محتاط اندازوں کے مطابق اس وقت مغربی یورپ میں مسلمانوں کی آبادی ۲۰ ملین (دو کروڑ) ہے۔ اس وقت یورپ میں عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد یورپ کے مذہبی، سماجی اور سیاسی منظر کا ایک حصہ ہے لیکن بیش تر مغربی ممالک میں ان کی بڑی تعداد کی حیثیت گذشتہ ۶۰سال میں آنے والے تارکینِ وطن کی ہے، اس لیے انھیں زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یورپ میں اسلام کے بارے میں بڑی حد تک لاعلمی پائی جاتی ہے۔ یورپ کے اکثر باشندوں کو دیگر مذاہب کے بارے میں سرسری علم ہے لیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف اسلام کے بارے میں اپنی راے دینے سے احتراز نہیں کرتے بلکہ پوری تحدی سے منفی، حتیٰ کہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ میڈیا نے اسلام کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے اور اس منفی پروپیگنڈے کے زیر اثر وہ اسلام کو ’بنیاد پرستی‘، ’انتہا پسندی‘ یا اب ’دہشت گردی‘ کے ہم معنیٰ سمجھنے لگے ہیں۔ ان میں چند ہی افراد نے اسلام کا معروضی یا بھر پور مطالعہ کیا ہے۔ ان کے مآخذ معتبر نہیں ہیں۔ اکثریت کا اسلام کے بارے میں راے کا دار و مدار متعصب مبلغوں، سیاست دانوں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے پروگراموں پر ہے یا پھر ان کی راے متعصب، تنگ نظر مطبوعات سے متاثر ہوتی ہے۔ اسلام کے بارے میں کچھ مآخذ یقینا قابل اعتبار ہیں لیکن ان کا استعمال ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ مستند معلومات فراہم کی جائیں اور اس پر گفت و شنید ہو۔ قابل اعتماد معلومات کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔
یورپ میں مسلمانوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے اور ان کے حل کے لیے منظم کوششوں اور واضح لائحۂ عمل کی ضرورت ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اپنے ہدف حاصل کرسکتے ہیں۔
انگلستان کی مذکورہ بالا صورت حال کم و بیش دیگر یورپی ممالک کی بھی عکاس ہے۔ اس کے پیش نظر ہمیں اسلاموفوبیا (اسلام کے خلاف نفرت)، میڈیا میں اسلام کے منفی تصور اور اسلام کو انتہاپسندی اور عورتوں پر ظلم سے غلط طور پر منسلک کرنے جیسے مسائل پر توجہ کرنا چاہیے۔
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
مزید برآں، مسلم اُمت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب سے نمٹنے کے لیے عقلی اور ذہنی صلاحیتوں سے مالامال ہو۔ اس کے لیے ہمیں غیرمعمولی صبر، حکمت اور دُوراندیشی کی ضرورت ہے۔ مغرب میں اسلام کے خلاف تمام منفی تصورات کی بیخ کنی کے لیے ہمیں سخت جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہم جس معاشرے میں مقیم ہیں اس میں ہم اپنا ایسا مقام بنائیں جس کی مدد سے ہم اپنے خلاف غلط فہمیوں، تعصبات اور شکوک کو دور کریں۔ مغربی معاشرہ جن مسائل سے دوچار ہے، ان کے حل کے لیے بھی ہمیں کوشاں رہنا چاہیے کیونکہ اب ہم بھی اسی معاشرے کا جزو ہیں۔
ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ بحیثیت مسلمان ہم بلاشبہہ فی الوقت متعدد مسائل سے دوچار ہیں، البتہ ہمارے لیے متعدد امکانات اور مواقع بھی ہیں۔ مسائل سے گھبرانے یا ہمت ہارنے کے بجاے ہمیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ سورۂ انشراح میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے:
فَانَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (انشراح ۹۴ : ۵-۶) پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔
اس آیت کریمہ کی تکرار ہمیں یہ اطمینان دلاتی ہے کہ مسائل اور مصائب وقتی ہیں اور بہتر مستقبل ہمارا منتظر ہے۔ بعض مفسرین نے اس نکتے کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ دونوں آیات میں تنگی کے لیے قرآنی لفظ عسر میں تخصیص کے لیے ال کا استعمال ہوا ہے، فراخی کے لیے قرآنی لفظ یسر میں ایسی کوئی تخصیص نہیں۔ بالفاظِ دگر اﷲ تعالیٰ نے ایک پریشانی کے لیے دگنی زیادہ فراخی کا وعدہ فرمایا ہے۔
اس امر پر ہم غور کریں کہ اللہ حکیم ہے اور اس کائنات میں رونما ہونے والے تمام واقعات اس کی حکمت پر مبنی ہیں۔ لہٰذا یہ سوال قدرتی ہے کہ حکمت الٰہی نے تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں مختلف ممالک سے جمع کرکے یورپ میں کیوں مجتمع کیا؟ اس نکتے کا اعادہ بر محل ہے کہ ہم اس سے قبل بھی یورپ میں مقیم رہے ہیں۔ مسلمانوں نے ۷۰۰ برس تک (۷۱۱ء سے ۱۴۹۲ء تک) اسپین پر حکومت کی۔ اس کے بعد ان کو شکست اور در بدری کا سامنا کرنا پڑا۔ سسلی پر مسلمانوں نے ۲۶۰برس تک (۸۳۱ء سے ۱۰۹۱ء تک) حکومت کی، یہاں بھی انھیں اسپین جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ عثمانی ترک مشرقی یورپ کے حاکم رہے۔ وہ دریاے ڈینوب تک حکمراں تھے اور آسٹریا کے دارالسلطنت ویانا تک پہنچ گئے تھے لیکن پھر انھوں نے پسپائی اختیار کی۔ اب اس صدی میں لاکھوں مسلمانوں نے یورپ کو بطور اپنے وطن اختیار کیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس دور میں ان کی حیثیت فاتح کی نہیں بلکہ تارکینِ وطن کی ہے۔
اس موقع پر ممتاز اسلامی مفکر نجم الدین اربکان (۱۹۲۶ء -۲۰۱۱ء) کی ایک تقریر کا حوالہ مناسب رہے گا۔ کئی سال قبل مانچسٹر، برطانیہ میں ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہ اہم نکتہ پیش کیا کہ یورپ میں مسلمانوں کی صورت حال فرعون کے محل میں حضرت موسٰی ؑ کے داخلے سے مشابہ ہے۔ وہ اس وقت ایک ناتواں، بے بس بچے تھے۔ فرعون ہی کے محل میں ان کی پرورش اور تربیت ہوئی۔ انھوں نے حکمراں طبقے کے طور طریقے وہاں سیکھے تاکہ وہ آیندہ قیادت کی ذمہ داری سنبھالیں۔ فی الحال یورپ میں مسلمان بھی کمزور اور پسماندہ ہیں۔ ہمیں یہاں اس لیے لایا گیا ہے تاکہ ہم مغرب کی سائنس اور ٹکنالوجی پر حاوی ہوں اور اسی کے ساتھ ساتھ اسلام کے پیغام کی بھی اشاعت کریں تاکہ اسلام کے معاندین کے دل و دماغ کو مسخر کریں۔ اس نکتے کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ یورپ میں مسلم نوجوانوں کی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، ان کو زندگی میں کامیابی کے بہتر مواقع حاصل ہیں، ان کو مسلم ممالک کی بہ نسبت یہاں اظہار خیال اور آزادیِ راے زیادہ میسر ہے۔ ان کے ذہن مسلم ممالک کی بدعنوانیوں سے مسموم نہیں ہیں۔ ان تمام اُمور کے پیش نظر اس کی زیادہ توقع ہے کہ وہ اپنا اسلامی تشخص اور اسلامی کردار قائم رکھیں گے جس سے دنیا کے دیگر ممالک میں غیر مسلموں میں اسلام کی جانب رغبت اور کشش پیدا ہوگی۔
ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم قرآن مجید کے معنیٰ اور پیغام پر غورو فکر کریں اور یہ ہدایت حاصل کریں کہ غیر مسلم معاشرے میں ہم اپنی زندگی کیسے بسر کریں۔ انبیاے کرام ؑبالعموم غیرمسلم معاشرے میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ قرآن مجید سے یہ واضح ہے کہ بیش تر انبیا نے دعوت کا آغاز غیرمسلم معاشرے سے کیا۔ بسا اوقات ان کی آواز تنہا تھی۔ ان کے پیغام کا لب لباب تھا: میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں، لہٰذا تم اﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو (الشعراء ۲۶: ۱۰۷-۱۰۸)۔ یہ کہ میں تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمھارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ اﷲ کے رسول بنی نوع انسانی کے لیے ہدایتِ الٰہی لاتے رہے ہیں۔ یہ ان کا فرض تھا کہ وہ پیغام الٰہی کی ترسیل بنی نوع انسانی تک کریں، یہی فریضہ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا۔ حضور اکرمؐ نے اپنا فریضہ کما حقہٗ انجام دیا، اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے اسوۂ مبارک پر عمل پیرا ہوں اور ان کے پیغام کو اپنے اہل خانہ، احباب، پڑوسیوں اور عام لوگوں تک پہنچائیں۔
لوگوں سے باہمی معاملات اور کسی کے ذمے سپرد کسی فریضے کی ادایگی کی ضمن میں امانت کی بہت اہمیت ہے۔ اس سے مراد روز مرہ کی زندگی میں دیانت داری اور اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی بھی ہے۔ قرآن کی یہ ہدایت سورئہ بقرہ آیت ۲۸۳ اور سورئہ انفال آیت ۲۷ میں واضح طور پر ملتی ہے۔ امانت سچے اہل ایمان کی امتیازی خصوصیت ہے (المومنون ۲۳: ۸ ، المعارج ۷۰:۳۲)۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد اور سب کے ساتھ اعتماد کا ماحول پیدا کریں۔ لوگوں کو ہماری دیانت داری اور اخلاص پر بھروسا ہونا چاہیے۔ نبوت کے عطیۂ الٰہی سے قبل بھی حضور اکرمؐ کا لقب امین تھا اور یہ ان کی دیانت داری کے اعتراف کے طور پر تھا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ مکہ کے کافروں نے آپؐ کے پیغام کو مسترد کردیا لیکن وہ اپنی امانتیں آپؐ ہی کی تحویل میں دیتے تھے۔
انبیاے کرام ؑکا اپنی امتوں سے تعلق سر تا سر اخلاص پر مبنی تھا۔ یہ ان کی دلی خواہش تھی کہ لوگوں کی اصلاح ہو اور پوری اُمت کی فلاح و بہبود ہو۔ غرضیکہ نصیحت ایک فعال بامقصد فعل ہے۔ ایک معروف حدیث کے مطابق دین نصیحت ہے (مسلم) ۔ بالفاظ دیگر معاشرے سے ہمارا تعلق اخلاص پر مبنی ہوتا ہے اور ہم ایک دوسرے اور پورے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ تصور کیا جاتا ہے۔ میزبان آبادی کی راے میں ہم ان کی اقدار اور تہذیب کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ ہمارے بعض نادان دوستوں کا یہ خیال سرتاسر بے وقوفی ہے کہ یورپ میں ہمارے قیام کا مقصد خلافت قائم کرنا اور شریعت نافذ کرنا ہے۔ ہمیں لوگوں کے دل و دماغ مسخر کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہمیں انھیں یہ یقین دلانا چاہیے کہ ہم قابل اعتبار ہیں اور یہ کہ ہم ان کی فلاح و بہبود کے لیے مخلص ہیں۔
انبیاے کرام ؑکی ایک امتیازی صفت صبر ہے۔ قرآن مجید میں ان کو صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ صبر سے مراد برداشت، ہمت اور مشکلات سے نبرد آزما ہونا ہے۔ اس میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ انسان پریشانی، ناامیدی اور یاس پر قابو پائے اور اپنے نقطۂ نظر پر مضبوطی سے قائم رہے۔ بالعموم لوگ صبر کو کمزوری اور مجبوری کے مترادف سمجھتے ہیں۔ بے بسی میں انسان بلا شبہہ ان کیفیات سے دوچار ہوتا ہے، البتہ صبر کے حقیقی معنیٰ مسائل پر ہمت اور عزم کے ساتھ قابو پانا ہے۔
قرآن کریم میں جابجا حضوؐر اکرم کو صبر پر کاربند رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بالخصوص اپنے مخالفین کے جواب میں اور کافروں کے انکارِ حق کے جواب میں صبر کرنے اور نماز کا مشورہ دیا گیا ہے (البقرہ ۲:۱۵۳)۔ مکی دور میں انھیں ۱۸ مرتبہ صبر کی نصیحت کی گئی ہے۔ ہمیں بھی اشتعال اور مخالفت کا سامنا صبر سے کرنا چاہیے۔ بحیثیت قوم ہمارا ردّعمل بالعموم جذباتی ہوتا ہے۔ ہمیں مدلل اور منظم انداز میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی مشق کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے مخالفین کے مقابلے میں اس صفت میں ان سے ممتاز ہونا چاہیے۔ قرآن کا مطالبہ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (اٰل عمران ۳ : ۲۰۰)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو۔ باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ۔ حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔
اگر ہمیں یہ پختہ یقین ہو کہ ہمارا نقطۂ نظر معاشرے کی فلاح کے لیے ہے تو ہم مخالفت کے باوجود بھی صبر کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھیں گے۔
ہدایت قرآنی اور انبیاے کرام ؑکی روشن مثالوں کے پیش نظر بالخصوص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری اولین ترجیح اخلاص کے ساتھ اسلام کی ترویج اور تبلیغ ہونا چاہیے۔ اسی کی مدد سے ہم مغرب میں لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں۔ صبر اور برداشت کامیابی کی کنجیاں ہیں۔ ہمیں عام آدمی کے ذہن میں اسلام کا تصور بدلنا چاہیے۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں کو بھی اس کا قائل کرنا چاہیے۔ دشمنی پھیلانے کے بجاے ہمیں انھیں اسلام سے قریب لانا چاہیے۔ ہمیں اس کا احساس ہونا چاہییے کہ معاشرے میں صاف اور صحیح ذہن کے لوگ ہیں اور ہرشخص اسلام یا اس کی تعلیمات کا مخالف نہیں ہے۔ انھیں بھی ہماری طرح انصاف، امن اور مساوات کی اقدار عزیز ہیں۔ اگر ہم انھیں اسلام قبول کرنے کے لیے قائل نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم انھیں اس حد تک اپنا ہم نوا بنائیں کہ وہ نفرت اور مخالفت کے ماحول میں حضرت ابوطالب کی مانند ہماری مدد کریں۔ اس کے لیے ہمیں بین المذہبی مکالمے میں حصہ لینا چاہیے اور افہام اور تفہیم کو فروغ دینا چاہیے۔ اگر ہم اپنی مہم کا آغاز اس طور پر کریں گے تو ہمیں یقینا نصرت الٰہی ملے گی اور اس سے اسلام کے خلاف نفرت اور تعصب کم ہوگا۔ اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات لوگوں تک پہنچیں گی تو ان کے دل متاثر ہوں گے۔ اس میں کامیابی کے لیے سورۂ نحل کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق ہمیں دعوت کا کام کرنا ہوگا:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل ۱۶: ۱۲۵)، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔
ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب مسلمان بڑی تعداد میں مغرب میں وارد ہوئے تو ابتدا میں انھیں یہاں مقیم ہونے اور بسنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یورپ کا ماحول ان کے لیے نیا اور اجنبی تھا۔ اسی طرح ابتدا میں جب مسلمانوں کا سابقہ بالکل مختلف سماجی اقدار اور تہذیب سے پڑا تو انھیں اپنی اقدار اور تہذیب کے تحفظ کی فکر ہوئی۔ اس ابتدائی رد عمل کے باعث انھیں علیحدہ رہنے، وسیع تر معاشرے سے الگ تھلگ رہنے کی عادت پڑی تاکہ وہ اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھ سکیں۔یہ رویہ آج بھی موجود ہے۔ اس طرز فکر کے غیر سود مند ہونے کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ بقیہ دنیا سے کنارہ کش ہوکر تشخص قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ مسلمانوں میں ایک گروہ اس فکر کا علم بردار رہا کہ مغربی اقدار اور ثقافت سے مکمل ہم آہنگی اختیار کی جائے اور اسلامی تعلیمات کو اس مقولے پر عمل کرتے ہوئے خیر باد کہا جائے کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔بقول اقبال :
حدیث ِبے خبراں ہے ، تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد ، تو بازمانہ ستیز
گویا اقبال کے نزدیک انسان میں موجودہ اور باطل طریقۂ حیات کو تبدیل کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔
مسلم ممالک میں آج بھی ایسے افراد ہیں جو مغرب کی مادی ترقی اور خوشحالی سے حد درجہ مرعوب ہیں۔ ان کی راے میں مغربی طور طریقے اختیار کرکے ہم بھی خوشحالی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اندھی نقالی اور ذہنی غلامی سے ان مسلم ممالک کی تقدیر یا حالت نہیں بدل سکتی۔
ہمارے درمیان گذشتہ چند سالوں میں انتہا پسندی کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ ایک مختصر گروہ بآواز بلند مغرب سے ٹکراؤ اور آویزش کا حامی ہے۔ یہ مغربی اقدار کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور ان کی جگہ اسلامی اقدار قائم کرنے پر مصر ہے۔ یہ گروہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ مغربی اقدار بھی یہودیت اور عیسائیت سے ماخوذ ہیں۔ اس نکتے کی جانب حال میں جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے اشارہ بھی کیا ہے۔ مختصراً تینوں مذاہب کی اقدار بنیادی طور پر دینِ ابراہیم ؑسے مستعار ہیں اور بعض اقدار ان تینوں مذاہب میں مشترک ہیں۔ اسلامی شریعت میں انتہا پسندی کی مطلق کوئی گنجایش نہیں۔ تمام انبیاے کرامؑ نے امن اور یگانگت کی تعلیم دی ہے۔ انھوں نے معاشرے کی اصلاح اندرونی طور پر کی۔ انھوں نے اپنے نظریات نافذ کرنے کے لیے کبھی تشدد کا سہارا نہیں لیا، بلکہ اس کے برخلاف انھوں نے تشدد کو برداشت کیا اور کبھی انتقام نہیں لیا۔ لہذا انتہا پسندی کا رویہ اختیار کرنا خطرناک بھی ہے اور برعکس نتائج کا حامل بھی۔
اس انتہا پسندی کا جواب کیا ہو؟ اسلام یقینا اجتماعی معاملات میں لوگوں کی شرکت کا علَم بردار ہے۔ ہمیں اس اسلامی حکم پر کاربند ہونے کا حکم ہے کہ بھلائی کو فروغ دیں اور برائی کو روکیں۔ مغربی تہذیب کا نقد و جائزہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سے مراد اس کو یکسر مسترد کردینا یا اس میں بالکل ضم ہوجانا نہیں ہے۔ ہمیں مغربی تہذیب کے تمام پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے، تاکہ ہماری تہذیب سے اس کے مماثل اور مختلف پہلو نکھر کر سامنے آئیں۔ اس کی روشنی میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ مغربی تہذیب کے کون سے پہلو پسندیدہ ہیں اور کون سے ناپسندیدہ۔ غرضیکہ ہمیں آزادانہ تنقید کا رویہ اپنانا چاہیے۔ ہمارا ایک مخصوص نظریاتی اور ثقافتی تشخص ہے جس کا مآخذ اﷲ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات ہیں۔ اسی ہدایت الٰہی کی بدولت ہم ہمہ وقت اپنے ایمان کو تازہ اور مضبوط رکھتے ہیں۔
ان مغربی ممالک میں جہاں جمہوریت رائج ہے اقتدار صرف مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں مرکوز نہیں ہوتا۔ یورپین یونین کے قیام کے بعد قانون سازی اصلاً یورپی پارلیمنٹ میں انجام پاتی ہے۔ حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں کے پس پشت اصل قوت عوام کے منتخب یورپین پارلیمنٹ کے ممبر، متعلقہ ممالک کے ممبر پارلیمنٹ، لوکل کونسلر، میڈیا کے نمایندے، راے عامہ پر اثر انداز ہونے والے گروہ، مرکزی اور مقامی حکومت کے ذمہ داران وغیرہ ہوتے ہیں۔ اقتدار کے مراکز تک اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے ہمیں ان گروہوں کو قائل اور متاثر کرنا ہوگا۔ یہ ایک طویل المدتی حکمت عملی ہے، البتہ اس کے خوش گوار نتائج مستقبل میں رونما ہوں گے۔
یورپ میں نئی مسلم قیادت کی ضرورت ہے جو یورپ میں مقیم مسلمانوں کے مسائل سے بخوبی واقف ہو۔ یہ قیادت مذہبی، مسلکی اور فقہی اختلاف سے بالاتر ہو۔ یہ قیادت نہ صرف مسلمانوں کے بلکہ یورپی معاشرے کے مسائل کے حل پر قادر ہو۔ ہمیں توقع ہے اور ہماری دعا بھی ہے کہ عزم اور حکمت کے ساتھ اس نازک اور مشکل ذمہ داری سے عہدہ برا ہوا جاسکتا ہے۔ اس میں اسلام کے پیغام کو عام کرنے کا جذبہ اور خواہش ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس میں یہ صلاحیت بھی ہو کہ وہ لوگوں کے دل و دماغ میں ایسے جذبات بیدار کرے جس سے وہ اسلام کے پیغام کے لیے اَن تھک کام کریں۔ ان کا مقصد احسان کے درجے پر فائز ہونا ہو، نہ کہ ضابطے کی خانہ پُری۔
مغرب میں مسلمانوں کو درپیش مسائل سے واقفیت کے باعث ہماری یہ کاوش ہونا چاہیے کہ امت مسلمہ متحد ہو۔ فی الحال یہ مسلکی، گروہی، فقہی اختلافات کے باعث منتشر ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اس معاملے پر غور کرنا چاہیے۔ یہ ایک مشکل اور طویل المدتی کام ہے لیکن صبر اور استقلال کے ساتھ اس کا حصول ممکن ہے۔ اگر ہم میں تقویٰ اور اخلاص ہے اور ہمارا مقصد رضاے الٰہی کا حصول اور اُخروی نجات ہے تو یقینا اپنے وعدے کے مطابق اﷲ تعالیٰ ہمیں نصرت الٰہی سے سرفراز کرے گا:
وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ o (العنکبوت ۲۹: ۶۹)،جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقینا اﷲ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے۔
(یہ اس کلیدی خطاب کا نظرثانی اور اضافہ شدہ متن ہے جو ۲۶-۲۸ نومبر ۲۰۱۰ء کو یورپین مسلم کونسل کی افتتاحی کانفرنس بمقام بریسیا، اٹلی میں پیش کیا گیا)۔
مقالہ نگار اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر، برطانیہ میں محقق ہیں
اھم گزارش: اس رسالے میں اشتہار دینے والے اداروں یا افراد سے معاملات کی کوئی ذمہ داری ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کی انتظامیہ کی نہیں ہے۔ قارئین اپنی ذمہ داری پر معاملات کریں۔ (ادارہ)