ڈیجیٹل ٹکنالوجی نے انسان کی کایاپلٹ کررکھ دی ہے۔اب ٹکنالوجی کے بغیر زندگی کا کوئی تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔پہلے والی حالت یادور میں واپس جانا تقریباً ناممکن ہے۔اس ٹکنالوجی نے مادی اور روحانی لحاظ سے جو نقصان پہنچایا ہے، وہ تو ظاہر وباہر ہے، اس لیے ہمیں ٹکنالوجی کے خطرات سے باخبر وہوشیار رہنا چاہیے۔ایک تحقیقی رپورٹ جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے اس کے مطابق اسکرین ٹائم(وہ وقت جوٹی وی یاکمپیوٹر یاموبائل دیکھنے میں گزاراجاتاہے)دماغ کی نشوونما کے لیے زہرِ قاتل کا کام کرتاہے۔
ایک معتبر جریدہ The Lancet Child & Adolescent Health کی رپورٹ یہ بتاتی ہے: ’’جو لوگ دن بھرمیں دو گھنٹے سے بھی کم ٹی وی،کمپیوٹر، انٹرنیٹ یاموبائل کے ربط میں رہتے ہیں، اُن کی ذہنی و شعوری حالت ان لوگوں کے مقابلے بہتر پائی گئی ہے، جو دن بھر ان آلات سے کھیلتے رہتے ہیں‘‘۔مگر اس کا کیا کیاجائے کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں، جہاں ٹکنالوجی سماجی رابطے کی ایک ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔اس کونہ چھونے یا ہاتھ نہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک کوزے میں بندہوجانا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے محتاط استعمال کی حکمت عملی بنانا پڑے گی۔یہ مشکل کام توہے، لیکن ہمیں یہ کرناہوگا اور بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ ان آلات کو بہ قدرضرورت ہی استعمال کریں، تاکہ ان کے خطرات کا زیادہ شکار نہ ہوں۔
۲۰۲۴ء کے دوران پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کا رجحان اس طرح ہے: ٹویٹر ایکس ۱ء۷۶ فی صد، انسٹاگرام ۵ء۳۸ فی صد، سنیپ چیٹ ۱۱ء۷۶ فی صد، وٹس ایپ ۲۰ء۴۸ فی صد، فیس بُک ۵۶ء۰۳ فی صد (بحوالہ بینڈ وڈتھ)
ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ جو بچّے، بچپن سے ہی اس کے عادی ہوجاتے ہیں، ان کے دماغ کی نشوونما بُری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔ معاشرتی رشتوں پر اس کے منفی اثرات تو ہرکسی کے علم میں ہیں۔ اگر کوئی بچہ سوشل میڈیاپر مصروف ہے اور اس کے ذریعے دوست واحباب رابطے میں ہیں۔ اس وقت گھر کے کسی بڑے خواہ وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں، کسی ضرورت کے لیے انھیں آواز دیں تو انھیں سخت ناگوار گزرتاہے۔بعض اوقات اُلٹا سیدھا جواب بھی دے دیتے ہیں۔ عام طورپر اس پر گندی اور فحش چیزیں ہی دیکھی اور دکھائی جاتی ہیں اور باربار دیکھی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب انٹرنیٹ کے ذریعے بدتہذیبی وفحاشی پھیلائی جائے گی، توبچوں کادماغ اس سے لازماً متاثر ہوگا۔
