ترجمہ و تلخیص: اطہر وقار عظیم
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار بھارت کو، روز افزوں معاشی ترقی کے باوجود وسیع علاقوں میں پھیلی ہوئی علیحدگی پسند تحریکوں اور بغاوتوں کا سامنا ہے۔ چنانچہ اگر ایک طرف آزادیِ کشمیر کی توانا تحریک ہے تو دوسری طرف مائونواز باغی (مائوسٹ) اپنے غصب شدہ حقوق کی بحالی کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اسے اب سرکاری میڈیا نے خطرناک علاقہ (Red Corridor) قرار دے دیا ہے۔ دراصل یہ مزاحمتیں اور یہ تحریکیں، بھارت میں بڑھتے ہوئے معاشرتی اور معاشی استحصال کا قدرتی و فطری ردعمل ہیں۔ یہ استحصال مختلف معدنی اور آبی کارپوریشنوں کی طرف سے بھارت کے غریب ترین لوگوں کا کیا جا رہا ہے۔ امریکا، بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کے تناظر میں، خود بھارت کے اندر موجود ان حقائق کوہمیشہ نظرانداز کرتا رہا ہے اور اس کے برعکس وہ بھارت کو سرمایہ کاری کے لیے منڈی اور اسلحے کے خریدار ملک کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ یہاں انھی بدصورت مگر سچ پر مبنی حقائق کو، معروف مصنفہ ارون دتی راے سے امریکی صحافی ڈیوڈ بریسمین (David Barsman) کے ایک انٹرویو کے ذریعے بے نقاب کیا جا رہا ہے۔
اچانک ہم سب نے دیکھا کہ پچھلے مسلسل تین برسوں کے موسمِ گرما سے کشمیر کی گلی محلوں کی سطح پر ایک تحریک اُبھرتی ہے۔ اور پھر جو مناظر ہم کشمیر کے بازاروں کے چوراہوں میںدیکھتے ہیں، وہ مصر میں التحریر چوک کے مناظر سے بے حد مشابہ ہیں اور یہ مناظر اب بھی بار بار دہرائے جارہے ہیں۔ لیکن ایک فرق ضرور ہے کہ مصر میں فوج نے حتی الامکان عام لوگوں پر فائرنگ کرنے سے اجتناب کیا تھا، لیکن یہاں امن و سلامتی نافذ کرنے والے اداروں کے سورما نوجوانوں پر گولیاں برسا رہے ہیں اور پھر بھی آزادی کے جذبات تھمنے میں نہیں آرہے۔ سچ تو یہ ہے جدوجہدِ آزادی کشمیر سے وابستہ یہ تمام نوجوانوں کے گروہ اپنے اظہار کی شکل بدل بدل کر ہمارے سامنے اپنا مدعا بیان کررہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں یہ کافی مشکل راستہ ہے جو نوجوان کشمیری نسل نے اختیار کیا ہے۔ انھوں نے مضبوط نوکرشاہی کے تمام پُرتشدد حربوں کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ یہ اُن کا عزم، استقلال اور صبر ہی ہے جس کی وجہ سے تمام تر جدیدترین اسرائیلی اور بھارتی اسلحہ رکھنے کے باوجود بھارتی افواج نہیں جانتیں کہ ان پتھر مارنے والوں سے کیسے نبٹا جائے، اور اس پُرامن مزاحمت کو کس طرح سرد کیا جائے؟
اس عظیم بے بسی کے بعد، بھارتی قبضے کو اخلاقی جواز صرف بھارت نواز متعصب پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ یک طرفہ پروپیگنڈے پر مبنی شوروغل، ایک بڑے ڈیم (تالاب) کی طرح ہے لیکن اس اجارہ داری کو انٹرنیٹ (فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب) نے کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے ہر روز نئی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سے بھارت نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی ہے، تب سے بھارت کے کونے کونے میں جنگیں چھیڑ دی گئی ہیں اور یہ جنگیں، کشمیر کے ساتھ ساتھ منی پور، ناگالینڈ، میزورام، اور آسام میں جاری ہیں۔ کشمیر اب واحد جگہ نہیں رہا جہاں شناخت پریڈ، مورچہ بندی، دوران تشدد قتل و غارت اور انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہو۔ یہ جنگ اب بھارت کے مرکز تک پہنچ چکی ہے لیکن بھارتی ریاست ان آوازوں پر کان نہیںدھرنا چاہتی جو کشمیر کی گلی محلوں سے آرہی ہیں اور نہ اُن اسباق ہی کو پڑھنا چاہتی ہے جو کہ پتھروں پر لکھے ہوئے آرہے ہیں۔ چنانچہ اب باقی تمام تر بھارت کئی لحاظ سے کشمیر بنتا جا رہا ہے۔ عسکریت پسندی، دھونس اور تشدد پورے ملک میں پھیلتا جا رہا ہے۔
مصر میں ہم نے دیکھا کہ لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ ’جمہوریت کی طرف بڑھتے ہوئے اقدام‘ کی حیثیت سے دکھائی گئی۔ شہ سرخیاں جمائی گئیں: ’’مصر اب آزاد ہے‘‘… ’’مصرفوجی تسلط سے آزاد ہوگیا ہے‘‘، لیکن کشمیر کے بارے میں اُن کے پاس کہنے کو الفاظ نہیں ہیں۔ کیا یہ محض مفاداتی سیاست نہیں ہے کہ مصر، امریکا اور مغربی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اہم ملک ہے، کیونکہ مصر کو کنٹرول میں لائے بغیر غزہ کے محاصرے کے کوئی معنی نہیں ہیں اور حسنی مبارک بھی، اپنے اقتدار سے علیحدہ ہونے سے پہلے اخبارات کے مطابق، لمحہ بہ لمحہ گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے موت کے قریب جا رہاتھا۔ دوسری طرف کشمیر کو کوریج نہیں دی جاسکتی کیونکہ اگر کشمیر ہاتھ سے جاتا ہے تو پھر افغانستان اور بھارت میں بہت کچھ چلا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیریوں کی درد بھری آہیں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے دنیا کے ممالک ایک ارب سے زائد آبادی کے حامل ملک بھارت کی پُرکشش منڈی کو کھودیں اور اپنے سب سے بڑے گاہک کو ناراض یا غضب ناک کر دیں۔ اس لیے کوئی بھی موجودہ استحصال پر مبنی صورت حال اور منظرنامے کو تبدیل نہیں کرنا چاہتاہے۔ لہٰذا مغرب کو بھارت کی دووجوہات سے ضرورت رہے گی۔ ایک تو جیساکہ میں نے بیان کیا کہ بھارت ایک انتہائی وسیع اور بڑی منڈی ہے۔ دوسرا بھارت کو عالمی طور پر اُبھرتی ہوئی طاقت چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی مغربی خواہش ہے۔ ان عوامل کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق انسانی حقوق کی پامالی کی تمام تر تفصیلات ایک طرف رکھتے ہوئے بھارت مغرب کا مستقل نوعیت کا اتحادی رہے گا، اور مسئلۂ کشمیر کے لیے بھارت کو ناراض کرنا کبھی مغربی طاقتوں کی حکمت عملی نہیں بن سکتی۔
اس کے علاوہ آج کل اخبارات، اور ٹی وی پر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ کشمیریوں کو فوج اور پولیس میں بھرتی کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک طرح سے بے عزتی ہے۔ اعلان کیا جاتا ہے کشمیریوں نے خاموشی سے compensation (زرتلافی) قبول کرلیاہے۔ گویا پہلے فوج کشمیریوں کا قتلِ عام کرے، اور پھر جرمانے کے طور پر اُن کے قریبی رشتہ داروں کو معمولی معاوضوں پر شورش زدہ علاقوں میں بھیج کر اپنے ’قومی مفادات‘ پورے کرے۔ یہ دوہرا ظلم ہے۔ یوں لگتا ہے سرکاری منصوبے کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہرسطح اور ہرقیمت پر زیادہ سے زیادہ کشمیریوں کو بے عزت کیا جائے، یعنی محض جسمانی تشدد اور قتل و غارت گری کے ذریعے ہی نہیں، بلکہ نفسیاتی طور پر اذیت پہنچا کر بھی۔
متحرک جمہوریت کے دعوے کے جواب میں، مَیں بھارتی وزیراعظم سے ایک سوال کا جواب چاہتی ہوں۔ اگر چھتیس گڑھ کے دیہاتی، یا عام کشمیری کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے اور یہاں ناانصافی سے مراد یہ ہے کہ اُس کے خاندان کے چند افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے، یا جان و مال کی سلامتی کا تحفظ کرنے والے ادارے اُس کی بیٹی یا بہن یا بہو کے ساتھ زنا بالجبر کرتے ہیں، تو آخر اس متحرک جمہوریت میں ایساکون سا غیر جانب دار ادارہ ہے جہاں وہ جاکر حصولِ انصاف کے لیے درخواست دائر کرسکے اور انصاف حاصل کرسکے؟ ہے کوئی؟ یقینا کوئی نہیں، چنانچہ بات یہاں ختم ہوجاتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ کشمیر کا تنازع بھارت کی قومی اَنا کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ اب بھارت اتنا دُور نکل آیا ہے کہ اُس کو اپنی طے کردہ فکر پر دوبارہ سوچنے کے لیے گہری بصیرت کی ضرورت ہوگی۔ لیکن ایسی صورت حال میں جہاں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے رہی ہوں، مثلاً برسرِاقتدار کانگریس اگر کوئی جرأت مند اقدام اُٹھانا چاہے تو بی جے پی اس معاملے پر سیاست چمکانا شروع کر دے گی اور جمہوریت نواز حقیقت پسندانہ فیصلے کے لیے کوئی موقع نہیں چھوڑے گی۔ اس طرح یہ منحوس چکر چلتا رہتا ہے۔
لیکن ایسی بات بھی نہیں کہ بھارتیوں کے کشمیری موقف میں دراڑیں نہ پڑی ہوں اور یہ دراڑیں کشمیریوں کی پُرامن، بغیر اسلحے کے سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں اور زیادہ گہری اور وسیع ہوتی جائیں گی۔ عام پڑھے لکھے بھارتی اب کشمیریوں کی آواز سننے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ اب وہ عوام کو یہ کہہ کر بہلا نہیں سکتے کہ یہ جنگجو ہیں، دیکھو یہ اسلامسٹ ہیں اور یہ طالبان ہیں؟ بھارت میں اٹوٹ انگ والا طے شدہ موقف دم توڑ رہا ہے۔ اس لیے چھتیس گڑھ، اڑیسہ، جھاڑکھنڈ، کشمیر اور کسی حد تک منی پور میں بھارت نواز سرکاری حکومت اس امر سے باخبر ہے کہ بھارتی عوام کے کشمیر کے بارے میں قومی اتفاق راے کو ٹھیس پہنچی ہے اور اس میں گہری دراڑ پڑچکی ہے۔
یقینا تمام ممالک اس روش پر چل رہے ہیں لیکن بھارت سب سے بڑھ کر چل رہا ہے۔ جاسوسی کے آلات اور نگرانی کے آلات کا طوفان اُمڈ پڑا ہے، حالانکہ روایتی اسلحے کا زیادہ تر استعمال نیو دہلی میں راج پتھر کی روایتی پریڈ کے دوران ہوتا ہے، اور محض دکھاوے پر مبنی ڈرامے کے لیے سرمایہ کاری کی طرح بن جاتا ہے۔ اس ملک میں جہاں اربوں، کھربوں روپے، خوف پر مبنی خارجہ پالیسی کے تحت اسلحے کی خریداری میں جھونک دیے جاتے ہیں عام آدمی ۲۰روپے روزانہ سے بھی کم پر گزارا کررہا ہوتا ہے۔
ارون دتی راے معروف ناول نگار اور تجزیہ نگار ہیں اور مین بوکر پرائز (۱۹۹۷ء) اور سڈنی امن پرائز (۲۰۰۴ء) حاصل کرچکی ہیں
توجہ: ’حقوقِ نسواں ایکٹ کے خلاف عدالتی فیصلہ‘ ڈاکٹر حافظ حسن مدنی (جولائی ۲۰۱۱ء) میں مضمون کی تیاری میں ’ویمن کمیشن جماعت اسلامی‘ کی سفارشات کا حوالہ دیا گیا تھا جو صحیح نہیں۔ درست حوالہ ’ویمن اسلامک لائرز فورم‘ (WIL Forum) ہے۔ (ادارہ)
صدر اوباما نے ۲۰۰۸ء میں صدر منتخب ہونے سے ایک ہفتے پہلے، کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کے ذریعے مسئلۂ کشمیر حل کروانے کی یقین دہانی کروائی تھی، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک پاکستان اور بھارت کے مابین اس مسئلے کی وجہ سے تین جنگیں ہوچکی ہیں۔ یقینا یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ لیکن اُس وقت بھارت کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں اوباما کے ان خیالات کو ’خطرے کی گھنٹی‘ کے طور پر دیکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما نے مسئلۂ کشمیر کے معاملے میں سردمہری اختیار کرلی ہے۔
اپنے موجودہ دورۂ بھارت میں اوباما نے کشمیر کے مسئلے پر کوئی مداخلت نہ کرنے کا اور اقوام متحدہ میں بھارت کی مستقل نشست کے لیے حمایت کا اعلان کرکے اپنے میزبانوں کو خوش کردیا۔ مزید یہ کہ دورے میں جب جب دہشت گردی کے مسئلے پر بات ہوئی تو امریکا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر یک سر خاموش رہا۔ کیا مسٹر اوباما نے کشمیر پر اپنے موقف کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ اس کا انحصار مختلف باتوں پر بھی ہے، مثلاً افغانستان کی جنگی صورت حال، امریکا کو کس حد تک پاکستان کی ضرورت ہے، اور کیا بھارتی حکومت اس موسم میں امریکا سے ایئرکرافٹ خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ اس کے علاوہ بھاری تجارتی معاہدوں پر پیش رفت جاری ہے جس کی وجہ سے یہ خاموشی سمجھ میں بھی آتی ہے۔ لیکن سب کو یاد رہنا چاہیے کہ مسٹراوباما کی خاموشی اور عدم مداخلت کی یقین دہانی کشمیری عوام کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پتھر رکھنے پر آمادہ نہیں کرسکتی۔
میں ۱۰ روز پہلے کشمیر میں پاکستانی سرحد کے پاس خوب صورت وادی میں تھی۔ یہ وادی تین تہذیبوں (اسلام، ہندو اور بدھ ازم) کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ وادی افسانوی تاریخ کی حامل ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ حضرت عیسٰی ؑکی جاے قیام رہی ہے، جب کہ کچھ کے نزدیک یہاں حضرت موسٰی ؑاپنے کھوئے ہوئے قبیلے کی تلاش میں آئے تھے۔ یہاں حضرت بلؒ کے مزار پر لاکھوں عقیدت مند فاتحہ خوانی کے لیے بھی آتے ہیں اور ہر سال چند دنوں کے لیے پیغمبر محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کے موے مبارک کی زیارت بھی کروائی جاتی ہے۔ میری منزل شوپیّاں کا مضافاتی دیہات تھا۔ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے جنوب کی طرف جانے والی سڑک پر بھاری تعداد میں بھارتی فوج میں موجود تھی۔ اُنھیں سڑک کے دونوں اطراف باغات میں، کھیتوں اور دکانوں کی چھتوں اور بازاروں پر تعینات کیا گیا تھا۔ یہاں ۵ لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں بھارتی افواج موجود ہیں۔ اس لیے یہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے زیادہ افواج کی تعیناتی والا علاقہ بن گیا ہے۔ فضا نہایت کشیدہ تھی۔ مہینوں تک پھیلے ہوئے کرفیو کے باوجود، نوجوانوں کے ہاتھوں میں ’پتھر‘ تھے۔ وہ فلسطینی ’انتفادہ‘ کی تحریک سے متاثر نظر آرہے تھے اور ’آزادی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ وہ مسلسل کہہ رہے تھے: ’’ہم کیا چاہتے ہیں… آزادی! چھین کر لیں گے… آزادی!
میں جن دوستوں کے ساتھ جارہی تھی وہ مطلوبہ دیہات تک جانے والے متبادل راستے سے واقف تھے۔ میں نے دورانِ سفر ان سے مزاحمتی تحریک کے بارے میں تفصیل سنی۔ ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ جب میرے تین دوستوں نے پتھر پھینکے تو اس ’جرم‘ کی پاداش میں بھارتی پولیس نے اُن کے ناخنوں کو اُکھاڑ دیا۔
تین سال سے اب تک کشمیری گلیوں میں ہیں اور بھارتی ناجائز قبضے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں حالانکہ اس موجودہ مزاحمتی تحریک کا الزام پاکستان پر بھی عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سب کچھ مقامی ہے۔ بھارتی فوج کا ایک طرف دعویٰ ہے کہ ۵۰۰ سے بھی کم جنگ جو وادی میں موجود ہیں۔ اس جنگ میں ۷۰ہزار کشمیری شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں کشمیری زخمی ہوئے، جب کہ ہزارں کو ’ہمیشہ کے لیے غائب‘ کردیا گیا ہے۔ اب، جب کہ جنگ جُو مزاحمت کاروں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن بھارتی فوج کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لیکن ہمیں بھارتی فوج کے غلبے کو سیاسی فتح نہیں سمجھنا چاہیے۔ نہتے عوام کے دلوں میں بھارتی افواج کے خلاف نفرت کا سمندر موجزن ہوچکا ہے۔ ایک پوری نسل چیک پوسٹوں، بنکر، آرمی کیمپ اور ٹارچر سیلوں کے سایے میں جوان ہوچکی ہے۔ ان کا بچپن ’پکڑو اور قتل کرو‘ جیسی کارروائیوں کو دیکھتے اور برداشت کرتے گزرا ہے۔ اُن کے لاشعور میں مخبری کے الزام، خفیہ اداروں کی جاسوسی اور جعلی انتخابات جیسے واقعات ثبت ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایک طرف تو اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے تو دوسری طرف اُن کا خوف ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جنون کی حدوں کو چھوتے ہوئے حوصلے نے نوجوان کشمیریوں کو بہادر اور نڈر بنا دیا ہے۔ ان کشمیریوں نے افواج کو پیچھے دھکیل کر اپنی گلیوں کو دوبارہ حاصل کرلیا ہے۔
اس سال اپریل میں افواج نے تین شہریوں کو قتل کیا تھا۔ اُن کا جرم صرف پتھر پھینکنا تھا۔ وہ تینوں طالب علم تھے۔ اُنھیں بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ لیکن یہ خون جدوجہد آزادی کو نیا ولولہ دے گیا۔ بھارتی افواج نے کرفیو اور گولیوں سے مزاحمت کی جس کے تحت پچھلے چھے مہینوں میں ۱۱۱ کشمیریوں کا قتل عام کیا جاچکا ہے۔ اس میں زیادہ تر ۱۰ سے ۲۰ سال کی عمر کے نوجوان ہیں۔ ۳ہزار زخمی ہونے والے اور ایک ہزار گرفتار ہونے والے اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن اس ظلم و استبداد کے باوجود نوجوان اب بھی باہر آتے ہیں اور پتھر پھینکتے ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں ہیں۔ وہ اپنی نمایندگی خود کر ہے ہیں۔ اس لیے اب دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے۔ دنیا کی سب سے بڑی ’جمہوریت‘ نہیں جانتی کہ وہ کس سے مذاکرت کرے۔ اب تو بہت سے بھارتی بھی سمجھنے لگے ہیں کہ کئی عشروں سے اُن سے جھوٹ بولا جاتا رہا ہے۔ کشمیر کے بارے میں ’اٹوٹ انگ‘ والے روایتی موقف میں بڑی واضح دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
بھارتی صحافی ہونے کے باوجود مجھے شوپیّاں کے اس گائوں کی طرف جاتے ہوئے بھارتی حکومت کی طرف سے شدید مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ چند دن پہلے ’آزادی… واحد راستہ‘ کے نام سے ہونے والی نشست میں مَیں نے کشمیر کے بارے میں کہا تھا: ’’کشمیر متنازعہ علاقہ ہے بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں، جیساکہ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے‘‘۔ اس پر مشتعل انتہاپسند ہندو سیاست دانوں اور ٹی وی میزبانوں نے مجھ پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کردیا۔ شام کی خبروں میں مجھے غدار، دہشت گرد اور باغی عورت کے خطابات سے نوازا گیا۔ صرف اس لیے کہ میں نے جھوٹ کو سچ کہنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن کشمیر کے حالیہ دورے میں شوپیّاں جانے والی سڑک پر، اپنے دوستوں کو سنتے ہوئے اور خود کشمیر کے حالات کو دیکھتے ہوئے میں خود کو اس بات پر قائل نہ کرسکی کہ میں نے دہلی میں کشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ غلط تھا اور مجھے اُس پر پچھتاوا ہونا چاہیے۔
ہم ایک کشمیری شکیل احمد کے گھر کی طرف سفر کر رہے تھے، کیونکہ ایک دن پہلے سری نگر میں جہاں میں ٹھیری ہوئی تھی مجھے کہا گیا تھا کہ مجھے شوپیّاں کا دورہ ضرور کرنا چاہیے۔ میں شکیل سے اس سے پہلے جون ۲۰۰۹ء میں ملی تھی۔ جب اُس کی ۲۲ سالہ بیوی نیلوفر اور ۱۷سالہ بہن عائشہ کی لاشیں ایک ندی سے ہزار گز کے فاصلے پر ملی تھیں۔ یہ وہ جگہ تھی جس کے دونوں اطراف میں بھارتی افواج اور پولیس کے ہیڈ کوارٹر موجود تھے۔ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں زنا بالجبر اور قتل کی تصدیق ہوئی۔ ایک بھونچال کھڑا ہوگیا۔ چنانچہ ’سسٹم‘ آڑے آگیا۔ لاشوں کے دوبارہ معائنے کے بعد نئی رپورٹ میں زنا بالجبر سے انحراف کرلیا گیا اور سرکاری اعلان سامنے آیا کہ دونوں کی اموات پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شوپیّاں ۴۷دن تک بند رہا۔ وادی میں کئی ماہ تک اشتعال کی کیفیت رہی۔ اس بہیمانہ زیادتی اور قتلِ عام کے واقعے نے بغاوت کی لہر کو بڑھاوا دیا اور تحریکِ آزادی کے متوالوں کو نئے جذبے سے آشنا کردیا۔ شکیل مجھے شوپیّاں اس لیے بھی لانا چاہتا تھا کیونکہ بھارتی پولیس نے اُسے سختی سے بولنے سے منع کر دیا تھا۔ اس طرح اُسے امید تھی کہ ہمارے دورے سے مسئلۂ کشمیر عالمی سطح پر اُجاگر ہوجائے گا اور وہ خود کو تنہا نہیں سمجھے گا۔
کشمیر میں یہ سیبوں کے پکنے کا موسم ہے۔ جیسے ہی ہم شوپیّاں پہنچے ہم نے مختلف خاندانوں کو اپنے باغات میں سیب لکڑی کے کریٹ میں چن کر رکھتے ہوئے دیکھا۔ میں نے یہاں سرخ گالوں والے کشمیری بچے بھی دیکھے۔ وہ بھی کشمیری سیب کی طرح لگ رہے تھے لیکن المیہ یہ تھا اُنھیں غلط کریٹ میں رکھ دیا گیا تھا۔ ہمارے آنے کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ کشمیریوں کا چھوٹا سا گروہ سڑک پر ہمارا منتظر تھا۔ شکیل کا گھر قبرستان کے کنارے پر تھا جہاں اُس کی بیوی اور بہن دفن تھیں۔ اندھیرا ہونے والا تھا، بجلی بھی گئی ہوئی تھی۔ ہم نیم دائرے میں بیٹھ گئے۔ صرف ایک لالٹین کی روشنی تھی۔ میں نے انھیں اپنی کہانی سنانے کو کہا۔ رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی آتے گئے۔ نئی تکلیف دہ کہانیاں سامنے آنے لگیں۔ یہ مظلوم عورتوں اور یتیم بچوں کی کہانیاں تھیں جنھوں نے خود کو بھارتی شہری ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ کیا یہ اتنا بڑا جرم ہے؟ شکیل کا بچہ بھی کھیلتے کھیلتے اُس کمرے میں آگیا۔ جلد ہی وہ بڑا ہوکر جان جائے گا کہ اُس کی ماں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ جب ہم واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو پیغام ملا کہ شکیل کا سسر، یعنی نیلوفر کا باپ اُن کا اپنے گھر پر منتظر ہے۔ ہم نے پیغام بھجوایا کہ اس طرح بہت دیر ہوجائے گی اور واپسی کا سفر محفوظ نہیں رہے گا۔
خدا حافظ کہنے کے چند لمحوں بعد، جب ہم کار میں بیٹھ رہے تھے تو ایک صحافی دوست کا فون آگیا: پولیس میری گرفتاری کے وارنٹ ٹائپ کر رہی ہے اور آج رات مجھے گرفتار کرلیا جائے گا حالانکہ اس کا امکان کم تھا۔ یہ مجھے خوف زدہ کرنے کا نفسیاتی حربہ تھا۔
جب ہماری گاڑی نے رفتار پکڑی تو دو آدمیوں نے جو موٹرسائیکل پر سوار تھے ہمیں رُکنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے حوصلہ کر کے گاڑی روک دی۔ ایک بوڑھا آدمی، جس کی سبزی مائل آنکھیں اور کھچڑی داڑھی تھی، آگے بڑھا۔ اُس کا نام عبدالحئی تھا۔ وہ یقینا نیلوفر کا باپ تھا۔ ’’میں تمھیں سیبوں کے بغیر کیسے جانے دے سکتا ہوں؟‘‘ اُس نے کہا۔ موٹرسائیکل سوار نے دو سیبوں کے کریٹ ہماری کار میں رکھ دیے۔ عبدالحئی نے اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک انڈا باہر نکالا اور میری ہتھیلی پر رکھ دیا اور میری انگلیاں بند کر دیں اور دوسرا انڈا میری دوسری ہتھیلی پر رکھ دیا۔ اُبلے ہوئے انڈے ابھی تک گرم تھے۔ ’’خدا تمھاری حفاظت کرے‘‘ اُس نے کہا اور وہ سخت ٹھنڈ اور تاریکی میں گم ہوگیا۔ کسی بھی لکھنے والی کے لیے اس سے بڑا انعام اور کیا ہوسکتا تھا!
مجھے گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ محض ایک سیاسی حربہ تھا۔ میں دہلی گھر واپس آئی تو بی جے پی کی عورتوں نے میرے گھر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مجھے عمرقید سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ قاتل اور خونی بجرنگ دل کے جنگجو ہندو جنھوں نے ۲۰۰۲ء میں گجرات میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا، انھوں نے مجھے تمام ’ذرائع‘ استعمال کرتے ہوئے ’دماغ درست‘ کرنے کی دھمکی دی، اور ملک بھر میں مختلف عدالتوں میں میرے خلاف مقدمے دائر کرنے کا اعلان کیا۔ بھارتی حکومت اور انتہاپسند ہندوئوں اور قوم پرست سیکولر بھارتیوں کو پتا نہیں کیوں یہ یقین ہونے لگا ہے کہ وہ اکھنڈ بھارت کے نظریے کی بڑھوتری، لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اور بوئنگ ایئرکرافٹ کی خریداری کے ذریعے کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ اُبلے ہوئے گرم انڈوں کی مزاحمتی طاقت اور تاثیر کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ (Kashmir's Fruits of Discord،نیویارک ٹائمز، ۸ نومبر ۲۰۱۰ئ)
ارون دتی راے، بھارت کی معروف ناول نگار اور تجزیہ نگار ہیں۔