ماہِ رمضان کے روزے تو خالق کائنات نے ہر مسلمان پر فرض کردیے لیکن روزوں کی قدرومنزلت اس قدر زیادہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پورا سال روزوں کا اہتمام فرماتے۔ شوال میں چھے روزوں، ہرمہینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں کے روزوں، ہرہفتے پیر اور جمعرات کے روزوں، یومِ عاشورہ کے دو روزوں اور یومِ عرفہ کے روزے کو تو نفلی روزوں میں نمایاں مقام و اہمیت حاصل ہے۔ آپؐ اور آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ان کے علاوہ بھی روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ آپؐ نے سردیوں کے مختصر دنوں کے روزوں کو اللہ کی طرف سے خصوصی عطیہ قرار دیا۔ کبھی گھر میں کچھ کھانے کو نہ ہوا تو فوراً روزے کی نیت فرما لی۔ قرآن کریم میں مختلف گناہوں کے کفارے کے لیے روزوں کی تعداد مقرر کر دی گئی ہے۔ غیرشادی شدہ نوجوانوں کو خصوصی طور پر روزوں کی ترغیب دی___ اگر آپؐ کی پوری حیاتِ طیبہ میں روزے کا یہ خاص مقام ہے تو کیا ہم امتیوں کو صرف رمضان ہی کے روزوں پر اکتفا کرلینا چاہیے؟ رمضان رخصت ہوگیا۔ آیئے ابھی سے روزوں کی فضیلت کے بارے میں اپنے اس علم کو نیت و ارادے میں اور نیت و ارادے کو عمل میں بدلنے کا آغاز کردیں۔
نیکیوں سے جھولیاں بھر لینا کس قدر آسان ہے۔ ادھر دل میں نیکی کا ارادہ کیا اور ادھر نامۂ اعمال میں اجر ثبت ہوگیا۔ ارادے پر عمل بھی کرلیا تو اجر ۱۰ سے ۷۰۰ گنا تک بڑھ گیا۔ برائی سے نظریں پھیرلیں، اجر ثابت ہوگیا اور تو اور اپنے روزمرہ کے معمولات کو عادت کے بجاے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے جذبے سے کیا تو وہ بھی عبادت بن گئے۔دوسری طرف شیطان بھی ہرلمحے ساتھ لگاہے۔ قدم قدم پر برائیوں کے پھندے لگائے بیٹھا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ نیکی میں بھی بدنیتی کی آلائشیں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاد، شہادت، قربانی، تلاوت و دروسِ قرآن، اِنفاق، عبادات، غرض ہرنیکی کو ریا اور دکھاوے جیسی غیرمحسوس برائیوں کے ذریعے ایسے کردیتا ہے جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اسی حقیقت کی خبر دے رہے ہیں کہ قدم قدم پر جنت کی ہوائیں بھی ہیں اور دوزخ کی لپٹیں بھی۔ اب دونوں راستوں میں سے ایک کا انتخاب ہم میں سے ہر شخص نے خود کرنا ہے۔ پروردگار اسی انتخاب کے مطابق توفیق عطا کردے گا۔
بندے کے دل میں یہ یقین راسخ ہونا ضروری ہے کہ کارخانۂ قدرت میں ہر چیز صرف اور صرف پروردگار کی محتاج ہے۔ اللہ کے فیصلے،اس کی توفیق اور اس کی قوت و قدرت کے بغیر کوئی پتّا اور کوئی ذرّہ بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ انسان جس کے بارے میں خالق نے خود فرمایا کہ ’’کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘ ، ہرلمحے اور ہرحال میں اللہ کا محتاج ہے۔ اللہ کی حفاظت نہ رہے تو خوشیوں میں آپے سے باہر ہوکر بندگی کے دائرے ہی سے نکل جاتا ہے۔ مشکلات یا مصیبتیں آئیں تو مایوسی اور ہلاکت کی جہنم میں جاگرتا ہے۔ اقتدار و اختیار ملے تو خود کو فرعون اور دوسروں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتا ہے۔ اختلافات کا شکار ہو تو اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگ لیتا ہے، برائیوں اور اخلاقی غلاظت سے آلودہ ہوجائے تو جانوروں سے بدتر اور ذلیل ہوجاتا ہے۔ ایسے کمزور انسان کو شیطان ہر دم اپنے چنگل میں جکڑے رکھتا ہے لیکن اگر بندہ اس یقین کے حصار میں آجائے کہ لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم تو رحمن کی رحمت اس خود سپردگی پر جھوم اُٹھتی ہے، کمزور بندوں کو تمام کمزوریوں اور شیطانی چالوں سے نجات و حفاظت عطا کر دیتی ہے۔ اسی لیے فرمایا: ’’جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ‘‘۔
حضرت ابوایوب انصاریؓ کی روایت کے مطابق جب سفرمعراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو ابوالانبیا نے فرمایا: اے محمد(ﷺ) اپنی اُمت کو جنت میں اپنے لیے فصلیں بونے کا حکم دے دیجیے۔ آپؐ نے دریافت کیا: جنت کی فصل کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔
اسلام کسی وقتی اُبال ، عارضی طور پر اپنا لیے جانے والے اعمال، یا موسمی شغل اشغال کا نام نہیں، ہمہ وقت اور ہمہ پہلو اطاعت کا نام ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سمیت سب نیکیاں یہی ہمہ وقتی خود سپردگی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ قرآن میں تمام عبادات کا اصل ہدف یہی بتایا گیا کہ شاید تم اس سے تقویٰ حاصل کرسکو۔ احساسِ اطاعت کے تحت ہمیشہ کیا جانے والا چھوٹا سا کام بھی اللہ کے نزدیک انتہائی محبوب ہے۔ ہمیشگی ایک چھوٹے سے عمل کو بھی بڑا بنا دیتی ہے۔
بندے کی مختصر سی نیکی پسند آجائے تو پھر یقینا بندہ بھی خالق کا محبوب بن جاتا ہے۔
رحمن کے قرآن اور ہوس اقتدار کے مارے حکمرانوں کی راہیں یقینا جدا جدا ہیں۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے راہِ نجات واضح فرما دی کہ جان جائے تو جائے لیکن قرآن کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ اقتدار اگر اغیار کی غلامی پر تل جائے، اپنے ہی بھائیوں کو تہِ تیغ کرنے کے لیے دشمن کا سہارا بن جائے، لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والوں کو اقتدار کی چھتری فراہم کیے رکھے، فریب، جھوٹ، وعدہ خلافیوں اور اپنی قوم سے دغابازی کواپنا وتیرا بنالے، عوام پر بھوک، بدامنی اور بدحالی مسلط کردے، خود بھی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو اور قوم کو بھی اسی غلاظت کی نذر کردے، تو اس اقتدار اور ان حکمرانوں سے اعلان برأت ناگزیر ہے۔ قوم اگر اللہ کی نافرمانی میں زندہ رہنے کے بجاے، اس کی اطاعت میں موت قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے تو پھر ایسے حکمرانوں سے نجات کی راہیں بھی کھل جاتی ہیں کیونکہ غالب تو بہرحال اللہ کے قرآن ہی نے رہنا ہے۔ ہزاروں فرعون و شداد آئے اور تباہ ہوکر نشانۂ عبرت بن گئے۔ قرآن اور اس سے وابستہ افراد ابد تک سربلند رہیں گے۔
الگ تھلگ اور لوگوں سے کٹ کر رہنا، انسان کو بہت سی ممکنہ تکالیف سے محفوظ رکھتا ہے، لیکن ایک مومن ہمیشہ اجتماعیت سے جڑا رہتا ہے۔ تمام عبادات، پوری دعوتی، تربیتی، تحریکی اور معاشرتی زندگی، لوگوں کے اندر رہے بغیر ممکن ہی نہیں۔ رحمۃ للعالمین خود بھی صحابہ ؓ کے شانہ بشانہ اور ان میں گھل مل کر رہتے۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی بدو نے آکر شان میں گستاخی کردی، لوگوں کی زبان ہی نہیں، ہاتھ سے بھی تکلیف پہنچی، لیکن آپؐ نے نہ صرف خود اس باہمی ربط کو نہ توڑا، بلکہ امت کو بھی یہی ترغیب دی۔ رہی اس کے نتیجے میں پہنچنے والی تکالیف، تو آپؐ نے ایک لفظ میں شافی علاج بتا دیا: صبر___ اور اللہ کی خاطر صبر___ دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ یہی ہے۔