’حکومت‘ ریاست کے لیے خطرہ…‘ (اکتوبر ۲۰۱۱ء) میں ٹھوس حقائق اور شواہد کی روشنی میں بجاطور پر توجہ دلائی گئی ہے کہ تبدیلی ناگزیر ہے۔ موجودہ حکمرانوں سے نجات اور بااصول، باصلاحیت، محب ِ وطن اور دیانت دار قیادت ہی ملک کو مسائل کے بھنور میں سے نکال سکتی ہے۔ سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ آگے بڑھ کر کس طرح سے اس چیلنج کا سامنا کرتی ہے اور ملک و قوم کی توقعات پر پورا اُترتی ہے۔ ’مساوات مرد و زن‘ مغربی فکر پر مبنی نظریے کے معاشرتی اثرات کا اچھا تقابلی جائزہ ہے، تاہم فارسی مصرع ’تا ثریا می رُود دیوار کج‘ درست ہے۔ ’اعترافِ عظمتؐ لیکن…‘ میں جہاں مغربی مفکرین کے قبولِ اسلام میں رکاوٹ کا اندازہ ہوا، وہاں نبی کریمؐ کی عظمت کے اعتراف پر مبنی کتب سے بھی آگہی ہوئی۔
’نظام عدل کا قیام اور حکمت عملی‘ (ستمبر۲۰۱۱ء) کے تحت ڈاکٹر انیس احمد نے ’اسلامی عدل اجتماعی‘ کی بنیاد توحید پر رکھی ہے۔توحید کے ماننے والے سارے اسلامی ممالک (افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ) عدلِ اجتماعی کی لذت سے بے بہرہ ہیں۔ خود پاکستان میں اسلامی عدلِ اجتماعی کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
اب ان کا حال سنیے جو کلمۂ توحید کے ماننے والے نہیں ہیں۔ کسی بڑے سے بڑے سینیٹر کا لڑکا اگر نشے کے الزام میں پکڑا جاتا ہے تو اس کو سزا ہوجاتی ہے۔ چوری، ڈکیتی، عصمت دری کی رپورٹ کی جاتی ہے اور پولیس اس رپورٹ کی بنا پر ملزم کو تلاش کر نکالتی ہے اور اس کو سزا دی جاتی ہے۔ خود سینیٹر اور کانگریس کے اراکین اپنی کسی چوری کی بنا پر پکڑ لیے جاتے ہیں تو جیل بھیج دیے جاتے ہیں۔ ایک معمولی جھاڑو دینے والے کے ساتھ بے عزتی کا سلوک نہ کیا جاتا ہے نہ محنت کر کے روزی کمانے والے کو بے عزت سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک سے لوگ یہاں کی شہریت کے لیے آتے ہیں اور ان کی درخواستوں کو بلاتعصب دفتری عمل سے گزارا جاتا ہے۔ ہائی اسکول تک تعلیم مفت دی جاتی ہے۔ ایمرجنسی روم بکثرت موجود ہیں اور ہر بیمار کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ ہزاروں خرابیوں کے باوجود عدل اجتماعی کی جھلک یہاں زیادہ نظر آتی ہے، بہ نسبت کسی اسلامی ملک کے۔ اسلامی ممالک کے حالات دیکھ کر قرآن کا وہ بیان یاد آجاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’فرعون نے اپنی قوم کو ہلکا پایا اور جو جی چاہا کیا‘‘۔ توحید کے ماننے والے کب تک بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں گے؟
’جب جماعت اسلامی قائم ہوئی!‘ (اگست ۲۰۱۱ء) کے مطالعے سے جہاں جماعت اسلامی کے قیام کے تاریخ ساز لمحات کی یاد تازہ ہوئی وہیں اکابر جماعت کی سیرت و کردار کی جھلک بھی سامنے آئی۔ خیال آیا کہ اگر جماعت اسلامی کے ۷۵ اساسی ارکان کا مختصر تذکرہ بھی شائع کیا جائے تو بہت مفید ہوگا۔
مظفر بیگ مرحوم کے مضمون: ’جب جماعت اسلامی قائم ہوئی!‘ (اگست ۲۰۱۱ء) میں جماعت کے تاسیسی اجتماع کا بہت معلومات افزا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ ایک کمی محسوس ہوئی کہ ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کون سا دن تھا اس کا تعین نہیں کیا گیا۔ میں نے کیلنڈر کی مدد سے جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے مطابق ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو منگل کا دن تھا۔ یہ چیز بھی ریکارڈ میں آجائے تو اچھا ہے۔