مالک بن نبی (۱۹۰۵ء-۱۹۷۳ء)کا شمار مسلم دنیا کے معتبر مصلحین میں ہوتا ہے، جنھوں نے اسلامی تمدن کی ترقی کے بارے میں گہرے خیالات و افکار ثبت کیے۔ وہ ایسا وژن رکھتے تھے، جس کی بنیاد اسلامی فکر تھی اور جو معاصر عملی، سائنسی چیلنج سے پوری طرح آگاہ تھے۔
وہ اسلامی تہذیب کی موجودہ صورتِ حال کے اسباب کے بارے میں گہرا شعور رکھتے اور اپنی ایک الگ شناخت رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک: ’ملت اسلامیہ کی اس کسمپرسی کے زوال کے اسباب میں سے اہم ترین وجہ اخلاقی پستی ہے‘۔ اسی وجہ سے انھوں نے اس مرض کا علاج کرنے اور اسلامی معاشرے کو ترقی اور عروج کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے، فرد اور معاشرے کی بہترین تعلیمی اور اخلاقی تربیت پر توجہ دی۔
مالک بن نبی الجزائر کے علاقے قسنطین کے شہر تبسہ کے ایک غریب، دینی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین غربت کے باوجود، اپنے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند تھے اور انھوں نے اسے ایک فرانسیسی اسکول میں داخل کرایا، جب کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے قسنطین جانے سے پہلے انھوں نے مساجد میں اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ وہ مسلم اسکالرز کی انجمن سے بھی متاثر تھے، جس کی سربراہی عبدالحمید بن بادیس (۱۸۸۹ء-۱۹۴۰ء)کر رہے تھے، جس نے انھیں علم اور مطالعہ سے محبت کرنے پر اُبھارا، اور ان کی فکر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے فرانس کا سفر کیا، جہاں ان کے لیے راستہ ہموار نہ تھا، کیونکہ انھوں نے مسیحی عقائد پر مذاکروں اور مکالموں میں بھرپور انداز سے حصہ لیا تھا۔ وہ پیرس میں مراکشی اتحاد کے اہم رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ۱۹۳۵ء میں الجزائر واپس آئے، لیکن جلد ہی ۱۹۳۹ء میں پیرس واپس چلے گئے، اور اپنے آپ کو فکری اور صحافتی کام کے لیے وقف کر دیا، اسی دوران میں فرانس کے مشہور اخبار Le Monde سے وابستہ بھی رہے، اور اپنی پہلی کتاب الظاھرۃ القرآنية شائع کی۔ وہ ۱۹۵۶ء میں قاہرہ چلے گئے اور ۱۹۶۳ء تک وہیں رہے۔ اس دوران ان کی علمی وابستگی ایک سے زیادہ سمتوں میں بڑھی۔ انھوں نے عربی زبان پر عبور حاصل کیا، اور متعدد یونی ورسٹیوں اور اداروں میں لیکچرز دیتے رہے۔
الجزائر کی آزادی کے بعد ۱۹۶۳ء میں وہ الجزائر واپس آئے اور بہت سے اعلیٰ علمی عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۶۷ء میں انھوں نے اپنے آپ کو علم اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے وقف کردیا یہاں تک کہ ۴شوال ۱۳۹۳ ہجری بمطابق اکتوبر ۱۹۷۳ء کو اس دار فانی سے اس وقت کوچ کر گئے جب ان کی عمر اَڑسٹھ برس تھی۔
مالک بن نبی کے نزدیک: کسی بھی معاشرے کا مسئلہ بنیادی طور پر تہذیبی ہوتا ہے۔ کوئی معاشرہ کسی مسئلے کو اس وقت تک سمجھ یا حل نہیں کر سکتا، جب تک کہ وہ انسانی واقعات کے بارے میں اپنے خیالات کو نہیں اٹھاتا، اور جب تک وہ تہذیبوں کی تعمیر یا تباہی کے عوامل کے بارے میں اپنی سمجھ میں گہرائی پیدا نہیں کرتا۔
اُن کا خیال تھا: ایک پڑھا لکھا شخص اپنے خیالات اور محسوسات کی بنیاد پر یہ سمجھتا اور محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا خود خالق ہے۔ تاہم، اس کی دینی تربیت، اس کی تعلیم کو مذہب سے جوڑ دیتی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی تہذیب خواہ وہ تین عناصر(انسان، – مٹی، – وقت) پر مبنی ہی کیوں نہ ہو، مذہبی عنصر ہی ان سب کو یکجا کرتا ہے، جو اخلاقیات سے بھرپور فرد اور معاشرے کی تعمیر پر مبنی ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ثقافتی اور تہذیبی نسبت کے بغیر کوئی تعلیمی نظام نہیں ہے، جو اسے ترتیب دیتا ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ انسانی ثقافتوں کی کثرت تعلیمی نظاموں کی کثرت کا بہترین ثبوت ہے۔ ہر انسانی معاشرہ اپنے تہذیبی وژن کے مطابق اپنے تعلیمی و تربیتی نظام کو تشکیل دیتا ہے۔لہٰذا، اچھی اور کامیاب تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل اور رکاوٹوں کا مقابلہ کریں، جو قوم، معاشرے اور فرد کی راہ میں حائل ہوں اور ان کا علاج کرنے کی کوشش کریں اور ان سے علمی، تحقیقی اور منطقی نقطۂ نظر کے ساتھ نبردآزما ہوں۔
اسی لیے مالک بن نبی جدید تعلیمی فکر سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں، اور کہتے ہیں: تعلیم کی بنیادی ذمہ داریاں تعلیم یافتہ فرد کو انفرادی اور معاشرتی سطح پر درپیش چیلنجوں اور مسائل کی نوعیت کو سمجھنے کے قابل بنانا ہے۔ اس طرح فرد کو مسائل حاضرہ کے مطابق ڈھالنے اور مستقبل کے امکانات کا اندازہ لگانے کے لیے تیار کرنا ہے۔ اگر ہمیں ایسی تعلیم کی قدروقیمت ہو، جو قوم کے تشخص اور امتیازات کو محفوظ رکھتی ہو، تو ہمیں ایسی تعلیم ہی کی اشد ضرورت ہوگی، جو تعلیمی نظام کو نظریاتی تحقیق کی تنگنائیوں سے باہر نکال کر جدید تجربات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے وسعت دے، جو ملت اسلامیہ کے ماضی سے ہم آہنگ ہوکر حال اور مستقبل کی تعمیر کرے۔
وہ کہتے ہیں: ٹھوس اور حقیقی دینی بنیادوں سے وابستگی اور اپنے عہد میں علم وفکر کی جدیدکاری، اسلامی اور جدید تعلیمی و تربیتی عمل کے دو لازمی عناصر ہیں۔ روایت، یعنی اپنی بنیادوں اور تراث سے وابستہ رہنا، جو کہ ترقی کے ساتھ بقائے باہمی کو یقینی بناتی ہے۔ مگر روایت پر قائم رہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جدید کو مکمل طور پر رَد کر دیا جائے۔ بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ان کے درمیان ایک مرکب اور امتزاج ہونا چاہیے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے تعلیمی عمل کو تقویت ملتی ہے۔
مالک بن نبی نے مطالعے اور تحقیق کے لیے اخلاقی اقدار کو الگ نہیں کیا، سوائے اس کے جب انھوں نے ثقافت کے تصور کے اپنے تجزیے میں شامل کیا، جسے وہ اخلاقی خصوصیات اور سماجی اقدار کا مجموعہ سمجھتے ہیں، جو فرد کو اس کی پیدائش سے متاثر کرتی ہیں اور لاشعوری طور پر وہ رشتہ بن جاتا ہے، جو اس کے طرزِ عمل کو اس ماحول کے طرز زندگی سے جوڑتا ہے، جس میں وہ پیدا ہوا ہے۔
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ مالک بن نبی کے مطابق ثقافت کس طرح بنیادی طور پر اخلاقی اقدار پر مبنی ہوتی ہے، جو بچپن سے ہی فرد کی تشکیل اور پرورش پر اثر انداز ہوتی ہے، تاکہ وہ اس کی زندگی سے گہرا تعلق جوڑتے ہوئے اس کے طرزِ عمل کی ایک مخصوص خصوصیت بن جائے۔ جسے وہ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اس نمونے کے مطابق بناتا ہے، جس میں اس نے پرورش پائی ہوتی ہے۔
مالک بن نبی کے مطابق تہذیبی و ثقافتی نظام ان چار بنیادی عناصر پر مشتمل ہوتا ہے:
وہ کہتے ہیں: ہم دیکھتے ہیں کہ کسی معاشرے کی زندگی میں نظریات کی اہمیت دو صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے: ایک یہ کہ وہ سماجی زندگی کی ترقی کے عوامل کے طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، یا پھر روگ بڑھانے والے عوامل کے طور پر کام کرتے ہوئے مدِمقابل کو متاثر کرتے ہیں۔
مالک بن نبی کے سماجی نظریات کی بنیاد اس معاشرے کے ساتھ وابستہ تھی، جس میں وہ رہتے بستے تھے۔ فرانسیسی سامراج کے جبر نے انھیں ان مسائل کے حل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی مزاحمتی فکر میں یہ سوال خاص طور پر اٹھایا گیا کہ استعماری طاقت سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟ اور معاشرے میں پائی جانے والی پس ماندگی کی دھول کو کیسے جھاڑ دیا جائے؟
چنانچہ مالک بن نبی نے اخلاقی اقدار کو ہمیشہ معاشی اقدار پر فوقیت دی ہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ انسان ہی ہر تہذیبی، تمدنی اور معاشی ترقی کا ذریعہ ہے۔ کسی بھی تہذیبی، تمدنی، معاشی ترقی کا ظہور اس انسان کی مرضی پر منحصر ہے، جو ایک ایسے عقیدے پر یقین رکھتا ہے جو تہذیبی اقدار کو اپنے اندر سمیٹ کر انھیں بھرپور نشوونما دیتا ہے۔
تہذیب کی منزلیں انسانی زندگی کے ان مراحل سے ملتی جلتی ہیں، جن کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے: کمزوری، پھرطاقت سے بھرپور جوانی ، پھر کمزوری اور زوال۔ اس مسلسل عمل نے بہت سے دانش وروں کو اس زوال اور انحطاط کے اسباب و علل پر غوروفکر پر اُکسایا، جس سے تہذیبیں دوچار ہوتی ہیں۔ تاہم، ان تصورات کی حیثیت کتابی حد اور غیرحقیقی دُنیا تک محدود رہی۔ اسی لیے مالک بن نبی کے خیال میں: تعلیم اس وقت تک اپنا پھل نہیں دیتی، جب تک کہ اسے حقیقت پسندی سے نہ جوڑا جائے۔ اگر تعلیم محض فلسفیانہ موشگافیوں کی حد تک محدود ہوکر رہ جائے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
اُن کے نزدیک: جب انسان بنیادی فرائض کی ادائیگی کی طرف گامزن ہوتا ہے تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ حقیقت کا سامنا اس کے تمام منفی پہلوؤں کے ساتھ کرنا ناممکن نہیں ہے۔ لہٰذا، حقیقت کا مطالعہ سائنٹی فک نقطۂ نظر پر مبنی ہونا چاہیے، تاکہ رسمی اور سرسری نقطۂ نظر ہمیں یہ باور کرکے گمراہ نہ کر سکے کہ تجدید ہو رہی ہے اور چیزیں ٹھیک ٹھاک چل رہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں: حقیقت کو فراموش یا نظر انداز کرنا، اور ایک نیا اور خود ساختہ تعمیراتی عمل شروع کرنا، ایسی غلطیوں اور خطرات کا باعث بنتا ہے، جن سے بچنا ضروری ہے۔ ایسا طرزِفکروعمل ایک ایسے معاشرے میں ڈھال دیتا ہے، جو اپنے آپ کو اپنی تاریخی جڑوں سے الگ کرکے ترقی کے خواب دیکھتا ہے، اور سماجی اور سیاسی ڈھانچے کی سنگین غلطیوں کو بار بار دُہراتا ہے۔
یہ بات مالک بن نبی کو اس وقت محسوس ہوئی جب انھوں نے دیکھا کہ ’روایت‘ اور ’جدیدکاری‘ کے معاملے میں ایک متضاد اور متحارب تقسیم کارفرما ہے، جس کی وجہ سے اکثر خیالات کی دنیا میں انتشار اور عدم توازن پیدا ہوتا ہے، اور اس کے نتیجے میں رویے کی دنیا میں ہنگامہ آرائی پیدا ہوتی ہے۔
مالک بن نبی کا خیال ہے: نوجوانوں کو ملنے والی تعلیمی اقدار اور معاشرے میں رائج ثقافتی اقدار کے درمیان عدم مطابقت سے اسلامی معاشرے اپنے تہذیبی دور سے ہٹ چکے ہیں۔
اُن کے بقول: زوال اور تہذیبی بحران کی وجہ ایمان کی کمزوری یا ایمان اور عقیدے کی تاثیر کا کم ہونا ہے، جس کا آغاز ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات سے قرآن مجید کی بے دخلی سے ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا بڑا سبب ذہنی اور جذباتی غفلت، اور ثقافتی دنیا میں عدم توازن (خیالات کی دنیا، – لوگوں کی دنیا، – چیزوں کی دنیا) ہے، جو ایک دنیا کے دوسرے پر غلبہ کا باعث ہے۔ عام طور پر ہمارے اہل علم کے ہاں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ثقافتی ’جائزہ‘ اور ’تنقید‘، اس فکری اور تعلیمی یلغار کا ذکر نہیں کیا جاتا، جس نے نوآبادیاتی دور میں اسلامی عوام کو متاثر کیا ہے۔
اسی طرح یہ تثلیث: دین / اخلاقیات / تہذیب___ مالک بن نبی کی تہذیبی نشاتِ ثانیہ کے منصوبے میں دلچسپی کے اہم مراکز میں سے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی تشکیل کے فوراً بعد پہلا اقدام اجتماعی تعلقات کے نیٹ ورک کو جوڑ کر مضبوط کرنا ہے (جیسے اسلامی معاشرے کے معاملے میں بھائی چارہ پیدا کرنا)۔ پھر سب سے پہلی چیز جس سے معاشرہ اپنی موت کی طرف بڑھتا ہے، وہ ہے اس کے اخلاقی ڈھانچے کا زوال۔
اُن کا خیال ہے: معاشرے کی تشکیل، انسان کی فطری جبلت کا اظہار ہے اور مہذب معاشرہ وہ ہے جو اس جبلت کو معمول پر لاتا ہے اور اس کی رہنمائی کرتا ہے اور افراتفری اور انتشار سے بچنے کے لیے اخلاق کے ساتھ اس کی سطح کو بلند کرتا ہے۔ یہ چیز مرکزی طور پر انبیا علیہم السلام کے اخلاقیاتی پیراڈائم میں سے ہے، کیونکہ ان کا مقصد افراد کو ایک دوسرے سے جوڑنا تھا، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس جانب اشارہ فرمایا ہے: ’’اور مومنوں کے دل ایک دُوسرے کے ساتھ جوڑ دیے، تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے، مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے [الأنفال۸:۶۳] لہٰذا، اخلاقی پہلو عمومی طور پر معاشرے کی سمت کے تعیین کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔
مالک بن نبی نے معاشی اعتبار سے کم زور اور پس ماندہ دنیا کے بنیادی اور مرکزی مسائل پر ایک بڑا قیمتی سلسلۂ مضامین لکھا، جس کا آغاز انھوں نے سب سے پہلے پیرس سے کیا اور پھر مصر اور الجزائر میں بھی غوروفکر، اور اظہار و بیان جاری رکھا۔
مالک بن نبی نے اپنے فکری منصوبے میں تہذیب کے تصور کو ایک مرکزی مقام دیا، جس کی نمائندگی ان اخلاقی و مادی حالات اور وسائل سے ہوتی ہے، جو انھوں نے اپنے ہر فرد کو فراہم کی ہیں۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کی زندگی کے ہر مرحلے میں مالک بن نبی کی زندگی انسانی تہذیب کے تحفظ اور بقا کی اہمیت و افادیت کے بارے فکرمندی سے وابستہ نظر آتی ہے۔ تہذیب کی تعمیر میں اقدار کو فعال کرنے کی دعوت، اور اخلاقیات اور انسانی رویے کو بہتر بنانا، وہ تہذیب کا بنیادی اور اولین ہدف قرار دیتے ہیں۔ (montdatarbawy.com/urdu)