بیسویں صدی میں جن شخصیات نے اسلامی فکرو تہذیب پر ٹھوس علمی لٹریچر پیش کیا، جنھوں نے فکرِاسلامی کی تشکیلِ نو کے احساس اور جذباتی رجحان کو تبدیل کرنے میں اہم کردار اداکیا، ان میں ایک نمایاں ترین شخصیت علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) کی ہے۔ اس بنا پر ہم ان کو دورِ جدید میں تجدیدِ فکر اسلامی کی روایت کا بانی اور بیسویں صدی میں ملّت اسلامیہ پاک و ہند کے ذہن کا اوّلین معمار قرار دیتے ہیں۔
علامہ محمد اقبال کی علمی اور ادبی زندگی کا آغاز انیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہوگیا تھا، فروری ۱۹۰۰ء سے وہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں میں شریک ہونے لگے تھے۔ لیکن قومی زندگی پر ان کے اثرات یورپ سے واپسی (۱۹۰۸ء) کے بعد مرتب ہونا شروع ہوئے۔ ۱۹۱۵ء میں انھوں نے اسرارِخودی شائع کی، جس نے مسلم تصوف سے منسوب جامد سوچ میں ایک تحرک پیدا کیا، اور افرادِ اُمت کو ’اپنی دنیا آپ پیدا کر…‘‘ کا زریں نکتہ سمجھایا۔ اس سے ہماری ملّی زندگی کے نئے باب کا افتتاح ہوا۔ پھر انھوں نے ۲۰جولائی ۱۹۲۶ء کو مجلس قانون ساز پنجاب کے انتخاب میں حصہ لے کر اور اس طرح عملی سیاست میں شریک ہوکر تغیر اور تعمیر کے عمل میں مؤثر کردار ادا کیا۔ ان کی مساعی کا ثمرہ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو، ملّت کی مزاجی کیفیت کی نئی تعمیر، ایک آزاد قوم کے احیا اور ایک عظیم مسلم مملکت کے قیام کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔۱؎
ساتویں صدی ہجری (تیرہویں صدی عیسوی) میں جو کام مولانا جلال الدین رومیؒ (۱۲۰۷ء-۱۲۷۳ء) نے مثنوی کے ذریعے انجام دیا تھا، اسے بیسویں صدی عیسوی میں علامہ محمد اقبالؒ نے اوّلاً اسرارِخودی (۱۹۱۵ء) اور رموزِ بے خودی (۱۹۱۸ء) اور پھر جاویدنامہ (۱۹۳۲ء) اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق (۱۹۳۶ء) کے ذریعے انجام دیا۔ اسرارِخودی میں جمود اور انحطاط کے اصل اسباب کی نشان دہی کی گئی، تصوف پر یونانی اور عجمی اثرات کی وجہ سے جو حیات کُش تصور مسلمانوں پر مسلط ہوگیا تھا، اس کی تباہ کاریوں کو واضح کیا۔ اسرارِ خودی کا مرکزی تصور: ایمان کی یافت اور اس کی قوت سے ایک نئے انسان (مرد مومن) کی تشکیل ہے۔ رموز بے خودی میں اس اجتماعی، اداراتی اور تاریخی تناظر کو بیان کیا گیا ہے، جس میں یہ انسان اپنا تعمیری کردار ادا کرتا ہے۔ فرد اور ملّت کا تعلق، اجتماعی نصب العین، خلافتِ الٰہی کی تشریح و توضیح، اجتماعی نظم اور ادارات (خاندان، قانون، شریعت وغیرہ) کی نوعیت اور خودی کی پرورش اور ملّی شخصیت کے نمو میں تاریخ کے حصے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
جاوید نامہ علامہ محمد اقبال کے روحانی سفر کی داستان ہے، جس میں وہ عالمِ افلاک کی سیر کرتے ہیں، دنیا اور اس کے ماورا پر بصیرت کی نظر ڈالتے ہیں اور مشرق و مغرب کی نمایندہ شخصیات کی زبان سے آج کی دنیا کے حالات، مسائل و افکار اور مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے نقوش کو نمایاں کرتے ہیں۔ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق میں مغربی تہذیب کے چیلنج کا مطالعہ کرکے بتایا گیا ہے کہ یورپ کی ترقی کا اصل سبب کیا ہے اور مغربی تہذیب کے روشن اور تاریک پہلو کیا ہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید سے قوم کو متنبہ کیا گیا ہے، اور ترقی کے راستے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پیامِ مشرق اور ارمغانِ حجاز میں یہی پیغام دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے، اور اس کا اظہار اُردو کلام میں بھی ہوا ہے۔ خصوصیت سے بانگِ درا کی قومی نظموں میں اور بال جبریل کی ولولہ انگیز غزلوں میں۔ ضربِ کلیم کے بے باک رجز کو خود اقبال نے: ’دورِحاضر کے خلاف اعلانِ جنگ ‘ قرار دیا ہے۔
علامہ محمد اقبال کی نثر کا بہترین حصہ انگریزی میں ہے۔ ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ انھوں نے The Development of Metaphysics in Persiaکے نام سے پیش کیا ہے۔ یہ محض ایک فکری تاریخ نہیں ہے، بلکہ اس کے آئینے میں اسلام پر عجمی اثرات کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اقبال نے تصوف کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے، وہ اصل مآخذ کے وسیع مطالعے پر مبنی ہے۔
علامہ محمد اقبال نے اسلام کے تصورِ مذہب کی علمی اور فلسفیانہ تعبیر اپنے معروف انگریزی خطبات The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam(تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ) میں پیش کی ہے۔ اس کتاب میں بنیادی طور پر مغرب کے فکری رجحانات کو سامنے رکھ کر انسان، کائنات اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں اسلامی تصور کی وضاحت کی گئی ہے، مذہب اور سائنس کے تعلق سے بحث کی گئی ہے اور ذرائع علم کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا گیا ہے کہ عصرِحاضر کے یک رُخے پن کے مقابلے میں اسلام کس طرح عقل، تجربے اور وجدان کی ہم آہنگی قائم کرتا ہے۔ اس بنیادی فکر کی روشنی میں آزادی اور عبادت کے تصور کو واضح کیا گیا ہے، اور ان تصورات کی بنیاد پر قائم ہونے والے تمدن کی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نیز اسلامی قانون کی مثال دے کر یہ دکھایا گیا ہے کہ اسلامی تمدن میں ثبات اور تغیر کا حسین امتزاج کس طرح قائم ہوتا ہے اور اس کے اندر ہی سے زندگی اور حرکت کے چشمے کس طرح پھوٹتے ہیں۔
مذکورہ بالا انگریزی کتابوں کے علاوہ، وقت کے علمی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل کے بارے میں محمد اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار متعدد مضامین، تقاریر، بیانات اور خطوط کے ذریعے بھی کیا ہے۔ یہ سارا نثری ذخیرہ اُردو اور انگریزی مجموعوں کی صورت میں شائع ہوچکا ہے۔۲؎
اگرچہ محمد اقبال کی مخاطب پوری ملت اسلامیہ بلکہ پوری انسانیت ہے، لیکن انھوں نے خصوصیت سے مسلم قوم کے ذہین اور بااثر تعلیم یافتہ طبقے کو خطاب کیا۔ یہ مؤثر اور کارفرما طبقہ، ذہنی اور لسانی روایات سے وابستہ تھا۔ محمد اقبال نے اپنے افکار کے اظہار کے لیے بنیادی طور پر شعر کا پیرایہ اختیار کیا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک شکست خوردہ قوم کو حرکت اور جدوجہد پر اُبھارنے کے لیے عقلی اپیل کے ساتھ ساتھ جذباتی اپیل کی ضرورت تھی۔ وقت کے چیلنج کا تقاضا محض عقل کو مطمئن کرنا نہیں تھا، بلکہ اہمیت اس امر کو بھی حاصل تھی کہ جذبات میں تموج برپا کرکے اس جمود کو توڑا جائے، جس میں یہ ملّت گرفتار تھی۔ نیز ایک مدت سے برعظیم پاک و ہند کی ملّت اسلامیہ دولخت شخصیت (split personality) کے مرض میں مبتلا تھی، یعنی اس کے عقیدے اور عقل میں یکسانی اور مطابقت باقی نہ رہی تھی۔۳؎
دوسرے لفظوں میں عقیدہ تو موجود تھا، مگر اس میں وہ حرارت نہ تھی جو جذبے کی خنکی یا سردمہری کو دُور کرسکے اور بے عملی اور مایوسی کی برف کو پگھلا دے۔ عقیدے کا چراغ اگر ٹمٹما رہا تھا تو عشق کی روشنی بھی باقی نہ رہی تھی۔ اس کیفیت نے ’روحانی فالج‘ کی صورت اختیار کرلی تھی، جس سے دین داری کی حِس مجروح ہورہی تھی ؎
بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
اس کیفیت میں دیرپا تبدیلی اور دُور رس انقلاب کے لیے صرف عقل کی روشنی کافی نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے جذبے کی تپش بھی درکار تھی (یہی، اقبال کے پیش کردہ تصورِ عشق کا پس منظر ہے)۔ علامہ محمداقبال نے جذبے کو مہمیز لگا کر انقلاب پیدا کرنے کے لیے شعر کا جادو جگایا (دوسری جانب اسی زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اس کام کو انجام دینے کے لیے خطابت کا طوفانی راستہ اختیار کیا تھا)۔
مسلم فکر کے زندہ موضوعات، لوازمے اور مباحث میں اقبال کا جو منفرد حصہ ہے، ذیل میں اس کے چند اہم پہلوئوں کی طرف مختصراً اشارہ کیا جاتا ہے:
ہر چیز ایک مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ وجود کا اساسی پہلو بھی احساسِ سمت، مقصدیت، حرکت اور مطلوب کی طرف سعیِمراجعت ہے۔ کائنات، انسان اور تاریخ، ہر ایک میں یہی حرکی اصول کارفرما ہے۔ جسم اگر خلقت کا مظہر ہے، تو روح امن کی آئینہ دار ہے۔ خودی اور اس کی تعمیر اس حرکی اصول کا لازمی تقاضا ہے۔ ترقی اور بلندی کی راہ نفیِ ذات نہیں، اثباتِ خودی ہے، جو خود ایک ارتقائی (evolutionary) اور حرکی عمل ہے۔ روح کی معراج، ذاتِ باری تعالیٰ میں فنا ہوجانا نہیں، بلکہ خالقِ حقیقی سے صحیح تعلق استوار کرنا ہے۔ ایمان اس کا نقطۂ آغاز ہے، عمل اس کا میدانِ کار ہے، اور عشق اس کی ترقی کا راستہ۔
یہی اصولِ حرکت تاریخ میں بھی کارفرما ہے۔ تاریخی اِحیا محض ماضی کے صحت مند رجحانات کے بقا و استحکام کا نام نہیں ہے، بلکہ ابدی اقدار اور تمدّنی نصب العین کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے میدانوں میں تخلیقی اظہار اور تعمیر اور تشکیلِ نو سے عبارت ہے۔ انسان ہی اس ارتقائی عمل کا اصل کارندہ ہے۔ اگرچہ کائنات کی ہر شے اس کی مدد کے لیے فراہم کی گئی ہے، لیکن انسانی زندگی کے کچھ اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے لیے ہے، اور یہ مقصد ہے منصبِ نیابتِ الٰہی۔۷؎
اسلام وہ طریق زندگی ہے، جو انسان کو اس کام کے لائق بناتا ہے اور تاریخ میں اس حرکت کو صحیح سمت دیتا ہے۔ مردِ مومن اور ملتِ اسلامیہ، کائنات کی اصلی معمار قوتیں ہیں۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری صحیح طور پر انجام نہ دیں تو بگاڑ رونما ہوگا، خود ان کے درمیان بھی اور کائنات میں بھی۔
علامہ محمد اقبال نے ایک طرف دینی فکر کی تشکیلِ نو کی اور اسلامی قومیت کے تصور کو نکھارا، دوسری طرف ملّی غیرت اور جذبۂ عمل کو بیدار کیا۔ مغربی افکار کے طلسم کو توڑا اور قوم کو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اسلام کی راہ پر گامزن کرنے میں رہنمائی دی۔ یہی اقبال کا اصل کارنامہ ہے اور اسی بنا پر وہ بیسویں صدی کی اسلامی فکر کے امام اور اس میں تجدید کی روایت کے بانی اور رہبر ہیں۔
۱- یہاں علامہ اقبال کی فکربلند کا تجزیہ پیش نظر نہیں۔ تاہم اختصار کے ساتھ اس امر کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے کہ فکرِاقبال نے ادبی اور فکری روایت پر کس کس پہلو سے اثر ڈالا۔(دیکھیے: جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال: زندہ رود۔ سید علی گیلانی: اقبال، روح دین کا شناسا۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی:عروجِ اقبال، پروفیسر محمد منور: میزانِ اقبال، ایقانِ اقبال۔پروفیسر رفیع الدین ہاشمی: علامہ اقبال، شخصیت، فکراور فن۔ ڈاکٹر خالد علوی: اقبال اور احیاے دین۔ حیران خٹک: اقبال اور دعوتِ دین)
۲- تفصیل کے لیے دیکھیے: رفیع الدین ہاشمی: تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ۔
۴- The Reconstruction، باب ششم
۵- علامہ اقبال مکتوب بنام محمد اسلم جیراج پوری (۱۷؍مئی ۱۹۱۹ء) میں لکھتے ہیں: ’’تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے (اور یہی مفہوم قرونِ اولیٰ میں اس سے لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ہاں، جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظامِ عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کرکے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے، تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے‘‘۔ (اقبال نامہ [یک جا] مرتبہ: شیخ عطا محمد، اقبال اکادمی پاکستان، طبع نو و تصحیح شدہ،ص ۱۰۰)۔ سید سلیمان ندوی کے نام (۱۹۱۷ء) لکھتے ہیں: ’’تصوف کا وجود ہی سرزمینِ اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے، جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے‘‘ (ایضاً)۔ بنام اکبر الٰہ آبادی: (۲۵؍اکتوبر ۱۹۱۵ء): ’’صوفیا کی دکانیں ہیں ، مگر وہاں سیرتِ اسلام کی متاع نہیں بکتی‘‘۔ (اقبال نامہ[یک جا]، ص۳۸۱-۳۸۲) بنام اکبرالٰہ آبادی (۱۱؍جون ۱۹۱۸ء): ’’عجمی تصوف سے لٹریچر میں دل فریبی اور حسن و چمک پیدا ہوتا ہے۔ مگر ایسا کہ طبائع کو پست کرنے والا ہے‘‘ (ایضاً، ص ۳۸۷)۔ lپروفیسر حمیداحمد خاں: اقبال کی شخصیت اور شاعری
۶- اشارہ ہے قرآنی آیت اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ (اعراف۷:۵۴) کی طرف۔
۷- ڈاکٹر محمد اقبال : The Reconstruction، باب اوّل، دوم، سوم۔
۸- The Reconstruction، باب دوم و ہفتم۔
۹- اسرارِ خودی اور رموز بے خودی۔
۱۰- ڈاکٹر محمداقبال: خطبۂ صدارت ۱۹۳۰ء۔
۱۱- پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق