جس وقت بھارت کے دورے پر آئے ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی جنوبی ہند کے شہر حیدرآباد کی تاریخی ’مکہ مسجد‘ میں نماز جمعہ ادا کررہے تھے، اسی روز بہار کے سرحدی شہر ساپول کے باسی اور مسجد نبویؐ کے امام شیخ حامد بن اکرم بخاری بھی مسلمانوں کے ایک جمِ غفیر سے خطاب کر رہے تھے۔ دونوں حضرات کے خطبات کا متن تقریباً ایک جیسا تھا۔ جہاں ایرانی صدر نے: ’’کلمۂ توحید کے پرچم تلے عالمِ اسلام سے متحد ہونے کی اپیل کی‘‘ تو دوسری طرف امامِ حرم نے اسلامی دنیا کے انتشار کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’اس کا واحد حل اتحاد بین المسلمین ہے‘‘۔ دونوں نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششوں کی مذمت کی اور بجاطور پر اسلام کو امن کا پیغامبر بتایا۔
ایرانی صدر اور ان کے وفد نے حیدر آباد میں ایک سُنی امام کی اقتدا میں نماز ادا کرکے مسلم دُنیا کو نہایت ہی مثبت پیغام دیا۔ اب اگر ان دونوں رہنمائوں کا بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اتحاد کا ایک جیسا پیغام تھا، تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ دونوں ممالک خود اس کی عملی تصویر پیش کرکے عالمِ اسلام کو ابتلاو آزمایش سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کرتے۔ آج عالمِ اسلام کے بیش تر زخم ایران اور سعود ی عرب کی چپقلش کی دین ہیں۔ دو عشرے پیش تر تک مختلف معاملات، مثلاً افغانستان، فلسطین اور کشمیر کے تئیں مذکورہ دونوں ممالک کا موقف یکساں ہوتاتھا۔ کشمیر کے سلسلے میں ویسے تو سعودی حکومت پس پردہ ہی رول ادا کرتی تھی، مگر ایران کا پاکستان کی ہی طرز پر خاصا فعال کردار ہوتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ۱۹۸۲ء میں سری نگر کی جامع مسجد میں ایران کے موجودہ سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای کا والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔ ان کا خطبہ سننے کے لیے عوام کا ازدحام اُمنڈ آیا تھا۔ پھر ۱۹۹۱ء میں جب بھارت کے وزیر خارجہ اندر کمار گجرال تہران کے لیے اڑان بھرنے کی تیاری کر رہے تھے، کہ ایران نے ان کی میزبانی کرنے سے معذوری ظاہر کر دی۔ وجہ تھی کہ سری نگر میں سیکورٹی دستوں نے اس دن کشمیر کے کئی افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ تاہم، خطے کے بدلتے حالات، بین الاقوامی رسہ کشی ، افغانستان کے منظرنامے ، پابندیوں اور پھر اپنی معیشت نے شاید ایران کو مجبور کیا کہ بھارت کے ساتھ اپنے رشتوں کا ازسر نو جائزہ لے۔
مارچ ۱۹۹۴ء میں کشمیر کے حوالے سے ایران نے اچانک پوزیشن تبدیل کی۔ ہوا یہ کہ جموں وکشمیر میں حقوقِ انسانی کی ابتر صورتِ حال کے حوالے سے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ نے اقوامِ متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں ایک قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس میں کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت کی زبردست سرزنش اور اس کے خلاف اقدامات کی سفارش کی گئی تھی۔ منظوری کی صورت میں یہ قرارداد براہِ راست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپرد کردی جاتی، جہاں بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاںعائد کرنے کے قواعد تقریباً تیار تھے۔ اسی دوران کوہِ البرزکے دامن میں واقع تہران ایئر پورٹ پر شدید سردی میں بھارتی فضائیہ کے ایک خصوصی طیارے نے برف سے ڈھکے رن وے پر لینڈنگ کی۔ یہ طیارہ اس وقت کے وزیرخارجہ دنیش سنگھ اور تین دیگر مسافروںکو انتہائی خفیہ مشن پر لے کر آیا تھا۔ دنیش سنگھ ان دنوں دہلی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے اور بڑی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔ وہ اسٹریچر پر ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے نام بھارتی وزیراعظم پی وی نرسیما رائو کا اہم مکتوب لے کر آئے تھے، اور ذاتی طور پر ان کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔ سوء اتفاق کہ وزیرخارجہ ' دنیش سنگھ کا یہ آخری سفارتی دورہ ثابت ہوا کیوںکہ اس کے بعد وہ دنیا سے کوچ کرگئے۔
اس وقت بین الاقوامی برادری میں بھارت کی پوزیشن مستحکم نہیں تھی اور اقتصادی صورتِ حال انتہائی خستہ تھی، حتیٰ کہ سرکاری خزانہ بھرنے کے لیے حکومت نے اپنا سارا سونا بیرونی ملکوں میںگروی رکھ دیا تھا۔ ادھر سوویت یونین کے منتشر ہو جانے سے اس کا یہ دیرینہ دوست بھی اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔ وزیر اعظم نرسیما رائو نے بڑی ہوشیاری اور دُوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کو آمادہ کرلیا کہ وہ او آئی سی میں مذکورہ قرارداد کی منظوری کے وقت غیر حاضر رہے۔ نرسیما رائو کا خیال تھا کہ ایران کے غیر حاضر رہنے کی صورت میں یہ قرارداد خود بخود ناکام ہوجائے گی، کیوںکہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ دوسرے کئی بین الاقوامی اداروںکی طرح ووٹنگ کے بجاے اتفاق راے سے فیصلے کرتی ہے۔ جس وقت بھارتی فضائیہ کا خصوصی طیارہ ایرانی ہوائی اڈے پر اُتر رہا تھا، ایرانی حکام کو ذرا سا بھی اندازہ نہیں تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ اچانک تہران میںکیوں نازل ہورہے ہیں؟ ایرانی حکام اتنے حیرت زدہ تھے کہ وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی پروٹوکول کو بالاے طاق رکھتے ہوئے خود ہوائی اڈے پر پہنچے اور جب راجا دنیش سنگھ کو صبح سویرے سردی سے ٹھٹھرتے وہیل چیئر اور ڈاکٹروں کے ہمراہ ہوائی جہاز سے برآمد ہوتے دیکھا تو ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ: ’’آخر اس وقت اور اتنے ہنگامی طریقے سے اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کی کیا ضرورت آن پڑی؟‘‘ دنیش سنگھ نے صدر ہاشمی رفسنجانی اور ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر ناطق نوری سے ملاقات کی اور اسی دن شام کو دہلی کے اسپتال میں اپنے بیڈ پر دوبارہ دراز دکھائی دیے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس مہم کو خفیہ رکھنے کے لیے ان کی واپسی تک ان کے بیڈ پر انھی کی قدوقامت کے شخص کو لٹایا گیا تھا۔ بہرحال دنیش سنگھ کا مشن کامیاب رہا۔ اس پورے معاملے میں ایران کوکیا ملا؟ یہ ابھی تک ایک راز ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو اس واقعے کی بھنک پڑ جاتی تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ ادھر ایرانی دبے لفظوں میںکہتے ہیں کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے سلسلے میں ان سے ایک وعدہ کیا تھا، جس پر انھوں نے یقین کرلیا ۔ بھارت نے ایران سے درخواست کی تھی کہ:’’اگر وہ مغربی ممالک کی مداخلت روکنے میں اس کی مدد کرتا ہے تو وہ پاکستان اور کشمیری رہنمائوں کے ساتھ بات چیت شروع کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کا خواہاں ہے‘‘۔ یہ سچ ہے کہ نرسیما راؤ نے اس کے بعد کچھ تگ و دو کی۔
ایک سال بعد برکینا فاسو میں ناوابستہ ممالک کی سربراہ کانفرنس کے دوران نرسیما رائو نے اعلان کیا کہ: ’’کشمیر کے سلسلے میں بھارت آسمان کی وسعتوں جتنی رعایتیں دینے کے لیے تیار ہے‘‘۔ دنیش سنگھ کی واپسی کے بعد ۷۲گھنٹے بھارت کے لیے کافی تذبذب بھرے تھے، تاہم ایران نے اپنا وعدہ ایفا کرتے ہوئے کشمیر سے متعلق او آئی سی کی قرارداد کو بڑی حکمت عملی سے عملاً ’ویٹو‘کردیا۔
چوںکہ سبھی نگاہیں اس وقت جنیوا پر ٹکی ہوئی تھیں، اس لیے کسی کو اتنی فرصت نہیں تھی کہ یہ جان سکتا کہ تہران میںکیا لاوا پک رہا تھا۔ مجھے یاد ہے، نئی دہلی میں اس وقت کے پاکستانی ہائی کمشنر ریاض کھوکھر خاصے تنائو بھرے ماحول میں کشمیری لیڈروں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کو بتا رہے تھے کہ: ’’ایران اس انتہائی اہم قرارداد کی حمایت سے ہاتھ کھینچ رہا ہے؛ حالاںکہ صرف ایک ہفتہ قبل نئی دہلی میں ایرانی سفیر نے دونوں کشمیر ی رہنمائوںکی اپنی رہایش گاہ پہ پُرتکلف دعوت کی تھی اور انھیں باورکرایا تھا کہ مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنا ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جنیوا میں منعقدہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی وفد کی قیادت اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے کی تھی اور ان کے ساتھ مرکزی وزیر سلمان خورشید اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ موجود تھے۔ اس وفد کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ۷۲گھنٹے قبل وزیر خارجہ دنیش سنگھ ایک ایسا ’کارنامہ‘ انجام دے چکے ہیں، جس کے دُور رس اثرات مرتب ہونے والے تھے۔ بعدکے حالات و واقعات نے اسے درست ثابت کیا۔ واجپائی اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ اب تک اس کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھتے پھرتے ہیں اور نرسیما رائو نے بھی مرتے دم تک ان سے یہ سہرا واپس لینے کی کوشش نہیں کی۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس واقعے کے بعد سے پاکستان نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں زیربحث لانے کی ہمت نہیںکی۔بعد میں ایران اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے، حتیٰ کہ افغانستان کے سلسلے میں دونوں نے متضاد موقف اختیار کیا۔ ایران نے بھارت کے ساتھ مل کر افغانستان کے’شمالی اتحاد‘ کو تقویت پہنچائی، جو پاکستانی مفادات کے بالکل خلاف تھا۔ پاکستان کو اس رویے سے زبردست صدمہ پہنچا، جسے اس نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔
شاید تاریخ پھر پلٹ رہی ہے۔ حالات و واقعات نے مسلم دنیا کی کمان ایران اور ترکی کی دہلیز تک پہنچا دی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ دو گھنٹے کی بات چیت میں جہاں دونوں لیڈروں نے عالمی اور علاقائی امور پر بتادلہ خیال کیا، ذرائع کے مطابق ایرانی صدر نے باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ’’قضیۂ کشمیر کو سلجھانے سے خطے کے مسائل کا بڑی حد تک ازالہ ہوسکتا ہے‘‘۔ خاص طور پر ایرانی وفد کے اصرار پر مشترکہ بیان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے نظریات سے نمٹنے سے متعلق پیراگراف میں یہ اضافہ کیا گیا ، کہ: ’’اس (دہشت گردی اور انتہا پسندی) کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے اس کی وجوہ اور ان عوامل کو بھی ختم کرنا ضروری ہے، جو اس کی تقویت اور وجہ کا باعث بنتے ہیں‘‘۔ ایرانی صدر نے پریس بیان میں: ’’علاقائی تنازعات کو سفارتی اور سیاسی کاوشوں سے حل کرنے پر زور دیا‘‘۔ ایرانی ذرائع کے مطابق ان کا اشارہ بھارت- پاکستان مذاکرات کی بحالی اور کشمیر کی طرف تھا۔
بھارت کے لیے اس وقت ایرانی بندر گاہ چاہ بہار کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔چند ہفتے قبل بھارتی بجٹ میں اس پر ۱۵۰کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ گو کہ پچھلے سال بھی اتنی ہی رقم مختص کی گئی تھی، مگر معاہدے اور ٹھیکوں کی تقسیم وغیرہ جیسے معاملات کو طے کرنے میں تاخیر کی وجہ سے صرف ۱۰لاکھ روپے ہی خرچ کیے جاسکے۔ نریندرا مودی نے چاہِ بہار سے زاہدان تک ۶ء۱ارب ڈالر لاگت کی ریلوے لائن بچھانے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ چاہِ بہار، بھارت کی طرف سے اپنے آپ کو ایک بین الاقوامی قوت کے طور پر منوانے کی کوشش کا بھی ہدف ہے۔ دوسرے قدم کے طور پر بھارت اس بندر گاہ کو ۷۲۰۰کلومیٹر طویل ’انٹرنیشنل نارتھ، ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور‘ کے ساتھ جوڑ کر آرمینیا، آذربائیجان، روس اور یورپ تک رسائی حاصل کرکے اس کو چین کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کے مقابلے میں کھڑا کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
بھارت دنیا کی تیزرفتار ترقی پذیر معیشت ہی سہی، مگر اس کے سامنے دنیا سے ربط سازی (connectivity) ہمیشہ ہی سردردی کا ایشو رہا ہے۔اس نے پڑوسی ممالک نیپال سے لے کر سری لنکا ، مالدیپ اور پاکستان تک کو ایک خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے، مگر بھوٹان جیسے چھوٹے سے ملک کی پارلیمنٹ نے حا ل ہی میںمودی کے پراجیکٹ بھوٹان، بنگلادیش، بھارت اور نیپال (بی بی آئی این) کوریڈور کو منظور کرنے سے منع کردیاہے۔
اس پس منظر میں ایران کے لیے یہ موقع ہے، کہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کو بروے کار لا کر نئی دہلی کو اپنے ۱۹۹۴ء کے وعدوں کی یاد دہانی کرائے۔ اگر یہ وعدہ ایفا ہوتا ہے تو اس خطے میں امن اور خوش حالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، جس میں بھارت، پاکستان، افغانستان اور ایران اسٹیک ہولڈرز ہوں گے۔