پاکستان میں پالیسی سازی پر وقتی، ہنگامی اور عارضی اقدامات کا سایہ مدتوں سے چھایا ہوا ہے۔ پہلی تعلیمی کانفرنس نومبر،دسمبر ۱۹۴۷ء نے جو رہنما اصول متعین کیے تھے، اگر انھیں خوش دلی سے اپنا لیا جاتا اور راستہ بنانے کی کوشش کی جاتی تو تیرہ بختی سے بچاجاسکتا تھا، مگر تعلیم، بدقسمتی سے ثانوی درجے کا موضوع ہی رہا۔ پیپلزپارٹی کی چوتھی حکومت نے ۹ستمبر ۲۰۰۹ء کو جو تعلیمی پالیسی منظور کی ہے، اس کا مطالعہ سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں متعدد مثبت چیزیں ہیں، کئی منفی چیزیں ہیں اور بہت سی چیزیں غیرواضح اور مبہم ہیں۔
پالیسی کے پہلے باب میں تسلیم کیا گیا ہے: ’’اہلِ پاکستان کی اکثریت اپنی تہذیب و ثقافت اور اسلام سے گہری وابستگی رکھتی ہے۔ اس لیے نظامِ تعلیم کو سماجی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے مضبوط بنیاد پر استوار ہونا چاہیے۔ پاکستان کے نظامِ تعلیم کی حقیقی اساس مذہب اور ایمان پر ہی قائم ہوسکتی ہے‘‘ (ص ۹)۔ آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’اسلامی اقدار کی اہمیت کو یہ پالیسی تسلیم کرتی ہے، جس کے تمام عناصر اس امر کا پاس و لحاظ رکھیں گے کہ دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۲۹، ۳۰، ۳۱، ۳۳، ۳۶، ۳۷ اور ۴۰ کی روح کے مطابق اس عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ یہی ضابطے قابلِ فخر پاکستانیوں اور دین اسلام پر مضبوط ایمان اور عمل کے ساتھ پاکستانی ثقافت اور معاشرت کی اعلیٰ قدروں کو ترقی دے سکتے ہیں‘‘۔ (ص ۹)
اسی سلسلۂ کلام کو باب چہارم میں ’اسلامی تعلیم‘ کے زیرعنوان زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان (ص۳۱-۳۳) کیا گیا ہے: ’’اسلامی نظریہ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں میں موجود ہے، جس کی وضاحت قرارداد مقاصد ۱۹۴۹ء میں کر دی گئی ہے اور اسی قرارداد مقاصد نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بنایا ہے، جو اس امر کا اہتمام کرے گا کہ اہلِ پاکستان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور قرآن وسنت کے مطابق بنائیں۔ قرآن کی تعلیمات اور اسلامیات کو لازمی بنایا جائے۔ عربی زبان کی ترویج کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں‘‘ (ص ۳۱)۔ ’’اسلامی تعلیمات کو نصاب میں سمونے کے علاوہ، ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ ثانوی درجے تک اسلامی تعلیمات اور نظریۂ پاکستان کو بامقصد طریقے سے پڑھایا جائے گا‘‘۔ (ص ۳۲)
پالیسی کے ’منصوبہ عمل‘ میں وعدہ کیا گیا ہے: ’’اسلامیات کی تدریس میں اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ مسلمانوں کے تمام بچوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں اور قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے گا‘‘ (ص ۳۲)۔ درجہ اول سے کلاس ہفتم اور پھر گریجوایشن اور پیشہ ورانہ اداروں تک، اسلامیات لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائے گی (کلاس اول اور دوم میں مربوط مضمون اور کلاس سوم سے اگلے درجوں تک اسے الگ مضمون کی حیثیت دی جائے گی)۔ اسلامیات کا اعلیٰ نصاب نویں، دسویں اور گیارہویں بارہویں جماعت میں بطور اختیاری مضمون بھی دستیاب ہوگا‘‘ (ص ۳۲)۔ اس کے ساتھ نصابی تقسیم کی تفصیلات درج ہیں، جن میں: قرآن، عبادات، سیرتِ طیبہ، اخلاقیات و حُسنِ سلوک، حقوق العباد شامل ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے: ’’تربیت اساتذہ اور تربیت کے دوسرے اداروں کے نصاب میں اسلامی تعلیمات کو حصہ بنایا جائے گا۔ اس امر کا خصوصاً خیال رکھا جائے گا کہ نصابی اور تدریسی لوازمے میں اسلامی تعلیمات اور ضابطوں کے بارے میں متنازع فیہ چیزیں شامل نہ ہوں۔ غیرمسلم طلبہ کو اسلامیات کے متبادل کے طور پر اخلاقیات کی تعلیم دی جائے گی‘‘۔ (ص ۳۳)
واقعہ یہ ہے کہ اس امر کا تفصیل سے اعلان کر کے وفاقی حکومت نے عوامی اُمنگوں کی بجاطور پر پاسداری کی ہے، جس کی تحسین کرنا اور اس اعلان کو تقویت دینا ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل جنرل مشرف دور کی تعلیمی پالیسی دستاویزات، وائٹ پیپرز اور پھر ۲۰۰۸ء سے ۲۰۰۹ء تک تعلیمی پالیسی کی جاری کردہ دونوں دستاویزات رسمی طور پر بھی ایسے کسی اعلان اور عزم سے کوسوں دُور تھیں۔ حکومت نے اپنی آئینی ذمہ داری اور عوام کے مطالبے کو تسلیم کر کے بجاطور پر ان عزائم کو پالیسی کا حصہ بنایا ہے۔ تاہم، اس ضمن میں دو قابل توجہ پہلو ضرور ہیں: پہلا یہ کہ اس امر کی جانب کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اعلیٰ طبقاتی تعلیمی سسٹم (جس کا تعلق بیرونِ پاکستان امتحانی نظام سے ہے) میں اسے کس طرح سمویا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں کیا ’معیاری یا کوالٹی کی تعلیم‘پانے والے طالب علم، اس فیصلے سے فارغ البال ہی رہیں گے۔ سو،اس جانب عملی اقدامات کے لیے وضاحت سے بات آنی چاہیے۔
دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سیکولر اور نام نہاد ’روشن خیال اقلیت‘ کو اس پالیسی کے انھی حصوں نے سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی ہے، جس میں پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور اسلامی تعلیم کے حوالے سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ مثلاً پالیسی کا اعلان ہونے کے اگلے روزانگریزی روزنامہ ڈان نے اداریے میں لکھا (۱۱ستمبر): آخرکار تعلیمی پالیسی کا اعلان کردیا گیا ہے، لیکن بہت سی تعلیمی این جی اوز اس پر خوش نہیں ہیں، کیونکہ انھوں نے اصلاحِ تعلیم کے لیے جو تجاویز دی تھیں وہ اس کا حصہ نہیں بنائی گئیں۔ پالیسی بنانے والوں نے پیشہ ور عناصر کی آرا پر توجہ دینے کے بجاے سیاسی اپروچ کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی اس پر بحث کرے اور میڈیا اس بحث کو اُبھارے۔ پالیسی کا وہ پہلو اپنے اندر گہرے مضمرات رکھتا ہے، جس میں نظریاتی آہنگ کی بات کرتے ہوئے اسے دستاویز میں سمویا گیا ہے۔ نصابات میں اسلامی تعلیم کا اہتمام سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ ہم روشن خیالی کو پروان چڑھانے کی توقع رکھتے تھے، مگر یہاں پر تو معاملہ دوسرا سامنے آیا ہے۔ (قرآنی سورتوں کو) حفظ کرانے پر تو زور دیا گیا ہے مگر مذہب کے نام پر فہم بڑھانے کی بات نہیں کی گئی‘‘۔ [ظاہر ہے آخری چند سورتیں تو یاد ہی کی جائیں گی اور فہم دین کو بڑھانے کے لیے پالیسی میں وضاحت موجود ہے، جسے اخبار نے دانستہ نظرانداز کیا ہے]۔ اسی طرح انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمز نے اداریے (۱۱ستمبر) میں لکھا ہے: ’’اسلامیات اور مطالعہ پاکستان، پاکستان کو بھرپور طریقے سے مذہبی رنگ دینے والے ایک جیسے مضامین ہیں، جن کا ایک بار پھر اعلان کردیا گیا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو پہلے ہی انتشار کا شکار ہے، اس میں ایسے مضامین کو اس مفروضے پر شامل کیا جا رہا ہے کہ شاید عقیدے کی تلقین پر اندھادھند زور نہ دینے کے نتیجے میں یہ انتشار پیدا ہوا ہے، حالانکہ یہ درست اپروچ نہیں‘‘۔
طبقاتی نظامِ تعلیم کی وجہ سے امیر اور غریب طبقے کے درمیان خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے: نادار بچوں کا حد سے بڑا احساس عدمِ تحفظ اور امیر بچوں میں آسمانوں کو چھوتا احساسِ برتری، نفرت کی آگ پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ اس میں بنیادی کردار تعلیم ادا کر رہی ہے۔ پالیسی دستاویز میں جابجا اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ نجی شعبے کی ترقی کا موجودہ رُخ اس فساد کو بڑھا رہا ہے، لیکن اس پر کوئی معقول قدغن لگانے یا تحدید کرنے کا کوئی بامعنی نظام تجویز کرنے کے بجاے، اُلٹا اسی نجی شعبے کو پروان چڑھانے کا پیغام دیا گیا ہے۔
اسی طرح اس پالیسی کا سب سے کمزور پہلو یکساں نظامِ تعلیم کی وضاحت سے منسلک ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پالیسی ساز اس مسئلے کو سمجھنا نہیں چاہتے۔ یکساں نظامِ تعلیم سے مراد نصاب، امتحان، ذریعۂ تعلیم اور سہولیات میں یکساں معیار پیش کرنا ہے۔ جس کے بعد ہر ادارہ اور ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق اس میں اضافہ کرنے کی آزادی برت سکے۔ مگر یہاں پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیرملکی امتحانی نظام سسٹم کو برقرار رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ ہم یکساں نظامِ تعلیم کی جانب بڑھ رہے ہیں تو یہ خود فریبی ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم کے لیے لازم ہوگا کہ اس غیرملکی امتحانی سسٹم کو بے دخل کر کے اپنے امتحانی نظام کو بہتر اور مؤثر بنایا جائے۔ نصاب کو جامع اور سہولیات کو وافر تعداد میں مہیا کیا جائے۔ لیکن اگر یہ چیزیں نہیں ہوتیں تو محض یہ کہہ دینا کہ ہم اپنے نصاب کو اے لیول تک پہنچا کر دم لیں گے، دیوانے کی بڑ سے زیادہ وزن نہیں رکھتی، کیونکہ اُس نصابی سسٹم کے اپنے تقاضے ہیں، جنھیں پورا کرنا حکومت کے بس میں نہیں، البتہ اپنے سسٹم کو بنانا ممکن ہے۔
’ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم، کے باب میں اس تجویز نے تو اہلِ پاکستان کو چکرا کر رکھ دیا ہے کہ: ’’گیارھویں اور بارھویں جماعت کا تعلق اب کالج کی سطح پر تعلیم سے نہیں ہوگا، بلکہ اسے موجودہ ہائی اسکولوں میں ضم کردیا جائے گا… تفصیلی مطالعے اور جائزے کے بعد اس فیصلے پر عمل کیا جائے گا، کہ اس نوعیت کی کوششیں ماضی میں ناکام کیوں رہیں‘‘ (ص ۳۸)۔ یہاں پر ڈیڑھ سو سال کی اس تعلیمی انتظامی تقسیم کو بہ یک جنبش قلم ختم کرنے کی خواہش کے پیچھے کم علمی یا حد سے بڑھی مرعویت اور مغرب زدگی کارفرما ہے۔
یہ چند سو انگریزی میڈیم اسکولوں کا شاخسانہ ہے کہ اہلِ حل و عقد کو چاروں طرف اُسی نوعیت کی چیزیں بھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ بارھویں تک کلاسوں کو ہائی اسکولوں کے سپرد کرنے کی تجویز کے پیچھے کسی باقاعدہ مطالعے کو پیش نہیں کیا گیا۔ چونکہ تجویز کنندگان برطانوی جی سی ای (A/O) سسٹم ہی سے واقف ہیں، اور وہ سسٹم بہرحال اسکول ہی میں بارھویں تک تعلیم کی ذمہ داری لیتا ہے، اس لیے انھوں نے یہاں کے لیے بھی اسی لاٹھی کو گھماکر بلاسوچے سمجھے تعلیمی معیار بلندکرنے کا خواب دیکھا اور زمینی حقائق کو بالکل ہی نظرانداز کردیا۔
یہاں بدقسمتی سے اسکول کی تعلیم پر خوف اور ڈر کے سایے حاوی رہتے ہیں۔جونہی طالب علم اسکول سے نکل کر کالج کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اسے کچھ آزادی اورآسودگی نصیب ہوتی ہے۔ یہ چیز اس کی ذہنی ترقی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ موجودہ تجویز اس فضا کا خاتمہ کر دے گی۔ پھر اسکولوں کی لائبریری، لیبارٹریاں، اساتذہ کی علمی اور تربیتی استعداد، ہرچیز میں موجود کمی کو نظرانداز کرکے یہ کہہ دیا ہے کہ انٹرکلاسوں کا کالج سے تعلق نہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اسکولوں میں اتنے بڑے پیمانے پر کالج کے اساتذہ کو کس معیار پر تبدیل کرکے بھیجا جائے گا، یا ان اسکولوں کے لیے انٹر کے مزید اساتذہ بھرتی کیے جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کلاسیں ہائی اسکولوں میں چل سکیں گی یا نہیں چل سکیں گی، مگر یہ ضرور ہوگا کہ دو چار سال میں ایک نسل کے دو پورے گروپ تباہ کرنے کے بعد دوبارہ انھی کالجوں میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں کو لایا جائے گا۔ اس نوعیت کے اُلٹے تجربے اسی بے چارے قومی نظامِ تعلیم کے ساتھ روا رکھے جا رہے ہیں، اور اب تو وہ بھی عوامی نمایندوں کے ذریعے۔ مزید یہ بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کالجوں کی عمارات اور سہولیات سے کیا کام لیاجائے گا؟ پالیسی اس باب میں خاموش ہے۔ اگر چارسالہ ڈگری کورس کالجوں میں متعارف کرانا ہے تو اس کے لیے ۳۰ ارب روپے سے زیادہ رقم اور کم از کم چار سال کی تیاری درکار ہے۔ مگر ایسے کسی متبادل بندوبست کو بھی پالیسی میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کالج کی انٹرکلاسوں کو اسکولوں میں دفن کر کے کالجوں کی باقی عمارتیں، ڈیڑھ ارب سالانہ امریکی ڈالروں کے ذریعے ’سرکاری نجی شراکت‘ کے ہاتھوں این جی اوز یا پراپرٹی مافیا کی بھینٹ چڑھ جائیں گی (یاد رہے امریکا نے حکم دیا ہے کہ وہ یہ خطیر رقم حکومتی ایجنسیوں یااداروں کے ذریعے نہیں بلکہ امریکی سفارت خانہ براہِ راست پاکستان کے نجی اداروں کو دے گا۔ اور افسوس کہ کشکول بکف حکمرانوں نے یہ ذلت آمیز حکم نامہ بھی تسلیم کرلیا ہے)۔ ظاہر ہے کہ ڈگری کالج کی اتنی بڑی عمارت سو ڈیڑھ سو بی اے کے طالب علموں کے لیے مخصوص کرکے، باقی حصے کو بھوتوں کا مسکن تو نہیں بنایا جائے گا۔ اور جب اسکولوں سے انٹرکلاسیں خوار ہونے کے بعد آخرکار واپس کالج میں آئیں گی تو واقعی عالمی بھوتوں نے اس کالج کے خاصے بڑے حصے پر قبضہ جما لیا ہوگا اور ان کے ہاتھوں میں حکومت سے معاہدے کی دستاویزات ہوں گی، جنھیں آئینی تحفظ مل چکا ہوگا۔ یقین نہیں آتا کہ ایک عوامی جمہوری حکومت، تاک میں بیٹھے مفاد پرستوں کی اس سازش سے بے خبر ہوگی۔ یہ بھی درحقیقت اسی نوعیت کا تماشا ہے کہ کبھی نہم دہم اور گیارھویں بارھویں کا امتحان الگ الگ اور کبھی دو دو سال بعد، پھر چند برسوں بعد وہی سالانہ امتحان بورڈ کے تحت۔ یہ ظالمانہ تجربے اس جاں بہ لب سرکاری نظامِ تعلیم پر ہی کیے جاتے ہیں جیسے اس کا کوئی والی وارث نہ ہو، اور اعلیٰ طبقاتی تعلیمی نظام کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔
اساتذہ کے حوالے سے بہت سی عملی تجاویز پالیسی میں درج ہیں۔ مثال کے طور پر: ’’دیہی اور دُور دراز علاقوں میں جانے والے اساتذہ کو اضافی الائونس دیے جائیں گے‘‘ (ص ۴۴)۔ یہ ایک درست قدم ہے۔ پھر یہ کہ ’’پبلک سروس کمیشن سے منتخب کردہ لیکچروں کو قبل از ملازمت ۶ماہ کی تدریسی تربیت دی جائے گی‘‘ (ص ۶۰)۔ اسی طرح متعدد مثبت تجاویز پیش کی گئی ہیں، لیکن تربیت اساتذہ کے بہت سے سرکاری اداروں کی موجودگی میں: ’’تربیت اساتذہ کے لیے ’سرکاری نجی شعبے کی شراکت‘ سے کام کرنے‘‘ (ص ۴۴) کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ دراصل اس ’معصوم‘ تجویز کے ذریعے تربیت اساتذہ کے سیکڑوں ادارے، این جی اوز اور نجی شعبے کے دست برد میں آجائیں گی (یاد رہے کہ ان اداروں کی نہایت قیمتی جگہیں، عمارتیں اور ہاسٹل شہروں کے قلب میں واقع ہیں)۔ یوں بڑی تیزی سے تربیت اساتذہ کا شعبہ بھی کسی یو ایس ایڈ یا ان کی کسی این جی او کے ذریعے عالمی ساہوکاری کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ مناسب صورت یہی ہے کہ ان سرکاری تربیتی اداروں کے نصاب، معیار اور سہولتوں کو بہتر بناکر اساتذہ کو تربیت دی جائے، اور نجی شعبے کے تعاون کی مذکورہ کثافت سے قوم کو محفوظ رکھا جائے۔
تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی منتخب یونینوں کے قیام کا مطالبہ ایک مدت سے اٹھایا جا رہا ہے۔ فروری ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت نے معیارِ تعلیم میں بلندی اور تعلیمی اداروں میں تصادم کی فضا ختم کرنے کے دعوے سے یہ پابندی عائد کی تھی۔ مگر حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی حلقوں نے اس پابندی کے نتیجے میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے بجاے، اسے: تعلیمی نج کاری، نجی شعبے کی گرفت کو مضبوط بنانے، تعلیم کے نام پر لوٹ کھسوٹ کے عمل کو تیز کرنے، فیسوں میں من مانے اضافے کرنے، ورلڈ بنک کے ’تعلیمی ذمہ داری سے دُور بھاگو‘ منصوبے پر عمل درآمد اور تعلیمی ذمہ داری سے حکومت کے فراری رویے کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا۔ ۲۰۰۷ء میں پیپلزپارٹی نے انتخابی منشور میں وعدہ کیا کہ وہ اسٹوڈنٹس یونین کے ادارے کو بحال کرے گی، تاہم اس سمت میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ زیربحث پالیسی دستاویز میں اس وعدے کو ایفا کرنے کی نیت کا ان الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے: ’’ایک ضابطہ اخلاق تجویز کیا جائے گا، جس کے تحت اسٹوڈنٹس یونین تعلیمی اداروں کا ماحول متاثر کیے بغیر صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دے سکے گی‘‘(ص ۴۹)۔ گویا کہ فیصلہ اب بھی بحالی کا نہیں ہوا، اور نہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسٹوڈنٹس یونین صرف سرکاری اداروں میں کام کریںگی یا ان کا انعقاد نجی تعلیمی اداروں اور نجی یونی ورسٹیوں میں بھی ہوگا؟ اگر یہ صرف سرکاری شعبے تک محدود رکھی جاتی ہیں تو اس ادارے کی بحالی کا مقصد فوت ہوجائے گا۔
نصابی اصلاحات کے باب میں یہ بات درست نہیں ہے :’’۲۰۰۵ء میں اسکولوں کے نصاب کے جامع تجزیے کا کام شروع کیا گیا، جس میں پہلی سے ساتویں جماعت تک کے ۲۵بنیادی مضامین کا جائزہ لیا گیا‘‘ (ص ۴۴)۔ درحقیقت نصابی جائزے کے اس عمل پر ماہرین تعلیم کو شدید اختلاف اور بجا طور پر ذہنی تحفظات تھے کہ یہ آئینی طریقے اور ضابطے کی کارروائی سے ہٹ کر، مخصوص لابی کا عمل تھا۔ جس نے تاریخ، اخلاق اور متن کے حوالے سے شدید خرابیاں پیدا کردی تھیں، ایسے متنازع عمل کی تحسین ایک نامناسب قدم ہے۔ تاہم پالیسی ایکشن کے تحت یہ درست بات کہی گئی ہے: ’’نصابی ترقی اور تجزیے مع نصابی کتب کے جائزے کا کام ۱۹۷۶ء کے تعلیمی ایکٹ کی روشنی میں کیا جائے گا‘‘ (ص ۴۵)۔ یہی درست طریق کار ہے، جسے ضابطے اور جمہوری روح کے مطابق روبہ عمل آنا چاہیے۔ آگے چل کر یہ کہا گیا ہے: ’’انٹرپراونشنل اسٹینڈنگ کمیٹی آن ٹیکسٹ بک پالیسی قائم کی جائے گی جو متعلقہ معاملات کی نگرانی کرے گی‘‘ (ص ۴۷)۔ ایسی کمیٹی لازمی طور پر تضیع اوقات، پیچیدگی اور بے جا اختلاف کو پیدا کرنے کا سبب بنے گی، موزوں طریقہ وہی ہے کہ: ’’۱۹۷۶ء کے فیڈرل سپرویژن آف کریکولا، ٹیکسٹ بکس اینڈ مینٹی ننس آف سٹینڈرڈز آف ایجوکیشن ایکٹ کے دائرۂ عمل کو بروے کار لایا جائے گا‘‘۔
’’وسائل کو تعلیم کی طرف موڑنے کے لیے: پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘‘ (ص ۲۰) پر زور دیا گیا ہے۔ یہ تجویز ایسی دو دھاری تلوار ہے کہ جس میں اُونٹ کی زبردستی والی کہاوت کے صادق آنے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ مناسب یہی ہوگا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو سرکاری انتظام ہی میں وسائل اور سہولیات کی فراہمی کا اہتمام کیا جائے اور نجی شعبے کو کسی ضابطے کے تحت اور ریاستی قوانین کی پاس داری کرتے ہوئے تعلیمی خدمات میں حصہ ادا کرنے کو کہا جائے۔ لیکن یہ سرکاری اداروں میں نجی شعبے کی شراکت، بیرونی مداخلت اور آخرکار قبضے کا راستہ کھولے گی اور سرکاری شعبہ رفتہ رفتہ سکڑ کر رہ جائے گا اور خود حکومت بھی یہ سمجھ کر چپ سادھ لے گی کہ چلیں ادارے کا نظام کسی نہ کسی شکل میں نجی شعبہ چلا رہا ہے، اس لیے اس کو چلنے دیا جائے، مگر یہ جان چھڑانے والا رویہ درست نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی تعلیمی اثاثہ جات کی حفاظت کرے اور انھیں ترقی دینے کے لیے موزوں حکمت عملی ترتیب دے، نہ کہ این جی اوز کو سپرد کر کے پُرسکون ہوبیٹھے۔
’’یونی ورسٹیاں چارسالہ مربوط ڈگری پروگرام متعارف کرائیںگی‘‘ (ص ۵۹)۔ یہ عجیب شتر گربگی ہے کہ پاکستان میں بہ یک وقت دو سالہ اور چار سالہ ڈگری پروگرام چل رہے ہیں۔ اگر چار سالہ پروگرام چلانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے تو اسے مناسب تیاری کے ساتھ پورے ملک میں بہ یک وقت شروع کرنا چاہیے، لیکن اگر اس کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں تو پھر انھیں محض چند یونی ورسٹیوں کی مرضی پر چھوڑ دینا مناسب نہیں ہوگا (چار سالہ ڈگری کورسوں کا متعدد اداروں میں جو حشر ہو رہا ہے، اگر اس کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جائے گی)۔ گویا کہ مہنگے تعلیمی اداروں میں فیس دینے والا چار سالہ کورس پڑھے اور غریب و نادار دو سالہ ڈگری پروگرام پاس کر کے بے کار بیٹھے۔ یہ ہماری تعلیمی زندگی کا نہایت اہم پہلو ہے، جس میں لاکھوں طالب علم معلق ہوکر رہ گئے ہیں۔
’’فرار ذہانت (brain drain) پاکستان کا سخت تکلیف دہ مسئلہ ہے‘‘ (ص ۵۷)۔ پالیسی میں یہ نوحہ تو لکھ دیا گیا ہے، مگر پوری پالیسی درحقیقت تیاری ہی اس چیز کی کر رہی ہے کہ پاکستان سے انسانی جوہرخالص فرار ہوجائے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ اعلیٰ طبقاتی تعلیمی ادارے ایسی نسل کو تیار کرنے میں ناکام ہیں جو تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں رہنا پسند کرے۔ یہ اے /او لیول کے فارغ التحصیل طالب علم اپنی تعلیم کے ابتدائی زمانے ہی سے پیرس، لندن اور شکاگو کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، اور پھر ان کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہمارے پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے معاون بھی ثابت نہیں ہوتے۔ یوں بڑی خوشی سے پڑھی لکھی سستی لیبر ہر سال باہر دھکیل دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’فرار ذہانت‘ کے المیے سے نمٹنے کے لیے قومی تعلیمی پالیسی کو نہ صرف مضبوط، توانا اور ترقی یافتہ بنانے والی دستاویز کی شکل دی جائے بلکہ اسے اسلامی اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار بھی کیا جائے۔ مگر افسوس کہ خود حکمران طبقہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے اعلیٰ طبقاتی نظامِ تعلیم کی طرف کوئی انگلی اُٹھائے۔ تعلیمی پالیسی کے اعلان ہونے کے دوسرے روز پاکستان کے ایک دانش ور نے وفاقی وزیرتعلیم سے کہا: ’’جناب سرکاری تعلیمی ادارے اس وقت درست ہوجائیں گے جب مقتدر طبقہ، سیکرٹری حضرات اور ارکانِ پارلیمنٹ و وزرا اپنے بچوں کو ان اداروں میں پڑھنے کے لیے بھیجیں گے‘‘۔ اس پر جناب وزیرتعلیم ہزارخاں بجارانی نے فوراً کہا: ’’ہم اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں نہیں بھیج سکتے‘‘(روزنامہ جنگ، ۱۱ستمبر ۲۰۰۹ء)۔ ان کا یہ بے ساختہ ردعمل ہی قومی تعلیمی نظام کے بارے میں حکمرانوں کی سنجیدگی کو ظاہر کردیتا ہے۔
ذریعہ تعلیم کے مسئلے کو بھی اس پالیسی میں ابہام کی نذر کیا گیا ہے۔ انگریزی کی اچھی تعلیم سے کوئی انکاری نہیں، لیکن جس انداز سے انگریزی کی تعلیم دی جارہی ہے، وہ قوم کو فاضل بنانے کے بجاے، محرومی، ناکامی اور مایوسی کے غار میں دھکیلنے کا ذریعہ ہے۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ابتدائی زمانے ہی میں انگریزی کا بوجھ لاد دیا جائے۔ ابتدائی زمانے میں بچوں کو قومی زبان میں پڑھنے اور زیادہ دوستانہ ماحول میں سمجھنے کی سہولت دی جائے۔ قومی زبان میں دین، اخلاقیات، تاریخ، روایات، کلچر وغیرہ کے بارے زیادہ سے زیادہ ذخیرہ الفاظ، بچوں کی یادداشت کا حصہ بنا دیا جائے، تاہم جماعت ششم سے انگریزی کی تدریس کو زیادہ بہتر بنایا جائے۔ یہ چیز ان میں لیاقت پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ محض انگریزی کے چند ابواب کو پانچویں تک پڑھا دینے سے انگریزی میں کوئی بہتر استعداد پیدا نہ ہوگی۔ لیکن افسوس کہ غیرحکیمانہ طریقے سے مسئلے کا حل یہی سمجھ لیا گیا ہے کہ انگریزی کو پہلی سے لازم کردیا گیا تو تمام دکھوں کا مداوا ہوجائے گا۔ یہ ایک غیرسائنسی اور غیرتعلیمی رویہ ہے۔ اس پالیسی میں بھی اسی کے آثار دکھائی دیتے ہیں جن پر نظرثانی ضروری ہے۔
صحت، صفائی اور علاج معالجے کی بنیادی معلومات ایک پڑھے لکھے فرد کے لیے ضروری ہیں، تاہم اس ضرورت کے نام پر جب یہ کہا جاتا ہے: ’ایڈز اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں نصاب میں لوازمہ شامل کیا جائے گا‘‘ (ص ۴۵) تو بات دوسری سامنے آتی ہے۔ اور وہ یہ کہ اسکولوں کالجوں میں جنسی تعلیم دی جائے گی۔ ابھی یہ پالیسی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں پہنچی کہ: ’’سندھ حکومت نے کالجوں میں جنسی تعلیم کے پروگرام پر عمل درآمد کی ہدایت کردی ہے‘‘ (روزنامہ ڈان، ۱۶ستمبر ۲۰۰۹ء)۔ کمرۂ تدریس میںیہ تفصیلات کس اسلوب میں بیان کی جائیں، اس پر کچھ زیادہ بحث کی ضرورت نہیں، البتہ ’روشن خیالی‘ کی ایک اور منزل ضرور سر ہوجائے گی۔
اسی طرح زیرنظر تعلیمی پالیسی نے مسائل کا جامع حل پیش کرنے کے بجاے کوئی نصف درجن کمیٹیوں اور کمشنوں کی نوید سنائی ہے کہ جو مختلف مسائل کا حل پیش کریں گے۔اگر تمام اہم معاملات پر تحقیق اور فیصلے کرنے ابھی باقی ہیں، تو پھر اس ادھوری پالیسی کو پیش کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا باقی تمام مرکزی موضوعات (مثلاً ذریعہ تعلیم، نصاب، اسٹوڈنٹس یونین، امتحانی نظام، چارسالہ ڈگری وغیرہ) بعدازاں ایک سیکشن آفیسر کے آرڈر سے پالیسی بننے جارہے ہیں؟ اس ایڈہاک ازم کے بجاے مناسب ہوگا کہ پالیسی دستاویز کو ان معاملات کے حل کے ساتھ ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے، تاکہ جامع پیکج پر قوم کے نمایندے کوئی فیصلہ کرسکیں۔
پاکستان کا مستقبل محض تعلیمی تجربات و خوش کن اعلانات سے تابناک نہیں ہوسکتا۔ زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پالیسی کو تشکیل دینا ہوگا۔ اسے مثالی پالیسی قرار دینا اس لیے ممکن نہیں کہ مختلف ٹکڑے غیرمربوط انداز سے جوڑکر پیش کر دیے گئے ہیں۔ تاہم، اس کے اچھے پہلو قابلِ تحسین ہیں اور مبہم یا منفی پہلوئوں میں بہتری لانی چاہیے۔ یاد رہنا چاہیے کہ یہ پالیسی کسی پارٹی کا وثیقہ نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کی امانت ہے، اور اسے قرار واقعی توجہ ملنی چاہیے۔ اس لیے حقائق کی دنیا سے اس پالیسی کا تعلق جوڑنا ایک بڑا چیلنج ہے۔