دسمبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

کشمیر میں چند روز

ارون دتی راے | دسمبر ۲۰۱۰ | کشمیریات

Responsive image Responsive image

ترجمہ : اطہروقار عظیم

صدر اوباما نے ۲۰۰۸ء میں صدر منتخب ہونے سے ایک ہفتے پہلے، کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کے ذریعے مسئلۂ کشمیر حل کروانے کی یقین دہانی کروائی تھی، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک پاکستان اور بھارت کے مابین اس مسئلے کی وجہ سے تین جنگیں ہوچکی ہیں۔ یقینا یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ لیکن اُس وقت بھارت کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں اوباما کے ان خیالات کو ’خطرے کی گھنٹی‘ کے طور پر دیکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما نے مسئلۂ کشمیر کے معاملے میں سردمہری اختیار کرلی ہے۔

اپنے موجودہ دورۂ بھارت میں اوباما نے کشمیر کے مسئلے پر کوئی مداخلت نہ کرنے کا اور  اقوام متحدہ میں بھارت کی مستقل نشست کے لیے حمایت کا اعلان کرکے اپنے میزبانوں کو خوش کردیا۔ مزید یہ کہ دورے میں جب جب دہشت گردی کے مسئلے پر بات ہوئی تو امریکا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر یک سر خاموش رہا۔ کیا مسٹر اوباما نے کشمیر پر اپنے موقف کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ اس کا انحصار مختلف باتوں پر بھی ہے، مثلاً افغانستان کی جنگی صورت حال، امریکا کو کس حد تک پاکستان کی ضرورت ہے، اور کیا بھارتی حکومت اس موسم میں امریکا سے ایئرکرافٹ خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ اس کے علاوہ بھاری تجارتی معاہدوں پر پیش رفت جاری ہے جس کی وجہ سے یہ خاموشی سمجھ میں بھی آتی ہے۔ لیکن سب کو یاد رہنا چاہیے کہ مسٹراوباما کی خاموشی اور عدم مداخلت کی یقین دہانی کشمیری عوام کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پتھر رکھنے پر آمادہ نہیں کرسکتی۔

میں ۱۰ روز پہلے کشمیر میں پاکستانی سرحد کے پاس خوب صورت وادی میں تھی۔ یہ وادی  تین تہذیبوں (اسلام، ہندو اور بدھ ازم) کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ وادی افسانوی تاریخ کی حامل ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ حضرت عیسٰی ؑکی جاے قیام رہی ہے، جب کہ کچھ کے نزدیک یہاں  حضرت موسٰی ؑاپنے کھوئے ہوئے قبیلے کی تلاش میں آئے تھے۔ یہاں حضرت بلؒ کے مزار پر لاکھوں عقیدت مند فاتحہ خوانی کے لیے بھی آتے ہیں اور ہر سال چند دنوں کے لیے پیغمبر محمد    [صلی اللہ علیہ وسلم] کے موے مبارک کی زیارت بھی کروائی جاتی ہے۔ میری منزل شوپیّاں کا مضافاتی دیہات تھا۔ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے جنوب کی طرف جانے والی سڑک پر بھاری تعداد میں بھارتی فوج میں موجود تھی۔ اُنھیں سڑک کے دونوں اطراف باغات میں، کھیتوں اور دکانوں کی چھتوں اور بازاروں پر تعینات کیا گیا تھا۔ یہاں ۵ لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں بھارتی افواج موجود ہیں۔ اس لیے یہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے زیادہ افواج کی تعیناتی والا علاقہ بن گیا ہے۔ فضا نہایت کشیدہ تھی۔ مہینوں تک پھیلے ہوئے کرفیو کے باوجود، نوجوانوں کے ہاتھوں میں ’پتھر‘ تھے۔ وہ فلسطینی ’انتفادہ‘ کی تحریک سے متاثر نظر آرہے تھے اور ’آزادی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ وہ مسلسل کہہ رہے تھے: ’’ہم کیا چاہتے ہیں… آزادی! چھین کر لیں گے… آزادی!

میں جن دوستوں کے ساتھ جارہی تھی وہ مطلوبہ دیہات تک جانے والے متبادل راستے سے واقف تھے۔ میں نے دورانِ سفر ان سے مزاحمتی تحریک کے بارے میں تفصیل سنی۔ ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ جب میرے تین دوستوں نے پتھر پھینکے تو اس ’جرم‘ کی پاداش میں بھارتی پولیس نے اُن کے ناخنوں کو اُکھاڑ دیا۔

تین سال سے اب تک کشمیری گلیوں میں ہیں اور بھارتی ناجائز قبضے کے خلاف احتجاج  کر رہے ہیں حالانکہ اس موجودہ مزاحمتی تحریک کا الزام پاکستان پر بھی عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سب کچھ مقامی ہے۔ بھارتی فوج کا ایک طرف دعویٰ ہے کہ ۵۰۰ سے بھی کم جنگ جو وادی میں موجود ہیں۔ اس جنگ میں ۷۰ہزار کشمیری شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں کشمیری زخمی ہوئے، جب کہ ہزارں کو ’ہمیشہ کے لیے غائب‘ کردیا گیا ہے۔ اب، جب کہ جنگ جُو مزاحمت کاروں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن بھارتی فوج کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لیکن ہمیں بھارتی فوج کے غلبے کو سیاسی فتح نہیں سمجھنا چاہیے۔ نہتے عوام کے دلوں میں بھارتی افواج کے خلاف نفرت کا سمندر موجزن ہوچکا ہے۔ ایک پوری نسل چیک پوسٹوں، بنکر، آرمی کیمپ اور ٹارچر سیلوں کے سایے میں جوان ہوچکی ہے۔ ان کا بچپن ’پکڑو اور قتل کرو‘ جیسی کارروائیوں کو دیکھتے اور برداشت کرتے گزرا ہے۔ اُن کے لاشعور میں مخبری کے الزام، خفیہ اداروں کی جاسوسی اور جعلی انتخابات جیسے واقعات ثبت ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایک طرف تو اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے تو دوسری طرف اُن کا خوف ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جنون کی حدوں کو چھوتے ہوئے حوصلے نے نوجوان کشمیریوں کو بہادر اور نڈر بنا دیا ہے۔ ان کشمیریوں نے افواج کو پیچھے دھکیل کر اپنی گلیوں کو دوبارہ حاصل کرلیا ہے۔

اس سال اپریل میں افواج نے تین شہریوں کو قتل کیا تھا۔ اُن کا جرم صرف پتھر پھینکنا تھا۔ وہ تینوں طالب علم تھے۔ اُنھیں بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ لیکن یہ خون جدوجہد آزادی کو نیا ولولہ دے گیا۔ بھارتی افواج نے کرفیو اور گولیوں سے مزاحمت کی جس کے تحت پچھلے چھے مہینوں میں ۱۱۱ کشمیریوں کا قتل عام کیا جاچکا ہے۔ اس میں زیادہ تر ۱۰ سے ۲۰ سال کی عمر کے نوجوان ہیں۔ ۳ہزار زخمی ہونے والے اور ایک ہزار گرفتار ہونے والے اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن اس ظلم و استبداد کے باوجود نوجوان اب بھی باہر آتے ہیں اور پتھر پھینکتے ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں ہیں۔ وہ اپنی نمایندگی خود کر ہے ہیں۔ اس لیے اب دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے۔ دنیا کی سب سے بڑی ’جمہوریت‘ نہیں جانتی کہ وہ کس سے مذاکرت کرے۔ اب تو بہت سے بھارتی بھی سمجھنے لگے ہیں کہ کئی عشروں سے اُن سے جھوٹ بولا جاتا رہا ہے۔ کشمیر کے بارے میں ’اٹوٹ انگ‘ والے روایتی موقف میں بڑی واضح دراڑیں پڑ چکی ہیں۔

بھارتی صحافی ہونے کے باوجود مجھے شوپیّاں کے اس گائوں کی طرف جاتے ہوئے بھارتی حکومت کی طرف سے شدید مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ چند دن پہلے ’آزادی… واحد راستہ‘ کے نام سے ہونے والی نشست میں مَیں نے کشمیر کے بارے میں کہا تھا: ’’کشمیر متنازعہ علاقہ ہے بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں، جیساکہ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے‘‘۔ اس پر مشتعل انتہاپسند ہندو سیاست دانوں اور ٹی وی میزبانوں نے مجھ پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کردیا۔ شام کی خبروں میں مجھے غدار، دہشت گرد اور باغی عورت کے خطابات سے نوازا گیا۔ صرف اس لیے کہ میں نے جھوٹ کو سچ کہنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن کشمیر کے حالیہ دورے میں شوپیّاں جانے والی سڑک پر، اپنے دوستوں کو سنتے ہوئے اور خود کشمیر کے حالات کو دیکھتے ہوئے میں خود کو اس بات پر قائل نہ کرسکی کہ میں نے دہلی میں کشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ غلط تھا اور مجھے اُس پر پچھتاوا ہونا چاہیے۔

ہم ایک کشمیری شکیل احمد کے گھر کی طرف سفر کر رہے تھے، کیونکہ ایک دن پہلے سری نگر میں جہاں میں ٹھیری ہوئی تھی مجھے کہا گیا تھا کہ مجھے شوپیّاں کا دورہ ضرور کرنا چاہیے۔ میں شکیل سے اس سے پہلے جون ۲۰۰۹ء میں ملی تھی۔ جب اُس کی ۲۲ سالہ بیوی نیلوفر اور ۱۷سالہ بہن عائشہ کی لاشیں ایک ندی سے ہزار گز کے فاصلے پر ملی تھیں۔ یہ وہ جگہ تھی جس کے دونوں اطراف میں بھارتی افواج اور پولیس کے ہیڈ کوارٹر موجود تھے۔ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں زنا بالجبر اور قتل کی تصدیق ہوئی۔ ایک بھونچال کھڑا ہوگیا۔ چنانچہ ’سسٹم‘ آڑے آگیا۔ لاشوں کے دوبارہ معائنے کے بعد نئی رپورٹ میں زنا بالجبر سے انحراف کرلیا گیا اور سرکاری اعلان سامنے آیا کہ دونوں کی اموات پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شوپیّاں ۴۷دن تک بند رہا۔ وادی میں کئی ماہ تک اشتعال کی کیفیت رہی۔ اس بہیمانہ زیادتی اور قتلِ عام کے واقعے نے بغاوت کی لہر کو بڑھاوا دیا اور تحریکِ آزادی کے متوالوں کو نئے جذبے سے آشنا کردیا۔ شکیل مجھے شوپیّاں اس لیے بھی لانا چاہتا تھا کیونکہ بھارتی پولیس نے اُسے سختی سے بولنے سے منع کر دیا تھا۔ اس طرح اُسے امید تھی کہ ہمارے دورے سے مسئلۂ کشمیر عالمی سطح پر اُجاگر ہوجائے گا اور وہ خود کو تنہا نہیں سمجھے گا۔

کشمیر میں یہ سیبوں کے پکنے کا موسم ہے۔ جیسے ہی ہم شوپیّاں پہنچے ہم نے مختلف خاندانوں کو اپنے باغات میں سیب لکڑی کے کریٹ میں چن کر رکھتے ہوئے دیکھا۔ میں نے یہاں سرخ گالوں والے کشمیری بچے بھی دیکھے۔ وہ بھی کشمیری سیب کی طرح لگ رہے تھے لیکن المیہ یہ تھا اُنھیں    غلط کریٹ میں رکھ دیا گیا تھا۔ ہمارے آنے کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ کشمیریوں کا چھوٹا سا گروہ سڑک پر ہمارا منتظر تھا۔ شکیل کا گھر قبرستان کے کنارے پر تھا جہاں اُس کی بیوی اور بہن دفن تھیں۔ اندھیرا ہونے والا تھا، بجلی بھی گئی ہوئی تھی۔ ہم نیم دائرے میں بیٹھ گئے۔ صرف ایک لالٹین کی روشنی تھی۔ میں نے انھیں اپنی کہانی سنانے کو کہا۔ رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی آتے گئے۔ نئی تکلیف دہ کہانیاں سامنے آنے لگیں۔ یہ مظلوم عورتوں اور یتیم بچوں کی کہانیاں تھیں جنھوں نے خود کو بھارتی شہری ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ کیا یہ اتنا بڑا جرم ہے؟ شکیل کا بچہ بھی کھیلتے کھیلتے اُس کمرے میں آگیا۔ جلد ہی وہ بڑا ہوکر جان جائے گا کہ اُس کی ماں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ جب ہم واپسی کے لیے   روانہ ہوئے تو پیغام ملا کہ شکیل کا سسر، یعنی نیلوفر کا باپ اُن کا اپنے گھر پر منتظر ہے۔ ہم نے پیغام بھجوایا کہ اس طرح بہت دیر ہوجائے گی اور واپسی کا سفر محفوظ نہیں رہے گا۔

