۷؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو غزہ میں جنگ کا ایک سال ہوا۔ اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف سے نسل کشی کا مرتکب قرار دیا گیا،لیکن وہ اپنے مددگاروں اور فوجی طاقت کے نشے میں ایسا بدمست ہے کہ اخلاق، قانون ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں ، بین الاقوامی سطح پر اس کے خلاف ہونے والے تاریخ کے سب سے بڑے اور مسلسل مظاہروں کی پروا کیے بغیر غزہ میں مسلمانوں پر ناقابلِ بیان مظالم اور نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۲۴ءکو غزہ کی صورتِ حال پر برطانیہ کی درخواست پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔ یہ غزہ پر ایک سال میں سلامتی کونسل کا ۴۷واں اجلاس تھا۔اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مسئلے پرایک سال میں اتنے اجلاس ہوئے، لیکن اسرائیل نے کونسل کی تمام قراردادوں کی پروا کیے بغیر غزہ میں قتل عام جاری رکھا ہوا ہے، جس کی واحد وجہ امریکا کی پشت پناہی ہے۔
اسرائیلی اخبار کے ۴ستمبر ۲۰۲۴ء کے شمارے میں شمالی غزہ کے بارے میں اسرائیل کے ایک منصوبے ’جرنیلوں کا پلان‘ کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے، جس میں کھل کر کہا گیا کہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) گیورا ایلانڈ کی قیادت میں تیارکردہ منصوبے کے مطابق شمال کے پورے علاقے، یعنی پورےغزہ شہر کو ایک مکمل محصور فوجی علاقے میں تبدیل کیا جائے گا اور شمالی غزہ کی پوری آبادی کو ایک ہفتے کے اندر یہ علاقہ فوری طور پرچھوڑنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں کہا گیا ہے: ’’ اکتوبر، نومبر، یا دسمبر ۲۰۲۴ء یا شاید ابتدائی ۲۰۲۵ء میں اسرائیلی فوج شمالی غزہ میں اس نئی کارروائی کا آغاز کرے گی (یعنی آپریشن کلین اَپ)۔ مکمل محاصرہ سے پہلے پانی، خوراک، اور ایندھن کی تمام فراہمی بند کردی جائےگی ، یہاں تک کہ جو لوگ یہاں پر رہ جائیں وہ ہتھیار ڈال دیں یا بھوک سے مرجائیں‘‘۔
اسرائیل کی قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر، وزیر خزانہ بیزل ایل اسموٹریچ اور دیگر نسل پرست وزراء کھل کر اِس کا اعلان کر چکے ہیں اور بااثر اسرائیلیوں نے بھی فوج سے شمالی غزہ میں مکمل نسل کشی کرنے کی اپیل کی ہے۔ پروفیسر اُزی رابی نے جو تل ابیب یونی ورسٹی کے ایک سینئر محقق ہیں، ۱۵ ستمبر کو ایک ریڈیو انٹرویو میں اس پر تفصیل سے بات کی۔ اور اگست میں، Ynet کی ایک رپورٹ کے مطابق، حکومت کے وزراء نے پہلے ہی نیتن یاہو پر شمالی غزہ کے رہائشیوں کا’صفایا‘ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔
یہ سطور لکھتے وقت اس منصوبے پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ ۶؍ اکتوبر سے شمالی غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے وہاں بلاتخصیص قتل و غارت اور نسل کشی کا سلسلہ تیز تر کردیا گیا ہے اور بچوں، خواتین، اور نہتے شہریوں کو بے دریغ قتل کیا جارہا ہے۔
اس ساری صورت حال کے تین پہلو اہم ہیں، جس کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے:
عرب سینٹر برائے واشنگٹن ڈی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے: ’’مئی تک گرائے جانے والے۴۵ہزار بموں میں تقریباً ۹ سے ۱۴ فی صد بم نہیں پھٹے۔ اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس (UNMAS) نے اندازہ لگایا: ’’ان دھماکا خیز باقیات کو صاف کرنے میں کم از کم ۱۴ سال لگیں گے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے سفید فاسفورس کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا ہے، جو بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت ممنوع ہے ‘‘۔
دنیا کی ’مہذب‘ اور مغرب زدہ طبقوں کے مطابق ’رول ماڈل‘ اقوام اپنی ’تہذیب ‘کا غزہ میں عملی اظہار اور برملا اعلان کر چکی ہیں، جس میں تہذیب کا نام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ بقول پروفیسر انور مسعود:
آج تمھاری خوں خواری پر حیرت ہے حیوانوں کو
تم تو کل تہذیب سکھانے نکلے تھے انسانوں کو
یہ بھی کیسا شوق ہے تم کو شہروں کی بربادی کا
جگہ جگہ آباد کیا ہے تم نے قبرستانوں کو
ہنستے بستے قریے تم نے شعلوں میں کفنائے ہیں
ریت میں دفن کیا ہے تم نے کتنے نخلستانوں کو
زنداں زنداں بھیڑ لگائی بے تقصیر اسیروں کی
مقتل میں تبدیل کیا ہے تم نے پھر زندانوں کو
کتنے ہی معصوم سروں سے تم نے چھاؤں چھینی ہے
کتنادکھ پہنچایا تم نے ننھی ننھی جانوں کو
اتنے بھی سفاک منافق دنیا نے کب دیکھے تھے
کتوں کا منہ چومنے والے قتل کریں انسانوں کو
ظلم وستم کی خونی شب کا منظر بجھنے والا ہے
اِک عنوان فراہم ہوگا عبرت کے افسانوں کو
باطل کا بے ہنگم غوغا کوئی دم کا مہماں ہے
کوئی شور دبا نہیں سکتا، مست الست اذانوں کو
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِيَہٗ مِنْ اٰيٰتِنَا۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۱)
پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد ِ حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے تاکہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔
یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ سے براہِ راست معراج پر لے جانے کے بجائے پہلے مسجد اقصٰی لے جایا گیا۔
آج مسلمانوں کی حالت حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کے مصداق ہے جس میں فرمایا گیا:’’ قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمھارے خلاف (لڑنے کے لیے) دوسری قوموں کو بلائیں جس طرح کھانے والے کھانے کے برتن کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں ‘‘۔
کسی نے عرض کیا: اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھاری ہیبت نکال دے گا اور تمھارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔‘‘کسی نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! وہن کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔(ابوداؤد)
غزہ،فلسطین کےموجودہ حالات میں وقت کے تعین کے علی الرغم مسلم حکومتوں اور عوام کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی ذمہ داری کا نہ صرف علم ہونا چاہیے بلکہ اسے پورا کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے: سورۃ النساء (آیت ۷۵) میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔
اس آیت کے اندر کفار کے نرغے میں آئے تمام مظلوم مسلمانوں کے بارے میں آزاد مسلم حکومتوں اور عوام کوسخت تاکیدی حکم دیا گیا ہے جس کی رُوسے ان پر مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی نہ صرف اخلاقی و مالی بلکہ ہر قسم کی مادی مدد بھی فرض ہے۔
اس وقت عالم کفر کی کئی مغربی حکومتیں فلسطین کے مسلمانوں کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہیں، لیکن قرآن کی ان واضح ہدایات کے باوجود مسلم ممالک کی حکومتیں آپس میں بٹی ہوئی ہیں بلکہ بعض تو دَرپردہ اسرائیل کے ساتھ ملی ہوئی لگتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی شرمناک بے حسی اور خاموشی انسانیت اور مسلمانوں کےماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے، لگتا ہے وہ اصحاب الاخدود کی طرح اس گروہ کا حصہ ہیں جو آگ میں جلنے والے مومنوں کا تماشا دیکھ رہے تھے۔
دوسری طرف کچھ مسلمان اپنے حال میں مست صرف دعاؤں ، چلّوں ، ذکر کی محفلوں اور خانقاہوں اور مدرسوں کی خدمت کو جہاد کا نعم البدل سمجھ بیٹھے ہیں۔ ربّ ذوالجلال فرماتا ہے:
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔(التوبہ ۹: ۱۹)
سورۂ توبہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
اللہ کے ہاں تو انھی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا، وہی کامیاب ہیں۔ اُن کا رب انھیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں۔(التوبہ ۹:۲۰-۲۱)
سورئہ توبہ ہی میں اس راستے کی رکاوٹوں کا ذکر بھی کردیا گیا ہے:
اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ ،اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز و اقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘۔(التوبہ ۹:۲۴)
قرآن و سنت کے یہ احکام کسی زمانے، علاقے یا قوم تک محدود نہیں ہیں، بلکہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہاہو تو سب مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہوجاتاہے۔ یہی امت مسلمہ کا تصور ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ باہمی محبت اور رحم وشفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضا بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم)
حدیث کا مطلب واضح ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم درد کی وجہ سے بیتاب ہوتا ہے اور درد دُور کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔کیا ہمارا رویہ غزہ /فلسطینی بھائیوں کے بارے میں ایسا ہی ہے؟
ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق حتی الوسع غزہ کے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے، بحیثیت مسلمان یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ زکوٰۃ اور صدقہ کا اس سے بہتر استعمال اور کیا ہوسکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قسم کھاکر ارشاد فرمایا: ’’صدقہ سے مال میں کمی ہرگز نہیں ہوتی‘‘۔ ہمیں آگے بڑھ کر اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ حضرت انسؓ سے مروی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ مشرکین سے جہاد کرو ، اپنے مالوں سے ، اپنے ہاتھوں سے اور اپنی زبانوں سے‘‘۔(ابو داؤد)
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دعا کی اہمیت بھی نہیں بھولنا چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا مومن کا ہتھیار ہے‘‘۔حضرت عمرؓ سے روایت ہے ’’دعا ان حوادث ومصائب میں بھی کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہٰذا اے اللہ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو‘‘ (مشکوٰۃ )۔ اس لیے دعا بھی کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق جتنا ہوسکے ہرقسم کا تعاون بھی کریں۔ دُعا اور دوا مل جائیں تو اللہ کی نصرت آتی ہے۔
l عملی اقدامات : ان حالات میں بنیادی ذمہ داری تو مسلم حکمرانوں کی ہے کہ وہ اخلاقی امداد اور اقوام متحدہ سمیت ہرفورم پر فلسطینیوں کے حق اور اسرائیل کے خلاف آواز اُٹھانے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں سے مادی تعاون بھی کریں، تاکہ وہ صہیونیوں کے مسلسل ظلم کا جواب دے سکیں۔ آئیڈیل طریقہ تو یہی تھا کہ سب مسلم ممالک مل کر اس حکمت عملی پر کام کرتے اورعملی اقدام کرتے۔
البتہ ہر مسلمان کو انفرادی طور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، جو اس کے بس میں ہو وہ کر گزرے۔ کم ازکم درج ذیل کام ضرور کریں: