سوال: اللہ کے سایے سے کیا مراد ہے؟ احادیث میں نیک لوگوں کے اللہ کے سایے میں جگہ پانے کا تذکرہ ہے۔ اللہ تو رب العالمین ہے اگر اس کا سایہ ہے تو پھر اسے سارے جہانوں پر محیط ہونا چاہیے۔
جواب: قرآن کریم نے بے شمار مقامات پر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے وجود، ذات اور صفات کے حوالے سے ہماری رہنمائی کی ہے۔ ان مقامات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود جسم کا محتاج نہیں ہے، جب کہ سایے کا تعلق جسم کے ساتھ ہے۔ ہر وہ شے جو جسم رکھتی ہے اگر سورج یا روشنی کی زد میں آئے تو سایہ پیدا ہوتا ہے۔ درخت کے نیچے سایہ بھی اسی لیے آرام دہ ہوتا ہے کہ سورج کی تپش ٹہنیوں اور پتوں کے درمیان میں آنے سے ہم تک نہیں پہنچتی اور ہم سایے کو اپنے لیے رحمت سمجھتے ہوئے آرام کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ ترین ہستی جو تمام موجودات کی پیدا کرنے والی ہے کہ جس کے حکم سے بنی اسرائیل پر ۴۰سال تک اَبرسایہ کرتا رہا تاکہ وہ ریگستان میں محفوظ رہ سکیں، اور وہ ہستی جو حضرت ابراہیم ؑ کے لیے آگ کو گلزار بناسکتی ہے، کیا وہ میدانِ حشر میں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسی تپش ہوگی کہ انسان پسینے میں شرابور ہوکر ڈوب جائے، اسی میدانِ حشر میں اپنے بعض بندوں کے لیے جو اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے رہے ہوں، سایے کا بندوبست نہیں کرسکتا؟ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ سایہ کس طرح پیدا ہوگا بلکہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ وہ رحمن و رحیم جو اس دنیا میں ایسے ایسے معجزات دکھا سکتا ہے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو میدانِ حشر کا حاکم اور فرماں روا ہے کیا وہ اپنے پسندیدہ بندوں کے لیے سایہ پیدا نہیں کرسکتا؟ اگر ہم اُس اللہ پر یقین رکھتے ہیں جو ہرشے کا خالق، مالک، مصور اور اختیار رکھنے والا ہے۔ تو میدانِ حشر میں اپنے بندوں پر سایہ کردینا، اس کے ایک ہلکے سے اشارے کا محتاج ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: میں شمسی توانائی کے استعمال پر کام کررہا ہوں۔ غالباً ایک حدیث پاک ہے کہ دھوپ سے گرم کیا ہوا یا گرم ہوجانے والا پانی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ براہِ مہربانی اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔ یہ بھی واضح فرما دیں کہ کیا تالاب کا پانی بھی استعمال نہ کرنا چاہیے؟ اس لیے کہ دھوپ تو بہرحال اس کو بھی گرم کرتی ہے۔ کیا تالاب کے چھوٹا یا بڑا ہونے کی کوئی حد ہے؟
ج: آپ نے جس حدیث مبارک کے حوالے سے استفسار فرمایا ہے وہ دارقطنی کے حوالے سے مشکوٰۃ باب احکام المیاہ میں ذکر کی گئی ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا ہے کہ دھوپ پر گرم کیے ہوئے یا گرم ہوجانے والے پانی سے غسل نہ کرو کہ یہ’ برص‘ کا مرض پیدا کرسکتا ہے۔ (الفصل الثالث، حدیث ۱۴)
حضرت عمرؓ کے اس ارشاد کے بارے میں احتمال ہے کہ ان کا اپنا قول ہو یا انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ارشاد فرمایا ہو۔ اس بات کی تصریح کہیں بھی نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر اُنھوں نے یہ بات ارشاد فرمائی۔ اس لیے ظاہر یہی ہے کہ یہ ان کا اپنا قول ہے، اور یہ ایک طبّی راہنمائی ہے جو انھوں نے کسی ذریعے سے حاصل کی اور پھر اسے بیان کر دیا۔
اس قول کو بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن امام شافعیؒ نے اس کی ایسی سند بھی بیان کی ہے جس کے تمام راوی قابلِ قبول اور قابلِ اعتماد ہیں۔ اس لیے اسے ضعیف قرار دینا درست نہیں ہے۔ (مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ از مولانا قطب الدینؒ)
امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک اس طرح کے پانی سے وضو اور غسل کرنا بلاکراہت جائز ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک نقصان دہ ہونے کی بنا پر اس سے وضو اور غسل مکروہ ہے لیکن متاخرین فقہاے شافعیہ کے نزدیک بھی ائمہ ثلاثہ کی طرح اس سے وضو اور غسل بلاکراہت جائز ہے۔ اس سلسلے میں راجح بات یہ ہے کہ یہ ایک طبّی مشورہ ہے اس لیے اگر دوسرا پانی موجود ہو تو وضو اور غسل کے لیے دھوپ پر گرم کیے ہوئے پانی سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔ کبھی کبھار وضو کرلیا جائے تو خیر ہے لیکن اسے عادت اور معمول بنانا یا احتیاط نہ کرنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی بہشتی زیور میں یہی مشورہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’دھوپ میں جلے ہوئے پانی سے سفید داغ ہوجانے کا ڈر ہے، اس لیے اس سے وضو، غسل نہ کرنا چاہیے‘‘۔(ص۵۴)
تالاب کے پانی کے استعمال کے بارے میں واضح رہے کہ تالاب کے پانی کو جب دھوپ لگے اور وہ اس سے گرم ہوجائے تو اس کا استعمال بھی مناسب نہیں ہے۔ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ البتہ بہنے والا پانی جو دریا، نہر یا ندی نالے کی شکل میں ہو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔اس لیے کہ مسلسل جاری رہنے سے پانی اس سے اتنا متاثر نہیں ہوتا کہ اس کا استعمال خطرناک ہو۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س: ہمارے ہاں اگر کسی خاتون کا شوہر فوت ہوجائے یا کسی کی بیوی فوت ہوجائے تو برادری والے دوسری شادی کو معیوب سمجھتے ہیں۔ کیا یہ رویہ درست ہے؟
ج: دنیوی زندگی کے دوران ہر انسان کے لیے موت مقرر ہے اور ایک نہ ایک روز ہر ایک نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ شوہر اور بیوی بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ کبھی شوہر پہلے فوت ہوجاتا ہے تو کبھی بیوی۔ اس پر انسان کا بس نہیں چلتا ہے۔ ہم روز مرہ زندگی میں اس کو ایک معمول سمجھتے ہیں کہ آئے روز اس سے ہمیں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
اسلام نے شوہر اور بیوی کے درمیان قائم تعلق کو تقدس اور احترام کا درجہ دیا ہے کیونکہ اسی رشتے کے نتیجے میں انسانی معاشرہ پھلتا پھولتا ہے۔ اس لیے اگر شوہر فوت ہوجائے تو عورت پر اس کا سوگ منانا ایک مقررہ مدت تک فرض کیا گیا ہے، اور اگر بیوی فوت ہوجائے تو اس پر بھی سوگ کا ایک طریقہ طے کیا گیا ہے لیکن کسی ایک کو دوسرے کے انتقال کی صورت میں شادی کرنے سے روکا نہیں گیا ہے، بلکہ شادی کی خواہش اور استطاعت ہونے کی صورت میں حسبِ ضرورت اس کو فرض، واجب یا مستحب کہا گیا ہے۔
اس سے بڑھ کر یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ صرف انتقال کی صورت میں ہی نہیں، بلکہ طلاق کی صورت میں بھی عدت مکمل ہونے کے بعد عورت کو دوسری شادی کرنے کا حق دیا گیا ہے اور کسی عزیز رشتہ دار کو اس بات سے روکنے کا حق شریعت نے نہیں دیا ہے:
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْھَرُ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۳۲) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرتجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
لہٰذا کسی برادری، رشتہ دار، باپ دادا یا اولاد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مرد کو اُس کی بیوی کے انتقال کے بعد دوسرے نکاح سے روکے، اور نہ کسی بیوہ کو اس کے شوہر کے انتقال کے بعد دوسری شادی سے روکے۔ حلال اور حرام کے حدود مقرر کرنا اللہ کا کام ہے۔ کسی اور کو اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔ شادی کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، اور انسانی معاشرے کے قیام اور بقا کے لیے ضروری بھی ہے۔ گویا شوہر یا بیوی کی وفات کی صورت میں بھی اور طلاق یافتہ عورت اپنی ضروری عدت مکمل کرنے کے بعد اپنے حالات اور ضروریات کے تحت دوسری شادی کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں۔ اُن کو اس حق کے استعمال سے روکنا صریح ظلم ہے جس کی اجازت اسلام نے قطعاً نہیں دی ہے۔
اگر کسی برادری میں یہ رسم اور رواج موجود ہے تو معقول انداز میں اُن کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے، اور اللہ کے حکم کے مقابلے میں کھڑا ہونے، اس کی راہ روکنے یا اس کی مخالفت کرنے کے انجام سے ان کو خبردار کیا جانا چاہیے۔ نیز اس حکم کی خلاف ورزی کے نتیجے میں جو فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس سے بھی آگاہی ہونی چاہیے۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے: ’’جب تمھارے پاس رشتہ لینے دینے کے لیے کوئی ایسا شخص آجائے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کو رشتہ دے دیا کرو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔ گویا کہ اچھے رشتے اور پسندیدہ رشتے کے ملنے کے بعد اس میں پس و پیش کرنا یا روڑے اٹکانا یہ روے زمین پر فساد اور فتنے پھیلانے کا باعث ہے۔ اس سے گریز کیا جائے اور اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی راہ میں روڑے نہ اٹکانے چاہییں۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی)
س: ایک مسلمان کی غیرمسلم شخص کی وفات پر اس کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیسے کرسکتا ہے؟
ج: انسانی زندگی میں خوشی اور غمی کے مواقع مسلسل آتے رہتے ہیں، اور اسلام نے ان مواقع پر ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہونے، اس پر اظہارِ مسرت کرنے، اور غمی کے موقع پر اظہارِ ہمدردی اور تعزیت کرنے کو اسلام کے تقاضوں میں سے قرار دیا ہے۔
خوشی یا غمی کے موقع پر شرکت یا ہمدردی کے اظہار کے لیے مذہب یا رنگ نسل کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ آپ کا پڑوسی یا جاننے والا آپ کی طرف سے اس ردعمل کا حق دار ہے کہ آپ اُس کی خوشی میں بھی شریک ہوں اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر اظہارِ ہمدردی یا تعزیت کریں بلکہ ممکنہ تعاون بھی پیش کریں۔ رسولؐ اللہ نے ہمیشہ اپنے متعلقین یا پڑوسیوں کے ساتھ اسی حُسنِ سلوک کا اظہار فرمایا ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ تعزیت، اظہارِ ہمدردی اور دعاے مغفرت میں بڑا فرق ہے۔ دعاے مغفرت صرف اہلِ ایمان کا حق ہے اور انھی کے ساتھ مخصوص ہے۔ کسی غیرمسلم کے لیے آخرت میں کامیابی اور فوز و فلاح کی دعا ٹھیک نہیں ہے اور نہ کسی غیرمسلم ہی کو اس کی توقع ہوتی ہے، کیونکہ وہ اس بات پر یقین ہی نہیں رکھتا ہے۔ رسولؐ اللہ سے کسی غیرمسلم کے لیے یہ عمل ثابت نہیں ہے بلکہ خود حضرت ابراہیم ؑکی مثال اس سلسلے میں بڑی واضح ہے کہ آپ نے اپنے والد کے لیے اس خواہش کا اظہار کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔
لہٰذا اپنے کسی پڑوسی، رشتہ دار، جاننے والے غیرمسلم کی وفات پر اس کے لواحقین سے اظہارِ ہمدردی کرنا یا تعزیت کے الفاظ کہنا، اُن کے غم میں شریک ہونا، تسلی اور دلاسہ دینا جائز ہے بلکہ حسب ِ احوال ضروری ہوتا ہے۔ اس سے آپس میں پیار اور محبت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے، بلکہ خود دین اسلام کی خوبیاں اور محاسن کو غیرمسلموں کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ ایک انسانی تعاون ہی نہیں بلکہ دینی دعوت کا کام ہے جس میں مسلم اور غیرمسلم دونوں کی بھلائی اور فائدہ ہوتا ہے۔ اس رواج کو پروان چڑھانا چاہیے اور اس سے پیار و محبت کی فضا قائم کرنی چاہیے تاکہ انسان انسانوں کے قریب آئیں اور حقیقت کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ اس بات کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ ان کے مذہبی تہواروں اور ان کی مذہبی رسوم میں شرکت بھی جائز نہیں ہے جس طرح دعاے مغفرت جائز نہیں ہے۔ (م-ر-ی)
س: دستور جماعت کے مطابق جماعت اسلامی میں مختلف مناصب اور ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب کسی کو ذمہ داری سونپی جائے تو دوسرے ساتھی یعنی کارکنان کو اپنے امیر یا ناظم کو ملاقات پر کیا کہنا چاہیے؟ کیا مبارک باد دی جائے یا کوئی دُعا؟ بعض ساتھی مبارک باد دینا پسند نہیں کرتے کہ یہ ذمہ داری ایک قسم کا بوجھ ہے، خوشی کی بات نہیں۔ صحیح رہنمائی فرمائیں۔
ج: مبارک باد ایسی چیز کے حصول پر دی جاتی ہے جسے پاکر ایک آدمی خوشی محسوس کرے۔ عہدہ اور منصب خوشی کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک ذمہ داری ہے جو آدمی کو فکرمند بنا دیتی ہے۔ جو چیز آدمی کو فکرمند بنا دے، اسے سوچنے پر مجبور کردے کہ وہ کامیاب ہو تاکہ راحت محسوس کرے اور خوش ہوجائے، اور بالفرض ناکام ہو تو پھر پریشانی سے دوچار ہوگا۔ یہ چیز مبارک باد کی نہیں بلکہ دعا کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ جسے کوئی عہدہ یا ذمہ داری ملے اسے کامیابی اور استقامت کی دعا دی جائے۔ یہی طریقہ ہمیشہ سے چلا آرہا ہے، اسی کو قائم رکھنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)