اکتوبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اکتوبر ۲۰۰۹ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

جمیل احمد رانا ، کلورکوٹ، بھکر

’غیرت کو کیا ہوا؟ (ستمبر ۲۰۰۹ء) کے عنوان سے تحریر یکے از شاہکار ہے، جسے ملک کے طول و عرض میں پڑھا اور پڑھایا جانا چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو اسے قومی اخبارات میں اشاعت کے لیے بھیجا جائے، تاکہ وسیع تر حلقے میں اس چشم کشا تحریر کے اثرات مرتب ہوسکیں۔ ’جماعت اسلامی بنگلہ دیش: سیکولر دہشت گردی کے سایے میں‘ (اگست ۲۰۰۹ء) ایک معلومات افزا مضمون ہے۔ مشرقی پاکستان، بھارت کی فوجی یلغار اور عوامی لیگ کی مسلح جدوجہد کی وجہ سے بنگلہ دیش بن گیا۔ لیکن اس میں کچھ اور عوامل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، مثلاً امریکی پشت پناہی اور ذوالفقار علی بھٹو کا ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ اور ’’ٹانگیں توڑ دیں گے‘‘ کی دھمکیاں وغیرہ۔ قوم اس سانحے کو میٹھے گھونٹ کی طرح پی گئی۔ عوام کو تاثر دیا گیا کہ بھوکا بنگال، پاکستان پر بوجھ تھا، وہ اتر گیا اور اب بقیہ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی، مگر آج بھی عوامی حکومت کی ’کامیابیوں‘ کے جھوٹے اشتہارات ایک شرم ناک حوالہ بن کر سامنے آرہے ہیں۔

ڈاکٹر رضوان ثاقب ، لاہور

سابق امیرجماعت اسلامی محترم قاضی حسین احمد کی خصوصی تحریر میاں طفیل محمدؒ (اگست ۲۰۰۹ء)    دل میں گھر کرگئی۔ میاں صاحب کا ریاست کپورتھلہ میں وکالت سے لے کر وفات تک زہد، تقویٰ ، استقامت اور تحریک کے لیے جہدِمسلسل کو جس اختصار اور جامعیت کے ساتھ قاضی صاحب نے بیان کیا ہے وہ متاثرکن ہے۔ ’دنیا کی بے ثباتی‘ حضرت علیؓ کا خطبہ بے حد اثرآفریں ہے۔ محترم سلیم منصور خالد کا جماعت اسلامی    بنگلہ دیش کے حوالے سے مضمون (اگست ۲۰۰۹ء) فکرانگیز ہے۔ تاہم، پاکستان میں موجود طبقاتی نظامِ تعلیم کے بارے میں بھی قلم کو جنبش دیں، کیوں کہ یہ بُرائی تو ہماری صفوں میں بھی دَر آئی ہے!

نذیرحق ، لاہور

ترجمان القرآن میں معلومات افزا مضمون ’جماعت اسلامی بنگلہ دیش:سیکولر دہشت گردی کے سایے میں‘ (اگست ۲۰۰۹ء) نظرنواز ہوا۔ مضمون کے آخر میں یہ پڑھ کر کہ: ’’بنگلہ دیش مسلم افواج کے سربراہ نے بریگیڈیئر عبداللہ الاعظمی کو کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کر دیا۔ ان کی شہرت انتہائی ذہین، ایمان دار اور   فرض شناس افسر کی تھی، البتہ جرم صرف ایک ہی تھا کہ وہ پروفیسر غلام اعظم صاحب کے صاحبزادے ہیں‘‘۔ زندگی کی بعض شیریں یادیں جو اس خبر کے بعد تلخ ہوگئی ہیں، تازہ ہوگئیں۔ میں اکتوبر ۱۹۸۳ء میں بطور     اخبار نویس وزراے خارجہ کی کانفرنس کی کوریج کے لیے لاہور سے ڈھاکہ گیا تھا۔ دوسرے روز انگریزی     اخبار آبزرور میں خبر پڑھی کہ ڈیفنس کالج سے فارغ ہونے والے لیفٹینوں میںپروفیسر غلام اعظم صاحب کا بیٹا ’اعزازی تلوار‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے، اور ساتھ ہی اس نوجوان کی تصویر بھی تھی۔ میں تلاش کرتا ہوا پروفیسر صاحب کے گھر پہنچا۔ ایک نوجوان نے بٹھایا، دوچار منٹ بعد پروفیسر صاحب مسکراتے ہوئے مکان سے باہر آئے۔ میں نے انھیں بیٹے کی کامیابی پر مبارک باد دی۔ وہ بڑے خوش تھے۔ فرمایا: ’’بنگلہ دیش اب ہمارا وطن ہے، بیٹا اپنے وطن کی خدمت کرے گا‘‘، مگر بُرا ہو تنگ نظر قوم پرستی کا، کہ اس نے ایسے لائق اور فرض شناس افسر سے یہ سلوک کیا۔ اللہ خوش رکھے مضمون نگار کو اس نے شیریں اور تلخ یادیں تازہ کر دیں۔

سمیّہ طفیل ،راولپنڈی

ابا جان (میاں طفیل محمدؒ) ترجمان القرآن بہت عقیدت و محبت سے پڑھتے تھے۔ میں نے تو بچپن ہی سے یہ رسالہ اباجان کی میز پر دیکھا ہے، حالانکہ تب وہ بحیثیت امیرجماعت ازحد مصروف رہتے تھے۔ جب بھی انھیں مطالعے کا موقع ملتا تو دیگر جرائد کے مطالعے سے پہلے ترجمان القرآن کے مطالعے کو عموماً اوّلیت حاصل ہوتی جیساکہ اخبارات کے مطالعے کے وقت وہ اللہ کے فرمان، پھر حدیث اور پھر اخبارات کی سرخیاں پڑھواتے تھے۔

میاں صاحب کا ترجمان القرآن سے پہلا تعارف ۱۹۴۰ء میں ہوا تھا جب مستری محمد صدیق صاحب اور چودھری عبدالرحمن صاحب نے انھیں پہلی مرتبہ ترجمان پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ اس کے بعد زندگی بھر ترجمان سے رشتہ جوڑے رکھا۔ وہ اس رسالے کو محبت کے ساتھ باقاعدگی سے اپنی اہم ترین مصروفیت کے دوران بھی ہمیشہ زیرمطالعہ رکھتے۔ یہاں تک کہ رحلت سے پہلے مارچ اور اپریل ۲۰۰۹ء کے شماروں کے اہم مضامین میں نے اُن کو خود پڑھ کر سنائے، جب کہ آخری شمارے کے مضامین بقول محترم صفدر علی چودھری صاحب انھیں گھربلاکر سنے۔ یہ میاں طفیل محمدؒ کی ترجمان سے محبت اور وابستگی کا  عملی اظہار تھا کہ تادمِ مرگ یہ رسالہ اُن کا ہمراہی، دوست اور رہنما ساتھی رہا۔

 

نسیم احمد ،اسلام آباد

مغرب زدہ طبقہ اور مبینہ آزاد خیال صحافی پاکستان کو لادین (secular) بنادینے پر مصر ہیں۔ انگریزی اخبارات کے اکثروبیش تر مضامین اور کالموں کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل ملائیت نے تاریک کر دیا ہے۔ قراردادِ مقاصد ملائیت کا شاخسانہ ہے۔ جب تک اس کو ختم نہ کیا جائے پاکستان ترقی نہ کرپائے گا۔

یہ مذہب بے زار طبقہ نہ جمہوریت کا قائل ہے نہ کسی نظریے کا۔ اس طبقے کے مطابق نظریۂ پاکستان ایک بے معنی شے ہے۔ اس کا پہلے کوئی وجود ہی نہ تھا حالانکہ دنیا کا کوئی ملک بغیر کسی نظریے کے قائم نہیں ہوا، خواہ وہ اشتراکیت ہو، سرمایہ داری ہو، سوشلزم ہو، ملوکیت ہو یا اسلام۔کیوں نہ ایسے لوگوں پر قدغن لگائی جائے، کم از کم شور تو کیا جاسکتا ہے! بُرائی کو ہاتھ سے روکا جائے یا زبان سے، یہاں تو دل پر بھی میل نہیں آتا۔