پروفیسر نجیب الحق


۷؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو غزہ میں جنگ کا ایک سال ہوا۔ اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف سے نسل کشی کا مرتکب قرار دیا گیا،لیکن وہ اپنے مددگاروں اور فوجی طاقت کے نشے میں ایسا بدمست ہے کہ اخلاق، قانون ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں ، بین الاقوامی سطح پر اس کے خلاف ہونے والے تاریخ کے سب سے بڑے اور مسلسل مظاہروں کی پروا کیے بغیر غزہ میں مسلمانوں پر ناقابلِ بیان مظالم اور نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۲۴ءکو غزہ کی صورتِ حال پر برطانیہ کی درخواست پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔ یہ غزہ پر ایک سال میں سلامتی کونسل کا ۴۷واں اجلاس تھا۔اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مسئلے پرایک سال میں اتنے اجلاس ہوئے، لیکن اسرائیل نے کونسل کی تمام قراردادوں کی پروا کیے بغیر غزہ میں قتل عام جاری رکھا ہوا ہے، جس کی واحد وجہ امریکا کی پشت پناہی ہے۔

اسرائیلی اخبار کے ۴ستمبر ۲۰۲۴ء کے شمارے میں شمالی غزہ کے بارے میں اسرائیل کے ایک منصوبے ’جرنیلوں کا پلان‘ کا باقاعدہ  اعلان کیا گیا ہے، جس میں کھل کر کہا گیا کہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) گیورا ایلانڈ کی قیادت میں تیارکردہ منصوبے کے مطابق شمال کے پورے علاقے، یعنی پورےغزہ شہر کو ایک مکمل محصور فوجی علاقے میں تبدیل کیا جائے گا اور شمالی غزہ کی پوری آبادی کو ایک ہفتے کے اندر یہ علاقہ فوری طور پرچھوڑنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں کہا گیا ہے: ’’ اکتوبر، نومبر، یا دسمبر ۲۰۲۴ء یا شاید ابتدائی ۲۰۲۵ء میں اسرائیلی فوج شمالی غزہ میں اس نئی کارروائی کا آغاز کرے گی (یعنی آپریشن کلین اَپ)۔ مکمل محاصرہ سے پہلے پانی، خوراک، اور ایندھن کی تمام فراہمی بند کردی جائےگی ، یہاں تک کہ جو لوگ یہاں پر رہ جائیں وہ ہتھیار ڈال دیں یا بھوک سے مرجائیں‘‘۔

اسرائیل کی قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر، وزیر خزانہ بیزل ایل اسموٹریچ اور دیگر نسل پرست وزراء کھل کر اِس کا اعلان کر چکے ہیں اور بااثر اسرائیلیوں نے بھی فوج سے شمالی غزہ میں مکمل نسل کشی کرنے کی اپیل کی ہے۔ پروفیسر اُزی رابی نے جو تل ابیب یونی ورسٹی کے ایک سینئر محقق ہیں، ۱۵ ستمبر کو ایک ریڈیو انٹرویو میں اس پر تفصیل سے بات کی۔ اور اگست میں، Ynet کی ایک رپورٹ کے مطابق، حکومت کے وزراء نے پہلے ہی نیتن یاہو پر شمالی غزہ کے رہائشیوں کا’صفایا‘ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔

 یہ سطور لکھتے وقت اس منصوبے پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ ۶؍ اکتوبر سے شمالی غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے وہاں بلاتخصیص قتل و غارت اور نسل کشی کا سلسلہ تیز تر کردیا گیا ہے اور بچوں، خواتین، اور نہتے شہریوں کو بے دریغ قتل کیا جارہا ہے۔

اس ساری صورت حال کے تین پہلو اہم ہیں، جس کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے:

  • انسانی المیہ:اکتوبر کی ابتدا تک ۴۲ہزار سے زیادہ لوگ شہید کیے جا چکے ہیں۔ان میں ہزاروں بچوں اور عورتوں کے ساتھ ۱۷۴ صحافی بھی شامل ہیں، جب کہ ۱۰ ہزار سے زیادہ لاشیں ابھی تک ملبے تلےدبی ہوئی ہیں اور زخمیوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ سے کہیں زیادہ تک تجاوز کرچکی ہے، جس میں ۶۹ فی صد بچے اور خواتین ہیں۔ بھوک کو نسل کشی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔معصوم شہریوں کے قتل ، ان کو برہنہ کرنے اور ان کو اذیتیں دینے پر صہیونی جس طرح خوشی کا اظہار کرتے اور سیلفیاں بنا کر سوشل میڈیا پرشیئر کر رہے ہیں، اس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ ان مناظر کے نفسیاتی اثرات خود کئی ایسے اسرائیلی فوجیوں کے لیے بھی ناقابلِ برداشت ہیں جن میں انسانیت کی کچھ بھی رمق باقی ہے۔ صہیونی فوجیوں کی ایک بڑی تعدادانتہائی ڈیپریشن کا شکار ہے اور فوج میں خود کشی کی اطلاعات بھی ہیں۔ فوجیوں میں ڈیپریشن کے علاج کے لیے اسرائیل کی ’شومری یسرائیل‘ نامی تنظیم اپنے’ہیروز‘ کے لیے ضروری نفسیاتی علاج پر کام کر رہی ہے۔ اس کےمطابق: ’’اسرائیل کے فوجیوں نے حال ہی میں جنگ کے ناقابلِ تصوّر، خوفناک مناظر دیکھے ہیں۔ ہمارے کئی ’ہیرو‘ شدید ڈیپریشن (PTSD) کا شکار ہیں۔ ان کی صحت کی بحالی لازم ہے تاکہ وہ اَز سرِ نواپنے گھروں میں والد یا شوہرکاکردار ادا کرسکیں‘‘ ۔
  • انفراسٹرکچر کا نقصان: عرب سنٹر برائے واشنگٹن ،الجزیرہ اور اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں تقریباً ۸۰ فی صد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ تقریباً۵ لاکھ ۱۶ہزار گھر تباہ ہوکررہائش کے قابل نہیں رہے۔ ۸۴ فی صد ہسپتال اورصحت کی سہولیات ناکارہ ہوچکی ہیں۔ بے شمار اسکول اور مساجد تباہ ہوچکی ہیں۔ اس تباہی کے نتیجے میں تقریباً ۴۲ ملین ٹن ملبہ پڑا ہوا ہے۔ نقصان کا اندازہ کم از کم ۳۳ بلین ڈالر ہے ۔ ۲۵ جولائی ۲۰۲۴ء کو امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا: ’’جب ہم حماس کو شکست دے دیں گے تواس کے بعد ایک نیا غزہ ابھر سکتا ہے، جو میرے نزدیک ایک غیر عسکری اور غیر انتہا پسند غزہ تو ہوگا، لیکن اسرائیل غزہ میں دوبارہ آبادکاری نہیں ہونے دے گا‘‘۔
  • اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی: اسلحہ فراہم کرنے والے ملکوں نے غزہ کو اپنے اسلحے کے مؤثر استعمال کی ’ٹیسٹنگ لیبارٹری‘ کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ غزہ کے چپے چپے پر اکتوبر کی ابتدا تک ۸۵ہزار ٹن سے زیاہ دھماکا خیز مواد کے برابر بم گرائے جا چکے ہیں۔ یہ مقدار دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم کی طاقت سے چھ گنا زیادہ ہے۔ امریکا کی طرف سے مارچ ۲۰۲۴ء میں مجموعی منظور شدہ فنڈز ۶ء۱۲ ارب ڈالر، اگست ۲۰۲۴ء میں ۲۰؍ ارب ڈالر، اورستمبرمیں اسرائیل کی سکیورٹی کی مد میں مزید ۷ء۸؍ ارب ڈالر کے معاہدے کیے گئےہیں۔

عرب سینٹر برائے واشنگٹن ڈی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے: ’’مئی تک گرائے جانے والے۴۵ہزار بموں میں تقریباً ۹ سے ۱۴ فی صد بم نہیں پھٹے۔ اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس (UNMAS) نے اندازہ لگایا: ’’ان دھماکا خیز باقیات کو صاف کرنے میں کم از کم ۱۴ سال لگیں گے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے سفید فاسفورس کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا ہے، جو بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت ممنوع ہے ‘‘۔

دنیا کی ’مہذب‘ اور مغرب زدہ طبقوں کے مطابق ’رول ماڈل‘ اقوام اپنی ’تہذیب ‘کا غزہ میں عملی اظہار اور برملا اعلان کر چکی ہیں، جس میں تہذیب کا نام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ بقول پروفیسر انور مسعود:

آج تمھاری خوں خواری پر حیرت ہے حیوانوں کو
تم تو کل تہذیب سکھانے نکلے تھے انسانوں کو

یہ بھی کیسا شوق ہے تم کو شہروں کی بربادی کا
جگہ جگہ آباد کیا ہے تم نے قبرستانوں کو

ہنستے بستے قریے تم نے شعلوں میں کفنائے ہیں
ریت میں دفن کیا ہے تم نے کتنے نخلستانوں کو

زنداں زنداں بھیڑ لگائی بے تقصیر اسیروں کی
مقتل میں تبدیل کیا ہے تم نے پھر زندانوں کو

کتنے ہی معصوم سروں سے تم نے چھاؤں چھینی ہے
کتنادکھ پہنچایا تم نے ننھی ننھی جانوں کو

اتنے بھی سفاک منافق دنیا نے کب دیکھے تھے
کتوں کا منہ چومنے والے قتل کریں انسانوں کو

ظلم وستم کی خونی شب کا منظر بجھنے والا ہے
اِک عنوان فراہم ہوگا عبرت کے افسانوں کو

باطل کا بے ہنگم غوغا کوئی دم کا مہماں ہے
کوئی شور دبا نہیں سکتا، مست الست اذانوں کو

  • اسرائیل ٹائمز (۷؍اکتوبر ۲۰۲۴ء) کے مطابق: ’’اسرائیلی وزیر اعظم نے غزہ کی جنگ کا نام ’فولادی تلوار‘ سے تبدیل کرکے اسے ’احیاء کی جنگ‘ (War of Revival) رکھنے کی تجویز دی ہے، تاکہ یہ جنگ کےمقاصد کی مثبت عکاسی کر سکے‘‘۔ اس سے پہلے ۲۷ ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نے ایک نقشہ دکھایا، جس میں غزہ اور مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ اب اسرائیلی وزرا کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ ان کا مقصد ’عظیم تراسرائیل‘ کا قیام ہے جوموجودہ اسرائیل، اردن، لبنان، شام ، عراق اور سعودی عرب کے کچھ علاقے پر مشتمل ہوگا جس میں خیبر اور مدینہ منورہ بھی شامل ہے، جہاں سے انھیں نکالا گیا تھا۔
  • دُنیا کے مستقبل پر اثرات:’صرف طاقت کی بنیاد پر حکومت ‘کے نظریے کی حمایت ایک خطرناک تبدیلی کی عکاسی ہے۔ اسرائیل موجودہ جنگ کو فلسطین سے نکال کر دوسرے پڑوسی ملکوں تک پھیلا چکا ہے، جو عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہورہاہے، جس سے دنیا تباہی کے کنارے پر پہنچ سکتی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ انصاف پسند اور ذمہ دار عالمی طاقتیں انسانیت، انصاف اور اخلاقیات کے تقاضوں کے مطابق بین الاقوامی تعلقات کےاصولوں پر اَزسرِنو غور کریں۔ جنگ کے نئے اصول وضع کیے جائیں اور ان کونافذکرنے کا قابلِ عمل طریقۂ کار بنایا جائے۔ انسان نُما درندوں کے زیر اثر مزید نہیں رہا جاسکتا۔ اقتصادی عدم توازن، غربت، اور ماحولیاتی مسائل یقیناً اہم ہیں، لیکن موجودہ صورتِ حال میں فوری اور اوّلین ترجیح انسان اور انسانیت کا تحفظ ہے۔ اگر ایسا کرنے میں ناکام رہے تو جنگل کا قانون سب کو باری باری اپنی لپیٹ میں لے لےگا، مستقبل سب کے لیے تباہ کن ہوگا۔ اقوام عالم کو آج نئے عالمی نظام اور اتحاد کی ضرورت ہے، جس کی بنیادیں اور فیصلے معاشی برتری یا پستی، نسل، رنگ اور علاقوں کے بجائے عدل وانصاف، اخلاقیات اور انسانیت پر استوار کی جائیں۔ اس کےلیے موجودہ اقوام متحدہ کی انھی بنیادوں پر تشکیلِ نو کی جاسکتی ہے یا ایک اور عالمی اتحاد بنایا جاسکتا ہے۔
  • مسلم حکومتوں کی ذمہ داری :فلسطین /بیت المقدس کی تاریخی اور دینی حیثیت مسلمانوں کے لیےبہت اہم ہے۔واقعۂ معراج کے بارے میں سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے:

سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِيَہٗ مِنْ اٰيٰتِنَا۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۝۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۱)

پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد ِ حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے تاکہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔

یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ سے براہِ راست معراج پر لے جانے کے بجائے پہلے مسجد اقصٰی لے جایا گیا۔

آج مسلمانوں کی حالت حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کے مصداق ہے جس میں فرمایا گیا:’’ قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمھارے خلاف (لڑنے کے لیے) دوسری قوموں کو بلائیں جس طرح کھانے والے کھانے کے برتن کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں ‘‘۔

کسی نے عرض کیا: اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھاری ہیبت نکال دے گا اور تمھارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔‘‘کسی نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! وہن کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔(ابوداؤد)

 غزہ،فلسطین کےموجودہ حالات میں وقت کے تعین کے علی الرغم مسلم حکومتوں اور عوام کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی ذمہ داری کا نہ صرف علم ہونا چاہیے بلکہ اسے پورا کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے: سورۃ النساء (آیت ۷۵) میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔

اس آیت کے اندر کفار کے نرغے میں آئے تمام مظلوم مسلمانوں کے بارے میں آزاد مسلم حکومتوں اور عوام کوسخت تاکیدی حکم دیا گیا ہے جس کی رُوسے ان پر مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی نہ صرف اخلاقی و مالی بلکہ ہر قسم کی مادی مدد بھی فرض ہے۔

اس وقت عالم کفر کی کئی مغربی حکومتیں فلسطین کے مسلمانوں کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہیں، لیکن قرآن کی ان واضح ہدایات کے باوجود مسلم ممالک کی حکومتیں آپس میں بٹی ہوئی ہیں بلکہ بعض تو دَرپردہ اسرائیل کے ساتھ ملی ہوئی لگتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی شرمناک بے حسی اور خاموشی انسانیت اور مسلمانوں کےماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے، لگتا ہے وہ اصحاب الاخدود کی طرح اس گروہ کا حصہ ہیں جو آگ میں جلنے والے مومنوں کا تماشا دیکھ رہے تھے۔

دوسری طرف کچھ مسلمان اپنے حال میں مست صرف دعاؤں ، چلّوں ، ذکر کی محفلوں اور خانقاہوں اور مدرسوں کی خدمت کو جہاد کا نعم البدل سمجھ بیٹھے ہیں۔ ربّ ذوالجلال فرماتا ہے:

کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔(التوبہ ۹: ۱۹)

 سورۂ توبہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

اللہ کے ہاں تو انھی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا، وہی کامیاب ہیں۔ اُن کا رب انھیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں۔(التوبہ ۹:۲۰-۲۱)

 سورئہ توبہ ہی میں اس راستے کی رکاوٹوں کا ذکر بھی کردیا گیا ہے:

اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ ،اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز و اقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘۔(التوبہ ۹:۲۴)

قرآن و سنت کے یہ احکام کسی زمانے، علاقے یا قوم تک محدود نہیں ہیں، بلکہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہاہو تو سب مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہوجاتاہے۔ یہی امت مسلمہ کا تصور ہے۔

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ باہمی محبت اور رحم وشفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضا بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم)

حدیث کا مطلب واضح ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم درد کی وجہ سے بیتاب ہوتا ہے اور درد دُور کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔کیا ہمارا رویہ غزہ /فلسطینی بھائیوں کے بارے میں ایسا ہی ہے؟

ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق حتی الوسع غزہ کے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے، بحیثیت مسلمان یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ زکوٰۃ اور صدقہ کا اس سے بہتر استعمال اور کیا ہوسکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قسم کھاکر ارشاد فرمایا: ’’صدقہ سے مال میں کمی ہرگز نہیں ہوتی‘‘۔ ہمیں آگے بڑھ کر اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ حضرت انسؓ سے مروی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ مشرکین سے جہاد کرو ، اپنے مالوں سے ، اپنے ہاتھوں سے اور اپنی زبانوں سے‘‘۔(ابو داؤد)

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دعا کی اہمیت بھی نہیں بھولنا چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا مومن کا ہتھیار ہے‘‘۔حضرت عمرؓ سے روایت ہے ’’دعا ان حوادث ومصائب میں بھی کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہٰذا اے اللہ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو‘‘ (مشکوٰۃ )۔ اس لیے دعا بھی کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق جتنا ہوسکے ہرقسم کا تعاون بھی کریں۔ دُعا اور دوا مل جائیں تو اللہ کی نصرت آتی ہے۔

l عملی اقدامات : ان حالات میں بنیادی ذمہ داری تو مسلم حکمرانوں کی ہے کہ وہ اخلاقی امداد اور اقوام متحدہ سمیت ہرفورم پر فلسطینیوں کے حق اور اسرائیل کے خلاف آواز اُٹھانے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں سے مادی تعاون بھی کریں، تاکہ وہ صہیونیوں کے مسلسل ظلم کا جواب دے سکیں۔ آئیڈیل طریقہ تو یہی تھا کہ سب مسلم ممالک مل کر اس حکمت عملی پر کام کرتے اورعملی اقدام کرتے۔

البتہ ہر مسلمان کو انفرادی طور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، جو اس کے بس میں ہو وہ کر گزرے۔ کم ازکم درج ذیل کام ضرور کریں:

  • اخلاقی تعاون: ہرمسلمان پر غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا حق ہے کہ سوشل میڈیا سمیت ہر سطح پر فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل اور اس کے حواریوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اس سلسلے میں ہونے والی کسی بھی جدوجہد مثلاًسیمینار ، جلسہ، جلوس وغیرہ میں شرکت کریں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی آواز بلند کریں۔
  • مالی  و  مادی امداد: ہرفرد کم از کم اپنی حیثیت کے مطابق کسی بھی معتبر ادارے/ واسطے کے ذریعے مالی تعاون کرے اور مادی امداد میں بھی اپنا حصہ ڈالے۔ یہ روزمرہ کی ضروریات کا سامان، دوائیاں یا کوئی بھی دوسری چیز ہوسکتی ہے جس کی وقتاً فوقتاً اپیل کی جاتی رہتی ہے۔
  • بائیکاٹ:  ان تمام مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں جن کا مالی فائدہ ،رائلٹی یا کسی بھی دوسرے طریقے سے بلاواسطہ یا بالواسطہ صہیونیوں، اسرائیل یا اس کے حواریوں کو پہنچتا ہے۔
  • بیت المقدس کی اسلامی اور تاریخی حقیقت سے آگاہی: ایک اہم پہلو لوگوں کو بیت المقدس کی اسلامی اور تاریخی حقیقت سے آگاہ کرنا بھی ہے۔مسلمانوں کے لیے اس کی اہمیت کیا ہے؟ اسےخود بھی سمجھیں اورہر سطح پر اس کو سمجھانے کوشش کریں۔

’کورونا وائرس‘ کیا ہے؟ لاطینی زبان میں تاج کو کرونا کہتے ہیں اور اس وائرس کو بھی یہ نام اس لیے دیا گیا کہ اس کی شکل ایسے تاج (کراؤن)کی طرح ہوتی ہے، جس پر نوک دار کیلیں ہوں۔ اس وائرس کا سائز ۰ء۰۶ سے ۰ء۱۴ اور اوسط سائز ۰ء۱۲۵ مائیکرون ہوتا ہے (یاد رہے کہ ایک مائیکرون ایک ملی میٹر کا ہزارواں حصہ ہوتا ہے)۔ یہ سانس کے ذریعے ایک سے دوسرے کو پھیلتا ہے۔ عام طور پرجسم میں داخل ہونے کے تقریباً پانچ دن بعد بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں، لیکن اس میں دو ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ اگر کوئی بلغم یالعاب تھوک دے تو اس میں وائرس کئی گھنٹے بلکہ بعض اوقات دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔

موجودہ زمانے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا (وٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ) اطلاعات پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور خبریں تمام لوگوں تک فوری طور پر پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سےاس ضمن میں عمومی رویے غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ اطلاعات بغیر تحقیق کیے دوسروں کو فارورڈ کر دی جاتی ہیں بلکہ بعض اوقات مختلف وجوہ کی بنا پر غلط خبریں بھی جان بوجھ کرپھیلا دی جاتی ہیں، جوبے جا خوف و ہراس کا سبب بنتی ہیں۔ یہ انتہائی نامناسب رویہ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر تحقیق کے کوئی بھی خبر آگے پہنچانے سے سختی سے منع فرمایا اور ایسے شخص کو جھوٹا قرار دیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (WHO) نے وائرس سے متاثر ہونے والے ۴۴ہزار مریضوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ۸۱ فی صد افراد میں اس کی ہلکی پھلکی علامات ظاہر ہوئیں، جب کہ ۱۴ فی صد میں شدید علامات ظاہر ہوئیں اور ۵ فی صد لوگ شدید بیمار ہوئے۔ چونکہ ہزاروں افراد کا علاج اب بھی جاری ہے،اور یہ واضح نہیں کہ ہلکی پھلکی علامات والے کتنے کیس ہیں، جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے، اس لیے اموات کم یا زیادہ بھی ہو سکتی ہیں۔لیکن عام طور پر یہ شرح دو فی صد سے کم ہے۔

چین اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔وہاں ۷۲ ہزار سے زیادہ  بیمار افراد میں اموات کا تناسب، یعنی تقریباً ۱۵ فی صد ۸۰ سال سے زیادہ عمر میں ہوا، جب کہ ۷۰اور ۸۰ سال کے درمیان ۸ فی صد ،۵۰ اور ۶۰ سال کے درمیان عمر میں۳ء۱ فی صد اور ۴۰سے ۵۰ سال میں ۰ء۴ فی صد مریضوں میں اموات واقع ہوئیں۔

 یاد رہے کہ ہر سال ایک ارب افراد انفلواینزا کا شکار ہوتے ہیں اور اس سے تقریباً ساڑھے چھے لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ملیریا سے سالانہ چار لاکھ تک اموات ہوتی ہیں۔

کورونا وائرس کی علامات

بیماری کی علامات عام طور پر زکام (انفلوانزا) جیسے ہوتی ہیں، لیکن اس کی شدت نسبتاً  زیادہ اور پھیلاؤ بہت تیزی سے ہوتا ہے۔ وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد تین چار روز تک گلے میں موجود رہتا ہے اور پھر یہاں سے پھیپھڑوں یا خوراک کی نالی میں داخل ہو جاتا ہے۔ عمومی طور پر بیماری کی علامات درج ذیل ترتیب سے ظاہر ہوتی ہیں لیکن یہ ترتیب ضروری نہیں:

    ۱-  ابتدا میں بخار ہوتا ہے۔ پھر خشک کھانسی آتی ہے اور اس کےتقریباً ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔

    ۲-  اس بیماری میں ناک بہنے اور چھینکنے کی علامات عام زکام کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں۔

    ۳-  سر درد یا پٹھوں کا عمومی درد بھی ہو سکتا ہے۔

 خطرات اور احتیاط

بہت چھوٹے بچوں اور بوڑھے لوگوں میں بیماری کی شدید علامات زیادہ ہوتی ہیں اور یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں کی قوت مدافعت کم ہو، ان پر وائرس کا حملہ شدید ہو سکتا ہے۔  خاص کر شوگر، دل کی بیماری اور ایسی ہی دوسری بیماریوں والے مریض میں شدید بیماری کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ہرشخص کواپنی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے درج ذیل اقدامات کرنے چاہییں:

    l    سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اپنی نیند پوری رکھیں۔کوشش کریں کہ رات کو سونے میں جلدی کی جائے اور عشاء کی نماز کے بعد کوئی مصروفیت نہ ہو۔ صبح بروقت جاگ کر فجر کی نماز سے دن کا آغاز کریں۔اللہ نے رات کو آرام اور دن کو رزقِ حلال کے لیے پیدا کیا ہے۔ اب تو یہ بات سائنسی طور پر بھی ثابت ہو چکی ہے کہ رات کی نیند نہ صرف انسان کی قوت مدافعت کو بڑھاتی ہے بلکہ یہ کئی دوسری بیماریوں کے سدّباب کا ذریعہ بھی ہے۔

    l    اس طرح یہ بات بھی سائنسی طور پر ثابت ہے کہ جو لوگ ذہنی طورپربااعتماد،پُرسکون اورپختہ قوت ارادی کے مالک ہوتے ہیں ان کی قوت مدافعت بھی زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور بدن کے متعلقہ مدافعتی نظام اورخلیوں(immune system) کی جراثیم کش صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ تقدیر اور توکّل تو مسلمان کی صفات ہیں اور یہ ایمانی صفات اور اللہ کی یاد اور اس سےتعلق جتنامضبوط اورمؤثر ہو گا، قوتِ مدافعت بھی اتنی زیادہ ہو گی۔

    l    اس کے ساتھ ساتھ خوراک میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہونی چاہیے۔ دودھ ،انڈہ،  گوشت اور دالوں وغیرہ میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ۔ قوت مدافعت بڑھانے کے لیے چند اور چیزوں (مثلاً وٹامن سی وغیرہ) کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو تازہ پھلوں اور سبزیوں سے حاصل کی جاسکتی ہیں، خاص کر کیلا،مالٹا اور سبز پتوں والی سبزیاں وغیرہ۔ جنک فوڈ مثلاً برگر وغیرہ سے خصوصی پرہیز کروائیں ۔  یہ قوتِ مدافعت کو کم کرتی ہیں۔

بیماری سے بچاو ٔ

    ۱-  ہاتھ روزانہ کئی مرتبہ اچھی طرح دھوئیں ۔صابن کا استعمال کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ ہاتھ  کم از کم ۲۰سیکنڈ کے لیے دھوئیں اور دن میں کئی بار ہاتھ دھوئیں ۔ اگر ہم پانچ وقت وضو کرکے نماز پابندی سے ادا کریں اور ساتھ ہی اسلام کے احکام کے مطابق کھانے سے پہلے اور بیت الخلا سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ دھوئیں تو اس طرح دن میں کم از کم آٹھ دس مرتبہ تو ہاتھ دھل ہی جائیں گے۔ اس پر اسے سنت سمجھ کر عمل کریں تو حفاظت اور ثواب ساتھ ساتھ۔

    ۲-  کھانستے یا چھینکتے ہوئے اپنے منہ کو ٹشو یا رومال سے ڈھانپیں اور اس کے فوراً بعد اپنے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس پھیل نہ سکے ۔ ان اشیا کو بعد میں کوڑے دان میں ڈالیں اور کسی مناسب جگہ پر (میونسپلٹی کے ڈرم) ٹھکانے لگا دیں یا جلا دیں ۔ کوئی چیز میسر نہ ہو تو کھانستے وقت ہاتھ موڑ کر کہنی والی جگہ کی آستین سے منہ ڈھانک لیں۔ ہاتھ سے منہ کبھی نہ ڈھانکیں۔

    ۳-  کسی بھی مشکوک چیز کو چھونے کے بعد اپنی آنکھوں ، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کریں۔ چھونے کی صورت میں فوراً ہاتھ دھو لیں ۔ گندے ہاتھ منہ یا چہرے پر نہ لگائیں۔ اس سے وائرس آپ کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ 

    ۴-  جولوگ کھانس رہے ہوں، چھینک رہے ہوں یا جنھیں بخار ہو، ان کے منہ سے وائرس والے پانی کے قطرے نکل کر فضا میں پھیل سکتے ہیں۔ ایسے افراد سے کم از کم ایک میٹر، یعنی تین فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ ایسے لوگوں کے قریب مت جائیں۔

    ۵-  اگر طبیعت خراب محسوس ہو تو گھر میں رہیں۔ اگر بخار ،زیادہ کھانسی یا سانس لینے میں  دشواری ہو تو فوراً ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور ان کی ہدایات پر عمل کریں۔

    ۶-  چونکہ بیماری کے پھیلنے کے امکانات ابھی تک زیادہ ہیں، اس لیے پُرہجوم جگہوں، غیرضروری سفر ، بازار وں، یا اجتماعات میں جانے سے گریز کریں۔

    ۷-  سینی ٹائزر (ہاتھ صاف کرنے کا محلول) ہر دو چار گھنٹے بعد ہاتھ پر چند قطرے لگائیں۔

    ۸-  چہرے اتنے قریب نہ لائیں کہ آپ کی سانس دوسرے کے چہرے پر محسوس ہو۔

    ۹-  پانی زیادہ پئیں۔ یاد رہے کہ گلے سے وائرس پیٹ میں جائے تو معدے کی تیزابیت کی وجہ سے مرجاتا ہے اور پھیپڑوں میں جائے تو بیماری کا سبب بنتا ہے۔ گلے میں خارش ہو یا درد ہو تو دوا کے ساتھ ساتھ غرارے بھی مسلسل کریں۔

    ۱۰- ہر ایک شخص کو ماسک استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ جن افراد کو بیماری لگنے کے امکانات زیادہ ہوں مثلاً صحت کے شعبے سے منسلک افراد یا وہ لوگ جنھیں یہ شک ہو کہ انھیں کسی متاثرہ فرد سے واسطہ پڑنے کا امکان ہے تو انھیں ماسک استعمال کرنا چاہیے۔

    ۱۱- کرونا وائرس سے بچاؤ کی ابھی تک کوئی ویکسین نہیں ہے اور نہ علاج کے لیےکوئی دوا موجود ہے، اس لیے احتیاطی تدابیر ہی بیماری سے بچاؤ کا واحد ذریعہ ہیں۔

وبا: اسلامی نقطۂ نظر

بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایسی  صورت حال سے گھبرانا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ سنت پر عمل کرتے ہوئے علاج کرانا بھی ضروری ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحت مند لوگوں کو بیماری کی وبا والے علاقے میں جانے سے منع فرمایا ہے اور اس علاقے کے لوگوں کو وہاں سے نکلنے سے بھی منع فرمایا۔ انھی اقدامات کو آج کل کی اصطلاح میں قرنطینہ (Quarantine) کہتے ہیں ۔

اس وقت تمام دنیا میں جو فساد برپا ہے، اس میں سب کے لیے اور خاص کر مسلمانوں کے لیےاہم سبق ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے؛

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ۝۴۱  (الروم ۳۰: ۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔

مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَـنَۃٍ فَمِنَ اللہِ۝۰ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ۝۰ۭ وَاَرْسَلْنٰكَ  لِلنَّاسِ رَسُوْلًا۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۝۷۹  (النساء۴: ۷۹)تمھیں جو سُکھ بھی پہنچتا ہے خدا کی طرف سے پہنچتا ہے اور جو دُکھ پہنچتا ہے وہ تمھارے اپنے نفس کی طرف سے پہنچتا ہے۔ اور اے رسولؐ ! ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔

اللہ نے ہمیں سبق لینے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اپنے اعمال پر توجہ دیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔ یہ موقع ضائع نہ کریں اورجوکچھ بھی اللہ کی ناراضی کا سبب بن رہا ہے اس سےصدق دل سے توبہ کریں اورزیادہ سے زیادہ استغفار کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّـرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ  الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ  وَاِنَّـآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ ۝۰ۣ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ۝۱۵۷  (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷)بےشک ہم تمھیں آزمائیں گے کسی قدر خوف، بھوک، اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیجیے۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی عنایتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

آج ہر طرف خوف کی فضا ہے۔ ایسے میں ہمیں اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اس آزمایش کا صبر اور استقامت سے مقابلہ کرنا ہے۔ اسی میں ہمارے لیے دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔

یہاں اعجاز قرآن کے ایک اور پہلو کا ذکر بھی مناسب ہو گا۔ قرآن مبین کی سورئہ بقرہ میں کافروں کی تنقید کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 اِنَّ اللہَ لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَـمَا فَوْقَہَا۝۰ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۚ وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ       بِہٰذَا مَثَلًا۝۰ۘ يُضِلُّ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۙ وَّيَہْدِىْ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۭ وَمَا يُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ۝۲۶ (البقرہ ۲:۲۶)اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کوئی تمثیل بیان کرے، خواہ وہ مچھر کی ہو یا اس سے بھی کسی چھوٹی چیز کی۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں، وہ جانتے ہیں یہی بات حق ہے، ان کے رب کی جانب سے۔ رہے وہ لوگ، جنھوں نے کفر کیا وہ کہتے ہیں کہ اس تمثیل کے بیان کرنے سے اللہ کا کیا منشا ہے؟ اللہ اس چیز سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت دیتا ہے اور وہ گمراہ نہیں کرتامگر انھی لوگوں کو جو نافرمانی کرنے والے ہیں۔

اگر وہ کفار آج زندہ ہوتے تو شاید انکار نہ کرتے کہ مچھر سے تو بہت سی خطرناک بیماریاں ( ملیریا، ڈینگی، زیکا اور چکنگونیا وغیرہ) پھیلتی ہیں جس سے ہر سال لاکھوں لوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن اس سے بھی بہت ہی چھوٹی چیز (فَمَا فَوْقَهَا…… جس میں ایک کورونا وائرس بھی ہے) سے مچھر سے پھیلنے والی بیماریوں سے بھی زیادہ خطرناک اور جان لیوا بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔  قرآن حکیم کی اس آیت کو آج کی حقیقتوں کے تناظر میں سمجھنا نہایت واضح اور آسان ہو گیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اس سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں۔

 حکومت وقت نے اس وبا کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں ۔ تمام لوگوں کو اس پر عمل اور اس میں اپنے حصہ ڈالنا چاہیے ۔ یہ ہی ہماری دین کی تعلیم ہے۔ یہ مشکل وقت ہمیں رجوع الی اللہ کا سبق بھی دیتاہے اور ہمیں اس طرف بھی خصوصی توجہ دیتے ہوئے استغفار کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی اللہ سے دعائیں بھی کرنی چاہییں کہ وہ ہمیں اس وبا پر قابو پانے اور نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اس سلسلے میں چند متعلقہ مسنون ذیل میں درج کی گئی ہیں:

 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِی مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلًا (ترمذی:۳۴۳۱) ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچایاجس میں تجھے مبتلاکیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات پرفضیلت دی‘‘۔

اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا یَجِیْءُ   بِہِ الرِّیْحُ (ترمذی:۳۵۲۰)اے اللہ! میں (ہرایسی وبا سے) تیری پناہ میں آتا ہوں ‘ جسے ہوا لے کر آتی ہے ۔

اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَیِّ ئِ الْاَسْقَامِ  (ابوداؤد:۱۵۵۴)اے اللہ!میں برص‘ جنون‘کوڑھ اور تمام مُہلک بیماریوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔

أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (متفق علیہ)اللہ کے پورے کلمات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں اس کے شر سے جو اُس نے پیدا کیا

 لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ۝۰ۤۖ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ۝۸۷ۚۖ (الانبیاء۲۱: ۸۷) الہٰی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے۔ بےشک میں نے ہی اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔

اسی طرح بچاؤ کی تمام ممکنہ تدابیر اختیار کرتے ہوئے ہم ہر نماز کے بعد آیت الکرسی اور صبح و شام تین تین مرتبہ سورۃ اخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ النّاس کی تلاوت کریں۔ اس کے علاوہ بھی کئی مسنون اعمال ہیں جن پر دلی یقین کے ساتھ عمل کر کے ہم نہ صرف ان مشکل حالات پر قابو پاسکتے ہیں بلکہ یہ ہمارے لیےاللہ کی رضا کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کو تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سیکھنے اور سکھانے والے کو بہترین انسان کہا۔ حضرت عثمانؓ بن عفان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ تم میں وہ شخص سب سے بہتر ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے (بخاری)۔ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ قرآن کو اہلُ اللہ کہا ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: انسانوںمیں اللہ کے کچھ خاص لوگ ہیں، (صحابہ نے) پوچھا:یارسولؐ اللہ!وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: قرآن والے (سیکھنے اور عمل کرنے والے)۔ وہی اہل اللہ ہیں اور وہی اس کے خواص ہیں(ابن ماجہ)۔ حضرت عائشہؓ رسولِؐ اقدس کا یہ ارشاد نقل کرتی ہیں کہ ہرچیز کے لیے کوئی شرافت اور افتخار ہوا کرتا ہے جس سے وہ تفاخر کیا کرتا ہے۔ میری اُمت کی رونق اور افتخار قرآن ہے۔( فی الحلیہ) 

تلاوتِ قرآن پر رد عمل

قرآن پڑھ کر ایک مسلمان کا کیا ردِعمل ہونا چاہیے؟ قرآن اس کی تفصیل یوں بیان کرتا ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (انفال۸:۲)سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔

الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ عَلٰی مَآ اَصَابَہُمْ وَالْمُقِیْمِی الصَّلٰوۃِ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ (الحج۲۲:۳۵)وہ لوگ جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، اور جو کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔

اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰـبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ تَــقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ج ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَائُ ط وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہ مِنْ ہَادٍ (الزمر۳۹:۲۳) اللہ نے بہترین کلام اُتارا ہے ، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دُہرائے گئے ہیں ۔ اُسے سُن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں ، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذِکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہِ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے ۔ اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے۔

آئیے ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا قرآن سن یا پڑھ کر ہماری حالت ایسی ہوجاتی ہے؟ کیا ہمارے جسم لرز اٹھتے ہیں یا رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں؟ کیا ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں؟ اکثر نہیں تو کیا کبھی کبھی ہی ایسا ہوتا ہے؟اللہ تعالیٰ تو سورئہ حشر میں فرماتا ہے کہ : لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ (۵۹:۲۱) ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے‘‘۔ مقامِ حسرت اور افسوس ہے کہ آدمی کے دل پر قرآن کا اثر نہ ہو۔ حالانکہ قرآن کی تاثیر اس قدر زبردست ہے کہ اگر وہ پہاڑ جیسی سخت چیز پر اتا را جاتا اور اس میں سمجھ کا مادہ موجود ہوتا تو وہ بھی متکلّم کی عظمت کے سامنے دب جاتا اور مارے خوف کے پارہ پارہ ہوجاتا۔ (تفسیر عثمانی)

تفسیر روح البیان میں ہے کہ اگر ان کے دل قرآن جیسی عظیم کتاب کو سن کر بھی پگھلتے نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ نے ایسی قساوت پیدا کر دی ہے جس پر کوئی بڑی سے بڑی حقیقت بھی اثرانداز نہیں ہوتی۔ اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق ایسے دلوں پر مہر ثبت نہ کر دے جس طرح اس نے یہود کے دلوں پر کی ہے۔(جلد۱۱، ص ۵۶۶)

نعوذ باللہ ثمّ نعوذ باللہ کیا ہماری حالت یہ تو نہیں ہو گئی جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت میں اللہ نے کہا ہے کہ: ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم  بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً  پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔

قرآن فھمی کی ضرورت اور اھمیت

قرآن کے بارے میں اس امت سے پوچھا جائے گا:

فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِلَیْکَ ج اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَــقِیْمٍ o  وَاِنَّہ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْـَــلُوْنَ o (الزخرف۴۳:۴۳-۴۴) (اے پیغمبرؐ)تم بہرحال اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعے سے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے ، یقینا تم سیدھے راستے پر ہو۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم سے اس کی بابت بازپُرس ہوگی۔

پھر سورۂ صٓ میں یہ بھی بتا دیاکہ اس قرآن کے بارے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (صٓ۳۸: ۲۹)

یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر والے اس سے سبق لیں۔

ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے اس آیت میں قرآن کو سمجھنے کے دو پہلو بیان کیے ہیں، یعنی تذکّر اور تدّبر اورپھر ان دونوں پہلوؤں کی تشریح کی ہے جس کا خلاصہ درجہ ذیل ہے:

  •  تذکّر: قرآن کو اتنا سمجھنا کہ اس سے انسان نصیحت حاصل کر سکے ۔

یہ سب کے لیے ضروری ہے۔قرآن کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اس کو سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں اور اس کو دوسروں تک پہنچائیں۔ تذکّرمیں قرآن پر غور و فکر تو شامل ہیں مگر بہت گہرائی میں غوطہ زنی کی ضرورت نہیں ہوتی، بہت مشقّت و محنت مطلوب نہیں ہے۔ انسان کے اندر طلبِ حقیقت ہو اور قرآن سے براہِ راست رابطہ ہو جائے تو تذکّر حاصل ہو جائے گا۔ قرآن مجید کو اس حد تک سمجھنے کے لیے بس اتنی عربی ضرور آتی ہو کہ عربی متن کو براہِ راست سمجھ سکیں۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ جب قاری حضرات نماز یا تراویح میں قرآن پڑھیں تو سمجھ آتی ہو۔ تھوڑی محنت سے یہ فائدہ قرآن سے ہر شخص حاصل کر سکتا ہے۔ سورئہ قمر میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:

وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر۵۴:۱۷)اوریقینا ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے ، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟

اس آیت کو اس سورت میں چار بار دہرایا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ فَسْـــَـلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ط وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ o (النحل ۱۶:۴۴) اے نبیؐہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں ، آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہل ِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔پچھلے رسولوں کو بھی    ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ، اور اب یہ ذکر( قرآن) تم پر نازل  کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائوجو ان کے لیے اُتاری گئی ہے ،اور تاکہ لوگ (خود بھی) غورو فکر کریں۔

  •  تدّبر:تذکّر کے برعکس قرآن پہ تدّبر و تفکر کرکے اس کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے نہ صرف عربی کے گہرے علم کی ضرورت ہے بلکہ دوسرے علوم سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ تدبّر کے لحاظ سے قرآن مشکل ترین کتاب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا منبع اور سرچشمہ وحی الٰہی ہے اور علم الٰہی لامتناہی ہے۔ اس کو کوئی شخص نہ عبور کر سکتا ہے نہ گہرائی میں اس کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ ناممکن ہے چاہے پوری زندگیاں کھپا لیں۔اس کا احاطہ کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ (بیان القرآن ، اول، ص۹۶-۹۷)

قرآن کی اس طرح تفسیر و تشریح کو سمجھنے کے لیے علما نے کئی بنیادی علوم (۱۵؍ یا اس سے زیادہ)کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ کام علما ے کرام کا ہے۔ قرآن کی تفسیر اور معنی و مطالب قیامت تک بیان ہوتے رہیں گے اور ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق روزِ قیامت تک اس کی تشریح و تفسیر ہوتی رہے گی اور اس کے مطالب ختم نہیں ہوں گے۔

قرآن میں ان لوگوں کو اُمّی (اَن پڑھ)کہا گیا ہے جو قرآن کا علم نہیں رکھتے، چاہے انھوں نے دنیاوی علوم میں پی ایچ ڈی ہی کیوں نہ کی ہو:

وَمِنْھُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِیَّ وَ اِنْ ھُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ  (البقرہ۲:۷۸) اِن میں ایک دوسرا گروہ اُمیّوں کا ہے ، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں ، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔

جن لوگوں نے اللہ کی آیات کو بھلا دیا انھیں آخرت میں اندھا اٹھایا جائے گا:

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰیo قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا o قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴-۱۲۶) اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ۔وہ کہے گا: ’’پروردگار ، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا ، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’ہاں ، اسی طرح تو ہماری آیات کو ،جب کہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تو نے بھلا دیا تھا۔اُسی طرح آج تو بھلایا جارہا ہے ‘‘۔

اس آیت کی تشریح کے سلسلے میں امام غزالیؒ احیا العلوم میں ایک مثال پیش کرتے ہیں کہ ایک آقا نے اپنے خدّام کو ایک باغ سُپرد کیا اور اس کی اصلاح و تعمیر کے لیے انھیں ایک تحریری ہدایت نامہ دیا کہ اس کے مطابق باغ کی اصلاح و تعمیر سے کام لینا تھا۔ آقا نے حسن کارکردگی پر  ان سے انعام و اکرام کا وعدہ کیا اور لاپروائی اور غفلت سے کام لینے پر سخت سزا کی دھمکی دی۔ ان خدّام نے اس ہدایت نامے کی نہایت تعظیم کی۔ اسے بار بار پڑھا بھی لیکن اس کی کسی بات پر عمل نہ کیا اور غفلت سے باغ کی اصلاح و تعمیر کے بجاے اسے ویران و برباد کردیا ۔ اس ہدایت نامے کی رسمی تعظیم اور بار بار پڑھنے نے انھیں فائدہ نہ پہنچایا سواے اس کے کہ اس کی خلاف ورزی پر انھوں نے اپنے آپ کو مستوجب سزاٹھیرا لیا۔ (تدریس لغۃ القرآن، ص۲۲-۲۳)           

قرآن پسِ پشت ڈالنے پر تنبیہ

قرآن کو جن لوگوں نے پسِ پشت ڈال دیا ہو قیامت کے دن قرآن اُن کے گلے میں پڑا ہوگا اور اللہ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ اس بندے نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ میرے اور اس کے درمیان فیصلہ فرمادیں:

یَاوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا o لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَائَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا o وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا o (الفرقان۲۵:۲۸-۳۰)

ہاے شامت! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے مجھ کو (کتاب) نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا اور شیطان انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے۔ اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔

مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے معارف القرآن میں فرماتے ہیں: قرآن کو عملاً چھوڑ دینابھی گناہِ عظیم ہے۔ اس سے ظاہر یہ ہے کہ قرآن کو مہجور اور متروک کردینے سے مراد قرآن کا انکارہے جو کفار ہی کا کام ہے۔ مگر بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جو مسلمان قرآن پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر نہ اس کی تلاوت کی پابندی کرتے ہیں نہ اس پر عمل کرنے کی، وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں ۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: جس شخص نے قرآن پڑھا مگر پھر اس کو بند کرکے گھر میں معلق کردیا، نہ اس کی تلاوت کی پابندی کی، نہ اس کے احکام میں  غور کیا ۔ قیامت کے روز قرآن اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندے نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ میرے اور اس کے معاملے کا فیصلہ فرمادیں۔ (معارف القرآن، جلد۶، ص ۴۷۱، ادارۃ المعارف کراچی )

تفسیر احسن البیان میں اس آیت کی تشریح یوں کی گئی ہے اس پر ایمان نہ لانا، اس پر عمل نہ کرنا، اس پر غوروفکر نہ کرنا، اور اس کے اوامر پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے جس کے خلاف قیامت کے دن اللہ کے رسولؐ اللہ کے دربار میں استغاثہ فرمائیں گے (ص۸۲۴-۸۲۵)۔ تصور کیجیے کہ کتنے بدنصیب ہوں گے وہ لوگ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہیں گے کہ: یہ ہیں میری قوم کے وہ لوگ جنھوں نے قرآن کو   چھوڑ دیا تھا تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب سے کون بچائے گا؟

یہ حقیقت ہے کہ نہ تو ہم قرآن کو سمجھتے ہیں اور نہ اس میں تدّبروتفکّر ہی سے کام لیتے ہیں۔ ہمارا آج کا یہ دور قبل از اسلام کے دورِ جاہلیت سے کسی بھی صورت مختلف نہیں بلکہ آج لوگ حق کے ترک کرنے میں اس سے بھی کہیں آگے بڑھ چکے ہیں۔ جاہلیت بمقابلہ علم و فن نہیں، بلکہ حق سے رُوگردانی اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کا نام جاہلیت ہے آج اس لحاظ سے پوری دنیا خواہشاتِ نفس کی پیروی کررہی ہے۔ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنے آپ کو اس ضلالت سے بچاسکتے ہیں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: یہ قرآن تیرے لیے یا تجھ پر ایک حجّت ہے، یعنی یہ کہ اگر تو اسے سمجھے اور اس پرعمل کرے تو تیرے لیے حجّت ہے اور یہی قرآن تجھ پر (یعنی تیرے خلاف)حجّت ہے، اس صورت میں کہ تو اسے سمجھنے کی کوشش نہ کرے اور عمل پیرا نہ ہو۔ (تدریس لغۃ القرآن، ص۲۸، ۱۵-۱۶)

قرآن فھمی میں درپیش مشکلات

کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا گیا مگر قرآن پڑھنے سے پہلے بسم اللہ کے ساتھ تعوذ پڑھنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ سورئہ نحل میں ارشاد ہے:

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ (النحل ۱۶:۹۸) پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شیطان کسی بھی شخص کو قرآن پڑھنے اور سیکھنے سے روکنے کا ہرممکن حربہ استعمال کرتا ہے مگر جب ہم اللہ کا کلام شروع کرنے سے پہلے اعوذ باللہ بھی پڑھ لیں تو شیطان کا یہ حملہ ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

شیطان کی کوشش ہمیشہ یہ رہتی ہے کہ وہ لوگوں کو نیک کاموں سے روکے خصوصاً قرأ ت قرآن جیسے کام سے، جو کہ نیکیوں کا سرچشمہ ہے اسے وہ کب ٹھنڈے دل سے گوارا کرسکتا ہے۔ ضرور اس کی کوشش ہوگی کہ مومن کو اس سے باز رکھے۔ اور اس میں کامیاب نہ ہو، تو ایسی آفات میں مبتلا کردے جو قرأ تِ قرآن کا حقیقی فائدہ حاصل ہونے سے مانع ہوں۔(تفسیر عثمانی)

شیطان عمومی طور پہ تین طریقوں سے انسان کو قرآن پڑھنے اور سیکھنے سے روکتا ہے۔

  • قرآن پڑھنے اور سیکھنے کے لیے جب ہم بیٹھتے ہیں تو عین اسی وقت کوئی ایسا دنیاوی کام یاد دلاتا ہے جس کے کرنے کی اہمیت اور ضرورت کو اتنا زیادہ کردیتا ہے کہ انسان قرآن سیکھنے کو چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جاتا ہے۔
  • شیطان بعض اوقات دنیاوی کام کو بھی اس طرح دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ بھی تو تُم دین ہی کا ایک کام کررہے ہواور پھر بندہ اس خوب صورت دام میں پھنس کر دین کا اصل کام، یعنی قرآن سیکھنے اور اس پر عمل کرنے سے دور ہوتا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم دین کا کام کر رہے ہیں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا۔ ہر شخص اپنے دل کو ٹٹول کر جائزہ لے سکتا ہے کہ میں یہ کام اللہ کی رضا کے لیے کر رہا ہوں یا دنیاوی مفاد کی خاطر۔ سورئہ کہف میں ایسے ہی کاموں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:

قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا o اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا (الکہف ۱۸:۱۰۳-۱۰۴) اے نبیؐ ان سے کہو ، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ 

اور سورئہ زخرف میں ارشاد ہواہے کہ:

وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَیِّضْ لَہ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہ قَرِیْنٌ o وَاِنَّہُمْ لَیَصُدُّوْنَہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ o (زخرف ۴۳: ۳۶-۳۷) جو شخص رحمن کے ذکر سے تغافل برتتا ہے ، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔ یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔

رحمن کے ذکر سے مراد اس کی یاد بھی ہے، اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی ، اور یہ قرآن بھی۔

  • شیطان کا تیسراحملہ یہ ہے کہ دین ہی کی راہ سے کوئی ایسے دوسرے کام سامنے لے آتا ہے اور ان کو ایسا خوش نُما بنادیتا ہے کہ ہم ان کاموں میں لگ کر قرآن سیکھنے کو اپنی ترجیحات میں نچلے درجے پر لے جاتے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ اللہ کا وہ واحد کلام ہے جو من و عن لفظاً لفظاً قیامت تک تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے اور جس میں اللہ ہم ہی سے مخاطب ہے۔ اس کو سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش کیے بغیر ہم کیسے صراطِ مستقیم کو پاسکتے ہیں؟ وہی صراطِ مستقیم ، جس کا ذکر قرآن کی پہلی ہی سورئہ فاتحہ میں کیا گیا ہے اور ہم اپنی نماز میں روزانہ کم از کم ۳۲مرتبہ اللہ سے اس راہِ ہدایت کا سوال کرتے ہیں اور جس کے جواب میں اللہ نے پورا قرآن اتار ا ہے۔ اس میں اس راستے کو وضاحت سے کھول کھول کر روشن نشانیوں کے ساتھ بیان کر دیا ہے تاکہ ہم اس پر عمل کر کے اس صراط مستقیم کو پا لیں اور دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کر لیں۔ جب ہم قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کو اپنی زندگی کی اوّلین ترجیحات میں رکھیں گے، تو تب ہی اس صراطِ مستقیم کو پا سکیں گے جس کو پانے کی ہم نماز میں روزانہ کم از کم ۳۲ مرتبہ اللہ سے دعا مانگتے ہیں۔ 

ہمارا کام اخلاص سے قرآن سیکھنے کی کوشش کرنا ہے تاکہ اپنی زندگی اس کی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق گزار سکیں۔یہ فکر تو ہمیں یقینا ہونی چاہیے کہ ہم قرآن کتنا سیکھ پائے اور اس پہ کتنا عمل کیا؟ لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری ذمہ داری کوشش کرنا ہے نتیجہ  اللہ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس کو کتنا عطا فرماتا ہے۔ اجر کا تعلق نیت اور کوشش سے ہے نتائج سے نہیں۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن کو مہارت کے ساتھ پڑھتا ہے تو وہ بڑی عزت والے فرشتوں اور نبیوں کے ساتھ ہوگا۔ جس کے لیے قرآن پڑھنا مشکل ہو اور پھربھی محنت کرتا رہا تو اس کے لیے دوہرا اجر ہوگا۔ ایک قرآن پڑھنے کا دوسرا اس پر محنت کرنے کا۔(سنن ابوداؤد)

موجودہ صورتِ حال کا علاج

موجودہ حالات کا واحد علاج یہی ہے کہ ہم کتاب اللہ کی طرف پلٹ آئیں اور اس کو  سمجھ کر پڑھنا اپنے اُوپر لازم کر لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم رسولؐ اللہ کے اس فرمان کی زد میں آجائیں جس میں رسولؐ اللہ نے بعد میں آنے والے لوگوں کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: آخری زمانے میں یا اس امت میں ایسی قوم نکلے گی کہ وہ قرآن پڑھے گی لیکن قرآن اس کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا (سنن ابنِ ماجہ)۔ اور آپ نے ان لوگوں کو شرارالخلق قرار دیا۔

اسیرِ مالٹا مولانا محمود حسن ؒنے فرمایامسلمانوں کی موجودہ پستی کے دو ہی سبب ہیں: ترکِ قرآن اور باہمی اختلاف۔ اور اس کا علاج صرف یہی ہے کہ قرآنی تعلیمات پر لوگوں کو جمع کیا جائے اور اس کی تعلیم عام کی جائے۔ گویا امت کے اختلاف کو ختم کرنے کا نسخہ بھی صرف قرآن ہی ہے۔

یہ بات شاید انھوں نے حارث بن عبداللہ اعورؓ کی درج ذیل حدیث کی بنیاد پہ کہی ہو جو انھوں امیرالمومنین حضرت علیؓ کے حوالے سے بیان کی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے پاس جبریل ؑ آئے اور کہنے لگے کہ اے محمدؐ!آپؐ کی امت آپؐ کے بعد اختلافات میں پڑ جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ جبریل ؑ! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: قرآن کریم۔ اسی کے ذریعے اللہ ہرظالم کو تہس نہس کرے گا، جو اس سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ یہ بات انھوں نے دو مرتبہ کہی۔ پھر فرمایا کہ یہ قرآن ایک فیصلہ کن کلام ہے یہ کوئی ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے، زبانوں پر یہ پرانا نہیں ہوتا، اس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے، اس میں پہلوں کی خبریں ہیں ، درمیان کے فیصلے ہیں اور بعد میں پیش آنے والے حالات ہیں ۔(متفق علیہ )

سورئہ مائدہ کی آیت ۶۸ کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمدؒ لکھتے ہیں: اسی طرح   اللہ تعالیٰ ہم سے فرماتے ہیں کہ کس منہ سے تم نماز پڑھ رہے ہو جب کہ تم نے اللہ کی کتاب کو قائم نہیں کیا۔ یعنی اے قرآن والو! تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک تم قرآن کو اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اسے قائم نہیں کرتے۔(قرآنِ حکیم اور ہم،ص ۲۹)

آج ہم قرآن سنتے اور پڑھتے ہیں لیکن یہ ہماری زندگی میں تبدیلی کا باعث نہیں بن رہا۔ رسولؐ اللہ کے زمانے میں عرب کے ان پڑھ بدّو بھی جب قرآن سنتے تو ان کے جسم کانپنے لگتے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ وہ اسے اپنی زندگی سے متعلق پاتے تھے اور اس پر عمل کرکے ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے تھے۔ اسی قرآن کی برکت سے بکریاں اور اونٹ چرانے والے یہ لوگ انسانیت کے رہنما بن گئے۔ آج وہی قرآن لفظ بہ لفظ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہر زبان میں بے شمار تفاسیر بھی لکھی گئیں ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ ان بدّووں کے نزدیک قرآن ایک زندہ حقیقت تھی جس کو سن کر وہ فوراً اس پر عمل کرتے تھے۔لیکن آج ہم نے اس کو ثواب کی ایک کتاب سمجھ کر اپنی زندگی اور روح سے غیر متعلق کردیا ہے۔

 کیا قرآن آج بھی ہمارے لیے ویسے ہی نفع بخش اور زندگی کو تبدیل کرنے والی کتاب بن سکتا ہے؟ اس کا جواب یقینا ہاں ہی میں ہے ۔ بس ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم قرآن کو اسی طرح پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں جس طرح دورِ اوّل میں اہلِ عرب اور صحابہ کرامؓ نے کیا۔

اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ابھی یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم نے قرآن کوسمجھ کر پڑھنا ہے۔مزید وقت ضائع کیے بغیر یہ کام آج ہی شروع کر دیں۔ کل کا انتظار نہ کریں اس لیے کہ کل کا انتظار کرنا بھی شیطان کا ایک حربہ ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیں کل کبھی نہیں آتی۔

قرآن پر ایمان لانا

سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم قرآن پر ایمان لے آئیں۔ یہ بات عجیب سی لگتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایمان کے دو حصے ہیں، زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق۔  ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں قرآن مجید پہ کامل یقین ہے لیکن ہمارا طرزِعمل اس کے خلاف ہے۔نہ ہم اس کی تلاوت باقاعدگی سے کرتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اس کے احکامات پہ ہی عمل کرتے ہیں۔ گویا ہمارا ایمان کمزور ہے۔ ہم زبان سے تو اقرار کرتے ہیں کہ یہ اللہ ربُّ العزت کا کلام ہے لیکن یقین کی دولت سے محروم ہیں۔ ورنہ جسے یہ یقین ہوجائے تو اس کا تو اوڑھنا بچھونا ہی قرآن بن جاتا ہے۔(قرآن مجید کے حقوق، چلڈرن قرآن سوسائٹی، ۱۷-وحدت روڈ لاہور)

قرآن: ترجیحِ اوّل

قرآن سیکھنے کے لیے ہمیں اس کام کو اپنی زندگی کی اوّلین ترجیحات میں رکھنا ہو گا۔ ہم دنیاوی تعلیم کے لیے زندگی کے کئی سال سکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں لگا دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے بہترین سکولوں اور کالجوں کا انتخاب کرتے ہیں۔اس پر اپنا مال اور وقت خرچ کرتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ ضروری ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے لیے قرآن کی تعلیم کا کیا بندوبست کر رہے ہیں ؟ اپنے وسائل اور وقت کا کتنے فی صد اس پر خرچ کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بچے کی تعلیم یا اپنی کسی دوسری مصروفیت کے لیے تو پیسہ خرچ کرنے اور گھنٹوںوقت دینے کوتیار ہیں لیکن مفت میں قرآن سیکھنے کے لیے تھوڑا ساوقت نکالنا بھی گوارا نہیں؟ اور اس بات پہ اکتفا کر بیٹھے ہیں کہ چند سو روپوں کے عوض بچوں کو صرف ناظرہ قرآن پڑھانے کے لیے ایک قاری صاحب کا بندوبست کر لیا ہے، اور خود بغیر سمجھے قرآن پڑھنے پہ اکتفا کر لیا ہے؟

 قرآن سے رھنمائی کا اصول

قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے وقت ہم کھلے ذہن اور دل سے اللہ کا حکم جاننے اوراسی کی آواز سننے کی کوشش کریں۔ اس میں اپنے خیالات تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمیں اپنی ہی آواز کی بازگشت سنائی دے گی اور ہم اللہ کی آواز نہیں سن سکیں گے۔ اس کام کی ابتدا میں سب سے اہم بات اخلاص نیت ہے۔ ہمارا یہ مصّمم ارادہ ہو کہ قرآن کو سمجھ کر اس کے ذریعے ہم اپنی زندگی کو تبدیل کریں گے۔ اس کا رنگ سب سے بہتر رنگ ہے۔ ہم اس میں    اپنے آپ کو رنگ لیں گے۔ قرآن کو عملی طور پہ سمجھنے اور اس کے صحیح ادراک کے بارے میں مولانا سیّدابولاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب آپ اسے لے کر اٹھیں اور  دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی ہے اسی طرح قدم اٹھاتے جائیں۔ قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اس کے بتائے ہوے اصول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے جب تک وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔ (تفہیم القرآن، جلد اول، ص۳۴-۳۵)

اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن پڑھنے، اس کی تعلیمات کو سمجھنے، اس پہ عمل کرنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!