اکتوبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اکتوبر ۲۰۰۹ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

معاشرتی بگاڑ اور نوجوان

سوال: میڈیا ، ٹی وی، ڈش، انٹرنیٹ، اخبار و جرائد، یہ سب عورت کو تشہیر کا مؤثر ذریعہ سمجھتے ہوئے خوب استعمال کرتے ہیں۔ یہ نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور گمراہ کرنے کا باعث ہے، دوسری طرف دین اور معاشرے کا تقاضا کہ نوجوانوں کو پاک باز ہونا چاہیے جو کہ کڑی آزمایش ہے۔ اسلام کا واضح حکم ہے کہ جو نوجوان استطاعت و طاقت رکھتا ہو وہ نکاح ضرور کرے لیکن ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہمارا معاشرہ یہ کہتا ہے کہ پہلے لڑکا خودکفیل ہو اور پھر شادی ہو۔ اس طرح کیریئر بناتے بناتے ایک فرد کو کافی عرصے تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ بھوک پیاس کے بعد جنسی تسکین انسان کی فطری ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں کسی نئے خاندانی نظام کی ضرورت نہیں ہے کہ جس میں نوجوانوں کو کرپٹ ہونے سے بچایا جاسکے۔ موجودہ حالات میں اسلامی احکامات کے مطابق ہم زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟

جواب: آپ نے اپنے سوالات کے ذریعے جس اہم پہلو کی طرف متوجہ کیا ہے وہ شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے، یعنی صالحیت کے ساتھ نسلِ انسانی کا تحفظ۔ اسلام واحد دین ہے جو خاندانی زندگی کو ایمان کی تکمیل اور تقویٰ کے حصول کے لیے ایک شرط قرار دیتا ہے، اور سیرت خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ جو نکاح کا انکار کرتا ہے، سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی اُمت میں شمار نہیں فرماتے۔ قرآن کا مطالعہ کریں تو وہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر رشتۂ نکاح قائم کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ رزق میں وسعت اور برکت پیدا کریں گے۔

ابلاغِ عامہ اور زندگی کے معاملات میں جس طرح عورت کو بطور ایک مرغوب شے بناکر پیش کیا جارہا ہے اور عام تعلیمی ماحول میں مخلوط تعلیم جس چیز کو فروغ دے رہی ہے وہ حیا اور    پاک بازی کی ضد کہی جاسکتی ہے۔ ایسے ماحول میں ایک نوجوان کا نفس کے فتنوں سے محفوظ رہنے کا ایک مسنون ذریعہ وہی ہے جس کا آپ نے ذکر کیا یعنی نکاح۔ لیکن حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ اگر کوئی نوجوان ایسا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو پھر وہ اپنے اخلاق و کردار کے تحفظ    کے لیے روزے کو بطور ڈھال استعمال کرے۔

ظاہر ہے روزہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک ایسا خفیہ معاملہ ہے جس کا کسی اور کو علم نہیں ہوسکتا اور غیرمحسوس طور پر روزہ انسان کو بدنگاہی، بدخیالی، بدزبانی ، غرض ہر برائی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس لیے اگر ہفتہ میں دو مرتبہ، یعنی پیر اور جمعرات کو عام دنوں میں روزہ رکھا جائے تو اس سے وہ قوتِ مدافعت پیدا ہوگی جو ایک نوجوان کو بے راہ روی سے محفوظ رکھ سکے گی۔

یہ بات بھی درست ہے کہ ہمیں ایک نئے خاندانی تصور کی ضرورت ہے جس میں نام نہاد مشرقی روایتی تصور سے ہٹ کر قرآن و سنت کی بنیاد پر خاندان کو قائم کیا جائے۔ دیکھا گیا ہے کہ وہ گھرانے بھی جو خود کو دینی گھرانے کہتے ہیں شادی بیاہ کے معاملے میں بڑی حد تک اپنی برادری کی بعض جاہلانہ روایات اور بالخصوص معاشی بنیاد پر رشتے کو زیادہ پسند کرتے ہیں، جب کہ حدیث میں جو چار معیار تجویز کیے گئے ہیں ان میں حُسن، دولت، نسب، تینوں پر تقویٰ اور دین کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔

قرآن کریم نے ایسے نوجوانوں کی شادی کے حوالے سے جو شادی کی عمر کو پہنچ چکے ہوں لیکن وسائل نہ رکھتے ہوں ان کے اہلِ خانہ، اہلِ معاشرہ اور ریاست تینوں کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ چنانچہ ایک مثالی اسلامی ریاست میں ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ مجرد نوجوانوں کو نکاح کے لیے وسائل فراہم کرے، اور ایسے ہی معاشرے کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ایسے افراد کے لیے مل کر سہولتیں فراہم کرے۔ آج تحریکِ اسلامی کی ترجیحات میں بھی اس اہم بات کو شامل ہونا چاہیے تاکہ وہ نوجوان جن کی تربیت ِکردار میں سالہا سال صرف کیے جاتے ہیں آزمایش کا شکار نہ ہوں۔

رشتہ کرتے وقت معاشی آسودگی کی شرط پر بھی متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کوئی نوجوان اچانک اپنے شعبے میں اعلیٰ مقام حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے کم وسائل کے باوجود نکاح میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ جس کو خوش کرنے کے لیے یہ رشتہ کیا جائے گا وہ کائنات کے تمام خزانوں کا مالک ہے اور وہ ان شاء اللہ ضرور رزق میں برکت دے گا۔(ڈاکٹر انیس احمد)

اسلامی بنکاری کے بارے میں اُلجھن

س: پاکستان میں رائج موجودہ اسلامی بنکاری اور مروجہ عام بنکاری میں محض نام کا فرق ہے۔ آپ موجودہ اسلامی بنکاری کو کم ظالمانہ کہہ سکتے ہیں، غیرسودی نہیں۔ میری راے میں اسلامی بنکاری صرف اسلامی حکومت کے زیراثر ہوسکتی ہے۔ بنک تجارتی اداروں کو نفع و نقصان کی بنیاد پر قرضے دیں۔ اسی طرح بنک میں رقم جمع کروانے والا بنک سے منافع حاصل کرسکتا ہے اور نقصان بھی۔ دھوکا دہی کرنے والے کی جایداد ضبط کرنا اور لوگوں کو ان کے حقوق دلوانا حکومت کا کام ہو۔ ایمان دار لوگ کوآپریٹو سوسائٹیز کی طرز پر سرمایہ اکٹھا کر کے کاروبار کو جدید اور وسیع کرسکتے ہیں لیکن اس کام کے لیے بھی اچھا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ سود کو حلال کرنے والے بنکوں کے تنخواہ دار ملائوں سے بھی بچنا ہوگا۔ ہمیں سادگی اختیار کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشش کرنا چاہیے۔

ج: اسلامی بنکاری کے بارے میں آپ کو اپنی راے رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔ ہم عصر علما میں ہمیں ایسے حضرات بھی ملتے ہیں جو مروجہ اسلامی بنکاری اور تکافل پر شدید اعتراضات کرتے ہیں، اور ایسے علما بھی ہیں جو مجبوریوں اور مسائل سے آگاہی کے باوجود بعض اسلامی مالی اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق اور سود سے پاک قرار دیتے ہیں۔ وہ کسی ’جبری بیعت‘ کی تبلیغ نہیں کرتے بلکہ شریعت کے اصولوں کی روشنی میں مالی اداروں کا جائزہ لے کر انھیں سند فراہم کرتے ہیں۔

ایک عام شہری کے لیے اسلام جس چیز کا مطالبہ کرتا ہے وہ حرام سے اجتناب اور حلال کا حصول ہے۔ اگر ایک مالی ادارہ نہ صرف یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ سودی کاروبار سے پاک ہے، بلکہ اس کے تمام پیداواری امور اور سرمایہ کاری کی اسکیموں کا علما نے بغور مطالعہ کیا ہے اور وہ اسے حلال کہتے ہیں، تو ایک عام شہری کو ظاہر پر اعتماد کرتے ہوئے ایسے علما کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے جو اپنی شہرت اور علمی لیاقت کی بنا پر ملک اور ملک سے باہر مستند سمجھے جاتے ہوں۔

دوسری بات یہ بھی سامنے رہے کہ جب تک ایک مثالی اسلامی حکومت قائم نہ ہو، اس وقت تک کیا کیا جائے۔ کیا سودی بنکوں کو بہ اِکراہ قبول کیا جائے یا اسلامی بنکوں کو جو واضح طور پر سود سے پاک ہونے کا اعلان کرتے ہوں۔ ایک روز مرہ کی مثال سے اسے یوں سمجھیے کہ آپ روز کسی قصاب کی دکان پر جاکر گوشت خریدتے ہیں اور اپنی اور احباب کی دعوت کرکے لذیذ کھانوں کے مزے لیتے ہیں۔ کیا ایک مرتبہ بھی آپ نے قصاب یا ذبح کرنے والے مرکز جاکر یہ معلوم کیا کہ ہرہر ذبیحہ کے وقت ذبیح نے صحیح طور پر اس پر اللہ کا نام لیا تھا یا آپ کو یہ یقین ہے کہ صدیوں سے قصاب چاہے اسے ایک لفظ قرآنی عربی کا نہ آتا ہو اور اس نے ایک جماعت بھی نہ پڑھی ہو، ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے کر ہی کر رہا ہوگا۔

اس کے مقابلے میں اسلامی مالی ادارے ہر فرد کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ خود ادارے کی  مالیاتی اسکیموں کے بارے میں تفصیلات معلوم کر کے دیکھ لے کہ اس میں سود کہاں ہے؟ اس کے باوجود اگر ایک بات ذہن میں بٹھا لی جائے کہ ہر اسلامی مالی ادارہ جو کام کررہا ہے اس میں بدنیتی اور دھوکا شامل ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اسلام میں دین کی پوری عمارت کا انحصار نیت اور ظاہری عمل پر ہے۔ اگر ایک شخص بظاہر نماز پڑھ رہا ہے تو کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے بارے میں افواہ پھیلاتا پھرے کہ گو بظاہر نماز تو پڑھ رہا ہے لیکن دل میں شیطان کو سجدہ کررہا ہے۔ دین میں اس شک اور ابہام کی کوئی گنجایش نہیں۔ بات دلیل اور ثبوت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ اگر کسی اسلامی مالی ادارے کے بارے میں کسی کے پاس ثبوت ہوں تو اس کا فرض ہے کہ انھیں عوام الناس کے علم میں لائے لیکن محض گمان اور شبہے کا اظہار نہ تقاضاے دین ہے نہ دیانت و امانت۔

اسلامی کوآپریٹو کی تجویز بہت مناسب ہے۔ اس پر لازماً کام ہونا چاہیے اور اُس کے لیے بھی اسلامی حکومت کے آنے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو حضرات اسے درست سمجھتے ہوں وہ آگے بڑھیں اور اس طرح کم از کم معاشی میدان میں اسلام کے اصولوں کو عملاً نافذ کر کے اسلام کی عملیت کی ایک مثال قائم کریں۔ اسلامی ریاست ان شاء اللہ ایسے تمام اداروں کو مزید تقویت دے گی۔ ایمان داری کا کلچر اسلامی ریاست کے آنے کے بعد نہیں،اُس سے بہت پہلے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ریاست کا راستہ اس کلچر سے ان شاء اللہ زیادہ آسان ہوجائے گا، اور جب مثالی ریاست قائم ہوگی تو وہ اس کلچر کو مزید ترقی دے گی۔ (ا- ا)