نومبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

نوجوانوں کا عزم اور ہمارا مستقبل

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | نومبر ۲۰۱۱ | اشارات

Responsive image Responsive image

انسانیت پر اسلام کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ وہ مایوس، افسردہ،  دل برداشتہ اور نااُمید انسان کے دل میں جو اپنی غلطیوں، سیاہ کاریوں اور گمراہیوں کے سبب ہمت ہار بیٹھا ہو اور مایوسی کے عالم میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کو ختم کرنے میں نجات سمجھنے لگا ہو، اُمید اور عفو و مغفرت کی شمع روشن کرتا ہے۔ یوں اس کا اعتماد بحال کرکے اسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصرت کے ذریعے کامیابی کی شاہراہ پر لاکھڑا کرتا ہے۔ یہ تباہی کے گڑھے تک پہنچی ہوئی انسانیت کو ترکِ دنیا، نفس کشی اور عزلت کی جگہ بلندی، کامیابی اور کارزارِ حیات میں اعلیٰ مقام تک پہنچنے کی تعلیم و ہدایت دیتا ہے۔ یہ ہدایت نظری نہیں بلکہ عملی طور پر اسے نااُمیدی کے اندھیروں سے نکال کر مستقبل کی تعمیر میں سرگرم کردیتی ہے۔ اسلام نام ہے: سلامتی کا، فلاح و سعادت کا، اور دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کا۔

اس کے علی الرغم انسان اپنی محدود نظر، متعین فکر اور محدود تجربے کی بنا پر پیش آنے والی مشکلات، مصائب اور وقتی آزمایشوں سے پریشان ہوکر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ جن مصائب کا شکار ہے، ان سے کوئی نجات نہیں ہوسکتی۔ خصوصاً جب کسی قوم یا ملک کو اس کے قیام ہی سے ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو جن میں صالح، پُراعتماد اور باصلاحیت قیادت کا فقدان ہو، اور سیاست کار ہوں یا دیگر کارندے، وہ مستقلاً ملک و قوم کے اثاثوں کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے وسائل کا ناجائز استعمال کرتے رہے ہوں، تو قوم کا سیاست دانوں اور حکمرانوں سے مایوس ہونا ایک قابلِ فہم عمل ہے۔ اگر غیر جانب دار طور پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد سے ایسے حالات سے گزرا ہے جس میں ہرمشکل کے موقع پر بعض حضرات نے یہ محسوس کیا کہ اس سے بڑی آزمایش اور کیا ہوگی؟ چنانچہ ۱۹۴۸ء میں بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کا اپنے خواب کو ناتمام چھوڑ کر رخصت ہو جانا اور ان کے جانشینوں کا جماعتی سیاست اور جوڑتوڑ میں اُلجھ جانا خود ایک ایسا سانحہ تھا جسے فالِ بد  سمجھا گیا۔ بعد میں پیش آنے والی ہر آزمایش کے موقع پر بعض افراد یہی کہتے رہے کہ اب ملک کا سنبھلنا اور اصلاح کا ہونا بہت مشکل ہے۔ لیکن اگر تاریخ کے دوسرے رُخ کو دیکھا جائے تو پاکستانی اُمت مسلمہ نے ہر آزمایش اور امتحان کا مقابلہ عزم، ہمت اور جواں مردی سے کیا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ ہو یا کشمیر پر بھارت کا قبضہ اور بیرونی ممالک کا دبائو ہو، یا اندرونِ ملک پیدا ہونے والے خلفشار، پاکستانی قوم نے اپنے مالی وسائل کی کمی اور افرادی قوت کے محدود ہونے کے باوجود سیاسی اور معاشی دونوں میدانوں میں مشکلات کا سرتوڑ مقابلہ کیا۔ اس عرب دنیا کے مقابلے میں جس میں جو آمر مسلط ہوا وہ ۴۰، ۵۰ برس تک اقتدار پر قابض رہا، پاکستان میں کوئی آمر ۱۰برس سے زیادہ اپنے اقتدار کو باقی نہ رکھ سکا۔ مکمل معاشی بے سروسامانی میں اپنے سفر کا آغاز کرنے والی پاکستانی قوم نے اپنی آزادی کے ۱۰سال کے اندر معاشی ترقی کا ریکارڈ قائم کیا، اور جب بھارت کی معیشت سنبھلنے کی ہرکوشش کے باوجود مسلسل بحران کا شکار تھی اور اس کی عدم ترقی کے ریکارڈ کو  ’ہندو ریٹ آف گروتھ‘ کا نام دیا جا رہا تھا، پاکستان کی معیشت سے اوسطاً ۵ سے ۶ فی صد سالانہ کا ریکارڈ قائم کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پوری دنیا کی مخالفت اور معاشی اور سیاسی پابندیوں کے گرداب میں گرفتار ہونے کے بعد اپنی ایٹمی صلاحیت کو اس انداز میں ترقی دی کہ دنیا ششدر رہ گئی، اور یورینیم کی افزودگی کا وہ عمل جس کے لیے امریکا نے ۱۰سال کا عرصہ لیا تھا اسے سات، آٹھ سال میں حاصل کرکے دنیا میں اپنے آپ کو ایٹمی طاقت کے طور پر منوا لیا۔

اگر صرف اس پہلو پر غور کیا جائے کہ یہ قوم اپنے سائنس دانوں اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کے سبب عوام کی غربت اور تعلیم کی کمی کے باوجود ایک ایٹمی طاقت بن سکتی ہے، تو یہ اس کے باصلاحیت اور پُرعزم ہونے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

پھر ایسا کیوں ہوتا ہے، کیا وجہ ہے کہ آج ملکی صحافت ہو یا برقی میڈیا پر تجزیہ کار اور میزبان سب کی تان جس بات پر آکر ٹوٹتی ہے اس کا نام مایوسی، نااُمیدی اور کسی حل کا نظر نہ آنا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جو مایوسی اور نااُمیدی گذشتہ ۲۳برس سے مغربی میڈیا پاکستان کے بارے میں پھیلاتا رہا ہے کہ خاکم بدہن یہ ایک ناکام ریاست ہے اور اس کے خیالی نقشے بھی شائع کیے گئے۔ اس بیرونی فکر نے کس طرح خود ہمارے ملک کے صحافیوں اور برقی ذرائع ابلاغ کے ذہنوں کو اپنا ہم آہنگ بنالیا۔

بظاہر یہ معلوم ہوتاہے عالم گیریت کے زیرعنوان ابلاغِ عامہ کے ذریعے جس فکر کو مغربی حکمت ساز فروغ دینا چاہتے ہیں، وہ اس کے لیے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے خود ملک کے باشندوں کے اذہان کو متاثر کرتے ہیں، اور پھر ان کے ذریعے جس ملک میں انھیں عدم توازن پیدا کرنا ہو، مایوس کن اطلاعات اور تجزیوں کے ذریعے عوام الناس کو بھی اس نااُمیدی میں مبتلا کردیتے ہیں۔

قرآن کریم کا مطالعہ اس حوالے سے کیا جائے تو اقوامِ سابقہ میں بھی اس مرض کے سرایت کرجانے کے شواہد ملتے ہیں اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی ملتی ہے کہ اس مرض کا علاج کس طرح کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سچے انبیاے کرام علیہم السلام کو ہرمرحلے میں شدید آزمایش و ابتلا کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے پیروکار عموماً یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ، اللہ کی مدد کب آئے گی۔ ان دو قرآنی الفاظ کی تفصیل تلاش کی جائے تو یہ ایسے مواقع پر استعمال ہوئے جب دین حق پر عمل کرنے والوں کو طاغوت، کفر اور ظلم و استحصال کے نمایندوں نے قوت کے نشے میں کبھی زندہ دفن کیا، کبھی گڑھوں میں ڈال کر آگ میں جلا دیا اور کبھی ان کے جسموں کو آروں سے چیر کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔

ان انفرادی اور اجتماعی آفات و آزمایشوں سے گزرتے ہوئے اہلِ ایمان یہ سوال کرتے ہیں کہ کب تک ظلم کو برداشت کیا جائے گا؟ کب تک اہلِ ایمان کا خون بہے گا؟ آخر وہ صبح کب طلوع ہوگی جو عدل وانصاف اور حق کے غلبے کا پیش خیمہ ہو؟ سورۂ بقرہ میں اس حوالے سے ہمارے لیے غوروفکر کے لیے ایک سرمایہ فراہم کردیا گیا ہے۔ فرمایا گیا:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘، اُنھیں خوش خبری دے دو۔ اُن پر اُن کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوںگی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۵۳-۱۵۷)

بات کا آغاز اس ہدایت سے کیا گیاکہ اہلِ ایمان کے صرف دو سہارے ہیں: یعنی صبر اور نماز۔ صبر نہ تو لاچاری کا نام ہے، نہ مایوسی کا، نہ غم و اندوہ سے نڈھال ہونے کا، نہ اُمید کا دامن چھوڑ دینے کا، بلکہ استقامت، پامردی، اُمید، اعتماد و ایمان کے ساتھ رب کریم کی ہدایت پر جم جانے اور ایمان کی بقا کے لیے ہرشے کو بازی پر لگادینے کا نام ہے۔ صابرون اور مجاہدون کا استعمال قرآن کریم نے بطور مترادف کے کیا ہے، یعنی وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد جادۂ حق پر جم جائیں، استقامت اختیار کرلیں۔

اس استقامت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کفر، ظلم اور طاغوت اہلِ ایمان کو کمزور کرنے کے لیے اپنے تمام حربے استعمال کرے گا اور ابلیس، جو انسان کا ازلی دشمن ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی آزمایشوں کے صرف تاریک پہلو کو انھیں دکھانا چاہے گا اور اہلِ ایمان کو یہ سوچنے پر اُبھارے گا کہ آخر ہم مسلمان ہیں تو پھر خوف، خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں میں گھاٹے میں کیوں مبتلا کیا جا رہا ہے؟

ان آیات پر غور کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کے حالات کے پیش نظر اس وقت نازل ہورہی ہیں جب پاکستانی اُمت مسلمہ روزانہ یہ دیکھتی ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے پُرامن اور نہتے اہلِ پاکستان کے ان کے گھروں، ان کی جانوں، ان کے مالوں اور ان کی ہر چیز کو تباہ    کیا جارہا ہے۔وہ روز یہ دیکھتی ہے کہ وہ روپیا جو کل تک قوی تھا اپنی قوت کھوچکا ہے اور آمدنیوں میں شدید کمی واقع ہوگئی ہے۔ وہ یہ دیکھتی ہے کہ ملک کے اندر جانوں کا تحفظ اور ملک سے باہر پاکستانیوں کی عزت و احترام، ہرہرمعاملے میں اس کی آزمایش ہورہی ہے۔

اس فکر کا جواب ہدایت ِ ربانی میں دے دیا گیا کہ وہ اہلِ ایمان جو صبر کرنے والے ہیں وہ مصیبت پڑنے پر اپنے آپ کو اپنے رب سے جوڑتے ہیں، اس کی طرف لپکتے ہیں، اس کا دامن تھامتے ہیں، اُس سے مدد طلب کرتے ہیں، اس کے سامنے سربسجود ہوکر اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اور آیندہ ان کا اعادہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ اس کی رحمت طلب کرتے ہیں۔

اہلِ ایمان کے اس مبنی بر صبر رویے کا انجام بھی اللہ کی کتاب میں واضح کر دیا گیا:’’انھیں خوش خبری دے دو، ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہوگی۔ اُس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے لوگ ہی راست رَو ہیں‘‘۔

آج پاکستان جس پُرآزمایش دور سے گزررہا ہے اس میں بار بار یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ قوم اپنے سیاسی رہنمائوں پر اعتماد نہیں کرتی۔ فوج جو ماضی میں ایک ممکنہ لیکن وقتی حل سمجھی جاتی تھی، وہ بھی فوجی حکمرانوں ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف کے اَدوار کے پیش نظر اپنا وقار کھو چکی ہے۔  دو نام نہاد ’بڑی پارٹیوں‘ کا معاملہ بھی قوم کی نگاہ میں بدتر اور کم بدتر برائی کا ہے۔ پھر اُمید کی کرن کہاں سے روشن ہوگی؟ یہ عجب انسانی نفسیات ہے کہ جب اسے کوئی صدمہ پیش آتا ہے، غم کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اس سے وقتی طور پر مغلوب ہوکر سمجھتا ہے کہ بس دنیا کا خاتمہ ہونے والا ہے اور ہر بات اپنی حد کو پہنچ چکی ہے۔ اب کوئی اصلاح نہیں ہوسکے گی!

وہ اپنے سامنے کے حقائق کو بھول جاتا ہے یا ابلیس اسے ان کی طرف سے غافل کردیتا ہے اور ان میں مایوسی کی فضا پیدا کردیتا ہے۔ لغوی طور پر ابلیس بروزن  افعیل اِبلاسٌ سے مشتق ہے جس کے معنی سخت نااُمیدی کے باعث غمگین ہوکر ششدر و متحیر ہوجانے کے ہیں، جب کہ قرآن کریم انسان کو ہدایت کرتا ہے۔

(اے نبیؐ) کہہ دو، اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے ، وہ تو غفور و رحیم ہے۔ پلٹ آئو اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جائو اُس کے قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمھیں مدد نہ مل سکے۔ اور پیروی اختیار کرلو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی۔ قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ (الزمر ۳۹: ۵۳-۵۵)

ابلیس کا بہترین، اسمِ بامسمّٰی حربہ اہلِ ایمان کو مایوس کرنا ہے اور مایوسی کامیابی، فتح و کامرانی اور حصولِ مقصد کی دشمن ہے۔ قومیں جنگ اسلحے کی کمی یا زیادتی کی بنا پر نہ ہارتی ہیں نہ جیتتی ہیں بلکہ صرف اور صرف اُمید، اعتماد اور اللہ کی مدد پر یقین کے سہارے فتح مند ہوتی ہیں۔ قرآن اہلِ ایمان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف قدم بڑھائیں، اسی کی امداد اور سہارا انسان کو کامیابی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔

اسلام جس اُمید اور اعتماد کی تعلیم دیتا ہے اس کی عملی مثال اسوئہ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آتی ہے۔ جس وقت مکہ مکرمہ میں آپؐ اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور ہر جانب سے مخالفت، مزاحمت اور مصائب کا سامنا ہوتا ہے، حتیٰ کہ آپؐ کے عزیز چچا محبت بھرے انداز سے آپؐ کو سمجھانا چاہتے ہیں تو ایسے معاندانہ ماحول میں جب کہیں سے روشنی نظر نہ آرہی تھی، آپؐ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر  چاند لاکر رکھ دیں، تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آئوں گا۔ اللہ اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود ہی اس پر نثار ہوجائوں گا‘‘ (سیرت النبیؐ، شبلی نعمانی، ص ۲۲۱)۔ اللہ پر اعتماد، مایوسی کو قریب نہ آنے دینا، اللہ سے کامیابی کی مسلسل مدد طلب کرنا ہی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا شعار ہے۔

اسوئہ حسنہ پر غور کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ مشکل ترین مصائب و خطرات کا سامنا کرتے وقت جو کلمات دہن مبارکؐ سے نکلتے ہیں، وہ اُمت کے لیے قیامت تک مشعلِ راہ کا کام دیتے رہیں گے۔ آپؐ ہجرت فرماتے ہیں، راستے میں غار میں آپؐ اور حضرت ابوبکرصدیقؓ موجود ہیں۔ دشمن آپؐ  کو تلاش کرتا ہوا عین غارکے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ ایسے موقعے پر اُمید، نصرتِ الٰہی اور ایمان کا اظہار جن الفاظ سے ہوتا ہے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کا کسی بھی مصیبت سے سامنا ہو، اسے کسی قیمت پر بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے: تم نے اگر نبیؐ کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں (حضور نبی کریمؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ) غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا: لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبہ ۹:۴۰)’’غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے۔

پاکستان کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ بجلی کے مصنوعی بحران کے باوجود، اس ملک کے پاس ۲۰۰ سال کے لیے توانائی کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ ملک دنیا کا دودھ برآمد کرنے والا پانچواں اور پھل برآمد کرنے والا چوتھا ملک ہے۔ اس کی آبادی میں ۶۰ فی صد سے زیادہ ۳۰سال کی عمرکے نوجوان ہیں۔ اس ملک کے پاس ایٹمی قوت ہے۔ یہ سال کے چار موسموں والا ملک ہے۔ بے شک یہاں کے حکمران نااہل خائن اور بدعنوان ہیں اور حالات ایسے تھے کہ تبدیلی کا امکان نظر نہ آتا تھا، اور عام تاثر یہ تھا کہ فوج کی پشت پناہی رکھنے والے آمر (مشرف) کو کوئی نہیں ہلاسکتا، مگر ہم نے دیکھا کہ ۲۰۰۷ء میں وکلا کی عوامی تحریک کے ذریعے وہ حالات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں اعلیٰ عدالت تو بحال ہوئی مگر مغرور آمر کو ملک سے رخصت ہونا پڑا۔

اس قوم کے نوجوانوں میں اسلام سے جو محبت اور تعلق پایا جاتا ہے اس کا ایک اظہار ۱۵۔۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو لاہور کی جامعہ پنجاب میں منعقد ہونے والا اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا سالانہ اجتماع ہے جس میں ۵۰ہزار نوجوانوں نے پورے ملک سے ایسے حالات میں شرکت کی، جب لوگ لاہور سے دُور رہنے میں اپنی سلامتی سمجھتے تھے۔ یہ نوجوان اُس لاہور میں جمع ہوئے جہاں ہر فرد ڈینگی بخار کے خوف میں مبتلا تھا اور جہاں کسی لمحے بھی تخریبی کارروائی کا امکان ہوسکتا تھا لیکن ان تمام خدشات کے باوجود یہ صالح نوجوان جس عزم اور جس نعرے کے ساتھ جمع ہوئے وہ پوری قوم کے لیے پیغامِ اُمید ہے، یعنی ’’امید بنو، تعمیر کرو سب مل کر پاکستان کی‘‘۔

مشرق وسطیٰ میں واقع ہونے والی عرب بہار (Arab Spring) کی طرح یہ پاکستانی نوجوانوں کی بہار ایسے وقت آئی ہے جب ملک کا ہر باشندہ اشیاے فروخت کی مہنگائی، بجلی و توانائی اور گیس کی نایابی، ڈرون حملوں اور امریکا کی دھمکیوں کی بنا پر خود کو غیرمحفوظ تصور کرتا ہے۔ اس  اجتماع نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ابھی اس قوم کا لہوگرم ہے، اس میں زندگی اور توانائی ہے، اسے اپنے مقصدِ وجود سے آگاہی ہے اور اس پر فخر کے ساتھ آگے بڑھنے، تعمیر وطن کرنے اور پاکستانی موسمِ بہار کی نوید بننے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اجتماع کے بعد ایک لاکھ نوجوانوں کا لاہور میں پُرامن مارچ قوم کے اعتماد کی بحالی اور خود طاری کردہ مایوسی سے نکالنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔

۲۰۱۰ء میں مسلم دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو مختلف ممالک میں بڑی مضبوط آمریتیں قائم نظر آتی ہیں۔ تیونس ہو یا مصر، یمن ہو یا شام اور لیبیا، ملک میں کوئی فوجی آمر یا بادشاہ ۳۰،۴۰سال سے حقوقِ انسانی کی پامالی اور ظلم و استحصال اور جبرواستبداد کے بل بوتے پر قابض   چلا آرہا تھا۔ ان کے عوام مہنگائی، عدم تحفظ کا شکار اور معاشرتی عدل سے محروم تھے۔ ان کا ایک بڑا طبقہ دو وقت کی روٹی اور روزمرہ ضروریات بھی بمشکل حاصل کرپا رہا تھا۔ ستم بالاے ستم کہ مصر جو قدرتی وسائل سے مالا مال تھا، اور اربوں ڈالر کی غیرملکی امداد وصول کررہا تھا، اس کے عوام ۴۰فی صد غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے، جب کہ حسنی مبارک کے ذاتی حساب میں ۴۰؍ارب ڈالر موجود تھے۔ ۸لاکھ کی آبادی والے ملک لیبیا کا فوجی آمر قذافی مغربی ممالک میں ۲۰۰؍ارب ڈالر اپنے اور  اپنے خاندان کے حسابات میں رکھے ہوئے تھا جس پر اب مغربی اقوام کا قبضہ ہے، لیکن ملک کی آبادی کا ایک چوتھائی غربت میں مبتلا تھا۔ یہ حکمران اس زعم میں مبتلا تھے کہ ان کے لیے کوئی     یومِ حساب نہیں لیکن اللہ کا قانون کچھ اور ہی ہے۔ آج تاریخ ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔     ان حالات میں، جب کہ پولیس، فوج، خفیہ ادارے، ہر شعبہ ان جابروں کا حامی تھا ان ممالک کے عوام نے اللہ کی مدد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کے لیے اُٹھ کر ان ظالم فرماں روائوں کو ان کے انجام تک پہنچانا شروع کر دیا ہے۔

پاکستان تاریخ کے جس مقام پر کھڑا ہے، اس میں بھی الحمدللہ ایسی ہی بہار کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس ملک کے نوجوان اور عوام اب مزید ناانصافیوں اور بدعنوانیوں کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اب اس دستور کو بدلنا ہے۔ ایک نئی صبح طلوع ہونی ہے۔ ظلم کی بساط کو لپیٹنا ہے اور عدلِ اجتماعی کے اسلامی اصولوں پر مبنی نظام کو برپا ہونا ہے      ؎

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

تاریخِ عالم اس بات کی گواہ ہے کہ کل تک جن نظاموں کو بڑا مستحکم کہا جاتا تھا، آج لوگ ان پر فاتحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں۔ اشتراکیت کو جس طرح اپنی سب سے بڑی تجربہ گاہ میں شکست ہوئی اور سابقہ سوویت یونین شکست و ریخت کا نشانہ بنا، بالکل اسی طرح آج دنیا کے ۸۰ممالک کے ۹۷۰ شہروں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عوام الناس یک جہتی کے مظاہرے کررہے ہیں جن میں دانش ور اور نوجوان پیش پیش ہیں۔ سودی کاروبار اور سرمایہ دارانہ نظام کی اس ناکامی کا بنیادی سبب وہاں کے بنکار اور سیاست کاروں کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ امریکا اور یورپ کی حکومتیں قرضوں پر چلنے والی معیشت کو سہارا دینے کے لیے عوامی بنکوں سے لی ہوئی رقوم کو ڈوبتی معیشت کو وقتی طور پر بچانے کے لیے جو کچھ کررہے ہیں، وہاں کے عوام اس سے آگاہ ہیں اور اس استحصالی نظام کو مزید ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

عظیم اسلامی مفکر سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۷۰سال قبل جو پیش گوئی کی تھی کہ: ’’ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ الحاد لندن اور پیرس کی یونی ورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا‘‘ (شہادت حق)___ آج وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہے۔کل تک جو سرمایہ دارانہ نظام سوویت یونین کے انتشار کے بعد یہ کہہ رہا تھا کہ تاریخ نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور اب سرمایہ دارانہ نظام اور سیکولر جمہوریت فتح مندی کے ساتھ دنیا کا واحد نظام ہیں، وہی دانش ور آج امریکا اور یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کی تدفین کے منتظر ہیں۔

ان حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ یہ ایک اہم اور فطری سوال ہے۔ ہم اس حوالے سے صرف چند نکات پر اکتفا کریں گے:

پہلی بات جو شرطِ ایمان ہے یہ کہ پاکستان کی اُمت مسلمہ اپنے رب سے اپنا رشتہ تازہ اور مستحکم کرے۔ یہی وہ رشتہ ہے جو شاہراہ ترقی کی طرف لے جاتا ہے اور اس میں کمی لازمی طور پر عدم استحکام اور انتشار کی طرف لے جاتی ہے۔

دوسرا اہم پہلو اپنے آپ کو مایوسی سے نکالنا ہے۔ مایوسی اسلام کی نگاہ میں کفر ہے اور اسلام اپنے ماننے والوں کو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھنے اور مدد طلب کرنے کا حکم دیتا ہے۔

تیسری چیز معاشرے کے صالح عناصر کو یک جا کرنا، انھیں منظم کرنا اور عوام میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے ساتھ عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ اب مزید انتظار کا وقت نہیں۔ اب انھیں نکلنا ہوگا اور جس طرح وکلا کی پُرامن تحریک نے ایک فوجی آمر سے نجات دلائی، ایسے میں عوام کی پُرامن تحریک امریکا نواز فرماں روائوں سے نجات دلا کر صالح قیادت کو اُوپر لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

چوتھی قابلِ توجہ چیز ملک کی معاشی، معاشرتی، سیاسی ترقی کے لیے غوروفکر کے بعد ایک  قلیل المیعاد اور ایک طویل المیعاد منصوبے کی تیاری ہے۔ اس کام میں عوام، دانش ور، طلبہ، وکلا، غرض ہر شعبے کے افراد کو اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ اللہ کو اپنا رب ماننے کے بعد اس پر استقامت اختیار کرلیتے ہیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ غیبی قوتوں کے ذریعے ان کی امداد فرماتے ہیں۔ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں اس میں توبۃً نصوحاً کے ساتھ اس عزمِ نو کی ضرورت ہے کہ قوم اس ملک میں صحت مند تبدیلی لانے کے لیے ایسے افراد کو اپنا نمایندہ بنائے جو دین کی عظمت، ملکی مفاد اور ملک کے تحفظ کو بنیادی اہمیت دیتے ہوں۔ ایسے افراد کی کمی نہیں ہے لیکن انھیں اب نکلنا ہوگا اور قائداعظمؒ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہوگا کہ یہاں اسلام کے معاشرتی اور معاشی عدل کی بنیاد پر وہ جمہوری نظام قائم ہو جس میں قرآن و سنت کو فیصلہ کن مقام حاصل ہو۔


گذشتہ تین مہینوں (اگست، ستمبر، اکتوبر) میں ہمارے رفقا نے پورے ملک میں عالمی ترجمان القرآن بہت سے نئے ہاتھوں میں پہنچایا ہے۔ اس مہم میں جس نے جو کام کیا، اس کے لیے دوڑدھوپ کی، کچھ پیسے خرچ کیے، کسی سے بات کی، کسی کے لیے دعا کی، ہر کام کراماً کاتبین نے لکھا ہے اور یقینا اس کا اجر ملے گا۔ لیکن اس اجر کو بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ جن کو نمونہ پہنچایا گیا ان سے رابطہ کر کے باقاعدہ مطالعے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ جس گھر میں یہ رسالہ جائے گا اور چھوٹے بڑے اسے پڑھیں گے اوراس کی وجہ سے کوئی نیک کام کریں گے یا زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی تو صدقہ جاریہ کے طور پر اس کا اجر اس کام کو کرنے والوں کو ملتا رہے گا۔ اس لیے نمونہ پہنچادینے ہی کو مکمل کام نہ سمجھیے اور فقط اسی پر اکتفا نہ کیجیے۔

سہ ماہی مہم تو آپ کو متحرک کرنے کا اور اس طرف توجہ دلانے کا ایک بہانہ تھی۔ یہ رسالہ ایک پیغام کاعلَم بردار ہے۔ اس کا ایک مشن ہے، اس کا تاریخی کردار ہے جو یہ آج بھی ادا کررہاہے۔ جب بھی آپ اس رسالے کو پڑھیں، ضرور یہ سوچیں کہ جو اس سے محروم ہیں ان تک کس طرح پہنچائیں۔ رشتہ داروں میں، دوست احباب میں، طالب علموں میں، دفتر اور کاروبار کے ساتھیوں میں___ یہ سب آپ کے اس مشن کا ہدف ہونا چاہییں۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سرگرم ہونے کا، اور بہت زیادہ اجر سمیٹنے کا جذبہ دے اور آسانیاں فراہم کرے، آمین۔             پروفیسر خورشیداحمد