تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم دین کا یہ کام دنیاوی کامیابی کی شرط کے ساتھ نہیں کررہے ہیں۔ ۱۹۴۱ء میں جن لوگوں نے اس کام کا آغاز کیا تھا، پورے غیرمنقسم برعظیم پاک و ہند میں ان کی کُل تعداد ۷۵ تھی۔ ان ۷۵ انسانوں نے اس شعور کے ساتھ اور اس بات کو پوری طرح سمجھ کر یہ کام شروع کیا تھا کہ چاہے ہماری تعداد ۷۵ سے بڑھ کر ۷۶ بھی نہیں ہوتی تو نہ ہو، یہی نہیں بلکہ ان میں سے بھی اگر کچھ آدمی ہمیں چھوڑ جاتے ہیں تو چھوڑ جائیں، بہرحال ہمیں ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ فریضہ ہرقیمت پر انجام دینا ہے۔
پھر دیکھیے کہ اگست ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد ہماری تنظیمی حالت اور عددی قوت کیا تھی؟ لیکن یہ حالت بھی ہمارے کام کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی اور ہم نے اسے اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے پاکستان میں اسلامی دستور کا مطالبہ سامنے رکھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہم ہتھکڑیوں، زنجیروں، جیل کی سلاخوں، پھانسی کے پھندوں اور کتنے ہی مرحلوں سے گزرے ہیں، لیکن ہرمرحلے پر اللہ تعالیٰ نے اس دعوت کے مخالفوں کو رُسوا کیا، ہمارے قدم آگے بڑھے اور باری تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں دین کے فروغ کا ایک ذریعہ بننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس لیے پہلی مشکلات اور آزمایشوں کے مقابلے میں موجودہ مراحل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اس چیز کو ایک اٹل اور فطری قاعدۂ کلیہ کی حیثیت سے ذہن نشین کرلیجیے کہ جب تک باربار آزمایشوں بلکہ شکستوں تک سے دوچار نہ کیا جائے، وہ قابلیت اور صلاحیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اقامت دین کے کام کے لیے مطلوب ہے۔ مصائب سے گزرے بغیر ہم ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ آزمایشوں کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ ہم پر کسی بھاری ذمہ داری کا بوجھ ڈالنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ بار بار ہمیں ابتلا و آزمایش اور مصائب میں ڈال رہا ہے۔
۱۹۶۴ء میں جماعت پر پابندی پر جو ردعمل سامنے آیا، سیاسی جماعتوں، وکلا کی تنظیموں اور سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں نے جس طرح اس اقدام کے خلاف زبردست احتجاج کیا، غیرممالک کے اہم ترین اخبارات نے جس طرح اس کے خلاف لکھا اور اندرون ممالک احتجاج کے علاوہ بیرون ملک سے جس طرح محضرنامے بھجوائے گئے، اس سے بجاطور پر جماعت کے وقار اور اس کے ٹھوس مقام کا پتا چلتا ہے۔ پھر جماعت کے خلاف کشمیر کے ’فتویٰ‘ سے لے کر صدرایوب خاں صاحب کے ایک وزیرداخلہ تک کے اعتراضات و الزامات کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح عدالت میں لانے کا بندوبست کیا اور اس سے سارے ملک پر یہ بات، ملک کی سب سے بڑی عدالت کی سند کے ساتھ واضح ہوگئی کہ قانون توڑنے والی جماعت نہیں ہے، خود حکمران ہیں۔ پھر قومی آفات کے موقعوں پر عوام نے جماعت اسلامی پر جس طرح اعتماد کا اظہار کیا ہے، اس سے بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ عوام کی نظر میں مخالفین کی طرف سے جماعت پر لگائے گئے الزامات کی کیا حیثیت ہے۔ اسی طرح تبلیغی وفود نے عوام سے جو ملاقاتیں کی ہیں، ان سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کے رجحانات کیا ہیں۔ انھی وجوہ کی بنا پر حکمران اور مخالفین نے بوکھلاکر صرف ۱۹۶۴ء میں جماعت کے خلاف ۷۳کتابیں شائع کیں مگر وہ پرکاہ جیسا وزن نہ پاسکیں۔
ہم یہ کام اس لیے نہیں کر رہے ہیں کہ اگر کامیابی ہوئی تو کام کرتے رہیں گے، ورنہ ہمت ہار کر کام کو چھوڑ دیں گے۔ دراصل ہم اپنی پوری نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کی نجات کا انحصار ہی اس پر ہے کہ ہم کسی نقصان کی پروا کیے بغیر، اپنے جسم و جان اور مال و دولت کو اس فرض کی ادایگی اور اس جدوجہد میں لگادیں، کھپا دیں۔
دوسری طرف بتدریج میدان ہموار ہو رہا ہے۔ ہماری جدوجہد کی مثال سڑک کوٹنے والے اس انجن کی سی ہے، جو روڑوں کو ہموار کرتا ہوا دبدبے کے ساتھ مسلسل آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی نصرت کا قانون یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے کھوٹے اور کھرے کو الگ الگ کردیتا ہے، تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون مخلص ہے اور کون محض دنیاوی مفادات کی خاطر منافقت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ قرآن حکیم بتاتا ہے کہ اللہ کی نصرت اس وقت آتی ہے جب تمام دنیاوی سہارے مٹ جائیں اور بظاہر کوئی تدبیر کام کرتی نظر نہ آئے۔ تعاقب میں فرعون ہو اور سامنے دریا ہو، تب رحمت خداوندی جوش میں آجاتی ہے! مگر اس کے لیے شرط ہے: ایمان، اخلاص، تسلسل، تنظیم اور تربیت۔
دوسری طرف آپ دیکھیں کہ بہت سے مواقع پر جب ہمیں میدان سے ہٹا دیا گیا تھا اللہ تعالیٰ نے غیب سے ہماری مدد فرمائی۔ قرارداد مقاصد پاس ہوئی تو اس وقت جماعت کی مرکزی قیادت جیلوں میں قید تھی۔ ۱۹۶۴ء میں جب جماعت پر پابندی عائد کی گئی تو ملک کے تمام اہم قانون دان جماعت کے دفاع کے لیے متحد ہوگئے اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ نے جماعت کی براء.ت کا فیصلہ بھی ایسے عالم میں دیا کہ تمام رہنما آہنی سلاخوں کے اس پار کھڑے تھے۔ پس اللہ کی نصرت آتی رہی ہے اور آیندہ بھی آئے گی، لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے قدم نہ ڈگمگائیں اور ہمارے دلوں میں کوئی کھوٹ نہ ہو، اور ہم مایوسی و بے حسی کو ختم کرتے ہوئے اپنی پوری طاقتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ یہ عظیم جدوجہد جاری رکھیں، اور اگر ناکامی ہوئی تو اس کا سبب بے حسی اور بے عملی ہوگی۔
جماعت اسلامی کا مقصد پوری زندگی کے نظام کو توحید پر قائم کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی اللہ کی بندگی کے گرد گھومے اور ہرشعبے میں، ہرمعاملے میں، ہر وقت اور ہرجگہ اسی کی اطاعت کی جائے اور ہرفرد خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا، بیوی ہو یا شوہر، بوڑھا ہو یا نوجوان، ہرحیثیت سے اسلام پر پوری طرح عمل پیرا ہو اور اسلامی زندگی کا مکمل نمونہ بن جائے___ اس چیز کو آپ پیشِ نظر رکھیں تو پھر آپ کو کبھی یہ پوچھنے کی ہرگز ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ: ’’ہم کیا کریں؟‘‘ آپ جہاں ہیں اور جس حیثیت میں ہیں، یہ دیکھیں کہ بحیثیت مسلم میرا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے۔ آپ کا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ آپ کو اپنے متعلق بتانے یا زبان کھولنے کی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ آپ کا کردار ہی آپ کی نمایندگی کرے۔ سیکڑوں صوفیہ سلطانوں اور بادشاہوں کے دور میں ہندستان آئے تو ان کے پاس نہ خزانے تھے نہ جاگیریں اور نہ دیگر وسائل تھے، مگر ان کے پاس کردار کی دولت تھی جس کے بل بوتے پر انھوں نے ایمان کی شمعیں اور ہدایت کے چراغ روشن کیے۔ یہی معاملہ افریقہ، وسطی ایشیا، ایران اور انڈونیشیا کے ہزاروں جزیروں تک دکھائی دیتا ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ تحریک اسلامی کے کارکن بھی اپنی بستیوں میں اسلام کے ایسے ہی چراغ ثابت ہوں۔ اب تک اس تحریک کے جو اثرات پھیلے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ جماعت نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ اس کے کارکنوں کی زندگیاں اسلام، ایمان اور شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہوں، ان کے خلاف نہ ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اسلام کی تبلیغ اور نشرواشاعت کام تو سیکڑوں اور ہزاروں بلکہ لاکھوں حضرات درس و تدریس اور تقریروں کے ذریعے مسلسل کر رہے ہیں، لیکن اسلام کا اثر بڑھنے کے بجاے گھٹتا ہی چلا آیا ہے۔ اس کی حقیقی وجہ یہی ہے کہ ان لوگوں نے تقویٰ کو اپنی ذات تک محدود رکھا اور اپنے مریدوں اور پیروکاروں کے اخلاق و کردار کی طرف بنیادی توجہ کبھی نہیں دی۔ پس قول و فعل کی ہم آہنگی کا اہتمام ہی وہ چیز ہے جس کے سبب جماعت کے اثرات پھیلے ہیں۔ اس کا اہتمام جس قدر زیادہ کیا جائے گا اسی قدر جماعت کی دعوت پھیلے گی، ان شاء اللہ!
توجہ طلب امور: اپنے قول و فعل میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے آپ کو بعض امور کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے: