نومبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

قربانی: مسلمان بناتی ہے

خرم مراد | نومبر ۲۰۱۱ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

قربانی، اس لفظ کے کیا معنی ہیں؟

وسیع تر مفہوم میں ’قربانی‘ کا مطلب ہے اپنی قیمتی اور محبوب چیزوں سے دست بردار ہوجانا۔ یہ چیزیں وقت، دولت اور زندگی جیسی چیزیں بھی ہوسکتی ہیں جنھیں محسوس کیا جاسکتا ہے، جنھیں شمارکیا جاسکتاہے۔یااحساسات، رویّے،مسلک ومؤقف اور تمناؤں، جیسی اشیابھی ہو سکتی ہیں کہ جن کو محسوس کیا جاسکتا ہے نہ ناپا تولاجاسکتاہے۔ان چیزوں کی قربانی کسی ایسی چیز کے حصول کی خاطر دی جاتی ہے جو ان سے زیادہ قیمتی، زیادہ اہم یا زیادہ ضروری ہو۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بنیادی طورپر قربانی کا مطلب ہے خدا کے حضور کسی جانور یا انسان کاذبیحہ بطورِ نذر پیش کرنا ،اوریوںاپنی ملکیت میں سے کوئی چیز خدا کی نذرکرنا۔

لغتِ قرآنی میںبالکل ٹھیک ٹھیک ’قربانی‘ کا ہم معنی لفظ تلاش کرنا دُشوار ہے، جس کا ایسا ہی وسیع ادبی استعمال بھی ہو۔ معنی کے لحاظ سے قریب ترین لفظ غالباً نُسُک ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲) کہو،میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا ، سب کچھ اﷲ ربُّ العالمین کے لیے ہے۔

بہرکیف ’انفاق‘ بنیادی اہمیت کاحامل ایک ایسا داعیہ ہے جس پر قرآن میں باربار زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر کہا گیا ہے کہ : ’جورزق ہم نے اُن کو دیاہے‘ اُس میں سے خرچ کرناایمان کالازمی تقاضا ہے۔صلوٰۃ کے ساتھ ساتھ ’انفاق‘کو ایمان کی بنیاد پر بسر کی جانے والی زندگی کی صورت گری کرنے ، اس کی محافظت کرنے اور اس کو سہارا فراہم کرنے کے لیے کافی قراردیا گیا ہے۔اﷲ کے دیے ہوئے مال واسباب میں، جوانسان کو خرچ کرناہے،ہروہ چیز شامل ہے جو اُس کی ملکیت میں ہے، خواہ وہ مادّی شے ہو یا غیرمادّی۔ قرآن میں ایک مقام پرتقویٰ (بُرے کاموں سے پرہیز ) اورتصدیق (قبولیتِ حق) کے ساتھ ’انفاق‘کو وہ سب کچھ قراردیا ہے جو اچھی‘ نیک زندگی کی تشکیلی صفات کے لیے درکار ہے:

اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی o فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی o وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی o وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰیo (اللیل ۹۲ : ۴تا ۱۰) درحقیقت تُم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں۔تو جس نے (راہِ خدامیں) مال دیا اور تقویٰ اختیار کیا، اورحق کی تصدیق کی، اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اورجس نے بخل کیا اور اپنے آپ کو مستغنی (خودکفیل) سمجھااورحق کا انکار کیااُس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔

قربانی ایسا جوہر ہے جس سے عام انسانی زندگیاںبھی عمدہ اور کامیاب بن جاتی ہیں۔اس کے بغیر زندگی امن، ہم آہنگی اور امدادِ باہمی سے محروم رہے گی، تنازعات اور اختلافات سے پُر ہوگی، نفسانی خواہشات کی فی الفور تسکین، خودغرضی اورحرص وطمع کا شکار ہوگی۔ علاوہ ازیں کوئی خاندان یا برادری بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے نہ اُس میں یک جہتی اور استحکام پیدا ہوسکتا ہے جب تک اُس کے ارکان اپنی طرف سے کچھ قربانی نہ دیں۔ کوئی انسانی جدوجہد اپنا ہدف حاصل کرنے میں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنی قیمتی اور محبوب چیزوں کی قربانی نہ دے۔

جو کلیہ عام انسانی زندگی اورعام انسانی جدوجہد پر صادق آتا ہے، خواہ اُس جدوجہد کی اہمیت اور نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو،یقینا وہ کلیہ اسلامی زندگی پر زیادہ صادق آئے گا،کیوں کہ اسلام کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ محض تھوڑا سا مال ومتاع نہیں، بلکہ اپنی پوری زندگی اﷲ کے سپرد کردی جائے۔ہم اپنے موجودہ زمانے کی زبان میں بات کریں تو اسلامی زندگی اعلیٰ ترین قربانی کی زندگی ہے۔اسلامی زندگی ایسی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے جسے مسلسل اور متواتر جاری رہنا چاہیے تاکہ اسلام ظاہر وباطن میں حقیقتاً رچ بس جائے اور ایک زندہ حقیقت بن جائے۔

قربانی سے ایمان کی نشوونما ہے،اس کے بغیر ایمان کے ننھے منے بیج سے ایسے تناور اور سرسبز وشاداب درخت پروان نہیں چڑھیں گے جوبے شمار انسانی کاروانوںکو چھاؤں اور پھل فراہم کریں (ابراھیم ۱۴ : ۲۴-۲۵)۔ اِسے ایساباوفاہمدم و رفیق بن جانا چاہیے جس کے بغیر راہِ جہاد طے نہ کی جاسکے، کیوں کہ اس راستے میں صحراے ناپیدا کنار بھی پھیلے ہوئے ہیں اورمنزل تک پہنچنے کی راہ میں بلند و بالا پہاڑ بھی حائل ہیں (التوبہ ۹: ۲۴)۔قربانی اُن کنجیوں میں سے ایک کُنجی ہے جس کے بغیر بند دروازے کھل نہیں سکتے۔ (البقرہ ۲ : ۲۱۴)

خواہ روحانی و اخلاقی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے کیا جانے والا سفر ذاتی ہو یا زندگی اور معاشرے کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے (ایک خدا کے آگے سرتسلیم خم کردینے) کے لیے کیا جانے والا سماجی سفر، یہ کلیہ دونوں پر صادق آتا ہے۔ اوریہی کلیہ اُس صورت میں بھی صادق آتا ہے جب یہ دونوں راہیں انتہائی چاہت کے ساتھ ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔ منزل جتنی عظیم اور بلند ہوگی، راستہ اُتنا ہی کٹھن اور دشوار ہوگا۔

اب تک آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ قربانی کا موضوع کتنا وسیع ہے۔اسی موضوع سے مضبوطی کے ساتھ گُندھا ہوا اتنا ہی وسیع اور اتنا ہی اہم موضوع ’ابتلا وآزمایش ‘کا اور ’صبر‘ کا ہے۔ اس موضوع کو لامتناہی طورپر پھیلایا جاسکتاہے مگر میرامقصد اس کا مکمل احاطہ کرنانہیں ہے۔اس معروف موضوع کے بہت سے پہلوئوںسے آپ خوب اچھی طرح واقف ہیں۔چنانچہ میں اِس موضوع کے صرف ایسے پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا جومیری نظرمیں زیادہ توجہ کے مستحق ہیں یا ہمارے موجودہ حالات سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔

اسلام: جدوجھد کا راستہ

سب سے پہلے ہمیں مختصراً ایک اہم سوال پر نظر ڈالنی چاہیے۔آخر اسلام کا نظریۂ جدوجہد سے اِس قدر گہرا تعلق کیوں ہے؟دونوں میں کیا ربط ہے؟ کیا کوئی شخص اپنے آپ کوکسی ایسی جدوجہد میںمشغول کیے بغیر اچھا مسلمان نہیں بن سکتا جس کا لازمی تقاضا قربانی ہے؟ جواب ہے: ’’نہیں!‘‘ اوراس کے بین دلائل ہیں۔

اسلام پوری زندگی میں محض ایک بار کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں ہے۔ کلمہ طیبہ کائناتی وسعتیں رکھتاہے۔ پوری زندگی اور تمام دُنیا کو جڑ بنیاد سے از سرنو منظم کرنے کاتقاضا کرتاہے۔یہ کلمہ محض اپنے عقیدے کا زبانی اعلان نہیں ہے۔ ایسی شہادت دینے کا عمل ہے جو پوری زندگی کو عقیدے کی جیتی جاگتی اور مسلسل گواہی میںبدل کر رکھ دے۔آپ کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل تو ہوجاتے ہیں۔ مگر مسلمان بن کرجینے کے لیے آپ کو مستقلاً گواہی دیتے رہنا پڑے گا(البقرہ ۲ : ۱۴۳،  الحج ۲۲ : ۲۸) ۔مسلسل گواہی دیتے رہنے سے اپنی ذات کے اندر اور اپنی ذات سے باہر کے جھوٹے خداؤں سے آپ کی کبھی نہ ختم ہونے والی محاذآرائی شروع ہوجائے گی۔ اپنی گواہی کی توثیق و تصدیق کرنے کے لیے آپ کو اپنے آپ اور معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے جہدِمسلسل بھی کرتے رہنا ہوگا۔

لہٰذا مسلمان رہنے کے لیے مسلمان بننا ضروری ہے۔ایمان کا بیج دل میں بوئے جانے کے بعد، مسلمان بننا ایک دوہرا عمل ہے۔ ایک طرف اپنے آپ کواور دوسری طرف تمام انسانیت کو اﷲ وحدہٗ لاشریک کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دینا___ یہ دونوںکام باہم گتھے ہوئے ہیں اور دونوں کام بہ یک وقت کرنے ہیں۔

تمام انسانوں کو دعوت دینا کوئی ٹھنڈاٹھار زبانی بلاوا نہیں۔یہ ایک فعال اور متحرک سرگرمی ہے، ایک تحریک ہے جو تقاضاکرتی ہے کہ تمام میسر وسائل کی مدد سے ایک ایسے جہاد کا آغاز کیا جائے جومطلق العنانیت کے جھوٹے دعوے داروں کو تخت سے اُتار پھینکے، جابروں‘ ستم گروں اور بدعنوانوں سے اُن کی طاقت سلب کرلے اور انسانوں کے درمیان عدل قائم کردے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی مکی زندگی کی ابتداہی میں اعلان فرما دیا تھا کہ: تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیںکہ ایک شخص کو پکڑ کر لایاجاتا،اورایک گڑھا کھودکراُسے گڑھے میں ڈال دیاجاتا،پھر ایک آری لاکر اُس کے سرپر رکھی جاتی اور اُس کو چیر کر دوٹکڑے کردیاجاتا، لوہے کی کنگھیوں سے اُس کا گوشت ہڈیوں سے جدا کردیا جاتا، اس کے باوجود کوئی چیز اُسے اُس کے دین سے پھیر نہیں سکتی تھی۔خداکی قسم! میں اپنا مشن پورا کرکے چھوڑوں گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعا سے حضرموت تک سفرکرے گا اور اُسے خداکے سواکسی کا خوف نہیں ہوگا، اورکوئی اندیشہ اُس کے دل میں نہیں آئے گا سواے اِس کے کہ کہیں کوئی بھیڑیا اُس کے مویشیوں کو نقصان پہنچادے۔ (بخاری)

پس اسلام کاراستہ جدوجہد کے راستے کے سوا کوئی اورراستہ نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہ قربانی کی راہ ہے۔کوئی کہہ سکتاہے کہ کیا اسلام عطیۂ الٰہی نہیں ہے؟ یقینا ہے۔ اﷲ کی مدد اور اُس کی دست گیری کے بغیر ہم صراطِ مستقیم کی طرف، جو اسلام کا راستہ ہے، ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتے۔ اس کے باوجود ہم صرف اپنے اخلاصِ نیت اور اپنی مخلصانہ جدوجہد ہی کے ذریعے سے اس انتہائی قیمتی عطیے کو حاصل کرنے، اسے قائم و دائم رکھنے، اس کے زیرسایہ نشوونما پانے اوراس سے ملنے والے تمام فوائد سمیٹنے کے حق دار بن سکتے ہیں۔اﷲ کا یہ انعام، کوئی شک نہیں کہ، اُس کی بے پایاں رحمتوں اور اُس کے کرم ہی سے ملتاہے، مگر غیر مشروط نہیں ، کہ کوئی مانگے یا نہ مانگے، کوشش کرے یا نہ کرے اُسے   مل جائے۔ اس طرح تو یہ ایک سستی سی بے قیمت چیز بن جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں   اﷲ تعالیٰ کا ارشادہے:

اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ (الشورٰی ۴۲ : ۱۳)    وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتاہے جواُس کی طرف رجوع کرے۔

رجوع الی اﷲ کے لیے نیت اور کوشش دونوںلازم ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک خدا کے سوا تمام جھوٹے خداؤں سے مُنھ موڑ لیا جائے۔یہ عمل مکمل طورپراپنا رُخ پھیر لینے کا عمل ہے، اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔اِس راہ پرمزید پیش قدمی کا انحصار جدوجہد پر ہے:

وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۲۹ : ۶۸) جولوگ ہماری خاطر سخت جدوجہد کریں گے اُنھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔

جدوجھد:ایک ناگزیر کلید

تو یہ ہے اﷲ کی سنت۔ صرف اسلام ہی کے معاملے میں نہیں بلکہ ہماری زندگی کی اُن تمام انمول نعمتوں کے معاملے میں بھی، جن سے ہمیں نوازا گیا ہے۔ذرا ان میں سے چند پر نظر ڈالیے: یہ آنکھیں جن سے ہم دیکھتے ہیں، یہ کان جن سے ہم سنتے ہیں، یہ ہاتھ پاؤں جن کی مدد سے    ہم اپنے کام کاج کرتے ہیں، یہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں، یہ پانی جس سے ہم اپنی پیاس بجھاتے ہیں، جس کے بغیر زندگی اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکتی___ ان تمام چیزوں کو ہم نے نہیں  پیدا کیا، نہ ہم چاہیں توپیدا کرسکتے ہیں۔ یہ سب چیزیں ہمیں بے مانگے مل جاتی ہیں،ہمارا ان پر  کوئی موروثی دعویٰ نہیں،نہ یہ ہماری ناقابلِ انتقال ملکیت میں ہیں۔ یہ سب کی سب نعمتیں ہمیں اﷲ کے فضل وکرم سے نصیب ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود انھیں اپنے استعمال میں رکھنے اور ان سے ملنے والے تمام فوائد حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی بہترین کوششیں بروے کار لانی پڑتی ہیں۔

زندگی کی بہت سی چیزیںہمیںکوشش اور جدوجہد کے بغیر نہیں مل پاتیں۔ہمیں صرف وہی نصیب ہوتا ہے جس کے لیے ہم جد وجہد اور کوشش کریں:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ o (البلد ۹۰ : ۴) ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیاہے۔

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o (النجم ۵۳ : ۳۹) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی۔

زمین موجودہے، پانی فراہم ہے، بیج میسر ہے، مگر مٹی بیج کو اناج میں اُس وقت تک تبدیل نہیں کرے گی جب تک ہم اس کی کھدائی نہ کریں، ہل نہ چلائیں،بیج نہ بوئیں، پودوںپر آب پاشی نہ کریں، اُن کی حفاظت نہ کریں اور فصل کاشت نہ کریں۔اﷲ کی بے شمار نعمتیں، جن کی ہمارے گرداگرد ریل پیل ہے، اپنے خزانوں کے منہ ہم پر اُس وقت تک نہیں کھولیں گی جب تک ہم محنت نہ کریں اور اپنا پسینہ نہ بہائیں۔حقیقت یہ ہے کہ جس قدر قیمتی خزانے کے حصول کی خواہش ہو  اُسی قدر زیادہ محنت اورکوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسلام اور قربانی

ایسا نہیں ہے کہ اسلام اﷲ کی بہت سی نعمتوں میں سے محض ایک نعمت ہو۔یہ اﷲ کی منتخب ترین نعمت ہے (المائدہ ۵ : ۳)۔ اس دُنیا میں اپنی زندگی گزارنے کے لیے اﷲ نے ہمیں جن    بے شمارانعامات و اکرامات سے نوازاہے، ان میں سے عظیم ترین اور اہم ترین انعام یہ ہے کہ   اُس نے ہمیں زندگی کے حقیقی معنی و مقصدسے آگاہ کردیا ہے۔ یہ معنی اور مقصد یہ ہے کہ ہم اُسی کی خاطر جیئں، اُسی کی رضا کے حصول کی کوشش کریں، یہاں تک کہ اُسی کی راہ میں موت آجائے۔ جانوروں کی سی زندگی گزارنے کے بجاے کہ پیداہوں، کھائیں پیٔیں، تولید و تناسُل کریں اور مرجائیں، ہم کو بامقصد زندگی گزارنی ہے۔یوں زندگی ایک عارضی اور ناپایدار چیزاور موت کے ساتھ ہی ختم ہو جانے والے تاریخ کے ایک تیز قدم لمحے کی حیثیت سے بلند ہوکرایک ابدی شے  بن جاتی ہے۔ہمارا مقصدِ وجود یہ نہیں ہے کہ جو نعمتیں اور جو عہدے اور مراتب اس دُنیا میںبکھرے ہوئے ہیں، ہم محض اُنھی کوسمیٹنے کی تمنا اور اُنھی کے حصول میںجتے رہیں۔اس کے بجاے ہمارے سامنے یہ رستہ کھلا ہوا ہے کہ ہم اس دُنیا کے مال ومتاع کو اگلی دُنیا کے کبھی نہ ختم ہونے والے فوائد میں بدل لیں، کبھی یہ مال ومتاع حاصل کرکے اور شکرگزاری کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوکر اور کبھی اس مال ومتاع سے دست بردار ہوکر۔

اگر اس دُنیا کی عام اشیا بغیر محنت کے حاصل نہیں ہوسکتیں تو زندگی میں مقصدیت اور معنویت پیدا کرنے کے لیے، جو اسلام ہے، یقینا انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔اس جدوجہد اور قربانی کی نوعیت اوردرجہ لازماً اُس نصب العین کی قدروقیمت اورمعیار کے مساوی ہونا چاہیے، جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اور کون سا نصب العین ہماری زندگی میں زیادہ قابلِ قدر، زیادہ ناگزیر، زیادہ اہم اور زیادہ ضروری ہوسکتا ہے، بجز اس کے کہ پورے انسان کو، اُس کی اندرونی شخصیت کو، اُس کے ماحول کو، اُس کے معاشرے کو ، غرض پوری دُنیا کو اﷲ کی طرف بلایا جائے۔ سخت محنت کے بغیر،محض تمنا، آرزو، تقریر، دعووں اور بیانات سے ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم اُس منزل پر جاپہنچیں گے جو ہم نے اپنے لیے متعین کی ہے۔اگرکوئی شخص اپنی روزکی روٹی محنت کیے بغیر نہیں کماسکتا تو کیا  اﷲ اپنی عظیم ترین نعمت، اِس دُنیا کی کامیابی اور اُس دُنیا کی کامیابی ہمیں یوں ہی عطافرمادے گا؟ جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ ہم جس عقیدے کا اعلان کرتے ہیں اُس کی جڑیں ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں پیوست ہیں، ہم اپنے دعویٔ وفا میں سچے ہیں اور ہم سے جوقربانی طلب کی جائے گی ہم پیش کردیں گے۔

قرآن کافرمان ہے:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳ : ۱۴۲)کیا تُم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں چلے جاؤ گے حالاں کہ ابھی اﷲ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تُم میں کون وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اُس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ ط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَ الضَّرَّآئُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ o (البقرہ ۲: ۲۱۴) پھر کیا تُم لوگوںنے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالاں کہ ابھی تُم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تُم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکاہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ  وقت کا رسول اور اُس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اُٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئے گی؟ (اُس وقت اُنھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اﷲ کی مدد قریب ہے۔

وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ o (العنکبوت ۲۹ : ۳-۴) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اوراُن کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کر چکے ہیںجو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اﷲ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہماری کوششیں اور ہماری قربانیاں کسی بھی لحاظ سے اﷲ کی اُن نعمتوں کے ہم پلہ ہیں جو اﷲ نے ہمیں دی ہیں۔ ہرچند کہ ہم اپنی ذاتی محنت سے زمین سے غذا حاصل کرتے ہیں،پھر بھی یہ نعمت اس قدر انمول ہے کہ کسان جو محنت کرتا ہے وہ اُن لامحدود فوائدکے مساوی نہیں قراردی جا سکتی جو ہمیں حاصل ہوتے ہیں۔اسی طرح اﷲ کے راستے میں جدوجہد کرتے ہوئے ہم سے جو قربانیاں طلب کی جاتی ہیں وہ اُن فوائد کی ہم وزن نہیں ہوسکتیںجو ہم ذاتی طورپر حاصل کرتے ہیںیا جو اُمتِ مسلمہ اجتماعی طورپر حاصل کرتی ہے اورجو   بنی نوعِ انسان کو مجموعی طورپر ملتے ہیں۔اس کے باوجود ہمیں اپنی انسانی بساط کے مطابق یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے نصب العین پر پختہ ایمان رکھتے ہیں بلکہ جس چیز کوہم اپنی محبوب ترین شے قراردینے کے دعوے دار ہیں اُس کے لیے جدوجہد کرنے اور اپنی پسندیدہ چیزوں کی قربانیاں دینے کو بھی تیارہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تقریباً تواتر کے ساتھ ایمان کاذکر عملِ صالح، ہجرت اور جہاد کے ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَo (الحجرات ۴۹ : ۱۵) حقیقت میںتو مومن وہ ہیں جو اﷲ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر اُنھوں نے کوئی شک نہ کیا اوراپنی جانوں اور مالوں سے اﷲ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی لوگ سچے ہیں۔

جیسا کہ پہلے بھی مختصراً ذکر کیا جاچکا ہے کہ جدوجہد دوسطحوں پر ہوتی ہے۔ذاتی سطح پر ایمان کا تقاضایہ ہے کہ فرداپنے آپ کو اﷲ کا مطیع وفرماں بردار بنالے اور اس طرح دُنیا کی ہر چیز سے زیادہ اﷲ کو محبوب رکھے:’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۶۵)۔ بہ الفاظ دیگر ایمان یہ کہتاہے کہ دُنیا کی کوئی چیز اتنی قیمتی اور اتنی قابلِ قدر نہیں کہ اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے قربان نہ کی جاسکے۔

اجتماعی سطح پر کی جانے والی جدوجہد اور اس کے نتیجے میں دی جانے والی قربانیاں پوری دُنیا کوایک اﷲ کا مطیع وفرماں بردار بننے کی دعوت دینے کے لیے ہوتی ہیں۔قرآن اکثر اس جدوجہد کو جہاد سے تعبیرکرتاہے۔ایمان کا تقاضاہے کہ تمام جھوٹے خداؤںکو معزول کردیا جائے اورظلم وجبر، بگاڑ اوربدی کی تمام طاقتوں کے سامنے ڈٹ جایا جائے۔جہاد، اﷲ سے بغاوت کرنے والی تمام طاقتوںپر غلبہ پانے کے لیے کیا جاتاہے۔اس کے لیے اپنے نفس پر غلبہ پانے سے بہت مختلف نوعیت اورمختلف درجے کی قربانیاں درکار ہوتی ہیں۔ (جاری)