امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے سلسلے میں جنوری ۲۰۱۸ء کے ’اشارات‘ میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے فکرانگیز خیالات پیش کیے ہیں۔ انھوں نے امریکی اور اسرائیلی ملی بھگت سے تیارکردہ جارحانہ پالیسی کو بے نقاب کیا ہے اور مسلم حکومتوں اور عوام کے ردعمل کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں جو مثبت اقدام کیے جاسکتے ہیں ان کی نشان دہی بھی فرمائی ہے۔ اگرچہ مسئلۂ فلسطین ہم سب کے نزدیک نہایت اہم ہے لیکن صرف یہی اس اُمت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ اور بہت سارے مسائل کے ساتھ اُلجھا ہوا ہے۔ جب تک اُمت کی صورت حال میں مثبت انداز میں تبدیلی نہیں آتی، کسی بھی مسئلے کا حل ممکن نظر نہیں آتا۔ اس حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:
دُنیا میں ہر چوتھا آدمی مسلمان ہے۔ اس وقت ۵۷ خودمختار مسلم ممالک ہیں جن کے پاس بے انتہا قدرتی اور انسانی وسائل موجود ہیں۔ دُنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب ۸۰کروڑ ہے۔ اگر یہ سب متحد ہوجائیں تو ایک ناقابلِ شکست قوت بن سکتے ہیں اور ان شاء اللہ اس اُمت کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ اس طرح اُمت قومیت اور گروہی اختلافات میں گرفتار ہے۔
صرف پچھلے چند برسوں کا جائزہ لیں کہ کس وسیع پیمانے پر فلسطین،مصر، لیبیا، شام، عراق، لبنان، یمن، افغانستان، پاکستان، الجزائر، میانمار (برما)، بنگلہ دیش، ترکی میں خوں ریزی اور بربادی ہوئی ہے۔ بھارت اور کشمیر میں مسلمان سخت کسمپرسی کے حالات سے گزر رہے ہیں۔ ان خانہ جنگیوں میں القاعدہ، داعش اور دیگر بزعمِ خود جہادی جماعتیں بھی شامل ہیں، جو اپنے دشمنوں کے خلاف متحد ہونے کے بجاے مسلمانوں کے قتل کے درپے ہیں۔ اپنے ملکوں کو خود ہی تباہ و برباد کررہے ہیں۔ ان کے سفاکانہ حملوں میں مساجد اور ماہِ رمضان کا بھی احترام نہیں کیا جاتا۔
پانچویں صدی ہجری جو سنہ عیسوی کی گیارھویں صدی سے مطابقت رکھتی ہے، کا منظر یہ تھا: بروز جمعہ ۲۳ شعبان ۴۹۲ہجری (۵جولائی ۱۰۹۹ء) کو مسیحی جنگجو (Crusaders) یروشلم پر حملہ کرکے شہر میں داخل ہوگئے۔ ۷۰ہزار مسلمانوں کو جن میں مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی شامل تھے تہِ تیغ کردیا۔ انھوں نے بیت المقدس کی قیمتی اشیا کو لوٹ لیا۔
امام ابن کثیرؒ (۱۳۰۱ء-۱۳۷۵ء) نے مسلمانوں کی شکست کے اسباب بیان کیے ہیں کہ فاطمی خلیفۂ وقت داخلی ریشہ دوانیوں سے کمزور ہوگیا تھا۔ اعلیٰ سوسائٹی میں رشوت کا بازار گرم تھا اور دربار سازشوں اور سازبازوں میں گِھرا ہوا تھا، اس لیے یہ ممکن نہ تھا کہ باہر کے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا جاسکے۔
ان گمبھیر حالات میںصلاح الدین ایوبی (۱۱۳۸ء-۱۱۹۳ء) ایک چھوٹی سی ریاست میں برسرِاقتدار آیا۔ اس نے سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لیا اور اپنی حکمت عملی سے ان کو حل کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے اپنی حکومت ختم کر کے اُمت کو اپنی قیادت پر مجتمع کیا ۔ چنانچہ دوسری صلیبی جنگ جولائی ۱۱۸۷ء میں ہوئی تو صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کو شکست فاش دی اور یروشلم دوبارہ فتح کرلیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے امام ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں کہ: آیندہ کوئی بھی جنگ جُو قوم جو مسلمانوں سے نبرد آزما ہوئی تو وہ شکست کھائے گی کیوں کہ اس اُمت نے سبق سیکھ لیا ہے۔
واے افسوس! کہ اس اُمت نے یروشلم پھر اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔فاطمی خلیفہ کی طرح ترک عثمانی خلیفہ بھی کمزور تھا۔ ترک خلافت میں بھی رشوت ستانی گرم اور آپس میں نااتفاقی تھی۔ مغرب نے اپنے جاسوس لارنس آف عربیہ اور گلب پاشا کے ذریعے عربوں اورترکوں کو آپس میں لڑا دیا۔
قرآن نے اکثر تاریخی واقعات سے ہمیں سبق سکھانے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ واقعات یونہی رُونما نہیں ہوتے۔ کوئی اندھی قوت انسانوں کے معاملات طے نہیں کرتی بلکہ قانونِ خداوندی انسانوں کے معاملات کی نگہداشت کرتا ہے:
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۲۶ (اٰلِ عمرٰن ۳:۲۶) جسے چاہے عزّت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہرچیز پر قادر ہے۔
پھر قرآنِ کریم بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ منصف اور عادل ہے، جو انصاف اور عدل کو پسند کرتا ہے اور دُنیا میں انصاف کو قائم دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ فساد فی الارض کو ناپسند کرتاہے:
وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۶۴(المائدہ ۵:۶۴) یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
لہٰذا کوئی بددیانت حکومت کبھی پنپ نہیں سکتی اور اس کی جگہ وہ قوم لیتی ہے جو نسبتاً بہتر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں ؑ کو بھیجنے کی غایت سورئہ حدید میں یوں بیان کی ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں ؑ کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اس آیت کی تشریح کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تین چیزیں لے کر آئے:
ان تینوں چیزوں کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر بھی عدل پر قائم ہو۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص ۳۲۱-۳۲۲)
کیا ہم دیانت داری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری مسلم حکومتیں اور عوام اس معیارِ حق پر پورے اُترتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں اور جو واقعات بھی ہورہے ہیں یہ سب ہمارے لیے عبرت کا تازیانہ ہیں کہ شاید ہم اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش کریں۔ تو پھر صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیت کیسے پیدا ہوگی؟ اس کے آثار کچھ اُمیدافزا تو نہیں ہیں لیکن ہمیں نااُمید بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا دوٹوک فیصلہ ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ ۰ۭ(الرعد ۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
آج کی صورتِ حال میں ہمیں یہودی لابی کو غیرمؤثر بنانے کے لیے مسلم لابی کو مضبوط اور مؤثر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مغرب میں مقیم مسلمانوں کی قیادت کا ہے جو مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے پاک ہوکر یہاں کے مختلف جمہوری اداروں میں نفوذ کریں۔ اگر یہودی اپنی قلیل آبادی کے باوجود کامیاب ہوسکتے ہیں تو مسلمان کیوں ان کا اس میدان میں مقابلہ نہیں کرسکتے؟
عرب ممالک کی مسلسل ناکامی کے بعد یہ ذمہ داری پاکستان ، ترکی، انڈونیشیا اور ملایشیا کی بنتی ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لیں اور جس طرح مدیرمحترم نے تجویز کیا ہے کہ تمام ہم خیال مسلم ممالک کو مشاورت میں شریک کر کے اجتماعی پالیسی تشکیل دیں اور اس کو بروے کار لائیں۔
یہ تمام چیزیں اپنی جگہ نہایت اہم ہیں اور ان پر فوری توجہ اور قابلِ عمل حکمت عملی کے ساتھ پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اُمت کے لیے نہایت اہم مسئلہ جس کے بغیر وہ کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی وہ اس کا زوالِ علم ہے، جس کی طرف توجہ متعدد اہلِ علم دلاچکے ہیں۔ صرف ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں جس کا اظہار علّامہ اقبالؒ نے اپنی آخری علالت کے دوران کیا تھا۔ یہ قابلِ توجہ ہے جس سے ان کی اس اُمت کی بہبود کے لیے بے چینی اور تشویش کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ یادداشت ۱۹مارچ ۱۹۳۸ء کی ہے جو سیّد نذیر نیازی مرحوم نے درج کی ہے:
عالمِ اسلام میں تجربہ و تحقیق کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ نہ استعجابِ علم ہے، نہ علم کے لیے کوئی سعی و کاوش۔ یورپ کی حالت ا س سے کسی قدر مختلف ہے۔ وہاں تحقیق ہے، تجربہ ہے، علم سے دلی شغف، شب و روز کی محنت، شب و روز انہماک، حالاں کہ ایک زمانے میں وہاں تجربہ و تحقیق تو درکنار علم کا نام لینا بھی گناہ میں داخل تھا۔
مسلمانوں میں علمی تجسس کا فقدان ہے۔ عالمِ اسلام کا ذہنی انحطاط حددرجہ اندوہناک ہے۔ مسلمانوں میں علمی روح باقی ہے نہ علم و حکمت سے کوئی دلی شغف… اگرہے تو تقلید یا پھر یورپ سے چند ایک مستعار لیے ہوئے خیالات کا اعادہ۔
مسلمانوں کے زوالِ علم کی ذمہ داری محض سیاسی و معاشی حالات پر عائد نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کا علمی زوال تو ان کے دورِ محکومیت سے بھی کہیں زیادہ مقدم ہے۔ لہٰذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسے زوال ہوا تو کیسے اور کیوں؟
مسلمانوں نے بھی کبھی اِردگرد کی دُنیا سے علم و حکمت کا اکتساب کیا تھا، مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس شان سے آگے بڑھے کہ علم و حکمت کی کائنات بدل دی۔ علم کو صحیح معنوں میں علم کا درجہ عطا کیا۔ مسلمان آج پھر ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟مسلمانوں میں دم کیوں نہیں؟ اور یہ کہتے کہتے افسردۂ خاطر ہوگئے۔(اقبال کے مضمون، نشستیں اور گفتگوئیں، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۱۹۷۱ء، ص ۳۷۲-۳۷۴)
یہ تبصرہ آج سے ۸۰برس پہلے کا ہے لیکن افسوس ہے کہ حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ نہ جانے یہ حالات کب تک اس طرح برقرار رہیں گے! اس میں تبدیلی کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ یہ اس اُمت کی بقا و فلاح کے لیے ازحد ضروری ہے۔ یہ ہم سب کے لیے مشکل چیلنج ہے، تاہم اس عرصے میں جو تبدیلی ہوئی ہے وہ یہ کہ کافی آزاد مسلم حکومتیں قائم ہوگئی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک پہلو جس پر غور کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ مسلم حکومتیں اپنے بجٹ کا وافر حصہ تعلیم اور تحقیق (research & development)پر خرچ کریں۔
دوسری تجویز جس پر غور کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ مسلم ممالک سے کافی سائنس دان، ڈاکٹر اور انجینیر مغربی ملکوں میں مقیم ہیں۔ یہ فرارِ ذہانت ہے۔ اس کو روکنے کے لیے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے خود مسلم ممالک میں ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے ملازمت اور تحقیق کی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہی مسبب الاسباب ہے، اگر ہم واقعی اس اُمت کی خیرخواہی کی طرف قدم اُٹھائیں گے تو وہ ہمارے لیے راہیں کھول دے گا، ان شاء اللہ!