نومبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| نومبر ۲۰۱۱ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

نیکی کی راہ میں مشکلات کیوں؟

سوال:  آج سے ایک سال قبل دنیا کے جملہ افعالِ بد سے دوچار تھا، لیکن دنیا کی بہت سی آسانیاں مجھے حاصل تھیں۔ میں نہ کسی کا مقروض تھا اور نہ منت کش۔ اور اب، جب کہ میں ان تمام افعالِ بد سے تائب ہوکر بھلائی کی طرف رجوع کرچکا ہوں، دیکھتا ہوں کہ ساری فارغ البالی ختم ہوچکی ہے اور روٹی تک سے محروم ہوں۔ سوال یہ ہے کہ  اچھے اور نیک کام کرنے والوں کے لیے دنیا تنگ کیوں ہوجاتی ہے، اور اگر ایسا ہے تو لوگ آخر بھلائی کی طرف کا ہے کو آئیں گے؟ یہ حالت اگر میرے لیے آزمایش ہے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے، تو یہ منزل میں کس طرح پوری کروں گا؟

جواب:  آپ جس صورت حال سے دوچار ہیں اس میں میری دلی ہمدردی آپ کے ساتھ ہے، اور میں آپ کا دل دکھانا نہیں چاہتا، لیکن آپ کی بات کا صحیح جواب یہی ہے کہ آپ فی الواقع آزمایش ہی میں مبتلا ہیں، اور اس منزل سے بخیریت گزرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ آپ    خدا و آخرت کے متعلق اپنے ایمان کو مضبوط کرکے صبر کے ساتھ نیکی کے راستے پر چلیں۔

آپ کو اس سلسلے میں جو اُلجھنیں پیش آرہی ہیں ان کو رفع کرنے کے لیے میں صرف چند اشارات کرنے پر اکتفا کروںگا۔

بدی کی راہ آسان اور نیکی کی راہ مشکل ہونے کی جو کیفیت آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا موجودہ اخلاقی، تمدنی، معاشی اورسیاسی ماحول بگڑا ہوا ہے۔   اس ماحول نے بہ کثرت ایسے اسباب پیدا کر رکھے ہیں جو بُرے راستوں پر چلنے میں انسان کی   مدد کرتے ہیں اور بھلائی کی راہ اختیار کرنے والوں کی قدم قدم پر مزاحمت کرتے ہیں۔ اگر خدا کے صالح بندے مل کر اس کیفیت کو بدل دیں اور ایک صحیح نظامِ زندگی ان کی کوششوں سے قائم ہوجائے توان شاء اللہ نیکی کی راہ بہت کچھ آسان اور بدی کی راہ بڑی حد تک مشکل ہوجائے گی۔ ایسا وقت آنے تک لامحالہ ان سب لوگوں کو تکالیف و مصائب سے دوچار ہونا ہی پڑے گا جو اس بُرے ماحول میں راہِ راست کو اپنے لیے منتخب کریں۔

تاہم، یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ نیکی بجاے خود اپنے اندر دشواری کا ایک پہلو رکھتی ہے، اور اس کے برعکس بدی کی فطرت میں ایک پہلو آسانی کا مضمر ہے۔ آپ بلندی پر چڑھنا چاہیں تو بہرحال اس کے لیے کسی نہ کسی حد تک محنت کرنی ہی پڑے گی، چاہے ماحول کتنا ہی سازگار بنا دیا جائے۔ لیکن پستی کی طرف گرنے کے لیے کسی کوشش اور محنت کی ضرورت نہیں۔ ذرا اعصاب کی بندش ڈھیلی کرکے لڑھک جایئے، پھر تحت الثریٰ تک سارا راستہ بغیر کسی سعی و محنت کے خود طے ہوجائے گا۔

آپ پوچھتے ہیں کہ اگر اچھے کام کرنے والوں کی زندگی تنگ ہوجاتی ہے تو دنیا اس طرف رُخ ہی کیوں کرے گی؟ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اگر اچھے کام کرنے والوں کو دنیا کی تمام سہولتیں اور آسایشیں بہم پہنچنے لگتیں، اور بُرے کام کرنے والوں پر آفتیں ٹوٹ جایا کرتیں تو پھر کون ایسا احمق تھا کہ برائی اختیار کرتا اور بھلائی سے منہ موڑتا۔ پھر تو کامیابی آسان اور ناکامی دشوار ہوتی،  جزا سستی اور سزا مہنگی ہوجاتی، انعام مفت ملتا اور عذاب پانے کے لیے محنت کرنا پڑتی۔

کیا اس کے بعد دنیا کی اس امتحان گاہ میں انسان کو بھیجنے کا کوئی فائدہ تھا؟ اور کیا اس کے بعد نیک انسانوں کی نیکی کسی قدروقیمت کی مستحق قرار پاسکتی تھی، جب کہ ان کو نیکی کے راستے طے کرنے کے لیے قالین بچھا کے دیے گئے ہوں؟ درحقیقت اگر ایسا ہوتا تو جنت کے بجاے جہنم کی طرف جانے والے زیادہ قابلِ قدر ہوتے!

آپ کا یہ سوال ایک اور لحاظ سے بھی عجیب ہے۔ آپ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ لوگوں کے راہِ راست پر آنے سے اللہ تعالیٰ کی کوئی اپنی غرض اٹکی ہوئی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر آپ پوچھتے ہیں کہ اگر راہِ راست مشقتوں اور آزمایشوں سے بھری ہوئی ہے تو دنیا اس راہ پر آئے گی ہی کیوں؟ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ راہِ راست اختیار کرنے میں لوگوں کا اپنا فائدہ ہے نہ کہ خدا کا، اور اس کے خلاف چلنے میں لوگوں کا اپنا نقصان ہے نہ کہ خدا کا۔ خدا نے انسان کے سامنے دو صورتیں رکھ دی ہیں اور اسے اختیار دے دیا ہے کہ ان میں سے جسے چاہے انتخاب کرلے۔ ایک یہ کہ وہ اس زندگی کے چند روزہ مزوں کو ترجیح دے کر آخرت کا ابدی عذاب قبول کرلے۔ دوسری یہ کہ وہ آخرت کی بے پایاں راحت و مسرت کی خاطر ان تکلیفوں کو گوارا کرے جو دین و اخلاق کے ضابطوں کی پابندی کرنے میں لامحالہ پیش آتی ہیں۔ لوگوں کا جی چاہے تو وہ پہلی صورت کو پسند کریں۔ اگر ساری دنیا مل کر بھی اپنے انتخاب میں یہ غلطی کرگزرے تو خدا کا کچھ نہ بگاڑے گی۔ خدا اس سے بے نیاز ہے کہ لوگوں کے صحیح انتخابِ راہ سے اس کا کوئی مفاد وابستہ ہو۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، رسائل و مسائل، دوم، ص۲۸۶-۲۸۸)

سحر کی حقیقت اور معوذتین کی شانِ نزول

س: معوذتین کی شانِ نزول کے متعلق بعض مفسرین نے حضور علیہ السلام پر یہودی لڑکیوں کے جادو کا اثر ہونا اور ان سورتوں کے پڑھنے سے اس کا زائل ہوجانا بحوالہ احادیث تحریر فرمایا ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ نیز جادو کی حقیقت کیا ہے؟ بعض اشخاص حضورعلیہ السلام پر جادو کے اثر کو منصب ِ نبوت کے خلاف سمجھتے ہیں؟

ج:  شانِ نزول کے بارے میں یہ بات پہلے ہی سمجھ لینے کی ہے کہ مفسرین جب کسی واقعے کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جب واقعہ پیش آیا اسی وقت وہ آیت نازل ہوئی تھی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس واقعے سے اس آیت کا تعلق ہے۔

مُعَوِّذَتَیْن کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ وہ مکے میں نازل ہوئی ہیں اور احادیث میں جادو کا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ مدینہ طیبہ کا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بداہتاً غلط ہے کہ جب جادو کا وہ واقعہ پیش آیا اس وقت یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو حضوؐر کو ان سورتوں کے پڑھنے کی ہدایت فرمائی گئی۔

جادو کی حقیقت اگر آپ سمجھنا چاہیں تو قرآنِ مجید میں حضرت موسٰی ؑکا قصہ پڑھیں۔ جادوگروں نے لاٹھیوں اور رسیوں کے جو سانپ بنائے تھے وہ حقیقت میں سانپ نہیں بن گئے تھے، مگر اس مجمع نے جو وہاں موجود تھا یہی محسوس کیا کہ یہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، حتیٰ کہ خود حضرت موسٰی ؑکی آنکھیں بھی پیغمبر ہونے کے باوجود اس قدر مسحور ہوگئیں کہ انھوں نے بھی انھیں سانپ ہی دیکھا۔ قرآنِ مجید کا بیان ہے: فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ (الاعراف ۷:۱۱۶) ’’جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کر دیا اور انھیں مرعوب کر دیا‘‘۔ فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَ عِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی o فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۶۶-۶۷) ’’پس یکایک  ان کے جادو کی وجہ سے ان کی لاٹھیاں اور رسیاں موسٰی ؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں اور موسٰی ؑاپنے دل میں ڈر گیا‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ جادو قلب ماہیت نہیں کرتا بلکہ ایک خاص قسم کا نفسیاتی اثر ڈال کر آدمی کے حواس کو متاثر کردیتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جادو کی یہ تاثیر عام انسانوں پر ہی نہیں، انبیا ؑپر بھی ہوسکتی ہے۔ اگرچہ اس ذریعے سے کوئی جادوگر کسی نبی کو شکست نہیں دے سکتا،  نہ اس کے مشن کو فیل کرسکتا ہے، نہ اسے اس حد تک متاثر کرسکتا ہے کہ وہ جادو کے زیراثر آکر منصب نبوت کے خلاف کوئی کام کرجائے، لیکن بجاے خود یہ بات کہ ایک نبی پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے، خود قرآن سے ثابت ہے۔

احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہونے کی جو روایات آئی ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی عقل، تجربے اور مشاہدے کے خلاف نہیں ہے، اور نہ قرآن کی بتائی ہوئی اس حقیقت کے خلاف ہے جس کی میں نے اُوپر تشریح کی ہے۔ نبی اگر زخمی یا شہید ہوسکتا ہے تو اس کا جادو سے متاثر ہو جانا کون سی تعجب کی بات ہے؟ روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ چند روز تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نسیان سا لاحق ہوگیا تھا اور وہ بھی تمام معاملات میں نہیں بلکہ بعض معاملات میں جزوی طور پر۔ (ا-م، ایضاً، ص ۵۳-۵۴)

اسلام بلاجماعت

س:  جو شخص آپ کی جماعت کے اصولوں کے مطابق اپنی جگہ حتی المقدور صحیح اسلامی زندگی بسر کر رہا ہو وہ اگر بعض اسباب کے ماتحت باقاعدہ جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

ج:  اس کے متعلق میرا وہی خیال ہے جو احادیث سے ثابت ہے کہ صحیح اسلامی زندگی جماعت کے بغیر نہیں ہوتی۔ زندگی کے صحیح اسلامی زندگی ہونے کے لیے سب سے مقدم چیز اسلام کے نصب العین (اقامت ِدینِ حق) سے وابستگی ہے۔ اس وابستگی کا تقاضا ہے کہ آدمی نصب العین کے لیے جدوجہد کرے، اور جدوجہد اجتماعی طاقت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا جماعت کے بغیر کسی زندگی کو صحیح اسلامی زندگی سمجھنا بالکل غلط ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص ہماری اس جماعت میں شامل نہ ہو اور کسی اور ایسی جماعت سے اس کا تعلق ہو جو یہی نصب العین رکھتی ہو اور جس کا نظامِ جماعت اور طریق جدوجہد بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔ اس صورت میں ہم اس کو برسرِہدایت ماننے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ لیکن یہ بات ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے کہ آدمی صرف ان طریقوں کی پابندی پر اکتفا کرتا رہے جو شخصی کردار کے لیے شریعت میں بتائے گئے ہیں اور اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔ ہم ایسی زندگی کو کم از کم      نیم جاہلیت کی زندگی سمجھتے ہیں۔ ہمارے علم میں اسلامیت کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اگر آدمی کو اپنے گردوپیش ایسی کوئی جماعت نظر نہ آتی ہو جو اسلام کے اجتماعی نصب العین کے لیے اسلامی طریقے پر سعی کرنے والی ہو، تو اسے سچے دل سے ایسی ایک جماعت کے وجود میں لانے کی سعی کرنی چاہیے، اور اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ جب کبھی ایسی جماعت پائی جائے وہ اپنی انانیت چھوڑ کر ٹھیک ٹھیک جماعتی ذہنیت کے ساتھ اس میں شامل ہوجائے۔ (ا-م، رسائل و مسائل، اوّل، ص ۳۱۸-۳۱۹)