دینِ اسلام اپنے بندوں کے اندر جو مزاج پیدا کرتا ہے، اس میں مصنوعی پن یا تصنع نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس مزاج کے تحت ایک بندہ جب بھی کہتا ہے، یا لکھتا ہے، تو حق کی ہی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کی ہر بات قولِ سدید ہوتی ہے۔ لیکن جو چیز آج ہمارے گردوپیش میں پیدا ہوگئی ہے، اس میں ایک بڑی اخلاقی خرابی خوشامد اور چاپلوسی ہے۔ سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں، وہیں اس کے ذریعے بہت سی اخلاقی خرابیاں بھی پیدا ہوگئی ہیں۔ ایسا مزاج پیدا ہوگیا ہے کہ حقیر مقاصد کے لیے ایک دوسرے کی خوشامد کرنا ضروری سمجھا جارہا ہے۔ واٹس ایپ گروپ میں جہاں لیڈر یا آفیسرز بھی ہوتے ہیں، ان کی خوشامد کرنا عام رویہ بن چکا ہے، جس سے بندے کا نہ صرف مزاج بگڑ جاتا ہے بلکہ جس کی خوشامد کی جائے اس پر بھی اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔
یہ مشاہدے کی بات ہے، کام سے زیادہ چاپلوسی کرنے والوں کے کام آسان ہوجاتے ہیں۔ جو کوئی اپنے سینئر کی جس قدر تعریف کرتا ہے اس قدر اس کو فائدہ ملتا ہے۔ اس سے اخلاقی اور پیشہ ورانہ خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اور میرٹ کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہر شخص اپنی تعریف و مدح سرائی سے خوش ہوتا ہے اور تنقید اور اصلاح سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
خوشامد کرنے یا اس پر عمل کے پیچھے بھی ایک بڑا سبب یہی نفسیاتی پہلو ہے کہ کس طرح لوگوں کو متاثر (impress)کیا جا سکے۔ اس طرح سے لوگوں کو متاثر کر کے کوئی شخص فوری طور پر یا دیرپا تعلقات اور معاملات میں فوائد حاصل کر سکتا ہے، کیونکہ خوشامد سے سرشار ہونے والا فرد، خوشامد کرنے والے یا خوشامد کار کے لیے عموماً نرم گوشہ خود میں پیدا کرتا ہے اور اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
خوشامَد یا چاپلوسی ایک عمل ہے جس کے تحت کچھ لوگ حد سے زیادہ دوسرے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں۔ اپنے سے بلند رُتبہ شخصیت یا صاحب ِمنصب کے سامنے محض مفاد حاصل کرنےکے لیےعجز وانکسارکا مظاہرہ کرنا یا اپنے آپ کو نیچا دکھانا تملق یعنی چاپلوسی کہلاتا ہے۔اس عمل میں ایسی خوش نما صفات، عادات، محاسن، معاملات، فعالیت، گفتگو کی خوبیاں، دُور اندیشی، وغیرہ منسوب کی جاتی ہیں جو یا تو کسی شخص میں فی الواقع موجود نہیں ہوتی، اگر ان میں سے کچھ حصہ پایا بھی جاتا ہو، تو وہ اس درجہ خوبی اور خوش نمائی کو نہیں پہنچتا، جس طرح کہ بیان کیا جاتا ہے۔
خوشامد عام طور سے کسی ذی حیثیت یا کسی ایسے شخص کی جاتی ہے، جس سے کسی شخص کو فوری کام پڑ رہا ہو یا پڑ سکتا ہو۔ اسلام میں چاپلوسی یا خوشامد سے روکا گیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن کریم میں فرمایا ہے : ’’تم اُن لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو جو اپنے کرتُوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف انھیں حاصل ہو جو فی الواقع انھوں نے نہیں کیے ہیں۔ حقیقت میں ان کے لیے دردناک سزا تیار ہے‘‘۔(اٰلِ عمٰرن۳ :۱۸۸)
ان آیات کی شانِ نزول کا اگر چہ خاص پس منظر ہے جس میں یہودیوں اور منافقوں کے ایک مخصوص گروہ کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور اُن کے بد انجام کی انھیں خبر دی گئی ہے، لیکن ان آیات کے عموم میں اُن تمام لوگوں کو مراد لیا گیا ہے، جو اپنے بارے میں کسی کے منہ سے خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف سن کر خودپسندی کا شکار ہوکر تکبر و شیخی اور غرور وناز میں مبتلا ہوجائیں۔ اپنے کیے ہوئے کاموں پر اِترانے لگیں اور نہ کیے ہوئے کاموں پر ایک مدح و تعریف چاہنے لگیں۔ یہ سب ایسے گناہ ہیں جن کی سزا اور عذاب سے بغیر توبہ و استغفار کے بچنا انسان کے لیے بڑا مشکل ہے۔
احادیث میں بھی رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بیماری سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دوسرے کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم نے اِس کو برباد کردیا‘‘۔ (صحیح بخاری ۲۶۶۳)۔ اسی طرح ایک اور موقعے پر ایک شخص نے دوسرے کی حد سے زیادہ تعریف کی تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم نے اپنے ساتھی کی گردن ماردی۔ اگر تمھیں کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں کہو کہ میں یہ گمان کرتا ہوں، بشرطیکہ اُس کے علم میں وہ واقعی ایسا ہی ہو‘‘۔ (بخاری ۲۶۶۲، مسلم۵۰۲، ابوداؤد۴۸۰۵)۔ صحابہ کرامؓ کا مزاج اس سلسلے میں بالکل واضح اور صاف تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عثمان بن عفانؓ کے منہ پر اُن کی تعریف بیان کی تو حضرت مقدادؓ نے اُس کے منہ میں خاک جھونک دی اور فرمایا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’خوشامد کرنے والوں سے ملو تو اُن کے منہ میں خاک جھونک دیا کرو‘‘۔ (مسلم :۷۵۰۵)
بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ مرض پروان چڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ چاپلوس مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ چاپلوسی کرنے والا شخص خود تین بڑے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے:
کسی انسان کے سامنے اس کی تعریفوں کے پُل باندھنا کہ جس کی وجہ سے وہ بندہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے، انسان کے اندر تکبر کا بیج بو دینا ہے اور جس انسان میں تکبر آگیا تو سمجھ لیجیے کہ اس کی آخرت تباہ ہو گئی۔ ابلیس بھی تکبر کی وجہ سے ملعون ٹھیرا تھا۔ تکبر اللہ کو بہت ناپسند ہے۔ اس لیے اسلام نے تکبر کو ایک انسان کے اندر آنے کے راستے بند کرنے کی طرف توجہ دی ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ تو ذبح کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
چاپلوسی یا خوشامد سے بچنے کی تلقین جن حضرات کو کرنی چاہیے تھی، بدقسمتی سے اب ان کے ہاں بھی یہ مرض دیکھنے کو ملتا ہے۔ مذہبی طبقے کے پوسٹرز اور اطلاعاتی برقی پوسٹوں میں کسی مبلغ یا عالم کے لیے ایسے الفاظ و القابات کی بھرمار اسی خوشامد کی علامت ہے۔ مثال کے طور پر اتنا لکھ دینا کافی تھا کہ 'مولانا ' یا 'شیخ ' یا اگر پی ایچ ڈی کیا ہو تو 'ڈاکٹر۔ ' لیکن ہم طرح طرح کے القابات سے سطور بھردیتے ہیں، جیسے: شیخ المشائح، رہبر ملت، امام المناظرین، مجدد دین و ملت، پیر طریقت، فاتح شرک اور قاتلِ بدعت وغیرہ ۔ بدقسمتی سے مبلغ حضرات بھی پروگرام کے آرگنائزر کو یہ لکھنے یا بولنے سے نہیں روکتے۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں چاپلوسی یا خوشامد ہمارے مذہبی طبقوں میں جگہ بنا چکی ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ لوگوں کو کسی کی تعریف ہی نہیں کرنی چاہیے۔ تعریف اور خوشامد الگ الگ چیزیں ہیں۔ حوصلہ افزائی اور خوشامد میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حوصلہ افزائی میں حق گوئی ہوتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ سننے والے میں خود اعتمادی اور اُمید پیدا کی جائے۔ اس کے بر عکس خوشامد کذب و ریا اور بہروپیا پن سے لتھڑی ہوتی ہے۔ اس میں خود غرضی کا یہ پہلو بھی شامل ہوتا ہے کہ مخاطب کو خوشامدی کے پوشیدہ مقصد کا شکار بنایا جائے۔ ربّ العزت ہمیں بنیادی اقدار عطا فرمائے تاکہ ہم معاشرے کے لیے خیر بن جائیں۔ ہم سے جو معاشرہ تعمیر ہو اس میں حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین پروان چڑھے۔