰لاکھ سے بڑھا کر ۷۵ لاکھ روپے کی سالانہ کاروباری حجم پر کر دیا گیا ہے۔ گویا ماضی میں بہت سے ایسے ادارے جو ٹیکس کے نیٹ میں تھے ان کے نکلنے کا راستہ کھل گیا ہے۔ اس سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا یا کمی، یہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔
ٹیکس کے دائرے میں نادہندہ افراد اور اداروں کو لانے کا ایک معروف طریقہ یہ ہے کہ قانونی اور انتظامی تدابیر کے ساتھ اس کے لیے محرکات (incentives) فراہم کیے جاتے ہیں۔ نیز ٹیکس دائرے میں لانے کے لیے ایسے آسان طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن سے کاروباری اداروں کو وحشت نہ ہو۔ خود تشخیصی کا طریقہ اس سلسلے کا اہم اقدام ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کے لیے جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے وہ ٹیکس کی شرح کو بہت معمولی رکھنا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں آجائیں اور زیادہ تکلیف بھی نہ محسوس کریں۔ ٹیکس کی شرح کو اُونچا رکھنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے ٹیکس سے فرار کو ترغیب ملتی ہے۔ انگلستان میں جب ۳۰سال پہلے VAT لگایا گیا تو اوّل اوّل اس کی شرح صرف ۳ فی صد تھی جسے کاروباری دنیا نے بخوشی قبول کرلیا۔ ۳۰سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ اس کو بڑھا کر ساڑھے ۱۷ فی صد تک لے جایا گیا مگر ساتھ ہی اشیاے خوراک، بچوں کی تمام ضروریات، تعلیم اور ادویات کو ٹیکس سے باہر رکھا گیا۔ ہمارے یہاں آغاز ہی ۱۵ فی صد سے ہوتا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ ٹیکس نیٹ میں لوگ بہ آسانی آجائیں گے۔ اسے کیا کہا جائے؟
انکم ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کی مخالفت ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ یہ بوجھ عوام کی برداشت سے باہر ہے اور اس کا سارا بوجھ ان لوگوں پر پڑے گا جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ وزیرخزانہ نے سینیٹ میں اپنی تقریر میں بڑے استہزائی انداز میں فرمایا کہ جن کی آمدنی ۳لاکھ روپے سالانہ ہے ان پر چھے مہینے میں محض ۱۵۰ روپے کا بوجھ پڑے گا۔ اس پر اتنی آہ و بکا چہ معنی؟
ہم عرض کریں گے کہ صرف ۱۵۰ نہیں، لوگ اس سے ۱۰ گنا دینے کو تیار ہیں اور عملاً سرکاری مشینری سے باہر اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے دے رہے ہیں لیکن وہ اس حکومت کو مزید ٹیکس ادا کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں ہیں کہ اس کا صدر، اس کا وزیراعظم، اس کا وزیرخزانہ، اس کی خزانہ کی وزیرمملکت اور کابینہ کے دو درجن سے زیادہ وزرا لاکھوں نہیں کروڑوں اور کچھ تو اربوں کے اثاثے رکھنے کے باوجود انکم ٹیکس کی مد میں کچھ بھی نہیں دے رہے ہیں یا مضحکہ خیز حد تک نمایشی ٹیکس دے رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس بات کا اطلاق پارلیمنٹ کے دوسرے بہت سے ارکان اور ملک کے اربابِ ثروت پر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سیلاب کے نام پر اضافے پر اعتراض کی اصل وجہ اعتماد کا فقدان ہے جو حکمرانوں اور عوام کے درمیان ہے۔ نیز اربابِ اقتدار اور اربابِ دولت کا وہ رویہ ہے جس کی رُو سے وہ فوائد سارے اُٹھا رہے ہیں اور ملک اور خزانے کا حق ادا نہیں کر رہے۔ ۱۰۰ وزیروں کی کابینہ کا کیا جواز ہے؟ سندھ اور بلوچستان کے دسیوں وزیر ہیں جن کا کوئی عہدہ نہیں لیکن وہ مراعات لے رہے ہیں۔ بلوچستان میں اسمبلی کے ۶۲ارکان میں سے ۶۰ وزیر یا مشیر ہیں۔ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کاسرکاری خزانے سے یومیہ خرچہ ۱۳ لاکھ روپے ہے، جب کہ آبادی کے ۴۰ فی صد کی یومیہ آمدنی ۸۵ روپے اور ۷۵ فی صد کی ۱۵۰ روپے سے کم ہے۔
