بیسویں صدی میں مسلم نشاتِ ثانیہ میں علامہ اقبال نے اہم کردار اداکیا۔ ان کے بعد دوسرا بڑا نام مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا ہے جنھوں نے مسلم اُمّہ کے درد کو اپنے دل میں محسوس کیا اور ہمہ وقت اس کی چارہ گری اور مسیحائی میں مصروف رہے۔
جناب فضل الرحمن، نعیم صدیقی (۱۹۱۶ء-۲۰۰۲ء) مولانا مودودی کے دیرینہ اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ ایک پختہ گو شاعر، ادیب، مفکر اور صحافی تھے۔ ان کی قلمی کاوشیں زیادہ تر جماعت اسلامی کی فکر سے وابستہ رسائل و جرائد (ایشیا، چراغ راہ، تسنیم، کوثر اور ترجمان القرآن وغیرہ) میں شائع ہوتی رہیں۔ خود انھوں نے سیارہ کے نام سے ایک وقیع علمی و ادبی جریدہ جاری کیا جو آج بھی حفیظ الرحمن احسن کی زیر ادارت شائع ہو رہا ہے۔ زیرنظر کتاب جناب نعیم صدیقی کی علمی و ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کا ایک تحقیقی مقالہ ہے۔
مصنف نے نعیم صدیقی کے سوانح اور خاندانی پس منظر کی تلاش و تحقیق میں خاصی عرق ریزی سے کام لیاہے۔ نعیم صاحب ہمہ جہت ادیب تھے۔ وہ بہ یک وقت شاعر، افسانہ نویس، مؤرخ، سیرت و سوانح نگار اور طنزنگار تھے۔ مصنف نے ان سب حوالوں سے الگ الگ باب یا ان کی فصول قائم کی ہیں۔ بحث و تمحیص، حوالوں اور معاصرین کے ساتھ موازنے و مقابلے کے بعد نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ دورِ جدید کے نہایت اہم شاعر، نثرنگار اور سوانح نگار تھے۔ ان کے ہاں شعرونثر محض لفاظی اور ’ادب براے ادب‘ نہیں بلکہ ان کے خیال میں اصلاحِ معاشرہ اور فلاحِ انسانیت زیادہ اہم چیزیں ہیں۔ ان کا شعری و نثری سرمایہ ایک خاص مقصدِحیات اور ایک متعین نصب العین کا عکاس ہے۔ انھوں نے ادب کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ ایک باب بطور دینی اسکالر بھی قائم کیا گیاہے جس میں قرآن و حدیث اور فقہ پر ان کی مہارت کے ساتھ ساتھ ان کی تاریخ دانی، تعلیمی نظریات اور معاشرتی افکار کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ مقالے کے آخر میں مصنف نے نعیم صدیقی صاحب کی علمی و ادبی اور تحریکی و صحافتی سرگرمیوں کا مجموعی جائزہ پیش کیا ہے۔ ضمیمہ جات کے تحت ان کے مضامین و مقالات کی فہرست، عکسِ تحریر اور شجرۂ نسب (حضرت ابوبکر صدیقؓ ) تک دیا گیا ہے۔ کتاب اپنی پیش کش، زبان و بیان کی سلاست، تحقیق و جستجو اور تنقید و تبصرے کے حوالے سے مصنف کی محنت، لگن اور شوق کی غماز ہے۔
اس سے پہلے نسبتاً ایک مختصر کتاب نعیم صدیقی: حیات و خدمات ادارہ معارف اسلامی لاہور سے ۲۰۰۹ء میںشائع ہوئی تھی جو زیادہ تر تاثراتی مضامین پر مشتمل ہے۔ کتاب ہذا نعیم صدیقی کی حیات اور ان کے افکار کا مربوط، مرتب اور تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کرتی ہے، اس طرح یہ ان پر اوّلین مستند اور باحوالہ کتاب ہے۔ (قاسم محمود احمد)
