زیر نظر کتاب میں جناب متین خالد نے تحفظ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوّلین مجاہد حضرت حمزہ ؓکی داستان حیات کو عام فہم اور دل نشین اسلوب میں پیش کیا ہے۔ یوں تو تاریخ اسلام اَن گنت شہدا کی قربانیوں سے عبارت ہے مگر حضرت حمزہؓ کی شہادت ان سب میں منفرد ہے۔ حضرت حمزہ ؓ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ بھی دل چسپ ہے کہ کس طرح ابو جہل نے آںحضور ؐ کے ساتھ گستاخی کی تو حضرت حمزہؓ نے نہ صرف اس کا بدلہ لیا بلکہ ابو جہل کی گستاخی ان کے اسلام لانے کا فوری سبب بن گئی۔ اسی طرح جنگ اُحد میں آپ کی شہادت کے واقعے کو بڑی جامعیت اور زیادہ تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کتاب کے آخری حصے میں عرب وعجم کے شعرا (حضرت حسان بن ثابتؓ، مولانا روم، حفیظ جالندھری )کے علاوہ زمانۂ حال کے بیسیوں شعرا نے حضرت حمزہؓ کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
اوریا مقبول جان کے بقول: ’’[فاضل مرتب] کی خوبی ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں تحقیق کا رنگ بھرتے ہوئے اُسے اِس قدر دل چسپ بنا دیتے ہیں کہ پڑھتے ہوئے کتاب ہاتھ سے چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا بلکہ قاری خود کو اَنوار ِ رحمت کے ایک ہالے میں محسوس کرتا ہے‘‘۔ اللہ پاک اس مقدس کام کو شرف قبولیت عطا فرمائے، آمین۔ (ادارہ)
دینِ اسلام کے دشمنوں نے کم و بیش تمام ہی اسلامی اصطلاحات، ماخذِ دین اور شعائرِ اسلام کو بدنما اور نفرت انگیز علامات کے طور پر پیش کرنے کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے، جیسے جہاد، قرآن، حدیث، شریعت، عورت کا مقام، دینی مدرسہ، نکاح و طلاق، وراثت و ترکہ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اصل ہدف یہ اصطلاحات نہیں ہیں، بلکہ خود اسلام اور مسلمان ہیں۔ موجودہ زمانے میں جہاد کے علاوہ جس چیز کو مغربی دُنیا میں ایک ’خوفناک‘ حوالہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، وہ ہے: ’اسلامی شریعت‘۔ گذشتہ چندبرسوں سے امریکا کے طول و عرض میں شریعت کے خلاف مہم زوروں پر ہے۔ یہی معاملہ متعدد یورپی ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے اور دبے دبے لفظوں میں خود مسلم ممالک میں بھی مخصوص طرزِ فکر کے حاملین اس سمت قدم بڑھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
عبدالرشید صدیقی صاحب نے ’اسلامی شریعت‘ کے نہایت اہم موضوع پر اختصار، جامعیت، اعلیٰ اسلوب اور پوری جرأت کے ساتھ یہ مختصر اور مؤثر دستاویزی نثرپارہ تحریر کیا ہے۔ اتنے پھیلے ہوئے اور اس قدر شدید ہدفِ تنقید موضوع کو جس خوب صورتی سے اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے، اس پر فاضل مؤلف اور اسلامک فائونڈیشن مبارک باد کے مستحق ہیں۔
اس کتاب کی خوب صورتی یہ ہے کہ قاری محض دو نشستوں میں اسلام کا تعارف اور الزامی مہم کا مثبت جواب حاصل کرلیتا ہے۔ یہ چھے ابواب پر مشتمل ہے، جس میں: شریعت کی ماہیت، مطلب اور ماخذ، شریعت کے بنیادی مقاصد، شریعت کا مقصود ایک عادل معاشرے کا قیام، شریعت پر وارد کر دہ اعتراضات کی حقیقت، شریعت کے نفاذ کی حکمت عملی اور اقلیتوں کے حقوق وغیرہ کو زیربحث لایا گیا ہے۔
ضخامت میں مختصر مگر مقصد و موضوع کے اعتبار سے وزنی و قیمتی اس کتاب کو مختلف زبانوں میں منتقل کرنا، تعلیم اور مقصدیت کے لحاظ سے مفید تر ہوگا۔ (سلیم منصور خالد)
زیر نظر سفر نامۂ حج کے بارے میں مولانا عبدالمالک نے فرمایا ہے : ’’کتاب ہر لحاظ سے موضوع کا حق ادا کرتی ہے اور حج کے موضوع پر لٹریچر میںبہترین اضافہ ہے ‘‘۔ مولانا کی یہ راے نہایت جامع ہے کیوںکہ ’’اس کتاب میں مقاماتِ مقدّس کی تاریخ بھی ملے گی اور احکاماتِ حج کی تفصیل بھی___ حج کے حوالے سے بعض غلطیوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حج کے احکامات قرآن وحدیث سے لیے گئے ہیں۔ مشاہدات اور تبصرے زائر کے اپنے ہیں۔ اس طرح یہ سفر نامہ احکامات ، مشاہدات،تاَثرات اور توجہات پر مشتمل ہے‘‘۔
مصنف محکمہ پولیس کے اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کا اسلوب ایک پختہ فکر اہل قلم کا سا ہے۔ مشاہدات، تاَثرات اور احکامات وغیرہ کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے: خیال ، جلال، جمال ،کمال اور استقلال ___ سفر نامے کی ندرت کے کچھ اور پہلو بھی ہیں۔ مثلاً :’مقاماتِ مقد سہ و مناسک حج‘ کے ’البم ‘میں ۳۳ تصاویر اور دیگر ممالک کے حجاج سے ملاقاتوں کے تذکرے کے ساتھ ان کے تحریری تاثرات کے عکس ، شریکِ سفر احباب کی فہرست، اور آخر میں حج اور عمرے کے ۲۵۰ سفر ناموں کی فہرست بھی شامل ہے۔ اُردو میں حج کے سفرناموں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہے، مگر متعلقات و لوازماتِ حج کی ایسی یک جائی اور ایسا اہتمام، شاید ہی کسی سفرنامے میں ملے___ بلاشبہہ یہ ایک منفرد اور بہترین سفرنامۂ حج ہے۔ طباعت واشاعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
پاکستان کا قیام ان حالات میں عمل میں آیا کہ اس نئی مملکت کے پاس نہ مالی وسائل تھے، نہ ریاستی ہیکل اساسی اور نہ افرادی قوت کی تربیت کا بنیادی ڈھانچا ہی میسر تھا۔ دوسرا یہ کہ کانگریس کے گہرے اثرات کے باعث مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] اور صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) میں مقامی سطح پر ایسی سیاسی قیادت موجود تھی، جو قیامِ پاکستان کے خلاف تھی ، جس نے پہلے ہی چھے ماہ میں پاکستان کی بنیادوں پر ضربیں لگانا شروع کر دی تھیں۔ کانگریس کو توقع تھی کہ پاکستان محض گنتی کے چند برسوں میں ناکام ہوجائے گا۔ اسی طرح انگریز ہندو گٹھ جوڑ نے غیرمنصفانہ تقسیم ہند کے علاوہ جموں و کشمیر کے الحاقِ پاکستان کو روک کر بارود، خون اور جنگ کی فصل بو دی۔ ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں یہی مسئلہ کشمیر کارفرما تھا۔
یہ کتاب بنیادی طور پر پاکستانی صحافت کی زندہ تاریخ الطاف حسن قریشی کی ان تحریروں پر مشتمل ہے، جو انھوں نے جنگ ِ ستمبر کی مناسبت سے ذاتی مشاہدات اور جنگ میں حصہ لینے والے سرفروشوں سے تفصیلات معلوم کرکے ۱۹۶۵ء سے ۱۹۶۶ءکے زمانے میں ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ کے لیے لکھی تھیں۔ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ، پاکستانی نیشنل ازم کی بازیافت کا ذریعہ بنی۔ اس جنگ نے پاکستان کی اسلامی شناخت کو پختہ کیا اور خود پاکستانی ادب کے خدوخال کو گہرے نقوش کے ساتھ واضح کیا۔ اس طرح یہ جنگ پاکستان کی تاریخ کا ایک یادگار سنگ میل ثابت ہوئی۔
الطاف صاحب نے درست لکھا ہے: ’’ان تحریروں میں وہ فضا پائی جاتی ہے، جو آج بھی ہمارے اندر ایک اُمنگ اور عزم پیدا کرتی ہے۔ وہ فضا تین روح پرور کیفیتوں کا مرقع تھی: ہماری مسلح افواج کا عظیم جذبۂ جہاد ، فوج اور عوام کے مابین اعتماد کے گہرے رشتے ،اور قومی یک جہتی کے ناقابلِ فراموش مناظر‘‘ (ص۷)۔ان مناظر کو مصنف نے۲۱مضامین (رپورتاژوں اور مصاحبوں وغیرہ) میں بھرپور انداز سے پیش کیا ہے۔ محاذ جنگ پر موجود اور اگلے مورچوں پر ڈٹے پاکستانی فوجی جوانوں کے جذبات و کیفیات کو دم بخود کرنے والے اسلوب میں اس خوب صورتی اور تفصیل سے پیش کیا ہے کہ قاری اپنے آپ کو منظر کا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ ہرمضمو ن کا پلاٹ الگ ہے، مگر بنیادی روح ایک ہے اور وہ ہے پاکستانی مسلح افواج کا جذبۂ جہاد اور جذبہ دفاعِ پاکستان، جس میں پاکستانی عوام، دانش ور اور ادیب، تمام گروہی تفریقوں سے بالاتر ہوکر یک جان و یک جہت ہوکر، دشمن کے مقابلے میں ڈٹے دکھائی دیتے ہیں۔
کتاب کے آغاز میں الطاف صاحب نے ’تصادم کے بنیادی محرکات‘ (ص ۱۵-۶۵) کے عنوان سے ایک تحقیقی و تجزیاتی مقالہ تحریر کیا ہے، جو نہ صرف اُس زمانے میں بھارتی توسیع پسندانہ سامراجی عزائم کی تاریخ پر مشتمل ہے، بلکہ آج بھی بھارت کی وہی ذہنیت پاکستان کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔ روحِ جہاد اور مسلم اُمت کی روح وجود کو نئی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے یہ کتاب امتیازی اہمیت رکھتی ہے۔ خوب صورت پیش کش کے لیے ناشر فرخ سہیل گویندی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (س م خ)
اخبارات و جرائد میں عام طور پر جن موضوعات پر مضامین لکھے جاتے ہیں، یونی ورسٹیوں کے علمی مجلّات، ان سے قدرے مختلف موضوعات کو زیربحث لاتے ہیں۔ پیش کش کے اعتبار سے ان مجلوں کا اسلوب زیادہ تر تحقیقی اور تجزیاتی ہوتا ہے، اسی لیے یونی ورسٹی مجلّے اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ زیرنظر اشاریہ سندھ یونی ورسٹی، جام شورو کے شعبۂ اُردو کے تین مجلوں: (صریرخامہ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۷۸ء ، پرکھ ۱۹۷۸ء، تحقیق ۱۹۸۷ء تا ۲۰۱۶ء)کے مندرجات کے حوالوں پر مشتمل ہے، جس میں چھے سو سے زیادہ قلمی معاونین کی ۱۲۰۰ نگارشات کی مہ و سال کے ساتھ نشان دہی کی گئی ہے۔
رسائل و جرائد کی اشاریہ سازی کے ماہر محمد شاہد حنیف نے اُردو خواں طبقے کو سندھ یونی ورسٹی کی علمی و ادبی خدمات سے آگاہ کرنے کے لیے یہ مفید خدمت انجام دی ہے، جسے وابستگانِ تحقیق قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ (ادارہ)