ایک موڑ آتا ہے جہاں آدمی کے دل میں بار بار یہ خیال چٹکیاں لیتا ہے کہ اس کام کے لیے بہرحال تزکیۂ نفس ضروری ہے، اور تزکیۂ نفس کے وہ طریقے جو مکے اور مدینے میں اختیار کیے گئے تھے کچھ واضح اور منضبط نہیں ہیں، اور بعد کے اَدوار میں جن بزرگوں نے اِن طریقوں کو منضبط کیا وہ صوفیاے کرام ہیں، اور ظاہر ہے کہ وہ سب بزرگانِ دین ہی ہیں، لہٰذا اس کام کے لیے جو تزکیہ مطلوب ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے تصوف کے معروف طریقوں میں سے کسی کو اختیار کرنا ناگزیر ہے.....
پھر قطع نظر اس سے کہ صدر اوّل کا طریقۂ تزکیۂ نفس منضبط ہے یا نہیں، ہمیں قرآن اور سیرتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں اُس کے جو اُصول اور عملی جزئیات ملتے ہیں ان کا مقابلہ بعد کے صوفیا کے طریقوں سے کرکے آپ خوددیکھیں۔ کیا ان دونوں میں نمایاں فرق نہیں پایا جاتا؟ اس بحث میں نہ پڑیے کہ صوفیانہ طریقوں میں جو مختلف چیزیں پائی جاتی ہیں وہ مباحات کے قبیل سے ہیں یا محظورات [مروجہ طریقے] کے قبیل سے۔ بحث صرف یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اخلاقی و روحانی علاج کے لیے جو نسخہ تجویز کیا گیاتھا، آیا صوفیہ نے اُسی نسخے کو جوں کا توں استعمال کیا، یا اس نسخے کے بعض اجزا کو کم، بعض اجزا کو زیادہ، اور بعض نئے اجزا کا اس میں اضافہ کردیا؟ پہلی صورت کا تو شاید آج تصوف کا کوئی بڑے سے بڑا وکیل بھی دعویٰ نہیں کرسکتا۔ لامحالہ دوسری صورت ہی ماننا پڑے گی اور وہی واقعتا موجود بھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اجزا کی مقداروں میں کمی بیشی اور نئے اجزا کے اضافہ سے نسخے کا مزاج بدلا ہے یا نہیں؟ اگر بدل گیا ہے تو یہ اُسی مقصد کے لیے کیسے مفید ہوسکتا ہے جس کے لیے حکیم ِ مطلق اور اس کے بلاواسطہ شاگرد نے اپنا نسخہ مرتب کیا تھا؟ اور اگر کوئی کہتا ہے کہ ان مختلف ترمیمات اور اضافوں کے باوجود نسخے کا مزاج نہیں بدلا ہے تو میں عرض کروں گا کہ تاریخِ حکمت میں یہ بالکل ہی ایک نرالا واقعہ ہے (بلکہ شاید خرقِ عادت ہے) کہ اجزاے نسخہ میں مقادیر [مقدار]کی کمی و بیشی اور مختلف نئے اضافوں کے باوجود نسخے کا مزاج جوں کا توں رہ گیا۔
میں توقع رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص تحقیق میں بے جا عقیدتوں اور موروثی تعصبات کو دخل نہ دے گا اور ٹھنڈے دل سے بے لاگ تحقیق کرے گا تو اسے اس معاملے میں پورا اطمینان ہوجائے گا کہ اقامت ِ دین کے لیے ہمیں اُسی طریق تزکیہ پر اعتماد کرنا ہوگا جو قرآن اور سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتاہے۔ وہ اگر منضبط نہیں ہے تو اب اسے منضبط کرنا چاہیے۔(’اشارات‘ ، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۳۷، عدد ۲، صفر ۱۳۷۱ھ، نومبر ۱۹۵۱ء،ص ۶-۷)