امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے سلسلے میں جنوری ۲۰۱۸ء کے ’اشارات‘ میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے فکرانگیز خیالات پیش کیے ہیں۔ انھوں نے امریکی اور اسرائیلی ملی بھگت سے تیارکردہ جارحانہ پالیسی کو بے نقاب کیا ہے اور مسلم حکومتوں اور عوام کے ردعمل کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں جو مثبت اقدام کیے جاسکتے ہیں ان کی نشان دہی بھی فرمائی ہے۔ اگرچہ مسئلۂ فلسطین ہم سب کے نزدیک نہایت اہم ہے لیکن صرف یہی اس اُمت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ اور بہت سارے مسائل کے ساتھ اُلجھا ہوا ہے۔ جب تک اُمت کی صورت حال میں مثبت انداز میں تبدیلی نہیں آتی، کسی بھی مسئلے کا حل ممکن نظر نہیں آتا۔ اس حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:
دُنیا میں ہر چوتھا آدمی مسلمان ہے۔ اس وقت ۵۷ خودمختار مسلم ممالک ہیں جن کے پاس بے انتہا قدرتی اور انسانی وسائل موجود ہیں۔ دُنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب ۸۰کروڑ ہے۔ اگر یہ سب متحد ہوجائیں تو ایک ناقابلِ شکست قوت بن سکتے ہیں اور ان شاء اللہ اس اُمت کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ اس طرح اُمت قومیت اور گروہی اختلافات میں گرفتار ہے۔
صرف پچھلے چند برسوں کا جائزہ لیں کہ کس وسیع پیمانے پر فلسطین،مصر، لیبیا، شام، عراق، لبنان، یمن، افغانستان، پاکستان، الجزائر، میانمار (برما)، بنگلہ دیش، ترکی میں خوں ریزی اور بربادی ہوئی ہے۔ بھارت اور کشمیر میں مسلمان سخت کسمپرسی کے حالات سے گزر رہے ہیں۔ ان خانہ جنگیوں میں القاعدہ، داعش اور دیگر بزعمِ خود جہادی جماعتیں بھی شامل ہیں، جو اپنے دشمنوں کے خلاف متحد ہونے کے بجاے مسلمانوں کے قتل کے درپے ہیں۔ اپنے ملکوں کو خود ہی تباہ و برباد کررہے ہیں۔ ان کے سفاکانہ حملوں میں مساجد اور ماہِ رمضان کا بھی احترام نہیں کیا جاتا۔
پانچویں صدی ہجری جو سنہ عیسوی کی گیارھویں صدی سے مطابقت رکھتی ہے، کا منظر یہ تھا: بروز جمعہ ۲۳ شعبان ۴۹۲ہجری (۵جولائی ۱۰۹۹ء) کو مسیحی جنگجو (Crusaders) یروشلم پر حملہ کرکے شہر میں داخل ہوگئے۔ ۷۰ہزار مسلمانوں کو جن میں مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی شامل تھے تہِ تیغ کردیا۔ انھوں نے بیت المقدس کی قیمتی اشیا کو لوٹ لیا۔
امام ابن کثیرؒ (۱۳۰۱ء-۱۳۷۵ء) نے مسلمانوں کی شکست کے اسباب بیان کیے ہیں کہ فاطمی خلیفۂ وقت داخلی ریشہ دوانیوں سے کمزور ہوگیا تھا۔ اعلیٰ سوسائٹی میں رشوت کا بازار گرم تھا اور دربار سازشوں اور سازبازوں میں گِھرا ہوا تھا، اس لیے یہ ممکن نہ تھا کہ باہر کے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا جاسکے۔
ان گمبھیر حالات میںصلاح الدین ایوبی (۱۱۳۸ء-۱۱۹۳ء) ایک چھوٹی سی ریاست میں برسرِاقتدار آیا۔ اس نے سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لیا اور اپنی حکمت عملی سے ان کو حل کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے اپنی حکومت ختم کر کے اُمت کو اپنی قیادت پر مجتمع کیا ۔ چنانچہ دوسری صلیبی جنگ جولائی ۱۱۸۷ء میں ہوئی تو صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کو شکست فاش دی اور یروشلم دوبارہ فتح کرلیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے امام ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں کہ: آیندہ کوئی بھی جنگ جُو قوم جو مسلمانوں سے نبرد آزما ہوئی تو وہ شکست کھائے گی کیوں کہ اس اُمت نے سبق سیکھ لیا ہے۔
واے افسوس! کہ اس اُمت نے یروشلم پھر اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔فاطمی خلیفہ کی طرح ترک عثمانی خلیفہ بھی کمزور تھا۔ ترک خلافت میں بھی رشوت ستانی گرم اور آپس میں نااتفاقی تھی۔ مغرب نے اپنے جاسوس لارنس آف عربیہ اور گلب پاشا کے ذریعے عربوں اورترکوں کو آپس میں لڑا دیا۔
قرآن نے اکثر تاریخی واقعات سے ہمیں سبق سکھانے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ واقعات یونہی رُونما نہیں ہوتے۔ کوئی اندھی قوت انسانوں کے معاملات طے نہیں کرتی بلکہ قانونِ خداوندی انسانوں کے معاملات کی نگہداشت کرتا ہے:
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۲۶ (اٰلِ عمرٰن ۳:۲۶) جسے چاہے عزّت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہرچیز پر قادر ہے۔
پھر قرآنِ کریم بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ منصف اور عادل ہے، جو انصاف اور عدل کو پسند کرتا ہے اور دُنیا میں انصاف کو قائم دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ فساد فی الارض کو ناپسند کرتاہے:
وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۶۴(المائدہ ۵:۶۴) یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
لہٰذا کوئی بددیانت حکومت کبھی پنپ نہیں سکتی اور اس کی جگہ وہ قوم لیتی ہے جو نسبتاً بہتر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں ؑ کو بھیجنے کی غایت سورئہ حدید میں یوں بیان کی ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں ؑ کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اس آیت کی تشریح کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تین چیزیں لے کر آئے:
ان تینوں چیزوں کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر بھی عدل پر قائم ہو۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص ۳۲۱-۳۲۲)
کیا ہم دیانت داری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری مسلم حکومتیں اور عوام اس معیارِ حق پر پورے اُترتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں اور جو واقعات بھی ہورہے ہیں یہ سب ہمارے لیے عبرت کا تازیانہ ہیں کہ شاید ہم اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش کریں۔ تو پھر صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیت کیسے پیدا ہوگی؟ اس کے آثار کچھ اُمیدافزا تو نہیں ہیں لیکن ہمیں نااُمید بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا دوٹوک فیصلہ ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ ۰ۭ(الرعد ۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
آج کی صورتِ حال میں ہمیں یہودی لابی کو غیرمؤثر بنانے کے لیے مسلم لابی کو مضبوط اور مؤثر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مغرب میں مقیم مسلمانوں کی قیادت کا ہے جو مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے پاک ہوکر یہاں کے مختلف جمہوری اداروں میں نفوذ کریں۔ اگر یہودی اپنی قلیل آبادی کے باوجود کامیاب ہوسکتے ہیں تو مسلمان کیوں ان کا اس میدان میں مقابلہ نہیں کرسکتے؟
عرب ممالک کی مسلسل ناکامی کے بعد یہ ذمہ داری پاکستان ، ترکی، انڈونیشیا اور ملایشیا کی بنتی ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لیں اور جس طرح مدیرمحترم نے تجویز کیا ہے کہ تمام ہم خیال مسلم ممالک کو مشاورت میں شریک کر کے اجتماعی پالیسی تشکیل دیں اور اس کو بروے کار لائیں۔
یہ تمام چیزیں اپنی جگہ نہایت اہم ہیں اور ان پر فوری توجہ اور قابلِ عمل حکمت عملی کے ساتھ پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اُمت کے لیے نہایت اہم مسئلہ جس کے بغیر وہ کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی وہ اس کا زوالِ علم ہے، جس کی طرف توجہ متعدد اہلِ علم دلاچکے ہیں۔ صرف ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں جس کا اظہار علّامہ اقبالؒ نے اپنی آخری علالت کے دوران کیا تھا۔ یہ قابلِ توجہ ہے جس سے ان کی اس اُمت کی بہبود کے لیے بے چینی اور تشویش کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ یادداشت ۱۹مارچ ۱۹۳۸ء کی ہے جو سیّد نذیر نیازی مرحوم نے درج کی ہے:
عالمِ اسلام میں تجربہ و تحقیق کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ نہ استعجابِ علم ہے، نہ علم کے لیے کوئی سعی و کاوش۔ یورپ کی حالت ا س سے کسی قدر مختلف ہے۔ وہاں تحقیق ہے، تجربہ ہے، علم سے دلی شغف، شب و روز کی محنت، شب و روز انہماک، حالاں کہ ایک زمانے میں وہاں تجربہ و تحقیق تو درکنار علم کا نام لینا بھی گناہ میں داخل تھا۔
مسلمانوں میں علمی تجسس کا فقدان ہے۔ عالمِ اسلام کا ذہنی انحطاط حددرجہ اندوہناک ہے۔ مسلمانوں میں علمی روح باقی ہے نہ علم و حکمت سے کوئی دلی شغف… اگرہے تو تقلید یا پھر یورپ سے چند ایک مستعار لیے ہوئے خیالات کا اعادہ۔
مسلمانوں کے زوالِ علم کی ذمہ داری محض سیاسی و معاشی حالات پر عائد نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کا علمی زوال تو ان کے دورِ محکومیت سے بھی کہیں زیادہ مقدم ہے۔ لہٰذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسے زوال ہوا تو کیسے اور کیوں؟
مسلمانوں نے بھی کبھی اِردگرد کی دُنیا سے علم و حکمت کا اکتساب کیا تھا، مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس شان سے آگے بڑھے کہ علم و حکمت کی کائنات بدل دی۔ علم کو صحیح معنوں میں علم کا درجہ عطا کیا۔ مسلمان آج پھر ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟مسلمانوں میں دم کیوں نہیں؟ اور یہ کہتے کہتے افسردۂ خاطر ہوگئے۔(اقبال کے مضمون، نشستیں اور گفتگوئیں، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۱۹۷۱ء، ص ۳۷۲-۳۷۴)
یہ تبصرہ آج سے ۸۰برس پہلے کا ہے لیکن افسوس ہے کہ حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ نہ جانے یہ حالات کب تک اس طرح برقرار رہیں گے! اس میں تبدیلی کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ یہ اس اُمت کی بقا و فلاح کے لیے ازحد ضروری ہے۔ یہ ہم سب کے لیے مشکل چیلنج ہے، تاہم اس عرصے میں جو تبدیلی ہوئی ہے وہ یہ کہ کافی آزاد مسلم حکومتیں قائم ہوگئی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک پہلو جس پر غور کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ مسلم حکومتیں اپنے بجٹ کا وافر حصہ تعلیم اور تحقیق (research & development)پر خرچ کریں۔
دوسری تجویز جس پر غور کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ مسلم ممالک سے کافی سائنس دان، ڈاکٹر اور انجینیر مغربی ملکوں میں مقیم ہیں۔ یہ فرارِ ذہانت ہے۔ اس کو روکنے کے لیے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے خود مسلم ممالک میں ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے ملازمت اور تحقیق کی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہی مسبب الاسباب ہے، اگر ہم واقعی اس اُمت کی خیرخواہی کی طرف قدم اُٹھائیں گے تو وہ ہمارے لیے راہیں کھول دے گا، ان شاء اللہ!
محتاط اندازوں کے مطابق اس وقت مغربی یورپ میں مسلمانوں کی آبادی ۲۰ ملین (دو کروڑ) ہے۔ اس وقت یورپ میں عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد یورپ کے مذہبی، سماجی اور سیاسی منظر کا ایک حصہ ہے لیکن بیش تر مغربی ممالک میں ان کی بڑی تعداد کی حیثیت گذشتہ ۶۰سال میں آنے والے تارکینِ وطن کی ہے، اس لیے انھیں زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یورپ میں اسلام کے بارے میں بڑی حد تک لاعلمی پائی جاتی ہے۔ یورپ کے اکثر باشندوں کو دیگر مذاہب کے بارے میں سرسری علم ہے لیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف اسلام کے بارے میں اپنی راے دینے سے احتراز نہیں کرتے بلکہ پوری تحدی سے منفی، حتیٰ کہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ میڈیا نے اسلام کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے اور اس منفی پروپیگنڈے کے زیر اثر وہ اسلام کو ’بنیاد پرستی‘، ’انتہا پسندی‘ یا اب ’دہشت گردی‘ کے ہم معنیٰ سمجھنے لگے ہیں۔ ان میں چند ہی افراد نے اسلام کا معروضی یا بھر پور مطالعہ کیا ہے۔ ان کے مآخذ معتبر نہیں ہیں۔ اکثریت کا اسلام کے بارے میں راے کا دار و مدار متعصب مبلغوں، سیاست دانوں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے پروگراموں پر ہے یا پھر ان کی راے متعصب، تنگ نظر مطبوعات سے متاثر ہوتی ہے۔ اسلام کے بارے میں کچھ مآخذ یقینا قابل اعتبار ہیں لیکن ان کا استعمال ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ مستند معلومات فراہم کی جائیں اور اس پر گفت و شنید ہو۔ قابل اعتماد معلومات کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔
یورپ میں مسلمانوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے اور ان کے حل کے لیے منظم کوششوں اور واضح لائحۂ عمل کی ضرورت ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اپنے ہدف حاصل کرسکتے ہیں۔
انگلستان کی مذکورہ بالا صورت حال کم و بیش دیگر یورپی ممالک کی بھی عکاس ہے۔ اس کے پیش نظر ہمیں اسلاموفوبیا (اسلام کے خلاف نفرت)، میڈیا میں اسلام کے منفی تصور اور اسلام کو انتہاپسندی اور عورتوں پر ظلم سے غلط طور پر منسلک کرنے جیسے مسائل پر توجہ کرنا چاہیے۔
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
مزید برآں، مسلم اُمت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب سے نمٹنے کے لیے عقلی اور ذہنی صلاحیتوں سے مالامال ہو۔ اس کے لیے ہمیں غیرمعمولی صبر، حکمت اور دُوراندیشی کی ضرورت ہے۔ مغرب میں اسلام کے خلاف تمام منفی تصورات کی بیخ کنی کے لیے ہمیں سخت جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہم جس معاشرے میں مقیم ہیں اس میں ہم اپنا ایسا مقام بنائیں جس کی مدد سے ہم اپنے خلاف غلط فہمیوں، تعصبات اور شکوک کو دور کریں۔ مغربی معاشرہ جن مسائل سے دوچار ہے، ان کے حل کے لیے بھی ہمیں کوشاں رہنا چاہیے کیونکہ اب ہم بھی اسی معاشرے کا جزو ہیں۔
ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ بحیثیت مسلمان ہم بلاشبہہ فی الوقت متعدد مسائل سے دوچار ہیں، البتہ ہمارے لیے متعدد امکانات اور مواقع بھی ہیں۔ مسائل سے گھبرانے یا ہمت ہارنے کے بجاے ہمیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ سورۂ انشراح میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے:
فَانَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (انشراح ۹۴ : ۵-۶) پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔
اس آیت کریمہ کی تکرار ہمیں یہ اطمینان دلاتی ہے کہ مسائل اور مصائب وقتی ہیں اور بہتر مستقبل ہمارا منتظر ہے۔ بعض مفسرین نے اس نکتے کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ دونوں آیات میں تنگی کے لیے قرآنی لفظ عسر میں تخصیص کے لیے ال کا استعمال ہوا ہے، فراخی کے لیے قرآنی لفظ یسر میں ایسی کوئی تخصیص نہیں۔ بالفاظِ دگر اﷲ تعالیٰ نے ایک پریشانی کے لیے دگنی زیادہ فراخی کا وعدہ فرمایا ہے۔
اس امر پر ہم غور کریں کہ اللہ حکیم ہے اور اس کائنات میں رونما ہونے والے تمام واقعات اس کی حکمت پر مبنی ہیں۔ لہٰذا یہ سوال قدرتی ہے کہ حکمت الٰہی نے تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں مختلف ممالک سے جمع کرکے یورپ میں کیوں مجتمع کیا؟ اس نکتے کا اعادہ بر محل ہے کہ ہم اس سے قبل بھی یورپ میں مقیم رہے ہیں۔ مسلمانوں نے ۷۰۰ برس تک (۷۱۱ء سے ۱۴۹۲ء تک) اسپین پر حکومت کی۔ اس کے بعد ان کو شکست اور در بدری کا سامنا کرنا پڑا۔ سسلی پر مسلمانوں نے ۲۶۰برس تک (۸۳۱ء سے ۱۰۹۱ء تک) حکومت کی، یہاں بھی انھیں اسپین جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ عثمانی ترک مشرقی یورپ کے حاکم رہے۔ وہ دریاے ڈینوب تک حکمراں تھے اور آسٹریا کے دارالسلطنت ویانا تک پہنچ گئے تھے لیکن پھر انھوں نے پسپائی اختیار کی۔ اب اس صدی میں لاکھوں مسلمانوں نے یورپ کو بطور اپنے وطن اختیار کیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس دور میں ان کی حیثیت فاتح کی نہیں بلکہ تارکینِ وطن کی ہے۔
اس موقع پر ممتاز اسلامی مفکر نجم الدین اربکان (۱۹۲۶ء -۲۰۱۱ء) کی ایک تقریر کا حوالہ مناسب رہے گا۔ کئی سال قبل مانچسٹر، برطانیہ میں ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہ اہم نکتہ پیش کیا کہ یورپ میں مسلمانوں کی صورت حال فرعون کے محل میں حضرت موسٰی ؑ کے داخلے سے مشابہ ہے۔ وہ اس وقت ایک ناتواں، بے بس بچے تھے۔ فرعون ہی کے محل میں ان کی پرورش اور تربیت ہوئی۔ انھوں نے حکمراں طبقے کے طور طریقے وہاں سیکھے تاکہ وہ آیندہ قیادت کی ذمہ داری سنبھالیں۔ فی الحال یورپ میں مسلمان بھی کمزور اور پسماندہ ہیں۔ ہمیں یہاں اس لیے لایا گیا ہے تاکہ ہم مغرب کی سائنس اور ٹکنالوجی پر حاوی ہوں اور اسی کے ساتھ ساتھ اسلام کے پیغام کی بھی اشاعت کریں تاکہ اسلام کے معاندین کے دل و دماغ کو مسخر کریں۔ اس نکتے کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ یورپ میں مسلم نوجوانوں کی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، ان کو زندگی میں کامیابی کے بہتر مواقع حاصل ہیں، ان کو مسلم ممالک کی بہ نسبت یہاں اظہار خیال اور آزادیِ راے زیادہ میسر ہے۔ ان کے ذہن مسلم ممالک کی بدعنوانیوں سے مسموم نہیں ہیں۔ ان تمام اُمور کے پیش نظر اس کی زیادہ توقع ہے کہ وہ اپنا اسلامی تشخص اور اسلامی کردار قائم رکھیں گے جس سے دنیا کے دیگر ممالک میں غیر مسلموں میں اسلام کی جانب رغبت اور کشش پیدا ہوگی۔
ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم قرآن مجید کے معنیٰ اور پیغام پر غورو فکر کریں اور یہ ہدایت حاصل کریں کہ غیر مسلم معاشرے میں ہم اپنی زندگی کیسے بسر کریں۔ انبیاے کرام ؑبالعموم غیرمسلم معاشرے میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ قرآن مجید سے یہ واضح ہے کہ بیش تر انبیا نے دعوت کا آغاز غیرمسلم معاشرے سے کیا۔ بسا اوقات ان کی آواز تنہا تھی۔ ان کے پیغام کا لب لباب تھا: میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں، لہٰذا تم اﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو (الشعراء ۲۶: ۱۰۷-۱۰۸)۔ یہ کہ میں تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمھارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ اﷲ کے رسول بنی نوع انسانی کے لیے ہدایتِ الٰہی لاتے رہے ہیں۔ یہ ان کا فرض تھا کہ وہ پیغام الٰہی کی ترسیل بنی نوع انسانی تک کریں، یہی فریضہ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا۔ حضور اکرمؐ نے اپنا فریضہ کما حقہٗ انجام دیا، اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے اسوۂ مبارک پر عمل پیرا ہوں اور ان کے پیغام کو اپنے اہل خانہ، احباب، پڑوسیوں اور عام لوگوں تک پہنچائیں۔
لوگوں سے باہمی معاملات اور کسی کے ذمے سپرد کسی فریضے کی ادایگی کی ضمن میں امانت کی بہت اہمیت ہے۔ اس سے مراد روز مرہ کی زندگی میں دیانت داری اور اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی بھی ہے۔ قرآن کی یہ ہدایت سورئہ بقرہ آیت ۲۸۳ اور سورئہ انفال آیت ۲۷ میں واضح طور پر ملتی ہے۔ امانت سچے اہل ایمان کی امتیازی خصوصیت ہے (المومنون ۲۳: ۸ ، المعارج ۷۰:۳۲)۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد اور سب کے ساتھ اعتماد کا ماحول پیدا کریں۔ لوگوں کو ہماری دیانت داری اور اخلاص پر بھروسا ہونا چاہیے۔ نبوت کے عطیۂ الٰہی سے قبل بھی حضور اکرمؐ کا لقب امین تھا اور یہ ان کی دیانت داری کے اعتراف کے طور پر تھا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ مکہ کے کافروں نے آپؐ کے پیغام کو مسترد کردیا لیکن وہ اپنی امانتیں آپؐ ہی کی تحویل میں دیتے تھے۔
انبیاے کرام ؑکا اپنی امتوں سے تعلق سر تا سر اخلاص پر مبنی تھا۔ یہ ان کی دلی خواہش تھی کہ لوگوں کی اصلاح ہو اور پوری اُمت کی فلاح و بہبود ہو۔ غرضیکہ نصیحت ایک فعال بامقصد فعل ہے۔ ایک معروف حدیث کے مطابق دین نصیحت ہے (مسلم) ۔ بالفاظ دیگر معاشرے سے ہمارا تعلق اخلاص پر مبنی ہوتا ہے اور ہم ایک دوسرے اور پورے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ تصور کیا جاتا ہے۔ میزبان آبادی کی راے میں ہم ان کی اقدار اور تہذیب کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ ہمارے بعض نادان دوستوں کا یہ خیال سرتاسر بے وقوفی ہے کہ یورپ میں ہمارے قیام کا مقصد خلافت قائم کرنا اور شریعت نافذ کرنا ہے۔ ہمیں لوگوں کے دل و دماغ مسخر کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہمیں انھیں یہ یقین دلانا چاہیے کہ ہم قابل اعتبار ہیں اور یہ کہ ہم ان کی فلاح و بہبود کے لیے مخلص ہیں۔
انبیاے کرام ؑکی ایک امتیازی صفت صبر ہے۔ قرآن مجید میں ان کو صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ صبر سے مراد برداشت، ہمت اور مشکلات سے نبرد آزما ہونا ہے۔ اس میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ انسان پریشانی، ناامیدی اور یاس پر قابو پائے اور اپنے نقطۂ نظر پر مضبوطی سے قائم رہے۔ بالعموم لوگ صبر کو کمزوری اور مجبوری کے مترادف سمجھتے ہیں۔ بے بسی میں انسان بلا شبہہ ان کیفیات سے دوچار ہوتا ہے، البتہ صبر کے حقیقی معنیٰ مسائل پر ہمت اور عزم کے ساتھ قابو پانا ہے۔
قرآن کریم میں جابجا حضوؐر اکرم کو صبر پر کاربند رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بالخصوص اپنے مخالفین کے جواب میں اور کافروں کے انکارِ حق کے جواب میں صبر کرنے اور نماز کا مشورہ دیا گیا ہے (البقرہ ۲:۱۵۳)۔ مکی دور میں انھیں ۱۸ مرتبہ صبر کی نصیحت کی گئی ہے۔ ہمیں بھی اشتعال اور مخالفت کا سامنا صبر سے کرنا چاہیے۔ بحیثیت قوم ہمارا ردّعمل بالعموم جذباتی ہوتا ہے۔ ہمیں مدلل اور منظم انداز میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی مشق کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے مخالفین کے مقابلے میں اس صفت میں ان سے ممتاز ہونا چاہیے۔ قرآن کا مطالبہ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (اٰل عمران ۳ : ۲۰۰)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو۔ باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ۔ حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔
اگر ہمیں یہ پختہ یقین ہو کہ ہمارا نقطۂ نظر معاشرے کی فلاح کے لیے ہے تو ہم مخالفت کے باوجود بھی صبر کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھیں گے۔
ہدایت قرآنی اور انبیاے کرام ؑکی روشن مثالوں کے پیش نظر بالخصوص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری اولین ترجیح اخلاص کے ساتھ اسلام کی ترویج اور تبلیغ ہونا چاہیے۔ اسی کی مدد سے ہم مغرب میں لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں۔ صبر اور برداشت کامیابی کی کنجیاں ہیں۔ ہمیں عام آدمی کے ذہن میں اسلام کا تصور بدلنا چاہیے۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں کو بھی اس کا قائل کرنا چاہیے۔ دشمنی پھیلانے کے بجاے ہمیں انھیں اسلام سے قریب لانا چاہیے۔ ہمیں اس کا احساس ہونا چاہییے کہ معاشرے میں صاف اور صحیح ذہن کے لوگ ہیں اور ہرشخص اسلام یا اس کی تعلیمات کا مخالف نہیں ہے۔ انھیں بھی ہماری طرح انصاف، امن اور مساوات کی اقدار عزیز ہیں۔ اگر ہم انھیں اسلام قبول کرنے کے لیے قائل نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم انھیں اس حد تک اپنا ہم نوا بنائیں کہ وہ نفرت اور مخالفت کے ماحول میں حضرت ابوطالب کی مانند ہماری مدد کریں۔ اس کے لیے ہمیں بین المذہبی مکالمے میں حصہ لینا چاہیے اور افہام اور تفہیم کو فروغ دینا چاہیے۔ اگر ہم اپنی مہم کا آغاز اس طور پر کریں گے تو ہمیں یقینا نصرت الٰہی ملے گی اور اس سے اسلام کے خلاف نفرت اور تعصب کم ہوگا۔ اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات لوگوں تک پہنچیں گی تو ان کے دل متاثر ہوں گے۔ اس میں کامیابی کے لیے سورۂ نحل کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق ہمیں دعوت کا کام کرنا ہوگا:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل ۱۶: ۱۲۵)، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔
ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب مسلمان بڑی تعداد میں مغرب میں وارد ہوئے تو ابتدا میں انھیں یہاں مقیم ہونے اور بسنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یورپ کا ماحول ان کے لیے نیا اور اجنبی تھا۔ اسی طرح ابتدا میں جب مسلمانوں کا سابقہ بالکل مختلف سماجی اقدار اور تہذیب سے پڑا تو انھیں اپنی اقدار اور تہذیب کے تحفظ کی فکر ہوئی۔ اس ابتدائی رد عمل کے باعث انھیں علیحدہ رہنے، وسیع تر معاشرے سے الگ تھلگ رہنے کی عادت پڑی تاکہ وہ اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھ سکیں۔یہ رویہ آج بھی موجود ہے۔ اس طرز فکر کے غیر سود مند ہونے کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ بقیہ دنیا سے کنارہ کش ہوکر تشخص قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ مسلمانوں میں ایک گروہ اس فکر کا علم بردار رہا کہ مغربی اقدار اور ثقافت سے مکمل ہم آہنگی اختیار کی جائے اور اسلامی تعلیمات کو اس مقولے پر عمل کرتے ہوئے خیر باد کہا جائے کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔بقول اقبال :
حدیث ِبے خبراں ہے ، تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد ، تو بازمانہ ستیز
گویا اقبال کے نزدیک انسان میں موجودہ اور باطل طریقۂ حیات کو تبدیل کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔
مسلم ممالک میں آج بھی ایسے افراد ہیں جو مغرب کی مادی ترقی اور خوشحالی سے حد درجہ مرعوب ہیں۔ ان کی راے میں مغربی طور طریقے اختیار کرکے ہم بھی خوشحالی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اندھی نقالی اور ذہنی غلامی سے ان مسلم ممالک کی تقدیر یا حالت نہیں بدل سکتی۔
ہمارے درمیان گذشتہ چند سالوں میں انتہا پسندی کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ ایک مختصر گروہ بآواز بلند مغرب سے ٹکراؤ اور آویزش کا حامی ہے۔ یہ مغربی اقدار کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور ان کی جگہ اسلامی اقدار قائم کرنے پر مصر ہے۔ یہ گروہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ مغربی اقدار بھی یہودیت اور عیسائیت سے ماخوذ ہیں۔ اس نکتے کی جانب حال میں جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے اشارہ بھی کیا ہے۔ مختصراً تینوں مذاہب کی اقدار بنیادی طور پر دینِ ابراہیم ؑسے مستعار ہیں اور بعض اقدار ان تینوں مذاہب میں مشترک ہیں۔ اسلامی شریعت میں انتہا پسندی کی مطلق کوئی گنجایش نہیں۔ تمام انبیاے کرامؑ نے امن اور یگانگت کی تعلیم دی ہے۔ انھوں نے معاشرے کی اصلاح اندرونی طور پر کی۔ انھوں نے اپنے نظریات نافذ کرنے کے لیے کبھی تشدد کا سہارا نہیں لیا، بلکہ اس کے برخلاف انھوں نے تشدد کو برداشت کیا اور کبھی انتقام نہیں لیا۔ لہذا انتہا پسندی کا رویہ اختیار کرنا خطرناک بھی ہے اور برعکس نتائج کا حامل بھی۔
اس انتہا پسندی کا جواب کیا ہو؟ اسلام یقینا اجتماعی معاملات میں لوگوں کی شرکت کا علَم بردار ہے۔ ہمیں اس اسلامی حکم پر کاربند ہونے کا حکم ہے کہ بھلائی کو فروغ دیں اور برائی کو روکیں۔ مغربی تہذیب کا نقد و جائزہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سے مراد اس کو یکسر مسترد کردینا یا اس میں بالکل ضم ہوجانا نہیں ہے۔ ہمیں مغربی تہذیب کے تمام پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے، تاکہ ہماری تہذیب سے اس کے مماثل اور مختلف پہلو نکھر کر سامنے آئیں۔ اس کی روشنی میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ مغربی تہذیب کے کون سے پہلو پسندیدہ ہیں اور کون سے ناپسندیدہ۔ غرضیکہ ہمیں آزادانہ تنقید کا رویہ اپنانا چاہیے۔ ہمارا ایک مخصوص نظریاتی اور ثقافتی تشخص ہے جس کا مآخذ اﷲ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات ہیں۔ اسی ہدایت الٰہی کی بدولت ہم ہمہ وقت اپنے ایمان کو تازہ اور مضبوط رکھتے ہیں۔
ان مغربی ممالک میں جہاں جمہوریت رائج ہے اقتدار صرف مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں مرکوز نہیں ہوتا۔ یورپین یونین کے قیام کے بعد قانون سازی اصلاً یورپی پارلیمنٹ میں انجام پاتی ہے۔ حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں کے پس پشت اصل قوت عوام کے منتخب یورپین پارلیمنٹ کے ممبر، متعلقہ ممالک کے ممبر پارلیمنٹ، لوکل کونسلر، میڈیا کے نمایندے، راے عامہ پر اثر انداز ہونے والے گروہ، مرکزی اور مقامی حکومت کے ذمہ داران وغیرہ ہوتے ہیں۔ اقتدار کے مراکز تک اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے ہمیں ان گروہوں کو قائل اور متاثر کرنا ہوگا۔ یہ ایک طویل المدتی حکمت عملی ہے، البتہ اس کے خوش گوار نتائج مستقبل میں رونما ہوں گے۔
یورپ میں نئی مسلم قیادت کی ضرورت ہے جو یورپ میں مقیم مسلمانوں کے مسائل سے بخوبی واقف ہو۔ یہ قیادت مذہبی، مسلکی اور فقہی اختلاف سے بالاتر ہو۔ یہ قیادت نہ صرف مسلمانوں کے بلکہ یورپی معاشرے کے مسائل کے حل پر قادر ہو۔ ہمیں توقع ہے اور ہماری دعا بھی ہے کہ عزم اور حکمت کے ساتھ اس نازک اور مشکل ذمہ داری سے عہدہ برا ہوا جاسکتا ہے۔ اس میں اسلام کے پیغام کو عام کرنے کا جذبہ اور خواہش ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس میں یہ صلاحیت بھی ہو کہ وہ لوگوں کے دل و دماغ میں ایسے جذبات بیدار کرے جس سے وہ اسلام کے پیغام کے لیے اَن تھک کام کریں۔ ان کا مقصد احسان کے درجے پر فائز ہونا ہو، نہ کہ ضابطے کی خانہ پُری۔
مغرب میں مسلمانوں کو درپیش مسائل سے واقفیت کے باعث ہماری یہ کاوش ہونا چاہیے کہ امت مسلمہ متحد ہو۔ فی الحال یہ مسلکی، گروہی، فقہی اختلافات کے باعث منتشر ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اس معاملے پر غور کرنا چاہیے۔ یہ ایک مشکل اور طویل المدتی کام ہے لیکن صبر اور استقلال کے ساتھ اس کا حصول ممکن ہے۔ اگر ہم میں تقویٰ اور اخلاص ہے اور ہمارا مقصد رضاے الٰہی کا حصول اور اُخروی نجات ہے تو یقینا اپنے وعدے کے مطابق اﷲ تعالیٰ ہمیں نصرت الٰہی سے سرفراز کرے گا:
وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ o (العنکبوت ۲۹: ۶۹)،جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقینا اﷲ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے۔
(یہ اس کلیدی خطاب کا نظرثانی اور اضافہ شدہ متن ہے جو ۲۶-۲۸ نومبر ۲۰۱۰ء کو یورپین مسلم کونسل کی افتتاحی کانفرنس بمقام بریسیا، اٹلی میں پیش کیا گیا)۔
مقالہ نگار اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر، برطانیہ میں محقق ہیں
اھم گزارش: اس رسالے میں اشتہار دینے والے اداروں یا افراد سے معاملات کی کوئی ذمہ داری ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کی انتظامیہ کی نہیں ہے۔ قارئین اپنی ذمہ داری پر معاملات کریں۔ (ادارہ)
علی الصبح پرندوں کا چہچہانا اور اپنی سریلی آواز سے فضائے عالم کومعمور کر دینا کسی کو بھی متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گویا پرندوں کے یہ نغمے کائنات کی ہر شے کو دعوت نظارہ دیتے ہیں کہ اٹھیں اور افق مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج اور اس کی فرحت بخش روشنی کا استقبال کریں‘ اور خالق کائنات کا شکر ادا کریں جس نے رات کی تاریکی کو دُور کر دیا اور خورشیدمنور کی روشنی اور حرارت سے زمین کی تمام مخلوقات کے لیے خزانۂ رزق کے دروازے کھول دیے۔
اسی طرح سرشام پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنے آشیانوں کی طرف دل نواز گیتوں کو آلاپتے ہوئے واپس ہوتے ہیں۔ خاص طور سے کسی بھی جھیل‘ تالاب‘ یا دریا کے کنارے پر آبی پرندوں کا ایک ازدہام ہوتا ہے جو اپنے پروں کو کمال خوبی اور خوش اسلوبی سے پھیلائے ہوئے‘ اپنی گردنوں کو اونچا کیے ہوئے ‘اور اپنے پنجوں کو بریک کی مانند استعمال کرتے ہوئے سطح آب پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ مرغ آبیاں‘ بطخیں‘ قاز ‘ راج ہنس اور کئی اقسام کے پرندے سب مل کر ایک ناقابل فراموش سماں باندھتے ہیں۔ یہ دل فریب مناظر اکثر ہی ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں۔
پرندے دوسرے جانوروں سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پر ہوتے ہیں۔ اس طرح نمایاں طور پر وہ دودھ پلانے والے جانوروں (mammals) اور رینگنے والے جانوروں (reptiles) سے الگ نوع ہیں۔چند اونس یا چند پونڈ کے وزن پر مشتمل گوشت پوست‘ پروں اور ہڈیوں کا ڈھانچا اپنے اندر بڑے ذخائر رکھتا ہے۔ اس میں اڑنے کے لیے جو قوت درکار ہوتی ہے‘ موجود ہوتی ہے۔ اس میں اڑنے کی صلاحیت اور
اس کو پوری طرح کنٹرول میں رکھنے کے ذرائع موجود ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی موجودہ اعلیٰ معیار کے ہوائی جہاز سے کم تر نہیں ہوتے۔ ہوائی جہاز کی طرح پرندے بھی اپنی پرواز کے لیے ہمیشہ مستعد رہتے ہیں۔ اگرچہ محاورتاً ’’پرندوں کی طرح آزاد‘‘ ہمارے زبان زد رہتا ہے لیکن وہ اتنے آزاد بھی نہیں ہوتے۔ ان کی زندگی دانہ پانی کی تلاش میں صرف ہوتی ہے۔ اپنی پرواز سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان کو خاصی مشقت بھی برداشت کرنا ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ان کی بعض انواع کا ناپید نہ ہونا بھی ایک معجزہ ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیش تر مقامات پر پرندوں کے اڑنے اور ہوا میں اپنے آپ کو برقرار رکھنے کو بطور نشانی بتایا ہے:
اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآئِ ط مَا یُمْسِکُھُنَّ اِلاَّ اللّٰہُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ o (النحل ۱۶:۷۹) کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے؟ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ فَوْقَھُمْ صٰٓفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ ط مَا یُمْسِکُھُنَّ اِلاَّ الرَّحْمٰنُ ط اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْ ئٍ م بَصِیْرٌ (الملک ۶۷:۱۹) کیا یہ لوگ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے؟ رحمن کے سوا کوئی نہیں جو انھیں تھامے ہو۔ وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں فرمایا ہے:
یعنی ایک ایک پرندہ جو ہوا میں اڑ رہا ہے ‘ خداے رحمن کی حفاظت میں اڑ رہا ہے۔ اس نے ہر پرندے کو وہ ساخت عطا فرمائی جس سے وہ اڑنے کے قابل ہوا۔ اس نے ہر پرندے کو اڑنے کا طریقہ سکھایا۔ اس نے ہوا کو ان قوانین کا پابند کیا جن کی بدولت ہوا سے زیادہ بھاری جسم رکھنے والی چیزوں کا اس میں اڑنا ممکن ہوا۔ اور وہی ہر اڑنے والے کو فضا میں تھامے ہوئے ہے ورنہ جس وقت بھی اللہ اپنی حفاظت ان سے ہٹا لے وہ زمین پر آ رہتے ہیں۔ (جلد ششم‘ ص ۵۰)
پرندوں کی کئی اقسام ہیں۔ بعض پرندوں میں اڑنے کی صلاحیت نہیں ہوتی‘ جیسے کہ شترمرغ یا پنگوین (Penguin)۔ لیکن ان کی اس معذوری کا ازالہ شترمرغ کی تیزرفتاری اور پنگوین کی ماہرانہ تیراکی سے ہو جاتا ہے۔ بعض پرندے نہایت خوب صورت گھونسلے بناتے ہیں‘ جیسے بیا‘ جس کا گھونسلا صنعت کاری کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ بعض محض پتھریلی زمین پر تنکوں کو جمع کر کے انڈے دیتے ہیں۔ لیکن ان کی حفاظت میں شب و روز بعض اوقات بلاکھائے پیے مصروف رہتے ہیں۔ اور جب انڈوں سے چوزے نکلتے ہیں تو ان کی نگہبانی میں ہمیشہ مستعد رہتے ہیں‘ اور ان کو ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھتے ہیں‘ اور ان کے لیے غذا فراہم کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اڑنا سیکھ جائیں ‘ اپنی مدافعت آپ کر سکیں‘ اور خود ہی دانہ پانی تلاش کر سکیں۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز کارنامہ پنگوین انجام دیتے ہیں۔ جب وہ ہزاروں پنگوین اور ان کے بچوں کے درمیان اپنے چوزوں کو محض ان کی آواز سے شناخت کر لیتے ہیں۔
پرندوں کی دنیا کا مطالعہ کیا جائے تو ایک محیرالعقول امر ان کی نقل مکانی ہے۔ ان کا ہزارہا میل کے سفر کو طے کرنا اور پھر واپس اپنے مقام پر پہنچ جانا قدرت الٰہی کا ایک عجیب کرشمہ ہے۔ صدیوں سے یہ مسئلہ انسانوں کے لیے باعث حیرت اور استعجاب رہا ہے۔ زمانۂ قدیم میں جب انسان کی معلومات کا دائرہ محدود تھا‘ لوگوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں‘ لیکن یہ کسی طرح بھی عقل انسانی کو مطمئن نہ کر سکیں۔ پچھلی دو صدیوں میں سائنس دانوں نے اس نقل مکانی اور پرندوں کے راستے تلاش کرنے کی صلاحیت کا تحقیقی مطالعہ کیا۔ پرندوں کے پنجوں میں ایمونیم کے چھلے ڈالے تاکہ جس ملک میں یہ پرندے پہنچیں وہاں کے لوگوں کو پتا چل سکے کہ یہ پرندہ کہاں سے آیا ہے۔ اس طرح پرندوں کی نقل مکانی کے نقشے مرتب کیے گئے۔ یہ تحقیقات اب بھی جاری ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ پرندے جن کے پاس نہ نقشے ہوتے ہیں‘ نہ عمدہ آلات‘ نہ ان کے تصرف میں ریڈار(Radar)ہوتا ہے‘ نہ ریڈیو‘ اور نہ دیگر افراد ہی جو ہوائی اڈوں پر پائلٹ کی رہنمائی کے لیے موجود ہوتے ہیں‘ نہ ٹریفک کنٹرول والے ان کو ہدایات دیتے ہیں کہ موسم کیسا ہے اور اترنا ممکن ہے یا نہیں--- اس کے باوجود لاکھوں پرندے ہزارہا میل کے سفرکے دوران سمندروں‘ صحرائوں اور پہاڑوں کی بلندیوں کو سر کرتے ہوئے ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں جا پہنچتے ہیں۔ راہ میں ہرطرح کے موسموں‘ طوفانوں اور تیزوتند ہوائوں کو سہتے ہوئے بخیر و خوبی ایک ملک سے دوسرے ملک میں باقاعدگی سے منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر اسی جگہ واپس آجاتے ہیں اور اگلے سال پھر محو پرواز ہوتے ہیں۔ ان کی یہ حیرت انگیز نقل مکانی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔
یہ سب کس طرح ممکن ہوتا ہے؟ پرندوں کے ماہرین نے مختلف قیاسات اور نظریات قائم کیے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ پرندے زمین کی مقناطیسی قوت سے اندازہ لگاتے ہیں اور اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں‘ بعض موسموں کی تبدیلی ‘ سورج کی شعاعوں کے زاویے بدل جانے سے مدد لیتے ہیں۔ ممکن ہے ان کی قوت شامّہ بہت حسّاس ہو اور وہ ہوا کے درجۂ حرارت اور اس کے رخ سے اندازہ کرتے ہوں۔ شاید ان کے چھوٹے سے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے وہ قوت رکھی ہو جو زمین کے نشیب و فراز سے انھیں راہ ڈھونڈنے میں مدد دیتی ہو۔
۸۰ کے عشرے میں دو جرمن سائنس دانوں (P.Berthold and U.Querner) نے اس پر کافی مشاہدات اور تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ پرندوں میں پیدایشی طور پر یہ داخلی نظام موجود ہوتا ہے کہ وہ دنوں کے بدلتے ہوئے اوقات اور درجۂ حرارت کے باوجود اپنا راستہ خود تلاش کرسکتے ہیں۔
یقینا یہ صرف قدرتِ الٰہی کا کمال ہے کہ یہ پرندے ہزاروں میل کے سفر کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں‘ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کی ہر شے کا خالق و مالک ہے اور اسی نے ہر ذی حیات کو ایسی صلاحیتیں اور قوتیں عطا کی ہیں کہ وہ اس دنیا میں اپنے رزق کو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ وہ ان کی رہنمائی جبلت کے ذریعے کرتا ہے۔
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی o الَّذِیْ خَلَقَ فَسوّٰی o وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی o (الاعلٰی ۸۷: ۱-۳) اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا اور جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔
اس آیت کی تفسیر میں سید قطب شہیدؒ نے اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں نیویارک کی سائنسی علوم کی اکیڈمی کے صدر کریس موریسن (Chris Morrison) کی کتاب ’’انسان اکیلا نہیں کھڑا‘‘ سے یہ اقتباس نقل کیا ہے:
پرندوں میں وطن لوٹنے کا ایک ملکہ ہوتا ہے۔ ایک خاص چڑیا جو دروازوں پر گھونسلے بناتی ہے‘ خزاں کے موسم میں جنوب کی طرف ہجرت کر جاتی ہے اور اگلے سال بہار میں اپنے اس مقام کی طرف لوٹ آتی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں امریکہ کے اکثر پرندے جنوب کی طرف جاتے ہیں اور وہ سمندروں اور صحرائوں پر سے پرواز کرتے ہوئے ہزاروں میل سفر کرتے ہیں اور کبھی اپنا راستہ نہیں بھولتے۔ اور پیغام رساں کبوتر پنجرے میں طویل سفر کرتے ہیں اور جب ان کو پیغام دے کر چھوڑا جاتا ہے تو وہ کچھ دیر کے لیے حیران ہو کر چکر لگاتے ہیںاور اس کے بعد سیدھے اپنے وطن کی طرف پرواز کرتے ہیں اور کبھی راہ سے نہیں بھٹکتے۔ (ترجمہ: سید معروف شاہ شیرازی‘ جلد ششم‘ ص۹۳۸)
اس پر سید قطب شہیدؒ کا یہ تبصرہ بھی بڑا ہی جامع ہے کہ ’’یہ ایک عظیم حقیقت ہے‘ اور اس کائنات کی جس چیز کا تجزیہ کیا جائے اس کے اندر یہ حقیقت موجود ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات کی ہر چیز‘ خواہ بڑی ہو یا چھوٹی ہو‘ اہم ہو یا حقیر ہو‘ ہر چیز کی تخلیق میں تسویہ اور تناسب موجود ہے۔ ہر چیز کامل الخلقت ہے اور ہر چیز کی تخلیق کا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد اس کی تقدیر ہے۔ اللہ نے ہر چیز کو اپنا مقصدِ وجود پورا کرنے کے لیے نہایت ہی آسان طریقہ کار فراہم کر دیا ہے۔ غرض اللہ کی ہر مخلوق مکمل اور متناسب ہے اور ہر چیز اپنا انفرادی فریضہ ادا کرتی ہے‘‘۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس خالق کائنات نے پرندوں اور تمام ہی چیزوں کو رہنمائی عطا فرمائی ہے‘ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے انسان کو‘ جو اشرف المخلوقات ہے‘ بغیر کسی رہنمائی کے چھوڑ دیا ہو؟ بھلا وہ ذات رحیم و کریم جو ایک چھوٹی سی چڑیا کو فضا میں یونہی بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑ دیتی‘ وہ کس طرح ہم کو گمراہی کی تاریکی میں نور ہدایت کے بغیر چھوڑ سکتی ہے؟ یہی بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تمثیلی انداز میں یوں سمجھائی: ’’ہوا کے پرندوں کو دیکھو‘ نہ یہ فصل بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں اور نہ کوٹھوں ہی میں غلہ جمع کرتے ہیں‘ لیکن ان کا رب انھیں کھلاتا ہے‘ تو کیا تم ان سے زیادہ قیمتی نہیں ہو؟‘‘ (متی ۶:۲۶)۔ اور ایک اور موقع پر یوں فرمایا: ’’صرف معمولی قیمت میں تم دو چڑیاں خرید سکتے ہو لیکن ایک چڑیا بھی زمین پر نہیں گرتی الا یہ کہ اللہ کی مرضی ہو۔ جہاں تک تمھارا معاملہ ہے تمھارے سر کے بال تک گنے ہوئے ہیں‘ تو خوف نہ کھائو تمھاری قیمت تو کئی چڑیوں سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔ (متی ۱۰:۲۹-۳۱)
یہ بات تو ظاہر ہے‘ کہ تمام ہی پرندے ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے ہیں۔ جہاں بھی دانہ پانی دستیاب ہو وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض صرف چند میل کے دائرے میں گھومتے ہیں۔ بعض زیادہ سے زیادہ پڑوسی ملک کا چکر لگا لیتے ہیں۔ لیکن پرندوں کی بعض انواع باقاعدگی سے ہزارہا میل کی مسافت طے کر کے نصف دنیا کا سفر طے کر لیتی ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ حیرت انگیز ریکارڈ تو بحرمنجمد شمالی کے ایک آبی پرندے نے جسے Antic Tern کہتے ہیں‘ قائم کیا ہے۔ ان کی رہایش بحرمنجمد شمالی میں ہوتی ہے لیکن وہاں جب موسم سرما کا آغاز ہوتا ہے تو یہ جنوب کی طرف پرواز کرتے ہیں۔ گرین لینڈ سے ہوتے ہوئے شمالی بحراوقیانوس سے گزرتے ہوئے برطانیہ اور اسپین‘ اور وہاں سے ساحل افریقہ سے ہوتے ہوئے بحرمنجمد جنوبی جا پہنچتے ہیں۔ جہاں اس وقت موسم گرما ہوتا ہے۔ یہاں یہ موسم گرما گزار کر موسم سرما کی آمد سے پہلے دوبارہ ۲۶ ہزار میل کا واپسی سفر مکمل کر کے بحرمنجمد شمالی میں اپنے گھونسلوں میں واپس پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک بے مثال طویل سفر کی داستان ہے‘ لیکن لاکھوں پرندے آئس لینڈ اور سائیبریا سے انگلستان اور شمالی یورپ میں موسم سرما گزارنے کے لیے آتے ہیں اور یہاں کے پرندے جنوبی یورپ اور شمالی افریقہ کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سال بہ سال یہ پرندے اپنے منتخب کردہ مخصوص تالاب‘ جھیل‘ درخت یا چمنی (chimney) میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ اس طرح یہ دو تین ہزار میل کا سفر جیسے ایک طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق سرانجام دیتے ہیں۔
پرندوں کے لمبے سفر واقعی کرشمہ ہیں۔ اس سلسلے میں ایک جرمن مصنف Dr. Werner Gitt جنھوں نے تخلیق کے عجائبات پر کافی کتابیں شائع کی ہیں‘ پرندوں کی پرواز کا تکنیکی طور پر تجزیہ کیا ہے۔ انھوں نے اس بات کا باقاعدہ حساب لگایا کہ پرندوں کو اپنی لمبی پرواز مکمل کرنے میں کتنی قوت درکار ہوتی ہے‘ اور آیا ان کے پاس اتنا زادراہ ہوتا ہے کہ وہ یہ طویل سفر مکمل کر سکیں؟ انھوں نے اپنی کتاب "Am Anfang war die Information", [In the beginning there was Information] میں‘ مثال کے طور پر‘ مشرقی سائیبریا کے ایک پرندے پلووَر (Plover) ‘جو الاسکا (Alaska) میں پایا جاتا ہے‘ کی پرواز پر تحقیق کی۔ یہ زمینی پرندہ ہے جس کی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں اور انڈے زمین پر دیتا ہے۔ یہ پرندے الاسکا سے موسم سرما میں جنوب کی طرف جزائر ہوائی (Hewaii) کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ چونکہ راستے میں کوئی اور جزیرہ یا خشکی کا کنارہ موجود نہیں ہے اس لیے ان کا تمام سفر بلاتوقف بحرالکاہل پر پرواز کر کے ہوتا ہے۔ اس پر مزید مسئلہ یہ بھی ہے کہ زمینی پرندہ ہونے کی وجہ سے تیرنا نہیں جانتے۔ چنانچہ یہ ڈھائی ہزار میل (ساڑھے ۴ ہزار کلومیٹر) کا لمبا سفر مسلسل ایک اڑان میں مکمل کرتے ہیں۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ اس دوران ۲لاکھ ۵۰ ہزار مرتبہ اپنے پروں کو پھیلاتے اور سکیڑتے ہیں اور اس طرح یہ پرواز ۸۸ گھنٹوں میں پوری کرتے ہیں۔
جب یہ پرندے سفر کا آغاز کرتے ہیں اس وقت ایک پرندے کا وزن ۲۰۰ گرام ہوتا ہے۔ جس میں ۷۰ گرام چربی ہوتی ہے جو قوت فراہم کرنے کا ذخیرہ ہوتی ہے۔ یہ معلوم رہے کہ پلووَر اپنے وزن کے اعشاریہ چھ فی صد (۶%.) کو حرکت مجردہ (Kinetic Energy) اور حرارت پیدا کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ مناسب رفتار سے پرواز کرتے ہیں تاکہ کم از کم قوت خرچ ہو لیکن ان کے لیے ہوائی تک سفر مکمل کرنے کے لیے مطلوبہ مقدار میں قوت کا حصول ممکن نہیں ہے۔ اپنی توانائی کے ذخیرے سے وہ صرف ۸۱ فی صد سفر مکمل کر سکتے ہیں اور وہ اب بھی تقریباً ۵۰۰ میل (۸۰۰ کلومیٹر) اپنی منزل مقصود سے دُور ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ کس طرح ہوائی پہنچ جاتے ہیں؟ کیا ہم نے اپنے حساب میں کوئی غلطی کی ہے؟ نہیں‘ ہمارا حساب تو درست ہے۔ خالق کائنات نے اس کا اہتمام بڑے ہی پراسرار انداز میں کیا ہے۔ اس نے پرندوں کو انتہائی اہم معلومات مزید بہم پہنچائی ہیں۔ وہ یہ کہ تنہا کبھی بھی سفر نہ کرنا اور پرواز کے دوران انگریزی کے حرف ’’وی‘‘ (v)کی شکل میں اڑنا۔ اس طرح اڑنے سے وہ پرواز میں ۳۳ فی صد قوت بچا سکتے ہیں اور اپنی منزل مقصود تک بخیریت پہنچ جاتے ہیں۔
۸۸ گھنٹوں کے سفر کے بعد پرندوں کے پاس عام طور سے ۸.۶ فی صد قوت ابھی مزید باقی رہتی ہے۔ خالق کائنات نے اس کو بھی اپنے حساب میں ملحوظ رکھا ہے تاکہ کہیں پرندوں کو مخالف ہوا کا سامنا درپیش ہو تو یہ قوت کام آسکے۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ انتہائی صحیح اندازے خالق کی قدرت کا نتیجہ نہیں قرار دیتے‘ تو وہ ان سوالات کا کیا جواب پیش کرسکتے ہیں؟ پرندوں کو کس طرح یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو سفر کے لیے کتنی قوت درکار ہے؟ کس طرح وہ مناسب چربی جمع کر پاتے ہیں کہ وہ دوران سفر ان کے کام آسکے؟ پرندوں کو کس طرح سفر کی مسافت اور اس کے لیے زادراہ کا اندازہ ہوتا ہے؟ وہ کس طرح اپنی سمت سفر اور راستے کی رہنمائی حاصل کرتے ہیں؟ وہ کس طرح جھنڈ کے جھنڈ ایک ساتھ اڑتے ہیں اور صحیح طور پر اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں؟
پرندوں کے یہ ہوائی سفر کسی قسم کے پیچیدہ آلات‘ قطب نما اور نقشوں کے بغیر ہوتے ہیں‘ حالانکہ اس دوران ہمیشہ سورج کا مقام‘ ہوا کا رخ‘ بادلوں کی گردش اور روز و شب کے تفاوت سے منظر اور صورت حال بدلتے رہتے ہیں۔ یقینا یہ اللہ تعالیٰ کا کرشمہ ہے‘ وہی ان پرندوں کی رہنمائی کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے سفر کامیابی سے سرانجام دیتے ہیں۔ زمینی پرندوں کا بحری سفر جو پلووَر کرتے ہیں اگر ان میں ذرہ برابر بھی تفاوت ہو جائے تو ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ دوران سفر بالکل صحیح سمت برقرار رکھنا کوئی تجرباتی عمل تو نہیں ہوتا۔ اگر خدا ان کی رہنمائی نہ کرے تو یہ پرندے کبھی بھی اتنا لمبا سفر اپنے تئیں طے نہیں کر سکتے۔
کینیڈا میں قاز کی نقل مکانی کے مشاہدات سے چند اور حقائق سامنے آئے ہیں جو یقینا ہمارے لیے قابل غور ہیں۔
پہلی بات تو وہی ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے کہ قازیں بھی اپنی نقل مکانی اور طویل سفر میں "v" کی شکل میں اڑتی ہیں۔ دوسری بات یہ مشاہدے میں آئی کہ اگر کسی وجہ سے ایک قاز اپنی جگہ سے ہٹ جائے‘ یا پیچھے رہ جائے تو وہ ہوا کا دبائو محسوس کرتی ہے‘ اس لیے وہ جلد ہی واپس اپنے مقام پر آجاتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ جو قاز لیڈر کے طور پر سب سے آگے اڑ رہی ہوتی ہے وہ ہوا کے دبائو کو سب سے زیادہ برداشت کرتی ہے۔ جب وہ تھک جاتی ہے تو پیچھے ہٹ کر اپنی جگہ بناتی ہے اور دوسری قاز آگے بڑھ کر رہنمائی کا کام انجام دیتی ہے۔ چوتھی بات جو اکثریتی مشاہدے میں آئی ہے کہ جو قازیں پیچھے ہوتی ہیں وہ مسلسل آوازیں نکالتی رہتی ہیں تاکہ وہ رفتار برقرار رکھ سکیں۔ آخری مشاہدہ یہ ہے کہ اگر کوئی قاز دوران سفر بیمار ہو جائے‘ یا زخمی ہو جائے‘ یا کسی کی گولی کا نشانہ بن جائے اور زمین کی طرف گرنے لگے‘ تو دو قازیں اس کے ساتھ زمین کی طرف اڑتی ہیں تاکہ اس کی مدد کر سکیں اور اس کی حفاظت کر سکیں۔ یہ مجروح قاز کے ساتھ رہتی ہیں تاآنکہ وہ صحت یاب ہو جائے اور اڑنے کے قابل ہو جائے‘ یا پھر مر جائے۔ اس کے بعد قازیں دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کرتی ہیں اور کسی دوسرے جھنڈ کے ساتھ مل کر واپس اپنے ساتھیوں سے جا ملتی ہیں۔
ان حقائق میں انسانوں کے لیے انتہائی سبق آموز نصیحتیں ہیں‘ اگر ہم ان پر غوروفکرکریں۔ وہ لوگ جن کی منزل ایک ہے اگر مل جل کر اپنی منزل کی طرف پیش رفت کریں تو وہ سفر آسانی سے اور جلد طے کر سکیں گے۔ اجتماعیت سے قوت حاصل ہوتی ہے اور لوگ باہم ایک دوسرے کے لیے باعث تقویت ہوتے ہیں۔ رہنمائی اور قیادت کا کام انتہائی مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے۔ اس لیے دوسروں کو مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ پیرووں کو اپنے لیڈر کی ہمت افزائی کے لیے مسلسل کوشش کرنا چاہیے۔ اپنے ساتھیوں اور رفقا کے لیے ایثار اور ہمدردی لازمی ہے۔ مصیبت کے وقت ان کی اعانت اور مدد فرض ہے۔ بچھڑے ہوئے لوگوں کو دوبارہ اپنے ساتھ ملا کر سفر کا آغاز کرنا بھی حکمت کا متقاضی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کارخانۂ قدرت میں ہمارے لیے بہت سی نشانیاں رکھی ہیں۔ اگر ہم قدرت کے عجائبات پر غوروفکر کریں تو ان سے عبرت اور سبق حاصل کر سکتے ہیں:
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی
(اقبال)
Baker, R. Robin: Bird navigation: the solution of a mystery. London: Hodder & Stoughton, 1984.
1
Berthold, P. and Querner, U.: Genetic basis of migratory behaviour in European warbles. Science. Vol. 212, 1981, pp 77-79
2
Mathews, G.V.T.: Bird navigation. 2nd ed. Cambridge University Press, 1968.
3
Werner, Gitt: Am Anfang war die Information [In the beginning there was information] Stuttgart: Hanssler-Verlag, 1994. (Translation quoted from: "How do birds do it?" Published in The Plain Truth, March-April, 1996, pp. 10-13.
4
"There's a lot we can learn from these geese" The Vancouver Sun, 1st August 1998, p-18.
5
a