نومبر ۲۰۲۴

فہرست مضامین

ٹکنالوجی، انٹرنیٹ اور بچوں کی تربیت

| نومبر ۲۰۲۴ | تعلیم و تربیت

Responsive image Responsive image

ڈیجیٹل ٹکنالوجی نے انسان کی کایاپلٹ کررکھ دی ہے۔اب ٹکنالوجی کے بغیر زندگی کا کوئی تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔پہلے والی حالت یادور میں واپس جانا تقریباً ناممکن ہے۔اس ٹکنالوجی نے مادی اور روحانی لحاظ سے جو نقصان پہنچایا ہے، وہ تو ظاہر وباہر ہے، اس لیے ہمیں ٹکنالوجی کے خطرات سے باخبر وہوشیار رہنا چاہیے۔ایک تحقیقی رپورٹ جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے اس کے مطابق اسکرین ٹائم(وہ وقت جوٹی وی یاکمپیوٹر یاموبائل دیکھنے میں گزاراجاتاہے)دماغ کی نشوونما کے لیے زہرِ قاتل کا کام کرتاہے۔

ایک معتبر جریدہ The Lancet Child & Adolescent Health کی رپورٹ یہ بتاتی ہے: ’’جو لوگ دن بھرمیں دو گھنٹے سے بھی کم ٹی وی،کمپیوٹر، انٹرنیٹ یاموبائل کے ربط میں رہتے ہیں، اُن کی ذہنی و شعوری حالت ان لوگوں کے مقابلے بہتر پائی گئی ہے، جو دن بھر ان آلات سے کھیلتے رہتے ہیں‘‘۔مگر اس کا کیا کیاجائے کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں، جہاں ٹکنالوجی سماجی رابطے کی ایک ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔اس کونہ چھونے یا ہاتھ نہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک کوزے میں بندہوجانا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے محتاط استعمال کی حکمت عملی بنانا پڑے گی۔یہ مشکل کام توہے، لیکن ہمیں یہ کرناہوگا اور بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ ان آلات کو بہ قدرضرورت ہی استعمال کریں، تاکہ ان کے خطرات کا زیادہ شکار نہ ہوں۔

  • نوجوانوں میں ٹکنالوجی کا استعمال:آج حالت یہ ہے کہ کوئی گھرایساباقی نہیں بچاہے جہاں ٹی وی نہ ہو۔سوشل میڈیانے ہرنوجوان کو اپنے حصار میں جکڑلیاہے۔ ’پیو ریسرچ سنٹر‘ (PEW) کے ایک سروے کے مطابق ۹۷ فی صد امریکی نوجوان انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں،اور اس پر روزانہ پیغامات کا تبادلہ ہوتاہے، جب کہ ۷۹فی صد سوشل میڈیاپر اپناپروفائل رکھتے ہیں۔۸۵فی صد نوجوان یوٹیوب استعمال کرتے ہیں۔ ۸۴فی صد انسٹاگرام، ۸۰ فی صد سنیپ چیٹ، ۷۰ فی صد ’ٹک ٹاک‘ ۵۱ فی صد فیس بک،۳۲فی صد ٹویٹر /  ایکس، ۹ فی صد ٹمبراور ۷ فی صد ریڈٹ استعمال کرتے ہیں۔ ویڈیو گیمز کا بے انتہا استعمال اس پر مستزاد ہے۔

۲۰۲۴ء کے دوران پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کا رجحان اس طرح ہے: ٹویٹر ایکس ۱ء۷۶ فی صد، انسٹاگرام ۵ء۳۸ فی صد، سنیپ چیٹ ۱۱ء۷۶ فی صد، وٹس ایپ ۲۰ء۴۸ فی صد، فیس بُک ۵۶ء۰۳ فی صد (بحوالہ بینڈ وڈتھ)

ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ جو بچّے، بچپن سے ہی اس کے عادی ہوجاتے ہیں، ان کے دماغ کی نشوونما بُری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔ معاشرتی رشتوں پر اس کے منفی اثرات تو ہرکسی کے علم میں ہیں۔ اگر کوئی بچہ سوشل میڈیاپر مصروف ہے اور اس کے ذریعے دوست واحباب رابطے میں ہیں۔ اس وقت گھر کے کسی بڑے خواہ وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں، کسی ضرورت کے لیے انھیں آواز دیں تو انھیں سخت ناگوار گزرتاہے۔بعض اوقات اُلٹا سیدھا جواب بھی دے دیتے ہیں۔ عام طورپر اس پر گندی اور فحش چیزیں ہی دیکھی اور دکھائی جاتی ہیں اور باربار دیکھی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب انٹرنیٹ کے ذریعے بدتہذیبی وفحاشی پھیلائی جائے گی، توبچوں کادماغ اس سے لازماً متاثر ہوگا۔

  • انٹرنیٹ کے استعمال کا غیرمعمولی رجحان:یوں توفرزندپروری کبھی اور کسی بھی زمانے میں کوئی آسان کام نہیں رہاہے، مگر آج یہ جتنا مشکل اور کٹھن بن گیاہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ ’پیوریسرچ سنٹر‘ ہی کی ایک اور رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ’’۶۵فی صد والدین کے مطابق: ’’فرزندپروری آج جتنا مشکل اور کٹھن کام بن گیاہے، ۲۰ سال پہلے یہ حالت نہیں تھی‘‘۔ان سب کی تشویش ایک جیسی ہے کہ جب دیکھو ان کے بچے اسکرین پر آنکھیں گاڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ممکن ہے فرزندپروری کے مشکل ہوجانے کے اور بھی اسباب ہوں، مثلاًمعاشی دشواریاں یاتنگی ہوسکتی ہے، لیکن ان میں سوشل میڈیاسب سے اہم سبب ہے۔ ہمیں یہ قطعی طورپر معلوم ہوناچاہیے کہ ۹۵ فی صد بچے ان آلات پر انٹرنیٹ کے ذریعے کیا کرتے رہتے ہیں؟یہ توسب کے علم میں ہے کہ ۹۹ فی صد نوجوان انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں لیکن ’پیوریسرچ سنٹر‘ کے مطابق اس میں تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ امریکا کا ہرنوجوان روزانہ تقریباً ساڑھے سات گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتاہے۔ یہ ۲۰۱۹ء میں کیفیت تھی۔ اعدادوشمار کے مطابق ’یوٹیوب‘ سوشل میڈیا کاسب سے زیادہ مقبول ایپ ہے۔ اب ’ٹک ٹاک‘ کی مقبولیت میں بھی تیزرفتار اضافہ درج کیاجارہاہے۔

اس صدی سے پہلے غلط حرکت پر بچّے شرمندگی محسوس کرتے تھےاور جو کچھ کیا ہوتا اس کو بھول جاتے تھے، مگر اس صدی نے یہ تحفہ دیاہے کہ شرمندگی کے آثار کو محفوظ کرلیاجاتاہے اور وہ بھی انٹرنیٹ پر۔اپنے بچوں کو یہ بھی بتاناچاہیے کہ سوشل میڈیاکیسی کیسی سنگین حرکتوں کی ترغیب دیتاہے اور سنگین جرائم کے ارتکاب کے راستے دکھاتاہے۔جن میں سائبر کرائم، اجنبی احباب کا غلبہ اور انتہاپسندی شامل ہے۔تاہم، یہ خیال رکھیں کہ بچوں کے ساتھ گفتگو اس طرح کی جائے کہ اُلٹااثر نہ ہوبلکہ وہ ہماری باتیں دھیان سے سنیں اور انھیں یہ محسوس ہوکہ درست بات کہی جارہی ہے۔ وہ اپنی اصلاح کریں۔اگر ایسانہ ہوتوپھر سوشل میڈیا کے استعمال پر نظررکھی جائے اور اس کا استعمال محدود کیاجائے۔

  • ٹکنالوجی کے مثبت  پہلو:ڈیجیٹل انقلاب نے عالمِ انسانیت پر جواثرات مرتب کیے ہیں، وہ سارے کے سارے منفی نہیں ہیں بلکہ اس کے فائدے بھی ہیں۔ مثال کے طورپر فاصلے کم ہوئے ہیں، جن کا پہلے انسان تصور بھی نہیں کرسکتاتھا۔ اس وجہ سے اجتماعی رابطوں میں سہولت اور چیزوں تک رسائی بہت آسان ہوگئی ہے،خاص طورپر تعلیم کے میدان میں کل جن چیزوں کا حصول محال تھا، آج ممکن اور آسان بھی ہوگیاہے۔درس وتدریس کے بے شمار ذرائع پیداہوگئے ہیں۔اب پہلے جیسی محتاجی نہیں رہ گئی ہے۔

انٹرنیٹ کے آجانے سے معاشی سرگرمیاں بھی پھیل گئی ہیں،اور مواقع بھی بڑھ گئے ہیں۔ ’کووڈ۱۹‘ کے زمانے میں جب آفس کا وجود اپنی اہمیت وضرورت کھوچکاتھا، ’زوم میٹنگز‘ اور اس قسم کی دوسری تدبیروں کے توسط سے لوگ گھر بیٹھے ہی دفتری کام انجام دے لیتے تھے۔ یوں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور تعلیم وتدریس کا عمل بھی اس کے ذریعے جاری وساری ہوگیا تھا۔ اس ڈیجیٹل انقلاب کے سبب خاص طورپر صحت کے شعبے میں مریضوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ نہ صرف آسان ہوگیابلکہ اس کے دائرۂ کار میں بھی وسعت آگئی اورسماجی رابطہ بھی آسان ہوگیاہے۔ قانون کے نفاذ میں آسانیاں پیدا ہوئیں،جرائم کی روک تھام اور مجرموں کی گرفتاری میں بھی بڑی سہولتیں پیداہوگئیں۔یہ توچند اچھائیاں ہیں تمام فائدوں کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ہے۔

  • ٹکنالوجی کی خرابیاں یا منفی اثرات:ٹکنالوجی کے منفی اثرات اور سماجی و تہذیبی نقصانات بہت واضح اور نمایاں ہیں، جو روز بہ روز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ جن لوگوں کو اس کے زبردست نقصانات پہنچے ہیں، ان میں والدین بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ آج کے بچوں کا اپنے والدین،اساتذہ، بزرگوں کے ساتھ جورویہ ہے، وہ معمول سے ہٹ کرہے۔ اب ان میں رنجشیں اورکش مکش کی نوبت بھی آگئی ہے۔ نئی نسل روایتی قدروںکو تقریباًبھلاتی چلی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ نے والدین اور بزرگوں کو مضحکہ خیز وجود بناکر رکھ دیا ہے۔ تہذیب، آداب معاشرت، اخلاقی اقدار  فراموش ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ انٹرنیٹ پر نوعمروں کی بددیانتی کے ساتھ خوفناک ظلم کے آثار بھی نمایاں ہورہے ہیں، جوماہرین عمرانیات کو حیران کررہے ہیں۔ آن لائن تعامل صرف سماجی تعامل کا ایک پہلو فراہم کرتاہے کیوں کہ انسانی نفسیات ہم سے ان لوگوں کی آوازیں سننے کا تقاضا کرتی ہے جن کے ساتھ ہم بات چیت کرتے ہیں، اور ان کے چہروں سے حقیقی معنوں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں،تاکہ ان سے حسی سطح پر بات کو سمجھ سمجھا سکیں۔نوجوان ترقی کرنے میں اس لیے ناکام رہتے ہیں کیوں کہ الگورتھم (ژم) انھیں سوشل میڈیا کے بلبلوں میں جکڑے رکھتاہے، جہاں ان کے خیالات کو کبھی چیلنج نہیں کیاجاتا۔

یاد رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ نوجوانوں کے فرصت کے اوقات کو ہڑپ کرلیتاہے،جب کہ ان کا وہ وقت دوسرے مفید کاموں میںصرف ہوسکتاتھا، جیسے کوئی ہنر سیکھنا یا کوئی صلاحیت پیداکرنا۔ مگر اس کاعادی بننے کے بعد بچوں کا اس سے نکلنا محال ہوجاتاہے بلکہ وہ اندھیرے غار کی طرف بڑھتے بلکہ کھنچتے ہی چلے جاتے ہیں۔اگر ان بچوں کو روکا نہیں گیاتو یہ لت انھیں عام ویڈیوگیمز سے   پُرتشدد ویڈیوز، گندے عریانیت اور سیاسی دہشت گردی جیسے ویڈیو دیکھنے کا عادی بنادے گی۔ انٹرنیٹ کے ذریعے فکری، مذہبی اور الحادی گمراہی بھی پھیلائی جارہی ہے۔اس کی وجہ سے بچوں میں سوچنے سمجھنے،پرکھنے، سچ اور جھوٹ میں تمیز کا ملکہ ہی ختم ہوتا جا رہاہے۔اعصابی امراض کے ماہرین کی تحقیق سے یہ پتہ چلاہے کہ مجازی زندگی یاد داشت کومتاثر کر رہی ہے اورقوتِ فیصلہ پر اثرانداز ہورہی ہے۔اسی طرح یکسوئی پر خراب اثرڈال رہی ہے اور نیند میں بھی خلل واقع ہورہا ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کے ساتھ یہ سب ظلم ہوتاہوادیکھ کر آرام سے بیٹھے رہ سکتے ہیں؟

  • حل:اوپر ٹکنالوجی کے جو فائدے اور نقصانات بیان کیے گئے ہیں، ان کے پیش نظر ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ ٹکنالوجی ایک چھری، ہتھوڑے یا اسی قسم کی شئے کی مانند ہے، جس سے فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے اور نقصان بھی۔ مگر اسے سود مند بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مضر پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے، بُرے مقصدیا نقصان پہنچانے کے لیے اسے استعمال نہ کیاجائے۔ہمیں اللہ تعالیٰ کا خوف بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم نے اس کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیاتویادرکھیں کہ ایک دن ہمیں اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اس کا جواب دیناپڑے گا۔ ہمیں یہ بتاناہوگاکہ ہم نے اپنا وقت کہاں صرف کیا؟اسے کس طرح استعمال کیا؟ ہمیں یہ زندگی یونہی کھیل ٹھٹھوں میں گزارنے اور بے مقصد اور غیر مفید اطلاعات کی ترسیل کے لیے نہیں دی گئی ہے۔ہمیں بہ حیثیت والدین اپنے بچوں پر بھروسا رکھنا چاہیے کہ وہ اس موقعے کو جو زندگی کی صورت میں انھیں ملاہے، ڈیجیٹل ترغیبات کی نذرنہیں کریں گے۔ پھر ہمیں ٹکنالوجی کے غیر مفید استعمال سے انھیں محفوظ رکھنے کی ٹھوس تدبیریں کرنی چاہییں۔ بغیر اجازت ان آلات کے استعمال کا پابند بناناچاہیے اور اس بندش کی حکمت بھی انھیں بتانی چاہیے۔

ہمیں خود بھی اسکرین سے روبروہونے سے احتیاط کرنی چاہیے، اسی صورت میں ہم انھیں اس سے روک سکتے ہیں۔ گھر کے اندر بچے اس کا محدود استعمال کریں۔انھیں اس کا پابند بنانے کے لیے خود بھی اس کی پابندی ضروری ہے۔چھپ کر اس کے استعمال پر تولازماًقدغن ہونی چاہیے۔ ہمیں بچوں کی اخلاقی حالت کا خاص طورپر خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ مارٹنگ پریتھس نے تحقیق کے بعد پایاکہ ہر پانچ میں سے ایک اسکول کا طالب علم عریاں اور فحش تصاویر اور ویڈیو دیکھتاہے اور وہ تصاویر لیک کردی جاتی ہیں،ان کے دوستوں تک پہنچ جاتی ہیں، اور یہ راز کھلتاہے توانھیں شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے۔ خواہشات کے ہاتھوں مجبورہوکر وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں۔ انھیں اس کا شعور ہی نہیں ہوپاتا کہ اس بے راہ روی کے کیا معاشرتی و اخلاقی مضمرات ہوں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سمجھانا چاہیے کہ وہ دوستوں کے بہکاوے میں آکر اس قسم کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں نہ کیاکریں۔ اس سے وہ اپنی وقعت بھی کھودیتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے اخلاق وکردار کو سنوارنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ان کے ذہنوں سے آوارگی وبے راہ روی کی طرف رغبت کے رجحان کو کھرچ کر نکالنا چاہیے۔

  • والدین کی شمولیت:ہمیں بڑے اورہوشیار بچوں پر سوچ سمجھ کر بندشیں عائد کرنی چاہییں۔انھیں سوشل میڈیا پر بلاروک ٹوک پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ای میل کے استعمال کی اجازت بھی بارہ سال کی عمر کے بچوں کو ملنی چاہیے۔اس عمر کے بچوں کو ای میل کے ذریعے پیغام رسانی کا ہنرآجاتا ہے۔ اس معاملے میں بھی دوباتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے: پہلی بات یہ کہ تنہائی میں اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس جگہ دیگر افراد کی موجودگی ہونی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ دھڑلے سے اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے بلکہ تدریج کا خیال رکھنا چاہیے۔سونے کے کمروں میں اور تنہائی کی حالت میں اس کے استعمال کا مطلب تباہی کو دعوت دیناہے۔

ہمیں حفاظتی تدابیر کے طورپر غیر ضروری بلکہ ناپسندیدہ سائٹس کو بلاک کردینا چاہیے جیسےCold Turkey برائے PC اور Block Siteبرائے موبائل فون اور بڑے بچوںکے لیے Keylogger استعمال کریں۔یہ آن لائن بآسانی مل سکتاہے۔اس کے ذریعے کمپیوٹر پر جو کچھ ٹائپ کرتے ہیں، پتہ چل جاتاہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوناچاہیے کہ ہم ان کی خلوت میں بے روک ٹوک جھانکنا شروع کردیں،یا وہ آن لائن جو کچھ کرتے ہیں، ان سے اس کے بارے میں چھان بین اور پوچھ گچھ شروع کردی جائے،بلکہ جب آپ کو شک ہوجائے تواس کو چیک کرسکتے ہیں۔ Keyloggerکا فائدہ یہ ہے کہ جو کچھ ٹائپ کیاجاتاہے، وہ ریکارڈ ہوجاتاہے۔اب اگر بھیجے گئے یا ٹائپ کیے گئے میسجDeleteبھی کردیے جائیں، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اس صورت میں ریکارڈ ضائع نہیںہوتا۔ شریر اوراجنبی بچے آن لائن منسلک ہوکر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور فحش باتیں بے خوفی کے ساتھ کہہ ڈالتے ہیں۔ عام طورپر آن لائن گیمز میں ایسا ہوتا ہے کہ جہاں بچے ایک دوسرے سے ناواقف ہوتے ہیں اور بڑے مزے سے ایک دوسرے سے منسلک ہوجاتے ہیں اور اس طرح کی جوبھی بات چیت ہوتی ہے وہ خرافات بلکہ بے حیا باتیں ہی ہوتی ہیں۔ اس لیےVoice Chatوالے گیمز کو بندہی کردینا چاہیے۔

سوشل میڈیاتک بچوں کی رسائی کا مطلب یہ ہوتاہے کہ انھیں اخلاق کے ’شکاریوں‘ کے لیے لقمۂ تر بننے دیاجائے اور خود پسندی برخود غلط سیلفی کلچر کو فروغ دیاجائے۔ہمیں بچوں کو یہ بتانا چاہیے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرنے کا سلسلہ کتنا دُورتک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں غلط اور جھوٹ کو سچ بناکر اس طرح دکھایا جاتاہے کہ دونوں میں تمیز کرنا مشکل ہوجاتاہے۔انٹرنیٹ میں مشغول رہنا ایک فضول کام ہے، جس سے پڑھائی لکھائی کی طرف سے دھیان ہٹتاہے، یادداشت متاثر ہوتی ہے اور انسان اپنے مقصد، ہدف اور منزل سے دُورہوجاتاہے۔

  • انٹرنیٹ کے خطرات:انٹرنیٹ جو سب سے نمایاں خطرناک چیز پیش کرتاہے، وہ اللہ کی طرف سے ہمیں دیے گئے ہربابرکت لمحے کو ضائع کرنے کی خطرناک صلاحیت ہے۔ بچے جو کبھی بیٹھ کر دماغ کو جِلابخشنے والی کتابیں پڑھتے تھے یا اعلیٰ تعلیم کی تیاری کرتے تھے، اب وہ اپنا وقت بے ہودہ چیزوں کو اسکرول کرنے میں صرف کرتے ہیں۔یہ فطری طورپر ان کے تعلیمی گریڈز پر  منفی اثرات مرتب کرتاہے۔

انٹرنیٹ گندگی سے اس قدر پُر ہے کہ ناقابلِ بیان ہے۔ میں اس کے بارے میں لکھتے ہوئے کانپتاہوں۔عریانی وفحاشی خاص طورپر دماغ کو منتشر کرنے کا موجب بنتی ہے، اور جنسِ مخالف کے ساتھ قربت بڑھانے کی شدید خواہش پیدا کرتی ہے۔اگر ہمارے بچے اس لعنت سے محفوظ نہ ہوں توہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ آن لائن انتہا پسندوں سے دماغ کی ایک خوفناک جنگ بھی ہوسکتی ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یاغیر مسلم۔یہ نہ بھولیں کہ شمیمہ بیگم اور اس کے دوستوں نے آن لائن پڑھنے کے بعد داعش میں شامل ہونے کے لیے طویل سفر کیاتھا۔اسی طرح کرائسٹ چرچ مسجد میں گولیاں چلانے والے شخص کو سائٹ پر ہی بنیاد پرست بنایاگیا تھا۔ اس نوعیت کے مجازی استادوں بلکہ بھیڑیوں سے بچوں کو بچانا اشد ضروری ہے۔

  • نوعمروں میں انٹرنیٹ کی لت:بتایا جاتاہے کہ امریکی نوعمر بچے اوسطاً اپنی قیمتی زندگی کے نوگھنٹے روزانہ انٹرنیٹ کی نذر کردیتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کا تعلیمی کیریر بھی متاثر ہوتاہے اور معاشرتی رشتوں پر بھی بہت گہرامنفی اثرپڑتاہے۔بعض بچےیہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ہمارا اس قدر انحصار ہوگیاہے کہ اس سے باہر کی زندگی کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیںرہتا،اور جب کبھی ایسے بچے اپنی اس خوش نما جنت سے باہر آتے ہیں تو بے چین وبے قرار ہوجاتے ہیں، بلکہ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔اس لت نے بے شمار مسائل پیداکردیے ہیں۔ ان میں ایک مسئلہ دوستوں کے ساتھ ہمہ وقت چیٹنگ میں مصروف رہناہے۔آن لائن کھیل کا کیڑابن جانا، یہاں تک کہ ایک اور خطرناک صورت سائبر سیکس کی بھی پیداہوگئی ہے، جو انتہائی پریشان کن صورت حال ہے۔
  • انٹرنیٹ کی لت میں مبتلا ہونے کی علامتیں:لزا ڈیوس نے انٹرنیٹ کی لت میں مبتلاہونے کی علامتیں بتائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ والدین کو انھیں ملحوظ رکھناچاہیے۔ اس نے درج ذیل امور کی نشان دہی کی ہے: mہرحال میں اس سے چپکے رہنا m  اس سے دور رہنے یا بقدر ضرورت استعمال کرنے کا کہنے پر مشتعل ہوجانا mلوگوں کے ساتھ شخصی طورپر گھلنے ملنے سے احتراز کرنا m  تھکاوٹ/نیند کی کمی  mآن لائن وقت گزارنے کے نظام الاوقات کی پابندی نہ کرنا mتعلیمی دشواریاں mبے ہنگم حلیہ بنائے رکھنا۔

ان اُمور کا خیال رکھنے کے علاوہ ہمیں انوبھوتی کایہ مشورہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ کے بے تحاشا استعمال کے نتیجے میں نوعمروں کی روزمرہ کی اصلی زندگی میں طرح طرح کے خلل واقع ہوجاتے ہیںکہ جب اس پر گیم کھیلنا،جواکھیلنا، عریاں وفحش ویڈیو دیکھنا، سوشل میڈیایا بلاگنگ جیسے امور انجام دیے جائیں۔

  • علاج:اس سلسلے میں سب سے پہلاکام تووالدین کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اس مسئلے پر بچوں کے ساتھ بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ بغیر کسی تکلف کے بات کریں اور مسئلے کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کے سامنے یہ بات رکھیں کہ یہ کوئی درست اور معقول اندازِ فکر اور طرزِعمل نہیں ہے اور یہ خود ان کے لیے نقصان دہ ہے۔آج اگر بھلے اس نقصان کاانھیں اندازہ نہ ہو، لیکن بعد میں پچھتانا پڑے گا۔اس لیے بہتر ہے کہ وہ ابھی سمجھ جائیں۔اس کے بجائے اگر ہم نے ان سے یہ مشینی آلات اور ساز وسامان چھین لیا تو ان میں والدین کے حوالے سے ایک چڑ پیداہوجائے گی جو نافرمانی پر بھی منتج ہوسکتی ہے۔اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ ان کے ساتھ بات چیت کرکے خود ان کی مرضی سے کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ جس کی وہ بخوشی پابندی کریں اور انٹرنیٹ کے استعمال کی ایک معقول صورت نکل آئے۔

واضح رہے کہ انٹرنیٹ بھی افیم کی مانند ایک قسم کا نشہ ہے، جو ایک بار چڑھ جائے تواس کا اُترنا نہایت مشکل ہوجاتاہے۔اس لیے ہمیں ضبط وتحمل سے کام لیتے ہوئے بچوں کو اس بری لت سے نکالنا پڑے گا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک ڈاکٹر اپنے مریض کے ساتھ پیش آتاہے۔یہ بھی خیال رہے کہ بچوں کو نہ ان کے حال پر چھوڑدینا ٹھیک ہے اور نہ اس سے چھٹکارا دلانے کے بعد ان سے لاپروا ہوجانا چاہیے، بلکہ انھیں اس کا متبادل فراہم کرناچاہیے۔ان کی اخلاقی تربیت اور اسلام کی اچھی اچھی باتیں اور خوبیاں بتانا نہایت ضروری ہے، اور وہ بھی اس طرح کہ ان کو بھی وہ خوش نما لگیں اور ان میں شوق وذوق پیداہو۔ انھیں یہ احساس ہوجائے کہ انٹرنیٹ پر وقت صرف کرنا بے مصرف، فضول اور بے فائدہ عمل ہے۔جس سے انسان اپنے مقصدِ زندگی سے دور ہوجاتاہے۔

  • فیملی میٹنگز میں ٹکنالوجی پر گفتگو و مذاکرہ: فیملی میٹنگ (اجتماع اسریٰ) میں اس مسئلے پر مذاکرہ ہوناچاہیے کہ بچوں کو انٹرنیٹ کی کس حدتک اجازت دینی چاہیے؟ نیز اس کے نظام الاوقات بھی طے کیے جانے چاہییں، جس پر سختی سے عمل کیا جائے۔ اگر والدین سمارٹ فون پہ لگے رہیں اور بچوں سے یہ توقع رکھیں کہ وہ اس طرح کے آلات اور ساز وسامان سے دُور رہیں گے اور ٹکنالوجی کے استعمال کے خلاف ہوں گے،ہرگزممکن نہیں ہے۔ انھیں خود اپنے رجحان کو منضبط کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی والدین کو چاہیے کہ ذرا ذرا سی بات پر بے چین نہ ہوجایاکریں، نہ ان کے رویے سے بچوں کو ایسامحسوس ہوکہ وہ ان کا مذاق اُڑارہے ہیں۔

شام کے وقت ان آلات کو لازماً بند کردیں۔LED اسکرین سے نیند میں خلل واقع ہوتا ہے، نیز اس سے سونے کے وقت کے امور کی انجام دہی میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔ویڈیو گیم دیکھنے کی اجازت دیتے وقت بھی اس کا خیال رکھا جائے کہ بچے ایسی گیم دیکھیں جو معلوماتی ہوں، جن سے ان کو فائدہ پہنچے۔ماردھاڑ والی یا غیر اخلاقی گیم دیکھنے سے پرہیز کیاجائے، کیوں کہ اس سے بچوں میں جنگجوئیت اور جارحانہ سوچ پیداہوتی ہے۔وہ اسکرین میں جس قسم کا طوفانِ بدتمیزی دیکھتے ہیں، اس کی نقل اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔البتہ اس قسم کی بندشوں کو اوپر سے تھوپنے یامسلط کرنے کی کوشش ہرگزنہ کی جائے، بلکہ ہرایک کی رضاکارانہ مرضی سے ان کو نافذ کیاجائے اور اس پر ہرایک کا اطمینان ہوناچاہیے کہ ضرورت سے زیادہ برقی آلات اور سازوسامان کا استعمال کسی کے لیے بھی مفید نہیں ہے۔اس سے مقصدِ زندگی نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے اور صحت اور زندگی برباد ہوجاتی ہے۔(زیرطبع کتاب کا ایک باب)