دسمبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

توہین رسالتؐ کا مقدمہ

خرم مراد | دسمبر ۲۰۱۰ | تذکیر

Responsive image Responsive image

شیطان کا ابن آدم کو چیلنج ہے کہ وہ دائیں اور بائیں اور سامنے اور پیچھے سے حملہ آور ہوگا اور اللہ کے مخلص بندوں کے سوا ہر کسی کو اپنے جال میں پھنسا لے گا۔ ایک ہی مقصد کے لیے اور ایک ہی ہدف پر بار بار حملے کرنا بھی شیطان کے طریق کار کا تیر بہدف ہتھیار ہے۔ ہٹلر کے وزیراطلاعات گوبلز نے بھی شیطان کے اس کھیل کا ایک پہلو اپنے اس حربے کی شکل میں بنالیا تھا کہ ایک جھوٹ کو اتنی بار دہرائو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔ آج کی استعماری قوتیں اور ان کے  آلۂ کار انھی تمام حربوں کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور ان کا ایک خاص نشانہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک اور اسلام کے تصورِ عدل اور جہاد ہیں۔ اپنی اصل کے اعتبار سے اعتراض بہت پرانا ہے اور اتنا گھسا پٹا ہے کہ تعجب ہوتا ہے کہ شیطانی قوتیں ان چلے ہوئے کارتوسوں کو باربار کس دیدہ دلیرہ سے استعمال کر رہی ہے۔ لیکن چونکہ یہ حملے برابر جاری ہیں اور ایک ہی ڈراما ہے جس کو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد دہرایا جاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان تمام اعتراضات کا جواب بار بار دیا جائے اور تمام ریشہ دوانیوں کا پردہ ہربار چاک کیا جائے۔

آج جو کھیل آسیہ مسیح کے نام پر کھیلا جارہا ہے وہ اس سے مختلف نہیں جو چند سال پہلے گوجرانوالہ میں رچایا گیا تھا۔ اس موقع پر مدیر ترجمان القرآن اور میرے بھائی  خرم مرادؒ نے ’توہین رسالتؐ کا مقدمہ‘ کے عنوان سے ایک گراں قدر مقالہ لکھا تھا جس میں مسئلے کے تمام پہلوئوں کا بڑے مدلل انداز میں اور کمالِ عدل کے ساتھ احاطہ کیا گیا تھا۔ آج یہ بحث ایک بار پھر برپا کردی گئی ہے اور پوری سیکولر لابی یک زبان ہوکر توہینِ رسالتؐ کے مبنی برحق قانون پر حملہ آور ہوگئی ہے تو ہم نے ضروری سمجھا کہ ایک بار پھر بطور تذکیر اس مقالے کو قارئین ترجمان کے سامنے لائیں، اور ترجمان کے ذریعے پوری قوم اور خود معتبرین کو اس کے مندرجات پر کھلے دل اور دیانت سے    غور کرنے کی دعوت دیں۔ اس ماہ کے ’اشارات‘ بھی تازہ واقعے اور اس کے تعلق سے اُٹھائے جانے والے سوالات سے متعلق ہیں جو برادر عزیز ڈاکٹر انیس احمد کے قلم سے ہیں۔ ’اشارات‘ اور یہ مضمون اس وقت کی بحث کا کافی و شافی جواب فراہم کرتے ہیں  ع

شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

___  پروفیسر خورشید احمد

توہینِ رسالتؐ کا حالیہ مقدمہ ،معمول کے مطابق محض جرم و سزا کا ایک مقدمہ ہوتا تو کوئی بات نہ تھی۔ اگر دونوں ملزم بے گناہ تھے، یا ان کا جرم شرعی معیار شہادت کے مطابق ثابت نہ ہوسکا تھا، یا اس میں کوئی ادنیٰ سا بھی شبہہ تھا، تو حق و انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ ان کو بری کردیا جاتا۔ اس حق و انصاف اور رحم و درگزر کا، جس کی تعلیم ہمیں اسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، جس کی توہین کا یہ مقدمہ تھا، جس نے بدترین دشمن کے ساتھ بھی عدل و رحم کا برتائو کیا ہے، اور ہر قیمت پر عدل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ تو ہمارے معاہد اور برابر کے شہری تھے، مگر پورے مقدمے کے دوران جس طرح اور جس پیمانے پر طاقت ور بیرونی اور اندرونی قوتیں اثرانداز ہوتی رہیں، اس نے مذکورہ مقدمے کو ایک غیرمعمولی نوعیت دے دی ہے۔ اس نے توہینِ رسالتؐ کے معاملے کو ہمارے مقدر کا، ہمارے حال اور مستقبل کا ایک آئینہ بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملزمان کی برأت بھی مشتبہ ہوگئی ہے، جو یقینا ان کے ساتھ ایک بے انصافی ہوئی ہے۔

اس آئینے میں وہ ساری کھلی اور چھپی صورتیں بالکل بے نقاب ہوگئی ہیں، جو آج ہمارے مستقبل کی نقشہ گری اور ہمارے مقدر کے بنانے اور بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان صورتوں میں، اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی ، تہذیبی بھی ہیں اور سیاسی بھی، فکری بھی ہیں اور ابلاغی بھی۔ اس آئینے میں ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری بربادی کے مشورے کہاں ہو رہے ہیں، جنگ کا نقشہ کیا ہے، محاذ کہاں کہاں کھولے جارہے ہیں، مورچے کہاں کہاں بنائے گئے ہیں، چالیں کیا کیا چلی جارہی ہیں، دُور مار توپیں کدھر کدھر سے گولہ باری کر رہی ہیں، ہتھیار کون کون سے استعمال ہو رہے ہیں، پیش قدمی کن کن راستوں سے ہو رہی ہے، اندر کون کون ایجنٹ بنے ہوئے ہیں، عزائم کیا ہیں اور اصل ہدف کیا ہے؟___ اور یہ بھی کہ ___ ہماری قوت کا اصل راز کیا ہے، ہم بازی کیسے پلٹ سکتے ہیں، بلکہ جیت سکتے ہیں۔

l ایک چہرہ مغرب کا ہے، اس کے حکمرانوں، اہل کاروں اور سفارت کاروں اور ذرائع ابلاغ کے سحرکاروں کا چہرہ، جو پورے مقدمے کے دوران تیز تیز چلتے، بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے رہے۔   یہ چہرہ اب کچھ ایسا ڈھکا چھپا بھی نہیں رہا۔ ذرا موقع نکلتا ہے، فوراً اُوپر سے تہذیب، روشن خیالی اور انسانی ہمدردی کا چھلکا اتر جاتا ہے، اور نیچے سے وہی مسلمان اور اسلام کی دشمنی کا چودہ سو سال پرانا رویہ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نفرت اور غصہ ٹپکاتا ہوا چہرہ نمودار ہوجاتا ہے۔

 سیکولرازم اور انسانی حقوق کی علم بردار ریاستیں بالآخر محض ’عیسائی‘ ریاستیں ثابت ہوتی ہیں، جو ہر ملک کے ملکی قوانین کے خلاف ’عیسائی حقوق‘ کے لیے سرگرم ہوجاتی ہیں۔ فلسطین ہو یا بوسنیا، کشمیر ہو یا چیچنیا، الجیریا ہو یا فرانس___ چہرہ روشن، اندرون چنگیز [۹ لاکھ ۴۰ ہزار انسانوں کا قاتل تاتار حکمران۔ م: ۱۲۲۷ئ] سے تاریک تر۔ مغرب کی یہ قوتیں ہمارے ہاں تہذیبی اور سیاسی غلبہ رکھتی ہیں، ہماری قسمت کے ساتھ کھیل رہی ہیں، یہاں تک کہ اب ہمارا ایک قانون اور ہمارے دو شہریوں کے خلاف، ہماری عدالت میں ایک مقدمہ بھی ان کے غلبے سے آزاد نہیں۔

l ایک چہرہ مغرب کے فرزندوں کا ہے، جو برطانوی مورخ لارڈ [تھامس بابنگٹن] میکالے [م: ۱۸۵۹ئ] کے خواب کی مکمل تعبیر ہے: ’’خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہم میںسے نہیں، مگر مذاق اور راے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز‘‘۔ یا، لبنانی ادیب خلیل جبران [م:۱۹۳۱ئ] کے الفاظ میں: ’’[جن کے جسم خواہ یہاں پیدا ہوئے ہوں، مگر] ان کی روحوں نے مغربی ہسپتالوں میں جنم لیا ہے۔ جو فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہیں، مگر ہمارے [فرنگی سامراجیوں] کے سامنے کمزور اور گونگے ہیں۔ جو آزادی کے علم بردار ہیں، مصلح ہیں، پرجوش ہیں، مگر اپنے اسٹیجوں پر، اہلِ مغرب کے سامنے اطاعت کیش اور رجعت پسند ہیں‘‘___ یہ فرزند ان مغرب، توہین رسالتؐ جیسے معاملات میں ایک سو ایک فی صد مغرب کے ہم نوا رہتے ہیں، مغرب سے بڑھ کرپیش پیش ہوتے ہیں۔

  • ایک چہرہ ان کا ہے، جو کسی طرح بھی لارڈ میکالے کے خواب کی مکمل تعبیر نہ بن سکے، وہ اسلام اور ملّت سے اپنا رشتہ کھرچ نہیں سکے، لیکن اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی درجے میں فرنگی افکار کے جاود میں گرفتار ہیں۔ ان کے مزاج کے لیے بھی یہ قبول کرنا مشکل ہے کہ توہینِ رسالتؐ کی سزا موت ہو۔

وہ پوچھتے ہیں: کیا یہ سخت سزا قرآن سے ثابت ہے؟ کہیں یہ مُلا کی تنگ نظری اور شدت کا شاخسانہ تو نہیں؟ جو رحمت للعالمینؐ تھے اور جنھوں نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں، ان کی توہین پر ایسی سخت سزا! دنیا ہمارے بارے میں کیا کہے گی، ہمیں کیا سمجھے گی، ہم اسے کیا منہ دکھائیں گے؟

خود نگری اور مستقبل بینی کا یہ آئینہ ہمارے ہاتھوں میں اگر مسئلہ توہینِ رسالتؐ کے ذریعے آیا، تو بالکل بجا آیا:

قوم را سرمایہ قوت ازو

حفظ سر وحدت ملّت ازو

’’ما ز حکم نسبت او ملتیم‘‘: آں حضوؐر کی ذات مبارک ہی ہماری قوت کا سرمایہ ہے، ہماری وحدت کا راز آپؐ سے وابستگی میں ہے، آپؐ سے نسبت ہی نے ہمیں ایک ملّت بنایا ہے، بلکہ ہمارے جسد ملّی میں رسالت ہی کی جان پھونکی گئی ہے، اسی کے دم سے ہمارا دین ہے، ہمارا آئین ہے:

