دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار بھارت کو، روز افزوں معاشی ترقی کے باوجود وسیع علاقوں میں پھیلی ہوئی علیحدگی پسند تحریکوں اور بغاوتوں کا سامنا ہے۔ چنانچہ اگر ایک طرف آزادیِ کشمیر کی توانا تحریک ہے تو دوسری طرف مائونواز باغی (مائوسٹ) اپنے غصب شدہ حقوق کی بحالی کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اسے اب سرکاری میڈیا نے خطرناک علاقہ (Red Corridor) قرار دے دیا ہے۔ دراصل یہ مزاحمتیں اور یہ تحریکیں، بھارت میں بڑھتے ہوئے معاشرتی اور معاشی استحصال کا قدرتی و فطری ردعمل ہیں۔ یہ استحصال مختلف معدنی اور آبی کارپوریشنوں کی طرف سے بھارت کے غریب ترین لوگوں کا کیا جا رہا ہے۔ امریکا، بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کے تناظر میں، خود بھارت کے اندر موجود ان حقائق کوہمیشہ نظرانداز کرتا رہا ہے اور اس کے برعکس وہ بھارت کو سرمایہ کاری کے لیے منڈی اور اسلحے کے خریدار ملک کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ یہاں انھی بدصورت مگر سچ پر مبنی حقائق کو، معروف مصنفہ ارون دتی راے سے امریکی صحافی ڈیوڈ بریسمین (David Barsman) کے ایک انٹرویو کے ذریعے بے نقاب کیا جا رہا ہے۔
ڈیوڈ بریسمین: ۲۰۱۰ء کا موسم گرما مقبوضہ کشمیر کے لیے خونی موسم گرما تھا۔ یہ پتھر اور پتھر پھینکنے والوں کا موسم تھا۔ آپ اکثر کشمیر جاکر ، جدوجہد آزادیِ کشمیر کے بارے میں لکھتی رہی ہیں۔ یہ پتھر آخر کیا کہانی سنا رہے ہیں اور یہ پتھر مارنے والے کون ہیں؟
ارون دتی راے: ’خونی‘ موسم گرما … آپ نے بالکل درست بیان کیا ہے کیونکہ کشمیریوں کے لیے یہ ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک کے خونیں ترین موسم گرما میں سے ایک تھا۔ اگرچہ اب تک تقریباً ۷۰ہزار سے زائد کشمیریوں کا قتلِ عام ہوچکا ہے لیکن یہ موسمِ گرما مختلف نوعیت کا تھا۔ کیونکہ بھارتی افواج کی طرف سے مسلسل دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ اُنھوں نے اُن عسکریت پسند جنگجوئوں کا خاتمہ کردیا ہے، جو ۱۹۹۰ء کے عشرے میں ’اچانک‘ سامنے آئے تھے۔ بھارتی عوام کو تقریباً قائل کر لیا گیا تھا کہ بھارتی افواج نے بندوق کی نوک پر ’امن‘ قائم کروا لیا ہے اور کشمیر میں معمول کی زندگی واپس لے آئے ہیں۔ اب کشمیری نوجوان کافی شاپس، ریڈیو اسٹیشن اور ٹی وی شوز کے ذریعے ’قومی ترقی‘ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ یک طرفہ پروپیگنڈا اتنا مؤثر تھا کہ غیر جانب دار حلقے بھی یقین کر چلے تھے کہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔
اچانک ہم سب نے دیکھا کہ پچھلے مسلسل تین برسوں کے موسمِ گرما سے کشمیر کی گلی محلوں کی سطح پر ایک تحریک اُبھرتی ہے۔ اور پھر جو مناظر ہم کشمیر کے بازاروں کے چوراہوں میںدیکھتے ہیں، وہ مصر میں التحریر چوک کے مناظر سے بے حد مشابہ ہیں اور یہ مناظر اب بھی بار بار دہرائے جارہے ہیں۔ لیکن ایک فرق ضرور ہے کہ مصر میں فوج نے حتی الامکان عام لوگوں پر فائرنگ کرنے سے اجتناب کیا تھا، لیکن یہاں امن و سلامتی نافذ کرنے والے اداروں کے سورما نوجوانوں پر گولیاں برسا رہے ہیں اور پھر بھی آزادی کے جذبات تھمنے میں نہیں آرہے۔ سچ تو یہ ہے جدوجہدِ آزادی کشمیر سے وابستہ یہ تمام نوجوانوں کے گروہ اپنے اظہار کی شکل بدل بدل کر ہمارے سامنے اپنا مدعا بیان کررہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں یہ کافی مشکل راستہ ہے جو نوجوان کشمیری نسل نے اختیار کیا ہے۔ انھوں نے مضبوط نوکرشاہی کے تمام پُرتشدد حربوں کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ یہ اُن کا عزم، استقلال اور صبر ہی ہے جس کی وجہ سے تمام تر جدیدترین اسرائیلی اور بھارتی اسلحہ رکھنے کے باوجود بھارتی افواج نہیں جانتیں کہ ان پتھر مارنے والوں سے کیسے نبٹا جائے، اور اس پُرامن مزاحمت کو کس طرح سرد کیا جائے؟
اس عظیم بے بسی کے بعد، بھارتی قبضے کو اخلاقی جواز صرف بھارت نواز متعصب پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ یک طرفہ پروپیگنڈے پر مبنی شوروغل، ایک بڑے ڈیم (تالاب) کی طرح ہے لیکن اس اجارہ داری کو انٹرنیٹ (فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب) نے کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے ہر روز نئی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر، فوجی کیمپوں، تفتیشی مراکز، جیلوں، مورچوں اور بنکرز سے اَٹا پڑا ہے جس کی وجہ سے یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے، پوری دنیا میں سب سے زیادہ فوج رکھنے والا علاقہ بن گیا ہے۔ اس تناظر میں، مقامی کشمیری کس طرح زندگی گزار رہے ہیں؟
دیکھیے، میرا خیال ہے کہ جدوجہد آزادیِ کشمیر کو اب کوئی نہیں ختم کرسکتا، کیونکہ کشمیریوں نے اپنے بارے میں خود لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے اب ہمیں کشمیریوں کی کہانیاں سنانے کی ضرورت نہیں رہی، اور ویسے بھی ہم اُن کی اذیت ناک کہانیوں کو اپنے ذاتی تجربات کی حیثیت سے بیان نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ہمیں کبھی، اُن کی طرح شناخت پریڈ میں بے عزت نہیں کیا گیا۔ ہمیں حقیقت جاننے کے لیے انسانی حقوق کی رپورٹس، اخبارات میں بیان کردہ ٹارچر سیلوں (عقوبت خانوں) کے احوال، جھوٹے مقدمات کی بنیاد پر گرفتاریوں کی تفصیلات کے مطالعے سے صورت حال سے آگاہی حاصل کرنا پڑتی ہے لیکن ہم اُن جیسا محسوس تو نہیں کرسکتے۔ میں ابھی تک اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہوں کہ آپ کس طرح محسوس کریں گے اگر کسی چیک پوسٹ پر آپ کو روکا جائے اور آپ کے سامنے آپ کے بوڑھے ماں باپ کو تھپڑ رسید کیے جائیں یا پھر آپ کے شوہرکو بے عزت کیا جائے۔ اس طرح کے واقعات تو قید میں ہوتے ہیں۔ مجھے تو کشمیر بھی دنیاکا سب سے بڑا جیل خانہ ہی لگتا ہے۔ کشمیری اگر اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات کی یادداشتیں لکھیں تو پھر یہ ایک قیدی کی یادداشتیں جیسی ہوں گی۔ بھارتی فوج صرف زبانی بے عزتی پر اکتفا ہی نہیں کرتی۔ میں نے اکثر اس طرح کے الفاظ اُن کے منہ سے سنے ہیں: یہ لڑکا اس لیے مارا گیا کیونکہ ہم نے اسے رُکنے کے لیے کہا لیکن وہ نہیں رُکا‘‘۔ ہرقسم کے تاثر اور ہمدردی سے خالی الفاظ… بس یہی اُس ۱۵ یا ۱۶سال کے کشمیری نوجوان کی زندگی کی قیمت ہے!
حقیقت یہ ہے کہ جب سے بھارت نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی ہے، تب سے بھارت کے کونے کونے میں جنگیں چھیڑ دی گئی ہیں اور یہ جنگیں، کشمیر کے ساتھ ساتھ منی پور، ناگالینڈ، میزورام، اور آسام میں جاری ہیں۔ کشمیر اب واحد جگہ نہیں رہا جہاں شناخت پریڈ، مورچہ بندی، دوران تشدد قتل و غارت اور انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہو۔ یہ جنگ اب بھارت کے مرکز تک پہنچ چکی ہے لیکن بھارتی ریاست ان آوازوں پر کان نہیںدھرنا چاہتی جو کشمیر کی گلی محلوں سے آرہی ہیں اور نہ اُن اسباق ہی کو پڑھنا چاہتی ہے جو کہ پتھروں پر لکھے ہوئے آرہے ہیں۔ چنانچہ اب باقی تمام تر بھارت کئی لحاظ سے کشمیر بنتا جا رہا ہے۔ عسکریت پسندی، دھونس اور تشدد پورے ملک میں پھیلتا جا رہا ہے۔
پھر مسئلۂ کشمیر عالمی توجہ حاصل کرنے میں ناکام کیوں رہا؟
اچھا سوال ہے۔ جب مصر میں احتجاج کی لہر اُٹھی اور عوام التحریر چوک میں اکٹھے ہوئے تو میں نے دیکھا کہ بین الاقوامی مغربی میڈیا نے اس سارے واقعے کو بہت زیادہ کوریج دی۔ لیکن ۲۰۰۸ء سے اب تک کشمیر میں ہر موسمِ گرما میں التحریر چوک جیسے کئی مناظر وقوع پذیر ہوچکے ہیں لیکن ہمیں اس کی معمولی سی کوریج بھی بین الاقوامی میڈیا پر نظر نہیں آسکی۔ آخر کچھ مزاحمتی تحریکوں کو زیادہ کیوں دکھایا جاتا ہے اور باقیوں کو کیوں نظرانداز کر دیا جاتا ہے؟ حالانکہ اگر مزاحمت کرنے والوں کے حوصلے، پامردی اور جرأت کی بات ہے تو پھر مصر ہو یا کشمیر، حتیٰ کہ کانگو بھی___ سب برابر ہیں، لیکن بین الاقوامی میڈیا بالخصوص مغربی میڈیا کا ایک پر توجہ مرکوز کیے رکھنا اور دوسرے کو یکسر نظرانداز کر دینا، یہ بہت اہم سوال ہے۔
مصر میں ہم نے دیکھا کہ لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ ’جمہوریت کی طرف بڑھتے ہوئے اقدام‘ کی حیثیت سے دکھائی گئی۔ شہ سرخیاں جمائی گئیں: ’’مصر اب آزاد ہے‘‘… ’’مصرفوجی تسلط سے آزاد ہوگیا ہے‘‘، لیکن کشمیر کے بارے میں اُن کے پاس کہنے کو الفاظ نہیں ہیں۔ کیا یہ محض مفاداتی سیاست نہیں ہے کہ مصر، امریکا اور مغربی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اہم ملک ہے، کیونکہ مصر کو کنٹرول میں لائے بغیر غزہ کے محاصرے کے کوئی معنی نہیں ہیں اور حسنی مبارک بھی، اپنے اقتدار سے علیحدہ ہونے سے پہلے اخبارات کے مطابق، لمحہ بہ لمحہ گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے موت کے قریب جا رہاتھا۔ دوسری طرف کشمیر کو کوریج نہیں دی جاسکتی کیونکہ اگر کشمیر ہاتھ سے جاتا ہے تو پھر افغانستان اور بھارت میں بہت کچھ چلا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیریوں کی درد بھری آہیں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے دنیا کے ممالک ایک ارب سے زائد آبادی کے حامل ملک بھارت کی پُرکشش منڈی کو کھودیں اور اپنے سب سے بڑے گاہک کو ناراض یا غضب ناک کر دیں۔ اس لیے کوئی بھی موجودہ استحصال پر مبنی صورت حال اور منظرنامے کو تبدیل نہیں کرنا چاہتاہے۔ لہٰذا مغرب کو بھارت کی دووجوہات سے ضرورت رہے گی۔ ایک تو جیساکہ میں نے بیان کیا کہ بھارت ایک انتہائی وسیع اور بڑی منڈی ہے۔ دوسرا بھارت کو عالمی طور پر اُبھرتی ہوئی طاقت چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی مغربی خواہش ہے۔ ان عوامل کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق انسانی حقوق کی پامالی کی تمام تر تفصیلات ایک طرف رکھتے ہوئے بھارت مغرب کا مستقل نوعیت کا اتحادی رہے گا، اور مسئلۂ کشمیر کے لیے بھارت کو ناراض کرنا کبھی مغربی طاقتوں کی حکمت عملی نہیں بن سکتی۔
۲۰۰۸ء میں صدر اوباما نے اپنے انتخاب کے لیے، کشمیر کو انتہائی ’اہم مسئلہ‘ قرار دیا تھا جس کو حل کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا تھا؟ دہلی میں اس تبصرے کو کس طرح دیکھا اورسمجھا گیا اور اوباما نے اپنی بات کو پورا کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ خاص طور پر جب اُس نے بھارت کا نومبر ۲۰۱۰ء میں دورہ کیا تھا؟
صد اوباما کا کشمیر کے حوالے سے عزم بھارتی سرکار کے لیے انتہائی پریشان کا باعث بنا تھا۔ اس کے ردعمل میں بھارت نے امریکا کو فوراً جتادیا تھا کہ اگر مسئلۂ کشمیر کو عالمی طور پر زندہ کرنے کی کوشش کی گئی، تو بھارت اس صورت حال سے بچنے اور اس آواز کو دبانے کی ہرممکن کوشش کرے گا اور بھارت نواز لابی نے باہر بیٹھ کر یہی کچھ کیا۔ چنانچہ اوباما جب بھارت کے طویل دورے پر نومبر میں آئے تو اُس وقت کشمیر کی گلیاں آزادی کے نعرے لگانے والے نوجوانوں سے بھری پڑی تھیں۔ کئی معصوم نوجوانوں کا خون بھی بہایا گیا لیکن صدر اوباما نے کشمیر کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
مطلق العنان ظالم ریاستوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کو انسانی حقوق سے محروم کردیتی ہیں، یا پھر ان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر کے ان کے اثرات کو زائل یا کم کرنے کی کوششیں کرتی ہیں۔ کیا بھارت بھی یہی کچھ کر رہا ہے؟
یہ واضح تھا اور واضح تر ہے کہ بھارت نوآبادیاتی استعماری ریاست کی طرح کام کر رہا ہے۔ آزادی سے قبل بھارتی شہریوں کو عراق اور دیگر دنیا کے حصوں میں تاج برطانیہ کے جھنڈے کے ’تحفظ‘ کی خاطر بھیجا جاتا تھا۔ اس لیے گمنام بھارتیوں کی قبریں پوری دنیامیں پھیلی ہوئی ہیں جو کہ استعمار کی خاطر جیتے اور مرتے تھے۔ خود ۱۸۵۷ء میں بھارت میں جنگ ِ آزادی کو بعض لوگ بغاوت کہتے ہیں اور بعض آزادی کی جدوجہد کہتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بعینہٖ یہی کچھ یہاںہوا ہے۔ برطانیہ کے برعظیم پاک و ہند میں فوجی بہت زیادہ نہیںتھے لیکن ۱۸۵۷ء میں سکھوں نے برطانیہ کی طرف سے دہلی کے قریب لڑائی لڑی تھی۔ یہی کچھ بھارت اب خود کر رہا ہے۔ اُس نے ناگالینڈ کے غریب عیسائیوں کو چھتیس گڑھ لڑنے کے لیے بھیجا اور چھتیس گڑھ والوں کو کشمیر بھیجا اور کشمیریوں کو اڑیسہ تعینات کیا گیا۔
اس کے علاوہ آج کل اخبارات، اور ٹی وی پر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ کشمیریوں کو فوج اور پولیس میں بھرتی کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک طرح سے بے عزتی ہے۔ اعلان کیا جاتا ہے کشمیریوں نے خاموشی سے compensation (زرتلافی) قبول کرلیاہے۔ گویا پہلے فوج کشمیریوں کا قتلِ عام کرے، اور پھر جرمانے کے طور پر اُن کے قریبی رشتہ داروں کو معمولی معاوضوں پر شورش زدہ علاقوں میں بھیج کر اپنے ’قومی مفادات‘ پورے کرے۔ یہ دوہرا ظلم ہے۔ یوں لگتا ہے سرکاری منصوبے کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہرسطح اور ہرقیمت پر زیادہ سے زیادہ کشمیریوں کو بے عزت کیا جائے، یعنی محض جسمانی تشدد اور قتل و غارت گری کے ذریعے ہی نہیں، بلکہ نفسیاتی طور پر اذیت پہنچا کر بھی۔
بھارت کا مسلسل اصرار ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم نے جو ۱۹۹۰ء کے عشرے میں وزیر مالیات تھے، جب بھارت میں لبرل اصلاحات کا نفاذ کیا تو تسلیم کیا تھا کہ کشمیر میں گڑبڑ ہے۔ پھر بتایا گیا کہ معاملات اب قابو میں ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ بھارت اور کشمیر کے معاملے کا موازنہ فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے سے نہیں کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ بھارت میں ایک ’متحرک‘ جمہوریت کام کر رہی ہے۔ سیاست دان بھی جب بات کرتے ہیں تو بغیر سچائی کو جانے اور صورت حال کو سمجھے بغیر عزمِ مصمم کا اعادہ کرتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا حصہ رہے گا۔
یہ کہنا کہ بھارت ایک متحرک جمہوریت ہے یا پھر مشرق وسطیٰ میں فلسطین اسرائیل، تنازعے کا موازنہ کشمیر سے نہیں کیا جانا چاہیے، دونوں ہی غلط دعوے ہیں، جو کہ غلط معلومات، گمراہ کن اور دل پسند مفروضوں پر مبنی ہیں۔ تاریخ سے ہم بخوبی جان سکتے ہیں (اگر ہم متعصب نہ ہوں) کہ بھارت کا کشمیر سے سیاسی اور جغرافیائی رشتہ ماضی قریب میں کیا رہا ہے اور یہ کہنا کہ کشمیر کا فلسطین اسرائیل تنازعے سے موازنہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں (کشمیر میں) زیادہ بڑے پیمانے پر پکڑدھکڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ سیکڑوں نوجوانوں کو پکڑا اور بغیر ٹھوس ثبوت کے جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ فیس بک کو بند کر دیا گیا ہے۔ پولیس موجود ہے جو لوگوں کو خوف زدہ کررہی ہے، املاک کو جلا رہی ہے۔ کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر گھروں میں داخل ہوجاتی ہے۔ ایسی جگہیں جہاں درجۂ حرارت ۳۰ سینٹی گریڈ سے کم ہوتا ہے وہاں آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اس لیے واقعی موازنہ بنتا نہیں ہے۔ کشمیری زیادہ بدتر صورت حال کو بھگت رہے ہیں۔ جب متحرک جمہوریت کی بات کی جاتی ہے تو کشمیر میں متحرک فوجی قبضہ ضرور نظر آتا ہے۔ بھارت میں متحرک جمہوریت ہمیں دہلی، کیلاش یا گرین پارک میں تو نظر آتی ہے لیکن ڈانڈئی والا، منی پور، اڑیسہ، جھاڑکھنڈ، چھتیس گڑھ اور کشمیر میں ہرگز موجود نہیں ہے۔
متحرک جمہوریت کے دعوے کے جواب میں، مَیں بھارتی وزیراعظم سے ایک سوال کا جواب چاہتی ہوں۔ اگر چھتیس گڑھ کے دیہاتی، یا عام کشمیری کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے اور یہاں ناانصافی سے مراد یہ ہے کہ اُس کے خاندان کے چند افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے، یا جان و مال کی سلامتی کا تحفظ کرنے والے ادارے اُس کی بیٹی یا بہن یا بہو کے ساتھ زنا بالجبر کرتے ہیں، تو آخر اس متحرک جمہوریت میں ایساکون سا غیر جانب دار ادارہ ہے جہاں وہ جاکر حصولِ انصاف کے لیے درخواست دائر کرسکے اور انصاف حاصل کرسکے؟ ہے کوئی؟ یقینا کوئی نہیں، چنانچہ بات یہاں ختم ہوجاتی ہے۔
کشمیر میں اتنی مزاحمت کے باوجود بھارت وہاں کیوں ڈٹا ہوا ہے؟
بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی بات جو سمجھنے کی ہے اور بھارت اور کسی حد تک پاکستان کا بھی مفاد کشمیر کے مسئلے کو زندہ رکھنے سے وابستہ ہے۔ ایسا مفاد جو سیاسی بھی ہے اور مادی بھی۔ بھارت کو وہاں ۷ لاکھ فوجیوں کی نگہداشت کرنے کے لیے کتنی بڑی رقم کی ضرورت ہوگی جو قبضہ برقرار رکھنے کے لیے مؤثر کردار ادا کرسکے؟ کیا اس کا تخمینہ لگایا جاسکتا ہے؟ پھر اس رقم کے علاوہ وہ رقم جو زمین، خاردار تاروں، بکتربند گاڑیوں، پٹرول اور اُس جبر کو برقرار رکھنے کے لیے چاہیے۔ کشمیریوں کو دھونس، رشوتوں اور دیگر مدوں میں دی جانے والی رقم اس کے علاوہ ہے۔ یہ عسکری کاروبار مؤثر انداز سے مقامی غیرمسلم اشرافیہ اور کاروباری کمپنیوں کے مابین چل رہا ہے۔ سب کا حصہ ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا ملک چلانے جیسا ہے۔ پھر آخر کیوں کوئی اسے چھوڑنا چاہے گا؟
دوسری وجہ یہ ہے کہ کشمیر کا تنازع بھارت کی قومی اَنا کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ اب بھارت اتنا دُور نکل آیا ہے کہ اُس کو اپنی طے کردہ فکر پر دوبارہ سوچنے کے لیے گہری بصیرت کی ضرورت ہوگی۔ لیکن ایسی صورت حال میں جہاں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے رہی ہوں، مثلاً برسرِاقتدار کانگریس اگر کوئی جرأت مند اقدام اُٹھانا چاہے تو بی جے پی اس معاملے پر سیاست چمکانا شروع کر دے گی اور جمہوریت نواز حقیقت پسندانہ فیصلے کے لیے کوئی موقع نہیں چھوڑے گی۔ اس طرح یہ منحوس چکر چلتا رہتا ہے۔
لیکن ایسی بات بھی نہیں کہ بھارتیوں کے کشمیری موقف میں دراڑیں نہ پڑی ہوں اور یہ دراڑیں کشمیریوں کی پُرامن، بغیر اسلحے کے سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں اور زیادہ گہری اور وسیع ہوتی جائیں گی۔ عام پڑھے لکھے بھارتی اب کشمیریوں کی آواز سننے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ اب وہ عوام کو یہ کہہ کر بہلا نہیں سکتے کہ یہ جنگجو ہیں، دیکھو یہ اسلامسٹ ہیں اور یہ طالبان ہیں؟ بھارت میں اٹوٹ انگ والا طے شدہ موقف دم توڑ رہا ہے۔ اس لیے چھتیس گڑھ، اڑیسہ، جھاڑکھنڈ، کشمیر اور کسی حد تک منی پور میں بھارت نواز سرکاری حکومت اس امر سے باخبر ہے کہ بھارتی عوام کے کشمیر کے بارے میں قومی اتفاق راے کو ٹھیس پہنچی ہے اور اس میں گہری دراڑ پڑچکی ہے۔
کشمیر میں ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ پچھلے کئی برسوں سے اعلیٰ سطح کے اسرائیلی فوجی (بشمول اسرائیلی خفیہ اداروں کے سربراہان) کشمیر کا دورہ کرتے آرہے ہیں۔ وہ وہاں کیا کر رہے ہیں؟
امریکا اس حقیقت سے باخبر ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات متزلزل نوعیت کے رہیں گے۔ پاکستان ایٹمی طاقت بھی ہے۔ افغانستان کی ساری مہم جوئی پاکستان کے تعاون سے جاری ہے کیونکہ امریکی نہیں جانتے اب وہاںکیا کرنا ہے۔ امریکی تو یہ بھی نہیں جانتے کہ افغانستان سے باہر کیسے نکلنا ہے؟ پھر چین کے عروج کا مسئلہ بھی ہے۔ وسطی ایشیا میں وسیع پیمانے پر قدرتی گیس کے ذخائر بھی مسئلہ ہیں۔ پاکستان بھی مسئلہ ہے کیونکہ امریکا وہاں کے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت کرتا ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے اُس کو حقِ حکمرانی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں جمہوری فکر اور اداروں کو کبھی پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا۔ کم از کم بھارت کو یہ آزادی میسر آسکی ہے لیکن یہی آزادی اب خود بھارت کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ امریکا پیچھے ہٹ کر نئے اتحادی کی تلاش میں ہے کیونکہ پاکستان کو وہ نچوڑ چکا ہے اور پاکستان ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ میں یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ اس لیے وہ کشمیر و لداخ سے پسپائی کا تصور نہیں کرسکتے۔ اسرائیلیوں کا عمل دخل بھی امریکی مداخلت کی طرح ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
امریکا نے کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ مشقیں بھارت کے ساتھ مل کر کی ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق جب اوباما نے نومبر ۲۰۱۰ء میں بھارت کا دورہ کیا تو اعلان کیا: ’’بھارت بڑی تیزی سے اسلحہ خریدنے والے قابلِ اعتماد خریدار میں تبدیل ہورہا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے جب اوباما چوٹی کے ۲۰۰ تجارتی سربراہوں کے ساتھ بھارت آئے تھے تو ۵؍ ارب ڈالر کی مالیت سے زیادہ کے ۱۷-سی بوئنگ جنگی طیاروں کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے اسے بھارت کی ’جدید ترین اسلحے کی بھوک‘ قرار دیا تھا؟
یہ سچ ہے کہ بھارت کی یہ بھوک بڑھ چکی ہے۔ زیادہ تر یہ اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لیے ہے ،حالانکہ یہ بے چارے نہیں جانتے کہ آخری بار یہ جدید ترین حساس اسلحہ اُنھوں نے کب استعمال کیا تھا؟ آخر اب کس کے خلاف استعمال کریں گے؟ کیا یہ اسلحہ چین کے خلاف جنگ میں استعمال ہوگا یا پھر پاکستان کے خلاف استعمال ہوگا؟ وہ ایسانہیں کرسکتے کیونکہ دونوں ممالک جوہری طاقتیں ۴ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بڑے بڑے کارپوریٹ ادارے جتنے زیادہ جدید ترین اسلحہ بناتے جائیں گے اُتنا زیادہ روایتی جنگ کا خدشہ کم ہوتا جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو خطرات دہشت گردوں کی طرف سے آرہے ہیں اُنھیں جدید ترین ترین ٹینکوں، جنگی طیاروں یا تارپیڈو کے وار سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
یقینا تمام ممالک اس روش پر چل رہے ہیں لیکن بھارت سب سے بڑھ کر چل رہا ہے۔ جاسوسی کے آلات اور نگرانی کے آلات کا طوفان اُمڈ پڑا ہے، حالانکہ روایتی اسلحے کا زیادہ تر استعمال نیو دہلی میں راج پتھر کی روایتی پریڈ کے دوران ہوتا ہے، اور محض دکھاوے پر مبنی ڈرامے کے لیے سرمایہ کاری کی طرح بن جاتا ہے۔ اس ملک میں جہاں اربوں، کھربوں روپے، خوف پر مبنی خارجہ پالیسی کے تحت اسلحے کی خریداری میں جھونک دیے جاتے ہیں عام آدمی ۲۰روپے روزانہ سے بھی کم پر گزارا کررہا ہوتا ہے۔
اس گفتگو سے واضح ہوا ہے کہ بھارت میں رہتے ہوئے سرکاری موقف سے مختلف نقطۂ نظر پیش کرنا کتنا مشکل ہوگیا ہے لیکن آپ نے یہ بھی لکھا ہے: ’’اس قدر تشدد اور لالچ کے درمیان ابھی بھی کافی اُمید باقی ہے‘‘ یہ اُمید آپ کیسے دیکھتی ہیں؟
اُمید مجھے صرف عام لوگوں کی آنکھوں میں نظر آتی ہے۔ اب ۲۰۱۱ء ہے، احتجاج بڑھ چکا ہے۔ ریاست کا ظلم ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ ہزاروں مزاحمت کار جیلوں میں ہیں لیکن اُن کے جذبے اور تحریک کو دبایا نہیں جاسکا۔ آخر دنیا میں کسی اور جگہ یہ کب ہوا ہے کہ دنیا کے امیر ترین کارپوریٹ اداروں نے ریاست کے ساتھ مل کر عوام کو دبانے کی کوشش کی ہو لیکن وہ اس مقصد میں ناکام رہے ہوں اور تمام تر مزاحمتی گروہ آپس کے اختلافات اور اختلاف راے کے باوجود، ان طاقت وروں کو روکنے میں کامیاب رہے ہوں۔ یقینا یہ اُن کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس لیے ہمیں مزاحمت کاروں کو سلام پیش کرنا چاہیے۔
ابھی حال ہی میں آپ کے گھر پر حملہ کیا گیا ہے؟
وہ جب قانونی کارروائی نہیں کرسکتے تو پھر گھر پر حملہ کروا دیا جاتا ہے۔ اس کا مسلسل خطرہ بھی موجود رہتا ہے۔ اس سال کے آغاز میں آزادیِ کشمیر کے حق میں تقریر کرنے کی پاداش میں مجھ پر غداری کا مقدمہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن پولیس کارروائی کرنے سے گھبرا رہی ہے کیونکہ اس طرح مسئلۂ کشمیر بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کرلے گا۔ اس لیے کہ مجھ سے بہت کچھ جڑا ہوا ہے۔ بہرحال یہ خطرہ تو موجود رہے گا لیکن دوسری طرف جب میں معصوم، بے گناہ لوگوں کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے دیکھتی ہوں، نوجوانوںکو بدترین عقوبت خانوں میں موت کی سی اذیت برداشت کرتے ہوئے دیکھتی ہوں، یا پھر بھارت کے غریب ترین افراد کا معاشی استحصال ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں، ایسے غریب لوگ جو اپنی گزربسر بھی انتہائی مشکل سے کرتے ہیں۔ اُن کو جیل میں ڈال دیا جاتاہے۔ وہ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ خود کو ناکردہ جرائم سے چھڑانے کے لیے وکیل کا انتظام بھی نہیں کرسکتے۔ ان کی غیرموجودگی میں اُن کا خاندان معاشی طور پر تباہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس لیے اردگرد کے ماحول پر ایک سرسری نگاہ مجھے ان مظلوم لوگوں اور اہلِ کشمیر کے لیے آواز بلند کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مجھے اپنے غم انتہائی کم اور چھوٹے لگنے لگتے ہیں اور میرا حوصلہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے ان حالات کے تناظر میں مجھ پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ارون دتی راے معروف ناول نگار اور تجزیہ نگار ہیں اور مین بوکر پرائز (۱۹۹۷ء) اور سڈنی امن پرائز (۲۰۰۴ء) حاصل کرچکی ہیں
توجہ: ’حقوقِ نسواں ایکٹ کے خلاف عدالتی فیصلہ‘ ڈاکٹر حافظ حسن مدنی (جولائی ۲۰۱۱ء) میں مضمون کی تیاری میں ’ویمن کمیشن جماعت اسلامی‘ کی سفارشات کا حوالہ دیا گیا تھا جو صحیح نہیں۔ درست حوالہ ’ویمن اسلامک لائرز فورم‘ (WIL Forum) ہے۔ (ادارہ)