بنیادی حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے، اب آیئے دیکھیں کہ اسلام کس طرح مرد اور عورت کے درمیان مساوات قائم کرتا ہے۔ معاشرے میں عورت و مرد کی مساوات کا اعلان قرآن مجید ان واضح الفاظ میں پیش کرتا ہے:
خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا (النسآء ۴:۱) اللہ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا۔
اس آیت نے عورت کی کم تری اور حقارت سے متعلق ان تمام تصورات کا خاتمہ کر دیا جو قدیم مذاہب اور تہذیبوں میں پائے جاتے تھے۔ اسلام کا اعلان ہے کہ عورت کوئی حقیر و بے کس وجود نہیں ہے۔ وہ کوئی بے مقصد ہستی نہیں ہے بلکہ جس نفسِ واحدہ سے مرد وجود میں آیا ہے اسی سے عورت بھی وجود میں آئی ہے، اور جس طرح انسانی معاشرے کا ایک اہم رکن مرد ہے اسی طرح معاشرے کی دوسری اہم رکن عورت ہے۔ اس معاشرے کا وجود، اس کی بقا اور اس کا تسلسل ان دونوں میں سے کسی ایک پر منحصر نہیں اور نہ یہ کہ ایک پر زیادہ اور دوسرے پر کم منحصر ہے بلکہ اس پہلو سے دونوں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔
اللہ کے ہاں فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے، مرد یا عورت ہونا نہیں:
یاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔
آخرت میں درجات کی بلندی اور فلاح و کامیابی کا تعلق کسی جنس سے خاص نہیں ہے بلکہ مکمل مساوات کے اصول کے مطابق مرد اور عورت دونوں اعمال میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بجالاکر ایک دوسرے سے بڑھ کر خدا کی قربت حاصل کرسکتے ہیں:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِن فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ط وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷) جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔
اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۵) میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔
یعنی نوعِ انسانی کے دونوں اصناف میں سے جو صنف بھی اپنے نامۂ اعمال کو پاکیزگیِ کردار سے مزین کرلے سرخروئی اور کامیابی اس کے لیے مقدر ہوچکی ہے۔
اسلام میں عورت و مرد دونوں کو مساوی حیثیت دے کر بعض آیات میں دونوں کو انسان کی حیثیت سے خطاب کیا گیا ہے اور بعض آیات میں اصناف کے نام لے کر۔ یایُّھَا النَّاسُ اور یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہہ کر قرآن میں اَن گنت مقامات پر دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ جس طرح مردوں پر احکام نازل کیے گئے ہیں، اسی طرح عورتوں پر بھی احکام نازل ہوئے ہیں۔ عورت کو محض عورت ہونے کی بنا پر مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ ذمہ داری اور جواب دہی میں عورت کو مرد کا ضمیمہ نہیں بنایا گیا بلکہ اسے امتیازی حیثیت دی گئی ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْاط وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ (النسآء ۴:۳۲) جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ۔
الگ الگ دائرۂ کار کے باوجود مرد کو خصوصیات کے لحاظ سے عورت پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں واضح فرمایا گیا ہے:
وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا o (النسآء ۴:۳۲) اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے، اس کی تمنا نہ کرو، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق اُن کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے، اس کے مطابق اُن کا حصہ۔ ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔
اس آیت سے ایک طرف تو یہ بات واضح ہوگئی کہ قدرت کی طرف سے جو خصوصیات مرد و عورت کو عطا ہوئی ہیں، ان میں فضیلت کا پہلو کسی ایک ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس فضیلت میں دونوں برابر کے حصہ دار ہیں۔ دوسری طرف یہ بات واضح ہوگئی کہ عورت اور مرد دونوں کی کامیابی اور سعادت اس بات میں ہے کہ ایک دوسرے کی خصوصیات پر رشک کرنے اور ان کی نقل کرنے کے بجاے ہر ایک اپنے اپنے حصے کی نعمتوں کے لیے شکرگزار رہے اور ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔
قدرت نے اپنے اپنے دائرۂ کار کے لحاظ سے اپنی عطائوں میں مرد یا عورت کسی کے ساتھ بھی بخل نہیں کیا ہے۔ مرد کے اندر اگر تخلیق و ایجاد کا جوہر عطا کیا ہے تو عورت کو اس تخلیق و ایجاد کے ثمرات و نتائج سنبھالنے کا سلیقہ و ہنر عطا فرمایا ہے۔ مرد کو اگر حکمرانی و جہاں بانی کا حوصلہ عنایت کیا ہے تو عورت کو گھر بنانے اور بسانے کی قابلیت بخشی ہے۔ مرد کو اگر خاص علوم و فنون سے طبعی لگائو ہے تو عورت کے لیے بھی کچھ خاص علوم و فنون ہیں، جن سے اس کو فطری مناسبت ہے۔ مرد اگر اپنے اندر سختی، قوت اور عزیمت کے اوصاف رکھتا ہے تو عورت بھی اپنے اندر دل کشی، شیرینی اور دل ربائی کا جمال رکھتی ہے۔ قدرت کے اس نگارخانے کی زیب و زینت ان میں کسی ایک ہی صنف کے اوصاف سے نہیں ہے بلکہ مرد، عورت دونوں کے اوصاف سے ہے۔
اسلام نے معاشرے میں عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے نہ صرف مساوی بلکہ تقدس و مرتبے میں مرد سے بہت بڑھ کر حقوق دیے ہیں:
ماں کی حیثیت سے: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے (چوتھی مرتبہ) عرض کیا: پھر کون؟ فرمایا: تیرا باپ۔ غور فرمایئے کہ ماں، یعنی عورت کا رُتبہ باپ، یعنی مرد سے کس قدر بالاتر ہے۔
بیٹی کی حیثیت سے: ’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاںتک کہ وہ بلوغت کو پہنچ گئیں تو قیامت کے روز مَیں اور وہ اس طرح آئیں گے جیسے میرے ہاتھ کی انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں‘‘۔ (مسلم)
بہن کی حیثیت سے: اسی طرح تحفظ و تقدس کے لحاظ سے بہن کو بھی مساوی سے بڑھ کر درجہ دیاگیا ہے۔
بیوی کی حیثیت سے: بیوی کی حیثیت بہت زیادہ ہے۔ بیوی کے بارے میں شوہر کو یہاں تک کہہ دیا گیا: ’’دنیا کی نعمتوں میں بہترین نعمت نیک بیوی ہے‘‘۔
ملاحظہ کیجیے کہ عورت کو ہر حیثیت میں معاشرے میں کس قدر عزت و احترام کے قابل ٹھیرایا گیا ہے۔
تمدنی لحاظ سے اسلام نے عورت کو مرد سے بڑھ کر حقوق عطا کیے ہیں:
انتخابِ زوج کا حق: اگر مرد کو بیوی کے انتخاب کا حق حاصل ہے تو عورت کو بھی شوہر کے انتخاب کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف یا اس کی رضامندی کے بغیر کوئی شخص اس کا نکاح نہیں کرسکتا۔ اگر وہ خود اپنی مرضی سے کسی مسلم کے ساتھ نکاح کرلے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا، البتہ تحفظِ عزت کی خاطر یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ لڑکیاں اپنا نکاح خود نہ کرتی پھریں، کیوں کہ ان کے لیے ناممکن ہوتا ہے کہ وہ اچھی طرح مرداور اس کے لواحقین کو پرکھ یا دیکھ سکیں۔ اس میں باپ اور خاندان کے معاشرتی مقام اور تعلقات کا خیال رکھنا بہتر ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے شرعی طور پر ولی اور لڑکی دونوں کی رضامندی ضروری قرار دی گئی۔ البتہ اگر اس کی نظرِ انتخاب کسی ایسے شخص پر پڑے جو اس کے خاندان کے مرتبے سے گرا ہوا ہو تو صرف اس صورت میں اس کے اولیا کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔
کمسنی کے نکاح میں اختیار: خیار بلوغ، یعنیاگر کسی لڑکی کا نکاح کمسنی میں کردیاگیا ہو تو وہ شعور کو پہنچ کر اسے برقرار رکھنے یا فسخ کردینے کا اختیار رکھتی ہے۔
خلع کا حق: عورت کو طلاق دینے کا اختیار مرد کو حاصل ہے،تاہم اس کے ساتھ ساتھ ناپسندیدہ اور ناکارہ یا ظالم شوہر سے علیحدگی کے لیے عورت کو خلع اور تنسیخ و تفریق کے وسیع حقوق دیے گئے ہیں۔
نکاح ثانی کا حق: بیوی اور مطلقہ عورتوں اور ایسی عام عورتوں کو جن کے نکاح ازروے قانون فسخ کیے گئے ہوں یا جن کو حکم تفریق کے ذریعے سے شوہر سے جدا کر دیا گیا ہو، نکاح ثانی کا غیرمشروط حق دیا گیا ہے۔ اس امر کی تصریح بھی کر دی گئی ہے کہ ان پر سابق شوہر یا اس کے کسی رشتہ دار کا کوئی حق باقی نہیں۔ یہ وہ حق ہے جو آج یورپ و امریکا کے بیش تر ممالک میں بھی عورت کو نہیں ملا ہے۔
دیوانی اور فوج داری قوانین میں: دیوانی اور فوج داری کے قوانین میں عورت اور مرد کے درمیان کامل مساوات قائم کی گئی ہے۔ جان و مال اور عزت کے تحفظ میں اسلامی قانون عورت اور مرد کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں رکھتا۔
سب سے اہم اور ضروری چیز جس کی بدولت تمدن میں انسان کی منزلت قائم ہوتی ہے اور جو آج مساوات مردو زن کے نعرے کا سب سے بڑا اور اہم پہلو ہے۔ وہ معاشی حیثیت کی مضبوطی ہے۔ ذرا غور فرمایئے کہ اسلام نے عورت کو کمانے کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے بھی معاشی لحاظ سے اسے نہ صرف مرد کے مساوی بلکہ زیادہ بہتر مقام عطا کیا ہے۔
حقِ ملکیت: عورت کی ملکیت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ عورت اپنے مال کی خود مالک و مختار ہے۔ اس کے باپ، اس کے شوہر اور دوسرے قریبی رشتہ داروں کو اس میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ اس ضمن میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اپنے شوہر کے مال پر تصرف کا حق تو اسے دیا گیا لیکن اس کے ذاتی مال پر اس کی اجازت و مرضی اور خوشی کے بغیر کسی کو تصرف کا حق حاصل نہیں۔ وہ تجارت کرسکتی ہے یا کوئی منافع بخش کام۔ اس کے اپنے تصرف میں کوئی دخیل نہیں ہوسکتا۔
نفقہ کی ذمہ داری: عورت بحیثیت بیوی خواہ کتنی ہی مال دار ہو، اُس کا نفقہ بہرحال اس کے شوہر کے ذمے ہے، جو اس کے شوہر کی مالی حیثیت کے اعتبار سے، یعنی بقدر استطاعت طے کیا جائے گا۔ اس بارے میں مرد کی کوتاہی کی صورت میں شرعی عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس کا شوہر نادار اور تنگ دست ہے اور اس کی معاونت کے طور پر وہ اپنا مال اس کے حوالے کرتی ہے تو یہ بہترین صدقہ بن جائے گا۔ اس پر اسے عنداللہ ثواب ملے گا۔ شوہر نہ ہونے کی صورت میں بھی قریب ترین مرد، باپ، بھائی وغیرہ کفالت کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔ اس کو خود اپنے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
حق مہر: بیوی حقِ زوجیت کے طور پر مہر کی مستحق ہے اور مہر کا ادا کرنا فرض ہے۔
وراثت کا حق: اپنے باپ، شوہر، اولاد اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے اسے وراثت ملتی ہے۔ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف اس لیے رکھا گیا ہے کہ عورت کو نفقہ اور مہر کے حقوق حاصل ہیں جن سے مرد محروم ہے اور مرد پر ہر حالت میں اس کی کفالت واجب ہے۔ جب عورت پر وہ ذمہ داریاں نہیں جو مرد پر ہیں تو وراثت میں بھی اس کا وہ حصہ نہ ہونا چاہیے جو مرد کا ہے۔ بیوی خواہ کتنی ہی مال دار ہو، اس کا شوہر نہ تو اس کے مال پر تصرف کا حق رکھتا ہے، نہ اس کے نفقہ سے بری الذمہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح اسلام میں عورت کی معاشی حیثیت اتنی مستحکم ہوگئی ہے کہ بسااوقات وہ مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔ گویا اس میدان میں بھی عورت مرد سے مساوی سے بھی بہتر درجہ رکھتی ہے۔
اب ذرا مقابلہ کیجیے کہ یورپ عورت کو کمانے والا فرد بنا کر بھی اس کو وہ معاشی برابری اور استحکام عطا نہ کرسکا جو اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنا کر معاشی مسئلے سے بے فکر رکھ کے کردیا ہے۔
عورتوں کو نہ صرف دینی اور دنیوی تعلیم سیکھنے کی اجازت دی گئی بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اس قدر ضروری قرار دیا گیا ہے جس قدر مرد کے لیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین و اخلاق کی تعلیم جس طرح مرد حاصل کرتے تھے اسی طرح عورتیں بھی حاصل کرتی تھیں۔ اشراف تو درکنار نبیؐ نے لونڈیوں تک کو علم و ادب سکھانے کا حکم دیا تھا۔ آپؐ کی ازواجِ مطہراتؓ اور خصوصاً حضرت عائشہؓ نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کی بھی معلّمہ تھیں اور بڑے بڑے صحابہ و تابعین ان سے حدیث و تفسیر اورفقہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ پس جہاں تک نفس تعلیم و تربیت کا تعلق ہے، اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان کوئی امتیاز نہیں رکھا ہے، البتہ نوعیت میں فرق ضروری ہے کیوں کہ دائرۂ عمل الگ الگ ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے عورت کے لیے صحیح تعلیم وتربیت وہ ہے جو اس کو بہترین بیوی اور بہترین ماں بنائے اور اس کا دائرۂ عمل گھر ہے۔ اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس کو ان علوم کی تعلیم دی جانی چاہیے جو اس دائرے میں اسے زیادہ مفید بنا سکتے ہیں۔ مزیدبرآں وہ علوم بھی اس کے لیے ضروری ہیں جو انسان کو انسان بنانے والے اوراس کے اخلاق کو سنوارنے والے اور اس کی نظر کو وسیع کرنے والے ہیں۔ ایسے علوم اور ایسی تربیت سے آراستہ ہونے کا حق اسلام نے ہرمسلمان عورت کو دیا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی عورت غیرمعمولی عقلی و ذہنی استعداد رکھتی ہو اور ان علوم کے علاوہ دیگر علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنی چاہے، تو اسلام اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہے بشرطیکہ وہ ان حدود سے تجاوز نہ کرے جو شریعت نے عورتوں کے لیے مقرر کی ہیں۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ جس طرح مردوں پر عائد کیا گیا ہے، اسی طرح اسلام نے عورتوں پر بھی شہادتِ حق کی عظیم ذمہ داری ڈالی ہے اور ان کو اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا، البتہ عورت کے مخصوص دائرۂ عمل کو اس میدان میں بھی ملحوظ رکھا ہے۔ اس کے اُوپر بھی مرد کی طرح اپنوںاور گھروالوں کو حق پر ثابت قدم رکھنے کے ساتھ دیگر افرادِ معاشرہ خصوصاً خواتین کی خیرو صلاح کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اسلامی نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد میں وہ اپنے بھائیوں، باپوں، شوہروں اور بیٹوں کو اس ذمہ داری کے لیے آمادہ کریں، اور اس کے بعد معاشرے میں اقامتِ دین کا فریضہ انجام دیں۔ ثمرہ بنت نہیک کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بازاروں میں گھوم پھر کر بھلائی کا حکم دیتیں اور برائی سے روکتی تھیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں کوڑا ہوتا تھا جس سے وہ لوگوں کو منکر کے ارتکاب پر مارتی تھیں۔ اس معاملے میں خواتین اُمت نے نہ تو رعایا کی پروا کی اور نہ فرماں روائوں اور حاکموں کی۔ ان کے ایمانی جذبات نے جس طرح دین کے کھلے دشمنوں کا مقابلہ کیا، اسی طرح دین کے نام لیوائوں کے تضادِ فکروعمل کو بھی برداشت کرنے سے انکار کر دیا۔ کلمۂ حق کے اظہار میں نہ تو باطل کی بڑی سے بڑی قوت ان کے لیے مانع نہیں اور نہ جابر وسخت گیر حکام کی زیادتی و سختی۔ یہ حق عورت کو اسلام نے ہی دیا ہے۔ گویا شریعت کی بتائی ہوئی اخلاقی حدود کے اندر رہ کر جس طرح مرد تنظیم و احتجاج کی آزادی کا حق رکھتا ہے، اسی طرح عورت بھی برابر یہ حق رکھتی ہے، بشرطیکہ تنظیم سازی اور اجتماع بھلائی کے فروغ اور برائی کے انسداد کے لیے ہو۔
اسلام نے عورت کو خانگی زندگی سے متعلق ضرور کیا ہے مگر اس کی فکروعمل کی دنیا کو محدود نہیں کیا۔ دائرۂ عمل کی تقسیم کے اعتبار سے سیاست، ملکی انتظام، فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے دفاعی، معاشرتی، معاشی اور صنعتی امور مردوں کے دائرے سے تعلق رکھتے ہیں اور اسلام عورت کو معاشرت و تمدن کی دوسری اہم اور ضروری خدمات کے لیے ان جھمیلوں سے الگ رکھنا چاہتا ہے، لیکن اس کے باوجود عورت اگر خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد اپنے حالات، ذوق اور رجحان کے لحاظ سے زندگی کے ُمختلف میدانوں میں حصہ لینا چاہے تو اسلام اسے نہیں روکتا۔ تاہم، اس کے لیے کچھ اخلاقی حدود قائم کرتا ہے جو عین فطرت کے مطابق اور مقصود انسانیت تک پہنچنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ ایک یہ کہ عورت ہر حال میں اپنی حقیقی پوزیشن پر نظر رکھے۔ باہر کی ذمہ داریاں اتنی نہ بڑھائے کہ اس کے اصل خانگی فرائض ادھورے رہ جائیں۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے۔ تیسرے یہ کہ اگر مسلمان عورت اپنے شوہر کی اجازت و رضامندی کے ساتھ گھر سے باہر مختلف تعلیمی و دینی اور سماجی خدمات انجام دے تو یہ حقیقت نظرانداز نہ کرے کہ شریعت نے، اس کے اور اجنبی مردوں کے درمیان اخلاق و قانون کی ایک دیوار کھڑی کر دی ہے۔ چنانچہ وہ باہر نکلے تو مکمل اسلامی قدروں اور پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر۔ اس طرح ایک باصلاحیت خاتون ایک طرف وہ سارے کام کرسکتی ہے جو خاص طور پر عورتوں کے کرنے کے ہیں، اور دوسری طرف وہ پردے میں رہتے ہوئے مختلف سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے۔ یہ دائرے چونکہ عورت کے لیے کلیتاً ممنوع نہیں ہیں اور خود اسلامی ریاست کو بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ عورتوں کے مسائل، ضروریات اور تعلیم و ترقی کے بارے میں مناسب اقدامات کرے، اس لیے شرعی حدود کا احترام کرتے ہوئے اگر خواتین کے ادارے ہرسطح اور ہر پہلو سے جداگانہ ہوں، مثلاً ان کی اپنی تعلیم گاہیں، ہسپتال، یونی ورسٹیاں اور کونسلیں قائم ہوں تو وہ وہاں بھی مرد کے شانہ بشانہ قومی ترقی میں اپنا حصہ مؤثر طریقے سے ادا کرسکتی ہے۔
اسلام نے نہ صرف بنیادی حقوق میں عورت کو فضیلت و برتری عطا کی بلکہ ان حقوق کے غصب ہوجانے کی صورت میں اسے عدل حاصل کرنے کا مکمل حق عطا فرمایا۔ ان حقوق کی حفاظت کے مواقع عطا کرتے ہوئے اسے قانونی چارہ جوئی کا حق مردوں کے برابر عطا کیا کیونکہ اسلامی معاشرہ عورت پر ظلم و زیادتی کو بہرے کانوں سے نہیں سنتا، اور اندھی آنکھوں سے نہیں دیکھتا، بلکہ وہ اس کے حقوق کا پاسبان و محافظ ہوتا ہے اور عدل و انصاف کے لیے اس کی ہر فریاد کا جواب دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
ایک صحابیؓ نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک مال دار شخص سے کر دیا۔ لیکن لڑکی اس شخص کو پسند نہیں کرر ہی تھی۔ اس نے حضوؐر سے عرض کی: میرے والد نے میری شادی اپنے ایک دولت مند بھتیجے سے کر دی ہے تاکہ اپنی کشایش کا سامان کرے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تجھ کو یہ عقد پسند نہیں ہے تو تو آزاد ہے۔ اس نے کہا : میرے والد نے جو اقدام کیا ہے میں اس کو بحال کرتی ہوں، بلکہ میں چاہتی ہوں کہ عورتوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کی مرضی کے خلاف باپوں کو ان کے نکاح کا حق نہیں ہے۔
اسلام نے مردوں کو عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک اور فیاضانہ برتائو کی خصوصی ہدایت کی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(النسآء۴:۱۹) ’’عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتائو کرو‘‘۔ پھر فرمایا: ’’آپس کے تعلقات میں فیاضی کو نہ بھول جائو‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے ہیں اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ لطف و مہربانی کا سلوک کرنے والے ہیں‘‘۔ گویا مرد کے کردار کو جانچنے کے لیے معیار بھی عورت کو بنایا گیا۔
مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ جو حقوق ہر انسان کا بنیادی حق ہیں، ان میں اسلام عورت کو نہ صرف مرد کے مساوی قرار دیتا ہے، بلکہ وہ صرف نسل انسانی کی امین و پرورش کنندہ بن کر مرد سے زیادہ محترم، اس سے تین گنا زائد خدمت کی مستحق، اور اپنے پائوں تلے جنت رکھنے والی ہستی بن جاتی ہے۔
جیساکہ واضح ہوچکا ہے کہ اسلام ایک طرف معاشرتی و اجتماعی دائرے کے اندر مرد و زن کی کامل مساوات کا مدعی ہے، اور کسی پہلو سے بھی مرد کے لیے کسی قسم کی ترجیح تسلیم کرنے کا روادار نہیں ہے، کیونکہ فطرت نہ تو کسی کو زیادہ چاہتی ہے اور نہ کسی سے دشمنی رکھتی ہے۔ لہٰذا اس نے عورت کو عورت کی جگہ رکھ کر اور مرد کو مرد کے مقام پر مساوی درجہ دیا ہے لیکن دوسری طرف معاشرتی نظام میں وہ مرد کو عورت پر ایک درجہ ترجیح دیتا ہے اور اس ترجیح کو نظامِ معاشرت میں توازن قائم رکھنے کے لیے ضروری قرار دیتا ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ (النسآء ۴:۳۴) مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس کی بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔
ترجیح کے اس مسئلے کو سمجھنے سے پہلے آیئے دیکھیں کہ قوام کس کو کہتے ہیں؟
قوام یا قیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا اجتماعی نظام کے معاملات کو چلانے، اس کی حفاظت و نگرانی کرنے اور اس کے لیے مطلوبہ ضروریات فراہم کرنے کا ذمہ دار ہو۔ مرد اِن تینوں معنوں میں قوام یا قیم ہے۔
ایک خاندان سے لے کر ریاست تک پھیلے ہوئے سیکڑوں اداروں میں سے کسی ایک کی نشان دہی کردیجیے جہاں سربراہ اور منتظم اعلیٰ نہ ہو یا ایک سے زائد ہوں اور وہ بالکل یکساں اور مساوی اختیارات رکھنے والے ہوں۔’وحدت‘ اس کائنات ہی کے نظم و انصرام تک محدود نہیں۔ یہ ہرچھوٹے سے چھوٹے انتظامی یونٹ کے لیے بھی ضروری ہے جہاں مساوی اختیارات اور حیثیت کی ثنویت ہوگی وہاں سرے سے کوئی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ ہسپتال، کالج، کارخانے سے لے کر ملک و ریاست تک ہر اجتماعی ادارے میں سربراہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ دوسرے اداروں کی طرح خاندان اور گھر میں جو کہ اجتماعیت کا بنیادی یونٹ ہے، سربراہی کی ضرورت نہ ہو؟
خانگی زندگی کے نظم کو برقرار رکھنے کے لیے بہرحال زوجین میں سے ایک کا قوام اور صاحب ِامر ہونا ضروری ہے۔ اگر دونوں بالکل مساوی درجے اور مساوی اختیارات رکھنے والے ہوں تو بدنظمی کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ جیساکہ فی الواقع ان قوموں میں رونما ہورہی ہے، جنھوں نے عملاً زوجین کے درمیان اس قسم کی مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسلام چونکہ ایک فطری دین ہے، اس لیے اس نے انسانی فطرت کا لحاظ کرکے زوجین میں سے ایک کو خاندان کا سربراہ اور سرپرست مقرر کیا ہے اور یہ حیثیت مرد کو دی ہے۔ مرد کے قوام اور ایک درجے اُوپر ہونے کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنے خاندان کا منتظم اور کفیل ہے اور حضوؐر کی ایک حدیث کے مطابق اُس سے اس ذمہ داری کے سلسلے میں خدا کے ہاں بازپُرس ہوگی۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے مرد حاکم اور عورت محکوم بن گئی؟ کیا مرد آقا اور عورت لونڈی بن گئی اور اس کے عزت و احترام میں فرق آگیا؟
اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ کیا وہ اجتماعی ادارے جہاں مرد مردوں کے سربراہ اور قوام ہیں، کیا وہاں مرد مردوں کے غلام ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہ معاملہ صرف عورت ہی کے ساتھ کیوں اُلٹ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں تک عزت و احترام کا تعلق ہے، اس کا ’مساواتِ فرائض‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ پرائمری سکول کا ایک مشفق اور ایمان دار استاد ڈپٹی کمشنر سے زیادہ لائق احترام ہے، حالانکہ وسائل، اختیارات اور عہدے کی شان و شوکت کے لحاظ سے ان دونوں کے درمیان کوئی مساوات نہیں۔ کسی کے زیرکفالت ہونا بھی کوئی تحقیر و تذلیل کی بات نہیں۔ اگر بچوں اور نوجوان اولاد کی عزتِ نفس یہ کہنے سے مجروح نہیں ہوتی کہ ان کا باپ ان کا کفیل ہے یا ضعیف والدین اپنے بچوں کے زیرکفالت آکر ذلیل و خوار نہیں ہوتے، تو عورت کے لیے محض یہ بات کہ مرد اس کا کفیل ہے کیونکر وجۂ ندامت و شرمندگی ہے۔ وہ کیوں اس فکر میں مبتلا ہوگئی ہے کہ شوہر کی طرح جب تک معاشی سرگرمیوں کا بار نہ اُٹھائے اسے مساوی حیثیت اور عزت حاصل نہیں ہوسکتی۔
مرد کو قوام بنانے کی وجوہات خود شریعت ہی واضح کرتی ہے، جو یہ ہیں:
یہ دائرۂ عمل عین اس کی فطرت کے مطابق ہے۔ چنانچہ خدا نے مرد کو قوام بناکر عورت کا معاشی کفیل بنا دیا اور اس کی عزت و ناموس کے تحفظ اور جملہ ضروریات کی فراہمی کا ذمہ دار بناکر عورت کو خود دوسرے عظیم تر مقصد کی تکمیل کے لیے فارغ کر دیا۔ اس کا اصل کام نسلِ انسانی کی امانت کو سنبھالنا، خونِ جگر سے اسے پروان چڑھانا، تعلیم و تربیت دینا اور یوں انسانی معاشرے کو اس کا سب سے قیمتی سرمایہ مہیا کرنا ہے۔ اسی خدمت نے اسے عظمت کے اس مقام پر پہنچایا کہ جنت اس کے قدموں تلے اور باپ کے مقابلے میں تین گنا زائد خدمت کا حق دار ٹھیرایا۔ یہ مقام اس ’مساوات‘ سے بہت بلندوبالا ہے، جس کے لیے آج اس عظیم ہستی کو دوڑایا جا رہا ہے۔
وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ (النسآء ۴:۳۴) اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔
یعنی مرد پر خاندان کے لیے روزی کمانے اور ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے اور سواے کسی استثنائی صورت کے خاندان کی کفالت کا بوجھ مرد اُٹھاتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے وہی اس بوجھ کے اُٹھانے کے لائق ہے۔ بیوی بچوں کے نفقے کا قانونی ذمہ دار مرد ہی ہے، عورت نہیں۔ اس لیے مرد ہی اس بات کا سزاوار ہے کہ اس ذمہ داری کی نسبت اس کو سربراہ یا قوام کا حق بھی دیا جائے۔
جدید تحقیقات نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ عورت کا دماغ مرد کے دماغ سے چھوٹا ہے (مولانا محمد ظفیرالدین، اسلام کا نظامِ عفت و عظمت، ص ۲۴۷)۔ پھر عورت ہر حال میں یکساں توانا اور تندرست نہیں رہتی۔ اس پر زندگی میں کچھ زمانہ ایسا گزرتا ہے جس میں وہ بڑی حد تک بیکار ہوجاتی ہے اور دوسرے کی امداد و اعانت کی محتاج رہتی ہے۔ میری مراد حمل، رضاعت، بچوں کی تربیت اور حیض و نفاس کے زمانے سے ہے۔ جذبات کی فراوانی، حیا و حیات کی نزاکت، انتہاپسندی کی جانب میل اور التفات عورت کی فطرت ہے اور یہ نسائیت کے لیے عیب نہیں، اس کا حُسن ہے۔ اس سے جو کچھ بھی فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے، فطرت پر قائم رکھ کر ہی اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اس کو مردوں کی طرح سیدھا اور سخت بنانا اس کو توڑنے کے مترادف ہے۔
چنانچہ شریعت اسلامی نے اس کی ان کمزوریوں کو صرف تسلیم ہی نہیں کیا ہے بلکہ زندگی کے ہرپہلو میں ان کی رعایت کی ہے۔ چونکہ دنیا میں کام ایک طرح کے نہیں ہوتے۔ چھوٹے بڑے، اہم اور غیراہم ہرطرح کے ہوتے ہیں۔ ان کے انجام دینے کے لیے اسی نوعیت کی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں اور مرد ذہنی و جسمانی توانائیوں میں عورت سے مضبوط ہوتا ہے۔ وہ زیادہ قوی و توانا ہوتا ہے۔ غیرجذباتی اور مستقل مزاج ہوتا ہے، اور عورت کے برعکس عام طور پر یکساں ایک جیسی حالت میں رہتا ہے۔ اس لیے اس کو قوام بنا کر اس کو وہی کام دے دیے جو اس کی فطرت اور صلاحیتوں کے مطابق تھے، مثلاً بیرونی ذمہ داریاں، معاشی بوجھ، دفاع اور حکومت کے فرائض وغیرہ۔
غور کیجیے یہ تمام وجوہات عین فطرت کے مطابق ہیں، عورت کی بھی اور مرد کی بھی۔ یہ فطرت خالق کی عطاکردہ ہے۔ کسی صنف نے خود اسے حاصل نہیں کیا۔ اسی طرح فضیلت کے حصول میں مرد کی اپنی کسی کوشش یا خواہش کا کوئی دخل نہیں۔ یہ خالق کائنات کی اپنی اسکیم ہے، جس کے تحت اس نے مرد اور عورت کے درمیان یہ درجہ بندی کی ہے۔ اس پر اعتراض کرنے اور اس کے خلاف چیخنے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم قدرت کی اس تقسیم سے راضی نہیں ہیں۔ لہٰذا اب اگر کسی ناقص العقل کو اس ترجیح اور تقسیم پر اعتراض ہو تو اسے کم عقلی ہی کہا جاسکتا ہے۔
یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ قدرت کی اس تقسیم کے خلاف جب بھی انسان نے کوئی کام کیا وہ تباہ و برباد ہی ہوا۔ عورت نے خالق کی تقسیم کے مطابق ایک مرد کی خدمت کو محکومی سمجھا تو وہ ایئرہوسٹس، ٹیلی فون آپریٹر، پرائیویٹ سیکرٹری، اور مزدور کی حیثیت سے ہر جگہ سیکڑوں مردوں کی محکوم بن گئی۔ پارلیمنٹ ہو یا بنک، سیاسی جماعتیں ہوں یا ٹریڈ یونینیں، تنظیمیں، دفاتر ہوں یا کارخانے، وزارتِ دفاع ہو یا وزارتِ داخلہ، عام کاروباری ادارے ہوں یا ڈیپارٹمنٹل سٹور جیسی وسیع دکانیں، ہے کوئی ایسی جگہ جہاں عورت کی بالادستی توکجا، اس کی مساوی حیثیت بھی تسلیم کی گئی ہو؟ جو عورت صرف اپنے شوہر کا بستر بچھایا کرتی تھی وہ اب بڑے بڑے ہوٹلوں، کلبوں اور تفریحی مقامات پر سیکڑوں اجنبی مردوں کے بستر آراستہ کرتی ہے۔ جو اپنے ایک شوہر اور بچوں کو انس و محبت کی فضا میں کھانا کھلاتی تھی وہ اب ہوٹلوں اور کلبوں کی میزوں پر ہزاروں مردوں کو کھانا کھلاتی، شراب پلاتی اور ان کی جھڑکیاں سنتی ہے۔ ان کے فحش بے ہودہ کلمات کا نشانہ بنتی ہے۔ ان کے ہاتھوں اپنی آبرو لٹاتی ہے اور عزت و احترام کے بجاے ذلت و خواری اس کا مقدر بنتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یورپ نے اور اس کی اندھی تقلید کرنے والوں نے عورت کو دیا تو کچھ نہیں، البتہ اس سے سب کچھ چھین لیا۔ اس کا گھر، اس کا سکون، اس کی عزت و آبرو، اس کا حُسن، اس کا جسم اور اس کی توانائیاں___ اس کا زبردست استحصال کیا اور اسے ظلم کی چکی میں پیس ڈالا۔ اسے ’حقوق‘ کے نام پر بیوقوف بنایا گیا۔ وہ فریب خوردگی کا شکار بن کر اپنی آبرومندانہ زندگی اور مقدس و محترم حیثیت کھو بیٹھی ہے۔ عورت کو ذلت و پستی میںدھکیلنے اور کفالت کے تمام سہاروں سے محروم کر کے اپنی روزی آپ کمانے کی مصیبت میں مبتلا کرنے کی ابلیسی تدابیر نے جس پُرفریب نعرے کے جلو میں اسے آگے بڑھایا ہے وہ ’مساوات مردو زن‘ ہی کا نعرہ ہے۔
بلاشبہہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جو آج سے چودہ سو سال قبل خالق کائنات نے محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک مساواتِ مرد وزن کا قاعدے اور کلیے کی طرح اٹل قانون پہنچادیا کہ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ، ’’جس طرح کے حقوق مردوں کے عورتوں پر ہیں، اس کے مثل خود عورتوں کے مرد پر ہیں‘‘، وہی قانون درحقیقت مساوات کی بنیاد اور اعلان ہے۔ اب بھی اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہو کہ مرد کی قوامیت سے عورت کے حقوق غصب ہوگئے ہیں تو مندرجہ بالا بنیادی حقوق میں سے ہر ایک کو باری باری لے لیجیے، اور اُوپر کے مباحث کی روشنی میں مردوں کے ساتھ تقابل کرلیجیے۔ اگر آپ تعصب اور خود فریبی میں مبتلا نہیں ہیں تو آپ لازماً پکار اُٹھیں گے کہ بلاشبہہ صرف اسلام ہی ایسا دین اور ضابطہ ہے جس نے عورتوں کو مردوں سے کہیں زیادہ حقوق عطاکیے ہیں۔ ہاں، مرد قوام ہونے کی حیثیت سے بلاشبہہ عورت سے بلند تر ہے لیکن فرائض کے معاملے میں۔
حقوق مرد و زن کے بارے میں اپنے دین سے جامع اور مکمل قانون پالینے کے بعد اور حقوق مرد وزن میں ایسی متوازن مساوات جان لینے کے بعد بھی ایک سوال چبھن کی طرح ذہن کی وادی میں کھٹکتا رہتا ہے کہ قرون اولیٰ کی چند صدیوں کے علاوہ عورت مظلوم کیوں رہی؟ دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہندستان میں مسلمانوں کے دورِ حکومت میں عورت کو کون سا ’عالی مرتبہ‘ بخشا گیا، اور آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورت کو کون سے مساوی حقوق دیے جارہے ہیں۔
اس سوال کا جواب بے حد آسان ہے۔ اگر چشم بینا استعمال کی جائے سب سے اہم اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت اور اسلامی حکومت بدقسمتی سے یہ دو الگ الگ اصطلاحات ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ جو مسلمانوں کی حکومت ہو، وہ عین اسلامی بھی ہو۔ مسلمانوں کے عہدِحکومت میں کہیں مغربیت غالب رہی اور کہیں مشرقیت۔ اور ایسی رسوم ورواج معاشرے میں پروان چڑھیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ عورتوں کے حقوق کا مسئلہ بھی شومئی قسمت سے اسی سلوک سے دوچار ہوا اور اس بُری طرح مسخ ہوا کہ اس میں اور اصل اسلامی قانونِ ازدواج میں ایک بہت ہی دُور کی مشابہت باقی رہ گئی۔ اب شرعِ اسلامی کے نام سے مسلمانوں کے ازدواجی معاملات میں جو قانون نافذ ہے وہ نہ صالح ہے نہ جامع اور نہ مکمل۔ اس کے نقائض نے مسلمانوں کی تمدنی زندگی پر اتنا بُرا اثر ڈالا ہے کہ شاید کسی دوسرے قانون نے نہیں ڈالا۔
اگر ایک اسلامی حکومت بھی یوتھ فیسٹیول اور کھیلوں کی نمایش اور ڈراموں اور رقص و سُرود اور مقابلۂ حسن میں مسلمان عورتوں کو لائے، یا ایئرہوسٹس بناکر مسلمانوں کے دل موہنے کی’ خدمت‘ دیتی ہے، توہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کہاں کی اسلامی حکومت ہے، اور پھر کفر اور کفار کی حکومت اور اسلامی حکومت میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ لہٰذا عورت اگر مظلوم رہی ہے یا ہے تو اس کی قطعی اور واحد وجہ یہ ہے کہ اس ٹوٹی پھوٹی اور خستہ حالت میں بھی اسلام جہاں اور جب بھی رہا ہے وہاں کی عورت کی حالت غیرمسلم معاشرے کی عورت سے بدرجہا بہتر رہی ہے۔ آج پاکستان میں عورت کی کتنی ہی گئی گزری حالت سہی، لیکن وہ یورپی عورت سے کئی درجے بہتر مقام پر ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سمجھ لیجیے کہ جہاں اسلام نافذ نہیں ہے، اسلامی نظام و قانون رائج نہیں ہے وہاں صرف عورت ہی نہیں مرد بھی مظلوم ہے۔ آپ جہاں کہیں بھی رہتے ہوں اردگرد کے گھرانوں پر نظر ڈال کر دیکھیے کہ مظلوم عورتوں اور مظلوم مردوں کی تعداد کا تناسب کیا ہے، اور کولہو کے بیل پر خود اپنے گھر میں کیا بیت رہی ہے؟
عورت کی مظلومیت کا اصل دائرہ وہ ہے جہاں اسے اسلام کے عطا کردہ حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے اور جہاں مرد خدا اوررسولؐ کے مقرر کردہ حقوق ادا نہیں کرتے۔ معاشی کفالت، مہر، نفقہ اور وراثت جیسے حقوق ادا نہیں کرتے۔ انھیں تعلیم و تربیت کے ایسے مواقع اور ایسے جداگانہ ادارے فراہم نہیں کرتے جہاں وہ اپنی فطرت، صلاحیت اور دائرہ عمل کے مطابق آزادی سے علم حاصل کرسکیں، ان پر تشدد کرتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر تین طلاقیں دے مارتے ہیں۔ علیحدگی کی صورت میں ان کا مال غصب کرلیتے ہیں اور اس حق تلفی پر اسے انصاف بھی نہیں دیتے۔
یہ ساری صورتیں ظلم کی ہیں اور جو عورت یا مرد اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں، تحریک چلاتے ہیں، تنظیم قائم کرتے ہیں، وہ سب کارِثواب انجام دیتے ہیں۔ ہر صاحب ِ ایمان کے لیے ان سے تعاون کرنا واجب ہے۔ اسلام کے عطا کردہ ’حقوق‘ کی بازیابی کے لیے ایسی ہر تنظیم کی جدوجہد میں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن حقوق کے نام پر ایک ’عیار گروہ‘ اگر عورت کی مظلومیت کے پردے میں ہماری خواتین کو مغرب کی عطاکردہ ’آزادی‘ کے رنگ میں رنگنا اور خاندان کی وحدت کو توڑ کر، تمدن کو برباد کر کے اس کو اپنی مخلوط محفلوں کی رونق بنانا چاہتاہے___ اس سے ہماری کھلی لڑائی ہے۔ اس لیے کہ اگر کوئی شخص یا گروہِ قرآنی ضابطے کے خلاف قدم اُٹھاتا ہے تو وہ خدا کی عطاکردہ عزت و احترام کو چیلنج کرتا ہے، اور ایک ایسے قانون پر حرف گیری کا مرتکب ہوتا ہے جس کا ایک ایک شوشہ تنقید سے بالاتر ہے اور جس کے ہر ہر حرف پر حق و صداقت کی مہر ثبت ہوچکی ہے۔
مندرجہ بالا عقلی دلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہوگیا کہ اسلام کے عطا کردہ حقوق مرد وزن کے مابین عین عدل و مساوات پر مبنی ہیں اور تجربے سے بھی یہ نتائج ظاہر ہوچکے ہیں کہ جب اور جہاںان اصول و قوانین سے رُوگردانی کی گئی، قوم کے اخلاق و تمدن پر روح فرسا اثرات مرتب ہوئے اور قوم تباہی کے گڑھے میں جاگری۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی قوانین علم، عقل، تجربے، مشاہدے، غرض ہرمعیار پر عین پورے اُترتے ہیں۔
اے اسلام کی دعوے دار میری بہنو! کیا آپ تجربے کی بنیاد پر اسلام کی حقانیت کو مانتی ہیں؟ کیا آپ کی نظر میں تجربات و مشاہدات اور دلائل کا وزن خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مقابلے میں زیادہ ہے؟ اگر آپ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان کے دعوے میں سچی ہیں تو پھر آیئے ___ قرآن پر فیصلہ کرلیں، اور آج یہ اعلان کردیں کہ ہمیں شریعت کا ہر حکم قبول ہے!
مقالہ نگار تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں اور نائب ناظمہ حلقہ خواتین پنجاب ہیں