بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
عَلٰي سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۱۵ۙ مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا مُتَقٰبِلِيْنَ۱۶ (الواقعۃ ۵۶:۱۵-۱۶) وہ مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔
اہلِ جنّت ایسے تختوں پر بیٹھے ہوں گے جو جڑائو ہوں گے۔یعنی جو بادشاہوں کے تخت ہوتے ہیں۔ اس طرح کے تخت ہر اس جنّتی کو جو وہاں بھیجا جائے گا اس کے لیے مہیا ہوگا۔
مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا ، ان پر وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ مُتَقٰبِلِيْنَ سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے منہ کیے ہوئے ہوں گے۔ یعنی کوئی کسی کی طرف پیٹھ کرنے والا نہیں ہوگا، بلکہ سب اگر ایک مجلس میں بیٹھیں گے تو ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔
يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۱۷ۙ بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۱۸ۙ (۵۶:۱۷-۱۸) ان کی مجلسوں میں ابدی لڑکے شراب چشمۂ جاری سے لبریز پیالے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑتے پھرتے ہوں گے۔
ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھرتے ہوں گے جو مخلد ہوں گے۔ مخلد سے مراد دائمی ہے، یعنی وہ ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ان کی عمر میں اضافہ ہو اور وہ بوڑھے ہوں، مثلاً اگر وہ بارہ برس کا لڑکا ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بارہ برس ہی کا لڑکا رہے گا۔ ان کی خدمت کے لیے یہ خادم جو دائمی اور ابدی لڑکے ہوں گے، وہاں حاضر ہوں گے۔
انسانوں میں جو بچّے بلوغ کی عمر کو پہنچنے سے پہلے مرجائیں گے وہ چاہے کافر و مشرک کے ہوں، چاہے مسلمان کے، بہرحال وہ دوزخ میں جانے والے نہیں۔ اور جن کے والدین جنّت میں جائیں گے ان کے بچّے والدین کے ساتھ پہنچا دیئے جائیں گے (الطور، آیت۲۱)۔ قرآن مجید میں بھی صراحت ہے کہ ان کی اولاد کو ان کے ساتھ لا ملایا جائے گا لیکن جن کے والدین جنّت میں نہیں جائیں گے ان کے بچوں کو جہاں تک میرا اندازہ ہے اگرچہ قرآن مجید میں اس کی صراحت نہیں، البتہ بعض احادیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اُن بچوں کو اہل جنّت کا خدمت گار بنا دیا جائے گا، خواہ وہ کافر و مشرک کے بچّے ہوں یا ایسے مسلمانوں کے بچّے ہوں جو دو زخ میں جائیں گے۔ خدا ہرمسلمان کو اس سے بچائے۔ پس اگر کوئی مسلمان دوزخ میں جائے گا تو اس کی اولاد جو نابالغ ہے وہ دوزخ میں نہیں جائے گی۔ ان کو اہل جنّت کا خادم بنا دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جو عمر اُن کے لیے تجویز فرما دے گا کہ یہ اہل جنّت کی بہتر خدمت کرسکیں، بس وہی عمر ان کی ہمیشہ رہے گی۔
بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۰ۥۙ (۵۶:۱۸)وہ پیالے لیے ہوئے اور ٹوپی دار صراحیاں لیے ہوئے پھرتے پھریں گے۔
اکواب ، کوب کی جمع ہے۔کوب وہی چیز ہے جس کو انگریزی میں ’کپ‘ کہتے ہیں اور یہ کپ لفظ کوب ہی سے نکلا ہے۔ انگریزی میں وہ عربی زبان سے آیا ہے۔ ان بے چاروں کے پاس کپ بھی نہیں تھے۔ یہ مسلمانوں سے ان کو حاصل ہوئے۔ ابریق کہتے ہیں لوٹے کی وضع کی ایک صراحی جس کے ساتھ ایک ٹوپی لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اباریق اس کی جمع ہے۔
وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۱۸ۙ (۵۶:۱۸)اور ایسی شراب کہ جو چشموں سے نکلی ہو۔
جنّت کی شراب کسی چیز کو سڑاکر کشید کی ہوئی نہیں ہوگی بلکہ جنّت میں جو شراب ہوگی وہ چشمے کی شکل میں ہوگی۔ یہ قرآن مجید میں بھی وضاحت ہے اور یہاں تو بالکل صاف طور پر معین کالفظ استعمال کیا گیا ہے۔معین کہتے ہیں آبِ جاری کو۔ زمین میں سے جو چشمہ پھوٹ کر بہہ نکلے، وہ معین ہے۔ا حادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ وہ کسی چیز کو سڑا کر نہیں بنائی جائے گی بلکہ چشمے سے نکلے گی۔ ہر آدمی اس کو بالکل گوارا کرے گا اور یہ پاک اور صاف ہوگی۔ وہ کسی چیز کو سڑا کر نہیں بنائی جائے گی بلکہ چشمے کی شکل میں ہوگی، اور ہوسکتا ہے کہ مختلف اقسام کی شرابیں ہوں جو مختلف چشموں سے نکلتی ہوں۔
لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۱۹ۙ (۵۶:۱۹) جسے پی کر نہ ان کا سر چکّرائے گا نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔
دُنیا کی شراب کا جو بڑے سے بڑا فائدہ ہے جس کی خاطر انسان شراب کی تکلیفیں اُٹھاتا ہے اس کے نقصانات بھگتتاہے، وہ صرف سُرور ہے اور اس سُرو ر کی خاطر انسان شراب کو استعمال کرتا ہے۔ لیکن دُنیا کی شراب کا یہ سُرور انسان کو اتنا مہنگا پڑتا ہے کہ جیسے ہی وہ قریب آتی ہے اس وقت سے اس کی تکلیفیں شروع ہوجاتی ہیں۔
شراب جیسے ہی قریب آتی ہے پہلے تو اس کی سڑانڈ آتی ہے۔ کسی بھلا آدمی کیا، کسی بُرے آدمی کو بھی اس کی بُو پسند نہیں ہوتی۔ اس کے بعد اس کا مزہ تلخ ہوتا ہے۔ پھر جب وہ حلق سے گزرتی ہے تو معدے تک کاٹتی ہوئی جاتی ہے۔ پھر آدمی کو دورانِ سر لاحق ہوتا ہے، یعنی اس کا سر چکّرانے لگتا ہے۔ زیادہ پی جائے تو قے ہوتی ہے اور نامعلوم کیا کیا تکلیفیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہاں یہ بتا رہا ہے کہ وہ شراب ہوگی لیکن ایسی شراب نہیں ہوگی جس کے نقصانات اور اس کی تکلیفیں وہ ہوں جو اس دُنیا میں ہوتی ہیں کہ اس کو پی کر دورانِ سر لاحق ہواور آدمی اس کو پی کر بہکے، اُول فول بکے اور اپنے ہوش و حواس میں نہ رہے۔
وَفَاكِہَۃٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ۲۰ۙ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَہُوْنَ۲۱ۭ (۵۶:۲۰-۲۱) اوروہ ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چُن لیں، اور پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں۔
ایک اور مقام پر قرآن مجید میں صرف گوشت کا ذکر ہے اور یہاں پرندوں کے گوشت کا ذکر ہے۔میرا اندازہ یہ ہے کہ جس طرح سے جنّت کی شراب مصنوعی نہیں ہوگی بلکہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور جس طرح سے جنّت کا شہد بھی مگس کی قے نہیں ہوگا بلکہ وہ بھی چشموں کی شکل میں نکلا ہوا ہوگا، اور جنّت کا دودھ بھی جانوروں کے تھنوں سے دوھا ہوا نہیں ہوگا بلکہ چشموں کی شکل میں نکلے گا اور نہر کی شکل میں بہہ رہا ہوگا اور یہ قرآن مجید میں بھی ہے اور احادیث میں بھی۔ اسی طرح سے میرا خیال یہ ہے اگرچہ اس کی صراحت مجھے کہیں نہیں ملی ہے، لیکن میرا اندازہ ہے کہ وہاں کا گوشت بھی جانوروں کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا بلکہ وہ قدرتی طور پر پایا جائے گا۔ وہ جس چیز کے گوشت کی حیثیت سے بھی آدمی کے سامنے آئے گا، مزے میں بہترین ہوگا۔ اگر ہرن کے گوشت کی حیثیت سے آئے گا تو ہرن کا جو بہترین گوشت ممکن ہے وہ مزا ہوگا لیکن وہ کسی ہرن کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ کسی ہرن کو گولی مار کر حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ اسی طرح سے پرندوں کا گوشت ہے۔ یہ بھی گویا قدرتی طور پر پیدا ہوگا جانوروں کو ذبح کرکے اور اُن کے پَر نوچ کے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔
وَحُوْرٌ عِيْنٌ۲۲ۙ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۲۳ۚ (۵۶:۲۲-۲۳) اور ان کے لیے خوب صورت آنکھوں والی حُوریں ہوگی، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔
آدمی نفیس ترین چیز کو چھپا کر رکھتا ہے۔ حُوریں ایسے موتیوں کی طرح ہوں گی، جن کو چھپاکر رکھا جاتا ہے۔
جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۲۴ (۵۶: ۲۴) یہ سب کچھ ان اعمال کی جزا کے طور پر انھیں ملے گا جو وہ دُنیا میں کرتے رہے تھے۔
یعنی یہ بدلہ ہوگا ان کے ان اعمال کا جو وہ دُنیا میں کرکے آئے ہیں۔
لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا۲۵ۙ (۵۶: ۲۵) وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔
جنّت کی ساری نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں گویا یہ ایک عظیم ترین نعمت کا ذکر کیا ہے۔ جنّت کی بہت بڑی نعمت یہ ہوگی کہ آدمی کے کان میں کوئی بیہودہ بات نہیں پڑے گی۔ آدمی گناہ کی بات یا کوئی فحش بات نہیں سنے گا۔ اس دُنیا میں ایک نیک آدمی جس کے اندر فی الواقع ذوقِ سلیم موجود ہو اور جس کی روح میں طہارت اور پاکیزگی موجود ہو، اس کے لیے انتہائی اذیت کی چیز ہوتی ہے کہ انسانی بستی میں گزر رہا ہے تو اِدھر سے گالی کی آواز پڑرہی ہے اور اُدھر سے کسی کی غیبت کی گفتگو سن رہا ہے۔ اِدھر سے کوئی بیگم صاحبہ کوئی فحش گانا گارہی ہیں اور کہیں کسی اور طرح سے بیہودہ باتیں ہورہی ہیں۔ اس بھلے آدمی کے لیے یہ پریشانی ہوگی کہ ان بستیوں میں کہاں رہے؟ کہاں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد اور بال بچوں کو لے کر جائے کہ ان بلائوں سے محفوظ رہے۔ جنّت کی یہ نعمت ہوگی کہ وہاں آدمی کے کان بُرائیوں سے محفوظ رہیں گے۔ آگے چل کر الفاظ ہیں:
اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۲۶ (۵۶:۲۶)جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔
’سلام‘ کا لفظ قریب قریب اسی معنی میں ہے جس کو انگریزی میں sane کہتے ہیں، یعنی جو کچھ بھی سنیں گے معقول اور صحیح بات سنیں گے۔ ایسی بات سنیں گے کہ جس کے اندر کسی قسم کی کوئی بُرائی نہیں ہوگی۔
وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۲۷ۭ (۵۶:۲۷) اور دائیں بازو والے، اور دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔
یعنی دائیں ہاتھ والے لوگ یا اچھی اُمیدیں رکھنے والے لوگ تو ان کا کیا کہنا۔
فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۲۸ۙ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۲۹ۙ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۳۰ۙ وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۳۱ۙ (۵۶:۲۸-۳۱) وہ ایسے باغوں میں ہوں گے جہاں بے خار بیریوں اور تہ بر تہ چڑھے ہوئے کیلوں اور دُور تک پھیلی ہوئی چھائوں، اور ہر دم رواں پانی ہوگا۔
وہ ایسے باغوں میں ہوں گے کہ جن میں بے خار بیر ہوں گے۔ دُنیا میں عام طور پر جو بیر ہوتے ہیں وہ بہت گھٹیا قسم کے ہوتے ہیں لیکن اعلیٰ درجے کے بھاری بیر بعض اوقات سیب کے بچّے معلوم ہوتے ہیں۔ گویا ایسی بیریاں ہوں گی جن کے اندر کسی قسم کا کوئی خار یا کانٹا نہیں ہوگا۔
وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۲۹ۙ ، جن میں کیلے ہوں گے جن کی بیلیں تہ در تہ چڑھی ہوئی ہوں گی۔
وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۳۰ۙ ،اور دراز سایہ ہوگا، یعنی بڑے گھنے باغ ہوں گے کہ جن کو آدمی دیکھے تو دُور دُور تک اس کا سایہ ہی سایہ ہو اور دھوپ نہ پڑتی ہو۔
وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۳۱ۙ ،اور دائماً بہنے والا پانی۔
وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۳۲ۙ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۳۳ۙ (۵۶: ۳۲-۳۳) اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھل۔
لَّا مَقْطُوْعَۃٍ ، یعنی ان باغوں کے پھلوں کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔ ان کے لیے کوئی موسم مقرر نہیں ہوگا کہ ہر پھل کسی خاص موسم میں پیدا ہو اور موسم گزرنے کے بعد ختم ہوجائے، بلکہ ان کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ ہرپھل جو ان کو پسند ہے وہ ہمیشہ ان کو ملے گا۔
وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۳۳ۙ ،اور نہ ان کے اُوپر کسی قسم کی پابندی ہوگی۔ یعنی دُنیا کے باغوں کی طرح کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی جہاں سے جتنا چاہیں کھائیں۔
وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۳۴ۭ (۵۶: ۳۴) اور اُونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔
اور ان کے لیے بلند بستر ہوں گے۔ وہ اس طرح کے باغوں میں ہوں گے۔
اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۳۵ۙ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۳۶ۙ (۵۶: ۳۵-۳۶)اور ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں باکرہ بنادیں گے۔
وہاں جو حُوریں اور جو بیویاں ان کو ملیں گی ہم نے ان کو پیدا کیا ہے۔ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا،اور ان کو ہم نے باکرہ بنایا۔ ہم نے ان کو خاص طریقے سے پیدا کیا ہے۔ انسان کا خاص طریقے پر پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں جو عورت کسی کی بیوی تھی اگر وہ اس کے ساتھ جنّت میں جائے گی تو اللہ تعالیٰ گویا اس کو نئے سرے سے پیدا کرے گا چاہے دُنیا میں وہ بوڑھی ہوکر مری ہو اور اللہ تعالیٰ اسے نئے سرے سے جوان بنائے گا۔ اگر دُنیا میں وہ خوب صورت نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ اس کو نہایت خوب صورت بنائے گا مگر اس طرح سے کہ معلوم یہ ہوگا کہ وہی عورت ہے جو دُنیا میں اس کی بیوی تھی، یعنی اس کے فیچرز محفوظ ہیں اور اس کو خوب صورت بنایا جارہا ہے۔ اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان کو خاص طور پر بنایا ہے۔
فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۳۶ۙ عُرُبًا اَتْرَابًا۳۷ۙ (۵۶: ۳۶-۳۷) اور ان کو باکرہ بنادیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سِن۔
عربا کے معنی ہیں شوہر کو چاہنے والی اور اتراب سے مراد ہے ہم سِن، یعنی وہاں وہ ان کی ہم سِن بنا دی جائیں گی اور وہ اپنے شوہر سے نہایت محبت کرنے والی ہوں گی۔
لِّاَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۳۸ۭۧ (۵۶: ۳۸) یہ سب کچھ اصحاب ِ یمین کے لیے ہوگا۔
گویا دو قسم کے جنّتی ہوں گے۔ ایک جنّتی وہ ہیں جو سابقین ہیں اور دوسرے جنّتی وہ ہیں جو اصحابِ یمین ہیں۔ سابقین کے متعلق وہاں فرمایا گیا کہ وہ اُمت کے ابتدائی دور میں کثیر ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں وہ قلیل ہوں گے۔ قلیل کے متعلق پھر میں وضاحت کردوں کہ قلیل کا مطلب مجموعہ میں قلیل ہونا ہے ، تعداد میں قلیل ہونا نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نبیؑ کی دعوت کے ابتدائی زمانے میں مثلاً دو ہزار اس طرح کے لوگ ہیں لیکن چونکہ اُمت کی تعداد ہی کم تھی اس لیے وہ اُمت میں عظیم اکثریت تھے۔ ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر وہ دس لاکھ ہوں لیکن اُمت اگر کروڑوں کی ہے تو وہ اقلیت ہیں۔اس بات کو ملحوظ رکھیے۔ یہ مت سمجھیے کہ قلیل سے مراد ہے تعداد میں قلیل ہونا بلکہ اُس سے مراد ہے اقلیت میں ہونا۔یہاں اصحابِ یمین کے بارے میں فرمایا:
ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۳۹ۙ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۴۰ۭ (۵۶:۳۹-۴۰)وہ اگلوں میں سے بھی بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے بھی بہت۔
یعنی کثیر تعداد اوّلین میں اور کثیر تعداد آخرین میں۔ گویا اُمت کے اندر ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی۔ ہر دور میں اصحابِ یمین ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت ساری کی ساری دوزخیوں پر مشتمل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت کے اندر اصحابِ یمین کی بہت ہی تھوڑی اقلیت باقی رہ جائے۔ نہیں، اُمت میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اصحابِ یمین قرار پائیں گے۔ اس چیز کو سمجھنے کے لیے اس بات کو بھی ملحوظ رکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ جو لوگ میرے زمانے میں موجود ہیں اگر انھوں نے جو اِن سے دین میں مطلوب ہے، انھوں نے اس کے دس حصوں میں سے نو حصوں پر عمل کیا ہو، تب بھی ان سے بازپُرس ہوگی کہ انھوں نے ایک حصہ بھی کیوں چھوڑا ہے؟ لیکن ایک ایسا دور آئے گا کہ ان دس حصوں میں سے اگر کسی آدمی نے ایک حصے پر عمل کیا تو اس پراجر پائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ یہ بتایا گیا ہے کہ بعد کے دور میں کثیرتعداد ہوگی آخرین کی۔ اگر ایک زمانہ ایسا آجائے کہ جس میں خدا کا نام لینا بھی شرمناک ہوجائے۔ ایک آدمی سے یہ توقع کی جائے کہ وہ خدا کا نام زبان پر نہ لائے۔ اگر وہ خدا کا نام زبان پر لاتا ہے تو گردوپیش کے لوگ اس کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیسا رجعت پسند آدمی ہے کہ جو اس زمانے میں خدا کی باتیں کر رہا ہے۔ جب ایسی حالت آجائے تو اس میں اگر کوئی شخص خدا کا نام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں، میں خدا کو مانتا ہوں اور ایک مانتا ہوں، تو یہ جہاد کر رہا ہے اور اجر کا مستحق ہے۔
ایک ایسا زمانہ خود ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب ایک آدمی کو کھلے میدان میں یا کسی پارک وغیرہ میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ کیا کروں اور کہاں جائوں؟ اگر یہاں نماز پڑھوں گا تو سیکڑوں آدمی مجھے دیکھ رہے ہیں۔ وہ میرا مذاق اُڑائیں گے۔ اس حالت میں جن لوگوں نے نمازیں پڑھی ہیں ان کی نماز کا اجر، ظاہر بات ہے کہ اُس دور کی نمازوں سے بہت زیادہ ہے کہ جس دور میں اگر کوئی آدمی نماز نہ پڑھتا تھا تو نکو بن جاتا تھا۔ آج نماز پڑھنے والا نکو بن جاتا ہے۔ پس جو آدمی اُس دور میں نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز کے اجر کا کیا پوچھنا! یہ اس دور کی نماز کی بہ نسبت زیادہ ہوگا جب نماز نہ پڑھنے والا نکو بن جاتا تھا۔ جہاں حالت یہ تھی کہ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۱۴۲ (النساء ۴:۱۴۲) ’’جب نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔
یہ منافقین کی تعریف ہے۔ منافقین کے متعلق قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ وہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے اُٹھتے ہیں۔یہ ہے علامت منافقین کی۔اب نماز نہ پڑھنے والا مسلمانوں کے اندر ہے۔ اُس وقت نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اُٹھنے والا منافق شمار ہوتا تھا۔
اس طرح مختلف حالات کے اعتبار سے اعمال کا وزن اللہ تعالیٰ کے ہاں قرار پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال کا وزن صرف اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اُس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں اور اِس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں۔ رکعت اور رکعت میں اور حالات کے لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہوجاتا ہے جس میں ایک شخص نے نماز پڑھی ہے۔ اور نامعلوم کیا کیا چیزیں ہیں کہ جو مل جل کر اللہ کی نگاہ میں اعمال کی قدر بڑھاتی یا گھٹاتی ہیں۔ اسی وجہ سے فرمایا کہ اصحابِ یمین، نبی ؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں بھی بہت ہوں گے اور آخری دور میں بھی کثیر ہوں گے، البتہ سابقون نبیؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں زیادہ ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں کم ہوں گے۔(جاری)