گندھے ہوئے سفید بالوں والے ایک ۷۰سالہ تونسی باباجی مظاہروں کے لیے سڑکوں پر کھڑے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے: ’’نوجوانو! تیونس کو آج تم نے بچانا اور کامیاب بنانا ہے‘‘۔ پھر اپنے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے:’’ہم تو اسی تاریخی لمحے کی خاطر بڑھاپے کی نذر ہوچکے ہیں‘‘۔ نوجوانوں نے اپنی تقریباً تین ہفتے کی تحریک اور سیکڑوں جانوں کی قربانیاں دے کرتیونسی ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ تقریباً ۱۰ماہ کے بعد تیونس کی تاریخ میں پہلی بار آزادانہ انتخابات منعقد ہوئے۔ ذرائع ابلاغ نے آج پھر اسی تیونسی باباجی کو تلاش کرڈالا۔ معلوم ہوا کہ بن علی کے مظالم سے تنگ آکر وہ سعودیہ چلے گئے تھے۔ محنت مزدوری کرتے رہے، پھر زیادہ مشقت کے قابل نہ رہے تو تیونس واپس آکر آج کل ایک کیفے ٹیریا چلارہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے انھیں ان کا وہ جملہ یاد دلایا جسے ذرائع ابلاغ نے تیونسی تحریک کا عنوان بنادیا تھا۔ باباجی بے اختیار کہنے لگے: ’’وہ لمحہ واقعی تاریخی لمحہ تھا۔ تیونس اب اپنی تاریخ کا بالکل نیا باب رقم کررہا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے گندھے ہوئے بالوں والا بابا زار و قطار رونے لگا۔ لیکن آج اس کے یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ آج وہ اپنے ملک میں آزاد تھا اور ہزاروں شہریوں کو جیل میں ڈالنے والا اور لاکھوں شہریوں کو ملک بدر کرنے والا بن علی خود سعودی عرب میں پناہ لیے ہوئے تھا۔
آج باباجی ہی نہیں تیونس کا ایک ایک نوجوان آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے ،دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے ووٹ ڈال رہا تھا۔ الیکشن کا ڈھونگ تو بن علی بھی ہر چار پانچ سال بعد رچاتا تھا، لیکن اس کے نتائج پہلے سے طے اور معلوم ہوتے تھے۔ ۲۳؍اکتوبر۲۰۱۱ء کے انتخابات کو عوام نے ’عید الانتخابات‘ (انتخابی عید) قرار دیا۔ ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ شام سات بجے پولنگ کا وقت ختم ہوجانے کے بعد جو ووٹر انتخابی سٹیشن کے احاطوں میں آگئے تھے وہ رات ۱۲ بجے تک ووٹ ڈالتے رہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ووٹنگ کا تناسب ۸۰ فی صد اور کئی علاقوں میں ۹۰ فی صدسے بھی زیادہ ہے۔ پورا انتخابی عمل پُرامن رہا۔ لوگ دن بھر طویل قطاروں میں لگے رہے لیکن کہیں کوئی تشدد آمیز واقعہ پیش نہیں آیا۔
۲۰ مارچ ۱۹۵۰ء کو فرانس سے آزادی حاصل ہونے کے بعد صرف بن علی اور اس کے پیش رو حبیب بورقیبہ ہی تیونس کے حکمران رہے۔ دونوں کا سب سے بڑا ہدف بھی اسلام اور اسلام پسند افراد ہی رہے۔ بورقیبہ نے ۱۹۸۱ء میں صدارتی فرمان نمبر ۱۰۸ جاری کرتے ہوئے ’فرقہ وارانہ لباس‘ پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس قانون سے اصل مراد خواتین کے حجاب پر پابندی تھی۔ فرقہ واریت کا نام دیتے ہوئے حجاب کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ ۱۹۸۷ء میں جب بن علی نے اپنے گرو کا تختہ اُلٹا تو سب سے زیادہ سختی اسی قانون کو نافذ کرنے کے لیے برتی گئی۔ کسی بھی سرکاری دفتر، تعلیمی ادارے یا ہسپتال میں سر پر اسکارف لینے والی خواتین کا داخلہ سختی سے بند کردیا گیا۔ سیکڑوں طالبات صرف اسکارف کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہنے پر مجبور ہوگئیں۔ کئی خواتین ہسپتالوں کے دروازوں پر دم توڑ گئیں کہ وہ سکارف اتارنے پر تیار نہ تھیں۔ نمازوں کے لیے مسجد جانے والے نوجوانوں کو چن چن کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ تیونس کی اسلامی تحریک کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس کے ۳۰ہزار کارکنان گرفتار کرلیے گئے۔ سرکاری ذرائع ابلاغ اسے عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے رہے۔ بن علی کے جانے کے بعد آج پہلے انتخابات ہوئے تو عوام نے اسی اسلامی تحریک کو سب سے زیادہ ووٹ ڈالے۔
تیونس کی آبادی ایک کروڑ ۷ لاکھ کے قریب ہے۔ ووٹروں کی تعداد ۴۱ لاکھ ہے۔ حالیہ انتخابات میں ۲۱۷ نشستوں پر چناؤ ہوا، جن کے لیے ۱۲ ہزار اُمیدوار میدان میں تھے لیکن انتخابات متناسب نمایندگی کی بنیاد پر ہوئے۔ بن علی کے دور میں صرف حکمران پارٹی کا تسلط تھا۔ باقی یا تو براے نام تھیں یا کالعدم قرار دے دی گئی تھیں۔ اب آزادی ملی تو ۱۵۰ سے زائد پارٹیاں وجود میں آگئیں۔ انتخابات سے پہلے ہی سب کہہ رہے تھے کہ اسلامی تحریک نہضت پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ ۹؍اکتوبر کو نہضت پارٹی کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی سے تفصیلی ملاقات ہوئی تو وہ بھی بتارہے تھے کہ اگرچہ ہم گذشتہ ۲۰ برس سے ملک بدری اور کالعدم قرار دیے جانے کی قیمت چکا رہے تھے، ہماری مصروفیات بھی عملاً صرف یہ رہ گئی تھیں کہ اپنے گرفتار کارکنان کے اہل خانہ کی کچھ نہ کچھ امداد کرتے رہیں، لیکن اب بحال ہوئے ہیں تو چند ماہ میں ہمارے تقریباً ۲۰ہزار ارکانِ جماعت نے پورے ملک میں وسیع پیمانے پر عوامی تائید حاصل کرلی ہے۔ تحریک نہضت کے مقابل کوئی قابل ذکر پارٹی نہیںرہی۔ اگر ہم سے ہماری کامیابی زبردستی نہ چھین لی گئی تو ہم سب سے بڑی پارٹی بنیں گے۔ ہم نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی پارٹی کے دروازے پوری قوم کے لیے کھولتے ہوئے اور دیگر پارٹیوں کو بھی ساتھ ملاتے ہوئے آیندہ نظام حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کریں۔ ۲۴؍اکتوبر کو شیخ راشد غنوشی کے دفتر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق تحریک نہضت کو ۵۲فی صد ووٹ اور ۲۱۷ میں سے ۱۱۵نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ سادہ اکثریت تو الحمد للہ مل گئی، لیکن اب آیندہ مراحل مشکل تر ہیں۔
اب دستور ساز اسمبلی کو عبوری حکومت تشکیل کرنا اور ملک کو ایک نیا دستور دینا ہے۔ ایک سال کے بعد دستور پر ریفرنڈم اور پھر پارلیمانی و صدارتی انتخابات منعقد ہونا ہیں۔ یہ تمام مراحل مشکل تر ہیں۔ یورپ بالخصوص فرانس تیونس کے رگ و پے میں پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ شیخ راشد غنوشی اور ان کے ساتھی بھی اللہ پر راسخ ایمان اور نظریات سے مکمل وابستگی کے ساتھ ساتھ حکمت اور وسعت قلبی سے پوری قوم کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ حالیہ نتائج نے قوم کو مزید یکسو کیا ہے۔ عام شہری بھی کہہ رہے ہیں: ’’آج کا انتخاب اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے‘‘۔ فرمان خداوندی کی حقانیت دنیا دیکھ اور تسلیم کررہی ہے: وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ o (القصص۲۸:۵)، ’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنادیں اور انھی کو وارث بنائیں‘‘۔
۲۰۱۱ء کے آغاز میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عالم عرب میں جبر واستبداد کے نظام سے نجات مل سکتی ہے۔ تیونس کے اسلام دشمن حکمران سے نجات ابرِ رحمت کاپہلا قطرہ تھا۔ آج وہاں کے انتخابی نتائج نے تبدیلی کے ایک اور سفر کا آغازکردیا ہے ۔ ان شاء اللہ انتخابی کامیابیوں کا یہ قافلہ اگلے ماہ مصر پہنچے گااور اس کے چھے ماہ بعد لیبیا میں چار عشروںکے بعد، پہلے حقیقی انتخابات ہونا ہیں۔ آج وہاں بھی خوشی کے آنسو رواں ہیں۔
لیبیا کے دوسرے بڑے شہربن غازی کے بڑے میدان میں لاکھوں لوگ جمع تھے ۔ عبوری کونسل کے سربراہ مصطفی عبدالجلیل خطبہ حجۃ الوداع کا اقتباس پیش کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’اے اہل لیبیا ! ہمارے خون، ہمارے مال اور ہماری عزتیں ہم پر حرام کردی گئیں ہیں۔ ہمیں سب کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا ہے۔ ‘‘انھوں نے گرفتاری کے بعد معمر القذافی اور اس کے بیٹے کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ہم قذافی پر مقدمہ چلاکر ظلم کا حساب لینا چاہتے تھے، انھیں قتل کرنے میں ہمارا کوئی مفاد نہیں تھا، ہم تحقیقات کریں گے کہ انھیں کس نے اور کیوں قتل کیا۔ پھر جب انھوں نے اعلان کیا کہ اب ہم آزاد ہیں اور ہمیں ایک آزاد مسلمان شہری کی حیثیت سے فیصلے کرنا ہیں۔ گذشتہ حکومت نے ہم پر ظلم ڈھائے ہیں لیکن خبردار رہو کہ ہمیں کسی سے انتقام نہیں لینا، تو مجمع میں اکثر خواتین نے پہلے تو ہونٹوں پر ہاتھ کی کپی بناتے ہوئے عرب خواتین کا معروف اظہار مسرت بلند کیا اور ساتھ ہی پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ جبر کا نظام لد گیالیکن خوشی کے آنسو ڈکٹیٹر سے نجات کا اعلان کررہے تھے۔
۴۲ سال تک بلا شرکت غیرے سیاہ وسفید کا مالک بنے رہنے والا معمر القذافی عجیب شخص تھا۔ وہ ایک طرف تو مغرب اور اس کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتا تھا ۔پوری دنیا میں انقلابی قوتوں کی حمایت کا اعلان کرتا ۔ لیکن اپنے ملک میں لوگوں کی تمام تر آزادیاں سلب کیے ہوئے تھا۔ اگر اس کے ۴۲ سال اقتدار اور اس کے پورے نظام پر کوئی بات بھی نہ کریں، تب بھی گذشتہ فروری میں اپنے خلاف اٹھنے والی تحریک کے حوالے سے اس کی پالیسی ہی اس کا سب سے ناقابلِ معافی جرم قرار پاتا ہے۔ تحریک شروع ہوئی تو اسے القاعدہ اور دہشت گردوں کی تحریک قرار دیتے ہوئے سختی سے نمٹنے کا اعلان کردیا۔ مظاہرے پھر بھی نہ رُکے تو عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے انھیں فرمایا: ’’تم ہوتے کون ہو مجھ سے استعفا طلب کرنے والے___ میں اگر صرف تمھارے ملک کا سربراہ ہوتاتو استعفا تمھارے منہ پر دے مارتا___ میں شہنشاۂ افریقا ہوں اور دنیا کے کروڑوں عوام میرے ساتھ ہیں‘‘۔ پھر فوجوں کو حکم دیتے ہوئے کہا: ’’یہ کاکروچ ہیں___ چوہے ہیں___ انھیں پٹرول چھڑک کر بھسم کردو‘‘۔ رمضان المبارک کے آخر میں جب طرابلس پر بھی عوا م کا قبضہ ہوگیا تب بھی قذافی نے آڈیو کیسٹ کے ذریعے تقاریر جاری رکھیںاور ہر بار لیبیا کے عوام کوــ’ جرذان‘ (چوہے) قرار دیتے ہوئے انھیں مارڈالنے کا حکم ہی سناتے رہے ___ آخر کار جب پکڑے گئے تو ہاتھ میں سونے کا پستول تھا لیکن نالے کے ایک پائپ میں چھپے ہوئے تھے___ گرفتار کرنے والے کئی جذباتی نوجوان چیخ کر کہہ رہے تھے: یاجرذ ___یا جرذ، سبحان اللہ! زندہ گرفتار کرنے کے بعد تشددکرنا اور قتل کردینا اسلام کی جنگی تعلیمات کے یقینا منافی ہے لیکن اُولی الابصار کے لیے اس میں بھی بڑی عبرت ہے۔
ناٹو افواج کی بھرپور اور ہمہ جہت موجودگی بھی ایک بڑا سوالیہ نشان اور سنگین چیلنج ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر قذافی اتنا ظلم نہ ڈھاتا ، اپنے ہی ملک پر فوج کشی کرتے ہوئے ہزاروں افراد کا قتل شروع نہ کردیتا تو کسی ناٹو کو مداخلت کا بہانہ نہ ملتا۔ آخر تیونس اورمصر میں بھی تو عوامی تحریک ہی کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہے اور کوئی بیرونی فوج براہِ راست وہاں نہیں آسکی، حالانکہ اسرائیل کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے مصر کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔
عالمِ عرب کے انقلابات میں امریکا اور یورپ کے لیے سب سے اہم سوال اسرائیل کا دفاع اور اس کا مستقبل ہی ہے ۔ اسرائیل کے حوالے سے اس ماہ اہم ترین پیش رفت حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہے۔ پانچ برس پہلے اغوا ہونے والے اسرائیلی فوجی گلعاد شالیت کی رہائی کے مقابل حماس نے ۱۰۲۷ قیدی رہا کروانے کا معاہدہ کیاہے۔ ان میں سے ۴۷۷ قیدی رہا ہوچکے ہیں اور ۵۵۰ آیندہ ماہ رہا ہوں گے۔ دنیا کے تمام تجزیہ نگار اسے حماس کی عسکری، سیاسی اور اخلاقی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔پانچ سال تک غزہ ہی میں رکھے جانے کے باوجود اسرائیل اپنے تمام تر جاسوسی اور عسکری جبروت کے باوجود اپنے فوجی کا سراغ نہیں لگا سکا۔ جنگ سمیت مختلف مراحل سے گزرنے کے باوجود حماس نے بے صبری نہیں دکھائی اور بالآخر زیادہ سے زیادہ تعداد میں قیدی رہا کروالیے۔ اخلاقی بلندی اتنی کہ حماس نے اپنے کارکنان سے زیادہ دوسری تنظیموں کے قیدی رہا کروائے۔ اس معاہدے میں مصر کا کردار بھی مثبت رہا ہے ۔ پہلے بھی کئی بار مذاکرات ہوئے لیکن ہر بار حسنی مبارک انتظامیہ نے صرف اس وجہ سے کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردی کہ قیدیوں کی رہائی کا تمام تر سہرا حماس کے سر بندھے گا۔
اہلِ فلسطین اس معاہدے کو عرب انقلاب کے اہم ثمر کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ رہائی پانے والوں میں ایسے ایسے قیدی ہیں کہ جنھوں نے آزادی کا سوچنا تک چھوڑ دیا تھا۔ سب سے پرانے فلسطینی قیدی نائل البرغوثی ۳۳برس قید کے بعد باہر آئے ہیںتو پوری تبدیل ہوچکی ہے۔ اس کا شیر خوار بیٹا اب خود بچوں کا باپ بن چکا ہے۔ ۳۱سالہ خاتون قیدی احلام التمیمی ۱۰سال سے قید تھی اور اسے ۱۶ بار عمر قید، یعنی تقریباً ۲۰۰سال قید کی سزا سنائی جا چکی تھی۔ اسرائیل کی تاریخ میں اتنی لمبی سزا کسی کو نہیں سنائی گئی۔ وہ بھی رہا ہوکر اہل خانہ میں آچکی ہیں۔ احلام سمیت تمام قیدیوں نے ایک ہی بات کہی کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ حماس کے شکرگزار ہیں کہ وہ دشمن سے اس کی زبان میں بات کر رہی ہے۔ صحافی نے احلام سے پوچھا: ’’خود آپ نے یہ ساری مدت کیسے گزاری؟‘‘ فوراً کہنے لگی:’’ اپنے اللہ کے ساتھ رہ کر___ اگر ایمان کی دولت نہ ہوتی تو آج میں تمھارے سامنے نہ ہوتی‘‘ ۔ ایک اور قیدی حسن سلامہ کا استقبال کرنے کے لیے، اس کی بوڑھی والدہ خود سرحد پر آئی ہوئی تھی۔ ان سے پوچھا گیا:’’ اماں جی! کیا آپ کو امید تھی کہ بیٹا رہا ہوجائے گا؟ کہنے لگیں: ’’جب سے بیٹا جیل میں گیا تھا، ایک دن کے لیے بھی دل کی یہ امید نہیں ٹوٹی کہ بیٹا ضرور رہا ہوگا‘‘۔ واضح رہے کہ حسن ۳۰ سال بعد رہا ہوا تھا، گذشتہ پانچ سال تو مکمل قید تنہائی میں گزارے۔ اہل خانہ تو کجا جیل میں موجود قیدی بھی ملاقات نہ کرسکتے تھے۔ آج جب ماں کہہ رہی تھی ۳۰سال میں ایک دن بھی امید کی لڑی نہیں ٹوٹی تو ساتھ ہی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہوگئی___ خوشی کے آنسوؤں کی!