نومبر ۲۰۲۴

فہرست مضامین

تعلیم کی زبوں حالی اور اصلاح کی راہ عمل

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | نومبر ۲۰۲۴ | اشارات

Responsive image Responsive image

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ تعلیم نہ صرف فرد کی ذاتی نشوونما، بلوغت اور رُشد و ہدایت کے لیے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے، بلکہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور عروج و زوال میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔اسلام کے انسانیت پر احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ اس نے تصورِ دین ،تصورِ انسان،تصورِ فلاح اور تصورِ کامیابی کو اکتسابِ علم کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے نہ صرف حضرت آدمؑ کواشیاء کےعلم بلکہ الہامی ہدایت سے نوازا۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر اوّلین وحی جن پانچ آیات کی شکل میں  نازل کی گئی، اس کا آغاز بھی پڑھنے اور ربِّ کریم کے اسماء کے ساتھ کیا گیا کہ دین کی بنیاد علم و حکمت پر ہے، توہم و قیاس پر نہیں۔ اس پہلو سے اسلام نے سابقہ مذاہب ِعالم میں تحریف اور اضافہ کیے جانے والے اساطیر الاولین (Mythologies) کی جگہ علم الیقین،وحی الٰہی اور علم نافع کی بنیاد پر انسانی زندگی، معاشرہ اور معیشت و سیاست کی تعمیر کو متعارف کرایا۔

لیکن تکلیف دہ حد تک پریشانی کا باعث یہ حقیقت ہے کہ مسلم ممالک جنھیں اپنے دین کی تعلیمات کی بنا پر علمی و تحقیقی میدان میں قیادت کا فریضہ انجام دینا چاہیے تھا، علمی ترقی اور ایجادات میں آج سب سے کم تر شمار کیے جاتے ہیں۔ وہی اہل ایمان جنھوں نےکل سائنسی میدان میں ۱۰۰۱؍ ایجادات کیں اور ان کی علمی قیادت سے دنیا کی دوسری اقوام نے استفادہ کیا، آج وہ مانگے کے اُجالے سے اپنی گزر اوقات کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان جسے مسلم دنیا میں علم و تحقیق میں سب سے آگے ہونا چاہیے تھا مسلسل ترقی ٔمعکوس کا شکار ہے ۔

ابتدائی تعلیم

ابتدائی جماعتوں سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک جو صورتِ حال اعداد و شمار پیش کرتے ہیں وہ قومی سطح پر فوری توجہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ ۲۰۲۳ء میں طبع کردہ National Achievement Test جسے کیمبرج یونی ورسٹی کے تعاون سے تیار کیا گیا کے مطابق پانچویں جماعت کے طلبہ و طالبات میں اردو، سندھی اور ریاضی کی تعلیم تمام صوبوں میں تنزل کا شکار ہے(ملاحظہ ہو ڈاکٹر عائشہ رزاق، New data , old insights دی نیوز ۱۸مارچ ۲۰۲۴ء )۔ نہ صرف یہ بلکہ گریڈ ۴ اور گریڈ۸ کے طلبہ میں بھی انگریزی،سندھی ، اردو اور ریاضی میں صورتِ حال بہت کمزورپائی گئی ہے۔ اس کمزوری کا ایک حل ملک کے بعض ماہرینِ تعلیم یہ پیش کرتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔یہ اصلاً ایک درآمد شدہ فکر پر مبنی تصور ہے اور ملک کو عملاً پانچ لسانی اکائیوں میں تقسیم کرنے کے گھناؤنے عمل کو خوب صورت بیانیہ کی شکل میں پیش کرتا ہے۔

پاکستان کے تناظر میں شمالی علاقہ ہو یا جنوبی یا وسطی، گاؤں ہو یا شہر، جو زبان دن رات بازاروں میں، گھروں اور کاروبار میں استعمال کی جاتی ہے وہ اردو ہے۔ اردو زبان تمام صوبوں، آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کو جوڑنے والی زبان ہے ۔یہ سائنسی و دیگر علمی تصورات کی وضاحت کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔ اسی بنا پر قائد اعظمؒ نے اسے قومی زبان قرار دیا تھا اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے دستور پاکستان کی روشنی میں سرکاری زبان قرار دیا ۔ چنانچہ اصل علاج اُردو ذریعۂ تعلیم اور یکساں قومی نصابِ تعلیم ہے، جس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اردو میں وہ تمام تر صلاحیت موجود ہے جو معاشرتی اور تطبیقی علوم (Applied Sciences) کی تدریس اور تحقیق کے لیے ضروری ہے۔ مزید یہ کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں ان کی قومی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور بچے تمام سائنسی تصورات کو اپنی قومی زبان میں سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ چین ، فرانس ، جرمنی، کوریا، پولینڈ، ہر جگہ ذریعۂ تعلیم قومی زبان ہے ۔

اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر ابتدائی تعلیم کو درپیش مشکلات میں بنیادی سہولیات کا موجود نہ ہونا، مثلا ًسرکاری اسکولوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت ، کلاس روم میں بیٹھنے کے لیے ڈیسک اور گنجائش اور کر سیوں کی عدم موجودگی،بجلی اور گرمی کے موسم میں پنکھوں کی عدم موجودگی، کھیلنے کے میدان اور کھیل کا سامان کا نہ ہونا ، بچوں کے لیے مناسب تعداد میں بیت الخلا، اسکولوں کے اساتذہ کے لیے تعلیمی اصولوں اور جدید طریقوں کے استعمال کی تربیت کا نہ ہونا، نیز اساتذہ میں تعلیم و تعلّم سے وابستگی کا فقدان تعلیم کے چند بنیادی مسائل ہیں۔ ایک استاد جو تعلیم کے فن سے آگاہ نہ ہو اور نہ وہ اس منصب کو اپنی اولین پسند کے طور پر اختیار کرے، بلکہ محض بے روزگاری سے بچنے کے لیے استاد بن جائے، وہ کس طرح طلبہ میں علم کی طلب اور تڑپ پیدا کر سکتا ہے؟ وہ حدسے حد ایک رٹا ہوا مواد کلاس میں دہرا سکتا ہے ، جس کا کوئی تعلق تعلیم و تربیت کے ساتھ نہیں پایا جاتا۔

 ویسے بھی تعلیم سے تربیت کے لازمی حصہ کو،نامعلوم اسباب کی بنا پر اور گورے کی غلامی کے نتیجے میں Value Neutral تعلیم کے تصور (یعنی اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرنا)کے زیر عنوان نصاب سے خارج کر کے تعلیم کو صرف skills ، مہارتوں اور تکنیکی پہلوؤں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ تعلیم اسکول کی ہو یا اعلیٰ یونی ورسٹی کی، کسی درس گاہ میں آدابِ زندگی، ایمانداری ،پابندیٔ وقت، محنت ، سچائی، ہمدردی اور بہت سی بنیادی صفات پر توجہ نہیں پائی جاتی۔ یہاں تک کہ اقبال کی ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ جس کو ہرصبح ترنم کے ساتھ بچوں سے پڑھوایا جاتا تھا، اس کو بھی اسکولوں سے خارج کر دیا گیا ہے۔ آج نہ حمدباری تعالیٰ ہے ،نہ نعت رسولؐ ، نہ اقبال کا ترانہ، صرف اور صرف ’مہارت‘ اور اعداد و شمار کی تسبیح ہے اور ان میں بھی مہارت کی خاص فکر نہیں ہے ۔ تعلیم کے ابتدائی دور میں اقدارِ حیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات سے لاعلمی بعد کے آنے والے ہر تعلیمی دور پر اثر انداز ہو گی اور یہ بنیادی کمی طلبہ و طالبات کی شخصیت کو نامکمل رکھے گی ۔

اسکولوں میں تربیت یافتہ یعنی تعلیم کے شعبے میں سند رکھنے والے اساتذہ کا تناسب صفر کے برابر ہے کیونکہ جب سے تعلیم کو وفاق کی جگہ صوبائی شعبہ بنایا گیا ہے، اسکولوں میں ملازمت سیاسی پارٹی یا رشوت کی بنیاد پر دینا عام ہو گیاہے اور تعلیم و تعلم کو عموماً بے روزگار وں کو مصروف رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس کا کوئی تعلق استاد کی استعداد اور تعلیمی صلاحیت سے نہیں ہے۔ یہ صورتِ حال ملک کے تعلیمی مستقبل کے لیے سخت تشویش ناک ہے اور بلا تاخیر تمام صوبوں میں اساتذہ کی تطہیر اور پیشہ ورانہ تربیت کا بندوبست کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔صرف ان اساتذہ کو اسکولوں میں تعینات کرنا چاہیے جو اپنی پسند، رجحان ، مقصد حیات اور تعلیمی سند کی بنیاد پر استاد بننا چاہتے ہوں۔ اسکولوں کے معیار کے بلند کرنے میں اساتذہ کے ساتھ والدین بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر ’والدین اور اساتذہ کی ملاقات‘ (پیرنٹس، ٹیچرز میٹنگز) کا صحیح استعمال کیا جائے ،والدین کو ان کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی سے وقت پر آگاہ کرنے کے ساتھ ان کی عادات پر توجہ دینے اور انھیں پابندیٔ وقت کے ساتھ گھر پر دیئے گئے کام کو کرنے کی عادت ڈالی جائے تو تعلیمی معیار آہستہ آہستہ بہتر ہو سکتا ہے ۔دوسری جانب اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ والدین اپنے بچے کی تعلیمی کارکردگی کا دلچسپی کے ساتھ جائزہ لیں اور اسکول سے مطالبہ کریں کہ طالب علم میں جو کمزوری اور خامی ہے اس کو دُور کرنے کے لیے اساتذہ خصوصی وقت دے کر بچوں میں علمی ذوق کو ابھاریں ۔

حکومت کی جانب سے مرکزی اور صوبائی سطح پر کل قومی جی ڈی پی کا ۲۰۲۴ء میں ۱ء۷۷فی صد تعلیم کے لیے مختص کیا گیا(Pak Economic Survey 2023-24)۔ اگر مقابلہ کیا جائے تو ایشیا ہی کے دوسرے ممالک میں تعلیم پر جی ڈی پی کا کم از کم چار سے پانچ فی صد مختص کیا جاتا ہے اور اس کا مقابلہ خلیج کے ممالک سے کیا جائے تو وہاں پر ۷سے ۹ فی صد تعلیم کے فروغ پر خرچ کیا جارہا ہے۔

ملک کی اعلیٰ تعلیم گاہوں میں۲۳-۲۰۲۲ء میں کل داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات کی تعداد ۶۰ء۲  ملین رہی ہے ،جب کہ ملک کی آبادی ۲۴۰ ملین ہے اور تقریباً دو کروڑ طلبہ و طالبات جو عمر کے لحاظ سے تعلیم گاہ میں ہونے چاہیے تھے، اسکولوں سے باہر تعلیم سے محروم ہیں( پاک اکنامک سروے ۲۴-۲۰۲۳ء ،ص ۱۸۳)۔

طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد ۸۳ فی صد سرکاری جامعات میں اور ایک قلیل تعداد ۱۷ ٪ فی صد نجی یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے (پاکستان ایجوکیشنل اسٹیٹسٹکس ۲۱-۲۰۲۰ء ، ص ۱۵)۔

بنیادی تعلیمی شماریات کے لحاظ سے تعلیم کے فروغ پر جو رقم خرچ کی جا رہی ہے، اس میں کم از کم پانچ گنا اضافے کی ضرورت ہے، تاکہ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک صورتِ حال کو کچھ بہتر بنایا جائے اور اس سلسلے میں سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔ حالیہ صورتِ حال میں جب ملک سے بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر جا رہے ہیں، تعلیم و تربیت پر خرچ کو اولیت دینے کی ضرورت ہے۔

اعلٰـی  تعلیم

مارچ ۲۰۲۴ء میں اسلام آباد میں ہونے والی وائس چانسلر زکمیٹی میں ملک کی بیش تر سرکاری اور نجی یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں نے دو دن کی نشست میں شرکت کی اور تعلیمی، انتظامی، مالی اور پیشہ ورانہ اور تحقیق کے حوالے سے درپیش مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔ مختلف زاویوں سے کیے گئے جائزوں میں یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ (HEC) اور یونی ورسٹیوں کو یکساں طور پر حکومت کی طرف سے مطلوبہ وسائل کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایچ ای سی کی گرانٹ میں مسلسل اضافے کی بجائے کمی کی جا رہی ہے، جس کی بنیاد پر ایچ ای سی اپنے کردار کو کما حقہٗ ادا نہیں کر سکتی ۔بظاہر ایچ ای سی کو۱۸-۲۰۱۷ء میں دی جانے والی مالی امداد ۶۳بلین روپے تھی جو۲۴- ۲۰۲۳ء میں ۶۶بلین کر دی گئی۔ لیکن اگر اسے روپے کی قدر میں کمی کے تناظر میں دیکھا جائے تو۱۸- ۲۰۱۷ء میں یہ امداد ۶۲۲ ملین ڈالر تھی جو ۲۴-۲۰۲۳ء میں ۲۳۸ملین ڈالر رہ گئی۔ ایسی صورت حال میں ایچ ای سی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف ، تربیتی کورس ، یونی ورسٹیو ں کے اساتذہ کو تحقیقی کام کے لیے گرانٹ دینے میں کوئی اضافہ کرسکے گی ،اُمید ِموہوم ہی کہی جا سکتی ہے ۔

 ملک میں اس وقت ۱۵۴سرکاری یونی ورسٹیاں ہیں اور تقریباً ۱۰۹سے زائد نجی یونی ورسٹیاں ہیں۔ سرکاری یونی ورسٹیاں اوسطاً فی طالب علم تعلیم فراہم کرنے میں۵۰ ہزار ۹ سو روپے سالانہ خرچ کرتی ہیں، سرکاری یونی ورسٹیوں میں فیس اور طالب علم پر خرچ ہونے والی رقم میں کوئی تناسب نہیں ہے کیوں کہ ان میں فیس کو کم رکھا گیا ہے ۔ملک کی معاشی صورت حال کے پیش نظرفی طالب علم خرچ میں تواضافہ ہوا ہے لیکن فیس کم ہونے اورحکومتی امداد میں غیر معمولی تخفیف کی بنا پر یونی ورسٹیوں کے لیے معیاری اساتذہ کو رکھنا اور سہولیات فراہم کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۲۴-۲۰۲۳ء میں یہ خرچ تقریباً پانچ گنا ہو کر فی کس۲لاکھ۵۰ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ان حالات میں معیاری تعلیم فراہم کرنا ایک کرشمے سے کم نہیں ہے ۔

ہر باشعور فرد اس بات سے آگاہ ہے کہ معیاری تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تخصص رکھنے والے اساتذہ کے ساتھ جدید ترین علم سے مزین کتب خانے اور برقی ذرائع سے قابلِ حصول علمی مصادر کا ہونا ضروری ہے۔ گو ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ سرکاری یونی ورسٹیوں کو ترجیحاً اور نجی تعلیم گاہوں میں سے کچھ کو کتب اور رسائل تک رسائی دیتا ہے، لیکن اس میں مزید اضافہ کی ضرورت ہے۔ جو نجی یونی ورسٹیاں ایچ ای سی کے معیار پر اچھا تحقیقی کام کر رہی ہوں ، انھیں تحقیقی کام کے لیے مالی و دیگر وسائل فراہم کیے جائیں کیوں کہ یہ بھی قومی ترقی میں یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔آبادی کے تناسب سے یونی ورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور یونی ورسٹیوں کے پاس وہ تمام سہولیات ہوں جن میں تحقیق کے جدید ترین ذرائع کو استعمال کیا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارےکام مالی وسائل کے بغیر نہیں ہو سکتے اور جب اعلٰی تعلیم پر ہونے والے اخراجات کو مسلسل کم کیا جا رہا ہو تو کیا یہ خواب پورا ہو سکے گا ؟

سرکاری یونی ورسٹیوں میں مالی وسائل میں تخفیف کے ساتھ مناسب افرادِ کار کی فراہمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ملک میں ۱۵۴ سرکاری یونی ورسٹیوں میں سے ۵۱یونی ورسٹیاں بغیر کسی ہمہ وقت وائس چانسلر کے کام کر رہی ہیں، جب کہ بعض یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ ترین عہدہ پر ایسے افراد کو بھی مقرر کر دیا گیا ہے کہ جو بنیادی معیار پر بھی پورا نہیں اُترتے۔ تعلیم گاہوں میں علمی ماحول کی جگہ تجارتی ماحول پروان چڑھ رہا ہے اور حصولِ علم کی جگہ حصولِ روزگار طلبہ اور اساتذہ کی توجہ کا مرکز بن گیاہے۔

معیاری تحقیق

اس وقت تعلیم کے مستحق سوا دو کروڑ بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی کے سیاسی مفاد کے لیے یونی ورسٹیوں کے قیام کا اعلان کرنا مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا ،نہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے تربیت یافتہ اور تعلیم و تربیت کو مقصد حیات بنانے والے اساتذہ کے بغیر چند عمارتوں پر اسکول کا نام لکھ دینا اس کا حل ہو سکتا ہے ۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فروغِ تحقیق کے لیے گذشتہ تقریباً ایک عشرے میں ایچ ای سی کی جانب سے صرف ان مقالات کی طباعت کو اہمیت دی گئی جو impact factor رکھنے والے رسائل میں شائع ہوں۔ پھر یہ کہا گیا کہ وہ مقالات ہوں جن کو دیگر علمی تحقیقات میں citeکیا جا رہا ہو اور جو Q-1اور Q-2 کے درجے میں آتے ہوں۔ چنانچہ citation index کو معیار بنایا گیا۔ان رسائل میں مقالات کی طباعت کو انفرادی اور یونی ورسٹیوں کی درجہ بندی میں شمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔لیکن ایچ ای سی کی فراہم کردہ ہدایات کی روشنی میں بھی جو مقالات Q-1اور Q-2 رسائل میں طبع ہوئے ان میں بھی اکثریت ان موضوعات کی ہے جو نظری مسائل سے بحث کرتے ہیں اور جن کا عملاً کوئی فائدہ پاکستان میں صنعت اور زراعت کونہیں پہنچتاہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تطبیقی علوم ہوں یا معاشرتی علوم، دونوں میں پاکستان کے معاشرتی ،معاشی ، سیاسی،معیشت ،ریاستی، قانونی اور انسانی حقوق،  اسلامی ثقافت، مغربی اسلاموفوبیا کی یلغار،لادینیت اور دہریت کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور  فحاشی و عریانی ،مغربی فکر و ثقافت کی اندھی تقلید پر ، نظریۂ پاکستان کی روشنی میں معاشرتی و معاشی، اخلاقی مسائل کا تجزیہ اور حل تجویز کیے جائیں۔ایسے ہی سوشل میڈیا کا کردار، مصنوعی ذہانت (A I )سے پیدا ہونے والے مقالات میں ملک میں درپیش نفسیاتی ، علمی ، اخلاقی ، معاشرتی اور ثقافتی مسائل پر خصوصاً  Digitalization اور مصنوعی ذہانت (آے ائی) کے زیر اثر پیدا ہونے والے مسائل پر توجہ دی جائے ۔

 تحقیقی اخلاقیات

تحقیقی اخلاقیات کے حوالے سے آن لائن مقالات کی سہولت نے محققین کو دوسروں کی تحقیق کو کتر و بیونت کر کے اپنے نام سے طبع کرنے اور ثانوی مواد (secondary data) پر مبنی تحقیق کو اختیار کرنے کی سہولت فراہم کر دی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح بعض شعبوں میں تحقیقی مواد تک رسائی میں اضافہ ہو جائے اور ہم یہ سمجھیں کہ ہمارے ہاں بہت تحقیق ہو رہی ہے، لیکن ایسی تحقیق کا نہ کوئی وزن ہے، نہ وہ معاشرتی، معاشی اوراخلاقی ترقی پر کوئی اثر ڈال سکتی ہے ۔

اس دور میں جس تحقیق کی ضرورت ہے اسے جزوی علم کی جگہ کلی اور تقابلی تحقیق کہا جا سکتا ہے۔ Inter Disciplinary Research عموماً کسی مسئلے کا زیادہ جامع تجزیہ اور ہمہ گیرحل تجویز کرسکتی ہے۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جس شخص نے معاشیات میں یا کیمسٹری میں سند لی ہے، اس کے پاس قانون اور اخلاقی، معاشرتی اور ثقافتی مسائل اور اس کے اپنے شعبہ سے ان کے تعلق کے بارے میں کوئی مستند معلومات نہیں ہوتیں ۔ علم ہمہ گیریت کی جگہ چند زاویوں تک محدود ہو گیا ہےاور یہ ہماری تحقیق کا ایک بہت کمزور پہلو ہے ۔

ایک عام عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ یونی ورسٹیوں اور ایچ ای سی میں تحقیق کے لیے مالی امداد میں کنجوسی سے کام لیا جاتا ہے۔اس لیے فنڈز کی کمی کے سبب تحقیق آگے نہیں بڑھ رہی۔ یہ ایک عذر لنگ ہے۔ جو شخص تحقیق کرنا چاہتا ہو اس کے لیے سو راستے تلاش کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ نہ صرف ملک بلکہ ملک کے باہر ایسے ادارے موجود ہیں جو انڈسٹری کے لیے مفیدتحقیق کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ۔شرط صرف یہ ہے کہ محقق اپنے شعبہ کا ماہر ہو، محنت کرنا جانتا ہو اور محنت کرنے پر آمادہ ہو اور تحقیق کا مقصد محض نکتہ سنجی نہ ہو بلکہ وہ واقعی عملی مسائل کے قابلِ عمل حل تجویز کرے۔

تحقیقی ثقافت کا احیا اس وقت ممکن ہے جب محقق میں اخلاص اور ایمان پایا جاتا ہو۔ وہ اللہ کے بندوں کے مسائل کے حل کے لیے اپنی صلاحیت کو، وقت کو ،وسائل کو لگانا چاہتا ہو اور علمی سرقہ کرنے (Cut Paste ) کو حرام سمجھتا ہو ۔حقیقی علمی ترقی کے لیے جامعات کو ایسے افراد کی ہمت افزائی کرنی ہوگی اور جامعات میں علمی فضا کو پروان چڑھانا ہو گا۔

سرکاری یونی ورسٹیوں کو حکومتی امداد پرانحصار کی جگہ خود انحصاری کو پروان چڑھانا ہو گا ۔ ایسے ہی نجی جامعات کو اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرنا ہو گا۔ تعلیم و تحقیق ہر برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں سب سے کم اہمیت کی حامل رہی ہے اور مستقبل قریب میں اس رجحان میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس لیے یونی ورسٹیوں کو خود انحصاری کی پالیسی کو اختیار کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں Alumni یا سابق طلبہ و طالبات کو جامعات کے معاملات میں سرگرم کردار کے لیے آمادہ کرنا ہو گا۔ جامعات کو اپنی تحقیق کوتطبیقی بنانا ہو گا اور ملکی صنعت کی ضروریات کے پیش نظر صنعتی مسائل و مشکلات کا ماہرانہ حل نہ صرف تلاش کرنا ہو گا بلکہ اس کو patent کرانے کے بعد صنعت کاروں کو فراہم کرنا ہو گا۔

یونی ورسٹیوں کو درپیش چیلنج

عالمی سطح پر منعقد ہونے والی یونی ورسٹی وائس چانسلروں کی کانفرنسوں میں عموما ًاس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ یونی ورسٹی اور صنعتوں کے درمیان قریبی تعلق پیدا کیا جائے تاکہ یونی ورسٹیوں کو مالی اور صنعت کاروں کو ان کے مسائل کا پیشہ ورانہ حل فراہم ہو سکے۔ تاہم، یہاں یہ بات یاد رہے کہ پاکستان کے حوالے سے ہمارا مقصد دیگر یونی ورسٹیوں کی طرح صرف علم کے نام پر معاشی سرگرمی نہ ہو بلکہ علمی اور سائنسی تحقیق کا ہدف ’علم النافع‘کا پیدا کرنا اور اس کے ذریعے اللہ کی مخلوق کے جائز معاشی و معاشرتی اور سیاسی مسائل کا حل پیش کرنا ہو۔ اس کے ساتھ یونی ورسٹیاں اس معاشی ترقی کے نعرے کے زیر اثر محض مادی ترقی کے حصول تک محدود نہ ہو جائیں بلکہ وہ اللہ کے بندوں کی جامع تربیت ِاخلاق اور انسان کے مقصد ِوجود کے شعور اور معاشرتی حل، عدل کے قیام میں مددگار ہوں۔جامعات میں تعلیم و تحقیق میں مصروف نوجوانوں میں علم النافع کے تصور کو واضح کرنا ہوگا تاکہ ان کی تحقیقی جستجو عبادت کے دائرے میں داخل ہو سکے اور خدمت خلق کے اسلامی تصور پر عمل کرتے ہوئے وہ معاشرتی مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

علمی تحقیق کے جدید تناظر میں ’کھلے ماخذ‘ (open source) کورسز اور ’فاصلاتی تعلیم‘ (Online learning) میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ایک ضرورت بن گیا ہے اور اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کے اخلاقی مضمرات روزانہ خود مغربی صحافت اور تحقیقی ادب میں سامنے آرہے ہیں۔ گذشتہ ایک سال کے عرصہ میں شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرا ہو جس میں دو مرتبہ صرف نیویارک ٹائمز جیسے اخبار میں مصنوعی ذہانت کے مثبت استعمال کے ساتھ اس کے منفی اور غیراخلاقی استعمال پر امریکی جامعات سے وابستہ افراد کی تنقید نہ آرہی ہو۔ حقیقتاً مصنوعی ذہانت کو ۲۱ویں صدی کا دجال بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔ یہ انسان کی وہ تخلیقی کوشش ہے جس کے بعد وہ خود اپنے آپ کو حقیقی خالق کے آس پاس تصور کرنے لگاہے اور اس کانفس اسے اپنی ذہانت پرتکبر اور گھمنڈ پر میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود اس کے ذریعے معلومات کا چند لمحات میں انسانی خواہش کے مطابق مرتب ہوجانا اس کا کارنامہ ہے اور تعلیم میں اس کا استعمال کیا جانا مفید نتائج بھی پیدا کر سکتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر ایجادات نے علم کی تخلیق کے نئے افق ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں۔ انھیں اخلاقی حدود میں استعمال کرنا آزمائش سے کم نہیں۔

اعلٰی تعلیم اور باصلاحیت افراد  کی بیرونِ ملک منتقلی

ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ خصوصا ً طب، آئی ٹی اور فارمیسی میں با صلاحیت افراد کا بیرونِ ملک روزگار کے لیے کثرت سے جانا انسانی سرمائے کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ملک کے سوچنے سمجھنے والے اور تطبیقی علوم سے وابستہ افراد ملک کی معاشی، سیاسی صورتِ حال سے مایوس ہو کر ملک کو چھوڑ کر دوسری دنیاؤں میں اپنے لیے جگہ تلاش کریں تو ملک کی معاشی اور سیاسی صورتِ حال کو بہتر کون بنائے گا؟ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس رفتار کے ساتھ پاکستان کی معیشت کو ملک کی انتظامیہ نے خود تباہی کی طرف دھکیلا ہے اس کے پیش نظر کچھ افراد یہ سمجھنے پر مجبورہوئے ہیں کہ یہاں پر ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنا آسان کام نہیں ہے ۔ملک کی معاشی صورت حال کا سنبھالنا صرف اس وقت ممکن ہو سکتاہے جب ملکی سیاسی قیادت، انتظامیہ اور عدلیہ تینوں کی ترجیح ان کی اپنی ذات کی جگہ ملکی مفاد ہو اور اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے اداروں کے وقار کو بحال کریں اور ملک میں دستور کی بالا دستی اور جمہوری روایات کو فروغ دیا جائے۔

آمرانہ نظام کسی بھی دور میں ترقی اور خوشحالی کا ضامن نہیں رہا اور نہ پاکستان میں یہ خوشحالی لا سکتا ہے۔بیورو آف امیگریشن اور بیرون ملک روزگار کے شعبہ کے۲۰۲۳ء کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۳ء میں ۸ لاکھ ۶۲ ہزار سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ کر تلاشِ روزگار کے لیے باہر گئے ہیں۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے،جس پر قومی خزانے سے تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے لیے وسائل خرچ ہوئے ہیں ۔ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ ان کا اپنے خاندان کو چھوڑ کر تلاشِ روزگار میں بیرون ملک جانا معاشرتی، ثقافتی اور اخلاقی، ہر حیثیت سے بے شمار خطرات کو دعوت دے سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں پاکستان سے جانے والے بڑی تعداد میں مزدور اور ہنرمند افراد کے خاندان سے دُور ہونے پر جو تحقیقات ہوئی ہیں ، وہ ظاہر کرتی ہیں کہ اس کے نتیجے میں چاہے ملک کے باہر سے کوئی رقم ان کے خاندان میں آئی ہو لیکن اس کی جو معاشرتی قیمت ادا کی گئی وہ اس رقم کے مقابلے میں بہت زیادہ رہی ہے ۔

یہ کہنا کہ بیرون ملک پاکستانی پاکستان کی معیشت کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں ، اعداد و شمار کی حد تک متاثر کر سکتا ہے لیکن اس کے دور رس نتائج ملکی معاشرت اور ثقافت کے لیے خوش کن نہیں کہے جا سکتے ۔مزید یہ کہ جو صورتِ حال ۱۰ سال پہلے تھی وہ اب تبدیل ہو چکی ہے اور وہ ممالک جہاں مستری، ڈرائیور، تعمیرات کے کام میں مزدوری کرنے والے اور دیگر کم آمدنی والے شعبوں میں جانے والے افراد کی مانگ تھی، وہ اب آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ٹکنالوجی کا استعمال، خلیجی ممالک میں خود اپنی مقامی آبادی کو ان کاموں میں لگانا ان کی ایک ترجیح بن گیا ہے۔

اگر آیندہ بیرون ملک کام کرنے والوں کی طلب ہوگی تو صرف ان شعبوں میں جہاں آئی ٹی اور وہ skills انھیں آتی ہوں، جو ان ممالک میں ابھی موجود نہیں ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان میں پہلے  مہارتوں (skills )کا تعین اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کرنے ہوں گے، تاکہ یہ باصلاحیت افراد باہر جا کر باعزت طور پر کام کر سکیں۔

اس وقت ملک میں صرف ایک Skills یونی ورسٹی ہے، جس کا مقصد مہارتوں میں تربیت دینا ہے ۔جب تک ہر یونی ورسٹی اپنے کاموں میں بطورایک ترجیح اسے شامل نہیں کرے گی، ہم اعلیٰ مہارتوں والے افراد نہ ملک میں اور نہ ملک کے باہر فراہم کر سکتے ہیں۔ جن شعبوں میں خود Skilled افرادکی ضرورت ہے ان کے ماہرین اگر ملک کے باہر کثرت سے جائیں گے تو ملک میں غربت اور بے روزگاری کے ساتھ قانون کے احترام میں مزید کمی ہوگی ۔اس لیے خصوصاًطب اور آئی ٹی میں ملک گیر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔

اصلاح کی راہ عمل

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کو جن بے مثال صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان کی موجودگی میں وہ انسان کو خود اپنے پیدا کردہ مسائل کے حل تلاش کرنے کی سمجھ بھی دیتا ہے ۔چنانچہ غلطیوں کو دوبارہ نہ کرنے کا عزم اور اپنے خالق اور مالک کی طرف رجوع کرتے ہوئے معروضی طور پر معاشی، معاشرتی اور اخلاقی مرض کی تشخیص کرنا اولین اوربنیادی ضرورت ہے۔ ہمارا مسئلہ نہ انسانی سرمایہ کی کمی ہے، نہ قدرتی وسائل کی قلت۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہترین موسم، معدنیات، زرخیز زمین، اعلیٰ صلاحیت کے افراد سے نوازا ہے لیکن ہم نے ۷۵ سال میں سوائے ناقدری ،ناشکری اور نہ فرض شناسی کے کچھ اور نہیں کیا ہے۔ اصلاح کی راہ عمل بہت واضح ہے اور ہر پاکستانی سے خلوص، محنت، بے غرضی اور ایمان داری کا مطالبہ کرتی ہے ۔ہماری پہلی ترجیح ملک میں رائج نصابات پر اپنی قومی ضروریات کی بنیاد پر نظر ثانی اور تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ہم ۷۵ برس سے گورے کی میراث فرسودہ نظامِ تعلیم کو سنبھالے ہوئے ہیںاور نوجوان نسل کی نجات کو اسے اور ابوالہول کی تعلیم حاصل کر لینے کو سمجھ رہے ہیں، جب کہ یہ مغرب سے در آمد کردہ تصورِ تعلیم ہماری موروثی گورے کی غلامی میں مزید اضافہ اور استحکام پیدا کرتا ہے ۔

  •  اس کے ذریعے ہم غلامی میں مزید اضافہ کرتے چلے گئے ہیں۔ جو نظام برطانوی سامراج نے غلام پیدا کرنے کے لیے بنایا تھا، وہ قائد پیدا نہیں کر سکتا ۔اس سلسلے میں پورے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں ذریعۂ تعلیم یعنی قومی زبان میں تدریس کو روشن مستقبل کی جانب صحیح پہلا قدم کہا جا سکتا ہے۔ نئے نظام تعلیم کا پاکستان کے نظریہ اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے ہم آہنگ ہونا شرطِ اوّل ہے۔
  • ملک میں جہاں کہیں بھی انٹرنیٹ کی پہنچ ہے وہاں Online learning کو فروغ دینا ہوگا تاکہ جہاں سکونتی سہولیات موجود نہ ہوں وہاں Virtual class rooms کے ذریعے بنیادی تعلیم کو عام کیا جا سکے۔ اس میں تدریسی مواد کو پاکستان کی ضروریات کے لحاظ سے تخلیق کرنا ہو گا۔ درآمد شدہ تصورات ہمارے مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔ ای لرننگ کے لیے اساتذہ کی تربیت ہرصوبے میں کرنی ہوگی تاکہ منصوبہ پر صحیح انداز سے عمل کیا جا سکے۔
  • معاشی مسئلہ حل کرنے کے لیے ہمیں اپنے نظام تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ اس وقت ہمارےا سکول آف بزنس جو تعلیم دے رہے ہیں وہ اچھے مینجر تو بنا سکتی ہے، لیکن ایسے افراد جو اختراعی ذہن کے ساتھ ایسے کاروبار پیدا کر سکیں ،جس میں وہ لوگوں کو روزگار فراہم کر سکیں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔پڑوسی ممالک میں نوجوان آئی ٹی سروسز کے ذریعے کروڑوں ڈالر سے اپنی ملکی معیشت کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ ہمارا نوجوان انسانی سرمایہ، صلاحیت اور ذہانت میں کسی سے کم نہیں ہے ، صرف اس کی صحیح تربیت اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔
  • چین کی عالمی تجارت میں بڑے پیمانے پر اشیاء فراہم کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے پاکستان میں صنعتوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور اس وقت غالب رجحان آن لائن تجارت کا ہے، جس میں چین کی بڑی مقدار میں پیداوار کا مقابلہ نہ امریکا کر سکا ،نہ ہم کرسکیں گے۔ اگر ہم اس تجارت کو مرکزی مقام دیں گے تو ’صنعتی پسپائی‘ (Deindustrialization )کا قومی نقصان ہوگا،جب کہ اگر ہم اپنے ملک کی زراعت کی ترقی پر توجہ دیں تو ہم غربت میں بہت کمی کرسکتے ہیں۔زراعت میں تحقیق کی ضرورت ہے ۔ مثلاً چاول کی کاشت پر جتنا پانی ہم خرچ کرتے ہیں اس کا ۱۰/۱ خرچ کر کے دیگر ممالک ہم سے زیادہ پیداوار حاصل کر لیتے ہیں۔ ضروری معلومات و تعلیم کے ذریعے ہم کو اپنی زمینوں کی زرخیزی میں اضافہ کرنا ہوگا اور بعض نام نہاد دوست ممالک کو لگان پر چارہ فراہم کرنے کی جگہ خود سبزیوں اور اجناس کی پیداوار میں اضافہ کے ذریعے نہ صرف ملک کی بلکہ دیگر مقامات کی ضروریات کو پورا کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ان صنعتوں کو جو پاکستان کی پہچان ہیں، مثلاً کپڑے کی صنعت اس کو ترجیحی بنیاد پر سوت کی فراہمی اور سستی بجلی کی فراہمی پر توجہ دینی ہوگی۔ اس حوالے سے جامعات میں فنی تعلیم کو بھی فروغ دینا ہوگا ۔
  • یونی ورسٹیوں کو اپنے وسائل خود پیدا کرنے ہوں گے ۔اس غرض سےصنعتوں اور زراعت سے متعلقہ افراد کے ساتھ رابطہ قائم کر کے ان کی مشکلات کے حل یونی ورسٹیوں کو پیش کرنے ہوں گے، تاکہ اس طرح ایک طرف جامعات ایجادات کو کمرشالائز کر سکیں اور ان کے استعمال سے قومی معیشت میں خود انحصاری پیدا ہو سکے۔
  • تنہا حکومت پر بھروسا کی جگہ ہمیں معاشرہ کے باشعور افراد کے تعاون سے روایتی اسکول کی جگہ غیر رسمی ماحول میں مقامی مدد کی بنیاد پر تعلیم، صفائی اور صحت کی بہتری کے لیے درختوں کے زیر سایہ تعلیم گاہیں بنانی ہوں گی۔
  • مساجد کا تدریسی اور تعلیمی استعمال بھی تعلیم کے فروغ میں غیر معمولی امداد فراہم کر سکتا ہے۔ اسلامی روایت یہی تھی کہ نہ صرف قرآن کریم ،حدیث اور سیرت پاکؐ کی تعلیم بلکہ ریاضی، تاریخ اور طب کی تعلیم کے مراکز مساجد میں تھے۔ شہر ہوں یا گاؤں، مساجد ہرجگہ موجود ہیں۔ ان کے مثبت استعمال سے بغیر کسی مالی بوجھ کے علم کی توسیع میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے ۔

یونی و رسٹیوں میں تخصص

اس وقت بیش تر یونی ورسٹیوں میں عمومی تعلیم دی جا رہی ہے۔ تخصص اگر ہے تو صرف طب یا انجینئرنگ کی حد تک ہے۔ ادویہ سازی اور دیگر شعبوں میں گہرائی میں جا کر نئے راستے تلاش کرنا ہماری ترجیح نہیں رہا ہے ۔اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔Center of Excellence (خصوصی مراکز ِ دانش ) یا خصوصی یونی ورسٹیوں کے لیے ضروری نہیں کہ نئی یونی ورسٹیاں ہی قائم کی جائیں۔ ہر صوبے میں کم از کم ایک یا دو موجودہ یونی ورسٹیوں کو کسی تخصص کے لیے منتخب کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک کے باہر سے بھی طلبہ کو لا کر اعلیٰ تعلیم دی جا سکتی ہے، جو یونی ورسٹی کے لیے ایک اعزاز اور اس کے معاشی استحکام میں مددگار ہو گا۔ان چند تجاویز کو پیش کرتے وقت پیش نظر یہ اصول رہا ہے کہ ہمارے موجودہ وسائل ہی کی بنیاد پر ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ ان تجاویز کے لیے صرف سرکاری اور نجی جامعات کے ساتھ تبادلۂ خیالات کے ذریعے ان کی ترجیحات میں رد و بدل کرنا ہوگا جس کے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت مفید نتائج نکل سکتے ہیں۔

تحریک اسلامی کے کرنے کے کام

  • تحریک اسلامی کو تعلیمی منصوبہ بندی کے لیے موجودہ تعلیمی اداروں میں سے ایسے افراد کو تلاش کرنا ہوگا جو رضاکارانہ طور پر ایک متبادل نظام کا خاکہ، اس کے اہداف، اس کے لیے مطلوبہ اساتذہ اور اس کے لیے مطلوبہ علمی مواد جو نظریۂ پاکستان کو دل و دماغ میں رائج کرنے والا ہو تیار کریں، اور اسے فنی طور پر اتنا جامع بنائیں کہ یونی ورسٹیوں کے مطالعاتی بورڈ ان کتب کو اپنے ہاں استعمال کرنے کی خواہش کریں ۔
  •  تحریک کے ہمدردوں کے اداروں میں سے چند اداروں کو بطور ایک ماڈل کے منتخب کر کے انھیں نئے نصاب تعلیم و تربیت کو رائج کر کے ایک عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا۔ ملک کے باشعور افراد میں نئے نظام تعلیم کی آگاہی پیدا کرنے کے لیے ملک گیر مہم چلانی ہوگی اور تعلیم و تربیت، اخلاق و سیرت کو اپنی ترجیحات میں اوّلیت دینا ہوگی ۔ملک گیر سطح پر دانش وروں ،صحافیوں اور فلاحی کام کرنے والے افراد کو تعلیمی اصلاح کی مہم میں شامل کرنا ہوگا، تاکہ یہ تبدیلی ایک معاشرتی ضرورت بن جائے۔
  • قومی زبان میں مطلوبہ درسی کتب کی تیاری کو فنی بنیادوں پر کرنا ہوگا، تاکہ ان کا بلند معیار اور پیشہ ورانہ مہارت لوگوں کو انھیں قبول کرنے پر آمادہ کرے ۔اگر اس کام کو خلوصِ نیت اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کی اُمید کے ساتھ شروع کر دیا جائے تو لوگ ساتھ آتے جائیں گے اور کارواں بنتا چلا جائے گا ۔ کیونکہ یہ ملک کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