اکتوبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کے سایے میں

عبد الغفار عزیز | اکتوبر ۲۰۰۹ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے علاوہ بھی) اتنے نفلی روزے رکھتے کہ ہم سمجھنے لگتے اب آپؐ روزے چھوڑیںگے ہی نہیں، اور کبھی آپؐ  اتنے دن نفلی روزے چھوڑ دیتے کہ ہم سمجھتے اب آپؐ  مزید نہیں رکھیں گے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کبھی پورا مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا، اور شعبان کے علاوہ کسی مہینے اتنی کثرت سے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ (بخاری، ۱۱۶۹)

ماہِ رمضان کے روزے تو خالق کائنات نے ہر مسلمان پر فرض کردیے لیکن روزوں کی قدرومنزلت  اس قدر زیادہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پورا سال روزوں کا اہتمام فرماتے۔ شوال میں چھے روزوں، ہرمہینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں کے روزوں، ہرہفتے پیر اور جمعرات کے روزوں، یومِ عاشورہ کے دو روزوں اور یومِ عرفہ کے روزے کو تو نفلی روزوں میں نمایاں مقام و اہمیت حاصل ہے۔ آپؐ اور آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ان کے علاوہ بھی روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ آپؐ نے سردیوں کے مختصر دنوں کے روزوں کو اللہ کی طرف سے خصوصی عطیہ قرار دیا۔ کبھی گھر میں کچھ کھانے کو نہ ہوا تو فوراً روزے کی نیت فرما لی۔ قرآن کریم میں مختلف گناہوں کے کفارے کے لیے روزوں کی تعداد مقرر کر دی گئی ہے۔ غیرشادی شدہ نوجوانوں کو خصوصی طور پر روزوں کی ترغیب دی___ اگر آپؐ کی پوری حیاتِ طیبہ میں روزے کا یہ خاص مقام ہے تو کیا ہم امتیوں کو صرف رمضان ہی کے روزوں پر اکتفا کرلینا چاہیے؟ رمضان رخصت ہوگیا۔ آیئے ابھی سے روزوں کی فضیلت کے بارے میں اپنے اس علم کو نیت و ارادے میں اور نیت و ارادے کو عمل میں بدلنے کا آغاز کردیں۔


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت تم سے تمھارے جوتے کے تلوے سے بھی زیادہ قریب ہے اور اسی طرح جہنم کی آگ بھی۔ (بخاری، ۶۱۲۳)

نیکیوں سے جھولیاں بھر لینا کس قدر آسان ہے۔ ادھر دل میں نیکی کا ارادہ کیا اور ادھر نامۂ اعمال میں اجر ثبت ہوگیا۔ ارادے پر عمل بھی کرلیا تو اجر ۱۰ سے ۷۰۰ گنا تک بڑھ گیا۔ برائی سے نظریں پھیرلیں، اجر ثابت ہوگیا اور تو اور اپنے روزمرہ کے معمولات کو عادت کے بجاے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے جذبے سے کیا تو وہ بھی عبادت بن گئے۔دوسری طرف شیطان بھی ہرلمحے ساتھ لگاہے۔ قدم قدم پر برائیوں کے پھندے لگائے بیٹھا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ نیکی میں بھی بدنیتی کی آلائشیں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاد، شہادت، قربانی، تلاوت و دروسِ قرآن، اِنفاق، عبادات،   غرض ہرنیکی کو ریا اور دکھاوے جیسی غیرمحسوس برائیوں کے ذریعے ایسے کردیتا ہے جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اسی حقیقت کی خبر دے رہے ہیں کہ قدم قدم پر جنت کی ہوائیں بھی ہیں اور دوزخ کی لپٹیں بھی۔ اب دونوں راستوں میں سے ایک کا انتخاب ہم میں سے ہر شخص نے خود کرنا ہے۔ پروردگار اسی انتخاب کے مطابق توفیق عطا کردے گا۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! کیا میں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کی طرف آپ کی رہنمائی نہ کروں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! آپؐ نے فرمایا:  وہ خزانہ ہے: لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم (اللہ علی و عظیم کی مدد کے بغیر، کسی کے بس میں کوئی قوت و قدرت نہیں)۔ بندہ جب یہ کلمات کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے مجھ پر بھروسا کیا اور (اپنے تمام معاملات) میرے سپرد کردیے۔ (مسنداحمد، ترمذی)

بندے کے دل میں یہ یقین راسخ ہونا ضروری ہے کہ کارخانۂ قدرت میں ہر چیز صرف اور صرف پروردگار کی محتاج ہے۔ اللہ کے فیصلے،اس کی توفیق اور اس کی قوت و قدرت کے بغیر کوئی پتّا اور کوئی ذرّہ بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ انسان جس کے بارے میں خالق نے خود فرمایا کہ ’’کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘ ، ہرلمحے اور ہرحال میں اللہ کا محتاج ہے۔ اللہ کی حفاظت نہ رہے تو خوشیوں میں آپے سے باہر ہوکر بندگی کے دائرے ہی سے نکل جاتا ہے۔ مشکلات یا مصیبتیں آئیں تو مایوسی اور ہلاکت کی جہنم میں جاگرتا ہے۔ اقتدار و اختیار ملے تو خود کو فرعون اور دوسروں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتا ہے۔ اختلافات کا شکار ہو تو اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگ لیتا ہے، برائیوں اور اخلاقی غلاظت سے آلودہ ہوجائے تو جانوروں سے بدتر اور ذلیل ہوجاتا ہے۔ ایسے کمزور انسان کو شیطان ہر دم اپنے چنگل میں جکڑے رکھتا ہے لیکن اگر بندہ اس یقین کے حصار میں آجائے کہ لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم   تو رحمن کی رحمت اس خود سپردگی پر جھوم اُٹھتی ہے، کمزور بندوں کو تمام کمزوریوں اور شیطانی چالوں سے نجات و حفاظت عطا کر دیتی ہے۔ اسی لیے فرمایا: ’’جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ‘‘۔

حضرت ابوایوب انصاریؓ کی روایت کے مطابق جب سفرمعراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو ابوالانبیا نے فرمایا: اے محمد(ﷺ) اپنی اُمت کو جنت میں اپنے لیے فصلیں بونے کا حکم دے دیجیے۔ آپؐ نے دریافت کیا: جنت کی فصل کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ مختصر اور تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، ۶۴۱۵)

اسلام کسی وقتی اُبال ، عارضی طور پر اپنا لیے جانے والے اعمال، یا موسمی شغل اشغال کا نام نہیں،  ہمہ وقت اور ہمہ پہلو اطاعت کا نام ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سمیت سب نیکیاں یہی ہمہ وقتی خود سپردگی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ قرآن میں تمام عبادات کا اصل ہدف یہی بتایا گیا کہ شاید تم اس سے تقویٰ حاصل کرسکو۔ احساسِ اطاعت کے تحت ہمیشہ کیا جانے والا چھوٹا سا کام بھی اللہ کے نزدیک انتہائی محبوب ہے۔ ہمیشگی ایک چھوٹے سے عمل کو بھی بڑا بنا دیتی ہے۔

بندے کی مختصر سی نیکی پسند آجائے تو پھر یقینا بندہ بھی خالق کا محبوب بن جاتا ہے۔


حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مفصل حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: خبردار! اللہ کی کتاب اور اقتدار جدا جدا ہونے والے ہیں۔ ایسے میں کبھی  کتابِ الٰہی سے جدا نہ ہونا۔ خبردار! تم پر ایسے لوگ حکمران ہوجائیں گے جو تمھارے بارے میں (قرآنی تعلیمات کے خلاف) فیصلے کیا کریںگے۔ اگر ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تمھیں گمراہ کردیں گے اور اگر ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمھیں موت کے گھاٹ اُتار دیں گے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایسا ہو تو ہم کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: وہی جو عیسیٰ بن مریمؑ کے ساتھیوں نے کیا: انھیں آروں سے چیرا گیا، تختۂ دار پر لٹکایا گیا (لیکن انھوں نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا)۔ اللہ کی اطاعت میں موت، اللہ کی نافرمانی میں زندگی سے زیادہ بہتر ہے۔ (طبرانی)

رحمن کے قرآن اور ہوس اقتدار کے مارے حکمرانوں کی راہیں یقینا جدا جدا ہیں۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے راہِ نجات واضح فرما دی کہ جان جائے تو جائے لیکن قرآن کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ اقتدار اگر اغیار کی غلامی پر تل جائے، اپنے ہی بھائیوں کو تہِ تیغ کرنے کے لیے دشمن کا سہارا بن جائے، لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والوں کو اقتدار کی چھتری فراہم کیے رکھے، فریب، جھوٹ، وعدہ خلافیوں اور اپنی قوم سے دغابازی کواپنا وتیرا بنالے، عوام پر بھوک، بدامنی اور بدحالی مسلط کردے، خود بھی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو اور قوم کو بھی اسی غلاظت کی نذر کردے، تو اس اقتدار اور ان حکمرانوں سے اعلان برأت ناگزیر ہے۔ قوم اگر اللہ کی نافرمانی میں زندہ رہنے کے بجاے،   اس کی اطاعت میں موت قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے تو پھر ایسے حکمرانوں سے نجات کی راہیں بھی کھل جاتی ہیں کیونکہ غالب تو بہرحال اللہ کے قرآن ہی نے رہنا ہے۔ ہزاروں فرعون و شداد آئے اور تباہ ہوکر نشانۂ عبرت بن گئے۔ قرآن اور اس سے وابستہ افراد ابد تک سربلند رہیں گے۔


حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مؤمن جو لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملنے والی تکلیف و اذیت پر صبر کرتا ہے، وہ اس سے بہتر ہے کہ جو نہ لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے، اور نہ ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرتا ہے۔ (ابن ماجہ، ۴۰۳۲)

الگ تھلگ اور لوگوں سے کٹ کر رہنا، انسان کو بہت سی ممکنہ تکالیف سے محفوظ رکھتا ہے، لیکن ایک مومن ہمیشہ اجتماعیت سے جڑا رہتا ہے۔ تمام عبادات، پوری دعوتی، تربیتی، تحریکی اور معاشرتی زندگی، لوگوں کے اندر رہے بغیر ممکن ہی نہیں۔ رحمۃ للعالمین خود بھی صحابہ ؓ کے شانہ بشانہ اور ان میں گھل مل کر رہتے۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی بدو نے آکر شان میں گستاخی کردی، لوگوں کی زبان ہی نہیں، ہاتھ سے بھی تکلیف پہنچی، لیکن آپؐ  نے نہ صرف خود اس باہمی ربط کو نہ توڑا، بلکہ امت کو بھی یہی ترغیب دی۔ رہی اس کے نتیجے میں پہنچنے والی تکالیف، تو آپؐ نے ایک لفظ میں شافی علاج بتا دیا: صبر___ اور اللہ کی خاطر صبر___  دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ یہی ہے۔