کیا قضا نمازوں کا لوٹانا ضروری ہے؟ جواہر الحدیث (جلد۳،ص ۲۷۲) میں تحریر ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یاد رکھو! نیند میں تفریط نہیں ہوتی۔ تفریط تو یہ ہوتی ہے کہ انسان اس وقت تک نماز نہ پڑھے جب تک دوسری نماز کا وقت نہ آجائے۔ آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ جان بوجھ کر نماز کی قضا لازمی ہے۔ چند احباب کا خیال ہے کہ اس کے لیے توبہ اور استغفار کافی ہے‘‘۔
کیا امام کے لیے ضروری ہے کہ ظہر کی نماز سے پہلے وہ چار سنتیں پڑھے؟
جواب :
اللہ تعالیٰ نے جو احکام فرض فرمائے ہیں ان کے ساقط ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں ، دوسری یہ کہ انسان ان کو ادا کرے۔ معافی کا تو اس دنیا میں تصور نہیں ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں اور وحی کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ اب صرف دوسری صورت باقی ہے۔ البتہ اگر جان بوجھ کر نماز قضا کی ہو تو اتنا بڑا گناہ ہے کہ ادا کرنے کے باوجود آدمی کو مطمئن ہوکر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ استغفار کرتے رہنا چاہیے۔ یہ کہنا کہ محض استغفار کافی ہے، جرم کو ہلکا کردیتا ہے۔ اس طرح تو ایک آدمی جان بوجھ کر نمازیں قضا کرے گا، قضا نماز بھی ادا نہ کرے گا اور چند دن بعد استغفار بھی چھوڑ دے گا۔
سنتیں چھوڑنے والے امام کی امامت جائز ہے۔ وہ سنتیں بعد میں ادا کر لے۔ چاہے ظہر کی سنتیں ہوں یا کسی اور نماز کی سنتیں ہوں۔ البتہ سُستی اور چھوڑ دینے کو عادت بنانا بڑی بُری بات ہے۔ اس پر شریعت میں عتاب آیا ہے۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
دینی کتب کی تقسیم قرضِ حسن
سوال :
قلمی و زبانی اشاعت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کو رواج دینے اور عام کرنے کے لیے ذاتی سطح پر اور اجتماعی طور پر عملی جدوجہد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کارِخیر میں، کیا مالی طور پر دینی کتب خریدنا اور پھیلانا بھی اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے زمرے میں آتا ہے؟ یا راہِ حق میں جہادکرنے کی تعریف میں؟براہ کرم رہنمائی فرمائیں؟
جواب :
دین کی اشاعت و تبلیغ، اور دین کی اقامت و غلبے کی کوششوں میں اپنی صلاحیت اور قوت کے مطابق جو بندئہ مومن ذہنی، فکری، جسمانی، مالی، کوشش و کاوش کرے گا، وہ راہِ حق میں بلاشبہہ جہاد ہی ہے۔ قلم سے بھی جہاد ہوتا ہے اور جان کھپاکر بھی اور جان دے کر بھی جہاد ہوتا ہے۔
اس وقت، جب کہ ہر طرف باطل کا غلبہ ہے، خدا کا دین مغلوب ہے، لوگ دین سے ناواقف بھی ہیں اور دین کے خلاف ہر طرح کی فکری اور عملی مخالف کوششیں بھی ہورہی ہیں ۔ ایسے حالات میں جس بندے کو جو پونجی میسر ہے، خواہ وہ مال ہو یا صلاحیتیں، زبان کی طاقت ہو یا قلم کی، بندہ جس طرح بھی دین کی اشاعت و اقامت میں لگے گا، ان شاء اللہ وہ سب کچھ جہاد میں شمار ہوگا۔
دین کا تعارف کرانے، اور دین کو لوگوں میں مقبول بنانے اور اسلام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے، جو شخص اپنا مال خرچ کرکے دینی کتب خرید کر تقسیم کرے اور لوگوں تک پہنچائے، وہ یقینا بارگاہِ الٰہی میں قرضِ حسن دے رہا ہے اور بلاشبہہ یہ اس دور میں ایک بہترین قرضِ حسن ہے، جس پر اللہ سے اُمیدیں وابستہ کرنا چاہییں۔ خالق ارض و سما ہم سب کو اپنی جان اور مال سے اپنی راہ میں جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے، آمین!
دورِ حاضر کتابوں کا بھی ہے۔ کتابوں کے ذریعے دعوت و تبلیغ اور اللہ تعالیٰ کے دین کی اقامت کے جو مواقع آج پیدا ہوگئے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ طباعت اور اشاعت کی جو سہولتیں اور ذرائع اس وقت میسر ہیں، ان سے فائدہ اُٹھانا اور ان میں دین کی اشاعت اور دین کی اقامت کی خاطر اپنا دل پسند مال لگانا، یقینا اللہ کو قرضِ حسن دینا بھی ہے اور جہاد بالمال بھی ۔ یقینا اس مہم میں شرکت کی سعادت پر اللہ سے اجروصلے کی توقع رکھنا چاہیے۔ (مولانا محمد یوسف اصلاحی)
مسجد یا مدرسہ کے لیے وقف کی نوعیت میں تبدیلی
سوال :
کیا دینی مدرسے اور مسجد کے لیے ریاست کی عطا کردہ زمین کو عام دُنیوی تعلیم کے ادارے میں تبدیل کرنا: اسلامی، اخلاقی اور قانونی اعتبار سے جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کس بنیاد پر اور اگر ناجائز ہے تو اس بارے میں آثارِشریعت کیا رہنمائی دیتے ہیں؟
کیا مسجد یا دینی مدرسے کے لیے ریاست کی جانب سے عطا کردہ زمین کا مجموعی رقبہ کسی دوسری غرض کے لیے کرایے پر دیا جاسکتا ہے؟ اس کی کس قدر گنجایش ہے یا اس کے ردّ میں اسلامی شریعت کے احکام اور نظائر کیا کہتے ہیں ؟
اگر یہ غیرقانونی ہے تو مدرسہ و مسجد کی انتظامی انجمن کے ذمہ داران اور کرایے پر حاصل کرنے والے ساہوکاروں کے درمیان معاہدے کی فی الواقع قانونی پوزیشن کیا ہے؟
کیا مسجد و دینی مدرسے کے لیے ایک مرتبہ اعلان کردہ زمین، دوسرے کاروباری مقاصد اور ’منڈی کی معیشت‘ کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے نیلام بھی کی جاسکتی ہے؟یا وہ ہمیشہ کے لیے اسی دینی غرض کے لیے مخصوص رہے گی؟
ایسی مشق (لین دین) میں ملوث افراد کے بارے شریعت کیا حکم لگاتی ہے؟
جواب :
آپ کے گراں قدر سوالات کا جواب یہ ہے کہ ریاست یا ادارے یا کسی شخص نے جو قطعۂ زمین کسی خاص غرض کے لیے عطیہ کیا یا وقف کیا ہو، مثلاً مسجد اور دینی جامعہ کے لیے، تو اسے کسی بھی دوسری غرض اور دُنیوی تعلیم کے لیے استعمال کرنا امانت میں خیانت ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار خصلتیں جس آدمی میں ہوں وہ پورا منافق ہے اور جس میں ان چاروں خصلتوں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی: ۱- جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۲- جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۳- جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور ۴- جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے۔ (بخاری، حدیث :۳۴) بیان کردہ صورتِ حال کے مطابق ریاست نے جو قطعۂ زمین دیا، وہ مسجد اور دینی جامعہ کے لیے دیا۔ اس لیے وہ مسجد اور دینی جامعہ کی امانت ہے۔ اسے کسی دوسرے ادارے کو دینا یا کسی دوسرے ادارے کو کرایے پر دینا، امانت میں خیانت ہے۔ جب یہ پلاٹ لیا تھا، تب معاہدہ کیا گیا تھا کہ اس پر مسجد اور دینی جامعہ تعمیر کی جائے گی، تو اس لحاظ سے یہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں، نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جس نے زمین کا کچھ بھی حصہ ناحق لیا ہو، اسے قیامت کے روز سات زمینوں میں دھنسایا جائے گا‘‘۔ (بخاری، حدیث :۲۴۵۴ ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو مالِ غنیمت اور سرکاری خزانے میں خیانت کو بہت بڑا جرم قرار دیا اور فرمایا: ’’اُس کا نتیجہ بھی بہت سخت ہوگا‘‘۔ پھر فرمایا: ’’میں نہ پائوں کہ تم میں سے کسی ایک کو کہ وہ میرے پاس قیامت کے روز اس حال میں آئے کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو اور وہ منمنا رہی ہو۔ وہ کہے: یارسولؐ اللہ! میری مدد کیجیے، تو میں کہوں گا میں تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو، اور وہ ہنہنا رہا ہو، تو میرے پاس آئے اور کہے: یارسولؐ اللہ! میری فریاد رسی فرمایئے، تو میں کہوں گا: میں تیری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر سونا چاندی کا بوجھ ہو اور وہ کہے :یارسولؐ اللہ! میری مدد فرمایئے، تو میں کہوں گا: آج میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر اُونٹ بڑبڑا رہا ہو اور وہ کہے یارسولؐ اللہ! میری مدد فرمایئے، تو میں کہوں گا: میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر کیڑا حرکت کر رہا ہو گا، وہ بوجھ بنا ہوا ہوگا اور تذلیل کر رہا ہوگا، تو میں کہوں گا: آج میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (بخاری، حدیث: ۳۰۷۳) حضرت عبداللہ بن عمروؓ سےروایت ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان پر ایک آدمی کی ڈیوٹی تھی۔ اسے ’کرکرۃ‘ کہا جاتا تھا۔ وہ فوت ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دوزخ میں ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ کیا وجہ ہے تو پتا چلا کہ اس کے سامان میں ایک چادر ہے جو اس نے خیبر کے دن مالِ غنیمت سے چوری کی تھی۔ (بخاری، حدیث ۳۰۷۴، باب القلیل من الغلول) اسی طرح ایک موقعے پر آپؐ نے اعلان فرمایا کہ: ’’جس نے مالِ غنیمت میں سے کوئی چیز چوری کی ہوگی تو وہ چیز اس کے لیے آگ ہوگی۔ پھر کوئی جوتے کا ایک تسمہ لے آیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’آگ کا ایک تسمہ ہے‘‘۔ کوئی دو تسمے لے آیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’آگ کے دو تسمے ہیں‘‘۔ (بخاری:۴۰۰۶) امانت میں خیانت کا اسلامی حکم تو مذکورہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں سامنے آگیا۔ اسی طرح اخلاقی لحاظ سے دنیا بھر میں خیانت کاری کو بڑا قابلِ نفرت جرم قرار دیا جاتا ہے۔ عدالتیں خائنوں کو قیادت کے مناصب کی اہلیت سے نااہل قرار دیتی ہیں، حتیٰ کہ وہ لوگ قومی، صوبائی اور سینیٹ کی رکنیت تک کے لیے اہل نہیں رہتے۔ قانونی لحاظ سے آئین پاکستان کی دفعہ ۶۲اور دفعہ۶۳ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کے کسی بھی ادارے خصوصاً قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے لیے صرف ایسا شخص اہلیت رکھتا ہے، جو صادق اور امین ہو۔
مسجد اور مدرسے کے لیے دیے گئے قطعۂ اراضی کو، کسی بھی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرنا: اسلامی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے کھلی خیانت ہے۔
اس سلسلے میں جو بھی معاہدہ، انجمن کے نمایندوں نے کسی بھی ساہوکار کے ساتھ کیا ہوگا، وہ کالعدم قرار پائے گا، جسے کوئی قانونی اور اخلاقی تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔اس لیے اسے عدالت میں چیلنج کرکے ختم کرایا جانا چاہیے۔
مسجد کے لیے ایک زمین کا اعلان ہوجائے تو اس زمین کو نیلام نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ جس نے ایسا اعلان کیا ہو، اسے اگر کوئی غیرمعمولی صورتِ حال درپیش ہو کہ وہ اس اعلان کو واپس لے رہا ہے، تو اسے اس کے بدلے میں اس قدر وقیمت کی دوسری موزوں اور مناسب جگہ وقف کرنا ہوگی۔ یہاں پر یہ بات بالوضاحت کہنا ضروری ہے کہ یہ ’غیرمعمولی صورتِ حال‘ واقعی اُمت کے کسی بڑے اجتماعی مفاد سے وابستہ ہونی چاہیے اور اس صورتِ حال کی نزاکت کا تعین علمِ دین سے متصف افراد اور احترام کے اعلیٰ درجے پر فائز مقتدر ادارہ، آخرت کی جواب دہی کے احساس کے تحت کرے تو اس کا کوئی وزن ہوسکتا ہے ، وگرنہ ’منڈی کی معیشت‘ کے تابع کیا جانے والا ایسا فیصلہ شریعت کی نظر میں قطعاً ناقابلِ قبول ہوگا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایسی رعایت اور مداہنت کا دروازہ کھولنے کا مطلب اوقاف و عطایا کے پورے نظام کے تقدس اور نزاکت کو ملیامیٹ کرنے کی بنیاد بن سکتا ہے، جس سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ایمان کا تقاضا ہے۔
ایسے لوگ جو مسجد اور مدرسے کی زمین کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کریں، آگے بڑھ کر انھیں روکنا ضروری ہے۔ اگر وہ، لوگوں کی بات نہیں سنتے اور اپنے فیصلے سے باز نہیں آتے، تو بذریعہ عدالت انھیں اس سے روکنا ہوگا۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)