اس صدی سے پہلے غلط حرکت پر بچّے شرمندگی محسوس کرتے تھےاور جو کچھ کیا ہوتا اس کو بھول جاتے تھے، مگر اس صدی نے یہ تحفہ دیاہے کہ شرمندگی کے آثار کو محفوظ کرلیاجاتاہے اور وہ بھی انٹرنیٹ پر۔اپنے بچوں کو یہ بھی بتاناچاہیے کہ سوشل میڈیاکیسی کیسی سنگین حرکتوں کی ترغیب دیتاہے اور سنگین جرائم کے ارتکاب کے راستے دکھاتاہے۔جن میں سائبر کرائم، اجنبی احباب کا غلبہ اور انتہاپسندی شامل ہے۔تاہم، یہ خیال رکھیں کہ بچوں کے ساتھ گفتگو اس طرح کی جائے کہ اُلٹااثر نہ ہوبلکہ وہ ہماری باتیں دھیان سے سنیں اور انھیں یہ محسوس ہوکہ درست بات کہی جارہی ہے۔ وہ اپنی اصلاح کریں۔اگر ایسانہ ہوتوپھر سوشل میڈیا کے استعمال پر نظررکھی جائے اور اس کا استعمال محدود کیاجائے۔
انٹرنیٹ کے آجانے سے معاشی سرگرمیاں بھی پھیل گئی ہیں،اور مواقع بھی بڑھ گئے ہیں۔ ’کووڈ۱۹‘ کے زمانے میں جب آفس کا وجود اپنی اہمیت وضرورت کھوچکاتھا، ’زوم میٹنگز‘ اور اس قسم کی دوسری تدبیروں کے توسط سے لوگ گھر بیٹھے ہی دفتری کام انجام دے لیتے تھے۔ یوں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور تعلیم وتدریس کا عمل بھی اس کے ذریعے جاری وساری ہوگیا تھا۔ اس ڈیجیٹل انقلاب کے سبب خاص طورپر صحت کے شعبے میں مریضوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ نہ صرف آسان ہوگیابلکہ اس کے دائرۂ کار میں بھی وسعت آگئی اورسماجی رابطہ بھی آسان ہوگیاہے۔ قانون کے نفاذ میں آسانیاں پیدا ہوئیں،جرائم کی روک تھام اور مجرموں کی گرفتاری میں بھی بڑی سہولتیں پیداہوگئیں۔یہ توچند اچھائیاں ہیں تمام فائدوں کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ نوجوانوں کے فرصت کے اوقات کو ہڑپ کرلیتاہے،جب کہ ان کا وہ وقت دوسرے مفید کاموں میںصرف ہوسکتاتھا، جیسے کوئی ہنر سیکھنا یا کوئی صلاحیت پیداکرنا۔ مگر اس کاعادی بننے کے بعد بچوں کا اس سے نکلنا محال ہوجاتاہے بلکہ وہ اندھیرے غار کی طرف بڑھتے بلکہ کھنچتے ہی چلے جاتے ہیں۔اگر ان بچوں کو روکا نہیں گیاتو یہ لت انھیں عام ویڈیوگیمز سے پُرتشدد ویڈیوز، گندے عریانیت اور سیاسی دہشت گردی جیسے ویڈیو دیکھنے کا عادی بنادے گی۔ انٹرنیٹ کے ذریعے فکری، مذہبی اور الحادی گمراہی بھی پھیلائی جارہی ہے۔اس کی وجہ سے بچوں میں سوچنے سمجھنے،پرکھنے، سچ اور جھوٹ میں تمیز کا ملکہ ہی ختم ہوتا جا رہاہے۔اعصابی امراض کے ماہرین کی تحقیق سے یہ پتہ چلاہے کہ مجازی زندگی یاد داشت کومتاثر کر رہی ہے اورقوتِ فیصلہ پر اثرانداز ہورہی ہے۔اسی طرح یکسوئی پر خراب اثرڈال رہی ہے اور نیند میں بھی خلل واقع ہورہا ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کے ساتھ یہ سب ظلم ہوتاہوادیکھ کر آرام سے بیٹھے رہ سکتے ہیں؟
ہمیں خود بھی اسکرین سے روبروہونے سے احتیاط کرنی چاہیے، اسی صورت میں ہم انھیں اس سے روک سکتے ہیں۔ گھر کے اندر بچے اس کا محدود استعمال کریں۔انھیں اس کا پابند بنانے کے لیے خود بھی اس کی پابندی ضروری ہے۔چھپ کر اس کے استعمال پر تولازماًقدغن ہونی چاہیے۔ ہمیں بچوں کی اخلاقی حالت کا خاص طورپر خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ مارٹنگ پریتھس نے تحقیق کے بعد پایاکہ ہر پانچ میں سے ایک اسکول کا طالب علم عریاں اور فحش تصاویر اور ویڈیو دیکھتاہے اور وہ تصاویر لیک کردی جاتی ہیں،ان کے دوستوں تک پہنچ جاتی ہیں، اور یہ راز کھلتاہے توانھیں شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے۔ خواہشات کے ہاتھوں مجبورہوکر وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں۔ انھیں اس کا شعور ہی نہیں ہوپاتا کہ اس بے راہ روی کے کیا معاشرتی و اخلاقی مضمرات ہوں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سمجھانا چاہیے کہ وہ دوستوں کے بہکاوے میں آکر اس قسم کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں نہ کیاکریں۔ اس سے وہ اپنی وقعت بھی کھودیتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے اخلاق وکردار کو سنوارنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ان کے ذہنوں سے آوارگی وبے راہ روی کی طرف رغبت کے رجحان کو کھرچ کر نکالنا چاہیے۔
ہمیں حفاظتی تدابیر کے طورپر غیر ضروری بلکہ ناپسندیدہ سائٹس کو بلاک کردینا چاہیے جیسےCold Turkey برائے PC اور Block Siteبرائے موبائل فون اور بڑے بچوںکے لیے Keylogger استعمال کریں۔یہ آن لائن بآسانی مل سکتاہے۔اس کے ذریعے کمپیوٹر پر جو کچھ ٹائپ کرتے ہیں، پتہ چل جاتاہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوناچاہیے کہ ہم ان کی خلوت میں بے روک ٹوک جھانکنا شروع کردیں،یا وہ آن لائن جو کچھ کرتے ہیں، ان سے اس کے بارے میں چھان بین اور پوچھ گچھ شروع کردی جائے،بلکہ جب آپ کو شک ہوجائے تواس کو چیک کرسکتے ہیں۔ Keyloggerکا فائدہ یہ ہے کہ جو کچھ ٹائپ کیاجاتاہے، وہ ریکارڈ ہوجاتاہے۔اب اگر بھیجے گئے یا ٹائپ کیے گئے میسجDeleteبھی کردیے جائیں، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اس صورت میں ریکارڈ ضائع نہیںہوتا۔ شریر اوراجنبی بچے آن لائن منسلک ہوکر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور فحش باتیں بے خوفی کے ساتھ کہہ ڈالتے ہیں۔ عام طورپر آن لائن گیمز میں ایسا ہوتا ہے کہ جہاں بچے ایک دوسرے سے ناواقف ہوتے ہیں اور بڑے مزے سے ایک دوسرے سے منسلک ہوجاتے ہیں اور اس طرح کی جوبھی بات چیت ہوتی ہے وہ خرافات بلکہ بے حیا باتیں ہی ہوتی ہیں۔ اس لیےVoice Chatوالے گیمز کو بندہی کردینا چاہیے۔
سوشل میڈیاتک بچوں کی رسائی کا مطلب یہ ہوتاہے کہ انھیں اخلاق کے ’شکاریوں‘ کے لیے لقمۂ تر بننے دیاجائے اور خود پسندی برخود غلط سیلفی کلچر کو فروغ دیاجائے۔ہمیں بچوں کو یہ بتانا چاہیے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرنے کا سلسلہ کتنا دُورتک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں غلط اور جھوٹ کو سچ بناکر اس طرح دکھایا جاتاہے کہ دونوں میں تمیز کرنا مشکل ہوجاتاہے۔انٹرنیٹ میں مشغول رہنا ایک فضول کام ہے، جس سے پڑھائی لکھائی کی طرف سے دھیان ہٹتاہے، یادداشت متاثر ہوتی ہے اور انسان اپنے مقصد، ہدف اور منزل سے دُورہوجاتاہے۔
انٹرنیٹ گندگی سے اس قدر پُر ہے کہ ناقابلِ بیان ہے۔ میں اس کے بارے میں لکھتے ہوئے کانپتاہوں۔عریانی وفحاشی خاص طورپر دماغ کو منتشر کرنے کا موجب بنتی ہے، اور جنسِ مخالف کے ساتھ قربت بڑھانے کی شدید خواہش پیدا کرتی ہے۔اگر ہمارے بچے اس لعنت سے محفوظ نہ ہوں توہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ آن لائن انتہا پسندوں سے دماغ کی ایک خوفناک جنگ بھی ہوسکتی ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یاغیر مسلم۔یہ نہ بھولیں کہ شمیمہ بیگم اور اس کے دوستوں نے آن لائن پڑھنے کے بعد داعش میں شامل ہونے کے لیے طویل سفر کیاتھا۔اسی طرح کرائسٹ چرچ مسجد میں گولیاں چلانے والے شخص کو سائٹ پر ہی بنیاد پرست بنایاگیا تھا۔ اس نوعیت کے مجازی استادوں بلکہ بھیڑیوں سے بچوں کو بچانا اشد ضروری ہے۔
ان اُمور کا خیال رکھنے کے علاوہ ہمیں انوبھوتی کایہ مشورہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ کے بے تحاشا استعمال کے نتیجے میں نوعمروں کی روزمرہ کی اصلی زندگی میں طرح طرح کے خلل واقع ہوجاتے ہیںکہ جب اس پر گیم کھیلنا،جواکھیلنا، عریاں وفحش ویڈیو دیکھنا، سوشل میڈیایا بلاگنگ جیسے امور انجام دیے جائیں۔
واضح رہے کہ انٹرنیٹ بھی افیم کی مانند ایک قسم کا نشہ ہے، جو ایک بار چڑھ جائے تواس کا اُترنا نہایت مشکل ہوجاتاہے۔اس لیے ہمیں ضبط وتحمل سے کام لیتے ہوئے بچوں کو اس بری لت سے نکالنا پڑے گا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک ڈاکٹر اپنے مریض کے ساتھ پیش آتاہے۔یہ بھی خیال رہے کہ بچوں کو نہ ان کے حال پر چھوڑدینا ٹھیک ہے اور نہ اس سے چھٹکارا دلانے کے بعد ان سے لاپروا ہوجانا چاہیے، بلکہ انھیں اس کا متبادل فراہم کرناچاہیے۔ان کی اخلاقی تربیت اور اسلام کی اچھی اچھی باتیں اور خوبیاں بتانا نہایت ضروری ہے، اور وہ بھی اس طرح کہ ان کو بھی وہ خوش نما لگیں اور ان میں شوق وذوق پیداہو۔ انھیں یہ احساس ہوجائے کہ انٹرنیٹ پر وقت صرف کرنا بے مصرف، فضول اور بے فائدہ عمل ہے۔جس سے انسان اپنے مقصدِ زندگی سے دور ہوجاتاہے۔
شام کے وقت ان آلات کو لازماً بند کردیں۔LED اسکرین سے نیند میں خلل واقع ہوتا ہے، نیز اس سے سونے کے وقت کے امور کی انجام دہی میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔ویڈیو گیم دیکھنے کی اجازت دیتے وقت بھی اس کا خیال رکھا جائے کہ بچے ایسی گیم دیکھیں جو معلوماتی ہوں، جن سے ان کو فائدہ پہنچے۔ماردھاڑ والی یا غیر اخلاقی گیم دیکھنے سے پرہیز کیاجائے، کیوں کہ اس سے بچوں میں جنگجوئیت اور جارحانہ سوچ پیداہوتی ہے۔وہ اسکرین میں جس قسم کا طوفانِ بدتمیزی دیکھتے ہیں، اس کی نقل اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔البتہ اس قسم کی بندشوں کو اوپر سے تھوپنے یامسلط کرنے کی کوشش ہرگزنہ کی جائے، بلکہ ہرایک کی رضاکارانہ مرضی سے ان کو نافذ کیاجائے اور اس پر ہرایک کا اطمینان ہوناچاہیے کہ ضرورت سے زیادہ برقی آلات اور سازوسامان کا استعمال کسی کے لیے بھی مفید نہیں ہے۔اس سے مقصدِ زندگی نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے اور صحت اور زندگی برباد ہوجاتی ہے۔(زیرطبع کتاب کا ایک باب)