جماعتِ اسلامی نے اپنے قیام (۱۹۴۱ء) ہی سے اُمت مسلمہ کو درپیش فکری چیلنج کا بھرپور جواب دیتے ہوئے مغربی تہذیب کے غلبے کے سحر کوتوڑا۔ مزیدبرآں اپنے افکار، لٹریچر، تنظیم اور کردار سے ہرطبقے کے لوگوں کو متاثر کیا اور بہت سوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ زیرتبصرہ کتاب ایسے ہی ۵۹ نفوسِ قدسیہ کے دل چسپ اور ایمان افروز احساسات و جذبات کا گراں قدر مجموعہ ہے۔ قوتِ عمل کو مہمیز دینے والے یہ تاثراتی مضامین اور مکالمات (انٹرویو) کی صورت میں ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ ہیں جو سیّد مودودی کی شخصیت، کردار، ایثاروقربانی، طرزِ استدلال، انداز افہام و تفہیم اور دل سوزی سے متاثر ہوئے، اور وہ بھی ہیں جو جماعت کی تنظیم، طریق کار سے متاثر ہوئے اور اس قافلۂ عزیمت کے ہمرکاب ہوئے، اور وفاداری بشرط استواری اصل ایمان کا مصداق بن گئے۔
مولانا گوہر رحمان جماعت اسلامی میں آنے کے بعد اپنے اندر آنے والی تبدیلیوں اور کیفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جماعت نے دین کا جامع تصور دیا، علمی غرور سے نجات ملی، عام کارکن کی حیثیت سے کام کرنے اور دین کی تبلیغ کا جذبہ ملا۔ الجہاد فی الاسلام کے مطالعے سے یہ تاثر ملا کہ مولانا مودودی بڑے عالم دین ہیں (ص ۱۷)۔ معروف ادیب مائل خیرآبادی کو مولانا کی کتاب پردہ کے اسلوب اور زبان کی چاشنی نے اپنا اسیر بنالیا(ص ۵۲)۔ مولانا عروج قادری کو جماعت اسلامی کے کُل ہند اجتماع الٰہ آباد (اپریل ۱۹۴۶ء) کے انتظامات، نظم وضبط، کارکنوں کی سرگرمی، خلوص، شرکا کی باہمی محبت، مواخات، نصب العین کا شعور، ذمہ داری کا احساس، مقصد زندگی کی تڑپ اور لگن اور پنج وقتہ نمازوں کے اہتمام نے متاثر کیا۔ (ص ۵۴)
متاثر ہونے والوں میں زیادہ تر وہ ہیں جو مولانا مودودی (اور ان کی تحریروں) سے متاثر ہوئے۔ اس لیے کتاب کا نام ’’ہم سید مودودی سے کیسے متاثر ہوئے؟‘‘ زیادہ مناسب تھا۔ تحریکِ اسلامی کے افکار، تاریخی پس منظر، روایات و اقدار، نظامِ تربیت، فکرانگیز لٹریچر اور تابناک ماضی کو جاننے اور حال اور مستقبل کے لیے عملی رہنمائی کے لیے مفید اور قیمتی لوازمہ ہے۔ تاثرات لکھنے یا بیان کرنے والوں میں اکثریت غیرمعروف لوگوں کی ہے، ان کا مختصر تعارف بھی دینا چاہیے تھا۔ سرورق پر جماعت اسلامی کا مخصوص ’لوگو‘ دیا گیا ہے، جو روایت اور مصلحت کے منافی ہے۔(عمران ظہور غازی)
زیرنظر تفصیلی تذکرہ دو ضخیم جِلدوں پر مشتمل ہے، جس میں خانوادئہ بُگوِیَہْ کے علما و مشائخ کے حالات اور ان کی دینی، علمی اور تبلیغی خدمات کے ساتھ بعض معاصر شخصیات اور تحریکوں کا ذکر بھی آگیا ہے۔ بُگوِیَہْ خاندان میں ایسے متعدد عالم، محدّث، فقیہ اور صاحب ِقلم بزرگ گزرے ہیں جن کی سرگرمیوں کا محور و مرکز حفاظتِ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت تھا۔ جیساکہ مصنف نے بتایا ہے یہ حضرات ہمیشہ سرکار دربار سے گریزاں اور صاحبانِ اقتدار سے فاصلے پر رہے۔ مناصب، عہدوں اور ملازمتوں کو قبول نہیں کیا۔ توحیدِ خالص اور تصوف براے تزکیۂ نفس کے قائل تھے۔ انھوں نے تحریکِ خلافت، تحریکِ پاکستان اور تحریکِ مدحِ صحابہؓ کی تائید میں، اور قادیانیت، شیعیت اور خاکسارانِ علامہ مشرقی کی تردید میں عملاً حصہ لیا یا ان سب کی مخالفت میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا۔
ان کی قائم کردہ مجلس حزب الانصار کے تحت بھیرہ میں دارالعلوم عزیزیہ، کتب خانہ عزیزیہ اور ماہنامہ شمس الاسلام نے بھی اپنے اپنے دائرے میں مفید خدمات انجام دیں۔ رسالے کے اداریوں کی فہرست (از جولائی ۱۹۴۸ء تادسمبر ۱۹۷۵ء برصفحہ ص ۳۲۰ تا ۳۲۶، جلد دوم) کتاب میں شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمس الاسلام میں مولانا مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، مفتی سیاح الدین کاکاخیل اور مولانا علی میاں وغیرہ کی تحریریں بھی شائع ہوتی تھیں۔
مجلس کے سالانہ جلسوں اور تبلیغی کانفرنسوں میں ہندستان کے مختلف علاقوں اور مختلف مکاتب ِ فکر کے علما شامل ہوتے تھے۔ غیراسلامی فتنوں کے استیصال کے لیے مجلس کی عسکری تنظیم ’محمدی فوج‘ بھی سرگرمِ کار رہی۔ بُگوِیَہْ علما بریلوی اور دیوبندی تقسیم کے برعکس راہِ اعتدال و اتحاد پر گامزن رہے، چنانچہ مولانا ظہور احمد بُگوِی کی وفات (۱۹۴۵ء) پر تعزیت کرنے والوں میں بہت سے سجادہ نشینوں کے ساتھ نام وَر علماے دیوبند (مثلاًقاری محمد طیب اور مفتی کفایت اللہ وغیرہ) بھی شامل تھے۔
مصنف میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ دائرہ معارف نوعیت کا یہ علمی و تحقیقی کارنامہ انھوں نے فقط اپنے ذوق و شوق اور اجداد کے کارناموں کو محفوظ کرنے کے خیال سے انجام دیا ہے۔ یہ ان کی ۱۰،۱۲ برس کی محنت کا حاصل ہے۔ استناد کے لیے مطبوعہ مآخذ کے علاوہ غیرمطبوعہ اُردو اور انگریزی مصادر (مثلاً دستاویزات، بیاضوں، رقعات وغیرہ) سے بھی مدد لی گئی ہے۔ کتاب تصاویر سے مزین ہے۔ تقطیع بڑی اور قیمت مناسب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
کچھ عرصہ قبل اس مجلے کے دو شمارے (بہ ادارت: ڈاکٹر محمد ارشد) شائع ہوئے تھے (تبصرہ: ترجمان ، فروری ۲۰۰۹ء)۔ اب تیسرا شمارہ نئی ادارت کے تحت سامنے آیا ہے۔
محنت سے گریز اور سہولت پسندی کے اس دور میں، علمی و تحقیقی اعتبار سے معیاری مقالات کا حصول آسان نہیں۔ زیرنظر مجلے کے ۵، اُردو ۳، انگریزی اور ۲ عربی مقالات مجموعی اعتبار سے اطمینان بخش حد تک معیاری ہیں، جس پر جہات الاسلام کے مدیر، تحسین کے مستحق ہیں۔ موضوعاتِ تحقیق سب بہت مناسب اور اچھے ہیں، مثلاً: ’وحی اور اس کی کیفیت ِنزول‘ (بعض اعتراضات کا جائزہ)، یا ’صحابہ کرامؓ کے اسالیبِ اجتہاد‘یا، ’نبوتِ محمدیؐ کی آفاقیت‘، اسی طرح ’غیرمسلم معاشرے میں مسلمانوںکے مسائل اور اُن کا حل‘ وغیرہ۔ البتہ مؤخر الذکر مضمون علمی اور تحقیقی نہیں ہے، دل چسپ اور معلومات افزا ضرور ہے۔ ایک طرح کی معلوماتی رپورٹ ہے۔
مضامین کی زبان و بیان کو قدرے آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ ’صحابہ کرامؓ کے اسالیب اجتہاد‘ میں مقالہ نگار کا خطاب اس عام مسلمان سے ہے جس سے اُن کا مطالبہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں انفرادی طور پر بھی اجتہاد کرے لیکن اس مضمون میں عام قاری کے لیے زبان و بیان بہت اَدق ہے۔ مثلاً چند عنوانات ہی دیکھیے: ’روح تشریع کے ادراک سے غیرمنصوص حکم کی تلاش‘ (ص ۷۳)، ’متحمل الوجوہ نص کی کسی ایک وجوہ کا تعین‘، یا ’نص کی عدم موجودگی میں عمومات و کلیات سے استدلال‘ (ص ۷۷)، ’عام مسلمان‘ (ص ۶۴) کے لیے اس طرح کی گاڑھی زبان سمجھنا اور استفادہ کرنا بہت مشکل ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ چند مضامین میں آیاتِ قرآنی پر اِعراب کا اہتمام کیا گیا ہے لیکن بعض مضامین میں آیات قرآنی بلااعراب چھوڑ دی گئی ہیں۔ ہمارے خیال میں ایک تحقیقی مجلے میں نہ صرف قرآنی بلکہ حدیث نبویؐ اور جملہ نوعیت کی عربی ، عبارات و اشعار وغیرہ پر اِعراب کا اہتمام ضروری ہے۔ یہ شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۸ء کا ہے، ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ پرچہ بروقت شائع کرنے کے لیے مجلس خصوصی توجہ، بلکہ جدوجہد سے دریغ نہیں کرے گی۔ (ر- ہ)
بائبل، بدھا اور تورات کے ساتھ ۱۰۰، ۱۰۰ منٹ کے بعد، اب اسی ناشر نے ’قرآن کے ساتھ ۱۰۰منٹ‘ شائع کی ہے۔ یہ قرآن سے مختلف آیات کا انتخاب ہے۔ اُردو میں اس طرح کے کئی انتخاب دستیاب ہیں۔ فاضل مرتب کے پیش نظر مغرب کے افراد ہیں تاکہ وہ قرآن کی حتمی تعلیمات سے براہِ راست واقف ہوں اور یہ جانیں کہ بائبل، تورات اور قرآن ایک ہی خالق کی بھیجی ہوئی کتب ِ ہدایت ہیں۔ اس کتاب کو تخلیقِ آدم سے شروع کیا گیا ہے۔ اس کے بعد قصص الانبیاء ہیں۔ پھر اچھے اور بُرے لوگوں کے جو نمونے قرآن نے بتائے ہیں، وہ پیش کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد بنیادی حقوق وفرائض، عائلی زندگی کے متعلق قوانین، تجارت، سیاست، تعزیر وجرم اور جنگ اور امن کے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح قرآنی تعلیمات کا ایک خلاصہ سامنے آگیا ہے۔ اکثر جگہ مرتب نے مختصر تشریح بھی کی ہے جو اپنی جگہ قیمتی ہے اور اہم امور کی وضاحت کرتی ہے۔
قرآن کے علاوہ بھی اسلامی تصورات ہیں۔ ان کو زیربحث نہیں لایا گیا۔ مثلاً فتویٰ کا ادارہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کتاب میں اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ اسے قرآنی آیات کا ایک جامع اور اچھا انتخاب سمجھتے ہوئے اُردو میں شائع کیا جاسکتا ہے۔ اس میں مختصر تشریح اسے ایک منفرد چیز بنا دے گی۔ (مسلم سجاد)
نیکی اور بدی انسانی فطرت میں گندھی ہوئی ہیں۔ یہ والدین اور اساتذہ کی تربیت، حالات اور ماحول کے عناصر ہیں جو اس کی فطرت کے کچھ عناصر کو نمایاں کردیتے ہیں اور کچھ دیگر عناصر دب جاتے ہیں۔ ایک اصلاح کار، مبلغ اور معاشرے کی حقیقی فلاح چاہنے والا ہمیشہ انسانی فطرت کے مثبت پہلوئوں کو اس طرح اُجاگر کرتاہے کہ وہ منفی رجحانات کا قلع قمع کردیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں مؤلف نے نہایت دل چسپ اور دل نشین انداز میں ایسے واقعات اور ایسی حکایات تحریر کی ہیں جن میں تحیّر بھی ہے اور افسانے کی چاشنی بھی۔ قاری ان ۱۰۰ سے زائد واقعات کو پڑھ کر ان وجوہات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے جو معاشرے کے اضطراب کا باعث ہیں۔ کتاب کے آخر میں چند ادبی موضوعات بھی شامل ہیں جو درست ہونے کے باوجود موضوع سے لگّا نہیں کھاتے۔ مجموعی طور پر کتاب دل چسپ ہے اور سوچ کو مثبت سمت عطا کرتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)