یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ تعلیم نہ صرف فرد کی ذاتی نشوونما، بلوغت اور رُشد و ہدایت کے لیے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے، بلکہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور عروج و زوال میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔اسلام کے انسانیت پر احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ اس نے تصورِ دین ،تصورِ انسان،تصورِ فلاح اور تصورِ کامیابی کو اکتسابِ علم کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے نہ صرف حضرت آدمؑ کواشیاء کےعلم بلکہ الہامی ہدایت سے نوازا۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر اوّلین وحی جن پانچ آیات کی شکل میں نازل کی گئی، اس کا آغاز بھی پڑھنے اور ربِّ کریم کے اسماء کے ساتھ کیا گیا کہ دین کی بنیاد علم و حکمت پر ہے، توہم و قیاس پر نہیں۔ اس پہلو سے اسلام نے سابقہ مذاہب ِعالم میں تحریف اور اضافہ کیے جانے والے اساطیر الاولین (Mythologies) کی جگہ علم الیقین،وحی الٰہی اور علم نافع کی بنیاد پر انسانی زندگی، معاشرہ اور معیشت و سیاست کی تعمیر کو متعارف کرایا۔
لیکن تکلیف دہ حد تک پریشانی کا باعث یہ حقیقت ہے کہ مسلم ممالک جنھیں اپنے دین کی تعلیمات کی بنا پر علمی و تحقیقی میدان میں قیادت کا فریضہ انجام دینا چاہیے تھا، علمی ترقی اور ایجادات میں آج سب سے کم تر شمار کیے جاتے ہیں۔ وہی اہل ایمان جنھوں نےکل سائنسی میدان میں ۱۰۰۱؍ ایجادات کیں اور ان کی علمی قیادت سے دنیا کی دوسری اقوام نے استفادہ کیا، آج وہ مانگے کے اُجالے سے اپنی گزر اوقات کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان جسے مسلم دنیا میں علم و تحقیق میں سب سے آگے ہونا چاہیے تھا مسلسل ترقی ٔمعکوس کا شکار ہے ۔
ابتدائی جماعتوں سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک جو صورتِ حال اعداد و شمار پیش کرتے ہیں وہ قومی سطح پر فوری توجہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ ۲۰۲۳ء میں طبع کردہ National Achievement Test جسے کیمبرج یونی ورسٹی کے تعاون سے تیار کیا گیا کے مطابق پانچویں جماعت کے طلبہ و طالبات میں اردو، سندھی اور ریاضی کی تعلیم تمام صوبوں میں تنزل کا شکار ہے(ملاحظہ ہو ڈاکٹر عائشہ رزاق، New data , old insights دی نیوز ۱۸مارچ ۲۰۲۴ء )۔ نہ صرف یہ بلکہ گریڈ ۴ اور گریڈ۸ کے طلبہ میں بھی انگریزی،سندھی ، اردو اور ریاضی میں صورتِ حال بہت کمزورپائی گئی ہے۔ اس کمزوری کا ایک حل ملک کے بعض ماہرینِ تعلیم یہ پیش کرتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔یہ اصلاً ایک درآمد شدہ فکر پر مبنی تصور ہے اور ملک کو عملاً پانچ لسانی اکائیوں میں تقسیم کرنے کے گھناؤنے عمل کو خوب صورت بیانیہ کی شکل میں پیش کرتا ہے۔
پاکستان کے تناظر میں شمالی علاقہ ہو یا جنوبی یا وسطی، گاؤں ہو یا شہر، جو زبان دن رات بازاروں میں، گھروں اور کاروبار میں استعمال کی جاتی ہے وہ اردو ہے۔ اردو زبان تمام صوبوں، آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کو جوڑنے والی زبان ہے ۔یہ سائنسی و دیگر علمی تصورات کی وضاحت کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔ اسی بنا پر قائد اعظمؒ نے اسے قومی زبان قرار دیا تھا اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے دستور پاکستان کی روشنی میں سرکاری زبان قرار دیا ۔ چنانچہ اصل علاج اُردو ذریعۂ تعلیم اور یکساں قومی نصابِ تعلیم ہے، جس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اردو میں وہ تمام تر صلاحیت موجود ہے جو معاشرتی اور تطبیقی علوم (Applied Sciences) کی تدریس اور تحقیق کے لیے ضروری ہے۔ مزید یہ کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں ان کی قومی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور بچے تمام سائنسی تصورات کو اپنی قومی زبان میں سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ چین ، فرانس ، جرمنی، کوریا، پولینڈ، ہر جگہ ذریعۂ تعلیم قومی زبان ہے ۔
اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر ابتدائی تعلیم کو درپیش مشکلات میں بنیادی سہولیات کا موجود نہ ہونا، مثلا ًسرکاری اسکولوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت ، کلاس روم میں بیٹھنے کے لیے ڈیسک اور گنجائش اور کر سیوں کی عدم موجودگی،بجلی اور گرمی کے موسم میں پنکھوں کی عدم موجودگی، کھیلنے کے میدان اور کھیل کا سامان کا نہ ہونا ، بچوں کے لیے مناسب تعداد میں بیت الخلا، اسکولوں کے اساتذہ کے لیے تعلیمی اصولوں اور جدید طریقوں کے استعمال کی تربیت کا نہ ہونا، نیز اساتذہ میں تعلیم و تعلّم سے وابستگی کا فقدان تعلیم کے چند بنیادی مسائل ہیں۔ ایک استاد جو تعلیم کے فن سے آگاہ نہ ہو اور نہ وہ اس منصب کو اپنی اولین پسند کے طور پر اختیار کرے، بلکہ محض بے روزگاری سے بچنے کے لیے استاد بن جائے، وہ کس طرح طلبہ میں علم کی طلب اور تڑپ پیدا کر سکتا ہے؟ وہ حدسے حد ایک رٹا ہوا مواد کلاس میں دہرا سکتا ہے ، جس کا کوئی تعلق تعلیم و تربیت کے ساتھ نہیں پایا جاتا۔
ویسے بھی تعلیم سے تربیت کے لازمی حصہ کو،نامعلوم اسباب کی بنا پر اور گورے کی غلامی کے نتیجے میں Value Neutral تعلیم کے تصور (یعنی اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرنا)کے زیر عنوان نصاب سے خارج کر کے تعلیم کو صرف skills ، مہارتوں اور تکنیکی پہلوؤں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ تعلیم اسکول کی ہو یا اعلیٰ یونی ورسٹی کی، کسی درس گاہ میں آدابِ زندگی، ایمانداری ،پابندیٔ وقت، محنت ، سچائی، ہمدردی اور بہت سی بنیادی صفات پر توجہ نہیں پائی جاتی۔ یہاں تک کہ اقبال کی ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ جس کو ہرصبح ترنم کے ساتھ بچوں سے پڑھوایا جاتا تھا، اس کو بھی اسکولوں سے خارج کر دیا گیا ہے۔ آج نہ حمدباری تعالیٰ ہے ،نہ نعت رسولؐ ، نہ اقبال کا ترانہ، صرف اور صرف ’مہارت‘ اور اعداد و شمار کی تسبیح ہے اور ان میں بھی مہارت کی خاص فکر نہیں ہے ۔ تعلیم کے ابتدائی دور میں اقدارِ حیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات سے لاعلمی بعد کے آنے والے ہر تعلیمی دور پر اثر انداز ہو گی اور یہ بنیادی کمی طلبہ و طالبات کی شخصیت کو نامکمل رکھے گی ۔
اسکولوں میں تربیت یافتہ یعنی تعلیم کے شعبے میں سند رکھنے والے اساتذہ کا تناسب صفر کے برابر ہے کیونکہ جب سے تعلیم کو وفاق کی جگہ صوبائی شعبہ بنایا گیا ہے، اسکولوں میں ملازمت سیاسی پارٹی یا رشوت کی بنیاد پر دینا عام ہو گیاہے اور تعلیم و تعلم کو عموماً بے روزگار وں کو مصروف رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس کا کوئی تعلق استاد کی استعداد اور تعلیمی صلاحیت سے نہیں ہے۔ یہ صورتِ حال ملک کے تعلیمی مستقبل کے لیے سخت تشویش ناک ہے اور بلا تاخیر تمام صوبوں میں اساتذہ کی تطہیر اور پیشہ ورانہ تربیت کا بندوبست کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔صرف ان اساتذہ کو اسکولوں میں تعینات کرنا چاہیے جو اپنی پسند، رجحان ، مقصد حیات اور تعلیمی سند کی بنیاد پر استاد بننا چاہتے ہوں۔ اسکولوں کے معیار کے بلند کرنے میں اساتذہ کے ساتھ والدین بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر ’والدین اور اساتذہ کی ملاقات‘ (پیرنٹس، ٹیچرز میٹنگز) کا صحیح استعمال کیا جائے ،والدین کو ان کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی سے وقت پر آگاہ کرنے کے ساتھ ان کی عادات پر توجہ دینے اور انھیں پابندیٔ وقت کے ساتھ گھر پر دیئے گئے کام کو کرنے کی عادت ڈالی جائے تو تعلیمی معیار آہستہ آہستہ بہتر ہو سکتا ہے ۔دوسری جانب اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ والدین اپنے بچے کی تعلیمی کارکردگی کا دلچسپی کے ساتھ جائزہ لیں اور اسکول سے مطالبہ کریں کہ طالب علم میں جو کمزوری اور خامی ہے اس کو دُور کرنے کے لیے اساتذہ خصوصی وقت دے کر بچوں میں علمی ذوق کو ابھاریں ۔
حکومت کی جانب سے مرکزی اور صوبائی سطح پر کل قومی جی ڈی پی کا ۲۰۲۴ء میں ۱ء۷۷فی صد تعلیم کے لیے مختص کیا گیا(Pak Economic Survey 2023-24)۔ اگر مقابلہ کیا جائے تو ایشیا ہی کے دوسرے ممالک میں تعلیم پر جی ڈی پی کا کم از کم چار سے پانچ فی صد مختص کیا جاتا ہے اور اس کا مقابلہ خلیج کے ممالک سے کیا جائے تو وہاں پر ۷سے ۹ فی صد تعلیم کے فروغ پر خرچ کیا جارہا ہے۔
ملک کی اعلیٰ تعلیم گاہوں میں۲۳-۲۰۲۲ء میں کل داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات کی تعداد ۶۰ء۲ ملین رہی ہے ،جب کہ ملک کی آبادی ۲۴۰ ملین ہے اور تقریباً دو کروڑ طلبہ و طالبات جو عمر کے لحاظ سے تعلیم گاہ میں ہونے چاہیے تھے، اسکولوں سے باہر تعلیم سے محروم ہیں( پاک اکنامک سروے ۲۴-۲۰۲۳ء ،ص ۱۸۳)۔
طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد ۸۳ فی صد سرکاری جامعات میں اور ایک قلیل تعداد ۱۷ ٪ فی صد نجی یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے (پاکستان ایجوکیشنل اسٹیٹسٹکس ۲۱-۲۰۲۰ء ، ص ۱۵)۔
بنیادی تعلیمی شماریات کے لحاظ سے تعلیم کے فروغ پر جو رقم خرچ کی جا رہی ہے، اس میں کم از کم پانچ گنا اضافے کی ضرورت ہے، تاکہ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک صورتِ حال کو کچھ بہتر بنایا جائے اور اس سلسلے میں سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔ حالیہ صورتِ حال میں جب ملک سے بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر جا رہے ہیں، تعلیم و تربیت پر خرچ کو اولیت دینے کی ضرورت ہے۔
مارچ ۲۰۲۴ء میں اسلام آباد میں ہونے والی وائس چانسلر زکمیٹی میں ملک کی بیش تر سرکاری اور نجی یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں نے دو دن کی نشست میں شرکت کی اور تعلیمی، انتظامی، مالی اور پیشہ ورانہ اور تحقیق کے حوالے سے درپیش مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔ مختلف زاویوں سے کیے گئے جائزوں میں یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ (HEC) اور یونی ورسٹیوں کو یکساں طور پر حکومت کی طرف سے مطلوبہ وسائل کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایچ ای سی کی گرانٹ میں مسلسل اضافے کی بجائے کمی کی جا رہی ہے، جس کی بنیاد پر ایچ ای سی اپنے کردار کو کما حقہٗ ادا نہیں کر سکتی ۔بظاہر ایچ ای سی کو۱۸-۲۰۱۷ء میں دی جانے والی مالی امداد ۶۳بلین روپے تھی جو۲۴- ۲۰۲۳ء میں ۶۶بلین کر دی گئی۔ لیکن اگر اسے روپے کی قدر میں کمی کے تناظر میں دیکھا جائے تو۱۸- ۲۰۱۷ء میں یہ امداد ۶۲۲ ملین ڈالر تھی جو ۲۴-۲۰۲۳ء میں ۲۳۸ملین ڈالر رہ گئی۔ ایسی صورت حال میں ایچ ای سی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف ، تربیتی کورس ، یونی ورسٹیو ں کے اساتذہ کو تحقیقی کام کے لیے گرانٹ دینے میں کوئی اضافہ کرسکے گی ،اُمید ِموہوم ہی کہی جا سکتی ہے ۔
ملک میں اس وقت ۱۵۴سرکاری یونی ورسٹیاں ہیں اور تقریباً ۱۰۹سے زائد نجی یونی ورسٹیاں ہیں۔ سرکاری یونی ورسٹیاں اوسطاً فی طالب علم تعلیم فراہم کرنے میں۵۰ ہزار ۹ سو روپے سالانہ خرچ کرتی ہیں، سرکاری یونی ورسٹیوں میں فیس اور طالب علم پر خرچ ہونے والی رقم میں کوئی تناسب نہیں ہے کیوں کہ ان میں فیس کو کم رکھا گیا ہے ۔ملک کی معاشی صورت حال کے پیش نظرفی طالب علم خرچ میں تواضافہ ہوا ہے لیکن فیس کم ہونے اورحکومتی امداد میں غیر معمولی تخفیف کی بنا پر یونی ورسٹیوں کے لیے معیاری اساتذہ کو رکھنا اور سہولیات فراہم کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۲۴-۲۰۲۳ء میں یہ خرچ تقریباً پانچ گنا ہو کر فی کس۲لاکھ۵۰ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ان حالات میں معیاری تعلیم فراہم کرنا ایک کرشمے سے کم نہیں ہے ۔
ہر باشعور فرد اس بات سے آگاہ ہے کہ معیاری تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تخصص رکھنے والے اساتذہ کے ساتھ جدید ترین علم سے مزین کتب خانے اور برقی ذرائع سے قابلِ حصول علمی مصادر کا ہونا ضروری ہے۔ گو ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ سرکاری یونی ورسٹیوں کو ترجیحاً اور نجی تعلیم گاہوں میں سے کچھ کو کتب اور رسائل تک رسائی دیتا ہے، لیکن اس میں مزید اضافہ کی ضرورت ہے۔ جو نجی یونی ورسٹیاں ایچ ای سی کے معیار پر اچھا تحقیقی کام کر رہی ہوں ، انھیں تحقیقی کام کے لیے مالی و دیگر وسائل فراہم کیے جائیں کیوں کہ یہ بھی قومی ترقی میں یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔آبادی کے تناسب سے یونی ورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور یونی ورسٹیوں کے پاس وہ تمام سہولیات ہوں جن میں تحقیق کے جدید ترین ذرائع کو استعمال کیا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارےکام مالی وسائل کے بغیر نہیں ہو سکتے اور جب اعلٰی تعلیم پر ہونے والے اخراجات کو مسلسل کم کیا جا رہا ہو تو کیا یہ خواب پورا ہو سکے گا ؟
سرکاری یونی ورسٹیوں میں مالی وسائل میں تخفیف کے ساتھ مناسب افرادِ کار کی فراہمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ملک میں ۱۵۴ سرکاری یونی ورسٹیوں میں سے ۵۱یونی ورسٹیاں بغیر کسی ہمہ وقت وائس چانسلر کے کام کر رہی ہیں، جب کہ بعض یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ ترین عہدہ پر ایسے افراد کو بھی مقرر کر دیا گیا ہے کہ جو بنیادی معیار پر بھی پورا نہیں اُترتے۔ تعلیم گاہوں میں علمی ماحول کی جگہ تجارتی ماحول پروان چڑھ رہا ہے اور حصولِ علم کی جگہ حصولِ روزگار طلبہ اور اساتذہ کی توجہ کا مرکز بن گیاہے۔
اس وقت تعلیم کے مستحق سوا دو کروڑ بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی کے سیاسی مفاد کے لیے یونی ورسٹیوں کے قیام کا اعلان کرنا مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا ،نہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے تربیت یافتہ اور تعلیم و تربیت کو مقصد حیات بنانے والے اساتذہ کے بغیر چند عمارتوں پر اسکول کا نام لکھ دینا اس کا حل ہو سکتا ہے ۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فروغِ تحقیق کے لیے گذشتہ تقریباً ایک عشرے میں ایچ ای سی کی جانب سے صرف ان مقالات کی طباعت کو اہمیت دی گئی جو impact factor رکھنے والے رسائل میں شائع ہوں۔ پھر یہ کہا گیا کہ وہ مقالات ہوں جن کو دیگر علمی تحقیقات میں citeکیا جا رہا ہو اور جو Q-1اور Q-2 کے درجے میں آتے ہوں۔ چنانچہ citation index کو معیار بنایا گیا۔ان رسائل میں مقالات کی طباعت کو انفرادی اور یونی ورسٹیوں کی درجہ بندی میں شمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔لیکن ایچ ای سی کی فراہم کردہ ہدایات کی روشنی میں بھی جو مقالات Q-1اور Q-2 رسائل میں طبع ہوئے ان میں بھی اکثریت ان موضوعات کی ہے جو نظری مسائل سے بحث کرتے ہیں اور جن کا عملاً کوئی فائدہ پاکستان میں صنعت اور زراعت کونہیں پہنچتاہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تطبیقی علوم ہوں یا معاشرتی علوم، دونوں میں پاکستان کے معاشرتی ،معاشی ، سیاسی،معیشت ،ریاستی، قانونی اور انسانی حقوق، اسلامی ثقافت، مغربی اسلاموفوبیا کی یلغار،لادینیت اور دہریت کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور فحاشی و عریانی ،مغربی فکر و ثقافت کی اندھی تقلید پر ، نظریۂ پاکستان کی روشنی میں معاشرتی و معاشی، اخلاقی مسائل کا تجزیہ اور حل تجویز کیے جائیں۔ایسے ہی سوشل میڈیا کا کردار، مصنوعی ذہانت (A I )سے پیدا ہونے والے مقالات میں ملک میں درپیش نفسیاتی ، علمی ، اخلاقی ، معاشرتی اور ثقافتی مسائل پر خصوصاً Digitalization اور مصنوعی ذہانت (آے ائی) کے زیر اثر پیدا ہونے والے مسائل پر توجہ دی جائے ۔
تحقیقی اخلاقیات کے حوالے سے آن لائن مقالات کی سہولت نے محققین کو دوسروں کی تحقیق کو کتر و بیونت کر کے اپنے نام سے طبع کرنے اور ثانوی مواد (secondary data) پر مبنی تحقیق کو اختیار کرنے کی سہولت فراہم کر دی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح بعض شعبوں میں تحقیقی مواد تک رسائی میں اضافہ ہو جائے اور ہم یہ سمجھیں کہ ہمارے ہاں بہت تحقیق ہو رہی ہے، لیکن ایسی تحقیق کا نہ کوئی وزن ہے، نہ وہ معاشرتی، معاشی اوراخلاقی ترقی پر کوئی اثر ڈال سکتی ہے ۔
اس دور میں جس تحقیق کی ضرورت ہے اسے جزوی علم کی جگہ کلی اور تقابلی تحقیق کہا جا سکتا ہے۔ Inter Disciplinary Research عموماً کسی مسئلے کا زیادہ جامع تجزیہ اور ہمہ گیرحل تجویز کرسکتی ہے۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جس شخص نے معاشیات میں یا کیمسٹری میں سند لی ہے، اس کے پاس قانون اور اخلاقی، معاشرتی اور ثقافتی مسائل اور اس کے اپنے شعبہ سے ان کے تعلق کے بارے میں کوئی مستند معلومات نہیں ہوتیں ۔ علم ہمہ گیریت کی جگہ چند زاویوں تک محدود ہو گیا ہےاور یہ ہماری تحقیق کا ایک بہت کمزور پہلو ہے ۔
ایک عام عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ یونی ورسٹیوں اور ایچ ای سی میں تحقیق کے لیے مالی امداد میں کنجوسی سے کام لیا جاتا ہے۔اس لیے فنڈز کی کمی کے سبب تحقیق آگے نہیں بڑھ رہی۔ یہ ایک عذر لنگ ہے۔ جو شخص تحقیق کرنا چاہتا ہو اس کے لیے سو راستے تلاش کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ نہ صرف ملک بلکہ ملک کے باہر ایسے ادارے موجود ہیں جو انڈسٹری کے لیے مفیدتحقیق کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ۔شرط صرف یہ ہے کہ محقق اپنے شعبہ کا ماہر ہو، محنت کرنا جانتا ہو اور محنت کرنے پر آمادہ ہو اور تحقیق کا مقصد محض نکتہ سنجی نہ ہو بلکہ وہ واقعی عملی مسائل کے قابلِ عمل حل تجویز کرے۔
تحقیقی ثقافت کا احیا اس وقت ممکن ہے جب محقق میں اخلاص اور ایمان پایا جاتا ہو۔ وہ اللہ کے بندوں کے مسائل کے حل کے لیے اپنی صلاحیت کو، وقت کو ،وسائل کو لگانا چاہتا ہو اور علمی سرقہ کرنے (Cut Paste ) کو حرام سمجھتا ہو ۔حقیقی علمی ترقی کے لیے جامعات کو ایسے افراد کی ہمت افزائی کرنی ہوگی اور جامعات میں علمی فضا کو پروان چڑھانا ہو گا۔
سرکاری یونی ورسٹیوں کو حکومتی امداد پرانحصار کی جگہ خود انحصاری کو پروان چڑھانا ہو گا ۔ ایسے ہی نجی جامعات کو اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرنا ہو گا۔ تعلیم و تحقیق ہر برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں سب سے کم اہمیت کی حامل رہی ہے اور مستقبل قریب میں اس رجحان میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس لیے یونی ورسٹیوں کو خود انحصاری کی پالیسی کو اختیار کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں Alumni یا سابق طلبہ و طالبات کو جامعات کے معاملات میں سرگرم کردار کے لیے آمادہ کرنا ہو گا۔ جامعات کو اپنی تحقیق کوتطبیقی بنانا ہو گا اور ملکی صنعت کی ضروریات کے پیش نظر صنعتی مسائل و مشکلات کا ماہرانہ حل نہ صرف تلاش کرنا ہو گا بلکہ اس کو patent کرانے کے بعد صنعت کاروں کو فراہم کرنا ہو گا۔
عالمی سطح پر منعقد ہونے والی یونی ورسٹی وائس چانسلروں کی کانفرنسوں میں عموما ًاس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ یونی ورسٹی اور صنعتوں کے درمیان قریبی تعلق پیدا کیا جائے تاکہ یونی ورسٹیوں کو مالی اور صنعت کاروں کو ان کے مسائل کا پیشہ ورانہ حل فراہم ہو سکے۔ تاہم، یہاں یہ بات یاد رہے کہ پاکستان کے حوالے سے ہمارا مقصد دیگر یونی ورسٹیوں کی طرح صرف علم کے نام پر معاشی سرگرمی نہ ہو بلکہ علمی اور سائنسی تحقیق کا ہدف ’علم النافع‘کا پیدا کرنا اور اس کے ذریعے اللہ کی مخلوق کے جائز معاشی و معاشرتی اور سیاسی مسائل کا حل پیش کرنا ہو۔ اس کے ساتھ یونی ورسٹیاں اس معاشی ترقی کے نعرے کے زیر اثر محض مادی ترقی کے حصول تک محدود نہ ہو جائیں بلکہ وہ اللہ کے بندوں کی جامع تربیت ِاخلاق اور انسان کے مقصد ِوجود کے شعور اور معاشرتی حل، عدل کے قیام میں مددگار ہوں۔جامعات میں تعلیم و تحقیق میں مصروف نوجوانوں میں علم النافع کے تصور کو واضح کرنا ہوگا تاکہ ان کی تحقیقی جستجو عبادت کے دائرے میں داخل ہو سکے اور خدمت خلق کے اسلامی تصور پر عمل کرتے ہوئے وہ معاشرتی مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
علمی تحقیق کے جدید تناظر میں ’کھلے ماخذ‘ (open source) کورسز اور ’فاصلاتی تعلیم‘ (Online learning) میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ایک ضرورت بن گیا ہے اور اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کے اخلاقی مضمرات روزانہ خود مغربی صحافت اور تحقیقی ادب میں سامنے آرہے ہیں۔ گذشتہ ایک سال کے عرصہ میں شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرا ہو جس میں دو مرتبہ صرف نیویارک ٹائمز جیسے اخبار میں مصنوعی ذہانت کے مثبت استعمال کے ساتھ اس کے منفی اور غیراخلاقی استعمال پر امریکی جامعات سے وابستہ افراد کی تنقید نہ آرہی ہو۔ حقیقتاً مصنوعی ذہانت کو ۲۱ویں صدی کا دجال بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔ یہ انسان کی وہ تخلیقی کوشش ہے جس کے بعد وہ خود اپنے آپ کو حقیقی خالق کے آس پاس تصور کرنے لگاہے اور اس کانفس اسے اپنی ذہانت پرتکبر اور گھمنڈ پر میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود اس کے ذریعے معلومات کا چند لمحات میں انسانی خواہش کے مطابق مرتب ہوجانا اس کا کارنامہ ہے اور تعلیم میں اس کا استعمال کیا جانا مفید نتائج بھی پیدا کر سکتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر ایجادات نے علم کی تخلیق کے نئے افق ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں۔ انھیں اخلاقی حدود میں استعمال کرنا آزمائش سے کم نہیں۔
ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ خصوصا ً طب، آئی ٹی اور فارمیسی میں با صلاحیت افراد کا بیرونِ ملک روزگار کے لیے کثرت سے جانا انسانی سرمائے کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ملک کے سوچنے سمجھنے والے اور تطبیقی علوم سے وابستہ افراد ملک کی معاشی، سیاسی صورتِ حال سے مایوس ہو کر ملک کو چھوڑ کر دوسری دنیاؤں میں اپنے لیے جگہ تلاش کریں تو ملک کی معاشی اور سیاسی صورتِ حال کو بہتر کون بنائے گا؟ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس رفتار کے ساتھ پاکستان کی معیشت کو ملک کی انتظامیہ نے خود تباہی کی طرف دھکیلا ہے اس کے پیش نظر کچھ افراد یہ سمجھنے پر مجبورہوئے ہیں کہ یہاں پر ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنا آسان کام نہیں ہے ۔ملک کی معاشی صورت حال کا سنبھالنا صرف اس وقت ممکن ہو سکتاہے جب ملکی سیاسی قیادت، انتظامیہ اور عدلیہ تینوں کی ترجیح ان کی اپنی ذات کی جگہ ملکی مفاد ہو اور اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے اداروں کے وقار کو بحال کریں اور ملک میں دستور کی بالا دستی اور جمہوری روایات کو فروغ دیا جائے۔
آمرانہ نظام کسی بھی دور میں ترقی اور خوشحالی کا ضامن نہیں رہا اور نہ پاکستان میں یہ خوشحالی لا سکتا ہے۔بیورو آف امیگریشن اور بیرون ملک روزگار کے شعبہ کے۲۰۲۳ء کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۳ء میں ۸ لاکھ ۶۲ ہزار سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ کر تلاشِ روزگار کے لیے باہر گئے ہیں۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے،جس پر قومی خزانے سے تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے لیے وسائل خرچ ہوئے ہیں ۔ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ ان کا اپنے خاندان کو چھوڑ کر تلاشِ روزگار میں بیرون ملک جانا معاشرتی، ثقافتی اور اخلاقی، ہر حیثیت سے بے شمار خطرات کو دعوت دے سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں پاکستان سے جانے والے بڑی تعداد میں مزدور اور ہنرمند افراد کے خاندان سے دُور ہونے پر جو تحقیقات ہوئی ہیں ، وہ ظاہر کرتی ہیں کہ اس کے نتیجے میں چاہے ملک کے باہر سے کوئی رقم ان کے خاندان میں آئی ہو لیکن اس کی جو معاشرتی قیمت ادا کی گئی وہ اس رقم کے مقابلے میں بہت زیادہ رہی ہے ۔
یہ کہنا کہ بیرون ملک پاکستانی پاکستان کی معیشت کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں ، اعداد و شمار کی حد تک متاثر کر سکتا ہے لیکن اس کے دور رس نتائج ملکی معاشرت اور ثقافت کے لیے خوش کن نہیں کہے جا سکتے ۔مزید یہ کہ جو صورتِ حال ۱۰ سال پہلے تھی وہ اب تبدیل ہو چکی ہے اور وہ ممالک جہاں مستری، ڈرائیور، تعمیرات کے کام میں مزدوری کرنے والے اور دیگر کم آمدنی والے شعبوں میں جانے والے افراد کی مانگ تھی، وہ اب آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ٹکنالوجی کا استعمال، خلیجی ممالک میں خود اپنی مقامی آبادی کو ان کاموں میں لگانا ان کی ایک ترجیح بن گیا ہے۔
اگر آیندہ بیرون ملک کام کرنے والوں کی طلب ہوگی تو صرف ان شعبوں میں جہاں آئی ٹی اور وہ skills انھیں آتی ہوں، جو ان ممالک میں ابھی موجود نہیں ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان میں پہلے مہارتوں (skills )کا تعین اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کرنے ہوں گے، تاکہ یہ باصلاحیت افراد باہر جا کر باعزت طور پر کام کر سکیں۔
اس وقت ملک میں صرف ایک Skills یونی ورسٹی ہے، جس کا مقصد مہارتوں میں تربیت دینا ہے ۔جب تک ہر یونی ورسٹی اپنے کاموں میں بطورایک ترجیح اسے شامل نہیں کرے گی، ہم اعلیٰ مہارتوں والے افراد نہ ملک میں اور نہ ملک کے باہر فراہم کر سکتے ہیں۔ جن شعبوں میں خود Skilled افرادکی ضرورت ہے ان کے ماہرین اگر ملک کے باہر کثرت سے جائیں گے تو ملک میں غربت اور بے روزگاری کے ساتھ قانون کے احترام میں مزید کمی ہوگی ۔اس لیے خصوصاًطب اور آئی ٹی میں ملک گیر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کو جن بے مثال صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان کی موجودگی میں وہ انسان کو خود اپنے پیدا کردہ مسائل کے حل تلاش کرنے کی سمجھ بھی دیتا ہے ۔چنانچہ غلطیوں کو دوبارہ نہ کرنے کا عزم اور اپنے خالق اور مالک کی طرف رجوع کرتے ہوئے معروضی طور پر معاشی، معاشرتی اور اخلاقی مرض کی تشخیص کرنا اولین اوربنیادی ضرورت ہے۔ ہمارا مسئلہ نہ انسانی سرمایہ کی کمی ہے، نہ قدرتی وسائل کی قلت۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہترین موسم، معدنیات، زرخیز زمین، اعلیٰ صلاحیت کے افراد سے نوازا ہے لیکن ہم نے ۷۵ سال میں سوائے ناقدری ،ناشکری اور نہ فرض شناسی کے کچھ اور نہیں کیا ہے۔ اصلاح کی راہ عمل بہت واضح ہے اور ہر پاکستانی سے خلوص، محنت، بے غرضی اور ایمان داری کا مطالبہ کرتی ہے ۔ہماری پہلی ترجیح ملک میں رائج نصابات پر اپنی قومی ضروریات کی بنیاد پر نظر ثانی اور تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ہم ۷۵ برس سے گورے کی میراث فرسودہ نظامِ تعلیم کو سنبھالے ہوئے ہیںاور نوجوان نسل کی نجات کو اسے اور ابوالہول کی تعلیم حاصل کر لینے کو سمجھ رہے ہیں، جب کہ یہ مغرب سے در آمد کردہ تصورِ تعلیم ہماری موروثی گورے کی غلامی میں مزید اضافہ اور استحکام پیدا کرتا ہے ۔
اس وقت بیش تر یونی ورسٹیوں میں عمومی تعلیم دی جا رہی ہے۔ تخصص اگر ہے تو صرف طب یا انجینئرنگ کی حد تک ہے۔ ادویہ سازی اور دیگر شعبوں میں گہرائی میں جا کر نئے راستے تلاش کرنا ہماری ترجیح نہیں رہا ہے ۔اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔Center of Excellence (خصوصی مراکز ِ دانش ) یا خصوصی یونی ورسٹیوں کے لیے ضروری نہیں کہ نئی یونی ورسٹیاں ہی قائم کی جائیں۔ ہر صوبے میں کم از کم ایک یا دو موجودہ یونی ورسٹیوں کو کسی تخصص کے لیے منتخب کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک کے باہر سے بھی طلبہ کو لا کر اعلیٰ تعلیم دی جا سکتی ہے، جو یونی ورسٹی کے لیے ایک اعزاز اور اس کے معاشی استحکام میں مددگار ہو گا۔ان چند تجاویز کو پیش کرتے وقت پیش نظر یہ اصول رہا ہے کہ ہمارے موجودہ وسائل ہی کی بنیاد پر ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ ان تجاویز کے لیے صرف سرکاری اور نجی جامعات کے ساتھ تبادلۂ خیالات کے ذریعے ان کی ترجیحات میں رد و بدل کرنا ہوگا جس کے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت مفید نتائج نکل سکتے ہیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
عَلٰي سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۱۵ۙ مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا مُتَقٰبِلِيْنَ۱۶ (الواقعۃ ۵۶:۱۵-۱۶) وہ مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔
اہلِ جنّت ایسے تختوں پر بیٹھے ہوں گے جو جڑائو ہوں گے۔یعنی جو بادشاہوں کے تخت ہوتے ہیں۔ اس طرح کے تخت ہر اس جنّتی کو جو وہاں بھیجا جائے گا اس کے لیے مہیا ہوگا۔
مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا ، ان پر وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ مُتَقٰبِلِيْنَ سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے منہ کیے ہوئے ہوں گے۔ یعنی کوئی کسی کی طرف پیٹھ کرنے والا نہیں ہوگا، بلکہ سب اگر ایک مجلس میں بیٹھیں گے تو ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔
يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۱۷ۙ بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۱۸ۙ (۵۶:۱۷-۱۸) ان کی مجلسوں میں ابدی لڑکے شراب چشمۂ جاری سے لبریز پیالے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑتے پھرتے ہوں گے۔
ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھرتے ہوں گے جو مخلد ہوں گے۔ مخلد سے مراد دائمی ہے، یعنی وہ ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ان کی عمر میں اضافہ ہو اور وہ بوڑھے ہوں، مثلاً اگر وہ بارہ برس کا لڑکا ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بارہ برس ہی کا لڑکا رہے گا۔ ان کی خدمت کے لیے یہ خادم جو دائمی اور ابدی لڑکے ہوں گے، وہاں حاضر ہوں گے۔
انسانوں میں جو بچّے بلوغ کی عمر کو پہنچنے سے پہلے مرجائیں گے وہ چاہے کافر و مشرک کے ہوں، چاہے مسلمان کے، بہرحال وہ دوزخ میں جانے والے نہیں۔ اور جن کے والدین جنّت میں جائیں گے ان کے بچّے والدین کے ساتھ پہنچا دیئے جائیں گے (الطور، آیت۲۱)۔ قرآن مجید میں بھی صراحت ہے کہ ان کی اولاد کو ان کے ساتھ لا ملایا جائے گا لیکن جن کے والدین جنّت میں نہیں جائیں گے ان کے بچوں کو جہاں تک میرا اندازہ ہے اگرچہ قرآن مجید میں اس کی صراحت نہیں، البتہ بعض احادیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اُن بچوں کو اہل جنّت کا خدمت گار بنا دیا جائے گا، خواہ وہ کافر و مشرک کے بچّے ہوں یا ایسے مسلمانوں کے بچّے ہوں جو دو زخ میں جائیں گے۔ خدا ہرمسلمان کو اس سے بچائے۔ پس اگر کوئی مسلمان دوزخ میں جائے گا تو اس کی اولاد جو نابالغ ہے وہ دوزخ میں نہیں جائے گی۔ ان کو اہل جنّت کا خادم بنا دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جو عمر اُن کے لیے تجویز فرما دے گا کہ یہ اہل جنّت کی بہتر خدمت کرسکیں، بس وہی عمر ان کی ہمیشہ رہے گی۔
بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۰ۥۙ (۵۶:۱۸)وہ پیالے لیے ہوئے اور ٹوپی دار صراحیاں لیے ہوئے پھرتے پھریں گے۔
اکواب ، کوب کی جمع ہے۔کوب وہی چیز ہے جس کو انگریزی میں ’کپ‘ کہتے ہیں اور یہ کپ لفظ کوب ہی سے نکلا ہے۔ انگریزی میں وہ عربی زبان سے آیا ہے۔ ان بے چاروں کے پاس کپ بھی نہیں تھے۔ یہ مسلمانوں سے ان کو حاصل ہوئے۔ ابریق کہتے ہیں لوٹے کی وضع کی ایک صراحی جس کے ساتھ ایک ٹوپی لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اباریق اس کی جمع ہے۔
وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۱۸ۙ (۵۶:۱۸)اور ایسی شراب کہ جو چشموں سے نکلی ہو۔
جنّت کی شراب کسی چیز کو سڑاکر کشید کی ہوئی نہیں ہوگی بلکہ جنّت میں جو شراب ہوگی وہ چشمے کی شکل میں ہوگی۔ یہ قرآن مجید میں بھی وضاحت ہے اور یہاں تو بالکل صاف طور پر معین کالفظ استعمال کیا گیا ہے۔معین کہتے ہیں آبِ جاری کو۔ زمین میں سے جو چشمہ پھوٹ کر بہہ نکلے، وہ معین ہے۔ا حادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ وہ کسی چیز کو سڑا کر نہیں بنائی جائے گی بلکہ چشمے سے نکلے گی۔ ہر آدمی اس کو بالکل گوارا کرے گا اور یہ پاک اور صاف ہوگی۔ وہ کسی چیز کو سڑا کر نہیں بنائی جائے گی بلکہ چشمے کی شکل میں ہوگی، اور ہوسکتا ہے کہ مختلف اقسام کی شرابیں ہوں جو مختلف چشموں سے نکلتی ہوں۔
لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۱۹ۙ (۵۶:۱۹) جسے پی کر نہ ان کا سر چکّرائے گا نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔
دُنیا کی شراب کا جو بڑے سے بڑا فائدہ ہے جس کی خاطر انسان شراب کی تکلیفیں اُٹھاتا ہے اس کے نقصانات بھگتتاہے، وہ صرف سُرور ہے اور اس سُرو ر کی خاطر انسان شراب کو استعمال کرتا ہے۔ لیکن دُنیا کی شراب کا یہ سُرور انسان کو اتنا مہنگا پڑتا ہے کہ جیسے ہی وہ قریب آتی ہے اس وقت سے اس کی تکلیفیں شروع ہوجاتی ہیں۔
شراب جیسے ہی قریب آتی ہے پہلے تو اس کی سڑانڈ آتی ہے۔ کسی بھلا آدمی کیا، کسی بُرے آدمی کو بھی اس کی بُو پسند نہیں ہوتی۔ اس کے بعد اس کا مزہ تلخ ہوتا ہے۔ پھر جب وہ حلق سے گزرتی ہے تو معدے تک کاٹتی ہوئی جاتی ہے۔ پھر آدمی کو دورانِ سر لاحق ہوتا ہے، یعنی اس کا سر چکّرانے لگتا ہے۔ زیادہ پی جائے تو قے ہوتی ہے اور نامعلوم کیا کیا تکلیفیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہاں یہ بتا رہا ہے کہ وہ شراب ہوگی لیکن ایسی شراب نہیں ہوگی جس کے نقصانات اور اس کی تکلیفیں وہ ہوں جو اس دُنیا میں ہوتی ہیں کہ اس کو پی کر دورانِ سر لاحق ہواور آدمی اس کو پی کر بہکے، اُول فول بکے اور اپنے ہوش و حواس میں نہ رہے۔
وَفَاكِہَۃٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ۲۰ۙ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَہُوْنَ۲۱ۭ (۵۶:۲۰-۲۱) اوروہ ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چُن لیں، اور پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں۔
ایک اور مقام پر قرآن مجید میں صرف گوشت کا ذکر ہے اور یہاں پرندوں کے گوشت کا ذکر ہے۔میرا اندازہ یہ ہے کہ جس طرح سے جنّت کی شراب مصنوعی نہیں ہوگی بلکہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور جس طرح سے جنّت کا شہد بھی مگس کی قے نہیں ہوگا بلکہ وہ بھی چشموں کی شکل میں نکلا ہوا ہوگا، اور جنّت کا دودھ بھی جانوروں کے تھنوں سے دوھا ہوا نہیں ہوگا بلکہ چشموں کی شکل میں نکلے گا اور نہر کی شکل میں بہہ رہا ہوگا اور یہ قرآن مجید میں بھی ہے اور احادیث میں بھی۔ اسی طرح سے میرا خیال یہ ہے اگرچہ اس کی صراحت مجھے کہیں نہیں ملی ہے، لیکن میرا اندازہ ہے کہ وہاں کا گوشت بھی جانوروں کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا بلکہ وہ قدرتی طور پر پایا جائے گا۔ وہ جس چیز کے گوشت کی حیثیت سے بھی آدمی کے سامنے آئے گا، مزے میں بہترین ہوگا۔ اگر ہرن کے گوشت کی حیثیت سے آئے گا تو ہرن کا جو بہترین گوشت ممکن ہے وہ مزا ہوگا لیکن وہ کسی ہرن کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ کسی ہرن کو گولی مار کر حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ اسی طرح سے پرندوں کا گوشت ہے۔ یہ بھی گویا قدرتی طور پر پیدا ہوگا جانوروں کو ذبح کرکے اور اُن کے پَر نوچ کے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔
وَحُوْرٌ عِيْنٌ۲۲ۙ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۲۳ۚ (۵۶:۲۲-۲۳) اور ان کے لیے خوب صورت آنکھوں والی حُوریں ہوگی، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔
آدمی نفیس ترین چیز کو چھپا کر رکھتا ہے۔ حُوریں ایسے موتیوں کی طرح ہوں گی، جن کو چھپاکر رکھا جاتا ہے۔
جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۲۴ (۵۶: ۲۴) یہ سب کچھ ان اعمال کی جزا کے طور پر انھیں ملے گا جو وہ دُنیا میں کرتے رہے تھے۔
یعنی یہ بدلہ ہوگا ان کے ان اعمال کا جو وہ دُنیا میں کرکے آئے ہیں۔
لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا۲۵ۙ (۵۶: ۲۵) وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔
جنّت کی ساری نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں گویا یہ ایک عظیم ترین نعمت کا ذکر کیا ہے۔ جنّت کی بہت بڑی نعمت یہ ہوگی کہ آدمی کے کان میں کوئی بیہودہ بات نہیں پڑے گی۔ آدمی گناہ کی بات یا کوئی فحش بات نہیں سنے گا۔ اس دُنیا میں ایک نیک آدمی جس کے اندر فی الواقع ذوقِ سلیم موجود ہو اور جس کی روح میں طہارت اور پاکیزگی موجود ہو، اس کے لیے انتہائی اذیت کی چیز ہوتی ہے کہ انسانی بستی میں گزر رہا ہے تو اِدھر سے گالی کی آواز پڑرہی ہے اور اُدھر سے کسی کی غیبت کی گفتگو سن رہا ہے۔ اِدھر سے کوئی بیگم صاحبہ کوئی فحش گانا گارہی ہیں اور کہیں کسی اور طرح سے بیہودہ باتیں ہورہی ہیں۔ اس بھلے آدمی کے لیے یہ پریشانی ہوگی کہ ان بستیوں میں کہاں رہے؟ کہاں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد اور بال بچوں کو لے کر جائے کہ ان بلائوں سے محفوظ رہے۔ جنّت کی یہ نعمت ہوگی کہ وہاں آدمی کے کان بُرائیوں سے محفوظ رہیں گے۔ آگے چل کر الفاظ ہیں:
اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۲۶ (۵۶:۲۶)جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔
’سلام‘ کا لفظ قریب قریب اسی معنی میں ہے جس کو انگریزی میں sane کہتے ہیں، یعنی جو کچھ بھی سنیں گے معقول اور صحیح بات سنیں گے۔ ایسی بات سنیں گے کہ جس کے اندر کسی قسم کی کوئی بُرائی نہیں ہوگی۔
وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۲۷ۭ (۵۶:۲۷) اور دائیں بازو والے، اور دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔
یعنی دائیں ہاتھ والے لوگ یا اچھی اُمیدیں رکھنے والے لوگ تو ان کا کیا کہنا۔
فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۲۸ۙ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۲۹ۙ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۳۰ۙ وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۳۱ۙ (۵۶:۲۸-۳۱) وہ ایسے باغوں میں ہوں گے جہاں بے خار بیریوں اور تہ بر تہ چڑھے ہوئے کیلوں اور دُور تک پھیلی ہوئی چھائوں، اور ہر دم رواں پانی ہوگا۔
وہ ایسے باغوں میں ہوں گے کہ جن میں بے خار بیر ہوں گے۔ دُنیا میں عام طور پر جو بیر ہوتے ہیں وہ بہت گھٹیا قسم کے ہوتے ہیں لیکن اعلیٰ درجے کے بھاری بیر بعض اوقات سیب کے بچّے معلوم ہوتے ہیں۔ گویا ایسی بیریاں ہوں گی جن کے اندر کسی قسم کا کوئی خار یا کانٹا نہیں ہوگا۔
وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۲۹ۙ ، جن میں کیلے ہوں گے جن کی بیلیں تہ در تہ چڑھی ہوئی ہوں گی۔
وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۳۰ۙ ،اور دراز سایہ ہوگا، یعنی بڑے گھنے باغ ہوں گے کہ جن کو آدمی دیکھے تو دُور دُور تک اس کا سایہ ہی سایہ ہو اور دھوپ نہ پڑتی ہو۔
وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۳۱ۙ ،اور دائماً بہنے والا پانی۔
وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۳۲ۙ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۳۳ۙ (۵۶: ۳۲-۳۳) اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھل۔
لَّا مَقْطُوْعَۃٍ ، یعنی ان باغوں کے پھلوں کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔ ان کے لیے کوئی موسم مقرر نہیں ہوگا کہ ہر پھل کسی خاص موسم میں پیدا ہو اور موسم گزرنے کے بعد ختم ہوجائے، بلکہ ان کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ ہرپھل جو ان کو پسند ہے وہ ہمیشہ ان کو ملے گا۔
وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۳۳ۙ ،اور نہ ان کے اُوپر کسی قسم کی پابندی ہوگی۔ یعنی دُنیا کے باغوں کی طرح کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی جہاں سے جتنا چاہیں کھائیں۔
وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۳۴ۭ (۵۶: ۳۴) اور اُونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔
اور ان کے لیے بلند بستر ہوں گے۔ وہ اس طرح کے باغوں میں ہوں گے۔
اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۳۵ۙ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۳۶ۙ (۵۶: ۳۵-۳۶)اور ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں باکرہ بنادیں گے۔
وہاں جو حُوریں اور جو بیویاں ان کو ملیں گی ہم نے ان کو پیدا کیا ہے۔ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا،اور ان کو ہم نے باکرہ بنایا۔ ہم نے ان کو خاص طریقے سے پیدا کیا ہے۔ انسان کا خاص طریقے پر پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں جو عورت کسی کی بیوی تھی اگر وہ اس کے ساتھ جنّت میں جائے گی تو اللہ تعالیٰ گویا اس کو نئے سرے سے پیدا کرے گا چاہے دُنیا میں وہ بوڑھی ہوکر مری ہو اور اللہ تعالیٰ اسے نئے سرے سے جوان بنائے گا۔ اگر دُنیا میں وہ خوب صورت نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ اس کو نہایت خوب صورت بنائے گا مگر اس طرح سے کہ معلوم یہ ہوگا کہ وہی عورت ہے جو دُنیا میں اس کی بیوی تھی، یعنی اس کے فیچرز محفوظ ہیں اور اس کو خوب صورت بنایا جارہا ہے۔ اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان کو خاص طور پر بنایا ہے۔
فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۳۶ۙ عُرُبًا اَتْرَابًا۳۷ۙ (۵۶: ۳۶-۳۷) اور ان کو باکرہ بنادیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سِن۔
عربا کے معنی ہیں شوہر کو چاہنے والی اور اتراب سے مراد ہے ہم سِن، یعنی وہاں وہ ان کی ہم سِن بنا دی جائیں گی اور وہ اپنے شوہر سے نہایت محبت کرنے والی ہوں گی۔
لِّاَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۳۸ۭۧ (۵۶: ۳۸) یہ سب کچھ اصحاب ِ یمین کے لیے ہوگا۔
گویا دو قسم کے جنّتی ہوں گے۔ ایک جنّتی وہ ہیں جو سابقین ہیں اور دوسرے جنّتی وہ ہیں جو اصحابِ یمین ہیں۔ سابقین کے متعلق وہاں فرمایا گیا کہ وہ اُمت کے ابتدائی دور میں کثیر ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں وہ قلیل ہوں گے۔ قلیل کے متعلق پھر میں وضاحت کردوں کہ قلیل کا مطلب مجموعہ میں قلیل ہونا ہے ، تعداد میں قلیل ہونا نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نبیؑ کی دعوت کے ابتدائی زمانے میں مثلاً دو ہزار اس طرح کے لوگ ہیں لیکن چونکہ اُمت کی تعداد ہی کم تھی اس لیے وہ اُمت میں عظیم اکثریت تھے۔ ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر وہ دس لاکھ ہوں لیکن اُمت اگر کروڑوں کی ہے تو وہ اقلیت ہیں۔اس بات کو ملحوظ رکھیے۔ یہ مت سمجھیے کہ قلیل سے مراد ہے تعداد میں قلیل ہونا بلکہ اُس سے مراد ہے اقلیت میں ہونا۔یہاں اصحابِ یمین کے بارے میں فرمایا:
ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۳۹ۙ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۴۰ۭ (۵۶:۳۹-۴۰)وہ اگلوں میں سے بھی بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے بھی بہت۔
یعنی کثیر تعداد اوّلین میں اور کثیر تعداد آخرین میں۔ گویا اُمت کے اندر ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی۔ ہر دور میں اصحابِ یمین ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت ساری کی ساری دوزخیوں پر مشتمل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت کے اندر اصحابِ یمین کی بہت ہی تھوڑی اقلیت باقی رہ جائے۔ نہیں، اُمت میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اصحابِ یمین قرار پائیں گے۔ اس چیز کو سمجھنے کے لیے اس بات کو بھی ملحوظ رکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ جو لوگ میرے زمانے میں موجود ہیں اگر انھوں نے جو اِن سے دین میں مطلوب ہے، انھوں نے اس کے دس حصوں میں سے نو حصوں پر عمل کیا ہو، تب بھی ان سے بازپُرس ہوگی کہ انھوں نے ایک حصہ بھی کیوں چھوڑا ہے؟ لیکن ایک ایسا دور آئے گا کہ ان دس حصوں میں سے اگر کسی آدمی نے ایک حصے پر عمل کیا تو اس پراجر پائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ یہ بتایا گیا ہے کہ بعد کے دور میں کثیرتعداد ہوگی آخرین کی۔ اگر ایک زمانہ ایسا آجائے کہ جس میں خدا کا نام لینا بھی شرمناک ہوجائے۔ ایک آدمی سے یہ توقع کی جائے کہ وہ خدا کا نام زبان پر نہ لائے۔ اگر وہ خدا کا نام زبان پر لاتا ہے تو گردوپیش کے لوگ اس کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیسا رجعت پسند آدمی ہے کہ جو اس زمانے میں خدا کی باتیں کر رہا ہے۔ جب ایسی حالت آجائے تو اس میں اگر کوئی شخص خدا کا نام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں، میں خدا کو مانتا ہوں اور ایک مانتا ہوں، تو یہ جہاد کر رہا ہے اور اجر کا مستحق ہے۔
ایک ایسا زمانہ خود ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب ایک آدمی کو کھلے میدان میں یا کسی پارک وغیرہ میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ کیا کروں اور کہاں جائوں؟ اگر یہاں نماز پڑھوں گا تو سیکڑوں آدمی مجھے دیکھ رہے ہیں۔ وہ میرا مذاق اُڑائیں گے۔ اس حالت میں جن لوگوں نے نمازیں پڑھی ہیں ان کی نماز کا اجر، ظاہر بات ہے کہ اُس دور کی نمازوں سے بہت زیادہ ہے کہ جس دور میں اگر کوئی آدمی نماز نہ پڑھتا تھا تو نکو بن جاتا تھا۔ آج نماز پڑھنے والا نکو بن جاتا ہے۔ پس جو آدمی اُس دور میں نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز کے اجر کا کیا پوچھنا! یہ اس دور کی نماز کی بہ نسبت زیادہ ہوگا جب نماز نہ پڑھنے والا نکو بن جاتا تھا۔ جہاں حالت یہ تھی کہ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۱۴۲ (النساء ۴:۱۴۲) ’’جب نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔
یہ منافقین کی تعریف ہے۔ منافقین کے متعلق قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ وہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے اُٹھتے ہیں۔یہ ہے علامت منافقین کی۔اب نماز نہ پڑھنے والا مسلمانوں کے اندر ہے۔ اُس وقت نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اُٹھنے والا منافق شمار ہوتا تھا۔
اس طرح مختلف حالات کے اعتبار سے اعمال کا وزن اللہ تعالیٰ کے ہاں قرار پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال کا وزن صرف اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اُس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں اور اِس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں۔ رکعت اور رکعت میں اور حالات کے لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہوجاتا ہے جس میں ایک شخص نے نماز پڑھی ہے۔ اور نامعلوم کیا کیا چیزیں ہیں کہ جو مل جل کر اللہ کی نگاہ میں اعمال کی قدر بڑھاتی یا گھٹاتی ہیں۔ اسی وجہ سے فرمایا کہ اصحابِ یمین، نبی ؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں بھی بہت ہوں گے اور آخری دور میں بھی کثیر ہوں گے، البتہ سابقون نبیؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں زیادہ ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں کم ہوں گے۔(جاری)
ایک صحافی جو کہتے ہیں کہ ’مَیں مسلمان تھا،لیکن قرآن کریم کے نزول اور تحفظ کے بارے میں شبہات کی بنا پر اب قرآن کریم کو الہامی کتاب تسلیم نہیں کرتا، بلکہ ایک یا ایک سے زائد مصنّفین کی کاوش سمجھتا ہوں‘۔ پھر موصوف نے اپنے مفروضوں پر مبنی متعدد سوالات مرتب کرکے سوشل میڈیا پر پھیلا دیئے ہیں۔اگر وہ صرف ایک بات سمجھنے پر آمادہ ہو جائیں تو پھر ان سوالات کی ضرورت نہیں رہتی اور وہ بات بڑی آسان سی ہے۔
اس کتاب کے نازل کرنے والے نے خود ہر دور کے انسانوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اگر اس جیسی دس سورتیں، ایک سورت یا اس جیسی ایک بات تصنیف کر سکتے ہوں تو کر کے لے آئیں۔ یہ دعوت ان عربوں کو بھی دی گئی تھی، جو دورِ نبویؐ میں اپنی عربی زبان پر عبور پر نازاں تھے،اور بعد کے تمام اَدوار میں نہ صرف عربی زبان میں بلکہ کسی بھی زبان کے بولنے والوں کو تاقیامت دعوت ہے کہ قرآن میں جس انداز میں نازل کردہ اخلاقی ،قانونی ،معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی، ثقافتی اور دیگر معاملات کے بارے میں اصول و ہدایات بیان کیے گئے ہیں ،ان کے معیارکی کوئی آیت یا سورۃ تحریر کرکے پیش کریں ۔
تاریخ گواہ ہے کہ آج تک عربی زبان کے تمام ماہر یا دیگر زبانوں اور علوم کے ماہر بشمول اُن مستشرقین، جنھوں نے قرآن و حدیث کے انڈکس مرتب کیے ہیں، کوئی فرد اس کھلی دعوت کا جواب نہیں دے سکا۔ اگر مذکورہ صحافی اپنے بارے میں یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ عتبہ اور دیگر شعرائے عرب جاہلی سے زیادہ ادبی اور شعری صلاحیت رکھتے ہیں تو انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، متبادل کلام پیش کریں اور اصحابِ علم ان کی تحریر کی معنویت،ادبیت اور علمی عظمت کا فیصلہ معروضی طور پر کرنے کے بعد یہ بتائیں کہ کیا ان کی تصنیف میں وہ جامعیت، فصاحت و بلاغت اور ہدایت پائی جاتی ہے، جو قرآن کا امتیاز ہے ؟ جہاں تک محض سوالات داغنے کا تعلق ہے، تو کسی بھی معقول بات پر جب اور جتنے چاہے کوئی انسان سوال اُٹھا سکتا ہے، لیکن محض لایعنی سوالات کسی مستند بات کو مشتبہ نہیں بناسکتے۔
رہے یہ سوالات ،تو یہ کوئی نئے سوالات نہیں ہیں۔ علوم القرآن سے عدم واقفیت رکھنے والوں کے ذہن میں ان سے بھی زیادہ سوالات ابھر سکتے ہیں۔ قرآن کریم خود انسانوں کو سوالات اٹھانے کی دعوت دیتا ہے۔ کیوں کہ اس کتاب کا مقصد تفہیم و تعلیم اور تذکیر کے ذریعے اپنا پیغام انسانوں تک پہنچانا ہے، لیکن سوال کرنے والے کا محض سوال اٹھانا کافی نہیں ہے، بلکہ موضوع کو سمجھ کر سوال کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ جتنا منتشر الخیال سوال ہوتا ہے، اتنا ہی جواب کے باوجود بھی غیرواضح رہتا ہے،اور یہ ایک ایسا سنجیدہ عمل ہے، جس میں کٹ حجتی تو بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے سوالات بیان کرنے سے قبل ہی مذکورہ صحافی نے اپنی مدح میں یہ بات بیان کی ہے کہ میرے سوالات ایسی نوعیت کے ہیں کہ کوئی دو اصحاب بھی ان کے جواب پر متفق نہیں ہو سکتے۔ بہرحال، یہاں ہم انتہائی اختصار سے سوالات میں اٹھائے گئے شبہات پرترتیب وار بنیادی معلومات درج کر رہے ہیں:
پندرہ سو سال سے امت کے تمام اہلِ علم کا اجماع ہے کہ قرآن کریم نہ صرف من جانب اللہ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے بلکہ اس کا ہر حرف جیسا نازل ہوا ویسا ہی محفوظ ہے۔ جس کی ایک زندہ مثال ۱۵۰۰ سال میں ہر سال رمضان کریم کے دوران دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان پائے جاتے ہیں، ہر رات کم از کم ایک پارہ مسجد میں موجود سیکڑوں افراد کے سامنے تلاوت کیا جاتا ہے۔ جس میں خود کئی حافظ قرآن ہوتے ہیں اور خصوصی طور پر مقرر کردہ سامع ہر لفظ کو غور سے سنتے ہیں اور اگر قاری کہیں بھول رہا ہو تو فوراً اس کی اصلاح کر دیتے ہیں۔ اس طرح ہرسال ، اور تواتر سے پندرہ سو سال سے بلا کسی ناغہ اس کتاب کو سنا جا رہا ہے ۔ اس طرح تواتر سے اس کتاب کے ہر لفظ کا صحیح مخرج اور صحیح حرکات کے ساتھ بغیر کسی تبدیلی کے تلاوت کیا جا نا اس کے صحیح شکل میں محفوظ ہونے کا عملی ثبوت ہے ۔ یہ کوئی قیاسی دلیل نہیں ہے ایک ایسی عینی شہادت ہے جس کی مثال دنیا کی کسی بھی اور کتاب کے حوالے سے نہیں پائی جاتی۔ اس زندہ روایت کی موجودگی میں اس بات کا امکان نہیں رہتا کہ کوئی شخص اپنی مرضی کے مطابق کوئی تحریف کر لے۔ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ایسے ہی جاری ہے۔ جس سال آپؐ کا وصال ہوا حضرت جبرئیل امینؑ نے دو مرتبہ آپؐ سے اس پورے کلام کو سنا اور ساتھ ہی صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے بھی سن کر اپنی یادداشت کی توثیق کی۔
عموماً رمضان میں تراویح میں حفاظِ قرآن کی تین نسلیں ایک وقت میں قرآن کریم کو آغاز سے اختتام تک سنتی ہیں۔ چنانچہ ایک پوتا اور اس کا والد اور اس کا دادا ایک ہی وقت میں کلام الٰہی کو سن رہے ہوتے ہیں۔ یہ قرآن کریم کی باحفاظت اسی شکل میں پائے جانے کی ایک عینی شہادت ہے، جو ہر سال دنیا کے تمام گوشوں میں کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم خود مشاہدہ کر سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں پوری دنیا میں تلاوت کیے جانے والے قرآن کریم میں وہ افریقہ میں کیا جا رہا ہو یا امریکا اور آسٹریلیا میں یا پاکستان اور ترکی اور ملایشیا، ہر جگہ وہی ایک قرآن ہے، جو الفاتحہ سے والناس تک ہر مسلمان گھرانے میں پایا جاتا ہے۔ اس عینی شہادت کے بعد یہ کہنا کہ ہر دور میں آیات بڑھائی اور گھٹائی جاتی رہی ہیں، ایسا ہی ہے کہ روشن سورج کے سامنے آنکھیں بند کر کے سورج کے نہ ہونے کا دعویٰ کیا جائے۔
جہاں تک تمثیلی انداز میں قرآن کی عظمت کے حوالے سے یہ کہا جانا کہ اس سے زمین اور پہاڑ بھی لرز اٹھتے تو حقیقت واقعہ یہی ہے کہ جو اس کلام کو سمجھ کر تو جہ کے ساتھ پڑھتا یا سنتا ہے ،اس پر خشیت طاری ہو جاتی ہے اور ذمہ داری کے احساس میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن جو اسے شک و شبہہ اور اعتراض برائے اعتراض کی نگاہ سے پڑھتا ہے ،اس کے دل کی سختی میں اضافہ کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ قرآن نے خود یہ بات واضح کر دی ہے کہ پہاڑ ہوں یا دریا اور درخت ہوں یا پرندے، ہرایک اللہ کے بتائے ہوئے قانون پر عامل ہوتے ہوئے سب پہلے مسلم ہیں۔
سائل کا کہنا ہے کہ ’چھ دن میں کائنات بنانے والا جو خدا ہے ،اس کو اس کتاب کے لکھنے میں ۲۳ سال لگ گئے‘، حالانکہ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ اس پوری کتاب کو رب کریم نے ایک قدر والی رات میں نازل فرمایا اور اسے ایک مقام پر محفوظ کر دیا اور آئندہ ۲۳ سال میں پیش آنے والے واقعات کی مناسبت سے متعلقہ آیات کو ۲۳ برسوں میں ہر موقعے کے لحاظ سے اس کی آیات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جاتی رہیں۔ اس میں حیرت کس بات پراورسائل خود طےکرے کہ ان کے سوال کی کوئی بنیاد ہے؟
تفصیلات میں جائے بغیر یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ عرب جاہلیہ میں بھی بعض اقدار کا غیر معمولی اہتمام کیا جاتا تھا، جن میں صلہ رحمی کی بڑی اہمیت تھی۔ خون کے رشتے کے لحاظ سے ابولہب آپؐ کا چچا تھا، جو انتہائی قریبی رشتہ ہے۔ وہ آپؐ کا سب سے زیادہ قریبی پڑوسی بھی تھا، لیکن اسلام دشمنی میں سب سے زیادہ پیش پیش تھا۔ چنانچہ جب آپؐ مختلف مواقع پر دعوتِ دین کے لیے نکلتے تو وہ آپؐ کے پیچھے چلتے ہوئے آپؐ کی ایڑیوں پر پتھر سے نشانہ لگاتا۔ حتیٰ کہ آپؐ کی ایڑیاں خون آلود ہو جاتیں۔اس کی بیوی آپؐ کے گھر کے سامنے غلاظت اور کانٹے ڈالتی رہتی۔ آپؐ کے دوسرے عزیز بھی آپؐ سے اختلاف رکھتے تھے، جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن جس شدت کے ساتھ ابو لہب نے قطع رحمی جاری رکھی، وہ اس بات کی متقاضی تھی کہ قرآن کریم ایک جانب قطع رحمی کی مذمت کرے اور دوسری جانب ابو لہب کو اس دنیا میں ہی خبردار کر دے کہ رسولؐ کو زخمی کرنے والے ہاتھ لازماًمستحق ہیں کہ ٹوٹیں ۔ چنانچہ وہ اپنی تمام تر دولت کے باجود اسلام دشمنی کی بنا پر نامرادہی رہے گا۔ یہ قرآن کریم کی جامعیت ہے کہ ان چند الفاظ میں ایک حقیقی واقعہ کی طرف صرف اشارہ کیا گیا اور اس اشارہ کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر دین کی مخالفت چچا بھی کرے گا تو اس کی سزا اور انجام دیگر مشرکین سے مختلف نہ ہوگا۔
رہا کتابی شکل میں اپنی زندگی میں قرآن مجید کا تحریر کروا دینا تو اگر سوال کرنے والے فرد، قرآن کریم کے جمع کرنے کی تاریخ پر کسی تعارفی تحریر کا مطالعہ کرلیتے تو سوال کا جواب مل جاتا۔ ہرنزول کے موقعے پر ہمہ وقت موجود کاتبین وحی میں سے کسی کاتب کو آپؐ اسی لمحہ وہ قرآنی وحی تحریر فرما دیا کرتے تھے۔ قرآن اپنے بارے میں کہتا ہے کہ اسے ہاتھ نہ لگایا جائے، جب تک کوئی فرد پاک یا طاہر نہ ہو۔ یہ مکی دور کی آیت ہے۔
اس حوالے سے حضرت عمر ؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے چھ نبوی میں اسلام قبول کیا اور اس طرح قبول کیا کہ و ہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تھے کہ راستے میں معلوم ہوا کہ ان کی بہن اور بہنوئی بھی مسلمان ہوگئے ہیں ۔یہ پہلے ان کی طرف گئے تو قرآن کی تلاوت کی آواز سنی۔ دستک دی اور پکارا تو بہن اور بہنوئی نے جن صفحات سے وہ پڑھ کر تلاوت کر رہے تھے انھیں چھپا دیا ۔ حضرت عمر ؓ کے اصرار پر انھیں وہ کاغذ دکھائے گئے، لیکن یہ کہا گیا کہ جب تک وہ غسل نہ کر لیں انھیں ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ واقعہ کی تفصیل میں جائے بغیر اس سے یہ ثابت ہوا کہ چھ نبوی میں صحابہ کرامؓ کے پاس قرآن کے اجزا تحریری شکل میں موجود تھے اور پڑھنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا کہ قرآن آپ ؐکے وصال کے بعد ضبط ِتحریر میں لایا گیا اور جس نے جو چاہا لکھ کر منسوب کر دیا، ایک بے بنیاد مفروضہ ہے ۔
یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ روزِ اوّل سے قرآن کی ہر وحی نہ صرف آپؐ کے حافظہ میں اس ترتیب سے جس میں قرآن آج پایا جاتا ہے محفوظ ہو جاتی تھی، بلکہ اسے فوری طور پر کاتبین وحی، جن کا کام ہی یہ تھا کہ وہ ہمہ وقت آپؐ کے پاس موجود رہیں اور جب بھی وحی آئے اسے تحریر کریں۔وہ وحی کو آپؐ کی موجودگی میں تحریر کرلیتے تھے۔ رہا یہ سوال کہ اسے کتابچہ یا کتابی شکل میں کیوں مرتب نہیں کیا گیا؟ تو اس ضمن میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ وحی کا عمل جاری تھا اور کسی کو علم نہیں تھا کہ وحی کی تکمیل کب ہوگی ۔ تدوین اسی وقت کی جاتی ہے جب متن تکمیل کو پہنچ جائے۔ مزید یہ کہ چونکہ جو کچھ وحی ہوا ،وہ اسی ترتیب کے ساتھ لکھا جا رہا تھا جس ترتیب سے اسے قیامت تک محفوظ ہونا تھا اور وہ سب تحریرات محفوظ تھیں، اس لیے ان پر ایک جلد میں جلد سازی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس کام کے متوازی ایک دوسرا معجزانہ طریقہ حفاظت ِقرآن کا یہ اختیار کیا گیا تھا کہ اسے ترتیب ِنزولی کی جگہ اُس ترتیب سے جو حضرت جبرئیلؑ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کرتے تھے، یادداشتوں میں محفوظ کر لیا جاتا تھا۔جسے ہم نے معجزانہ طریقہ کہا ہے ،وجہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس کے تمام نسخے حاصل کر کے آپ سمندر میں ڈال دیں، اور اس کا کوئی ایک حافظ، بلکہ خود مصنف اسے دوبارہ جوں کا توں زبانی بیان کر سکے یا تحریری شکل میں تخلیق کر ڈالے۔ یہ صرف قرآن کریم ہے جس کو ان دو واسطوں سے روزِ اوّل سے محفوظ کیا گیا۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ قرآن کریم آپؐ کی حیات مبارکہ میں ایک کتابی شکل میں کیوں جمع نہ کر لیا گیا؟اگر یہ کتاب کسی انسان یا انسانوں کی اجتماعی تحریر ہوتی ،تو عین ممکن ہے کہ وہ لوگ اسے ترتیبِ زمانی سے ہی لکھتے۔لیکن قرآن کریم الہامی کتاب ہے، جس میں ربِّ کریم نے مکی دور میں پیش آنے والی آزمائش وابتلا کے حوالے سے اور اسلام کے بنیادی عقیدے پر ہدایات دی ہیں اور اس بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے مدنی دور میں نہ صرف عقیدہ بلکہ معاملات، قانون ،مسائل اور بین الاقوامی تعلقات پر جامع ہدایات دی ہیں۔ گو،یہ ہدایات ہر لمحہ پیش آنے والے واقعات کے سیاق میں نازل ہوئیں، لیکن بغیر کسی تبدیلی و تغیر کے ان ہدایات کا اطلاق قیامت تک ایسے سب مواقع پر ہوگا، جن میں ابتلا و آزمائش پیش آرہی ہو ۔
تیرہ سال اہل ایمان کو مکہ میں ابتلا و آزمائش کے پیش آئے اور جو آیندہ کسی بھی دور میں پیش آ سکتے ہیں۔ ایسے ہی مدنی دور میں تعمیرِ سیرت، معاشرہ ،معیشت، سیاست کے اصول بیان کر دیے گئے۔ اور پھر قرآن کریم کو اس طرح یک جا کر دیا گیا کہ وہ زمانی قید سے بلند ہو جائے اور تاریخی دستاویز کی جگہ تاریخ ساز ہدایت بن کر قیامت تک تمام مسائل کے حل کا راستہ دکھا سکے۔ اگر ایک مرتبہ قرآن کی حکمت ِترتیب کو سمجھ لیا جائے تو نہ کسی تفسیری مباحث میں جانے کی ضرورت ہے، نہ مغربی تصوّرِ ارتقا اور تجرباتی بنیاد پر بدلتی سائنس کی بنیاد پر مطالعے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔بلکہ تجزیاتی تحقیق کرنے کے لیے اس آفاقی کتاب کے اصولوں کو استعمال کر کے جدید ترین مسائل کا انسانیت دوست اور عادلانہ حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔یہ کتابِ اخلاق ہے، جو ہر شعبۂ حیات کے عملی اخلاق کا ضابطہ فراہم کرتی ہے۔اس میں معاشی اخلاقیات بھی ہیں اور سیاسی اخلاقیات بھی، نیز بین الاقوامی اخلاقیات بھی۔ یہ ثقافت کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے اور عقلی اور تجرباتی علوم کے لیے انسانیت دوست اصول بھی سکھاتی ہے۔ یہ سب اس لیے کہ اسے کسی محدود عقل والے انسان یا انسانوں نے نہیں بلکہ انسانوں کے خالق نے اپنے منتخب کردہ بندے پر ہدایت کی شکل میں نازل کیا ہے۔ ایک الہامی کتاب میں انسانی تحریر کی خصوصیات تلاش کرنا عقل کے منافی ہے۔
اگر موصوف کے بیان کے مطابق قرآن کے ۱۰پارے کوئی بکری کھا گئی تو اول تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ قرآن اتنی کثرت سے تحریری شکل میں موجود تھا کہ بکریاں تک ضرورت پڑنے پر اسے سبز گھاس سمجھ کر کھا لیا کرتی تھیں ۔ ایسی مضحکہ خیز افسانہ سازی کسی سنجیدہ جستجو سے مناسبت نہیں رکھتی۔ دوسرے اس خیالی واقعے سے صحافی صاحب کی اس بات کی تردید ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں قرآن کریم کے اجزاء تحریری شکل میں موجود نہیں تھے۔اگر قرآن تحریر نہیں کیا گیاتھا تو بکری نے اسے کیسے کھا لیا؟تیسرے، یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس واقعے کے وقت کیا مدینہ منورہ کے اندر اور باہر صرف وہی ایک مسودہ تھا جسے بقول ’’صحافی بکری نے کھا لیا، اور دس پارے ضائع ہوگئے؟‘‘ یاسیکڑوں، ہزاروں سینوں میں اور سیکڑوں صحابہ کے گھروں میں وہ اوراق موجود تھے، جن کا مطالعہ وہ دن رات کرتے تھے؟حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کے واقعہ کی طرف اس سے قبل اشارہ کیا گیا ہے۔ان کی بہن اور بہنوئی قرآنِ کریم کے جس حصے کی تلاوت کررہے تھے اس میں کہا گیا تھا کہ اسے مت چھوئیں سوائے ان کے جو پاک اور طاہر ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ حکم حافظہ سے قرآن کی تلاوت کے بارے میں نہیں ہو سکتا اور اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن تحریری شکل میں صحابہ کے زیر مطالعہ دورِ نبویؐ میں ہی تھا۔
تاریخی طور پر حضرت ابوبکرؓ کے دور میں حضرت زید ؓ بن ثابت نے ایک مقررہ معیارِ شہادت کے بعد قرآن کے کاتبینِ وحی کے تحریر کردہ اجزاء کو قبول کرنے کے لیے یہ شرط رکھی کہ صرف وہ صفحات جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست سن کر قرآن لکھا گیا اور جن کے تحریر کیے جانے کے وقت دو صاحب ِایمان عینی شاہد موجود تھے۔ صرف ان تحریری اجزاء کو قبول کیا جائے گا۔ اس اصول کے بعد یہ بات سراسر لاعلمی یا فتنہ انگیزی پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کے بعض حصے بنی امیہ کے دور میں اپنے مفاد کے پیش نظر لکھ کر شامل کر دیے گئے۔ اس نوعیت کی قیاس آرائی مستشرقین صدیوں سے کر رہے ہیں۔ سوال کرنے والے نے اس بات کو اٹھا کر کسی ذہانت کا ثبوت نہیں دیا۔ حضرت زیدؓ اور صحابہ کرامؓ نے جس لہجے میں آپؐ کے سامنےقرآن تلاوت کیا تھا، اسی لہجہ ولحن میں ، اسی ترتیب کے ساتھ اسے یک جا کر دیا گیا،جسے مصحفِ حفصہؓ کا نام دیا گیااور اُم المومنین حضرت حفصہؓ کے ہاں اسے محفوظ کر دیا گیا ۔جس کی نقول کروا کے حضرت عثمانؓ نے اہم مراکز مکہ، کوفہ، بصرہ، مدینہ وغیرہ میں رکھوا دیں تاکہ لوگ اپنے مصحف کی اس کے مطابق تصحیح کرلیں۔اس کی نقول آج بھی تاشقند، برلن اور استنبول کے اسلامی عجائب گھر میں موجود ہیں۔ تاشقند کا نسخہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ یہ تفصیلات اور مزید تفصیلات علوم القرآن سے متعلق کتب میں موجود ہیں، اگر ان پر ایک نظر ڈال لی جاتی تو بلا وجہ کے اشکال پیدا ہی نہ ہوتے۔
جو بات مصدقہ روایات سے واضح ہے وہ یہ کہ ایک غیر متوقع صورت حال پیش آنے کی بناپر آپؐ نے صرف سیّدہ خدیجہؓ سے یہ کہا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ مجھے کچھ اوڑھا دو اور پھر وہ تفصیل انھیں بتلائی جس میں حضرت جبرائیلؑ کا آنا اور آپؐ کو سینہ سے لگا کر تین مرتبہ گرم جوشی سے بغل گیر ہونا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک غیر متوقع واقعہ اگر ہو تو ہر انسان پر اس کا اثر ہونا چاہیے۔ اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حضرت موسٰی کی طرح یہ طلب اور خواہش نہیں تھی کہ انھیں نبی بننا ہے اور نہ وہ اس کے اُمیدوار ہی تھے، بلکہ اس کے برعکس نبوت کے لیے منتخب کیا جانا ان کے لیے حیران کن تجربہ تھا۔
ایک معمولی سی بات جو سائل کے ذہن میں نہیں ابھری وہ یہ ہے کہ اگر قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ انسانوں کا کلام ہے، تو ایسے ارفع و اعلیٰ کلام کے خالق انسان کو چاہیے تھا کہ وہ جو ساری عمراہل مکہ کے درمیان صادق و امین کے نام سے پکارا جاتا تھا ،خوشی خوشی کہتا کہ لوگو یہ میری تخلیق ہے،میرا کمال ہے، تم میری عظمت کو مانو اور میری پیروی کرو! وہ بجائے کریڈٹ لینے کے یہ کیوں کہتا ہے کہ یہ میرا کلام نہیں ہے،یہ من جانب اللہ مجھ پر نازل ہوا ہے؟کیا ایک ایسی شخصیت جس کے جانی دشمن بھی اس کی صداقت و امانت پر شہادت دیتے ہوں اور اعلانِ نبوت کے بعد بھی یہ کہتے ہیں کہ امانت اور صداقت میں آپ سے بہتر کوئی شخص مکہ میں نہیں ہے، ایسا شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکتا ہے کہ یہ کلام اس کا نہیں بلکہ اللہ کا ہے؟
یہ بات اس کلام الٰہی کی ہو رہی ہے، جس کے بارے میں عربی دان اور معروف شاعر عتبہ سن کر یہ کہتا ہے کہ ’’یہ نہ شعر ہے، نہ سحر، نہ کہانت بلکہ کچھ اور ہے‘‘۔یعنی یہ انسانی فکر اور انسانی صلاحیت سے ماورا ایک منفرد کلام ہے۔ اگر کوئی اس کلام کو سمجھنا نہ چاہتا ہو یا وہ سمجھنے کا طریقہ استعمال نہ کرنا چاہتا ہو، جو الہامی کلام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے، تو یہ اس کا اپنا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے مشرکین مکہ کی طرح یہ بات کہنا کہ ’’یہ کسی انسان نے لکھا ہے یا لکھوا دیا ہے ‘‘ ایک بےبنیاد بات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
اللہ تعالیٰ نے پچھلی شریعتوں میں جو ہدایات بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی کرنے والوں کے لیے نازل فرمائی تھیں،ان میں سے جن کو چاہا منسوخ کر کے ان کی جگہ ان جیسی یا ان سے بہتر ہدایات قرآن کریم میں ارشاد فرما دی ہیں ۔یہ بات اللہ تعالیٰ کے علیم اور قدیر ہونے کی واضح دلیل ہے۔ وہ پہلے سے علم رکھتا ہے کہ اس کے بندوں کے لیے کس وقت کون سی ہدایت زیادہ مفید اور سود مند ہے۔اس کی رحمت اور بندوں کی بھلائی اسے اس طرح کی تبدیلیوں پر آمادہ کرتی ہے، کیونکہ وہ سب سے زیادہ رحیم ہے۔لیکن قرآن کے نزول کے بعد قرآن نے خود یہ اعلان کر دیا کہ شریعت مکمل کر دی گئی ہے، اب اس میں کسی کو رَد و بدل کا اختیار نہیں ہے۔ اب صرف اس کتاب اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نجات کا باعث ہوسکتی ہے۔
قرآن کریم میں نسخ کے حوالے سے قرآن کریم سورۃ الانفال میں خود مثال دےکر واضح کر دیتا ہے کہ اگر ۲۰ صابر اہل ایمان میں ہوں تو وہ ۲۰۰ مشرکین پر غالب آئیں گے۔ پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ اگر ایمان کا معیار وہ نہ ہو، تب بھی سو صابر دو سو مشرکین پر غالب آئیں گے۔اس آیت میں نہ کہیں کسی صاحب ِفہم کے لیے تضاد ہے، نہ یہ کوئی نظر ثانی ہے بلکہ زمینی حقائق پر مبنی ایک صداقت بیان کی گئی ہے۔ گویا نسخ کا مفہوم لغوی طور پر یہاں پر تبدیل کرنے کا نہیں بلکہ تخصیص (qualification) کا ہے ۔جو کسی بھی قرآنی علوم سے آگاہ شخص کے لیے حیرت کا باعث نہیں ہو سکتا ۔اللہ کے کلام میں یہ وسعت ہی اسے عالم گیر بناتی ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں مسائل کے حل کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔
جہاں تک سوال حضرت عمر ؓ سے منسوب روایت کا ہے، قرآن کریم کے اس اعلان کے بعد کہ: الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳)’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘ ( لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کی گئی ہیں ان کی پابندی کرو)۔ یہ کہنا کہ اس میں کوئی حکم یا آیت جو پہلے تھی اب نہیں ہے، قرآن کے قطعی اعلان کے منافی ہے ۔فقہاء اور مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ہرمعاملے میں قرآنی حکم کو فوقیت حاصل ہوگی ۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ محض مفروضے کے طور پر اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ قرآن کا کوئی حکم آیا تھا جو ایک بوڑھے اور بوڑھی کے زنا کی حد ِسنگسار کو بتاتا تھا لیکن سورۂ نور کی آیت نے اسے منسوخ کر دیا، حقیقتِ واقعہ کے بالکل خلاف بے بنیاد تصور ہے۔ کیونکہ نہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علیؓ اور بعد کے آنے والوں نے غیر شادی شدہ کے زنا پر کوڑے اور شادی شدہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک قرآنی حکم کے خلاف یہ صاحبانِ علم ایک ایسا کام کرتے؟ مزید یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ ’شریعت‘ جس چیز کا نام ہے وہ صرف قرآن نہیں بلکہ قرآن و سنت دونوں کے مجموعے کا نام شریعت ہے۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ کے زنا کرنے پر حد جاری فرمائی ہے تو یہ خود شریعت ہے ۔اس بنا پر امام شافعی الرسالہ میں یہ بات وضاحت سے فرماتے ہیں کہ سنت ِرسولؐ ’شارع‘ بھی ہے اور ’شارح‘ بھی۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صحابہ کرامؓ خصوصاً خلفائے راشدین کے ہاں قرآن کا علم اور خصوصاً آیات الاحکام سے ان کی واقفیت سب سے زیادہ معتبر تھی۔ اس قسم کی بے بنیاد بات کا صرف ایک مقصد ہوسکتا ہے کہ قرآن کے اپنے بیان: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۹ (الحجر۱۵:۹) ’’ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘، کو مشتبہ بنا کر غلط قرار دینے کے لیے ایک بات کو حضرت عمرؓ سے منسوب کر دیا جائے تاکہ لوگ گمراہی میں مبتلا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فتنہ پھیلانے والوں کو ہدایت دے۔
The Developing Human Clinically Oriented in Embryology, Keith L. Moore Chair, Department of Anatomy, University of Toronto, 1983
قرآن کریم نے انسانی تخلیق کے جن مدارج کا ذکر کیا ہے، اس نصابی کتاب میں ان کی تصدیق کرتے ہوئے تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ قرآن کریم وہ عالمی اصول بیان کرتا ہے کہ جو تمام علوم میں ہدایت فراہم کرتے ہیں ۔ یہ تفصیلات میں نہیں جاتا اور ان کو اہلِ تحقیق کے ذمے کر دیتا ہے۔
پھر سائل کا یہ کہنا کہ رسولؐ اللہ نے نعوذ باللہ، نادرست آیات کی تلاوت کی تھی۔ ایسی بے سروپا بات وہی کرسکتا ہے جس نے سورئہ نجم کی آیات کا ترجمہ تک نہ پڑھا ہو۔ اگر کسی نے سورۂ نجم کی آیات کا ترجمہ ہی پڑھا ہو اُس میں کہاں ہے یہ بات کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاہتے اللہ سے منسوب کر کے کوئی بات بطور آیت فرما دیتے تھے ۔اگر واقعی اس قیاس میں کچھ صداقت ہوتی تو پھر اہل مکہ کوآپ ؐ کو فوراً ہی اپنا بادشاہ اور سربراہ بنالینا چاہیے تھا! اور یہ جھگڑا کس بات کا تھا؟ اگر آپؐ توحید کا انکار اور بتوں کا اقرار کر رہے تھے تو اہل مکہ کی مسلسل مخالفت اور ظلم و تشدد کیوں تھا؟اور خصوصاًمکی دور میں اس میں مسلسل شدت کیوں آتی رہی ؟کاش! سائل اپنے نفسیاتی مفروضوں سے نکل کر خود اپنے قائم کردہ مفروضوں پر غور کریں توانھیں اپنے موقف کی کمزوری کا علم ہو جائے گا ۔قرآن کریم کی حفاظت کی ضمانت اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے خود دی ہے، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قرآنی آیت میں تبدیلی، تاخیر یا تعجیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ قرآن کریم روزِ اوّل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حافظے اور بے شمار صحابہ کرامؓ کے حافظے میں جیسا کہ وہ ہے، بالکل اسی طرح محفوظ رہا ہے ۔ اس لیے کسی چھوٹے بڑے شیطان کی سازش سے اس میں کوئی تبدیلی اور تحریف نہ عقلاً ممکن ہے، نہ واقعتاً ہو سکتی ہے۔
قرآن کریم کے اس واضح فرمان کے بعددنوں، ہفتوں اور مہینوں کا حساب لگانا ایک طفلانہ حرکت ہے۔ قرآن کریم نے ایسے تمام معاملات کے بارے میں جو اصول خود بیان کر دیا ہے، وہ بڑا آسان ہے، یعنی اس کتاب میں جو واضح احکام و ہدایات ہیں ،ان پر شعوری طور پر عمل کیا جائے اور جو معاملات انسان کی محدود عقل سے بالا ہوں، ان پر ایمان بالغیب لایا جائے۔ پھر یہ بات بھی واضح کر دی کہ جن کے دل میں ٹیڑ ھ ہے، وہ اپنا سارا وقت انھی باتوں پر صرف کرتے ہیں جو مشتبہ بنا دی گئی ہیں ۔ظاہر ہے کہ جو بات واضح اور متعین ہے، اس پر کسی قسم کا شبہہ عقل کے منافی ہے۔ صرف جو بات مشتبہ محسوس ہو یعنی ہمارے احساسات کی پہنچ سے باہر ہو، اسی پر قیاس آرائی کی جا سکتی ہے ،جسے قرآن نے واضح الفاظ میں منع کیا ہے۔یہ ایسے ہی ہے کہ جس علم کو طبیعیاتی (Physical knowledge)یا تجرباتی علم (Experimental knowledge) کہا جاتا ہے اور جس کی domain ظاہری مادی اشیاء تک ہے ،اس کے ایک ماہر سے یہ سوال کیا جائے کہ جنت میں پھلوں کا رنگ اور ذائقہ کیا ہو گا ؟ یا اللہ تعالی ٰجس عرش پر ہیں اس کا سائز کیا ہے؟ وہ کس چیز کا بنا ہوا ہے؟ تو کیا یہ سوالات جن کا تعلق مابعد الطبیعیات سے ہے،ایک طبعیات کا ماہر ان کے جواب دینے کی صلاحیت کا دعویٰ کر سکتا ہے ؟
قرآن کریم انھی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اصلاً تورات اور اناجیل کا بھیجنے والا صرف اللہ وحدہٗ لا شریک ہے۔ اسی بنا پر ان کتب اور قرآن کریم میں بہت سی تعلیمات مشترک نظر آتی ہیں۔ سبب یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم ان کتب سے اخذ کیا گیا ہے بلکہ ان سب کا بھیجنے والا ایک ہی رحمٰن اور رحیم ہے۔ سابقہ کتب میں تحریف و تبدیلی کے اسباب جو قرآن کریم نے اور جو خود ان مذاہب کے ماننے والوں نے بیان کیے ہیں، وہ معروف ہیں۔ یعنی اُن مذہبی رہنماؤں کا اپنی رائے کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کر کے پیش کر دینا اور بعض احکام کو اپنے مفاد کے منافی ہونے کی بنا پر جان بوجھ کر چھپانا۔اس طرح اصل تعلیم گم ہو گئی، اور شرک کی مختلف شکلیں رواج پا گئیں۔ قرآن پاک میں ان اُمور کی تصحیح کر کے اصل تعلیمات کو واضح کر دیا گیا ہے۔
ظاہر سی بات ہے ’تثلیث‘ اور ’توحید‘ دو الگ چیزیں ہیں۔ توحید میں تحریف شدہ اُمور کی اصلاح کے لیے قرآن کریم کو نازل کیا گیا اور اس کی حفاظت کے دو بڑے ذرائع اختیار کیے گئے۔ ایک اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں،ہر وحی کے نزول کے وقت پہلے سے مقرر کردہ کاتبین کا تحریر کر لینا، اور ساتھ ہی ہر وحی کا حافظے میں اس ترتیب سے محفوظ کرنا، جو آغاز سے آج تک قرآن کریم میں پائی جاتی ہے۔ان دو ذرائع کے بعد یہ امکان نہیں رہتا کہ قرآن میں کوئی تبدیلی یا تحریف کی جا سکے۔قرآن اور دیگر کتب اس لحاظ سے بہت مختلف ہیں کہ وہ کتابیں اپنے مصنّفین کے ناموں کے ساتھ منسوب ہیں یعنی ’لوقا‘ کی کتاب یا ’جان‘ کی کتاب۔ قرآن کریم کے نہ الگ الگ مصنّفین ہیں، نہ اس کا ایک حرف کسی انسان کے ذہن کی پیداوار ہے۔ یہ وحی الٰہی ہے ! جیسے ہی وہ نازل ہوئی ، اسی شکل میں حافظے اور ورق پر اسے محفوظ کر لیا گیا۔
یہ تصور کہ قرآن کو ہڈیوں اور پتوں پر تحریر کیا گیا اصلاح طلب ہے۔ ہڈی سے مراد مرغ یا بکرے کی ہڈی نہیں بلکہ اونٹ کی چوڑی ہڈیوں سے بنائی ہوئی وہ پلیٹیں ہیں، جو تختی کی طرح تحریر کے لیے استعمال ہوتی تھیں اور پتوں سے مراد مصر قدیم کے تیار کردہ پیپرس کے اوراق ہیں ۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ملک میں ایک نیوکلیئر پلانٹ یا کسی اور اہم تنصیبات کے ارد گرد ۱۰کلومیٹر کے رقبہ کو محفوظ علاقہ قرار دے کر نوٹس لگا دیا جائے کہ ’جو ان حدود میں داخل ہوگا اسے گولی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے‘۔ اس وارننگ پر کسی بھی فرد کی نظر میں کسی زیادتی اور ظلم کا تصور تک نہیں پایا جاتا۔ دنیا میں کوئی بھی حکومت اپنے زیرانتظام کسی بھی جگہ کے بارے یہ اعلانِ عام کر سکتی ہے۔مگر اس قرآنی ہدایت میں اپنی طرف سے افسانہ تصنیف کرنا کہ مشرکین کی تاک میں بیٹھو اور انھیں جہاں پاؤ قتل کردو، کوئی کسی کو نہیں روک سکتا، لیکن اس طرح کی بے بنیاد باتیں قرآن سے منسوب کرنا ایک صریح ظلم ہے۔
رہا یہ معاملہ کہ جو لوگ اللہ پر، یومِ آخرت پر، ایمان اور اعمال صالح پر عامل ہوں، چاہے اہل ایمان ہوں یا یہودی یا عیسائی یاصابی، اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ قرآن کے اصول کے مطابق ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر نیکی اور بدی کو نظر انداز نہیں کرتا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔البتہ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اُخروی اور دُنیوی کامیابی کے لیے اسلام پر ایمان لانا شرط ہے۔جو ایمان نہیں لائیں گے ان کے اعمال کا بدلہ کیا دیا جائے گا؟ یہ نہ انسانوں کا domain ہے، نہ وہ اس پر غور کرنے کے مکلف !یہ جس کا اختیار ہے وہی اس کا یومِ حساب میں فیصلہ کرے گا!اس بیان میں اور قرآن و حدیث کے توحید کی وضاحت میں نہ کوئی تضاد ہے نہ ابہام!
اس آیت کے پہلے مخاطب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اگر کسی کو آیت پر سب سے پہلے عمل کرنا چاہیے تو وہ بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں۔ سیرت پاک اور حدیث کو اٹھا کر دیکھیے کہ کیا کوئی ایک موقع بھی ایسا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی پر سختی کی ہو یا کسی سے بلند آواز سے بھی بات کی ہو۔ حضرت انس ؓ جو ۱۰ برس آپؐ کے گھر کے کاموں میں آپؐ کی مدد کرتے رہے ،جن سےآپؐ کے گھر کی کوئی بات پوشیدہ نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ ۱۰ برس کےعرصے میں مجھ کو آپؐ نے ایک مرتبہ اُف تک نہیں کہا۔ ظاہر ہے کہ گھر میں کام کرنے میں لازما ًبعض اوقات بے احتیاطی ہو جاتی ہے، جب ہم اپنے کسی بھی گھر والے یا ملازم کو سخت سُست کہنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
جو ہستی اپنے گھریلو کاموں میں مدد کرنے والے فرد کو ۱۰ برس میں نہ ہاتھ سے تکلیف پہنچائے اور نہ زبان سے کچھ کہے، وہ اس آیت کے آنے کے بعد کبھی اپنی ازواج پر سخت گیر بنا؟ نبی کریمؐ قرآن کی ہر تعلیم پر سب سے پہلے عمل کرنے والی ہستی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدہ عائشہؓ سے آپؐ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا!
قرآن کی تفسیر، اسوۂ رسولؐ کرتا ہے ، کسی سائل کا دماغ نہیں کرتا۔مسلمان کے لیے قرآن کی مستند تعبیر وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے عمل سے اختیار کی ۔قانون میں کسی دفعہ کا موجود ہونا عموما ًایک روک (deterrent) ہے۔ضروری نہیں کہ اس کا لازمی استعمال ہو، البتہ غیرمعمولی صورت میں بھی اگر اس قانون کے اطلاق کو خارج کر دیا جائے تو وہ قانون اپنی قوت کھو بیٹھتا ہے۔ اس لیے قانون میں انتہائی حد کا ہونا عقل اور تجربہ دونوں کے مطابق ایک جائز عمل ہے۔ رہا تشدد کا استعمال، وہ چاہے بیوی شوہر پر کرے یا شوہر بیوی پر، اس کو احادیث میں شدت سے رَد کیا گیا ہے۔
ایسی شعاع اور ایسے چھوٹے وجود (Unidentified Objects) سائنسی تحقیقات سے ثابت ہیں اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ خود سائنس دان ان وجود( objects )کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں ۔اس لیے اگر قرآن کریم نے ان کی طرف اشارہ کر دیا ہے تو اس میں کوئی اَنہونی بات نہیں۔ ایسے Fireballs, Shooting, Stars, Meteors پر سترھویں صدی سے تحقیقات ہوتی رہی ہیں اور ان کی روشنی میں جدید دور کے سائنس دان ان سے نکلنے والی شعاعوں، ان کی رفتار (۲۰ تا ۷۰ کلومیٹر فی سیکنڈ) کے بارے میں اپنے مشاہدات ، تصاویر کے ساتھ مقالات میں پیش کرتے رہے ہیں۔ شہاب ثاقب ایسے ہی Meteors کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔سائنسی طور پر اس کی شعائیں انتہائی تیز لیکن بہت کم عرصہ روشن رہتی ہیں۔ جیسے آسمانی بجلی کی چمک ایک لمحہ سے بھی کم وقت میں خود کو دکھا کر غائب ہو جاتی ہے۔(تفصیلات کے لیے دیکھیں Encyclopedia Britannica Macropodia, Chicago University Press 1974, P36-54)
قرآن کریم یہ نہیں کہتا ہے کہ شہابِ ثاقب کا وزن، شکل و جسامت وغیرہ کیا ہوتی ہے؟ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ ایک تیز روشن شعاع کسی بھی ایسے شیطان یا جِنّ کو جو ان حدود میں آنا چاہے جو ممنوع ہیں، تو یہ روشن شعلہ مزاحم ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا مشاہدہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس لیے یہ بات بیان کرتے وقت کسی جھجک کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔اگر سائنس اس پر کوئی ثبوت فراہم نہ بھی کرتی، جب بھی قرآن کا بیان خود اپنی جگہ دلیل ہے اور مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ مسلم سائنس دان قرآن کی بنیاد پر سائنسی مطالعہ کرتے ہیں ، بدلتی ہوئی سائنس کی بنیاد پر قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام انسانوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ آپؐ کا کسی مدرسے اور کالج یا یونی ورسٹی جائے بغیر قرآن کریم کے عظیم کلام کو نہ صرف سمجھنا بلکہ اس کی وضاحت فرمانا ہے۔ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کا کام تلاوتِ آیاتِ قرآن، تعلیمِ کتاب، تزکیہ اور حکمت ہے۔ یہ چار کام تین مقامات پر دہرائے گئے ہیں، جو بطور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آپؐ کو سونپے اور آپؐ نے ان چاروں ذمہ داریوں کو بدرجۂ کمال ادا فرمایا۔اسی طرح جب قرآن خود آپؐ کو کلام الٰہی کی تعلیم دینے کا اہل قرار دیتا ہے تو کیا کسی اور کو یہ حق ہو سکتا ہے کہ وہ آپؐ کی اس استعداد پر شبہہ کرے اور آپؐ کو نعوذ باللہ ’ناخواندہ‘ سمجھتے ہوئے منصب نبوت کا مستحق نہ سمجھے ؟
مشہور واقعہ ہے کہ ایک دعوتی وفد میں ایسے کچھ صحابہ کو جو قرآن کے حافظ تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں انھیں دھوکے سے شہید کر دیا گیا۔ایسے ہی حضرت ابوبکرؓ کے دور میں جنگ یمامہ میں حفاظ کی شہادت بھی ثابت کرتی ہے کہ ایک بڑی تعدادحفاظ قرآن کی موجود تھی جن کی تلاوتِ آیات میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔گویا قرآن کسی بھول یا تحریف کے بغیر جیسا نازل ہوا، ویسا ہی دورِ نبویؐ میں اور بعد کے ادوار میں مکمل طور پر محفوظ رہا۔اس لیے یہ واحد الہامی کتاب ہے، جس میں کسی زِیر زَبر تک کے اختلاف کا امکان نہیں پایا جاتا۔یہ کہنا حقائق سے آنکھیں بند کرنا ہے کہ کاتبینِ وحی نے اس میں جو چاہا اضافہ کر لیا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود جو لکھواتے تھے اسے پڑھ نہیں سکتے تھے۔اگر لکھوانے کا مقصد محض ایک یادداشت لکھوانا تھا جب تو یہ امکان ہو بھی سکتا ہے کہ کاتب ِوحی سے لکھنے میں کوئی حرف رہ جائے لیکن لکھوانے سے مقصد اس کی پانچ وقت نمازوں میں تلاوت تھا۔ تو نبی کریم ؐکے لیے کیسے ممکن ہے کہ ایک کلام میں تحریف ہو،آپؐ اسے سنیں اور پھر خاموش رہیں؟آج تک پندرہ سو سال میں ہر رمضان میں تراویح میں جو قرآن سنا جاتا ہے اگر قاری صرف ایک لفظ بھول جائے یا حرکات میں کوئی غلطی ہو جائے تو نہ صرف سامع بلکہ دیگر سننے والے افراد فوری طور پر اصلاح کر دیتے ہیں۔ دورِ صحابہؓ میں تو احتیاط اس سے بھی کئی درجے زیادہ تھی۔ اس لیے کسی کاتب کے ہاتھوں اضافے کمی کی بات ایک بے بنیاد قیاس ہے۔
یہ واضح کرنے کے بعد قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جب فرشتوں سے حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے کے لیے کہا گیا تو اس وقت ابلیس بھی فرشتوں کی صف میں شامل تھا۔ جب حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کے لیے کہا گیا تو ابلیس نے اپنی انانیت اور تکبر، جس کا سبب اس کا آگ سے پیدا کیا جانا تھا، اس پرناز کرتے ہوئے مٹی سے بنائے ہوئے انسان کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ جو اس کے مردود کیے جانے اور جنت سے خارج کیے جانے کا سبب بنا ۔
یہ سارا معاملہ عبرانی میں ہوا ،عربی میں ہوا یا کسی اور زبان میں ہوا، اس سب کا کوئی تعلق اس بات کے ساتھ نہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے یا نہیں؟دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا قرآن کی تعلیمات میں کوئی بات ایسی ہے جو عقل کے خلاف ہے؟ ایک ایسا سوال کرنا جس کا کوئی تعلق ایک معاملہ سے نہ ہو، فکری دیانت کو مشتبہ کر دیتا ہے۔ساتھ ہی یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں، ایک غیر عقلی رویہ ہے ۔کیونکہ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں اس مکالمے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ قیاس کرنا کہ چونکہ قرآن عربی میں ہے اس لیے لازما ًاللہ تعالیٰ تمام انبیاؑ سے عربی میں تبادلۂ خیال کرتے ہوں گے ،ایک شخص کی اپنے ذہن کی پیداوار تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا کوئی تعلق نہ قرآن کی حقانیت سے ہے، نہ ابلیس کے واقعے کو ایک افسانہ قرار دینے سے۔
سائل کی ان باتوں میں نہ کوئی منطقی ربط ہے نہ صداقت کہ قرآن کی آٹھ سو سے زائد یا اس سے کم تفاسیر کیوں لکھی گئیں؟ قرآن آسان عربی زبان میں اللہ کا کلام ہے، جسے کسی دوسری زبان کے بولنے والے کے لیے اسے سمجھانے کے لیے ان کی زبان میں اس کی تعلیمات کو پیش کرنا ایک انسانی ضرورت ہے ۔اور یہ ضرورت نہ صرف قرآن کریم بلکہ ان تمام معاملات میں رہے گی، جن میں اخلاق اور قانون کے اصول پیش کیے گئے ہوں۔ لوگوں تک انھیں پہنچانے کے لیے مقامی زبانوں میں ان کے مفہوم اور مطالبات کو بیان کرنا ایک فطری عمل ہے۔ یہی شکل دیگر الہامی کتب کے ساتھ ہے جنھیں ان کے ماننے والوں نے ہر دور میں تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ اس میں کوئی حیرت اور پریشانی کی بات نہیں ہے۔ یہ بات انسانی ضرورت اور کلام الٰہی کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ بات کو سمجھنے کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ غالب یا اقبال کا کلام ایک عام شخص بھی سمجھ سکتا ہے اور ایک تشریح کے ذریعے اقبالیات کا کوئی ماہر اس کی خوبیوں کو مزید واضح بھی کر سکتا ہے ، اور ایسا کرنا کیا عقل کے منافی ہے؟ تفاسیر کی کثرت تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ کلام الٰہی پر جتنا غور کیا جائے گا اتنے ہی پہلو مزید واضح ہوتے چلے جائیں گے۔
علّامہ محمد اقبال کے فرزند، جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال (۵؍اکتوبر ۱۹۲۴ء-۳؍اکتوبر ۲۰۱۵ء) کے قلم سے والدکی سوانح حیات زندہ رُود ،سوم، ناشر : شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع دوم ۱۹۸۷ء،ص ۶۱۱-۶۱۳ اور ۷۰۵
اسلامی علوم کے احیاء اور تعلیمات کی، وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق تعبیر کے سلسلے میں اقبال کی بہت سی تمنائوں میں سے ایک تمنا یہ بھی تھی کہ کسی مسلم یونی ورسٹی کے اندر یا کسی پُرسکون مقام پر ایک چھوٹی سی بستی کی صورت میں ایسا ادارہ قائم کیا جائے، جہاں بہترین دل و دماغ کے مسلم نوجوان، خالص اسلامی ماحول میں اسلامی ریاضیات، طبیعیات، کیمیا، تاریخ، فقہ اور دینیات کی تعلیم حاصل کرکے علومِ جدیدہ کا علومِ قدیمہ سے تعلق دریافت کرسکیں، اور یوں نہ صرف اُن میں جدید مذہبی، سیاسی، اقتصادی، قانونی، علمی، سائنسی اور فنی مسائل کی اہمیت کو سمجھنے کا احساس بیدار کر دیا جائے بلکہ اُن میں مسلمانانِ عالم کی ہرشعبے میں صحیح رہنمائی کی اہلیت بھی پیدا ہوجائے۔
اس خواہش کا اظہار اقبال نے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں شعبہ علوم اسلامیہ کی تشکیل کے زمانے میں کیا تھا اور اپنا ایک منصوبہ بھی نوٹ کی صورت میں تحریر کرکے مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی خدمت میں بھیجا، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ بہرحال ایک دردمند اور مخلص مسلم زمیندار چودھری نیاز علی خان [۲۴ جون ۱۸۸۰ء- ۲۴فروری ۱۹۷۶ء]کو خیال آیا کہ موضع جمال پور نزد پٹھان کوٹ میں خدمت ِدین کے لیے ایک ایسا ہی ادارہ قائم کیا جائے۔ وہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مُدعا بیان کیا۔ اقبال نے ان کے سامنے اپنی دیرینہ اسکیم کا ذکر کیا۔ چنانچہ ۱۹۳۶ء میں اُنھوں نے ایک قطعۂ اراضی تعلیم القرآن کے لیے وقف کر دیا، اور اس میں ضروری عمارات یعنی مسجد، مکتب، کتب خانہ، دارالاقامت ، رہائشی مکانات وغیرہ کی تعمیر شروع کردی۔
جنوری ۱۹۳۷ء کے اوائل میں جب مصری علما کا وفد لاہور پہنچا اور اقبال سے ملا، تو وفد کی اس خواہش کے اظہار پر کہ وہ ہندوستان کے اسلامی اداروں کی مناسب طریق پر امداد کرنا چاہتے ہیں، انھیں مشورہ دیا گیا کہ اس کا ایک طریق یہ ہے کہ وہ جامعہ ازہر کی طرف سے کوئی استاد مقرر کردیں۔ اس سلسلے میں آخرکار طے پایا کہ شیخ جامعہ ازہر مصطفےٰ المراغی کو ایک خط اقبال کی طرف لکھا جائے اور انھیں اس ادارے کی خاطر ایک ایسا روشن خیال اور قابل مصری عالم اپنے خرچ سے مقرر کرنے کے لیے فرمائش کی جائے، جو انگریزی خواں بھی ہو اور حالاتِ حاضرہ یا علومِ جدیدہ سے خوب واقفیت بھی رکھتا ہو۔
)محمدمصطفےٰ المراغی (۵مارچ ۱۸۸۱ء، مراغہ، سوہاگ، مصر۔ ۲۲؍اگست ۱۹۴۵ء،قاہرہ) نامور فقیہ، مصلح، استاد، منتظم اور مفتی عبدہٗ کے شاگرد تھے۔سوڈان اور مصر میں بطور جسٹس کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ اجتہاد کے لیے پیش رفت کی، تفسیری خطبات دیئے، دین و سیاست کی تفریق کے سخت ناقد تھے۔ پہلے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۲۹ء تک اور پھر اپریل ۱۹۳۵ء سے وفات تک جامعہ الازہر کے وائس چانسلر رہے۔(
چنانچہ چودھری نیاز علی خان نے اپریل ۱۹۳۷ء میں ایک خط مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو تحریر کیا، جس میں عرض کی کہ وہ مجوزہ خط کا ڈرافٹ عربی میں تحریر فرما دیں۔(اقبال دارالاسلام اور مودودی، از اسعد گیلانی، ص ۱۳۸ تا ۱۴۰)۔
اس ضمن میں مولانا مودودی نے نیاز علی خان کو دو خط لکھے، پہلا خط، اُردو ڈرافٹ کے ساتھ ۱۳مئی ۱۹۳۷ء اور دوسرا خط عربی ترجمہ کے ساتھ۶جولائی ۱۹۳۷ء کو۔ دیکھیے : خطوطِ مودودی، دوم (مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصور خالد) منشورات، لاہور، نومبر ۱۹۹۵ء، ص ۹۰ اور ص ۱۰۰
اسی طرح انھوں [یعنی نیاز علی خان] نے اقبال کو بھی خط تحریر کیا اور اپنے ادارے کے متعلق مزید گفتگو کرنے کے لیے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ اقبال نے انھیں اپنے خط مؤرخہ ۲۰جولائی ۱۹۳۷ء میں لکھا:
آپ ضرور تشریف لائیں۔ میں آپ سے ادارے کے متعلق گفتگو کروں گا۔ اسلام کے لیے اس ملک میں نازک زمانہ آرہا ہے۔ جن لوگوں کو کچھ احساس ہے اُن کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے ہرممکن کوشش اس ملک میں کریں۔ ان شاء اللہ آپ کا ادارہ اس مقصد کو باحسن وجوہ پورا کرے گا۔ علما میں مداہنت آگئی ہے۔ یہ گروہ حق کہنے سے ڈرتا ہے۔ صوفیہ اسلام سے بے پروا اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبارنویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خود غرض ہیں اور ذاتی منفعت و عزّت کے سوا کوئی مقصد ان کی زندگی کا نہیں۔ عوام میں جذبہ موجود ہے، مگر ان کا کوئی بے غرض رہنما نہیں ہے۔(اقبال نامہ،مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، حصہ اوّل،ص ۲۴۹-۲۵۰
اگست ۱۹۳۷ء کے اوائل میں چودھری نیاز علی خان پھر اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں مولانا مودودی کا عربی میں تیار کردہ ابتدائی مسودئہ خط بنام شیخ مصطفےٰ المراغی دکھایا۔ اقبال نے اُسے پسند فرمایا اور بالآخر ۵؍اگست ۱۹۳۷ء کو عربی میں تحریر کردہ یہی خط اقبال کے نام سے شیخ مصطفےٰ المراغی کو ارسال کیا گیا۔ خط کا مندرجہ ذیل حصہ قابلِ توجہ ہے:
ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ہم پنجاب کی ایک بستی میں ایک اہم ادارے کی بنیاد رکھیں کہ اب تک کسی اور نے ایسا ادارہ قائم نہیں کیا، اور ان شاء اللہ، اُسے اسلامی دینی اداروں میں بہت اُونچی حیثیت حاصل ہوگی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگوں کو جو جدید علوم سے بہرہ ور ہوں، کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ یکجا کردیں، جنھیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو۔ جن میں اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیت پائی جاتی ہو اور جو اپنا وقت دین اسلام کی خدمت میں لگانے کو تیار ہوں۔ اور ہم ان لوگوں کے لیے نئی تہذیب اور جدید تمدن کے شوروشغب سے دُور ایک دارالاقامت بنادیں، جو ان کے لیے ایک اسلامی علمی مرکز کا کام دے۔ اور اس میں ہم ان کے لیے ایک لائبریری ترتیب دیں، جس میں وہ تمام قدیم و جدید کتب موجود ہوں، جن کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ مزیدبرآں اُن کے لیے ایک کامل اور صالح گائیڈ (رہبر) کا تقرر کیا جائے، جسے قرآن حکیم پر بصیرتِ تامہ حاصل ہو، اور جو دُنیائے جدید کے احوال و حوادث سے بھی باخبر ہو۔ تاکہ، وہ ان لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سمجھاسکے، اور فلسفہ و حکمت اور اقتصادیات و سیاسیات کے شعبوں میں فکر ِ اسلامی کی تجدید کے سلسلے میں انھیں مدد دے سکے، تاکہ یہ لوگ اپنے علم اور اپنے قلم سے اسلامی تمدن کے احیا کے لیے کوشاں ہوسکیں۔ آپ جیسے فاضل شخص کے سامنے اس تجویز کی اہمیت واضح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ چنانچہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اَزراہِ کرم ایک روشن دماغ مصری عالم کو جامعہ اَزہر کے خرچ پر بھجوانے کا بندوبست فرمائیں، تاکہ وہ اس کام میں ہمیں مدد دے سکے۔ لازم ہے کہ یہ شخص علومِ شرعیہ نیز تاریخ تمدن اسلامی میں کامل دست گاہ رکھتا ہو، اور یہ بھی لازم ہے کہ اُسے انگریزی زبان پر قدرت حاصل ہو۔(خطوطِ اقبال، مرتبہ:رفیع الدین ہاشمی، ص ۲۸۴، ۲۸۶
(مولانا مودودی کے ہاتھ سے لکھے اس مسودے کا عکس ملاحظہ کیجیے: خطوطِ مودودی، دوم،ص ۹۴،۹۵۔ تاہم اس عکس کو دیکھیں اور جناب جاوید اقبال کے مذکورہ متن کو دیکھیں تو دونوں میں جزوی فرق موجود ہے، مگر جوہری فرق نہیں ہے۔ادارہ)
شیخ مصطفےٰ المراغی کے جوابی مکتوب مؤرخہ ۲۱؍اگست ۱۹۳۷ء سے ظاہر ہے کہ جامعہ اَزہر میں اقبال کی حسب منشا کوئی ایسا مصری عالم نہ تھا، جسے جامعہ اَزہر کی طرف سے ہندوستان روانہ کیا جاسکتا۔(ایضاً، اصل خط کا عربی متن مع اُردو ترجمہ، ص ۲۸۷ تا ۲۸۹)
بعدازاں بقول چودھری نیاز علی خان، اس سلسلے میں چونکہ ان کی خط کتابت مولانا مودودی سے جاری تھی، اقبال کی نظر بھی مولانا مودودی [مدیر:ماہ نامہ ترجمان القرآن، حیدرآباد دکن] پر جاپڑی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا مودودی ۱۹۳۷ء کے آخری حصہ میں حیدرآباد دکن سے پٹھان کوٹ میں اس ادارے کا موقع محل دیکھنے کی خاطر تشریف لائے اور اقبال کی خدمت میں حاضر ہوکر تین صحبتوں میں اُن سے مفصل گفتگو کے بعد اس [ادارے] کا نام ’دارالاسلام‘ تجویز کیا اور نقل مکانی کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا (صحیفۂ اقبال نمبر،حصہ اوّل، مرتبہ: ڈاکٹر وحید قریشی، ص۲۲۹-۲۳۰)۔
مالک بن نبی (۱۹۰۵ء-۱۹۷۳ء)کا شمار مسلم دنیا کے معتبر مصلحین میں ہوتا ہے، جنھوں نے اسلامی تمدن کی ترقی کے بارے میں گہرے خیالات و افکار ثبت کیے۔ وہ ایسا وژن رکھتے تھے، جس کی بنیاد اسلامی فکر تھی اور جو معاصر عملی، سائنسی چیلنج سے پوری طرح آگاہ تھے۔
وہ اسلامی تہذیب کی موجودہ صورتِ حال کے اسباب کے بارے میں گہرا شعور رکھتے اور اپنی ایک الگ شناخت رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک: ’ملت اسلامیہ کی اس کسمپرسی کے زوال کے اسباب میں سے اہم ترین وجہ اخلاقی پستی ہے‘۔ اسی وجہ سے انھوں نے اس مرض کا علاج کرنے اور اسلامی معاشرے کو ترقی اور عروج کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے، فرد اور معاشرے کی بہترین تعلیمی اور اخلاقی تربیت پر توجہ دی۔
مالک بن نبی الجزائر کے علاقے قسنطین کے شہر تبسہ کے ایک غریب، دینی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین غربت کے باوجود، اپنے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند تھے اور انھوں نے اسے ایک فرانسیسی اسکول میں داخل کرایا، جب کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے قسنطین جانے سے پہلے انھوں نے مساجد میں اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ وہ مسلم اسکالرز کی انجمن سے بھی متاثر تھے، جس کی سربراہی عبدالحمید بن بادیس (۱۸۸۹ء-۱۹۴۰ء)کر رہے تھے، جس نے انھیں علم اور مطالعہ سے محبت کرنے پر اُبھارا، اور ان کی فکر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے فرانس کا سفر کیا، جہاں ان کے لیے راستہ ہموار نہ تھا، کیونکہ انھوں نے مسیحی عقائد پر مذاکروں اور مکالموں میں بھرپور انداز سے حصہ لیا تھا۔ وہ پیرس میں مراکشی اتحاد کے اہم رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ۱۹۳۵ء میں الجزائر واپس آئے، لیکن جلد ہی ۱۹۳۹ء میں پیرس واپس چلے گئے، اور اپنے آپ کو فکری اور صحافتی کام کے لیے وقف کر دیا، اسی دوران میں فرانس کے مشہور اخبار Le Monde سے وابستہ بھی رہے، اور اپنی پہلی کتاب الظاھرۃ القرآنية شائع کی۔ وہ ۱۹۵۶ء میں قاہرہ چلے گئے اور ۱۹۶۳ء تک وہیں رہے۔ اس دوران ان کی علمی وابستگی ایک سے زیادہ سمتوں میں بڑھی۔ انھوں نے عربی زبان پر عبور حاصل کیا، اور متعدد یونی ورسٹیوں اور اداروں میں لیکچرز دیتے رہے۔
الجزائر کی آزادی کے بعد ۱۹۶۳ء میں وہ الجزائر واپس آئے اور بہت سے اعلیٰ علمی عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۶۷ء میں انھوں نے اپنے آپ کو علم اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے وقف کردیا یہاں تک کہ ۴شوال ۱۳۹۳ ہجری بمطابق اکتوبر ۱۹۷۳ء کو اس دار فانی سے اس وقت کوچ کر گئے جب ان کی عمر اَڑسٹھ برس تھی۔
مالک بن نبی کے نزدیک: کسی بھی معاشرے کا مسئلہ بنیادی طور پر تہذیبی ہوتا ہے۔ کوئی معاشرہ کسی مسئلے کو اس وقت تک سمجھ یا حل نہیں کر سکتا، جب تک کہ وہ انسانی واقعات کے بارے میں اپنے خیالات کو نہیں اٹھاتا، اور جب تک وہ تہذیبوں کی تعمیر یا تباہی کے عوامل کے بارے میں اپنی سمجھ میں گہرائی پیدا نہیں کرتا۔
اُن کا خیال تھا: ایک پڑھا لکھا شخص اپنے خیالات اور محسوسات کی بنیاد پر یہ سمجھتا اور محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا خود خالق ہے۔ تاہم، اس کی دینی تربیت، اس کی تعلیم کو مذہب سے جوڑ دیتی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی تہذیب خواہ وہ تین عناصر(انسان، – مٹی، – وقت) پر مبنی ہی کیوں نہ ہو، مذہبی عنصر ہی ان سب کو یکجا کرتا ہے، جو اخلاقیات سے بھرپور فرد اور معاشرے کی تعمیر پر مبنی ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ثقافتی اور تہذیبی نسبت کے بغیر کوئی تعلیمی نظام نہیں ہے، جو اسے ترتیب دیتا ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ انسانی ثقافتوں کی کثرت تعلیمی نظاموں کی کثرت کا بہترین ثبوت ہے۔ ہر انسانی معاشرہ اپنے تہذیبی وژن کے مطابق اپنے تعلیمی و تربیتی نظام کو تشکیل دیتا ہے۔لہٰذا، اچھی اور کامیاب تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل اور رکاوٹوں کا مقابلہ کریں، جو قوم، معاشرے اور فرد کی راہ میں حائل ہوں اور ان کا علاج کرنے کی کوشش کریں اور ان سے علمی، تحقیقی اور منطقی نقطۂ نظر کے ساتھ نبردآزما ہوں۔
اسی لیے مالک بن نبی جدید تعلیمی فکر سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں، اور کہتے ہیں: تعلیم کی بنیادی ذمہ داریاں تعلیم یافتہ فرد کو انفرادی اور معاشرتی سطح پر درپیش چیلنجوں اور مسائل کی نوعیت کو سمجھنے کے قابل بنانا ہے۔ اس طرح فرد کو مسائل حاضرہ کے مطابق ڈھالنے اور مستقبل کے امکانات کا اندازہ لگانے کے لیے تیار کرنا ہے۔ اگر ہمیں ایسی تعلیم کی قدروقیمت ہو، جو قوم کے تشخص اور امتیازات کو محفوظ رکھتی ہو، تو ہمیں ایسی تعلیم ہی کی اشد ضرورت ہوگی، جو تعلیمی نظام کو نظریاتی تحقیق کی تنگنائیوں سے باہر نکال کر جدید تجربات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے وسعت دے، جو ملت اسلامیہ کے ماضی سے ہم آہنگ ہوکر حال اور مستقبل کی تعمیر کرے۔
وہ کہتے ہیں: ٹھوس اور حقیقی دینی بنیادوں سے وابستگی اور اپنے عہد میں علم وفکر کی جدیدکاری، اسلامی اور جدید تعلیمی و تربیتی عمل کے دو لازمی عناصر ہیں۔ روایت، یعنی اپنی بنیادوں اور تراث سے وابستہ رہنا، جو کہ ترقی کے ساتھ بقائے باہمی کو یقینی بناتی ہے۔ مگر روایت پر قائم رہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جدید کو مکمل طور پر رَد کر دیا جائے۔ بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ان کے درمیان ایک مرکب اور امتزاج ہونا چاہیے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے تعلیمی عمل کو تقویت ملتی ہے۔
مالک بن نبی نے مطالعے اور تحقیق کے لیے اخلاقی اقدار کو الگ نہیں کیا، سوائے اس کے جب انھوں نے ثقافت کے تصور کے اپنے تجزیے میں شامل کیا، جسے وہ اخلاقی خصوصیات اور سماجی اقدار کا مجموعہ سمجھتے ہیں، جو فرد کو اس کی پیدائش سے متاثر کرتی ہیں اور لاشعوری طور پر وہ رشتہ بن جاتا ہے، جو اس کے طرزِ عمل کو اس ماحول کے طرز زندگی سے جوڑتا ہے، جس میں وہ پیدا ہوا ہے۔
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ مالک بن نبی کے مطابق ثقافت کس طرح بنیادی طور پر اخلاقی اقدار پر مبنی ہوتی ہے، جو بچپن سے ہی فرد کی تشکیل اور پرورش پر اثر انداز ہوتی ہے، تاکہ وہ اس کی زندگی سے گہرا تعلق جوڑتے ہوئے اس کے طرزِ عمل کی ایک مخصوص خصوصیت بن جائے۔ جسے وہ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اس نمونے کے مطابق بناتا ہے، جس میں اس نے پرورش پائی ہوتی ہے۔
مالک بن نبی کے مطابق تہذیبی و ثقافتی نظام ان چار بنیادی عناصر پر مشتمل ہوتا ہے:
وہ کہتے ہیں: ہم دیکھتے ہیں کہ کسی معاشرے کی زندگی میں نظریات کی اہمیت دو صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے: ایک یہ کہ وہ سماجی زندگی کی ترقی کے عوامل کے طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، یا پھر روگ بڑھانے والے عوامل کے طور پر کام کرتے ہوئے مدِمقابل کو متاثر کرتے ہیں۔
مالک بن نبی کے سماجی نظریات کی بنیاد اس معاشرے کے ساتھ وابستہ تھی، جس میں وہ رہتے بستے تھے۔ فرانسیسی سامراج کے جبر نے انھیں ان مسائل کے حل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی مزاحمتی فکر میں یہ سوال خاص طور پر اٹھایا گیا کہ استعماری طاقت سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟ اور معاشرے میں پائی جانے والی پس ماندگی کی دھول کو کیسے جھاڑ دیا جائے؟
چنانچہ مالک بن نبی نے اخلاقی اقدار کو ہمیشہ معاشی اقدار پر فوقیت دی ہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ انسان ہی ہر تہذیبی، تمدنی اور معاشی ترقی کا ذریعہ ہے۔ کسی بھی تہذیبی، تمدنی، معاشی ترقی کا ظہور اس انسان کی مرضی پر منحصر ہے، جو ایک ایسے عقیدے پر یقین رکھتا ہے جو تہذیبی اقدار کو اپنے اندر سمیٹ کر انھیں بھرپور نشوونما دیتا ہے۔
تہذیب کی منزلیں انسانی زندگی کے ان مراحل سے ملتی جلتی ہیں، جن کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے: کمزوری، پھرطاقت سے بھرپور جوانی ، پھر کمزوری اور زوال۔ اس مسلسل عمل نے بہت سے دانش وروں کو اس زوال اور انحطاط کے اسباب و علل پر غوروفکر پر اُکسایا، جس سے تہذیبیں دوچار ہوتی ہیں۔ تاہم، ان تصورات کی حیثیت کتابی حد اور غیرحقیقی دُنیا تک محدود رہی۔ اسی لیے مالک بن نبی کے خیال میں: تعلیم اس وقت تک اپنا پھل نہیں دیتی، جب تک کہ اسے حقیقت پسندی سے نہ جوڑا جائے۔ اگر تعلیم محض فلسفیانہ موشگافیوں کی حد تک محدود ہوکر رہ جائے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
اُن کے نزدیک: جب انسان بنیادی فرائض کی ادائیگی کی طرف گامزن ہوتا ہے تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ حقیقت کا سامنا اس کے تمام منفی پہلوؤں کے ساتھ کرنا ناممکن نہیں ہے۔ لہٰذا، حقیقت کا مطالعہ سائنٹی فک نقطۂ نظر پر مبنی ہونا چاہیے، تاکہ رسمی اور سرسری نقطۂ نظر ہمیں یہ باور کرکے گمراہ نہ کر سکے کہ تجدید ہو رہی ہے اور چیزیں ٹھیک ٹھاک چل رہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں: حقیقت کو فراموش یا نظر انداز کرنا، اور ایک نیا اور خود ساختہ تعمیراتی عمل شروع کرنا، ایسی غلطیوں اور خطرات کا باعث بنتا ہے، جن سے بچنا ضروری ہے۔ ایسا طرزِفکروعمل ایک ایسے معاشرے میں ڈھال دیتا ہے، جو اپنے آپ کو اپنی تاریخی جڑوں سے الگ کرکے ترقی کے خواب دیکھتا ہے، اور سماجی اور سیاسی ڈھانچے کی سنگین غلطیوں کو بار بار دُہراتا ہے۔
یہ بات مالک بن نبی کو اس وقت محسوس ہوئی جب انھوں نے دیکھا کہ ’روایت‘ اور ’جدیدکاری‘ کے معاملے میں ایک متضاد اور متحارب تقسیم کارفرما ہے، جس کی وجہ سے اکثر خیالات کی دنیا میں انتشار اور عدم توازن پیدا ہوتا ہے، اور اس کے نتیجے میں رویے کی دنیا میں ہنگامہ آرائی پیدا ہوتی ہے۔
مالک بن نبی کا خیال ہے: نوجوانوں کو ملنے والی تعلیمی اقدار اور معاشرے میں رائج ثقافتی اقدار کے درمیان عدم مطابقت سے اسلامی معاشرے اپنے تہذیبی دور سے ہٹ چکے ہیں۔
اُن کے بقول: زوال اور تہذیبی بحران کی وجہ ایمان کی کمزوری یا ایمان اور عقیدے کی تاثیر کا کم ہونا ہے، جس کا آغاز ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات سے قرآن مجید کی بے دخلی سے ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا بڑا سبب ذہنی اور جذباتی غفلت، اور ثقافتی دنیا میں عدم توازن (خیالات کی دنیا، – لوگوں کی دنیا، – چیزوں کی دنیا) ہے، جو ایک دنیا کے دوسرے پر غلبہ کا باعث ہے۔ عام طور پر ہمارے اہل علم کے ہاں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ثقافتی ’جائزہ‘ اور ’تنقید‘، اس فکری اور تعلیمی یلغار کا ذکر نہیں کیا جاتا، جس نے نوآبادیاتی دور میں اسلامی عوام کو متاثر کیا ہے۔
اسی طرح یہ تثلیث: دین / اخلاقیات / تہذیب___ مالک بن نبی کی تہذیبی نشاتِ ثانیہ کے منصوبے میں دلچسپی کے اہم مراکز میں سے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی تشکیل کے فوراً بعد پہلا اقدام اجتماعی تعلقات کے نیٹ ورک کو جوڑ کر مضبوط کرنا ہے (جیسے اسلامی معاشرے کے معاملے میں بھائی چارہ پیدا کرنا)۔ پھر سب سے پہلی چیز جس سے معاشرہ اپنی موت کی طرف بڑھتا ہے، وہ ہے اس کے اخلاقی ڈھانچے کا زوال۔
اُن کا خیال ہے: معاشرے کی تشکیل، انسان کی فطری جبلت کا اظہار ہے اور مہذب معاشرہ وہ ہے جو اس جبلت کو معمول پر لاتا ہے اور اس کی رہنمائی کرتا ہے اور افراتفری اور انتشار سے بچنے کے لیے اخلاق کے ساتھ اس کی سطح کو بلند کرتا ہے۔ یہ چیز مرکزی طور پر انبیا علیہم السلام کے اخلاقیاتی پیراڈائم میں سے ہے، کیونکہ ان کا مقصد افراد کو ایک دوسرے سے جوڑنا تھا، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس جانب اشارہ فرمایا ہے: ’’اور مومنوں کے دل ایک دُوسرے کے ساتھ جوڑ دیے، تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے، مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے [الأنفال۸:۶۳] لہٰذا، اخلاقی پہلو عمومی طور پر معاشرے کی سمت کے تعیین کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔
مالک بن نبی نے معاشی اعتبار سے کم زور اور پس ماندہ دنیا کے بنیادی اور مرکزی مسائل پر ایک بڑا قیمتی سلسلۂ مضامین لکھا، جس کا آغاز انھوں نے سب سے پہلے پیرس سے کیا اور پھر مصر اور الجزائر میں بھی غوروفکر، اور اظہار و بیان جاری رکھا۔
مالک بن نبی نے اپنے فکری منصوبے میں تہذیب کے تصور کو ایک مرکزی مقام دیا، جس کی نمائندگی ان اخلاقی و مادی حالات اور وسائل سے ہوتی ہے، جو انھوں نے اپنے ہر فرد کو فراہم کی ہیں۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کی زندگی کے ہر مرحلے میں مالک بن نبی کی زندگی انسانی تہذیب کے تحفظ اور بقا کی اہمیت و افادیت کے بارے فکرمندی سے وابستہ نظر آتی ہے۔ تہذیب کی تعمیر میں اقدار کو فعال کرنے کی دعوت، اور اخلاقیات اور انسانی رویے کو بہتر بنانا، وہ تہذیب کا بنیادی اور اولین ہدف قرار دیتے ہیں۔ (montdatarbawy.com/urdu)
ڈیجیٹل ٹکنالوجی نے انسان کی کایاپلٹ کررکھ دی ہے۔اب ٹکنالوجی کے بغیر زندگی کا کوئی تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔پہلے والی حالت یادور میں واپس جانا تقریباً ناممکن ہے۔اس ٹکنالوجی نے مادی اور روحانی لحاظ سے جو نقصان پہنچایا ہے، وہ تو ظاہر وباہر ہے، اس لیے ہمیں ٹکنالوجی کے خطرات سے باخبر وہوشیار رہنا چاہیے۔ایک تحقیقی رپورٹ جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے اس کے مطابق اسکرین ٹائم(وہ وقت جوٹی وی یاکمپیوٹر یاموبائل دیکھنے میں گزاراجاتاہے)دماغ کی نشوونما کے لیے زہرِ قاتل کا کام کرتاہے۔
ایک معتبر جریدہ The Lancet Child & Adolescent Health کی رپورٹ یہ بتاتی ہے: ’’جو لوگ دن بھرمیں دو گھنٹے سے بھی کم ٹی وی،کمپیوٹر، انٹرنیٹ یاموبائل کے ربط میں رہتے ہیں، اُن کی ذہنی و شعوری حالت ان لوگوں کے مقابلے بہتر پائی گئی ہے، جو دن بھر ان آلات سے کھیلتے رہتے ہیں‘‘۔مگر اس کا کیا کیاجائے کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں، جہاں ٹکنالوجی سماجی رابطے کی ایک ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔اس کونہ چھونے یا ہاتھ نہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک کوزے میں بندہوجانا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے محتاط استعمال کی حکمت عملی بنانا پڑے گی۔یہ مشکل کام توہے، لیکن ہمیں یہ کرناہوگا اور بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ ان آلات کو بہ قدرضرورت ہی استعمال کریں، تاکہ ان کے خطرات کا زیادہ شکار نہ ہوں۔
۲۰۲۴ء کے دوران پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کا رجحان اس طرح ہے: ٹویٹر ایکس ۱ء۷۶ فی صد، انسٹاگرام ۵ء۳۸ فی صد، سنیپ چیٹ ۱۱ء۷۶ فی صد، وٹس ایپ ۲۰ء۴۸ فی صد، فیس بُک ۵۶ء۰۳ فی صد (بحوالہ بینڈ وڈتھ)
ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ جو بچّے، بچپن سے ہی اس کے عادی ہوجاتے ہیں، ان کے دماغ کی نشوونما بُری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔ معاشرتی رشتوں پر اس کے منفی اثرات تو ہرکسی کے علم میں ہیں۔ اگر کوئی بچہ سوشل میڈیاپر مصروف ہے اور اس کے ذریعے دوست واحباب رابطے میں ہیں۔ اس وقت گھر کے کسی بڑے خواہ وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں، کسی ضرورت کے لیے انھیں آواز دیں تو انھیں سخت ناگوار گزرتاہے۔بعض اوقات اُلٹا سیدھا جواب بھی دے دیتے ہیں۔ عام طورپر اس پر گندی اور فحش چیزیں ہی دیکھی اور دکھائی جاتی ہیں اور باربار دیکھی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب انٹرنیٹ کے ذریعے بدتہذیبی وفحاشی پھیلائی جائے گی، توبچوں کادماغ اس سے لازماً متاثر ہوگا۔
اس صدی سے پہلے غلط حرکت پر بچّے شرمندگی محسوس کرتے تھےاور جو کچھ کیا ہوتا اس کو بھول جاتے تھے، مگر اس صدی نے یہ تحفہ دیاہے کہ شرمندگی کے آثار کو محفوظ کرلیاجاتاہے اور وہ بھی انٹرنیٹ پر۔اپنے بچوں کو یہ بھی بتاناچاہیے کہ سوشل میڈیاکیسی کیسی سنگین حرکتوں کی ترغیب دیتاہے اور سنگین جرائم کے ارتکاب کے راستے دکھاتاہے۔جن میں سائبر کرائم، اجنبی احباب کا غلبہ اور انتہاپسندی شامل ہے۔تاہم، یہ خیال رکھیں کہ بچوں کے ساتھ گفتگو اس طرح کی جائے کہ اُلٹااثر نہ ہوبلکہ وہ ہماری باتیں دھیان سے سنیں اور انھیں یہ محسوس ہوکہ درست بات کہی جارہی ہے۔ وہ اپنی اصلاح کریں۔اگر ایسانہ ہوتوپھر سوشل میڈیا کے استعمال پر نظررکھی جائے اور اس کا استعمال محدود کیاجائے۔
انٹرنیٹ کے آجانے سے معاشی سرگرمیاں بھی پھیل گئی ہیں،اور مواقع بھی بڑھ گئے ہیں۔ ’کووڈ۱۹‘ کے زمانے میں جب آفس کا وجود اپنی اہمیت وضرورت کھوچکاتھا، ’زوم میٹنگز‘ اور اس قسم کی دوسری تدبیروں کے توسط سے لوگ گھر بیٹھے ہی دفتری کام انجام دے لیتے تھے۔ یوں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور تعلیم وتدریس کا عمل بھی اس کے ذریعے جاری وساری ہوگیا تھا۔ اس ڈیجیٹل انقلاب کے سبب خاص طورپر صحت کے شعبے میں مریضوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ نہ صرف آسان ہوگیابلکہ اس کے دائرۂ کار میں بھی وسعت آگئی اورسماجی رابطہ بھی آسان ہوگیاہے۔ قانون کے نفاذ میں آسانیاں پیدا ہوئیں،جرائم کی روک تھام اور مجرموں کی گرفتاری میں بھی بڑی سہولتیں پیداہوگئیں۔یہ توچند اچھائیاں ہیں تمام فائدوں کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ نوجوانوں کے فرصت کے اوقات کو ہڑپ کرلیتاہے،جب کہ ان کا وہ وقت دوسرے مفید کاموں میںصرف ہوسکتاتھا، جیسے کوئی ہنر سیکھنا یا کوئی صلاحیت پیداکرنا۔ مگر اس کاعادی بننے کے بعد بچوں کا اس سے نکلنا محال ہوجاتاہے بلکہ وہ اندھیرے غار کی طرف بڑھتے بلکہ کھنچتے ہی چلے جاتے ہیں۔اگر ان بچوں کو روکا نہیں گیاتو یہ لت انھیں عام ویڈیوگیمز سے پُرتشدد ویڈیوز، گندے عریانیت اور سیاسی دہشت گردی جیسے ویڈیو دیکھنے کا عادی بنادے گی۔ انٹرنیٹ کے ذریعے فکری، مذہبی اور الحادی گمراہی بھی پھیلائی جارہی ہے۔اس کی وجہ سے بچوں میں سوچنے سمجھنے،پرکھنے، سچ اور جھوٹ میں تمیز کا ملکہ ہی ختم ہوتا جا رہاہے۔اعصابی امراض کے ماہرین کی تحقیق سے یہ پتہ چلاہے کہ مجازی زندگی یاد داشت کومتاثر کر رہی ہے اورقوتِ فیصلہ پر اثرانداز ہورہی ہے۔اسی طرح یکسوئی پر خراب اثرڈال رہی ہے اور نیند میں بھی خلل واقع ہورہا ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کے ساتھ یہ سب ظلم ہوتاہوادیکھ کر آرام سے بیٹھے رہ سکتے ہیں؟
ہمیں خود بھی اسکرین سے روبروہونے سے احتیاط کرنی چاہیے، اسی صورت میں ہم انھیں اس سے روک سکتے ہیں۔ گھر کے اندر بچے اس کا محدود استعمال کریں۔انھیں اس کا پابند بنانے کے لیے خود بھی اس کی پابندی ضروری ہے۔چھپ کر اس کے استعمال پر تولازماًقدغن ہونی چاہیے۔ ہمیں بچوں کی اخلاقی حالت کا خاص طورپر خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ مارٹنگ پریتھس نے تحقیق کے بعد پایاکہ ہر پانچ میں سے ایک اسکول کا طالب علم عریاں اور فحش تصاویر اور ویڈیو دیکھتاہے اور وہ تصاویر لیک کردی جاتی ہیں،ان کے دوستوں تک پہنچ جاتی ہیں، اور یہ راز کھلتاہے توانھیں شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے۔ خواہشات کے ہاتھوں مجبورہوکر وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں۔ انھیں اس کا شعور ہی نہیں ہوپاتا کہ اس بے راہ روی کے کیا معاشرتی و اخلاقی مضمرات ہوں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سمجھانا چاہیے کہ وہ دوستوں کے بہکاوے میں آکر اس قسم کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں نہ کیاکریں۔ اس سے وہ اپنی وقعت بھی کھودیتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے اخلاق وکردار کو سنوارنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ان کے ذہنوں سے آوارگی وبے راہ روی کی طرف رغبت کے رجحان کو کھرچ کر نکالنا چاہیے۔
ہمیں حفاظتی تدابیر کے طورپر غیر ضروری بلکہ ناپسندیدہ سائٹس کو بلاک کردینا چاہیے جیسےCold Turkey برائے PC اور Block Siteبرائے موبائل فون اور بڑے بچوںکے لیے Keylogger استعمال کریں۔یہ آن لائن بآسانی مل سکتاہے۔اس کے ذریعے کمپیوٹر پر جو کچھ ٹائپ کرتے ہیں، پتہ چل جاتاہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوناچاہیے کہ ہم ان کی خلوت میں بے روک ٹوک جھانکنا شروع کردیں،یا وہ آن لائن جو کچھ کرتے ہیں، ان سے اس کے بارے میں چھان بین اور پوچھ گچھ شروع کردی جائے،بلکہ جب آپ کو شک ہوجائے تواس کو چیک کرسکتے ہیں۔ Keyloggerکا فائدہ یہ ہے کہ جو کچھ ٹائپ کیاجاتاہے، وہ ریکارڈ ہوجاتاہے۔اب اگر بھیجے گئے یا ٹائپ کیے گئے میسجDeleteبھی کردیے جائیں، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اس صورت میں ریکارڈ ضائع نہیںہوتا۔ شریر اوراجنبی بچے آن لائن منسلک ہوکر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور فحش باتیں بے خوفی کے ساتھ کہہ ڈالتے ہیں۔ عام طورپر آن لائن گیمز میں ایسا ہوتا ہے کہ جہاں بچے ایک دوسرے سے ناواقف ہوتے ہیں اور بڑے مزے سے ایک دوسرے سے منسلک ہوجاتے ہیں اور اس طرح کی جوبھی بات چیت ہوتی ہے وہ خرافات بلکہ بے حیا باتیں ہی ہوتی ہیں۔ اس لیےVoice Chatوالے گیمز کو بندہی کردینا چاہیے۔
سوشل میڈیاتک بچوں کی رسائی کا مطلب یہ ہوتاہے کہ انھیں اخلاق کے ’شکاریوں‘ کے لیے لقمۂ تر بننے دیاجائے اور خود پسندی برخود غلط سیلفی کلچر کو فروغ دیاجائے۔ہمیں بچوں کو یہ بتانا چاہیے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرنے کا سلسلہ کتنا دُورتک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں غلط اور جھوٹ کو سچ بناکر اس طرح دکھایا جاتاہے کہ دونوں میں تمیز کرنا مشکل ہوجاتاہے۔انٹرنیٹ میں مشغول رہنا ایک فضول کام ہے، جس سے پڑھائی لکھائی کی طرف سے دھیان ہٹتاہے، یادداشت متاثر ہوتی ہے اور انسان اپنے مقصد، ہدف اور منزل سے دُورہوجاتاہے۔
انٹرنیٹ گندگی سے اس قدر پُر ہے کہ ناقابلِ بیان ہے۔ میں اس کے بارے میں لکھتے ہوئے کانپتاہوں۔عریانی وفحاشی خاص طورپر دماغ کو منتشر کرنے کا موجب بنتی ہے، اور جنسِ مخالف کے ساتھ قربت بڑھانے کی شدید خواہش پیدا کرتی ہے۔اگر ہمارے بچے اس لعنت سے محفوظ نہ ہوں توہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ آن لائن انتہا پسندوں سے دماغ کی ایک خوفناک جنگ بھی ہوسکتی ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یاغیر مسلم۔یہ نہ بھولیں کہ شمیمہ بیگم اور اس کے دوستوں نے آن لائن پڑھنے کے بعد داعش میں شامل ہونے کے لیے طویل سفر کیاتھا۔اسی طرح کرائسٹ چرچ مسجد میں گولیاں چلانے والے شخص کو سائٹ پر ہی بنیاد پرست بنایاگیا تھا۔ اس نوعیت کے مجازی استادوں بلکہ بھیڑیوں سے بچوں کو بچانا اشد ضروری ہے۔
ان اُمور کا خیال رکھنے کے علاوہ ہمیں انوبھوتی کایہ مشورہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ کے بے تحاشا استعمال کے نتیجے میں نوعمروں کی روزمرہ کی اصلی زندگی میں طرح طرح کے خلل واقع ہوجاتے ہیںکہ جب اس پر گیم کھیلنا،جواکھیلنا، عریاں وفحش ویڈیو دیکھنا، سوشل میڈیایا بلاگنگ جیسے امور انجام دیے جائیں۔
واضح رہے کہ انٹرنیٹ بھی افیم کی مانند ایک قسم کا نشہ ہے، جو ایک بار چڑھ جائے تواس کا اُترنا نہایت مشکل ہوجاتاہے۔اس لیے ہمیں ضبط وتحمل سے کام لیتے ہوئے بچوں کو اس بری لت سے نکالنا پڑے گا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک ڈاکٹر اپنے مریض کے ساتھ پیش آتاہے۔یہ بھی خیال رہے کہ بچوں کو نہ ان کے حال پر چھوڑدینا ٹھیک ہے اور نہ اس سے چھٹکارا دلانے کے بعد ان سے لاپروا ہوجانا چاہیے، بلکہ انھیں اس کا متبادل فراہم کرناچاہیے۔ان کی اخلاقی تربیت اور اسلام کی اچھی اچھی باتیں اور خوبیاں بتانا نہایت ضروری ہے، اور وہ بھی اس طرح کہ ان کو بھی وہ خوش نما لگیں اور ان میں شوق وذوق پیداہو۔ انھیں یہ احساس ہوجائے کہ انٹرنیٹ پر وقت صرف کرنا بے مصرف، فضول اور بے فائدہ عمل ہے۔جس سے انسان اپنے مقصدِ زندگی سے دور ہوجاتاہے۔
شام کے وقت ان آلات کو لازماً بند کردیں۔LED اسکرین سے نیند میں خلل واقع ہوتا ہے، نیز اس سے سونے کے وقت کے امور کی انجام دہی میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔ویڈیو گیم دیکھنے کی اجازت دیتے وقت بھی اس کا خیال رکھا جائے کہ بچے ایسی گیم دیکھیں جو معلوماتی ہوں، جن سے ان کو فائدہ پہنچے۔ماردھاڑ والی یا غیر اخلاقی گیم دیکھنے سے پرہیز کیاجائے، کیوں کہ اس سے بچوں میں جنگجوئیت اور جارحانہ سوچ پیداہوتی ہے۔وہ اسکرین میں جس قسم کا طوفانِ بدتمیزی دیکھتے ہیں، اس کی نقل اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔البتہ اس قسم کی بندشوں کو اوپر سے تھوپنے یامسلط کرنے کی کوشش ہرگزنہ کی جائے، بلکہ ہرایک کی رضاکارانہ مرضی سے ان کو نافذ کیاجائے اور اس پر ہرایک کا اطمینان ہوناچاہیے کہ ضرورت سے زیادہ برقی آلات اور سازوسامان کا استعمال کسی کے لیے بھی مفید نہیں ہے۔اس سے مقصدِ زندگی نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے اور صحت اور زندگی برباد ہوجاتی ہے۔(زیرطبع کتاب کا ایک باب)
میں یحییٰ ہوں، ایک پناہ گزیں کا بیٹا، جس نے اجنبیت کو ایک عارضی وطن بنالیا اور خواب کو ایک ابدی معرکے میں بدل دیا۔ جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو اس وقت میری زندگی کا ہر لمحہ میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ گلیوں کے درمیان گزرنے والا بچپن، پھر جیل کے طویل سال، پھر خون کا ہر قطرہ، جو اس زمین کی مٹی پر بہایا گیا۔
میں خان یونس کے کیمپ میں ۱۹۶۲ء میں پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلسطین محض ایک یاد تھی جو تار تار کردی گئی تھی، محض کچھ نقشے تھے جو سیاست دانوں کی میزوں پر فراموش حالت میں پڑے تھے۔ میں وہ شخص ہوں جس نے اپنی زندگی کو آگ اور راکھ کے بیچ میں گزارا، اور بہت پہلے یہ جان لیا کہ غاصبوں کے سائے میں زندگی گزارنے کا مطلب ایک ہمیشہ کی جیل میں رہنا ہے۔ میں نے کم سنی کے دور میں ہی یہ جان لیا تھا کہ اس سرزمین پر زندگی گزارنا کوئی عام سی بات نہیں ہے۔ جو بھی یہاں پیدا ہوگا اسے اپنے دل کے اندر ناقابلِ شکست ہتھیار اٹھانا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی کا راستہ طویل ہے۔
آپ سب لوگوں کے نام میری وصیت اس لڑکے سے شروع ہوتی ہے، جس نے غاصب پر پہلا پتھر پھینکا اور جس نے یہ سیکھا کہ پتھر ہی وہ پہلے الفاظ ہیں، جن کے ذریعے ہم اپنی بات اس دنیا کو سناسکتے ہیں، جو دُنیا ہمارے زخموں کو دیکھ رہی ہے مگر خاموش تماشائی ہے۔ میں نے غزہ کی سڑکوں پر یہ سیکھا کہ انسان کو اس کی عمر کے ماہ و سال سے نہیں ناپا جاتا ہے، بلکہ اس سے ناپا جاتا ہے کہ وہ اپنے وطن کے لیے کیا پیش کرتا ہے۔ میری زندگی اسی سے عبارت تھی، جیل اور جنگیں، تکلیف اور اُمید۔
میں نے سب سے پہلے ۱۹۸۸ء میں جیل میں قدم رکھا اور اسی قید کے دوران مجھے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن الحمدللہ، میں نے ڈر کو قریب تک پھٹکنے نہیں دیا۔ ان تاریک کوٹھڑیوں کے اندر، مَیں ہر دیوار میں کھڑکی دیکھتا تھا، جس سے دُور کا روشن اُفق دکھائی دیتا تھا۔ ہر سلاخ میں سے روشنی پھوٹتے دیکھتا تھا، جو آزادی کا راستہ روشن کرتی تھی۔ جیل میں رہتے ہوئے میں نے سیکھا کہ صبر محض ایک اخلاقی خوبی نہیں ہے بلکہ وہ ایک بہت مؤثر اور قیمتی ہتھیار ہے، کڑوا مشروب ، جیسے کوئی سمندر کو قطرہ قطرہ کرکے پی لے۔
تمھارے لیے میری وصیت ہے کہ جیلوں سے خوف نہ کھاؤ، جیل تو آزادی کی منزل تک لے جانے والے ہماری طویل جدوجہد کا ایک مرحلہ ہے۔ جیل نے مجھے سکھایا ہے کہ آزادی محض ایک حق نہیں جو چھین لیا گیا، وہ تو ایک آئیڈیا ہے جو تکلیف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور صبر سے اس کی دھار تیز کی جاتی ہے۔ جب ۲۰۱۱ءمیں ’احرار کی وفاداری‘ نامی سودے کے تحت میں جیل سے نکلا تو میں پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ جب میں باہر نکلا تو میری شخصیت میں زیادہ اعتماد پیدا ہوچکا تھا اور اس جدوجہد پر میرا یقین کہیں زیادہ بڑھ چکا تھا کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ ایک وقتی کش مکش نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قسمت ہے، جس کی لاج ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک رکھیں گے۔
میری وصیت ہے کہ بندوق کو مضبوطی سے تھامے رہو، اس عظمت کے ساتھ، جس پر کوئی سودا نہ ہو، اور اس خواب کے ساتھ جو کبھی موت کا منہ نہ دیکھے۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم مزاحمت سے دست بردار ہوجائیں اور اپنے قضیے کو کبھی ختم نہ ہونے والے مذاکرات کے حوالے کردیں۔ لیکن میں آپ سے کہتا ہوں: جو تمھارا حق ہے اس پر کمزوری دکھانے کے لیے مذاکرات نہ کرنا۔ وہ تمھارے ہتھیاروں سے زیادہ تمھاری استقامت سے خائف ہیں۔ مزاحمت محض ہتھیار نہیں، جو ہم اُٹھائے ہوئے ہیں۔ مزاحمت تو فلسطین کے لیے ہماری محبت ہے جو ہماری ہر سانس کے ساتھ تازہ ہوتی ہے۔ مزاحمت تو ہمارا یہ ارادہ ہے کہ حصار و ظلم کے باوجود ہمیں زندہ رہنا ہے۔
میری وصیت ہے: تم ہمیشہ شہیدوں کے خون کے لیے وفادار رہنا اور اس راہ پر چلتے رہنا۔ یہ کبھی نہ سوچنا کہ جانے والے ہمارے لیے کانٹے چھوڑ گئے ہیں، نہیں بلکہ یہ یقین رکھنا کہ انھوں نے اپنے لہو سے ہمارے لیے آزادی کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ سیاست دانوں کے مفادات کی خاطر اور ڈپلومیسی کے کھیلوں میں آکر ان قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دو۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم سے پہلے لوگوں نے جس عظیم جہاد کا آغاز کیا، اسے تکمیل تک پہنچائیں اور اس راہ سے ذرہ برابر نہ ہٹیں، چاہے اس کے لیے کتنی ہی بھاری قیمت چکانی پڑے۔ غزہ استقامت کا مرکز اور فلسطین کا سدا دھڑکتا دل پہلے بھی تھا اور آئندہ بھی رہے گا، چاہے یہ وسیع و عریض سرزمین ہمارے لیے کتنی ہی تنگ ہوجائے۔
جب میں نے ۲۰۱۷ء میں غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالی تو وہ محض قیادت کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ اُس مزاحمت کا تسلسل تھا جو پتھر سے شروع ہوئی تھی اور بندوق سے جاری رہی۔ حصار میں گھری میری قوم کا درد مجھے روز بے چین کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آزادی کی طرف اُٹھنے والا ہمارا ہر قدم قیمت چاہتا ہے۔ لیکن میں تم سے کہے دیتا ہوں: ہار مان لینے کی قیمت اس سے بہت بڑی ہوگی۔ اس لیے اس زمین سے چمٹے رہو جس طرح جڑیں مٹی سے جڑی رہتی ہیں۔ جو قوم زندہ رہنے کا فیصلہ کرلیتی ہے اسے کوئی آندھی اکھاڑ نہیں پاتی ہے۔
طوفان اقصٰی کے معرکے کے دوران، میں کسی جماعت یا تحریک کا قائد نہیں، میں تو ہر اس فلسطینی کی آواز ہوں جو آزادی کا خواب اپنے دل میں سجائے ہے۔ میرے ایمان نے مجھے یہ راہ دکھائی ہے کہ مزاحمت محض ایک اختیاری راستہ نہیں بلکہ یہ ایک فریضہ ہے۔ میں نے چاہا کہ یہ معرکہ، فلسطینی کش مکش کی کتاب میں ایک نیا ورق بن جائے۔ تمام مزاحمتی گروپ یک جان ہوجائیں، سب ایک خندق کے رفیق بن جائیں اور اس دشمن کا سامنا کریں، جس نے کبھی بچے اور بوڑھے کا یا پتھر اور پیڑ کا فرق روا نہیں رکھا۔
میں نے کوئی ذاتی ورثہ نہیں چھوڑا، بلکہ اجتماعی وراثت چھوڑ رہا ہوں۔ ہر اس فلسطینی کے لیے جس نے آزادی کاخواب دیکھا، ہر اس ماں کے لیے جس نے اپنے شہید بچے کو اپنے کندھوں پر اُٹھایا، ہر اس باپ کے لیے جس نے اپنی بچی کو مکار دشمن کی گولی کھاکر تڑپتے دیکھا اور غم کی شدت سے رو پڑا۔
میری وصیت ہے: اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ ظلم و زیادتی کے خلاف مزاحمت کا راستہ ہی زندگی ہے۔ یہ محض ایک گولی نہیں ہے جو چلادی جائے، بلکہ یہ تو ایک زندگی ہے جسے عزّت و عظمت کے ساتھ ہم جی رہے ہیں۔ جیل اور حصار نے مجھے سکھایا ہے کہ یہ معرکہ طویل ہے اور راستہ دشوار ، لیکن میں نے یہ بھی سیکھا کہ جو قومیں ہار ماننے سے انکار کردیتی ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے کرشمے تخلیق کرتی ہیں۔
دُنیا سے توقع مت رکھنا کہ وہ تمھارے ساتھ انصاف کرے گی۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دنیا کس طرح ہمارے رنج و اَلم کو خاموش تماشائی کی طرح دیکھتی رہی ہے۔ انصاف کا انتظار مت کرو، بلکہ تم خود انصاف بن جاؤ۔ اپنے دلوں میں فلسطین کا خواب سجاکر رکھو۔ ہر زخم کو ہتھیار بنادو اور ہر آنسو کو امید میں بدل دو۔
یہ میری وصیت ہے: اپنے ہتھیار دشمن اور دشمن کے حلیفوں کے حوالے مت کرنا، اپنے ہاتھ سے پتھر نہ چھوڑنا، اپنے شہیدوں کو نہ بھول جانا اور اس خواب پر کوئی سودا نہ کرنا، جو تمھارا حق ہے۔ ان شاء اللہ! ہم یہاں باقی رہیں گے، اپنی سرزمین میں، اپنے دلوں میں اور اپنے بچوں کے مستقبل میں۔
میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ فلسطین کا ہرحال میں تحفظ کرنا۔ اُس سرزمین کا جس سے میں نے موت کی حد تک عشق کیا ہے، اُس خواب کا جس کو میں اپنے کندھوں پر اٹھائے رہا، اُس پہاڑ کی طرح جو جھکتا نہیں ہے۔ اور اگر میں گرجاؤں تو تم لوگ میرے ساتھ مت گرجانا، بلکہ میرے ہاتھ سے پرچم تھام لینا جو کسی دن زمین پر نہیں رہا۔ میرے خون سے ایک پُل تعمیر کرنا جو اس طاقت ور نسل کی راہ گزر بنے جو ہماری راکھ سے پیدا ہوگی۔
جب طوفان دوبارہ برپا ہو اور میں تمھارے درمیان نہ رہوں تو سمجھ لینا کہ میں آزادی کی موجوں کا ایک قطرہ تھا اور میں اسی کے لیے زندہ رہا تاکہ تمھیں سفر کی تکمیل کرتے دیکھوں۔ یاد رکھو، ہم خبروں میں زخمیوں اور شہیدوں پر مشتمل درج کیے جانے والے اعداد و شمار نہیں ہیں۔ غاصبوں کے حلق کا کانٹا بنے رہو، ایسا طوفان بن جاؤ جو پلٹنا نہیں جانتا اور اس وقت تک پُرسکون نہ بیٹھنا، جب تک دنیا یہ نہ جان لے کہ ہم حق پر ہیں!
۷؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو غزہ میں جنگ کا ایک سال ہوا۔ اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف سے نسل کشی کا مرتکب قرار دیا گیا،لیکن وہ اپنے مددگاروں اور فوجی طاقت کے نشے میں ایسا بدمست ہے کہ اخلاق، قانون ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں ، بین الاقوامی سطح پر اس کے خلاف ہونے والے تاریخ کے سب سے بڑے اور مسلسل مظاہروں کی پروا کیے بغیر غزہ میں مسلمانوں پر ناقابلِ بیان مظالم اور نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۲۴ءکو غزہ کی صورتِ حال پر برطانیہ کی درخواست پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔ یہ غزہ پر ایک سال میں سلامتی کونسل کا ۴۷واں اجلاس تھا۔اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مسئلے پرایک سال میں اتنے اجلاس ہوئے، لیکن اسرائیل نے کونسل کی تمام قراردادوں کی پروا کیے بغیر غزہ میں قتل عام جاری رکھا ہوا ہے، جس کی واحد وجہ امریکا کی پشت پناہی ہے۔
اسرائیلی اخبار کے ۴ستمبر ۲۰۲۴ء کے شمارے میں شمالی غزہ کے بارے میں اسرائیل کے ایک منصوبے ’جرنیلوں کا پلان‘ کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے، جس میں کھل کر کہا گیا کہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) گیورا ایلانڈ کی قیادت میں تیارکردہ منصوبے کے مطابق شمال کے پورے علاقے، یعنی پورےغزہ شہر کو ایک مکمل محصور فوجی علاقے میں تبدیل کیا جائے گا اور شمالی غزہ کی پوری آبادی کو ایک ہفتے کے اندر یہ علاقہ فوری طور پرچھوڑنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں کہا گیا ہے: ’’ اکتوبر، نومبر، یا دسمبر ۲۰۲۴ء یا شاید ابتدائی ۲۰۲۵ء میں اسرائیلی فوج شمالی غزہ میں اس نئی کارروائی کا آغاز کرے گی (یعنی آپریشن کلین اَپ)۔ مکمل محاصرہ سے پہلے پانی، خوراک، اور ایندھن کی تمام فراہمی بند کردی جائےگی ، یہاں تک کہ جو لوگ یہاں پر رہ جائیں وہ ہتھیار ڈال دیں یا بھوک سے مرجائیں‘‘۔
اسرائیل کی قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر، وزیر خزانہ بیزل ایل اسموٹریچ اور دیگر نسل پرست وزراء کھل کر اِس کا اعلان کر چکے ہیں اور بااثر اسرائیلیوں نے بھی فوج سے شمالی غزہ میں مکمل نسل کشی کرنے کی اپیل کی ہے۔ پروفیسر اُزی رابی نے جو تل ابیب یونی ورسٹی کے ایک سینئر محقق ہیں، ۱۵ ستمبر کو ایک ریڈیو انٹرویو میں اس پر تفصیل سے بات کی۔ اور اگست میں، Ynet کی ایک رپورٹ کے مطابق، حکومت کے وزراء نے پہلے ہی نیتن یاہو پر شمالی غزہ کے رہائشیوں کا’صفایا‘ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔
یہ سطور لکھتے وقت اس منصوبے پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ ۶؍ اکتوبر سے شمالی غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے وہاں بلاتخصیص قتل و غارت اور نسل کشی کا سلسلہ تیز تر کردیا گیا ہے اور بچوں، خواتین، اور نہتے شہریوں کو بے دریغ قتل کیا جارہا ہے۔
اس ساری صورت حال کے تین پہلو اہم ہیں، جس کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے:
عرب سینٹر برائے واشنگٹن ڈی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے: ’’مئی تک گرائے جانے والے۴۵ہزار بموں میں تقریباً ۹ سے ۱۴ فی صد بم نہیں پھٹے۔ اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس (UNMAS) نے اندازہ لگایا: ’’ان دھماکا خیز باقیات کو صاف کرنے میں کم از کم ۱۴ سال لگیں گے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے سفید فاسفورس کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا ہے، جو بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت ممنوع ہے ‘‘۔
دنیا کی ’مہذب‘ اور مغرب زدہ طبقوں کے مطابق ’رول ماڈل‘ اقوام اپنی ’تہذیب ‘کا غزہ میں عملی اظہار اور برملا اعلان کر چکی ہیں، جس میں تہذیب کا نام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ بقول پروفیسر انور مسعود:
آج تمھاری خوں خواری پر حیرت ہے حیوانوں کو
تم تو کل تہذیب سکھانے نکلے تھے انسانوں کو
یہ بھی کیسا شوق ہے تم کو شہروں کی بربادی کا
جگہ جگہ آباد کیا ہے تم نے قبرستانوں کو
ہنستے بستے قریے تم نے شعلوں میں کفنائے ہیں
ریت میں دفن کیا ہے تم نے کتنے نخلستانوں کو
زنداں زنداں بھیڑ لگائی بے تقصیر اسیروں کی
مقتل میں تبدیل کیا ہے تم نے پھر زندانوں کو
کتنے ہی معصوم سروں سے تم نے چھاؤں چھینی ہے
کتنادکھ پہنچایا تم نے ننھی ننھی جانوں کو
اتنے بھی سفاک منافق دنیا نے کب دیکھے تھے
کتوں کا منہ چومنے والے قتل کریں انسانوں کو
ظلم وستم کی خونی شب کا منظر بجھنے والا ہے
اِک عنوان فراہم ہوگا عبرت کے افسانوں کو
باطل کا بے ہنگم غوغا کوئی دم کا مہماں ہے
کوئی شور دبا نہیں سکتا، مست الست اذانوں کو
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِيَہٗ مِنْ اٰيٰتِنَا۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۱)
پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد ِ حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے تاکہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔
یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ سے براہِ راست معراج پر لے جانے کے بجائے پہلے مسجد اقصٰی لے جایا گیا۔
آج مسلمانوں کی حالت حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کے مصداق ہے جس میں فرمایا گیا:’’ قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمھارے خلاف (لڑنے کے لیے) دوسری قوموں کو بلائیں جس طرح کھانے والے کھانے کے برتن کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں ‘‘۔
کسی نے عرض کیا: اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھاری ہیبت نکال دے گا اور تمھارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔‘‘کسی نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! وہن کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔(ابوداؤد)
غزہ،فلسطین کےموجودہ حالات میں وقت کے تعین کے علی الرغم مسلم حکومتوں اور عوام کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی ذمہ داری کا نہ صرف علم ہونا چاہیے بلکہ اسے پورا کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے: سورۃ النساء (آیت ۷۵) میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔
اس آیت کے اندر کفار کے نرغے میں آئے تمام مظلوم مسلمانوں کے بارے میں آزاد مسلم حکومتوں اور عوام کوسخت تاکیدی حکم دیا گیا ہے جس کی رُوسے ان پر مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی نہ صرف اخلاقی و مالی بلکہ ہر قسم کی مادی مدد بھی فرض ہے۔
اس وقت عالم کفر کی کئی مغربی حکومتیں فلسطین کے مسلمانوں کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہیں، لیکن قرآن کی ان واضح ہدایات کے باوجود مسلم ممالک کی حکومتیں آپس میں بٹی ہوئی ہیں بلکہ بعض تو دَرپردہ اسرائیل کے ساتھ ملی ہوئی لگتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی شرمناک بے حسی اور خاموشی انسانیت اور مسلمانوں کےماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے، لگتا ہے وہ اصحاب الاخدود کی طرح اس گروہ کا حصہ ہیں جو آگ میں جلنے والے مومنوں کا تماشا دیکھ رہے تھے۔
دوسری طرف کچھ مسلمان اپنے حال میں مست صرف دعاؤں ، چلّوں ، ذکر کی محفلوں اور خانقاہوں اور مدرسوں کی خدمت کو جہاد کا نعم البدل سمجھ بیٹھے ہیں۔ ربّ ذوالجلال فرماتا ہے:
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔(التوبہ ۹: ۱۹)
سورۂ توبہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
اللہ کے ہاں تو انھی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا، وہی کامیاب ہیں۔ اُن کا رب انھیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں۔(التوبہ ۹:۲۰-۲۱)
سورئہ توبہ ہی میں اس راستے کی رکاوٹوں کا ذکر بھی کردیا گیا ہے:
اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ ،اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز و اقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘۔(التوبہ ۹:۲۴)
قرآن و سنت کے یہ احکام کسی زمانے، علاقے یا قوم تک محدود نہیں ہیں، بلکہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہاہو تو سب مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہوجاتاہے۔ یہی امت مسلمہ کا تصور ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ باہمی محبت اور رحم وشفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضا بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم)
حدیث کا مطلب واضح ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم درد کی وجہ سے بیتاب ہوتا ہے اور درد دُور کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔کیا ہمارا رویہ غزہ /فلسطینی بھائیوں کے بارے میں ایسا ہی ہے؟
ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق حتی الوسع غزہ کے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے، بحیثیت مسلمان یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ زکوٰۃ اور صدقہ کا اس سے بہتر استعمال اور کیا ہوسکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قسم کھاکر ارشاد فرمایا: ’’صدقہ سے مال میں کمی ہرگز نہیں ہوتی‘‘۔ ہمیں آگے بڑھ کر اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ حضرت انسؓ سے مروی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ مشرکین سے جہاد کرو ، اپنے مالوں سے ، اپنے ہاتھوں سے اور اپنی زبانوں سے‘‘۔(ابو داؤد)
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دعا کی اہمیت بھی نہیں بھولنا چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا مومن کا ہتھیار ہے‘‘۔حضرت عمرؓ سے روایت ہے ’’دعا ان حوادث ومصائب میں بھی کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہٰذا اے اللہ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو‘‘ (مشکوٰۃ )۔ اس لیے دعا بھی کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق جتنا ہوسکے ہرقسم کا تعاون بھی کریں۔ دُعا اور دوا مل جائیں تو اللہ کی نصرت آتی ہے۔
l عملی اقدامات : ان حالات میں بنیادی ذمہ داری تو مسلم حکمرانوں کی ہے کہ وہ اخلاقی امداد اور اقوام متحدہ سمیت ہرفورم پر فلسطینیوں کے حق اور اسرائیل کے خلاف آواز اُٹھانے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں سے مادی تعاون بھی کریں، تاکہ وہ صہیونیوں کے مسلسل ظلم کا جواب دے سکیں۔ آئیڈیل طریقہ تو یہی تھا کہ سب مسلم ممالک مل کر اس حکمت عملی پر کام کرتے اورعملی اقدام کرتے۔
البتہ ہر مسلمان کو انفرادی طور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، جو اس کے بس میں ہو وہ کر گزرے۔ کم ازکم درج ذیل کام ضرور کریں:
میں ’پین برطانیہ‘ اور جیوری کے اراکین کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے اس سال ’پین پنٹر‘ ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا۔ اپنی گفتگو کا آغاز اس ’مینارۂ جرأت‘ کے نام سے کروں گی، جن کے ساتھ میں نے اپنا ایوارڈ بانٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ علاء احمد عبدالفتح [پ:نومبر ۱۹۸۱ء]اس ایوارڈ میں میرے شریک ہیں۔ ہم پُرامید تھے اور دُعاکر رہے تھے کہ آپ اس سال ستمبر میں آزاد ہوں گے، لیکن مصر کی حکومت نے آخرکار یہی فیصلہ کیا کہ آپ اتنے ’شان دار‘ مصنّف اور ایسے ’خطرناک‘ مفکر ہیں کہ آپ کو آزاد کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ لیکن آپ آج اس ہال میں ہمارے ساتھ ہیں اور آپ یہاں پر موجود لوگوں میں سب سے اہم ہیں۔ آپ نے جیل خانے سے لکھ بھیجا ہے کہ ’’میرے الفاظ اثر کھو چکے ہیں، لیکن میں لکھ رہا ہوں ۔اگرچہ سننے والے چند ہی ہیں اور میں بول رہا ہوں ‘‘۔
آپ سب جو یہاں آئے ہیں، آپ سب کو میرا سلام اور ان کو بھی جو حاضرین کو تو شاید نظر نہ آئیں، لیکن میری نظریں انھیں بالکل ایسے ہی دیکھ رہی ہیں، جیسے یہاں پر موجود لوگوں کو۔ میرا اشارہ ہندستانی جیلوں میں قید میرے دوستوں اور ساتھیوں کی طرف ہے، جن میں وکیل بھی ہیں، اور اساتذہ بھی، طلبہ بھی ہیں اور صحافی بھی۔ میں عمر خالد، گل فشاں فاطمہ، خالد سیفی، شرحبیل امام، رونا ولسن، سریندرا گیڈلنگ، مہیش راوت کی بات کر رہی ہوں۔ خرم پرویز میرے دوست! میں تم سے مخاطب ہوں۔ تم انتہائی خوب صورت لوگوں میں سے ایک ہو، لیکن جیل کی دیواروں نے تمھیں تین سال سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ عرفان مہراج میں تمھیں بھی یاد کر رہی ہوں اور ان ہزاروں خاک نشینوں کو بھی جو کشمیر یا ملک بھر [انڈیا] کی جیلوں میں قید، متاعِ حیات لٹا رہے ہیں۔
جب پین برطانیہ کی مہتمم اور پنٹر جیوری کی رکن، رُتھ بورتھویک نے اس اعزاز سے متعلق پہلی بار مجھ سے بات کی تو انھوں نے لکھا تھا کہ ’پنٹر پرائز‘ (Pinter Prize)ایسے مصنّفین کو دیا جاتا ہے جو ’’اٹل سچائی، غیرمتزلزل (unflinching)اور فکری عزم کے ساتھ ہماری زندگی اور معاشرے کی اصل حقیقتوں‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بات ہرلڈ پنٹر نے نوبیل انعام کے حصول کے وقت تقریر میں کہی تھی۔
’غیر متزلزل‘ کے لفظ نے مجھے سوچ میں ڈال دیا کیوں کہ میں خود ہمیشہ متزلزل رہتی ہوں۔ میں ان دو الفاظ، متزلزل اور غیر متزلزل پر کچھ مزید بات کرنا چاہوں گی۔اس لفظ کی شاید سب سے بہتر وضاحت ہیرلڈ پنٹر نے ہی کی تھی:
میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں لندن کے امریکی سفارت خانے میں موجود تھا۔ امریکی کانگریس، ریاست نکاراگوا کے خلاف سرگرم مسلح باغیوں ‘کونٹراز‘ (Contras) کو مزید رقم کی فراہمی کے متعلق فیصلہ کرنے والی تھی۔ میں نکاراگوا کے نمائندہ وفد میں شامل تھا، لیکن ہمارے وفد کا اہم ترین حصہ ایک پادری جان میٹکاف تھے۔ امریکی کمیٹی کے سربراہ ریمنڈ سیٹز (Raymond Seitz) تھے (جو اس وقت نائب سفیر تھے، اور بعد میں سفیر بنے)۔پادری میٹکاف نے کہا،’جناب میں شمالی نکاراگوا کے ایک مذہبی حلقے کا منتظم ہوں۔ وہاں اہل علاقہ نے مل کر ایک مدرسہ، شفاخانہ اور پنچایت گھر تعمیر کیا تھا۔ ہم امن وسکون کے ساتھ رہتے آئے ہیں، لیکن کچھ مہینے پہلے باغیوں نے حملہ کر کے مدرسہ، شفاخانہ اور پنچایت گھر سمیت ہر شے تباہ کر دی۔ انھوں نے نرسوں اور استانیوں کی آبروریزی کی اور ڈاکٹروں کو انتہائی دردناک طریقے سے ذبح کردیا۔ ان کا رویہ بالکل وحشیانہ تھا۔ آپ براہ مہربانی امریکی انتظامیہ سے درخواست کریں کہ وہ ان دہشت گردوں کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے۔
ریمنڈ سیٹز ایک سلجھے ہوئے آدمی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سفارتی حلقوں میں ان کی بڑی عزّت تھی۔ انھوں نے یہ بات سنی، کچھ دیر خاموش رہے اور پھر گہری آواز میں بولے: ’پادری صاحب! آج میں آپ کو کچھ بتاتا ہوں۔ معصوم لوگ ہمیشہ سے جنگ کا ایندھن بنتے آئے ہیں۔‘ برف جیسی منجمد خاموشی کے ساتھ، ہم ان کی طرف دیکھتے رہے لیکن سفیر صاحب ذرا بھی ’متزلزل‘ نہ ہوئے۔
یاد رہے [۴۰ ویں] امریکی صدر رونالڈ ریگن [م:۲۰۰۴ء] ان باغیوں کو’اخلاقی طور پر امریکی بانیانِ قوم کے ہم پلّہ‘ قرار دے چکے تھے اور یہ اصطلاح انھیں خاصی پسند تھی۔ انھوں نے افغان مجاہدین کے لیے بھی یہی اصطلاح استعمال کی تھی، جو پھر طالبان بن گئے۔ یہی طالبان امریکی قبضے کے خلاف بیس سالہ جنگ لڑنے کے بعد آج افغانستان میں حکمران ہیں۔ ان سے پہلے ایک جنگ ویت نام کی بھی تھی، جہاں پر وہی ’غیر متزلزل‘ امریکی نظریہ کارفرما تھا، جس کے تحت سپاہیوں کو کھلی اجازت تھی کہ ’ہر متحرک شے کو قتل کردو‘۔
اگر آپ ویت نام میں امریکی جنگ کے اہداف سے متعلق ’پینٹاگون پیپرز‘ اور دیگر دستاویزات کا مطالعہ کریں تو آپ کو نسل کشی سے متعلق کئی مباحث میں یہ ’غیر متزلزل‘ عزم نظر آئے گا۔ ’لوگوں کو سیدھا سیدھا قتل کر دیا جائے یا انھیں آہستہ آہستہ بھوک پیاس سے سسکا سسکا کر مارا جائے؟ دیکھنے میں زیادہ اچھا کیا لگے گا؟ پینٹاگون میں موجود مینڈرینوں کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے بقول امریکی جو ’زندگی، خوش حالی، دولت اور طاقت ‘کے خواہش مند ہیں، ان کے برعکس ایشیائی لوگ ’بڑے پُرسکون طریقے سے املاک کی تباہی اور جانی نقصان کو قبول کر لیتے ہیں‘۔ جس کی وجہ سے امریکی مجبور ہوجاتے ہیں کہ ’اپنے اسٹرے ٹیجک اہداف کو منطقی انجام یعنی نسل کشی تک پہنچا سکیں‘۔
آج اتنے سال گزرنے کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ سال بھر سے ہمارے سامنے ایک اور نسل کشی (Genocide) جاری ہے۔ امریکا اور اسرائیل نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم نوآبادیاتی قبضے کو بچانے کے لیے غزہ اور لبنان میں اپنی ’غیر متزلزل‘ نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں، جو ٹیلی ویژن پر براہِ راست دکھائی جا رہی ہے۔ اب تک سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ۴۲ہزار لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں سے اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ ان میں ابھی وہ شامل نہیں، جن کی چیخیں کسی عمارت، محلے، بلکہ پورے شہر کے ملبے تلے دبی رہ گئیں اور جن کی باقیات کو ابھی ملبہ کھود کر نکالنا اور لاشوں کی گنتی میں شمار کرنا باقی ہے۔ ’آکسفام‘ (Oxfam)کی حالیہ تحقیق کے مطابق گذشتہ بیس برس کی کسی بھی جنگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بچے غزہ میں مارے جا چکے ہیں۔
نازی جرمنی کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کی نسل کشی کے وقت لاتعلق رہنے والے امریکا و یورپ نے اپنے جذبۂ جرم کی تسکین کے لیے ایک اور نسل کشی کا میدان سجا دیا ہے۔
تاریخ میں نسل کشی کی مرتکب ہونے والی ہر ریاست کی طرح اسرائیلی صہیونیوں نے بھی، جو خود کو اللہ کے چنیدہ لوگ سمجھتے ہیں، فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کی زمینوں پر قبضے سے پہلے ان کو انسانی مرتبے سے گرانے کی کوشش کی:
چنانچہ ان ’دو ٹانگوں والے درندوں‘، ’ٹڈیوں‘، ’کتوں‘ اور ’عدم موجود لوگوں‘ کو قتل کرنے، کونوں کھدروں میں دھکیلنے اور ان کی ’نسل کشی‘ کے بعد ایک نیا ملک قائم کیا گیا: اسرائیل۔ خوشی سے نعرے لگائے گئے کہ ’بے وطن قوم کو بے آباد وطن مل گیا۔‘امریکا و یورپ نے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ریاست کو مشرق وسطیٰ کی دولت اور وسائل پر قبضے کے لیے اپنی چھاؤنی کے طورپر استعمال کیا۔ اسے کہتے ہیں ’مفادات کا حسین امتزاج!‘
چنانچہ، ہر جرم کے باوجود، اس نئی ریاست کی ’غیر متزلزل‘ اور ’بے جھجک‘ مدد کی گئی، اسے مسلح کیا گیا اور اس کی جیبیں بھری گئیں، اس کے نازنخرے اٹھائے گئے اور سراہا گیا۔ یہ ریاست اس بگڑے ہوئے بچّے کی طرح پروان چڑھائی گئی، جو امیر گھر میں پیدا ہو اور والدین اس کے ہرظلم و زیادتی پر فخر سے مسکراتے رہیں۔ چنانچہ آج اگر اسرائیلی، فلسطینیوں کی نسل کشی پر کھلے عام فخر کرتے دکھائی دیتے ہیں، تو حیرت کیسی؟(’پینٹاگون پیپرز‘ کو کم از کم خفیہ رکھا گیا تھا۔ یاد رہے کہ انھیں چُرا کر شائع کیا گیا)۔ اگر اسرائیلی سپاہی تہذیب کے تمام تقاضے فراموش کر چکے ہیں تو کیسا تعجب؟
کیا یہ کوئی اَنہونی بات ہے کہ آج خواتین کو قتل یا بےگھر کرنے کے بعد ان کے زیریں جامے پہن کر گھٹیا وڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالی جا رہی ہیں اور اسرائیلی فوجی، اپنے ہاتھوں مرتے ہوئے فلسطینیوں، زخمی بچوں اور آبروریزی و گھنائونےتشدد کا شکار ہونے والے قیدیوںکی نقلیں اُتارتے دکھائی دیتے ہیں؟آپ کو ایسی وڈیوز بھی مل جائیں گی کہ اسرائیلی فوجی سگریٹ کا دھواں اُڑاتے یا موسیقی کی دھنوں پر ناچتے ہوئے عمارتوں کو بارود سے اڑاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟
اسرائیل اور اس کے اتحادیوں اور مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق:’یہ جواب ہے ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے اسرائیل پر حملے، اسرائیلی شہریوں کا قتل اور اغوا کا‘۔
اب یہ گفتگو کا وہ حصہ ہے جہاں مجھ سے توقع کی جائے گی کہ میں اپنی حفاظت کے پیش نظر، اپنی غیر جانب داری اور دانش وَرانہ صلاحیتوں کو ثابت کرنے کے لیے فریقین کو برابر ثابت کروں۔اپنی اخلاقی غیر جانب داری ثابت کرنے کے لیے اب مجھے حماس اور غزہ کی دیگر مسلح تنظیموں، لبنان اور حزب اللہ کی مذمت کرنی ہو گی کہ انھوں نے شہریوں کو قتل و اغوا کیا۔ پھر مجھے غزہ کے شہریوں کو بھی ڈانٹنا پڑے گا کہ وہ حماس کے حملے پر خوش کیوں ہوئے؟ یہ سب کرنے کے بعد ہر شے آسان ہو جاتی ہے۔ چھوڑیں جی دفعہ کریں، جب سب ایک جیسے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
لیکن میں اس مذمتی کھیل کا حصہ نہیں بنوں گی۔ میرا نقطۂ نظر بڑا واضح ہے۔ مظلوم خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف مزاحمت کیسے کرے اور اس کا اتحادی کون ہو، یہ فیصلہ کرنا میرا کام نہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ۲۰۲۳ میں دورۂ اسرائیل کے دوران اسرائیلی وزیراعظم اور جنگی کابینہ سے ملاقات کرتے ہوئے کہا تھا: ’صہیونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں۔ میں بھی صہیونی ہوں‘۔
صدر بائیڈن کے برخلاف جو خود کو ‘غیر یہودی صہیونی‘ سمجھتے ہیں اور بالکل ’غیر متزلزل‘ طریقے سے جنگی جرائم کے لیے اسرائیل کو ہتھیار اور پیسہ فراہم کر رہے ہیں، اُنھیں دیکھتے ہوئے میں خود کو کسی ایسے خول میں محدود نہیں کروں گی، جس میں میرے لکھے ہوئے الفاظ نہ سما سکیں۔ میں وہی ہوں جو میں لکھتی ہوں اور وہی لکھتی ہوں، جو سو چتی اور دیکھتی ہوں۔
مجھے اس حقیقت کا پوری طرح احساس ہے کہ بطور ایک مصنف، بطور ایک غیر مسلم اور بطور ایک خاتون، میرا حماس، حزب اللہ یا ایرانی حکومت کے زیر اثر زندہ رہنا بہت مشکل یا شاید ناممکن ہو۔ لیکن فی الوقت یہ ہمارا موضوع ہی نہیں ہے۔ ہمیں اس تاریخ اور سیاق و سباق کو سمجھنا ہوگا، جس کے تحت یہ گروہ وجود میں آئے۔ فی الوقت اہم بات یہی ہے کہ یہ سب ایک نسل کشی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ آیا کوئی لبرل اور سیکولر فوج، نسل کشی کے اس بدمست ہاتھی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیونکہ جب دنیا کی تمام طاقتیں ایک قوم کے خلاف ہوں تو وہ اپنے دفاع کے لیے خدا سے رجوع نہ کرے تو کیا کرے؟
مجھے معلوم ہے کہ ایرانی حکومت اور ’حزب اللہ‘ کے بہت سے ناقدین ان کے اپنے ملکوں میںبھی موجود ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سے جیلوں میں اس سے بھی برے حالات کا سامنا کر رہے ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ حماس کے کچھ اقدامات جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، مثلاً ۷؍اکتوبر کو عام شہریوں کا قتل و اغوا لیکن پھر بھی اس کا موازنہ اس سب سے نہیں کیا جاسکتا، جو اسرائیل اور امریکا غزہ، مغربی کنارے اور اب لبنان میں کر رہے ہیں۔ فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضہ اور فلسطینیوں کی غلامی ۷؍اکتوبر سمیت اس سارے فساد کی جڑ ہے۔ یاد رکھیے، اس مسئلے کا آغاز ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو نہیں ہوا۔
میں یہاں اِس ہال میں موجود تمام سامعین سے یہ سوال پوچھتی ہوں کہ ہم میں سے کتنے اس ذلت آمیز زندگی کو قبول کرنے پر رضامند ہوں گے، جو فلسطینی کئی عشروں سے گزار رہے ہیں؟ کون سے پُرامن راستے ہیں، جو فلسطینیوں اور ان کی قیادتوں نے نہیں آزمائے؟ گھٹنوں کے بل گر کر مٹی چاٹنے کے علاوہ کون سا سمجھوتہ ہے، جو انھوں نے قبول نہیں کیا؟
آگاہ رہیے اور جان لیجیے کہ اسرائیل اپنے دفاع کی کوئی جنگ نہیں لڑ رہا ہے، بلکہ اسرائیل جارحیت مسلط کرنے کی لڑائی لڑ رہا ہے تا کہ مزید فلسطینی زمینوں پر قبضہ کر سکے، اپنی نسلی عصبیت کے نظام کو مزید مضبوط کر سکے، فلسطینی عوام اور خطے پر اپنی گرفت مضبوط تر کر سکے۔
۷؍ اکتوبر سے جاری جنگ میں ہزاروں لوگوں کو جان سے ماردینے کے ساتھ ساتھ اسرائیل، غزہ کی اکثریتی آبادی کو کئی دفعہ دربدر کر چکا ہے۔ اس نے ان کے ہسپتالوں پر حملے کیے ہیں۔ ڈاکٹروں، امدادی کارکنوں اور صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناتے ہوئے قتل کیا ہے۔ ایک پوری قوم کو بھوکوں مارا جا رہا ہے کہ ان کی تاریخ ہی مٹ جائے۔ دنیا کی امیر ترین اور طاقت ور ترین حکومتیں اور ان کے ذرائع ابلاغ اخلاقی و مادی سطح پر پوری طرح ان سارے مظالم میں شامل ہیں۔ ان میں میرا وطن ہندستان بھی شامل ہے، جو اسرائیل کو ہتھیار اور ہزاروں کارکن فراہم کرتا ہے۔
یہ سب ممالک اسرائیل کے ساتھ یک جان دو قالب ہوچکے ہیں۔ گذشتہ صرف ایک سال میں امریکا اسرائیل کو۱۷ء۹ بلین ڈالر کی فوجی امداد بھیج چکا ہے۔ چنانچہ اب مناسب ہے کہ امریکی اس جھوٹ کا لبادہ اتار دیں کہ وہ ’ثالث ہیں‘، ’جنگ کے مخالف ہیں‘ ،یا جیسا کہ انتہائی بائیں بازو کا حصہ سمجھی جانے والی الیکسینڈرا اوکاسیو کورٹیز کا کہنا ہے کہ ’ہم جنگ بندی کے لیے سر توڑ کوششیں کررہے ہیں‘۔ مَیں برملا کہوں گی کہ جو فریق بذاتِ خود نسل کشی میں شامل ہو، وہ ہرگز ثالث نہیں ہوسکتا۔
دنیا کی ساری طاقت، سارا پیسہ، سارے ہتھیار اور سارا پروپیگنڈا مل کر بھی اس زخم کو چھپا نہیں سکتے، جسے ہم فلسطین کہتے ہیں۔ اس زخم سے تمام انسانیت کا خون رِس رہا ہے۔
سلامتی کونسل میں رائے شماری کے مطابق جو ممالک اسرائیلی نسل کشی کو ممکن بنا رہے ہیں، ان کی اکثریتی آبادی اس کے خلاف ہے۔ ہم نے ان ممالک میں مسلسل لاکھوں احتجاج کرنے والوں کے مظاہرے دیکھے ہیں۔ ان میں نوجوان یہودیوں کی وہ اکثریت بھی شامل ہوتی ہے، جو اسرائیل کی سرپرستی کے لیے گھڑا جانے والا جھوٹ سن سن کر اور کسی کے ہاتھوں استعمال ہوہو کر تنگ آ چکی ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ایک دن جرمن پولیس، یہودیوں پر ہی ’یہوددشمنی‘ کا الزام لگاکر انھیں صہیونیت اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے میں گرفتار کرے گی؟ کس نے سوچا تھا کہ امریکی حکومت، اسرائیل کی خدمت میں یہاں تک چلی جائے گی کہ اسے آزادیٔ اظہار کے اپنے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین پسند نعروں پر پابندی لگانا پڑے؟ کچھ استثنائی صورتوں کے علاوہ ساری مغربی دنیا کے اخلاقی اصول آج باقی دنیا کے لیے ایک خوفناک لطیفہ بن چکے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جب دنیا کے سامنے ’دریا سے سمندر تک اسرائیل‘ کا وہ نقشہ لہرایا، جس میں فلسطین سرے سے موجود ہی نہیں، تو دنیا ان کے آگے بچھی دیکھی گئی ہے کہ کیسا بابصیرت آدمی ہے جو یہودیوں کے قومی وطن کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
دوسری طرف جب فلسطینی یا ان کے اتحادی ’نہر سے بحر تک‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تو انھیں الزام دیا جاتا ہے کہ وہ کھلے عام یہودیوں کی نسل کشی کا اعلان کر رہے ہیں۔
کیا واقعی ایسا ہے؟ یا انھیں اپنا خبث باطن دوسروں میں دکھائی دے رہا ہے؟ یہ کیسی ذہنیت ہے، جو تنوع برداشت نہیں کر سکتی؟ جو ایک ملک میں دوسروں کے ساتھ برابری کی سطح پر مساوی حقوق کےساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں؟ کیا ساری دنیا اسی طرح رہتی ہے؟ یہ وہ ذہنیت ہے جو قبول نہیں کرسکتی کہ فلسطینی بھی جنوبی افریقہ ، ہندستان اور نوآبادیاتی چنگل سے آزاد ہونے والے دوسرے ممالک کی طرح آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایسے ممالک کی طرح جو متنوع آبادی کے حامل ہیں، چاہے کئی بنیادی مسائل سے دوچار ہوں، لیکن آزاد ہیں۔ جب جنوبی افریقہ کے باشندے اپنا مشہور نعرہ ’عوام زندہ باد‘ لگایا کرتے تھے تو کیا وہ گورے لوگوں کی نسل کشی کا اعلان کر رہے تھے؟ ہر گز نہیں۔ وہ نسلی عصبیت پر مبنی حکومتی نظام کا خاتمہ چاہتے تھے اور آج یہی مطالبہ فلسطینیوں کا ہے۔
جو جنگ اب شروع ہوئی ہے، یہ بہت تکلیف دہ ہوگی۔ لیکن اس کا خاتمہ اسرائیل میں نسلی عصبیت کے خاتمے کے ساتھ ہوگا۔ یہودیوں سمیت سب کے لیے، پوری دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گی اور دنیا میں انصاف ہوگا۔ ہمارے دلوں سے آخرکار یہ کانٹا نکل جائے گا۔
اگر امریکی حکومت، اسرائیلی حمایت سے دست بردار ہو جائے تو آج ہی یہ جنگ ختم ہوجائے گی۔ ابھی اسی لمحے سب قتل و غارت گری بند ہو جائے گی۔ اسرائیلی مغوی اور فلسطینی قیدی آزاد ہوں گے۔ حماس اور دیگر فلسطینی نمائندوں کے ساتھ جو مذاکرات جنگ کے بعد ہونے ہیں، وہ ابھی ہوسکتے ہیں اور یوں لاکھوں لوگوں کو تکلیف اور تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ کیسی دردناک بات ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ امکان ہی ناقابلِ تصوّر ہے کہ انھیں اس پر ہنسی آئے گی!
علاء عبدالفتح! اختتام پر میں پھر تمھاری طرف آؤں گی۔ میں تمھاری کتاب تم ابھی ہارے نہیں (Not Yet Been Defeated)کا ذکر کروں گی، جو تم نے جیل میں لکھی ہے۔ ہار اور جیت کے معنی سے متعلق ایسے خوب صورت الفاظ میں نے اور کہیں نہیں پڑھے، نہ میں نے کسی اور کو یوں مایوسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھا ہے۔ میں نے کم ہی ایسا کام دیکھا ہے جس میں ایک شہری اپنی ریاست، اپنے جرنیلوں، اور(قاہرہ کے التحریر) چوک کے ان نعروں سے اس قدر واضح انداز میں الگ کھڑا نظر آتا ہے:
مرکز میں کھڑے ہونا بغاوت ہے کیونکہ مرکز کی جگہ صرف جرنیل کے لیے ہے۔
مرکز بغاوت کی جگہ ہے اور میں کبھی باغی نہیں رہا۔
وہ ہمیںکناروں کی طرف دھکیل کر خوش ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ ہم مرکز سے ہٹے نہیں، بس کچھ دیر کے لیے کھو گئے تھے۔
ووٹوں کے ڈبے، محل سرا، وزارتیں، قید خانے یہاں تک کہ قبریں بھی اتنی کشادہ نہیں ہیں کہ ان میں ہمارے خواب سما سکیں۔
ہم نے کبھی مرکز میں ہونا نہیں چاہا کیونکہ یہ اپنے خوابوں سے منہ موڑنے والوں کی جگہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ چوک بھی ہمارے لیے کافی نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے انقلاب کی جنگ اس سے ہٹ کر لڑی اور ہمارے اکثر ہیرو منظر سے باہر رہے۔
غزہ اور لبنان کی جنگ ایک علاقائی جنگ میں تبدیل ہونے کو ہے اور اس کے ہیرو بھی منظر سے باہر ہیں۔ لیکن وہ لڑ رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک دن ’دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہو گا‘ (From the River to the Sea - Palestine will be Free)اور یہ ہوکر رہے گا۔
اپنی نظریں گھڑیوں پر نہیں، کیلنڈر پر رکھیں۔ کیونکہ اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے عوام، یہاں پر میں جرنیلوں کی بات نہیں کر رہی، بلکہ عوام کی کر رہی ہوں اور عوام اسی طرح اپنے وقت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ (The Wire، ۱۱؍اکتوبر ۲۰۲۴ء)
_______________
’پین انگلینڈ‘ (PEN England) نے ۱۰؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو ’پین پنٹرایوارڈ‘ مشترکہ طور پرممتاز دانش ور اور مصنّفہ اروندھتی رائے اور مصری نژاد برطانوی مصنّف علاء احمد عبدالفتح کو دیا۔ اروندھتی رائے نے ایوارڈ کی ساری رقم ’فلسطینی چلڈرن ریلیف فنڈ‘ کو عطیہ کی۔ ترجمہ: اطہر رسول حیدر
اخبار ڈی کلاسیفائیڈ کی جمع کردہ معلومات کے مطابق برطانیہ خفیہ طور پر اسرائیلی فوج کو نفسیاتی جنگ کے حربے سکھا رہا ہے۔ حال ہی میں افشاء ہونے والی متعدد دستاویزات کے مطابق برطانوی فوج کی ’۷۷ویں بریگیڈ‘ اس سلسلے میں اسرائیلی فوج کے ساتھ حکمت عملی اور تدابیر کے متعلق مشاورت کرتی آرہی ہے۔
یاد رہے ۷۷ویں بریگیڈ ’معلومات کے اس دورمیں‘ سوشل میڈیا اور نفسیاتی جنگ کے دیگر پہلوؤں میں مہارت رکھتی ہے۔ یہ بریگیڈ اپنی کارروائیوں کے لیے ’نفسیاتی جنگ کے غیرمہلک طریقوں‘ مثلاً سائبر حملوں، منفی پروپیگنڈے اور آن لائن آپریشنوں پر انحصار کرتی ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے دفاع میں اپنی ابلاغی مہم کے دوران، اسرائیل خود بھی جعلی اور تحریف شدہ ویڈیوز اور جعلی اکاؤنٹس کا سہارالیتا آرہا ہے۔
اس سلسلے میں ۲۰۱۸ء سے ۲۰۱۹ء کے دوران ہرمیٹیج، برکشائر میں واقع’ ۷۷ویں بریگیڈ‘ کے دفاتر میں دو بار معلومات کا تبادلہ ہوا۔ یہ دستاویزات Anonymous for Justice نامی گروپ نے اسرائیلی فوج کے اکاؤنٹ ہیک کر کے حاصل کی ہیں۔ اس کے بعد یہ تمام دستاویزات من و عن Distributed Denial of Secretsمیں شائع ہوئیں۔
اگرچہ کچھ دستاویزات خفیہ معاملات سے بھی تعلق رکھتی ہیں، لیکن ان کے مندرجات بہرحال عوامی مفاد کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس لیے ذرائع ابلاغ میں ان کو شائع کرنا ضروری ہے۔ اسرائیل اس وقت بین الاقوامی عدالتوں میں ’نسل کشی‘ (Genocide)کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے، جب کہ برطانوی وزارتِ دفاع حقِ معلومات کے قانون یا پارلیمان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے جواب میں اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد کے متعلق کچھ بھی بتانے سے انکاری ہے۔
جوائنٹ سروسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے اعزازی رکن پروفیسر پال راجرز کے مطابق: ’’یہ انتہائی اہم پیش رفت ہے، جو برطانوی اور اسرائیلی عسکری کمان کے درمیان اعلیٰ سطحی تعلقات سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عمومی طور پر عسکری شعبے میں شفافیت پر بھی زور دیتی ہے‘‘۔
برطانوی وزارتِ دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا: ’ہم اسٹاف کی سطح پر باقاعدگی سے دنیا بھر کے دفاعی اداروں کے ساتھ نان آپریشنل اشتراکِ عمل کرتے رہتے ہیں۔ ایسے تمام منصوبے ضابطے کے تحت تکمیل پاتے ہیں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی پابندی کی جاتی ہے‘‘۔
تاہم، نفسیاتی جنگ کے متعلق اسرائیل کے ساتھ حالیہ تعاون کے متعلق پوچھنے پر محکمہ دفاع نے کسی وضاحت سے انکار کر دیا۔
اس خفیہ تعاون کے رازکو افشا کرنے والی ایک ای میل کے مطابق اس کا مقصد ’’اسرائیلی فوج ’جے تھری‘ ڈائریکٹوریٹ کے شعبہ ابلاغی مہمات کے ارکان کو ایسی مہمات کی منصوبہ بندی، انتظام اور انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے درکار مہارت سے روشناس کروانا تھا‘‘۔
اس کے بعد برطانوی فوج کے ایک میجر نے اسرائیلی وفد کے لیے دو دن کا پروگرام ترتیب دیا، جو وزارتِ دفاع کے ہیڈکوارٹر اور ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کے دفاتر واقع برکشائر میں منعقد کیا جانا تھا۔
اس پروگرام کے تحت اسرائیل یا برطانیہ کے کسی خفیہ مقام پر ’اسٹرے ٹیجک ابلاغی مہمات کا انتظام‘ اور ’اسرائیلی ابلاغی حکمت عملی اور اس کا ڈھانچا‘ کے موضوع پر تفصیلات کا تبادلہ کیا جانا تھا۔
لندن میں اسرائیلی سفارت خانہ بھی اس معاملے میں ان کا ہم خیال تھا اور چاہتا تھا: ’’منصوبے کی تشکیلِ نو کے لیے منصوبہ بندی کی جائے‘‘۔جون تک برطانوی وزارت دفاع اور ۷۷ویں بریگیڈ کا یہ اسرائیلی دورہ گذشتہ خطوط پر دوبارہ ترتیب دیا جا چکا تھا کیونکہ، سال [۲۰۱۸ء] میں یہ دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا‘۔چنانچہ ۱۰ اور ۱۱ جولائی کو اسرائیلی وفدنے ایک دن برکشائر میں ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کے ساتھ، جب کہ اگلا دن وزارت دفاع کے ساتھ گزارا، اور اسرائیلی فوج کو ابلاغی مہمات کی منصوبہ بندی اور انتظام کرتے ہوئے انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی مہارت سے روشناس کروایا گیا۔
تل ابیب میں برطانوی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ درخواست کے مطابق یہ دورہ ۲۸ مارچ سے ۴؍ اپریل ۲۰۲۰ء کے درمیان ہونا تھا، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے درپیش سفری پابندیوں کے باعث اسے منسوخ کر دیا گیا۔ برطانوی سفارت خانے کی درخواست کے مطابق گفت و شنید کا موضوع ’ابلاغی مہمات کی استعداد پیدا کرنا‘ تھا اور اسے خفیہ قرار دیا گیا تھا۔
’فلسطین ایکشن‘ تنظیم کی شریک بانی ہدیٰ اموری نے ڈی کلاسیفائیڈ کو بتایا: ’’اسرائیلی ریاست، فلسطینیوں کو قتل کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے اکثر نفسیاتی جنگ اور پروپیگنڈا کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے‘‘۔ان کے مطابق افشاء ہونے والی دستاویزات یہ ثابت کرتی ہیں کہ: ’’برطانیہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم میں شریک ہے‘‘۔
۷اکتوبر کو اسرائیل پر ’حماس‘ کے حملے کے بعد، انڈین میڈیا اور صہیونیوں کی رائے عامہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی زبردست حمایت کی تھی۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تل ابیب اور نئی دہلی دونوں فلسطینی اور کشمیری علاقوں پر قبضے اور الحاق کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ۲۰۱۴ء سے انڈین وزیراعظم نریندر مودی، مقبوضہ کشمیر میں جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، وہ مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیل کی اختیار کردہ پالیسیوں سے مختلف نہیں ہیں۔ قابلِ اعتماد ذرائع کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ انڈیا، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی حمایت کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی حمایت میں انڈین ہاتھ ملوث ہے، خاص طور پر ہندوتوا حامیوں کے ذریعے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مودی حکومت کے دور میں انڈیا، فلسطین کے مسئلے پر اپنے قدیم اور روایتی موقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے، بلکہ انڈیا نے اسرائیل کے ساتھ گہرے مشترکہ تعلقات استوار کرلیے ہیں، خاص طور پر غزہ میں جاری تنازعے کے تناظر میں۔ حالیہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا، اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور وہ غزہ میں فوجی آپریشن میں شریک ہے۔ ۱۵ مئی کو ہسپانوی ساحل پر کارگو بحری جہاز ’بورکم‘ (Borkum) سے متعلق کیس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انڈین ہتھیاروں کی کھیپ اسرائیل کو بھیجی گئی تھی۔ فلسطینی قبضے کے خلاف سولیڈیریٹی نیٹ ورک کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ’بورکم‘ میں ۲۰ٹن راکٹ انجن، ۱۲ء۵ ٹن دھماکا خیز مواد، ۳۳۰۰پاؤنڈ دھماکا خیز مادہ اور توپوں کے لیے، ۱۶۳۰پونڈ چارجر اور توپ کے گولوں کے لیے دھماکا خیز مواد تھا۔ پھر ۶ جون کو اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی۔ ’قدس نیوز نیٹ ورک‘ نے اسرائیلی جنگی طیاروں کی طرف سے گرائے گئے میزائل کی باقیات کی ویڈیو جاری کی ہیں، جن کے مطابق ایک لیبل پر واضح طور پر لکھا تھا:’میڈ اِن انڈیا‘۔
اس کے علاوہ، کچھ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ سیکڑوں انڈین فوجی یا شہری، اسرائیل میں فلسطینی عوام کے قتل عام کے حق میں مظاہرے میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیل کے لیے انڈیا کی غیرمنصفانہ حمایت سے پیداشدہ لعن طعن کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے، نئی دہلی نے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) کے ذریعے غزہ کو علامتی امداد کی ترسیل بھی کی ہے۔ اگرچہ مودی کی حکومت اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا اسرائیل کی طرف اسٹرے ٹیجک جھکاؤ ساری دُنیا پر واضح ہے۔ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے اپنی حکومت پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:’’انڈیا وہی کرے گا، جو اس کے مفاد میں ہوگا‘‘۔
انڈین ملٹری انٹیلی جنس اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کے ساتھ ساتھ اسرائیلی نسل کشی کی کارروائیوں کی حمایت بھی کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد جس میں ’غزہ میں فوری اور پائیدار جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا، انڈیا نے حمایت نہیں کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت اس سال فلسطینی مزدوروں کی جگہ ۸۰ ہزار غیر ملکی ملازمین کو مستقل طور پر بھرتی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جن کی اکثریت انڈیا سے آئے گی۔ ’امریکا،بھارت،اسرائیل گٹھ جوڑ‘ اقوام متحدہ کے نقطۂ نظر کو مسترد کرتا ہے، جو غزہ کی جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ کے نازک حالات میں انسانی ہمدردی، ترقی اور امن کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد اور مالی تعاون پر مبنی ہے۔
مزید برآں، ’ہندوتوا، صہیونی اتحاد‘ کی گھن گرج کو دیکھنا ہو تو انڈیا کی فوجی حمایت زیادہ تر غزہ میں جنگ کے دوران انڈین نیوز چینلوں پر نشر ہونے والے تبصروں سے ظاہر ہوتی ہے۔ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر انڈیا اسرائیل ٹرینڈ شروع کیا گیا اور صہیونی حکومت کے ساتھ اپنی غیرمعذرت خواہانہ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے لیے بازاری اور گھٹیا زبان استعمال کی گئی۔ پھر کمال ڈھٹائی سے جعلی ویڈیوز اور مسخ شدہ تصاویر اور پرانی خبریں تک جاری کی گئیں۔ اس طرح انڈیا، جعل سازی اور غلط معلومات کا مرکز بن گیا، جس نے اسرائیل کو غزہ کی جنگ کا اصل ہدف قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح چند انڈین شہروں میں اسرائیل کی حمایت میں جلوس بھی نکالے گئے جہاں ’اسرائیل زندہ باد‘ کے ساتھ ساتھ ’جے شری رام‘ جیسے ’ہندوتوا‘ جیسے قوم پرست نعرے بھی لگائے گئے۔
اسرائیل کے بارے میں انڈیا کی اختیار کردہ پالیسی، دُہرے انڈین کردار کے بارے میں سوالات اُٹھاتی ہے: ایک طرف علامتی امداد فراہم کرنے اور دوسری طرف غزہ میں اسرائیل کے ساتھ نسل کشی میں بامعنی شریک کار کے طور پر۔ اس کے ساتھ حیرت کی بات ہے کہ مرکزی دھارے کا بھارتی میڈیا غزہ تنازعہ میں انڈین کردار کے بارے میں واضح طور پر خاموش ہے۔ تاہم، انڈین میڈیا کھلے عام ایسے کلپس نشر کرتا آرہا ہے جو غزہ میں جاری ’صہیونی،بھارتی،امریکی گٹھ جوڑ‘ کے بارے میں تاثر پیدا کرتا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قانون کی رٹ کے خلاف یہ مکروہ گٹھ جوڑ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ برطانیہ کی طرف سے اسرائیل کو غیر قانونی ہتھیاروں کی فراہمی کے ردعمل کے طور پر، برطانوی دفتر خارجہ کے ایک سفارت کار نے یہ مانتے ہوئے استعفا دے دیا ہے کہ ’اس طرح برطانوی حکومت جنگی جرائم میں ملوث ہوسکتی ہے‘۔
چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضہ کسی بھی قانونی حیثیت سے درست نہیں ہے۔ اسی طرح طاقت کے زور پر یا انڈین قانون سازی کے ذریعے جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ اس لحاظ سے، تل ابیب اور نئی دہلی دونوں نے ’بین الاقوامی انسانی قانون‘ (IHL) کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ فلسطین کے بارے میں انڈیا کی پالیسی میں واضح تبدیلی اور غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی بے جا حمایت، اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کے غزہ جنگی شراکت دار کے طور پر، انڈیا کا مقصد کشمیر پر یک طرفہ طور پر قبضے کو مضبوط بنانا ہے۔ یوں اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے نئی دہلی جنگی جرائم میں ملوث چلی آرہی ہے۔
۱۹۹۵ء میں جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کے لیے بھارت کو شدید عالمی دباؤ کا سامنا تھا۔وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی حکومت، کانگریس کی ہم نوا ’نیشنل کانفرنس‘ کی معاونت کے لیے تیار نہیں تھی۔ نئی دہلی میں اس بات پر بھی غصہ تھا کہ ۱۹۸۹ میں فاروق عبداللہ نے وزارت اعلیٰ کے منصب سے استعفا دیا اور بھارت مخالف قوتوں کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے لندن جا کر بس گئے تھے۔
ان انتخابات کو معتبر بنانے کے لیے معروف کشمیری رہنما شبیر احمد شاہ پر ڈورے ڈالے جارہے تھے۔ وہ ابھی حُریت کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ نئی دہلی میں خفیہ ایجنسیوں کا ایک اور دھڑا، جس کی قیادت اس وقت کے سیکرٹری داخلہ ایس پدمانا بھیا کر رہے تھے، انھوں نے حکومت نواز بندوق برداروں پر مشتمل ایک پارٹی ’عوامی لیگ‘ کے نام سے میدان میں اتاردی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ خود ساختہ منتخب حکومت کی باگ ڈور، وہ تائب بندوق برداروں کے کمانڈر محمدیوسف المعروف ککہ پرے کے حوالے کردیں گے۔ اس گروپ نے ان دنوں چند برسوں میں ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے تھے، لوگ کسی طرح ان سے چھٹکارا پانا چاہ رہے تھے۔
اگلے سال یعنی ۱۹۹۶ء میں لوک سبھا کے انتخابات ہوئے، تو نیشنل کانفرنس نے ان کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ ان انتخابات میں کانگریس کی زیر قیادت نرسہما راؤ کی حکومت کا تختہ اُلٹ گیا اور جنتا دل حکومت وزیر اعظم دیو گوڑا کی قیادت میں برسر اقتدار آگئی۔ انھوں نے خفیہ ایجنسیوں کی ایما پر اپنے دست ِراست سی ایم ابراہیم کو لندن بھیج کر فاروق عبداللہ کو اسمبلی انتخابات میں شرکت پر آمادہ کروالیا۔ ان کو یقین دہانی کروائی گئی، کہ اسمبلی میں ان کو واضح اکثریت حاصل کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی، اور وہ زیادہ خود مختاری کی قراردار منظور کرواکے نئی دہلی بھیج دیں، جس کو پارلیمنٹ سے پاس کروایا جائے گا۔ سی ایم ابراہیم اکثر غیر رسمی گفتگو میں ان انتخابات کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فاروق عبداللہ کو بتایا تھا کہ اگروہ انتخابات میں شرکت نہیں کرتے، تو ان کے پاس متبادل موجود ہیں۔ اس طرح ان کی پارٹی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
ان انتخابات میں گو کہ زیادہ عوامی شرکت نہیں تھی۔ کئی جگہوں سے لوگوں کو فوج اور نیم فوجی دستوں نے زبردستی ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنے پر مجبور کردیا۔ مگر جو بھی پولنگ بوتھ تک گیا، اس کی اولین ترجیح یہی تھی کہ ککہ پرے کی عوامی لیگ یا اس کے بندوق برداروں کے دستوں کو ہروا کر کسی ایسی انتظامیہ کو بر سرِ اقتدار لایا جائے، جس کے زیر سایہ وہ چند سانسیں لے سکیں۔
نیشنل کانفرنس نے ان انتخابات میں ۸۷ رکنی ایوان میں ۵۷ نشستیں جیت کرکے قطعی اکثریت حاصل کرلی۔ انتخابات کے بعد فاروق عبداللہ کو بتایا گیا کہ اسمبلی میں ۱۹۵۳ء سے قبل کی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کی قرارداد یا بل پیش کرنے سے قبل ایک کمیٹی بنائی جائے، جو اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ مگر جب تک کمیٹی کی رپورٹ آتی، تب تک جنتا دل حکومت کا تختہ اُلٹ چکا تھا اور اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی اقتدار میں آچکی تھی ، جس نے جولائی ۲۰۰۰ء میں جموں و کشمیر اسمبلی میں واضح اکثریت سے پاس کی ہوئی قرار داد کو مسترد کردیا۔
فاروق عبداللہ جنھوں نے انتخابات میں شرکت اور بھارت کو عالمی دباؤ سے بچانے کے لیے اس شرط پر آلہ کار بننے پر رضامندی ظاہر کی تھی، کہ نئی دہلی ۱۹۵۳ء کی پہلے والی پوزیشن بحال کرے گی، یہ تلخ گھونٹ پی لیا اور اقتدار میں رہنے کو ترجیح دی۔ عمر عبداللہ واجپائی کی وزارتی کونسل میں جونئیر وزیر بن گئے اور انھوں نے بھی وزارت سے استعفا دینا گوارا نہیں کیا۔
لگتا ہے کہ کشمیر میں تاریخ کا پہیہ گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتا ہے۔ اُس وقت سرکاری بندوق برداروں کے بجائے لیفٹنٹ گورنر کی انتظامیہ، سرکاری ایجنسیوں اور ہندو قوم پرستوں نے عوام کا ناطقہ بند کررکھا تھا۔ پچھلے پانچ برسوں سے کشمیر میں گھٹن کا ماحول تھا۔ اس لیے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے ووٹ ڈالے، تاکہ عوامی نمائندوں پر مبنی ایک حکومت بن سکے اور سانس لینے کا موقع فراہم ہو۔
ان انتخابات میں ۱۹۹۶ء ہی کی طرح نیشنل کانفرنس کو برتری حاصل ہوئی۔ ۹۰سیٹوں میں سے ۴۲ پر نیشنل کانفرنس نے جیت درج کی اور اس کی اتحادی کانگریس کو چھ سیٹوں پر سبقت حاصل ہوئی۔ وادیٔ کشمیر کی ۴۷ میں سے نیشنل کانفرنس کو ۳۵ سیٹیں حاصل ہوئیں اور جموں کی ۴۳سیٹوں میں سات سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ہندو اکثریتی جموں میں بی جے پی نے ۲۹نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ جیری مینڈرنگ کے ذریعے اس علاقے میں ہندو سیٹوں کی تعداد ۲۴ سے بڑھاکر ۳۱ کردی گئی تھی۔ اس طرح مسلم سیٹوں کو ۱۲ سے گھٹا کر ۹ کر دیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ کانگریس، ہندو بیلٹ میں بی جے پی کو ٹکر دے گی۔ مگر اس نے انتہائی حد تک مایوس کن کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ کانگریس کی چھ سیٹیں بھی مسلم بیلٹ سے ہی آئی ہیں۔ ان میں پانچ وادیٔ کشمیر سے اور ایک جموں کے راجوری خطے سے ہے۔ راہول گاندھی نے وادیٔ کشمیر کے سوپور قصبہ میں جاکر وہاں نیشنل کانفرنس کے خلاف مہم چلائی، اور جس کانگریسی اُمیدوار کے حق میں مہم چلائی، وہ تیسرے نمبر پر آیا۔
جس طرح سے کانگریس نے جموں خطے میں بی جے پی کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا، اس سے لگتا تھا کہ شاید ان میں کوئی ملی بھگت ہے۔ انتخابی مہم کے دوران خود عمر عبداللہ کو کہنا پڑا کہ کانگریس جموں کی ہندو بیلٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے وادیٔ کشمیر اور جموں کی مسلم بیلٹ میں ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کررہی ہے۔
وادیٔ کشمیر میں ووٹروں نے یقینی بنایا کہ آزاد اُمیدواروں کی بہتات کی وجہ سے ووٹ تقسیم نہ ہوں۔ اس لیے انجینئر رشید ( عوامی اتحاد پارٹی) اور جماعت اسلامی فیکٹر کا بھی نتائج پر بہت کم اثر ہوا ۔ انجینئر رشید نے پارلیمانی انتخابات میں جو جلوہ دکھایا، وہ اسمبلی انتخابات میں مفقود تھا۔ اس کی بڑی وجہ تھی کہ اس نے انتہائی نالائق اُمیدواروں کو میدان میں اتارا۔ شاید ضمانت پر رہائی کے بعد ان کو اُمیدواروں کے انتخاب کے لیے نہایت کم وقت ملا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، جس نے ۲۰۱۵ء میں بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی، وادیٔ کشمیر میں شکست کھا گئی ہے، اور تین نشستوں تک محدود ہوگئی۔جس پارٹی کے اُمیدوار پر تھوڑا بھی شک گزرا کہ اس کے تعلقات نئی دہلی یا بی جے پی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، کو شکست ہوئی۔
بی جے پی نے تین سیٹیں یعنی بھدروا، ڈوڈاویسٹ اور کشتواڑ وادیٔ چناب سے جیتیں۔ اس علاقے میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس دونوں نے اُمیدوار کھڑے کر دیئے تھےاور ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ بی جے پی کو سب سے بڑا جھٹکا راجوری-پونچھ کی پیر پنجال پٹی میں لگا۔ جہاں اس نے آٹھ میں سے ایک ہی سیٹ جیتی ہے۔ یہ سیٹ بھی اس لیے ممکن ہوسکی کہ جیری مینڈرنگ کے ذریعے انتخابات سے قبل کالاکوٹ کو سندر بنی سے ملاکر بی جے پی کے لیے اس سیٹ کو ہموار کرادیا گیا تھا۔ پیر پنجال کے دیگر حصوں یعنی نوشہرہ، راجوری، درہال، تھانا منڈی، پونچھ،حویلی، مینڈھر اور سورنکوٹ میں بی جے پی کی دال گل نہ سکی۔ اس خطے میں پہاڑی نسل کے لوگوں کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دینے کی وجہ سے ان کے لیڈروں کو لگتا تھا کہ یہ خطہ اب ان کی جیب میں ہے۔ وزیر داخلہ امیت شا نے اس خطے کے کئی دورے کیے۔ تاہم، کوئی بھی اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا کہ بی جے پی نے کچھ ایسے حلقوں میں اپنی موجودگی ثابت کی ہے جہاں وہ دوسرے نمبر پر رہی ہے یا ۱۰۰۰ سے زیادہ ووٹ حاصل کر چکی ہے۔
گریز میں اس کی کارکردگی قابل ذکر ہے، جہاں اس کے اُمیدوار فقیر محمد نے ۷۲۴۶ ووٹ حاصل کیے،جب کہ نیشنل کانفرنس کے نذیر احمد خان نے ۸۳۷۸ ووٹ حاصل کیے۔بی جے پی سرینگر کے حبہ کدل میں بھی دوسرے نمبر پر رہی لیکن بڑے فرق سے ہار گئی۔
۱۹۹۶ء میں نیشنل کانفرنس نے زیادہ سے زیادہ خود مختاری کے نام پر اور چند سانسیں لینے کے عوض بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ اس بار بھی عوام کو امید ہے کہ شاید آکسیجن کی بحالی ہو۔ فرق یہ ہے کہ اس بار نیشنل کانفرنس خود مختاری کے بجائے ریاستی درجہ کی بحالی کے وعدے کو لے کر میدان میں اُتری ہے اور اس میں کس قدر اس کو کامیابی حاصل ہوتی ہے، وقت ہی بتائے گا۔ ویسے نیشنل کانفرنس کا جیتنا دونوں یعنی کشمیری عوام اور نئی دہلی کےلیے ایک طرح سے فائدے والی صورت حال ہے۔ کشمیری عوام آبادیاتی ساخت کی تبدیلی کے حوالے سے اور نچلی سطح پر غیرریاستی افسران کی آمد سے پریشان تھے۔ یہ مسئلہ حل ہونے کا امکان ہے۔ اگر نیشنل کانفرنس کا کوئی کارنامہ ہے، تو یہی ہے۔ ۱۹۷۵ء میں شیخ عبداللہ کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی حد تک انتظامیہ میں کشمیریوں کا عمل دخل بڑھا کر ان کو اقتدار کی راہداریوں تک رسائی فراہم کرا دی گئی تھی، جو اَب معدوم ہو چکی ہے۔
نئی دہلی کو اطمینان ہے کہ نیشنل کانفرنس ریڈ لائنز کراس کرنے کی روادار نہیں ہوگی۔ اس کے لیڈران بس ایک حد تک ہی نئی دہلی کو چیلنج کرتے ہیں۔ جو لیڈران اپنی اسمبلی کی خود مختاری کی قرارداد کو مرکزی کابینہ کے ذریعے مسترد ہونے پر بھی خون کے گھونٹ پی سکتے ہیں، تو وہ اقتدار برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔
اسی طرح عمر عبداللہ کے پاس سیاسی قیدیوں کی رہائی اور سابقہ حکومتوں کے دوران نافذ کیے گئے جابرانہ قوانین کی منسوخی کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا نادر موقع ہے۔ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حصول کے لیے پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ بات چیت کی وکالت کے لیے بھی وہ ایک سازگار فضا اور دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
اس حکومت پر لیفٹنٹ گورنر کی خاصی گرفت ہوگی، وہ کس طرح اس سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں، وہ ان کی سنجیدگی ظاہر کرے گی۔ تمام متعلقہ فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دیرپا امن اور انصاف کے حصول کے لیے کشمیری عوام کی آواز کو سنا جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ یہ عمر عبداللہ کا اصل امتحان ہوگا۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور تاریخ کے اس نازک موڑ پر عوام کی رہنمائی کرتے ہیں، تو یہ کارنامہ تصور ہوگا، ورنہ اس پارٹی کے گناہ اس قدر ہیں، جو شاید ہی ووٹوں سے دُھل سکیں۔
دینِ اسلام اپنے بندوں کے اندر جو مزاج پیدا کرتا ہے، اس میں مصنوعی پن یا تصنع نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس مزاج کے تحت ایک بندہ جب بھی کہتا ہے، یا لکھتا ہے، تو حق کی ہی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کی ہر بات قولِ سدید ہوتی ہے۔ لیکن جو چیز آج ہمارے گردوپیش میں پیدا ہوگئی ہے، اس میں ایک بڑی اخلاقی خرابی خوشامد اور چاپلوسی ہے۔ سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں، وہیں اس کے ذریعے بہت سی اخلاقی خرابیاں بھی پیدا ہوگئی ہیں۔ ایسا مزاج پیدا ہوگیا ہے کہ حقیر مقاصد کے لیے ایک دوسرے کی خوشامد کرنا ضروری سمجھا جارہا ہے۔ واٹس ایپ گروپ میں جہاں لیڈر یا آفیسرز بھی ہوتے ہیں، ان کی خوشامد کرنا عام رویہ بن چکا ہے، جس سے بندے کا نہ صرف مزاج بگڑ جاتا ہے بلکہ جس کی خوشامد کی جائے اس پر بھی اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔
یہ مشاہدے کی بات ہے، کام سے زیادہ چاپلوسی کرنے والوں کے کام آسان ہوجاتے ہیں۔ جو کوئی اپنے سینئر کی جس قدر تعریف کرتا ہے اس قدر اس کو فائدہ ملتا ہے۔ اس سے اخلاقی اور پیشہ ورانہ خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اور میرٹ کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہر شخص اپنی تعریف و مدح سرائی سے خوش ہوتا ہے اور تنقید اور اصلاح سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
خوشامد کرنے یا اس پر عمل کے پیچھے بھی ایک بڑا سبب یہی نفسیاتی پہلو ہے کہ کس طرح لوگوں کو متاثر (impress)کیا جا سکے۔ اس طرح سے لوگوں کو متاثر کر کے کوئی شخص فوری طور پر یا دیرپا تعلقات اور معاملات میں فوائد حاصل کر سکتا ہے، کیونکہ خوشامد سے سرشار ہونے والا فرد، خوشامد کرنے والے یا خوشامد کار کے لیے عموماً نرم گوشہ خود میں پیدا کرتا ہے اور اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
خوشامَد یا چاپلوسی ایک عمل ہے جس کے تحت کچھ لوگ حد سے زیادہ دوسرے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں۔ اپنے سے بلند رُتبہ شخصیت یا صاحب ِمنصب کے سامنے محض مفاد حاصل کرنےکے لیےعجز وانکسارکا مظاہرہ کرنا یا اپنے آپ کو نیچا دکھانا تملق یعنی چاپلوسی کہلاتا ہے۔اس عمل میں ایسی خوش نما صفات، عادات، محاسن، معاملات، فعالیت، گفتگو کی خوبیاں، دُور اندیشی، وغیرہ منسوب کی جاتی ہیں جو یا تو کسی شخص میں فی الواقع موجود نہیں ہوتی، اگر ان میں سے کچھ حصہ پایا بھی جاتا ہو، تو وہ اس درجہ خوبی اور خوش نمائی کو نہیں پہنچتا، جس طرح کہ بیان کیا جاتا ہے۔
خوشامد عام طور سے کسی ذی حیثیت یا کسی ایسے شخص کی جاتی ہے، جس سے کسی شخص کو فوری کام پڑ رہا ہو یا پڑ سکتا ہو۔ اسلام میں چاپلوسی یا خوشامد سے روکا گیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن کریم میں فرمایا ہے : ’’تم اُن لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو جو اپنے کرتُوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف انھیں حاصل ہو جو فی الواقع انھوں نے نہیں کیے ہیں۔ حقیقت میں ان کے لیے دردناک سزا تیار ہے‘‘۔(اٰلِ عمٰرن۳ :۱۸۸)
ان آیات کی شانِ نزول کا اگر چہ خاص پس منظر ہے جس میں یہودیوں اور منافقوں کے ایک مخصوص گروہ کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور اُن کے بد انجام کی انھیں خبر دی گئی ہے، لیکن ان آیات کے عموم میں اُن تمام لوگوں کو مراد لیا گیا ہے، جو اپنے بارے میں کسی کے منہ سے خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف سن کر خودپسندی کا شکار ہوکر تکبر و شیخی اور غرور وناز میں مبتلا ہوجائیں۔ اپنے کیے ہوئے کاموں پر اِترانے لگیں اور نہ کیے ہوئے کاموں پر ایک مدح و تعریف چاہنے لگیں۔ یہ سب ایسے گناہ ہیں جن کی سزا اور عذاب سے بغیر توبہ و استغفار کے بچنا انسان کے لیے بڑا مشکل ہے۔
احادیث میں بھی رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بیماری سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دوسرے کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم نے اِس کو برباد کردیا‘‘۔ (صحیح بخاری ۲۶۶۳)۔ اسی طرح ایک اور موقعے پر ایک شخص نے دوسرے کی حد سے زیادہ تعریف کی تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم نے اپنے ساتھی کی گردن ماردی۔ اگر تمھیں کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں کہو کہ میں یہ گمان کرتا ہوں، بشرطیکہ اُس کے علم میں وہ واقعی ایسا ہی ہو‘‘۔ (بخاری ۲۶۶۲، مسلم۵۰۲، ابوداؤد۴۸۰۵)۔ صحابہ کرامؓ کا مزاج اس سلسلے میں بالکل واضح اور صاف تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عثمان بن عفانؓ کے منہ پر اُن کی تعریف بیان کی تو حضرت مقدادؓ نے اُس کے منہ میں خاک جھونک دی اور فرمایا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’خوشامد کرنے والوں سے ملو تو اُن کے منہ میں خاک جھونک دیا کرو‘‘۔ (مسلم :۷۵۰۵)
بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ مرض پروان چڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ چاپلوس مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ چاپلوسی کرنے والا شخص خود تین بڑے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے:
کسی انسان کے سامنے اس کی تعریفوں کے پُل باندھنا کہ جس کی وجہ سے وہ بندہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے، انسان کے اندر تکبر کا بیج بو دینا ہے اور جس انسان میں تکبر آگیا تو سمجھ لیجیے کہ اس کی آخرت تباہ ہو گئی۔ ابلیس بھی تکبر کی وجہ سے ملعون ٹھیرا تھا۔ تکبر اللہ کو بہت ناپسند ہے۔ اس لیے اسلام نے تکبر کو ایک انسان کے اندر آنے کے راستے بند کرنے کی طرف توجہ دی ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ تو ذبح کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
چاپلوسی یا خوشامد سے بچنے کی تلقین جن حضرات کو کرنی چاہیے تھی، بدقسمتی سے اب ان کے ہاں بھی یہ مرض دیکھنے کو ملتا ہے۔ مذہبی طبقے کے پوسٹرز اور اطلاعاتی برقی پوسٹوں میں کسی مبلغ یا عالم کے لیے ایسے الفاظ و القابات کی بھرمار اسی خوشامد کی علامت ہے۔ مثال کے طور پر اتنا لکھ دینا کافی تھا کہ 'مولانا ' یا 'شیخ ' یا اگر پی ایچ ڈی کیا ہو تو 'ڈاکٹر۔ ' لیکن ہم طرح طرح کے القابات سے سطور بھردیتے ہیں، جیسے: شیخ المشائح، رہبر ملت، امام المناظرین، مجدد دین و ملت، پیر طریقت، فاتح شرک اور قاتلِ بدعت وغیرہ ۔ بدقسمتی سے مبلغ حضرات بھی پروگرام کے آرگنائزر کو یہ لکھنے یا بولنے سے نہیں روکتے۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں چاپلوسی یا خوشامد ہمارے مذہبی طبقوں میں جگہ بنا چکی ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ لوگوں کو کسی کی تعریف ہی نہیں کرنی چاہیے۔ تعریف اور خوشامد الگ الگ چیزیں ہیں۔ حوصلہ افزائی اور خوشامد میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حوصلہ افزائی میں حق گوئی ہوتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ سننے والے میں خود اعتمادی اور اُمید پیدا کی جائے۔ اس کے بر عکس خوشامد کذب و ریا اور بہروپیا پن سے لتھڑی ہوتی ہے۔ اس میں خود غرضی کا یہ پہلو بھی شامل ہوتا ہے کہ مخاطب کو خوشامدی کے پوشیدہ مقصد کا شکار بنایا جائے۔ ربّ العزت ہمیں بنیادی اقدار عطا فرمائے تاکہ ہم معاشرے کے لیے خیر بن جائیں۔ ہم سے جو معاشرہ تعمیر ہو اس میں حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین پروان چڑھے۔
پاکستان کے ساتھ بدقسمتی کا کھیل مسلسل کھیلا جارہا ہے، اور اس میں سفاکی کا پہلو یہ ہے کہ یہ کھیل کھیلنے والے اپنے مفاد کے اسیر بن کر اصول، اداروں اور قوم کا مذاق بناتے ہیں۔کبھی یہ کھیل سیاست دان کھیلتے ہیں، پھر چند مقتدر جرنیل اس کا کنٹرول سنبھالتے ہیں اور بیورو کریسی اپنی پیشہ ورانہ ’نیازمندی‘ میں اسے انتہا تک پہنچانے کے راستے سُجھاتی اور گُر سکھاتی ہے۔
پاکستان میں رائج جمہوریت کا تصور برطانوی پارلیمانی جمہوریت سے اخذ کیا گیا ہے۔ وہ برطانیہ ، کہ جس کی پارلیمنٹ کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا ہے: ’’پارلیمنٹ کچھ بھی، یا سب کچھ کرسکتی ہے، سوائے اس کے کہ مرد کو عورت یا عورت کو مرد بناد ے، یا سوائے اس کے کہ جسے فطری طور پر کرنا ممکن نہ ہو‘‘۔ قانون سازی کے اس مادرپدر آزاد تصوّر کے، تلخ تجربوں سے سبق سیکھ کر یکم جنوری ۱۹۷۳ء کو مغربی دُنیا ایک قدم پیچھے ہٹنا شروع ہوئی، اور یہ تسلیم کیا کہ ’’بہرحال قانون سازی کی کچھ حدود ہیں، جنھیں عدالت ہی واضح کرسکتی ہے‘‘۔
اس مغربی تجربے سے بہت پہلے، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو ’قرارداد مقاصد‘ منظور کرکے، پارلیمنٹ کی مطلق العنانیت کو یہ کہہ کر ایک حد میں رکھا کہ مقننہ، پارلیمنٹ اور حکومت کے پاس قانون سازی کے جو اختیارات ہیں، وہ ایک مقدس امانت ہیں، کوئی بے لگام اختیار نہیں، اور یہ اختیارات حدودِ الٰہی کے پابند ہیں۔ ’قرارداد مقاصد‘ ملک کے تمام دساتیر کا حصہ چلی آرہی ہے، لیکن افسوس کہ اس کی روح کو ہرحکومت نے کچلنے اور ہرپارلیمنٹ یا قومی اسمبلی نے نظرانداز کرنے کی پے درپے کوشش جاری رکھی ہے۔
حکومت اور پارلیمنٹ کے ایسے قانونی و دستوری تجاوزات کو نمایاں کرکے حد کا پابند بنانے کا واحد اداراتی ذریعہ عدالت ہی ہوسکتی ہے۔ جب کہ ہماری سیاسی اور فوجی حکومتوں نے اکثر عدالت کے اس اختیار کو نہ صرف چیلنج کیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مداخلت کرنے اور اپنی مرضی کے افراد کے تقرر کے ذریعے عدل کی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے رہے ہیں۔ ۲۱؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو دستور میں کی جانے والی ۲۶ویں ترمیم اسی منفی اور غیرعادلانہ سوچ کی ایک بدنُما مثال ہے۔ جبر، دھونس اور شاطرانہ ڈرامے کے ذریعے رُوبہ عمل آنے والی یہ ترمیم ایک رجعت پسندانہ قدم ہے اور کھلا فائول پلے۔ جس میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ دستوری عمل میں اور اعلیٰ عدالتی مناصب یعنی چیف جسٹسوں (سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں) کے تقرر کا معاملہ سیاسی اور انتظامی انگوٹھے تلے دبائے رکھا جائے۔
سیاسی مداخلت کی اسی روش کو ۴۹ برس تک برداشت کرنے کے بعد ۲۰مارچ ۱۹۹۶ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں بنچ نے فیصلہ دیتے ہوئے، حکومت کی آمریت اور قانون شکنی اور عدلیہ میں مداخلت کا دروازہ بند کیا اور طے کیا کہ آیندہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سینیارٹی کی بنیاد پر مقرر ہوں گے۔اس فیصلے پر تب وزیراعظم بے نظیر نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ حکومتی کیمپ سے وابستہ صحافیوں نے انتہائی گھٹیا اور رکیک لب و لہجے کے علاوہ غیرمعیاری الفاظ میں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس زمانے کے اخبارات دیکھیں تو یہ جارحیت صاف طور پر نظر آتی ہے۔
وزیراعظم بے نظیر بے جا طور پر ایک ہیجانی ردعمل کا شکار ہوگئی تھیں۔ دراصل وہ یہ سمجھتی تھیں کہ اگر عدلیہ نے حکومت کے غیرمنصفانہ فیصلوں کو انصاف کی میزان پر جانچنا شروع کر دیا تو پھر حکومت کو اُوپر سے لے کر نیچے تک قانون کی پابندی پہ مجبور ہونا پڑے گا۔ اس لیے کبھی تو انھوں نے پہلے صدر فاروق لغاری صاحب سے فرمایا کہ ’’چیف جسٹس کو برطرف کرنے کے لیے کچھ کریں‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’۲۰مارچ کا فیصلہ آرڈی ننس کے ذریعے کالعدم قرار دے دیں‘‘۔ پھر یہ بھی فرمایا: ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہو، مگر جج جماعت اسلامی لگائے؟‘‘
سپریم کورٹ کی بے بسی اپنی جگہ قابلِ رحم ہوتی ہے کیونکہ سوائے قلم کی طاقت کے، نہ اُس کے پاس فوج ہوتی ہے نہ پولیس، نہ دھونس جمانے کے لیے سوشل میڈیا، اور نہ وہ صحافی، جو قلم کی حُرمت کو بیچنے کے لیے ہردم تیار ہوتے ہیں۔ اس بے بسی کا مشاہدہ ۲۰۲۲ء میں اُس وقت باربار کیا گیا، جب پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے الیکشن کرانے کے واضح دستوری حکم اور عدالتی فیصلے کو پامال کیا گیا، اور الیکشن کمیشن، فوج اور بیوروکریسی ماننے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے فیصلے نے ۱۹۹۷ء سے ۲۰۲۳ء کے دوران چیف جسٹس کے تقرر کی بحث کا خاتمہ کر دیا تھا، کہ اس میں ’’میرا بندہ چیف بنے گا، اُس کا بندہ چیف نہیں بنے گا‘‘ اور یہ کہ وہ ’’بندہ ہمیں تنگ کرسکتا ہے، اس لیے اس کا راستہ روکنا ہمارا حق ہے‘‘۔ ۲۶ویں ترمیم ہونے کے دوسرے روز سے حکومت کے ذمہ داران نے تسلیم کیا ہے کہ ’’ہم نے یہ ترمیم جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کے لیے کی ہے‘‘۔ درحقیقت یہ ترمیم صرف ایک آدمی کا راستہ روکنے کی دھاندلی نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے سینئر ججوں کو خوف اور دبائو کا شکار کرکے، اپنے من پسند ججوں کے تقرر کا اختیار لینے کا شیطانی کھیل بھی ہے۔ ۴۹برس کے دوران دھکے کھانے کے بعد عدالت اور قوم نے جو سُکھ کا سانس لیا تھا، اسے ’معزز‘ ارکان نے سیاہ دھبہ بنا کر دستور اور عدلیہ کے چہرے پر تھوپ دیا ہے۔
اس عرصے میں چند غیرمعمولی چیزیں مشاہدے میں آئی ہیں:
اس سب کے باوجود دہائی یہ دی گئی: ’’ہم نے دستور لکھنے کی عدالتی مداخلت کا خاتمہ کیا ہے‘‘۔ حالانکہ عدلیہ کی جانب سے اِکا دُکا ناپسندیدہ اقدامات اور فیصلوں کے باوجود، مجموعی طور پر قانون اور ضابطے کے تحت ہی عدالتی عمل چلتا رہا ہے۔
معاملہ درحقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ مادر پدر آزاد ہے اور نہ ہوسکتی ہے، اسے دستور کو قتل کرنے کا کوئی حق اور اختیارنہیں۔ مثال کے طور پر بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے کا کوئی پارلیمنٹ اختیار نہیں رکھتی اور اگر ایسا کرے گی تو عدالت ہی اسے چیک کرے گی۔ اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت بہرحال بنیادی اخلاقی، تہذیبی اور آفاقی اصولوں کے تابع ہے۔
ذرا ۱۹۷۴ء کا انڈیا دیکھیے، وزیراعظم اندرا گاندھی نے دوتہائی اکثریت سے ترمیم کرکے کچھ بنیادی حقوق حذف کر دیئے، جس پر انڈین سپریم کورٹ نے وہ پوری دستوری ترمیم ہی کالعدم قرار دیتے ہوئے لکھا: ’’یہ حقوق، دستور کی بنیادیں ہیں، جن میں ترمیم نہیں کی جاسکتی‘‘۔
ممتاز برطانوی قانون دان سر ولیم ویڈ نے لکھا: ’’ایک قانون ایسا ضرور ہے، جو پارلیمنٹ سے بھی بالاتر ہے، اور اس قانون کی حفاظت عدالت ہی کے ذمے ہوتی ہے، جسے پارلیمنٹ کا کوئی قانون نہیں چھین سکتا‘‘ (کرنٹ لا جنرل، ۱۹۵۵ء، ص ۱۷۲، بحوالہ خرم مراد، پاکستان کے قومی مسائل، ص ۱۷۹)۔ اور جسٹس سرجان لاز کے بقول: ’’جمہوریت کی بقا کا تقاضا ہے کہ جو سیاسی جمہوری اختیارات استعمال کرتے ہیں، وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں… ہرآمرِ مطلق حکمران یہ کہتا ہے کہ میرا ہر لفظ قانون ہے، اور پھر اگر ایک منتخب ادارہ پارلیمنٹ بھی یہ دعویٰ کرنے لگے تو وہ کیوں آمرِمطلق نہیں کہلائے گی؟ اس لیے لازم ہے کہ دستور کی بنیادیں حکومت کی تحویل میں نہ ہوں، اور کوئی حکومت اپنی اکثریت سے ان کو تباہ نہ کرسکے، اور وہ عدالت کی تحویل میں ہوں۔ قانون کی حکمرانی کے لیے یہ ناگزیر ہے‘‘۔ (پبلک لا جنرل، ۱۹۹۵ء، ص۸۱-۸۵، بحوالہ ایضاً)
جب ہم ۲۶ویں ترمیم کو دیکھتے ہیں تو یہی نظر آتا ہے کہ اقتدار اور اختیار کی ہوس میں اندھے حکمران، عدل و انصاف کو بالکل اسی طرح اپنا تابع فرمان دیکھنا چاہتے ہیں، جس طرح عام ملازمینِ ریاست کے بارے میں وہ سوچتے ہیں۔ ولیم بلیک سٹون نے کمنٹریز آن لاز آف انگلینڈ (شکاگو یونی ورسٹی) میں برلیگ کا قول درج کیا ہے: ’’انگلستان کسی کے ہاتھوں برباد نہیں ہوسکتا، مگر پارلیمنٹ کے ذریعے‘‘۔ کیا واقعی ہماری پارلیمنٹ قوم، تہذیب اور عمرانی معاہدہ تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے؟ حالانکہ خود اس اسمبلی کی انتخابی شفافیت حدد رجہ مشکوک ہے!