نومبر ۲۰۲۴

فہرست مضامین

غزہ میں انڈیا کا مجرمانہ کردار

قمرافضل رضوی | نومبر ۲۰۲۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

۷اکتوبر کو اسرائیل پر ’حماس‘ کے حملے کے بعد، انڈین میڈیا اور صہیونیوں کی رائے عامہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی زبردست حمایت کی تھی۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تل ابیب اور نئی دہلی دونوں فلسطینی اور کشمیری علاقوں پر قبضے اور الحاق کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ۲۰۱۴ء سے انڈین وزیراعظم نریندر مودی، مقبوضہ کشمیر میں جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، وہ مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیل کی اختیار کردہ پالیسیوں سے مختلف نہیں ہیں۔ قابلِ اعتماد ذرائع کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ انڈیا، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی حمایت کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی حمایت میں انڈین ہاتھ ملوث ہے، خاص طور پر ہندوتوا حامیوں کے ذریعے۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مودی حکومت کے دور میں انڈیا، فلسطین کے مسئلے پر اپنے قدیم اور روایتی موقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے، بلکہ انڈیا نے اسرائیل کے ساتھ گہرے مشترکہ تعلقات استوار کرلیے ہیں، خاص طور پر غزہ میں جاری تنازعے کے تناظر میں۔ حالیہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا، اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور وہ غزہ میں فوجی آپریشن میں شریک ہے۔ ۱۵ مئی کو ہسپانوی ساحل پر کارگو بحری جہاز ’بورکم‘ (Borkum) سے متعلق کیس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انڈین ہتھیاروں کی کھیپ اسرائیل کو بھیجی گئی تھی۔ فلسطینی قبضے کے خلاف سولیڈیریٹی نیٹ ورک کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ’بورکم‘ میں ۲۰ٹن راکٹ انجن، ۱۲ء۵ ٹن دھماکا خیز مواد، ۳۳۰۰پاؤنڈ دھماکا خیز مادہ اور توپوں کے لیے، ۱۶۳۰پونڈ چارجر اور توپ کے گولوں کے لیے دھماکا خیز مواد تھا۔ پھر ۶ جون کو اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی۔ ’قدس نیوز نیٹ ورک‘ نے اسرائیلی جنگی طیاروں کی طرف سے گرائے گئے میزائل کی باقیات کی ویڈیو جاری کی ہیں، جن کے مطابق ایک لیبل پر واضح طور پر لکھا تھا:’میڈ اِن انڈیا‘۔

اس کے علاوہ، کچھ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ سیکڑوں انڈین فوجی یا شہری، اسرائیل میں فلسطینی عوام کے قتل عام کے حق میں مظاہرے میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیل کے لیے انڈیا کی غیرمنصفانہ حمایت سے پیداشدہ لعن طعن کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے، نئی دہلی نے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) کے ذریعے غزہ کو علامتی امداد کی ترسیل بھی کی ہے۔ اگرچہ مودی کی حکومت اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا اسرائیل کی طرف اسٹرے ٹیجک جھکاؤ ساری دُنیا پر واضح ہے۔ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے اپنی حکومت پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:’’انڈیا وہی کرے گا، جو اس کے مفاد میں ہوگا‘‘۔

انڈین ملٹری انٹیلی جنس اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کے ساتھ ساتھ اسرائیلی نسل کشی کی کارروائیوں کی حمایت بھی کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد جس میں ’غزہ میں فوری اور پائیدار جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا، انڈیا نے حمایت نہیں کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت اس سال فلسطینی مزدوروں کی جگہ ۸۰ ہزار غیر ملکی ملازمین کو مستقل طور پر بھرتی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جن کی اکثریت انڈیا سے آئے گی۔ ’امریکا،بھارت،اسرائیل گٹھ جوڑ‘ اقوام متحدہ کے نقطۂ نظر کو مسترد کرتا ہے، جو غزہ کی جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ کے نازک حالات میں انسانی ہمدردی، ترقی اور امن کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد اور مالی تعاون پر مبنی ہے۔

مزید برآں، ’ہندوتوا، صہیونی اتحاد‘ کی گھن گرج کو دیکھنا ہو تو انڈیا کی فوجی حمایت زیادہ تر غزہ میں جنگ کے دوران انڈین نیوز چینلوں پر نشر ہونے والے تبصروں سے ظاہر ہوتی ہے۔ ایکس (سابقہ ​​ٹویٹر) پر انڈیا اسرائیل ٹرینڈ شروع کیا گیا اور صہیونی حکومت کے ساتھ اپنی غیرمعذرت خواہانہ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے لیے بازاری اور گھٹیا زبان استعمال کی گئی۔ پھر کمال ڈھٹائی سے جعلی ویڈیوز اور مسخ شدہ تصاویر اور پرانی خبریں تک جاری کی گئیں۔ اس طرح انڈیا، جعل سازی اور غلط معلومات کا مرکز بن گیا، جس نے اسرائیل کو غزہ کی جنگ کا اصل ہدف قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح چند انڈین شہروں میں اسرائیل کی حمایت میں جلوس بھی نکالے گئے جہاں ’اسرائیل زندہ باد‘ کے ساتھ ساتھ ’جے شری رام‘ جیسے ’ہندوتوا‘ جیسے قوم پرست نعرے بھی لگائے گئے۔

 اسرائیل کے بارے میں انڈیا کی اختیار کردہ پالیسی، دُہرے انڈین کردار کے بارے میں سوالات اُٹھاتی ہے: ایک طرف علامتی امداد فراہم کرنے اور دوسری طرف غزہ میں اسرائیل کے ساتھ نسل کشی میں بامعنی شریک کار کے طور پر۔ اس کے ساتھ حیرت کی بات ہے کہ مرکزی دھارے کا بھارتی میڈیا غزہ تنازعہ میں انڈین کردار کے بارے میں واضح طور پر خاموش ہے۔ تاہم، انڈین میڈیا کھلے عام ایسے کلپس نشر کرتا آرہا ہے جو غزہ میں جاری ’صہیونی،بھارتی،امریکی گٹھ جوڑ‘ کے بارے میں تاثر پیدا کرتا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قانون کی رٹ کے خلاف یہ مکروہ گٹھ جوڑ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ برطانیہ کی طرف سے اسرائیل کو غیر قانونی ہتھیاروں کی فراہمی کے ردعمل کے طور پر، برطانوی دفتر خارجہ کے ایک سفارت کار نے یہ مانتے ہوئے استعفا دے دیا ہے کہ ’اس طرح برطانوی حکومت جنگی جرائم میں ملوث ہوسکتی ہے‘۔

چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضہ کسی بھی قانونی حیثیت سے درست نہیں ہے۔ اسی طرح طاقت کے زور پر یا انڈین قانون سازی کے ذریعے جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ اس لحاظ سے، تل ابیب اور نئی دہلی دونوں نے ’بین الاقوامی انسانی قانون‘ (IHL) کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ فلسطین کے بارے میں انڈیا کی پالیسی میں واضح تبدیلی اور غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی بے جا حمایت، اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کے غزہ جنگی شراکت دار کے طور پر، انڈیا کا مقصد کشمیر پر یک طرفہ طور پر قبضے کو مضبوط بنانا ہے۔ یوں اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے نئی دہلی جنگی جرائم میں ملوث چلی آرہی ہے۔