سیلاب زدگان اور دوسرے مصیبت زدہ افراد کی مدد کے لیے ہیلی کوپٹر مفقود ہیں یا امریکا سے قرض پر حاصل کیے جاتے ہیں، جب کہ وی وی آئی پیز کے لیے دو درجن سے زیادہ جہاز اور ہیلی کوپٹر موجود ہیں جن کو ذاتی اغراض کے لیے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اعزہ اور دوستوں کو دعوتوں میں لانے کے لیے یہ جہاز گردش کرتے ہیں۔ پھر جو رقم یہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر حکومت کے خزانے میں دیتی ہے اس کا ناجائز اور ناروا استعمال ہے۔ زندگی کے ہرشعبے میں کرپشن ہے جس کا محتاط ترین اندازہ ۱۰۰۰ ارب روپے سالانہ سے زیادہ کا ہے۔ سرکاری کارپوریشنوں کا ۴۰۰ ارب روپے سالانہ کا خسارہ اس ظلم کا منہ بولتا ثبوت ہے جو اس ملک کے عوام پر کیا جا رہا ہے۔ اس پر مستزاد مہنگائی ہے جس کے عمومی انڈکس میں پچھلے پونے تین سال میں ۵۰ فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اشیاے ضرورت میں تو یہ اضافہ ۱۰۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ بجلی کے نرخ میں ۱۲۰ فی صدکا اضافہ ہے، اور لوڈشیڈنگ اس پر مستزاد۔
حکومت قرض آنکھیں بند کرکے لے رہی ہے۔ ان پونے تین سالوں میں ملک کے اندرونی قرضوں میں ۴ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، جب کہ گذشتہ ۶۰ سال میں ملا کر یہ مجموعی رقم ۴۸۰۰ارب روپے ہے۔ اس طرح بیرونی قرضوں میں صرف اس حکومت کے دور میں ۵ئ۱۵ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور آج صرف سود کی مد میں اس قوم کو ۷۱۷ ارب روپے سالانہ ادا کرنے پڑرہے ہیں۔ اسی طرح ان پونے تین سالوں میں ۱۵۴۵ صنعتیں بند ہوئی ہیں اور بے روزگاری میں اضافے کی رفتار ساڑھے سات فی صد سے بڑھ کر ۱۳ اور ۱۴ فی صد تک ہوگئی ہے۔ غربت میں اضافہ ہوا ہے اور لوگ خودکشی اور اولاد فروشی پر مجبور ہورہے ہیں___ یہ ہیں ملک کے اصل مسائل اور وزیرخزانہ فرماتے ہیں کہ ۱۵۰ روپے کیا ہوتے ہیں۔ انقلابِ فرانس سے پہلے بھی ایسے ہی حالات تھے جب ملکۂ فرانس نے کہا تھا کہ ’’یہ عوام روٹی کے لیے کیوں چیخ و پکار کر رہے ہیں، روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں!‘‘
سیلزٹیکس کا جو قانون لایا گیا ہے اس پر ہمارا اصل اعتراض یہ ہے کہ یہ ایک بالواسطہ ٹیکس ہے جو پیچھے کی طرف لے جانے والا (regressive) ہے۔ اس کا زیادہ بوجھ غریب عوام پر پڑے گا جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی، پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور بین الاقوامی منڈیوں میں ہماری صلاحیت کار بری طرح متاثر ہوگی۔ اس وقت بھی ٹیکس کی کُل آمدنی میں بالواسطہ ٹیکس کا تناسب ۶۲ فی صد ہے جو نئے ٹیکس کے بعد خدشہ ہے کہ بڑھ کر ۶۵سے ۷۰ فی صد ہوجائے گا جو عوام کی کمر توڑ دے گا، اور دولت کی غیرمساویانہ تقسیم کو اور بھی غیر مساوی اور غیرمنصفانہ کردے گا۔ معاشیات کا یہ ایک مسلّمہ اصول ہے کہ بالواسطہ ٹیکس غریبوں کے لیے بوجھ اور دولت مندوں کے لیے مراعات فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔
ہمارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ سیلزٹیکس کے اس نظام میں معاشرے کے مختلف طبقات اور مختلف آمدنیوں والوں کے استعمال کی اشیا میں جو فرق کرنا ضروری تھا وہ مفقود ہے۔
دنیا کے جن ممالک میں سیلزٹیکس یا VAT رائج ہے ان میں سے ایک بڑی تعداد، یعنی تقریباً ۷۰ میں اشیاے ضرورت اور عام اشیا، بچوں کے استعمال کی چیزیں، تعلیم اور صحت سے متعلقہ اشیا میں فرق کیا جاتا ہے۔ نہایت ضروری اشیا کو غریب ہی نہیں ترقی پسند ممالک میں بھی ٹیکس سے مکمل استثنا دیا جاتا ہے۔ دوسری ضروری اشیا پر ٹیکس کی شرح کم ہوتی ہے، جب کہ باقی تمام اشیا اور خدمات پر ٹیکس زیادہ اُونچی شرح سے لگایا جاتا ہے۔ مگر ہماری حکومت نے چند اشیا کے استثنا کے بعد تمام اشیا اور خدمات پر ۱۵ فی صد کی نہایت اُونچی شرح سے ٹیکس عائد کیا ہے۔ اس وقت جو ۷۰۰ اشیا ٹیکس سے مستثنیٰ تھیں ان میں ۵۵۰ کو ٹیکس کے نظام میں لے آیا گیا ہے، نیز معیشت کے پانچ بڑے سیکٹر بشمول ٹیکسٹائل انڈسٹری، لیدر انڈسٹری، کارپٹ انڈسٹری، سپورٹس اور سرجیکل انسٹرومنٹ کی صنعتوں کو اس کے دائرے میں بیک جنبش قلم لے آیا گیا ہے۔ اور یہ کام بھی کسی تدریج سے نہیں کیا گیا بلکہ بیک وقت ۱۵ فی صد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ ا س سے معاشی بھونچال اگر نہ آئے توکیا ہو، اور مہنگائی کے طوفان میں مزید سیلابی کیفیت پیدا نہ ہو تو کیا ہو۔
ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی سیلزٹیکس کا ایسا ہی نظام رائج ہے لیکن اسے نافذ کرنے کے لیے کئی سال افہام و تفہیم کا سلسلہ جاری رہا اور قومی اور صوبائی اتفاق راے پیدا کرکے نافذ کیا گیا، نیز اس کی تین شرح ہیں۔ قیمتی جواہرو زیورات کے لیے ایک فی صد، اشیاے ضرورت کے لیے ۴فی صد اور عام اشیا پر ساڑھے ۱۲ فی صد۔ ترقی پذیر ممالک میں بالعموم اس کی شرح کم ہے، مثلاً مصر میں ۱۰ فی صد، ایران میں ۳ فی صد، انڈونیشیا میں اشیاے ضرورت پر ۵ فی صد اور باقی اشیا پر ۱۰ فی صد، ملائشیا میں ۱۰ فی صد، جنوبی کوریا میں ۱۰ فی صد، سنگاپور میں ۷ فی صد، سری لنکا میں اشیاے ضرورت پر ۴ئ۲ فی صد، ہوٹل سیکٹر پر ۶ئ۳ فی صد اور عام اشیا پر ۱۲ فی صد۔ تھائی لینڈ میں ۷فی صد، تائیوان میں ۵ فی صد، ویت نام میں اشیاے ضرورت پر ۵ فی صد اور عام اشیا پر ۱۰فی صد۔
ترقی یافتہ ممالک میں کچھ ممالک میں یہ ۲۰ بلکہ ۳۰ فی صد تک ہے لیکن وہاں بھی اشیاے ضرورت اور عام اشیا میں بالعموم فرق کیا گیا ہے اور ایسی مثالیں بھی ہیں کہ شرح ٹیکس کو بہت کم اور معقول رکھا گیا ہے، مثلاً جاپان میں ۵ فی صد، سوئٹزرلینڈ میں ۸ئ۳ اور ۸ فی صد۔ فرانس میں ۱ئ۲ فی صد، ۵ئ۵ فی اور ۶ئ۱۳ فی صد، آئرلینڈ میں ۸ئ۴ اور ۵ئ۱۳ فی صد۔ لکسمبرگ میں ۳، ۶، ۹، ۱۲ فی صد اور ۱۵ فی صد، یعنی پانچ کیٹگریاں بنائی گئی ہیں۔ آسٹریلیا میں ۱۰ فی صد اور کینیڈا میں ۵ فی صد ہے۔
افسوس ہے کہ ہماری معاشی ٹیم کی نگاہ دنیا کے ان کامیاب تجربات پر نہیں اور وہ آئی ایم ایف کے احکام کے دبائو میں ملکی معیشت کے حالات کو نظرانداز کرتے ہوئے واحد شرح اور وہ بھی اتنی زیادہ، یعنی ۱۵ فی صد کا راستہ اختیار کر رہی ہے حالانکہ ماہرین معاشیات کی عظیم اکثریت یہ کہتی ہے: ’’جن ممالک میں آمدنیوں میں بہت زیادہ فرق ہیں، وہاں یکساں شرح مناسب نہیں‘‘۔
ہماری نگاہ میں ٹیکس کے سلسلے میں دو فیصلہ کن اور اہم ترین ایشو یہ ہیں کہ ٹیکس کے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ڈائرکٹ ٹیکس بڑھیں جن میں انکم ٹیکس کے دائرے کو مؤثر کرنا، ویلتھ ٹیکس کے ایسے نظام کی تشکیل جو دولت مند اشرافیہ کو ٹیکس کی گرفت میں لاسکے۔ عام کاشتکار نہیں، زرعی آمدنی سے فیض یاب ہونے والے بڑے زمین داروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے اقدامات، بازار حصص میں سرمایہ کاری کے منافع پر ٹیکس، ایک حد سے زیادہ پر جایداد ٹیکس، نیز جایداد کے کاروبار پر ٹیکس، ٹرانسپورٹ سیکٹر اور ٹیلی کمیونی کیشن کے دائرے کو ٹیکس کے منصفانہ نظام میں لانا وقت کی ضرورت ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں میں بھی اشیاے ضرورت اور عام اشیا، زرعی آلات اور انرجی پر اخراجات کو معقول حدود میں رکھنے کے لیے اشیا اور خدمات پر ٹیکس کا وہ نظام رائج کرنا جو متعدد شرحوں کے اصول پر مبنی ہو نہ کہ واحد شرح کا نظام جو ہمارے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
آخر میں ہم ایک بات یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس ٹیکس کو نافذ کرنے کے لیے حکومت اور ایف بی آر کے لیے جس تیاری اور capacity buildingکی ضرورت تھی، اسے مجرمانہ حد تک نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسی طرح تجارتی اور صنعتی کمیونٹی اور معیشت کے دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو افہام و تفہیم کے کسی نظام میں لائے بغیر اور پارلیمنٹ، عوام اور معیشت کے کرتا دھرتا افراد میں اتفاق راے پیدا کیے بغیر اسے ملک پر مسلط کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ پارلیمانی آداب اور قواعد تک کو نظرانداز کرکے سینیٹ میں اسے بل ڈوز کیا گیا، اور اب قومی اسمبلی کے لیے سودے بازی، لین دین یعنی wheeling dealingکا ایک مکروہ کاروبار ہے جو جاری ہے۔ یہ طریقہ پالیسی سازی اور حکمرانی کا نہیں۔ نیز اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کی خودمختاری کے سلسلے میں جو دستوری ترامیم کی گئی ہیں اور دستور کی دفعہ ۱۴۴ کے جو تقاضے تھے وہ بھی پورے نہیں کیے گئے ہیں۔ دھونس اور بلیک میلنگ کے ذریعے جو قانون سازی کی جائے گی اس کا انجام بڑا تباہ کن ہوگا۔ ہم پوری دردمندی سے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں، مشاورت کے ذریعے اتفاق راے پیدا کرنے کی کوشش کریں، مرکز اور صوبوں میں مکمل ہم آہنگی پیدا کریں، بیرونی دبائو کے تحت پالیسی سازی نہ کریں، بلکہ ملک کے معروضی حالات کو سامنے رکھ کر وہ راستہ اختیار کریں جس سے ملک موجودہ معاشی بحران سے نکل سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے لیے آج کے حالات قطعاً ناموزوں ہیں۔ جب معیشت بحران کا شکار اور کساد بازاری کے دہانے پر ہو، اس وقت ایسے قوانین کو نافذ نہیں کیا جاتا۔ ہاں، جب معیشت ترقی کے راستے پر گامزن ہو تو نئے ٹیکسوں کے لگائے جانے کے لیے فضا سازگار ہوسکتی ہے۔ وسائل کے حصول کے لیے متبادل راستے موجود ہیں۔ اخراجات کی کمی، نئے وسائل کی تلاش، کرپشن اور ٹیکس سے فرار کے دروازے کو بند کرکے وہ وسائل حاصل کیے جاسکتے ہیں جو سیلاب کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ہیں اور جو ملک کو قرضوں کے نظام سے نجات اور خودانحصاری کی طرف گامزن کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے صحیح وژن کی ضرورت ہے۔ باصلاحیت اور ایمان دار ٹیم ہی یہ کام کرسکتی ہے۔ قیادت کو اپنے رنگ ڈھنگ کو بدلنا ہوگا۔ جو لوگ ملکی وسائل کو لوٹ رہے ہیں یا جن کی دولت ملک سے باہر ہے اور ان کی دل چسپیاں محض اپنی جیب بھرنے اور اپنوں کو نوازنے میں ہیں، ان سے نجات ضروری ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، بددیانت اور نااہل قیادت ہے جس نے ایک وسائل سے مالا مال ملک کو کنگال کر دیا ہے اور آج بھی صحیح منزل اور صحیح ترجیحات کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ قوم کے سامنے آج اصل سوال یہی ہے کہ کیا یہ قیادت اپنے کو بدلنے کو تیار ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر اس کو بدلے بغیر بحران سے نکلنے کا کوئی اور راستہ نہیں ؎
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الا اللہ