خدا حافظ کہنے کے چند لمحوں بعد، جب ہم کار میں بیٹھ رہے تھے تو ایک صحافی دوست کا فون آگیا: پولیس میری گرفتاری کے وارنٹ ٹائپ کر رہی ہے اور آج رات مجھے گرفتار کرلیا جائے گا حالانکہ اس کا امکان کم تھا۔ یہ مجھے خوف زدہ کرنے کا نفسیاتی حربہ تھا۔

جب ہماری گاڑی نے رفتار پکڑی تو دو آدمیوں نے جو موٹرسائیکل پر سوار تھے ہمیں رُکنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے حوصلہ کر کے گاڑی روک دی۔ ایک بوڑھا آدمی، جس کی سبزی مائل آنکھیں اور کھچڑی داڑھی تھی، آگے بڑھا۔ اُس کا نام عبدالحئی تھا۔ وہ یقینا نیلوفر کا باپ تھا۔ ’’میں تمھیں  سیبوں کے بغیر کیسے جانے دے سکتا ہوں؟‘‘ اُس نے کہا۔ موٹرسائیکل سوار نے دو سیبوں کے کریٹ ہماری کار میں رکھ دیے۔ عبدالحئی نے اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک انڈا باہر نکالا اور میری ہتھیلی پر رکھ دیا اور میری انگلیاں بند کر دیں اور دوسرا انڈا میری دوسری ہتھیلی پر رکھ دیا۔  اُبلے ہوئے انڈے ابھی تک گرم تھے۔ ’’خدا تمھاری حفاظت کرے‘‘ اُس نے کہا اور وہ سخت ٹھنڈ اور تاریکی میں گم ہوگیا۔ کسی بھی لکھنے والی کے لیے اس سے بڑا انعام اور کیا ہوسکتا تھا!

مجھے گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ محض ایک سیاسی حربہ تھا۔ میں دہلی گھر واپس آئی تو بی جے پی کی عورتوں نے میرے گھر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مجھے عمرقید سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ قاتل اور خونی بجرنگ دل کے جنگجو ہندو جنھوں نے ۲۰۰۲ء میں گجرات میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا، انھوں نے مجھے تمام ’ذرائع‘ استعمال کرتے ہوئے ’دماغ درست‘ کرنے کی دھمکی دی، اور ملک بھر میں مختلف عدالتوں میں میرے خلاف مقدمے دائر کرنے کا اعلان کیا۔ بھارتی حکومت اور انتہاپسند ہندوئوں اور قوم پرست سیکولر بھارتیوں کو پتا نہیں کیوں یہ یقین ہونے لگا ہے کہ وہ اکھنڈ بھارت کے نظریے کی بڑھوتری، لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اور بوئنگ ایئرکرافٹ کی خریداری کے ذریعے کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ اُبلے ہوئے گرم انڈوں کی مزاحمتی طاقت اور تاثیر کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ (Kashmir's Fruits of Discord،نیویارک ٹائمز، ۸ نومبر ۲۰۱۰ئ)


ارون دتی راے، بھارت کی معروف ناول نگار اور تجزیہ نگار ہیں۔