حق تعالیٰ پیکر ما آفرید

و ز رسالت در تن ما جاں دمید

از رسالت در جہاں تکوین ما

از رسالت دین ما آئین ما

مغرب کا اضطراب اور شور و غوغا قابلِ فہم ہے۔ اس لیے نہیں، جیسا بعض لوگ [گستاخی رسولؐ کے مرتکب] سلمان رشدی کی یاوہ گوئی کے وقت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک رسولؐ کا مقام کیا ہے، اور کیوں ہے۔ مغرب سے ہماری مراد سارے اہلِ مغرب نہیں، تاہم ان میں سے اکثر کے بارے میں یہ بات صحیح ہے۔ اور مغرب کے طلسم میں گرفتار سادہ دل مسلمانوں کے بارے میں بھی۔ یقینا ان سب کو سمجھانے کی ضرورت ہے، ان کو سمجھا لینے ہی میں ہماری کامیابی پوشیدہ ہے۔ مگر جو حکمراں، سفارت کار، دانش ور اور ذرائع ابلاغ کے سحرکار قانونِ توہینِ رسالتؐ کے خلاف پیش پیش ہیں، وہ اسی لیے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان ملّت کی زندگی، وحدت اور قوت و توانائی کا راز اور ان کی سربلندی کا راز بھی حضوؐر کے ساتھ وابستگی اور عشق و محبت میں پوشیدہ ہے  ع  ’’در دل مسلم مقامِ مصطفیؐ است‘‘۔

اسی لیے ہزار سال سے اُوپر مدت ہوگئی، ان کے نقشۂ جنگ کا ہدف یہی مقام مصطفیؐ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کا یہی ’قلب‘ اور ’دارالحکومت‘ ہے۔ اس کی شکست و ریخت، بربادی اور اس پر قبضہ کے بغیر اس ملت کو زیر کرنے کا اور کوئی نسخہ نہیں۔ اسی لیے آں حضوؐر کی ذات ان کے سارے حملوں کا اوّلین ہدف رہی ہے، اور ہے۔ اسی لیے وہ مسلسل ہر قسم کے انتہائی غلیظ وار، آپؐ  کے خلاف کرتے رہے ہیں۔ اسی لیے سلمان رشدی ان کی آنکھوں کا تارا ہے، یورپ کی حکومتوں کے سفارتی تعلقات اور تجارتی مفادات اس کے خلاف ’فتویٰ‘ کے محور پر گھوم رہے ہیں۔ اسی لیے تسلیمہ نسرین ان کی ہیروئن ہے۔ اسی لیے ہر وہ مسلمان جو: شریعت مصطفویؐکو بے وقعت کرے، جو تعلیمات محمدیؐ کو مشکوک بنائے، جو مقامِ مصطفویؐ کو مجروح کرے، وہ انھیں محبوب ہے۔ اور یہ حکیمانِ مغرب کا فتویٰ ہے:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

اسی لیے مذکورہ دو افراد کے خلاف مقدمہ دائر ہوتے ہی، غیرمسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ اور سفارت کار حرکت میں آگئے اور یہ واقعہ عالمی شہرت کا حامل بن گیا۔ ان سب کا ہدف ملزموں کی بے گناہی ثابت کرنا نہیں،بلکہ توہینِ رسالتؐ کے قانون کی تنسیخ رہا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو، بی بی سی، وائس آف امریکا، وائس آف جرمنی کی نشریات، اخبارات، رسائل و جرائد میں مضامین اور خبروں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ انھی بیرونی لابیوں کے ساتھ پاکستان کا ہیومن رائٹس کمیشن بھی متحرک ہوگیا۔

امریکا میں پاکستانی سفیر، ملیحہ لودھی، گوجرانوالہ گئیں اور ملزموں کی ضمانت کے لیے عدالت پر زور ڈالا۔ امریکی نائب وزیرخارجہ، رابن رافیل نومبر ۱۹۹۳ء میں اسلام آباد آئیں، تو وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کے ساتھ مذاکرات کے دوران اس کیس کو اٹھایا۔ پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے انھیں یقین دلایا کہ ’’ملزموں کو ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا‘‘۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اس مقدمے میں ذاتی دل چسپی لی اور جب مجرموں کو سزا ہوئی تو انھیں ’سخت دکھ‘ ہوا۔ اپریل ۱۹۹۴ء میں پاکستان کی وفاقی کابینہ نے موصوفہ کی صدارت میں، توہین رسالتؐ کے مرتکب فرد کے لیے موت کی سزا کو ۱۰ سال قید کی سزا میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔

پھر جب ملزموں کو سیشن کورٹ سے سزا ہوگئی تو سارے بین الاقوامی، سفارتی اور ابلاغی ذرائع نے نفرت انگیز پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالنے کی مہم تیز تر کر دی۔ برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر، ملزمان سے ملاقات کے لیے جیل پہنچ گئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک    بنچ نے، جو عارضی [ایڈہاک] ججوں پر مشتمل تھا، مسلسل روزانہ اپیل کی سماعت شروع کردی۔ بالآخر ملزمان رہا ہوگئے اور راتوں رات ان کو جرمنی روانہ کردیا گیا۔

عدالتوں کے فیصلے تسلیم کیے بغیر کوئی مہذب اور پُرامن معاشرہ قائم بھی نہیں ہوسکتا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ہائی کورٹ نے صحیح فیصلہ ہی کیا ہوگا۔ لیکن، اس مسلسل بین الاقوامی اور حکومتی دبائو اور عدالتی کارروائی میں حیرت انگیز سرعت نے پورے فیصلے کو مشکوک بنا دیا۔ اس دبائو کے آگے اس دبائو کی کیا حیثیت اور کیا وزن، جو عدالتی کارروائی کے دوران اور فیصلے کے بعد عوام نے لاہور کی سڑکوں پر نکل کر ڈالا۔ ہر تجزیہ نگار، پورا پس منظر جان بوجھ کر نظرانداز کر کے، سارا زور عوامی احتجاج کی مذمت کرنے میں لگاتا رہا۔ ہم بھی کسی عدالت پر اس طرح عوامی دبائو ڈالنے کو صحیح نہیں سمجھتے۔ لیکن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دوسری طرف سے وہ لوگ زبردست دبائو ڈال رہے تھے، جن کی مٹھی میں حکمرانوں کے اقتدار کی کنجی ہے، ڈالر ہیں، دہشت گرد قرار دینے کی لاٹھی ہے اور ’مہذب، بھی کہلاتے ہیں۔

تہذیب کے دعووں کے ساتھ اب مغرب کے لیے قرونِ وسطیٰ کی طرح دشنام طرازیاں تو ممکن نہیں، البتہ ان کی جگہ آج کے رائج الفاظ کے پردے میں توہین رسالتؐ کے قانون پر حملہ ہو رہا ہے: ’’یہ قانون، انسانی اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے، مذہبی آزادی کے خلاف ہے، اظہار راے کی آزادی کے خلاف ہے، اقلیتوں کے خلاف تعصب اور امتیاز پر مبنی ہے، اقلیتی فرقوں کے سر پر  ننگی تلوار لٹکا دی گئی ہے، فرقہ واریت اور ذاتی عناد کی بنا پر، اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے، اس سے مُلا، بنیاد پرستی، مذہبی جنون اور تنگ نظری کا زور بڑھ گیا ہے، تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

توہین رسالتؐ کے لیے سزا، اس مقصد کے لیے رائج الوقت قانون، اس کا استعمال اور اس بارے میں خدشات کو حالیہ مقدمہ سے الگ کر کے دیکھا جائے، تب ہی ایک منصف مزاج آدمی اس قانون کے خلاف سارے مباحث میں کسی صحیح نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔

  • بنیادی اور اوّلین سوال یہ ہے: ’’کیا توہینِ رسالتؐکوئی جرم نہیں ہے، اور جرم ہے بھی تو کیا اس پر کوئی سزا نہیں ہونا چاہیے؟‘‘

رسالت تو بڑی چیز ہے، دنیا بھر میں ہمیشہ سے کسی بھی انسان کی عزت و آبرو کو تحریری یا زبانی نقصان پہنچانا، ایک جرم قرار دیا گیا ہے، اور اسی لیے ہر معاشرے میں ہتک عزت [defamation] کے جرم کے لیے سزا کا قانون موجود رہا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں کبھی یہ نہیں آیا کہ کسی دوسرے انسان کی بے عزتی اور توہین کرنا، ایک فرد کا انسانی اور بنیادی حق ہوسکتا ہے، اور اگر اس پر سزا دی جائے تو گویا ایک بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ آج مغرب میں بھی یہی تصور اور یہی قانون ہے۔ ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ مغربی قوانین کے تحت جس کی  ہتک عزت ہوئی ہو، وہ خود ہی مدعی بن سکتا ہے۔ گویا، کیونکہ رسول، یا کوئی بھی دنیا سے گزرا ہوا آدمی، اب خود مدعی نہیں بن سکتا، اس لیے اس کی جتنی توہین کرلی جائے، یہ جرم قابلِ سزا نہیں ہوسکتا۔

لیکن اس سے زیادہ بودی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟___ جب ایک عام آدمی کی ہتک عزت بھی قابلِ تعزیر جرم ہو، تو اس شخص کی ہتک عزت کیوں نہ قابلِ تعزیر ہو، جوایک ارب سے زیادہ انسانوں کواپنی جان و مال ہی نہیں، اپنی ذات سے بڑھ کر محبوب ہے۔ جس کی عزت اور نام سے ان کی عزت اور نام وابستہ ہے۔ جس کی توہین سے ان کی اپنی ذات، ان کے نام، ان کی اپنی عزت، ان کے دین، ان کے آئین اور ان کی ملّت کی توہین ہوتی ہے۔ آں حضوؐر کا مقام تو ہرمسلمان کے لیے یہی ہے۔ ایک مسلمان کی آبرو آپؐ کے نام سے ہے: آبروے ما زنام مصطفی است۔ وہ مسلمان ہو نہیں سکتا، جب تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی جان، مال، والدین، دنیا کی ہر چیز، یہاں تک کہ اپنے نفس اور ذات سے زیادہ محبوب نہ ہوں: لَا یُوْمِنُ اَحَدَکُمْ حَتّٰی اَکُوْنُ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہٖ وَالِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنِ (بخاری، مسلم)

  • دوسرا سوال یہ ہے: ’’کیا اس جرم کے لیے موت کی سزا بہت سخت اور احترام آدمیت کے خلاف ہے؟‘‘

اگر اعتراض فی نفسہٖ موت کی سزا پر ہے کہ یہ وحشیانہ ہے، تو وہ زمانہ گزر گیا جب تہذیب کے جوش میں موت کی سزا کو بالکل منسوخ کرنے کی ہوا چلی تھی۔ اب تو انتہائی ’مہذب‘ اور   ’انسان دوست‘ ہونے کے دعوے دار ملکوں میں، ایک کے بعد ایک، یہ سزا بحال کی جارہی ہے، بلکہ ہر ملک جہاں یہ سزا ختم کی گئی، وہاں کی بھاری اکثریت موت کی سزا کی بحالی کے حق میں ہے، نہ صرف موت کی سزا، بلکہ جسمانی سزا کے حق میں بھی۔ ۱۹۹۴ء میں جب سنگاپور میں ایک امریکی کو چھے بید مارنے کی سزا دی گئی تو،امریکی حکومت اور چند طبقات کی مخالفت کے باوجود، امریکیوں کی اکثریت نے اس سزا کی حمایت کی تھی۔ مغرب میں بھی اس قسم کے جرم پر سخت سزائوں کے قوانین موجود ہیں، اور پہلے تو زندہ جلایا جاتا رہا ہے۔

اگر اعتراض یہ ہو کہ یہ سزا جرم کے مقابلے میں زیادہ سخت ہے، تو اس جرم کی نوعیت کا فیصلہ تو وہی کرسکتے ہیں، جن کو اور جن کے پورے معاشرے کو اس جرم سے نقصان پہنچ رہا ہو۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے کردار، اخلاق، صداقت، امانت، عدالت کو مجروح کرنا دراصل دین، ایمان، آئین، ریاست اور پوری اُمت مسلمہ، سب کو مجروح کرنا ہے۔ اس لیے مسلمان ہی اس معاملے میں مناسب قانون سازی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ان کی مقننہ نے یہی سزا مناسب سمجھ کر یہ قانون منظور کیا ہے، ان کی اعلیٰ عدالتوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ یہ ایک جمہوری طریقے سے طے کردہ قانون ہے، ان کی اعلیٰ عدالتوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ یہ ایک جمہوری طریقے سے طے کردہ قانون ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عمرقید کی سزا، موت کی سزا سے زیادہ وحشیانہ اور ظالمانہ سزا ہے، لیکن کوئی پارلیمنٹ یاکانگرس اپنی حدود میں یہ سزا دینے کا قانون بنائے، تو ہم اس کا فیصلہ کیسے بدلوا سکتے ہیں؟

  • تیسرا سوال یہ ہے: ’’کیا یہ قانون واقعی عیسائی اور ہندو جیسے اقلیتی فرقوں کے خلاف تعصب و امتیاز پر مبنی ہے، ان کو کچلنے، دبانے اور حقوق سے محروم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے؟‘‘

جہاں تک قانون کا تعلق ہے، اس میں ایک حرف اور ایک نکتہ بھی ایسا نہیں بتایا جاسکتا، جو اقلیتی فرقوں کے خلاف ہو یا ان کا کوئی حق سلب کرتا ہو۔ اس کا اطلاق کسی نام نہاد مسلمان پر بھی بالکل اسی طرح ہوگا، جس طرح غیرمسلم پر۔ تعصب و امتیاز کی بات اس وقت صحیح ہو سکتی ہے، جب یہ گمان کیا جائے کہ اقلیتی فرقوں کی باقاعدہ نیت یا پروگرام ہے کہ وہ توہینِ رسالت کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ عمومی سطح پر ان کا ایسا کوئی ارادہ یا منصوبہ نہیں، اگرچہ باہر والے ان سے یہ حرکت کروا کے انھیں اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑانے اور انھیں پاکستان میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے منصوبے رکھتے ہوں۔ اگر اعتراض کی بنیاد یہ ہو کہ اس میں دوسرے مذاہب کے پیغمبروں کی توہین کو شامل نہیں کیا گیا ہے، تو اس اعتراض کو ’اسلامی نظریاتی کونسل، (IIC) اور شریعت کورٹ کی سفارش کے مطابق، دُور کیا جانا چاہیے۔

  • چوتھا سوال یہ ہے: ’’کیا یہ قانون اس لیے منسوخ کردیا جائے، کہ ذاتی عناد یا فرقہ واریت کی خاطر اس کا غلط استعمال ہوا ہے، یا خدشہ ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘

اگر خود قانون میں ایسی کوئی خامی، خلا یا ابہام ہے، جو غلط استعمال کا ذریعہ بن سکتا ہے، تو ہماری راے میں ایسی ہر خامی کو دُور کیا جانا چاہیے، اور ممکنہ غلط استعمال کے خلاف ہر ممکن تحفظ  فراہم کرنا چاہیے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جو باہمی گفت و شنید سے حل نہ کیا جا سکتا ہو۔ ہمیں  صرف مقامِ رسالتؐ کا تحفظ مطلوب ہے، بے گناہ لوگوں کو توہینِ رسالتؐکے نام پر سزا دلوانا تو خود توہینِ رسالتؐ کے زمرے میں آسکتا ہے۔

لیکن اگر قانون کا غلط استعمال کسی فرد یا پولیس کے غلط کردار کی وجہ سے ہے، تو اس کا  علاج قانون کی منسوخی نہیں ہے۔ اس وجہ سے تو ہر قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ قیامِ امن کے، انسداد دہشت گردی کے، لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانیوں کی روک تھام کے قوانین حکومتیں بے دردی کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں، کیا اس وجہ سے ان سب کو منسوخ کردیا جائے؟ قتل کے قانون کے تحت پولیس اور بااثر لوگ بے گناہوں کو پھانستے ہیں، ان کو لوٹا جاتا ہے، بعض پھانسی پر بھی چڑھ جاتے ہیں، کیا ان کو بھی منسوخ کر دیا جائے؟ کوئی بھی معقول آدمی یہ بات نہیں کہے گا۔ ذاتی عناد کی بنا پر بھی ملک میں بے شمار مقدمات کھڑے کیے جاتے ہیں۔ اس ظلم کا کوئی خصوصی تعلق اقلیتی فرقوں سے نہیں۔

  • پانچواں سوال یہ ہے: ’’کیا قانون توہینِ رسالتؐ کی وجہ سے فرقہ واریت میں، مذہبی جنون میں، اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے، کہ یہ قانون منسوخ کردیا جائے؟

اگر شدت پیدا ہوئی ہے تو شیعہ سنی فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والے محض چند جنگجو عناصر میں، جب کہ عام سطح پر تو شیعہ سنی ہم آہنگی پہلے کی طرح قائم ہے اور یہ بڑی خوش آیند بات ہے۔ حد سے بڑھتی ہوئی قتل و غارت اور خوں ریزی کی وجہ نسلی اور لسانی تعصبات، سیاسی جھگڑے اور انتقامی کارروائیاں ہیں۔ اس میں کوئی دخل قانون توہینِ رسالتؐ کا نہیں، اور نہ کسی دوسرے قانون کا۔ ان کارروائیوں کا شکار اکثریتی فرقہ ہے، نہ کہ اقلیتی فرقے۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں روز بروز تشدد اور خوں ریزی بڑھ رہی ہے، اس معاشرے میں کیا صرف اقلیتی فرقوں کے لوگ ہی اس لہر سے بالکل محفوظ رہ سکتے ہیں؟ پھر تشدد کے ہر واقعے کو فوراً اقلیت کے خلاف ظلم قرار دینا کہاں تک قرین انصاف ہے؟ پاکستان میں آج تک کوئی     فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ ذرا بھارت کے جمہوری، سیکولر، روشن خیال ملک پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے، جہاں کوئی مذہبی قوانین نہیں، جہاں ’مُلّا‘ کا غلبہ نہیں، لیکن وہاں پر تو فرقہ وارانہ فسادات روز کا معمول ہیں۔

قرآن و سنت کے دلائل سے جس طرح شاتمِ رسولؐ کی سزا ثابت ہے، اور اس پر جس طرح فقہاے اُمت کا اجماع ہے۔ جس طرح اس پر، ماسوا دورِ غلامی کے، ہر مسلمان ملک میں، ہرزمانے میں عمل درآمد ہوتا رہا ہے، اور دور غلامی میں بھی مسلمان جس طرح اپنا خون دے کر اسے نافذ کرتے رہے ہیں، اسے بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں۔ اس بارے میں عام مسلمانوں کے درمیان نہ کبھی اختلاف رہا اور نہ کوئی شک و شبہہ۔ جس کو تحقیق کا شوق ہو، اس کے لیے   حسب ذیل کتب کا مطالعہ کافی ہے:

۱-            محمد اسماعیل قریشی : ناموس رسولؐ اور قانونِ توہینِ رسالتؐ

۲-            امام ابن تیمیہ: الصارم المسلول علی شاتم الرسولؐ

۳-            تقی الدین سبکی: السیف المسلول علی من سب الرسولؐ

۴-            ابن عابدین: تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیرالانامؐ

  • لوگ چھٹا سوال یہ پوچھتے ہیں کہ: ’’رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے تو گالیاں سن کر، پتھر کھا کر، دعا دی، اب ان کو گالی دینے والے کو موت کی سزا دی جائے؟‘‘

ایسے لوگ رحمت کے مفہوم سے آگاہ نہیں۔ رحمت کا تقاضا جہاں عفو و درگزر ہے، وہاں انصاف بھی ہے۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے: واقعہ افک میں قذف کے مرتکبین کو  کوڑے لگوائے، زنا کے مجرموں کو سنگسار کرایا، مسلح لشکر لے کر نکلے جس نے بدر کے میدان میں ۷۰سردارانِ قریش کو تہہ تیغ کردیا، فتح مکہ کے دن جب ہرجانی دشمن کو معافی مرحمت فرما دی گئی، چھے مرتدین اور شاتمین کے قتل کا حکم صادر ہوا۔ آپؐ یہ نہ کرتے تو فساد مچتا، اور زیادہ ظلم برپا ہوتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکم اپنی ذات کی خاطر نہیں دیا، دین اور ملت کے تحفظ کی خاطر دیا۔ جب رسالتؐ ہی ایمان کی، دین کی، ملت کی بنیاد ہے، اس کی زندگی کی ضمانت ہے، تو توہینِ رسالتؐ کے مجرم کو سزا دینا عین رحمت کا تقاضا تھا۔ اسی لیے یومِ قیامت کو___ جس دن نیکوکاروں کو انعام سے نوازا جائے گا، مگر بدکار جہنم جھونکے جائیں گے___ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت، رحمانیت اور رحیمیت کا دن قرار دیا ہے۔ (الفاتحہ، الانعام)

شان رسالتؐ میں گستاخی کے مرتکب فرد کے لیے موت کی سزا کے قانون کی تائید اور حمایت کچھ فقہا و علما، ملائوں اور جنونیوں ہی کا ’جرم‘ نہیں ہے، بلکہ وہ اچھے اچھے مغربی تعلیم یافتہ مسلمان حضرات، جنھوں نے روح اسلام کو ضائع نہ کیا اور مقام محمدیؐ سے آگاہ رہے، کسی بھی مداہنت کے بغیر اس ’مذہبی جنون‘ کے ’جرم‘ میں شریک رہے۔

غازی علم الدین شہید [۴دسمبر ۱۹۰۸ئ- ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۹ئ] نے [شانِ رسالتؐ میں گستاخی پر مبنی کتاب کے ناشر] راج پال کو قتل [۶ اپریل ۱۹۲۹ئ] کیا تو اس کے مقدمے کی پیروی قائداعظم محمدعلی جناح [م: ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ئ] نے کی۔ علامہ محمد اقبال نے رشک کے ساتھ فرمایا: ’’اسیں گلاں کر دے رہے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا۔ (ہم باتیں کرتے رہ گئے، اور ایک بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا)۔ علم الدین شہید کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا، اور اس فضا میں یہ شعر بھی کہا :

ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ

قدروقیمت میں ہے جن کا خون حرم سے بڑھ کر

شانِ رسالتؐ میں گستاخی کے جرم میں ایک خانساماں نے ایک انگریز میجر کی بیوی کا کام تمام کر دیا۔ سرمیاں محمد شفیع [م: جنوری ۱۹۳۲ئ] نے، جو برطانیہ کے زیرتسلط ہندستان میں وائسراے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن بھی تھے، اس کے مقدمے کی پیروی کی۔ دوران بحث ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

ہائی کورٹ کے انگریز جج نے انھیں بڑی حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’سرشفیع، کیا آپ جیسے ٹھنڈے دل و دماغ کا بلند پایہ وکیل بھی اس طرح جذباتی ہوسکتا ہے؟‘‘

سرمیاں محمد شفیع نے رنج اور حسرت بھرے لہجے میں جواب دیا: ’’جناب، آپ کو نہیں معلوم، ایک مسلمان کو اپنے پیغمبرؐ کی ذات سے کتنی گہری عقیدت اور محبت ہوتی ہے۔ سرشفیع بھی اگر اس وقت وہاں ہوتا تو وہ بھی یہی کر گزرتا جو اس ملزم نے کیا ہے‘‘۔

ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے بعض مسیحی بھائیوں نے اس قانون کے معاملے میں حق پسندانہ اور معتدل مسلک اختیار کیا ہے۔ صوبہ بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر، آنجہانی بشیرمسیح کے الفاظ ایسے ہی موقف کے آئینہ دار ہیں، انھوں نے کہا تھا:

ہم اس [قانون] کے خلاف نہیں۔ کوئی بھی سچا مسیحی، توہین رسالتؐ کا تصور نہیں کرسکتا، اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر واقعی کوئی اس قبیح جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ موت سے بھی سخت سزا کا   حق دار ہے۔ لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی بے گناہ کو اس قانون کا نشانہ بنایا جائے۔

اسی طرح ماہنامہ کلامِ حق میں پادری ڈاکٹر کے ایل ناصر کے بیٹے میجرٹی ناصر کے الفاظ ہیں:

ہم مسیحی، تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵- سی یعنی گستاخ رسولؐ [کی سزا] کے مخالف نہیں۔ ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ ایک خصوصی کمیشن بنایا جائے۔ غیر جانب دارانہ تحقیقات کریں اور اگر ملزم واقعی مجرم ہو تو اس کو قانون کے مطابق سزا دی جائے،   ورنہ بصورت دیگر رہا کر دیا جائے۔ مقدمہ بھی خصوصی عدالت میں چلایا جائے، اور ملزم کو تمام قانونی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں، تاکہ اقلیتوں، خاص طور پر مسیحی اقلیت کو   تحفظ و انصاف کا احساس ہو ___ اور یہ مطالبات بجا ہیں۔

لیکن ہمیں افسوس ہے کہ مسیحی لیڈروں کی اکثریت، سوچے سمجھے بغیر، قانون توہینِ رسالتؐ کی اندھی مخالفت پر تل گئی ہے۔ اس طرح وہ ایک طرف مغربی سامراجی طاقتوں کے آلۂ کار بھی بن رہے ہیں، دوسری طرف پاکستان میں اسلام دشمن اور سیکولر عناصر کے دوش بدوش کھڑے ہوگئے ہیں۔

ہم پورے خلوص اور دردمندی سے ان کی خدمت میں ادب سے عرض کریں گے، کہ اگر ان کے پیش نظر اس قانون کے بارے میں خدشات کے خلاف ضروری تحفظات حاصل کرنا ہے، بلکہ پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے پاکستان میں اپنا جائز مقام حاصل کرنا ہے، تو انھوں نے ایک غلط راستہ اختیار کیا ہے۔ نہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت سے انھیں یہ مقام حاصل ہو سکتا ہے، نہ سیکولر عناصر کی مدد سے کچھ پاسکتے ہیں، اگرچہ وہ اقتدار میں بھی آجائیں۔

ان کے لیے درست اور معقول راستہ یہ ہے کہ وہ محبِّ اسلام ممتاز شہریوں اور حق پسند علما اور دینی جماعتوں سے گفت و شنید کا آغاز کریں۔ انھیں اپنے خدشات سے آگاہ کریں، ممکن ہو تو ایک مشترک ’مسلم اینڈ کرسچین کونسل‘ تشکیل دیں۔ دلیل اور شواہد کے ساتھ مسلمانوں پر زور دیں کہ وہ خاص طور پر اس قانون کے ضمن میں اسلام کے قانون عدل و شہادت کے تقاضوں کی تکمیل یقینی بنائیں۔ وہ ایسی ترامیم کرانے میں ان کی مدد کریں جو قانون کو بے اثر بنائے بغیر کی جاسکتی ہیں، اور ان کے ساتھ انھی بنیادوں پر معاملہ کریں، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ اختیار کیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس طرح دونوں کے تعلقات بھی خوش گوار ہوجائیں گے اور ان مسائل کا حل بھی خوش اسلوبی سے نکل آئے گا۔

شاید انھیں اسلام کے قانونِ عدل کے ان تقاضوں کا علم نہیں، جن کا نفاذ ان کے خدشات کے ازالے کے لیے کافی ہوسکتا ہے:

                ۱-            حد کی سزا صرف حکومت دے سکتی ہے، کسی مسلمان کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں۔

                ۲-            عدالت کے لیے یہ بھی ضروری ہے، کہ وہ گواہوں کی مناسب جانچ پڑتال کرے۔ اس لیے کہ ’حد‘ کی سزا میں شہادت کا معیار، عام شہادت کے معیار سے بہت زیادہ سخت اور غیرمعمولی ہے۔ ایسے گواہوں کی شہادت قبول ہوتی ہے، جو گناہ کبیرہ سے اجتناب کرتے ہوں، صادق القول اور عادل ہوں، اور مزیدبرآں تزکیۃ الشہود کے معیار پر بھی پورا اترتے ہوں‘‘۔

                ۳-            جرم ثابت ہونے میں ایک شبہہ بھی رہ جائے تو شک کا فائدہ بھی اسلامی قانون کی رو سے ملزم کو پہنچتا ہے۔ حدیث مبارک ہے: ادر والحدود بالشبہات، حدود کی سزائوں کو شبہات کی بنا پر ختم کرو۔

                ۴-            عدالت ملزم کی نیت کا تعین بھی کرے گی، کیونکہ ’’نیت کے بغیر اسلامی قانون میں کوئی جرم مستوجب سزا نہیں ہوتا‘‘۔

                ۵-            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی اسلامی قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ ’’ایک مجرم کو بری کر دینے کی غلطی ایک بے گناہ کو سزا دینے کی غلطی سے بہتر ہے۔

                ۶-            بجاے اس کے کہ ہمارے مسیحی بھائی پاکستان کی سیکولر حکومت کے وعدوں پر زندہ رہیں یا باہر کی مسیحی طاقتوں سے آس لگائیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ مسلمان، عیسائی، ہندو مل کر ایک متفقہ ترمیمی بل حکومت اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کردیں، جو اسلامی قانون کے مطابق بھی ہو اور اقلیتوں کے لیے انصاف اور تحفظ کا ضامن بھی۔ ہماری راے میں علما اور دینی جماعتوں کو اس مقصد کے لیے عیسائی رہنمائوں سے مکالمہ شروع کرنا چاہیے۔

قانون توہینِ رسالتؐ پر مخالفانہ ردعمل نے جو آئینہ ہمیں دیا ہے، اس میں مسلم ملت کی قوت کا اصل سرچشمہ بھی عیاں ہو رہا ہے۔

یہ سرچشمہ وہی ہے جس کے پیچھے ہمارے دشمن چودہ سو سال سے آج تک لگے ہوئے ہیں۔ ہماری قوت و توانائی کا سامان: اس اسلحہ، قرض اور امداد میں نہیں ہے جو ہمارے دشمن خود ہمیں فراہم کر رہے ہیں۔ یہ سرچشمہ تو روز اوّل سے دل مسلم میں مقام مصطفیؐ ہے، عشق مصطفیؐ ہے، اور ملت کی پوری زندگی میں اتباع اور اطاعت مصطفیؐ سے منسوب ہے۔ ہمیں اسی سرچشمے سے سیراب ہونے میں لگ جانا چاہیے۔

آج تاریخ کا اسٹیج، اسلام اور مغرب کے درمیان معرکے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ بظاہر ہمارا اور مغرب کا کیا مقابلہ؟ نہ ہمارے پاس اسلحہ، نہ ٹکنالوجی، نہ معاشی ترقی، نہ اتحاد، نہ لیڈرشپ، نہ منزل اور نہ مقصد۔ لیکن ان میں سے ہر چیز ہمیں حاصل ہوجائے گی، اگر ہم قوت اور توانائی کے اس سرچشمہ تک پہنچ جائیں:

کیمیا پیدا کن از مشت گلے

بوسہ زن بر آستان کاملے

دل زعشق اور توانا می شود

خاک ہم دوش ثریا می شود

اس سے زیادہ فریب انگیز مغالطہ اور کوئی نہیں ہو سکتا، کہ ہم یہ فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں: ہم کو ’ترقی پسند‘ بننا ہے یا ’بنیاد پرست‘۔ ہمیں نہیں معلوم بنیاد پرست کے کیا معنی ہیں۔ لیکن ہم کو یہ ضرور معلوم ہے کہ ہماری بنیاد تو حضوؐر کی ذات، آپؐ کی لائی ہوئی کتاب، آپؐ کی سنت اور آپؐ  کا   اسوۂ حسنہ ہے۔ ہم، جو اس بنیاد کے ناتے بظاہر ’بنیاد پرست‘ ہیں، فی الحقیقت سب سے بڑھ کر   ترقی پسند ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ضمن میں اگر امریکا کی انگلی پکڑ کر چلے تو ترقی نہیں موت اور ذلت کا گڑھا ہمارا مقدر ہے۔ اس راہ کو چھوڑ کر چلنے والے ’ترقی یافتہ‘ مسلمان ممالک کے ڈھانچے ہمارے سامنے بہت موجود ہیں:

کشودم پردہ را از روئے تقدیر

مشو ناامید و راہ مصطفیؐ گیر

مقام خویش اگر خواہی دریں دیر

بحق دل بند و راہ مصطفیؐ رو

دامنش از دست دادن موت است، حضوؐر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنا پروانہ موت ہے۔ آج کل مسلمان ہر جگہ، خصوصاً وطن عزیز پاکستان میں، زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں، علاج کیا ہے، حل کیا ہے؟ علاج اور حل تو ایک ہی ہے۔ پہلے بھی، قوم زندگی از دم اویافت، حضوؐر کے دم سے ہی زندگی ملی تھی، اور آج بھی سب کچھ آپؐ  کا دامن پکڑ کے، آپؐ  کا مشن پورا کرنے، اور آپؐ  کے پیچھے چلنے ہی سے ملے گا:

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں