روس یورپ کا سب سے بڑ ا ملک ہے۔ اسے کمیونزم کی پہلی سرکاری تجربہ گاہ ہونے کا ’شرف ‘ بھی حاصل ہے ۔ ۱۹۹۱ء سے قبل یہ سوویت یونین (USSR) کہلاتا تھا۔ گرم پانیوں تک پہنچنے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جب اس نے افغانستان کا رخ کیاتو عملًا اس کی منزل بحرِ ہند اور بحیرہ عرب پر واقع پاکستان اور دیگر ہمسایہ مسلم ممالک کے ساحل تھے۔ افغانستان کی طویل تاریخ نے ہردور میں اور ہر مرتبہ جارح قوتوں کے بارے میں جوفیصلہ کیاتھا دورِجدید کی تاریخ نے ایک بار پھر اس کا منظر دیکھ لیا۔ سوویت یونین اپنی ساری اندھی طاقت کے باوجود افغان مجاہدین کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ شکست محض افغانستان کی سرزمین تک ہی محدود نہ رہی ، دریاے آموکے اس پار بھی تمام مقبوضہ ریاستیں افغان مجاہدین کی ضرب کاری کے نتیجے میں روس کے چنگل سے نکل کر آزادی سے ہم کنار ہوگئیں ۔ پھر ساری دنیا نے بچشمِ حیرت دیکھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے وسط ایشیا ہی نہیں پورا مشرقی یورپ جو روس کے پنجۂ استبداد میں جکڑا ہوا تھا ، بھی انگڑائی لینے لگا۔ اس جبریت کی مالا یوں ٹوٹی کہ سارے دانے بکھرگئے ۔ ظلم و بربریت کے بہت سے مظاہر شکست و ریخت سے دوچار ہوئے ۔ جرمنی کی دیوار برلن بھی ٹوٹ گئی ۔ سابق سوویت یونین/ روس کی آبادی ۲۵،۲۶ کروڑ سے گھٹ کر ۱۳ کروڑ پرآگئی اور اس کا جغرافیہ بھی آدھے سے کچھ کم ہو کر اس کے فولادی ہاتھوں سے نکل گیا ۔
کمیونزم کے پون صدی پر محیط استبدادی دور (۱۹۱۷ء تا ۱۹۹۱ئ) کے دوران اس کی سرحدوں کے اندر اسلام کا نام لینا ممنوع تھا ، مسجدیں مقفل تھیں اور وسط ایشیائی ریاستوں کی مسلمان آبادیاں آزادی سے نئی نسلوں تک کلمہ توحید پہنچانے کے قابل نہیں رہی تھیں ۔ والدین راتوں کو چھپ چھپاکر اپنے گھروں کے بند کمروں میں سرگوشی کے اندازمیں اپنے چھوٹے بچوں کو کلمہ او رنماز پڑھاتے تھے ، مگریہ تھے ہی کتنے ؟ یوں سمجھیں آٹے میں نمک کے برابر۔ لینن ، سٹالن اور ان کے جانشینوں نے یکے بعد دیگرے ، بظاہر سوویت یونین سے مذہب، بالخصوص اسلام کو دیس نکالا دے دیا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام مرجھاجانے والا پودانہیں بلکہ انتہائی سخت جان اور اپنی بقا کے لیے ہمہ تن فکر مند، مضبوط ترین جڑوں پر کھڑا وہ تنا ور درخت ہے کہ جس کی کوئی شاخ سوکھ بھی جائے تو اس کے تنے سے نئی شاخیں او رشگوفے پھوٹنے لگتے ہیں ۔سٹالن نے بڑے طمطراق سے کہا تھا کہ ہم نے ’روایتی خدا‘ کو روس کی سرحدوں اور فضاؤں سے نکال باہر کیا ہے۔ خروشیف نے اپنے دور میں بڑہانکتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہوا بازوں نے آسمان کی بلندیوں اور فضاکی پہنائیوں میں جاکر مشاہدہ کیا ہے کہ مذہبیت کے علَم برداروں کا خد ا کہیں موجود نہیں ۔ یہ اور ایسے سب کفریہ کلمات خالق کائنات اپنے بڑے ظرف کی وجہ سے برداشت کرتا ہے ،مگر اس کی پکڑ آنے کے بعد یہ کفر بکنے والے پانی کے ایک بلبلے سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ہرزہ سرائی کرنے والے مغرور شیطان ہر دور میں فنا کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں اور حقیقت و صداقت اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنا وجود برقرار رکھتی ہے ۔
جہاد ِافغانستان کے دور میں اسلامی لٹریچر آہنی دیواروں کو توڑ کر روسی سرزمین میںداخل ہوگیا تھا ۔ اس زمانے میں جب یہ رپورٹس نظر سے گزرتی تھیں تو بہت سے لوگ انھیں غیر مستند اور اکثر اسے مبالغہ آرائی سمجھتے تھے ۔آج کے روس میں تازہ ترین اعدادو شمار اور عالمی میڈیا پر آنے والے حقائق چشم کشا بھی ہیں اور ربع صدی پرانی ان رپورٹوں کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔ آج روس کے دارالحکومت ماسکو کا ایک منظر مقامی مسلمانوں کی مشکلات اور مسائل کے باوجود بہت ہمت افزا اور حوصلہ بخش ہے ۔ اس ضمن میں حال ہی میں ماسکو سے ایک تجزیہ نگار ماریہ پانینا (Maria Panina) کا تجزیہ سامنے آیا ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ ماسکو شہر جس کی کل آبادی ایک کروڑ ۵لاکھ ہے، میں مسلمانوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۲ لاکھ ہے ۔ تاہم ان سرکاری اعداد وشمار کو مسلمانوں کی مؤثر قومی تنظیم کونسل آف مفتیان (Council of Muftian )نے مسترد کیا ہے اور انھوں نے مسلمانوں کی تعداد ۲۰ لاکھ قرار دی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہو ا کہ روسی دارالحکومت ماسکو میں مسلمان کم وبیش ۱۸، ۱۹ فی صد ہیں ۔ یہ یورپ کی تمام آبادیوں میں مسلمانوں کا سب سے بڑا تناسب ہے ۔ اسلام کو ختم کردینے کا اعلان کرنے والے کس قدر جھوٹے اور لغو دعوے کرتے رہے تھے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار بھی خود اس پر تبصرہ کرنے کے لیے کافی و شافی ہیں۔ ان کے مطابق بھی مسلمان ماسکو کی آبادی کا ۱۲ بارہ فی صد تو ہیں!
ماسکو کے مسلمانوں کااس وقت ایک بہت بڑ ا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں مساجد بنانے کی آزادی حاصل نہیں ہے ۔ ماسکو جیسے اتنے بڑے شہر اور اتنی بڑی مسلم آبادی کے لیے صرف چار مساجد ہیں۔ ان کے علاوہ مسلمان کئی چھوٹی موٹی جگہوں پر کسی نہ کسی طرح نماز کا اہتمام کرتے ہیں مگر چار جامع مساجد کے سوا کہیں نماز جمعہ ادا نہیں کرسکتے ۔ ماسکو کی سب سے بڑی مسجد سوبرنایا (Sobernaya) میں جمعہ کے روز ہزاروں کی تعداد میں نمازی آتے ہیں مگر مسجد اپنی وسعت کے باوجود تنگ پڑ جاتی ہے ۔ مسجد میں نماز یوں کو جگہ نہیں ملتی تو وہ مسجد سے ملحق گیلریوں ، دفاتر اور راہداریوں کو بھر لیتے ہیں۔ اس کے بعد باقی ماندہ لوگ مسجد سے ملحق سٹرکوں اور پارک میں صفیں بنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ جامع مسجد کے نمازیوں میں ہر عمر کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ایک نمازی عبداللہ ہاشم ابراہیم ( ابراہیموف) کی عمر ۳۰ سال ہے ، اس نے اس مسئلے پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میںباقاعدہ اس مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لیے آتا ہوں ۔اگر میں ذرا سا بھی لیٹ ہوجاؤں اور اذان کے قریب پہنچوں تو مجھے نماز پڑھنے کے لیے کہیں جگہ نہیں ملتی ۔ میںمایوس ہوکر مسجد کے باہر کوئی جگہ تلاش کرتا ہوں ۔ ہم نے مسجد کی توسیع کے لیے باقاعدہ درخواست بھی دے رکھی ہے ، مگر اس میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔
ماریہ پانینا کے بقول: ایک نمازی عاشور اشرف (عشورؤف ) کی عمر ۶۰ سال سے زائد ہے ، اس نے اپنے سرکے سفید نقرئی بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس قدر زیادتی کی بات ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے ہمیں عبادت کی جگہ دینے میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ نمازِ جمعہ ہمارے دین میں بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ مسلمان اس فرض کی ادایگی کے لیے جوق در جوق مساجد کا رخ کرتے ہیں مگر یہاں پہنچ کر بہت سے نمازیوں کو مایوسی ہوتی ہے کہ مسجد میں جگہ ہی نہیں رہی۔ برف باری ہورہی ہو یا شدید طوفانی بارش ہم پورے شوق کے ساتھ اللہ کے گھر کی طرف آتے ہیں۔ مسجد کی توسیع کا مطالبہ کرکے ہم بھیک نہیں مانگتے، یہ ہمارا بنیادی شہری حق ہے ۔ انتظامیہ کو ہمارے اس مسئلے کو سرخ فیتے کے ذریعے روکنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
اس جامع مسجد کے امام اور خطیب روس کے بڑے معروف عالم دین ہیں۔ ان کا نام حضرت مولانا علاؤ الدین (علاؤ دینوف) ہے ۔ انھوں نے اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس مسجد کی توسیع کے لیے باقاعدہ رسمی کارروائی مکمل کی گئی ہے ۔ اس میں کسی قسم کا کوئی قانونی سقم نہیں ، لیکن چونکہ روس میں ہر جائز مطالبہ بھی رشوت کی آلودگی کا شکار ہو جاتا ہے ، اس لیے ساری کاروائی مکمل ہوجانے کے باوجود محض ایک بیوروکریٹ فائل پر سانپ بنا بیٹھا ہے ۔ اسے رشوت چاہیے، بھلا مسجد کی تعمیر وتوسیع میں ہم رشوت دیں؟‘‘
روس میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جہاں مسلمانوں کو پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل ہوئے وہیں قوم پرست عناصر نے بھی خوب پر پرزے نکالے ۔ وہ قوم پرستی کی عصبیت کو اتنا بھڑکاتے ہیں کہ یہ کئی مقامات پر نسلی فسادات کا سبب بن جاتی ہے ۔ امام علاؤ الدین نے اپنے ایک بیان میںکہا کہ ہماری بڑی مساجد کو توسیع کی حقیقی ضرورت ہے ، مگر ہم محض اس پر اکتفا نہیں کریں گے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر کاؤنٹی اور مسلمان آبادی کے ہریونٹ میں لازماً ایک مسجد ہونی چاہیے ۔ سوبرنایا جامع مسجد کے ارد گرد بسنے والی آبادی کو بھی نسل پرستوں نے خوب بھڑکایا ہو اہے ۔ ان انتہا پسندوں کے ایک لیڈر میخائل بطریموف نے مسجد کی توسیع کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت تو ہم مسجد کے گرد و نواح میں اپنے پالتو کتے، بلیاں لے کر خوب سیر سپاٹا کرلیتے ہیں ۔مسجد کے سامنے کھلی جگہ پر ہم باربی کیو، روسٹ اور کباب پارٹیاں بھی کرلیتے ہیں ۔ مسجد کی مزید توسیع ہوگئی تو ہم اس آزادی سے محروم ہوجائیں گے ۔کسی دن خطیب صاحب یہ بھی کہیںگے کہ یہاں تم گوشت روسٹ نہ کیا کرو کیونکہ ہمارے گوشت میں سب سے بڑا جز خنزیرہے اور ان اماموں کو پتا نہیں خنزیر سے کیوں شدید نفرت ہے‘‘۔ علامہ اقبال نے تقریباً ایک صدی قبل ابلیس کی زبانی یہ اعتراف کر ایا تھا کہ اسے مستقبل میں کسی اور سے کوئی خطرہ نہیں، صرف اسلام سے ہے۔ اسلام دراصل عمل کا نام ہے اور مسلمان جب عمل کی طرف مائل ہوتا ہے تو پھر وہ ناقابلِ شکست ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ابلیس نے کہا تھا:
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار ، آشفتہ مغز ، آشفتہ مُو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے
مزدکیّت فتنۂ فردا نہیں، اسلام ہے
قوم پرستوں کی حامی ایک این جی او جس کا مرکز ماسکو میں ہے ، سووا (SOVA )کے نام سے رجسٹرڈ ہے ۔ یہ خود کو تھنک ٹینک کے نام سے پیش کرتی ہے اور اپنے سروے اور تجزیے اسلام مخالف لوازمے کے ساتھ پبلک میں عام کرتی رہتی ہے ۔اس گروہ نے مسجد کے علاقے میں اپنا انتخابی امیدوار بھی میخائل بطریموف کو بنا رکھا ہے ۔ وہ اس علاقے ہی میں نہیںہر اس علاقے میں جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے، انتخابات میں کاغذات ِنامزدگی داخل کروا دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان یا ان کا کوئی غیر مسلم ہمدرد کامیاب نہ ہوجائے ۔ ماسکو میں ایک جانب مقامی مسلمان ہیں اور دوسری جانب وسط ایشیائی ریاستوں میں سے بھی ہر ریاست کی نمایندگی کرنے والی آبادی یہاں مقیم ہے ۔ مسلمان اور قومیت پرست ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔
کمیونسٹ خاصے منتشر اور ایک لحاظ سے غیرفعال ہوگئے تھے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے بعد سے اب تک حکومتی سطح پر بھی اور کمیونسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے بھی اشتراکی ریاست کے بانی ولاڈی میرلینن کی سالگرہ اور برسی، نیز بالشویک انقلاب کا تاریخی دن منانے کی رسم تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ ۲۰ برس کے وقفے سے اس سال پہلی مرتبہ سات نومبر کو لینن کی کامیابی کی ۹۳ویں سالگرہ منائی گئی ہے۔لینن نے ۲۵؍اکتوبر۱۹۱۷ء کو زارِ روس کے محل ونٹرپیلس سینٹ پیٹرزبرگ میں داخل ہوکر بالشویک انقلاب کا اعلان کیا تھا۔ بعد میں روس کا کیلنڈر بدلا گیا تو اس انقلاب کی تاریخ ۷ نومبر قرار پائی۔ اس سال پھر کمیونسٹوں نے ماسکو میں ایک ریلی نکالی اور ۷نومبر کو اپنے فعال ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ (روزنامہ نیوز، لاہور، بحوالہ اے ایف پی، ۸نومبر۲۰۱۰ئ)
ماسکو کے اس معاشرتی و مذہبی تناظر میں مسلم کمیونٹی، قومیت پرست روسی اور کمیونسٹ بلاک سبھی اس وقت ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اس ماحول میں بعض غیر مسلم این جی او ز بھی سرگرم عمل ہیں جو غیر جانب داری سے اپنا نقطۂ نظر پیش کردیتی ہیں ۔ ایسی ہی ایک این جی او جو عالمی سطح پر معروف ہے ، ماسکو کارنیگی سینٹر کے نام سے رجسٹرڈ ہے ۔ اس کے ایک تھنک ٹینک الیکسی مالا شنکوف نے ایک تازہ رپورٹ میں اپنا تجزیہ پیش کیا تواس میں کہا کہ ماسکو کی مقامی آبادی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ماسکوعام قسم کی کوئی چھوٹی موٹی بلدیہ نہیں بلکہ کاسموپولیٹن شہر ہے جہاں کم و بیش دنیا کی ہر نسل اور تمام مذاہب کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ تشدد اور عدم برداشت کا رویہ کسی صورت بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ تمام نظریات کی حامل آبادیاں اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرسکتی ہیں ۔ اس کی مخالفت تنگ نظری اور تعصب کے سوا کچھ نہیں کہلاسکتی ۔ ایک غیرمسلم اور غیر جانب دار این جی او کا یہ نقطۂ نظر ہماری راے میں یقینا خوش آیند ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ اگر ماسکو کے مسلمان خود بیدار اور منظم نہ ہو چکے ہوتے تو کوئی این جی او اور تھینک ٹھینک ان خیالات کا اظہار نہ کرتا۔
پوری دنیا میں بے شمار تھنک ٹینکس اور این جی اوز سرگرم عمل ہیں مگر ان میں غیر جانبدار اور غیر متعصب بہت کم ہیں۔ غیر مسلم دنیا میں ایسے بیش تر ادارے مسلسل یہ منفی واویلا کررہے ہیں کہ اسلام جیسا خطر ناک مذہب دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس میںشک نہیں کہ قبولیت ِاسلام اور مسلم آبادیوں کی افزایش روز افزوں ہے ، مگر غیر مسلم اور متعصب حلقوں کو جو چیز قدرے سکون فراہم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان کہیں بھی حتی کہ آزاد مسلمان ملکوں میں بھی آزادانہ فیصلے نہیں کرسکتے ۔وہ غیروں کے محتاج اور دست نگر ہیں ۔ ان اسلام دشمن عناصر کو یہ بھی معلوم ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بلا شبہہ بڑھ رہی ہے مگر اسلام کے حقیقی ، انقلابی پیغام کو اپنا دستور حیات بنانے والے تعداد میں نسبتاً بہت کم ہیں ۔ اس سارے کچھ کے باوجود علامہ اقبالؒ کے بقول کسی وقت بھی یہ شیر پھر ہوشیار ہوگا اور کفر کی بالادستی کو تہہ و بالا کردے گا، جس طرح ماضی میںاس نے دنیا کی نام نہاد سوپر پاور روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا۔ آج اگرچہ بظاہر گھٹاٹوپ اندھیرے ہیں مگر روشنی اور اُمید کی کرنیں بھی پھوٹ رہی ہیں اور کہیں سے یہ صدا ضرور سنائی دے رہی ہے ؎
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا