اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کو تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سیکھنے اور سکھانے والے کو بہترین انسان کہا۔ حضرت عثمانؓ بن عفان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ تم میں وہ شخص سب سے بہتر ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے (بخاری)۔ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ قرآن کو اہلُ اللہ کہا ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: انسانوںمیں اللہ کے کچھ خاص لوگ ہیں، (صحابہ نے) پوچھا:یارسولؐ اللہ!وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: قرآن والے (سیکھنے اور عمل کرنے والے)۔ وہی اہل اللہ ہیں اور وہی اس کے خواص ہیں(ابن ماجہ)۔ حضرت عائشہؓ رسولِؐ اقدس کا یہ ارشاد نقل کرتی ہیں کہ ہرچیز کے لیے کوئی شرافت اور افتخار ہوا کرتا ہے جس سے وہ تفاخر کیا کرتا ہے۔ میری اُمت کی رونق اور افتخار قرآن ہے۔( فی الحلیہ)
قرآن پڑھ کر ایک مسلمان کا کیا ردِعمل ہونا چاہیے؟ قرآن اس کی تفصیل یوں بیان کرتا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (انفال۸:۲)سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔
الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ عَلٰی مَآ اَصَابَہُمْ وَالْمُقِیْمِی الصَّلٰوۃِ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ (الحج۲۲:۳۵)وہ لوگ جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، اور جو کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔
اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰـبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ تَــقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ج ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَائُ ط وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہ مِنْ ہَادٍ (الزمر۳۹:۲۳) اللہ نے بہترین کلام اُتارا ہے ، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دُہرائے گئے ہیں ۔ اُسے سُن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں ، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذِکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہِ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے ۔ اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے۔
آئیے ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا قرآن سن یا پڑھ کر ہماری حالت ایسی ہوجاتی ہے؟ کیا ہمارے جسم لرز اٹھتے ہیں یا رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں؟ کیا ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں؟ اکثر نہیں تو کیا کبھی کبھی ہی ایسا ہوتا ہے؟اللہ تعالیٰ تو سورئہ حشر میں فرماتا ہے کہ : لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ (۵۹:۲۱) ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے‘‘۔ مقامِ حسرت اور افسوس ہے کہ آدمی کے دل پر قرآن کا اثر نہ ہو۔ حالانکہ قرآن کی تاثیر اس قدر زبردست ہے کہ اگر وہ پہاڑ جیسی سخت چیز پر اتا را جاتا اور اس میں سمجھ کا مادہ موجود ہوتا تو وہ بھی متکلّم کی عظمت کے سامنے دب جاتا اور مارے خوف کے پارہ پارہ ہوجاتا۔ (تفسیر عثمانی)
تفسیر روح البیان میں ہے کہ اگر ان کے دل قرآن جیسی عظیم کتاب کو سن کر بھی پگھلتے نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ نے ایسی قساوت پیدا کر دی ہے جس پر کوئی بڑی سے بڑی حقیقت بھی اثرانداز نہیں ہوتی۔ اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق ایسے دلوں پر مہر ثبت نہ کر دے جس طرح اس نے یہود کے دلوں پر کی ہے۔(جلد۱۱، ص ۵۶۶)
نعوذ باللہ ثمّ نعوذ باللہ کیا ہماری حالت یہ تو نہیں ہو گئی جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت میں اللہ نے کہا ہے کہ: ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔
قرآن فھمی کی ضرورت اور اھمیت
قرآن کے بارے میں اس امت سے پوچھا جائے گا:
فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِلَیْکَ ج اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَــقِیْمٍ o وَاِنَّہ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْـَــلُوْنَ o (الزخرف۴۳:۴۳-۴۴) (اے پیغمبرؐ)تم بہرحال اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعے سے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے ، یقینا تم سیدھے راستے پر ہو۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم سے اس کی بابت بازپُرس ہوگی۔
پھر سورۂ صٓ میں یہ بھی بتا دیاکہ اس قرآن کے بارے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (صٓ۳۸: ۲۹)
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر والے اس سے سبق لیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے اس آیت میں قرآن کو سمجھنے کے دو پہلو بیان کیے ہیں، یعنی تذکّر اور تدّبر اورپھر ان دونوں پہلوؤں کی تشریح کی ہے جس کا خلاصہ درجہ ذیل ہے:
یہ سب کے لیے ضروری ہے۔قرآن کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اس کو سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں اور اس کو دوسروں تک پہنچائیں۔ تذکّرمیں قرآن پر غور و فکر تو شامل ہیں مگر بہت گہرائی میں غوطہ زنی کی ضرورت نہیں ہوتی، بہت مشقّت و محنت مطلوب نہیں ہے۔ انسان کے اندر طلبِ حقیقت ہو اور قرآن سے براہِ راست رابطہ ہو جائے تو تذکّر حاصل ہو جائے گا۔ قرآن مجید کو اس حد تک سمجھنے کے لیے بس اتنی عربی ضرور آتی ہو کہ عربی متن کو براہِ راست سمجھ سکیں۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ جب قاری حضرات نماز یا تراویح میں قرآن پڑھیں تو سمجھ آتی ہو۔ تھوڑی محنت سے یہ فائدہ قرآن سے ہر شخص حاصل کر سکتا ہے۔ سورئہ قمر میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:
وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر۵۴:۱۷)اوریقینا ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے ، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
اس آیت کو اس سورت میں چار بار دہرایا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ فَسْـــَـلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ط وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ o (النحل ۱۶:۴۴) اے نبیؐہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں ، آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہل ِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ، اور اب یہ ذکر( قرآن) تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائوجو ان کے لیے اُتاری گئی ہے ،اور تاکہ لوگ (خود بھی) غورو فکر کریں۔
قرآن کی اس طرح تفسیر و تشریح کو سمجھنے کے لیے علما نے کئی بنیادی علوم (۱۵؍ یا اس سے زیادہ)کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ کام علما ے کرام کا ہے۔ قرآن کی تفسیر اور معنی و مطالب قیامت تک بیان ہوتے رہیں گے اور ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق روزِ قیامت تک اس کی تشریح و تفسیر ہوتی رہے گی اور اس کے مطالب ختم نہیں ہوں گے۔
قرآن میں ان لوگوں کو اُمّی (اَن پڑھ)کہا گیا ہے جو قرآن کا علم نہیں رکھتے، چاہے انھوں نے دنیاوی علوم میں پی ایچ ڈی ہی کیوں نہ کی ہو:
وَمِنْھُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِیَّ وَ اِنْ ھُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ (البقرہ۲:۷۸) اِن میں ایک دوسرا گروہ اُمیّوں کا ہے ، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں ، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔
جن لوگوں نے اللہ کی آیات کو بھلا دیا انھیں آخرت میں اندھا اٹھایا جائے گا:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰیo قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا o قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴-۱۲۶) اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ۔وہ کہے گا: ’’پروردگار ، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا ، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’ہاں ، اسی طرح تو ہماری آیات کو ،جب کہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تو نے بھلا دیا تھا۔اُسی طرح آج تو بھلایا جارہا ہے ‘‘۔
اس آیت کی تشریح کے سلسلے میں امام غزالیؒ احیا العلوم میں ایک مثال پیش کرتے ہیں کہ ایک آقا نے اپنے خدّام کو ایک باغ سُپرد کیا اور اس کی اصلاح و تعمیر کے لیے انھیں ایک تحریری ہدایت نامہ دیا کہ اس کے مطابق باغ کی اصلاح و تعمیر سے کام لینا تھا۔ آقا نے حسن کارکردگی پر ان سے انعام و اکرام کا وعدہ کیا اور لاپروائی اور غفلت سے کام لینے پر سخت سزا کی دھمکی دی۔ ان خدّام نے اس ہدایت نامے کی نہایت تعظیم کی۔ اسے بار بار پڑھا بھی لیکن اس کی کسی بات پر عمل نہ کیا اور غفلت سے باغ کی اصلاح و تعمیر کے بجاے اسے ویران و برباد کردیا ۔ اس ہدایت نامے کی رسمی تعظیم اور بار بار پڑھنے نے انھیں فائدہ نہ پہنچایا سواے اس کے کہ اس کی خلاف ورزی پر انھوں نے اپنے آپ کو مستوجب سزاٹھیرا لیا۔ (تدریس لغۃ القرآن، ص۲۲-۲۳)
قرآن کو جن لوگوں نے پسِ پشت ڈال دیا ہو قیامت کے دن قرآن اُن کے گلے میں پڑا ہوگا اور اللہ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ اس بندے نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ میرے اور اس کے درمیان فیصلہ فرمادیں:
یَاوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا o لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَائَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا o وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا o (الفرقان۲۵:۲۸-۳۰)
ہاے شامت! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے مجھ کو (کتاب) نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا اور شیطان انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے۔ اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے معارف القرآن میں فرماتے ہیں: قرآن کو عملاً چھوڑ دینابھی گناہِ عظیم ہے۔ اس سے ظاہر یہ ہے کہ قرآن کو مہجور اور متروک کردینے سے مراد قرآن کا انکارہے جو کفار ہی کا کام ہے۔ مگر بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جو مسلمان قرآن پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر نہ اس کی تلاوت کی پابندی کرتے ہیں نہ اس پر عمل کرنے کی، وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں ۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: جس شخص نے قرآن پڑھا مگر پھر اس کو بند کرکے گھر میں معلق کردیا، نہ اس کی تلاوت کی پابندی کی، نہ اس کے احکام میں غور کیا ۔ قیامت کے روز قرآن اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندے نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ میرے اور اس کے معاملے کا فیصلہ فرمادیں۔ (معارف القرآن، جلد۶، ص ۴۷۱، ادارۃ المعارف کراچی )
تفسیر احسن البیان میں اس آیت کی تشریح یوں کی گئی ہے اس پر ایمان نہ لانا، اس پر عمل نہ کرنا، اس پر غوروفکر نہ کرنا، اور اس کے اوامر پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے جس کے خلاف قیامت کے دن اللہ کے رسولؐ اللہ کے دربار میں استغاثہ فرمائیں گے (ص۸۲۴-۸۲۵)۔ تصور کیجیے کہ کتنے بدنصیب ہوں گے وہ لوگ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہیں گے کہ: یہ ہیں میری قوم کے وہ لوگ جنھوں نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب سے کون بچائے گا؟
یہ حقیقت ہے کہ نہ تو ہم قرآن کو سمجھتے ہیں اور نہ اس میں تدّبروتفکّر ہی سے کام لیتے ہیں۔ ہمارا آج کا یہ دور قبل از اسلام کے دورِ جاہلیت سے کسی بھی صورت مختلف نہیں بلکہ آج لوگ حق کے ترک کرنے میں اس سے بھی کہیں آگے بڑھ چکے ہیں۔ جاہلیت بمقابلہ علم و فن نہیں، بلکہ حق سے رُوگردانی اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کا نام جاہلیت ہے آج اس لحاظ سے پوری دنیا خواہشاتِ نفس کی پیروی کررہی ہے۔ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنے آپ کو اس ضلالت سے بچاسکتے ہیں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: یہ قرآن تیرے لیے یا تجھ پر ایک حجّت ہے، یعنی یہ کہ اگر تو اسے سمجھے اور اس پرعمل کرے تو تیرے لیے حجّت ہے اور یہی قرآن تجھ پر (یعنی تیرے خلاف)حجّت ہے، اس صورت میں کہ تو اسے سمجھنے کی کوشش نہ کرے اور عمل پیرا نہ ہو۔ (تدریس لغۃ القرآن، ص۲۸، ۱۵-۱۶)
کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا گیا مگر قرآن پڑھنے سے پہلے بسم اللہ کے ساتھ تعوذ پڑھنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ سورئہ نحل میں ارشاد ہے:
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ (النحل ۱۶:۹۸) پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شیطان کسی بھی شخص کو قرآن پڑھنے اور سیکھنے سے روکنے کا ہرممکن حربہ استعمال کرتا ہے مگر جب ہم اللہ کا کلام شروع کرنے سے پہلے اعوذ باللہ بھی پڑھ لیں تو شیطان کا یہ حملہ ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
شیطان کی کوشش ہمیشہ یہ رہتی ہے کہ وہ لوگوں کو نیک کاموں سے روکے خصوصاً قرأ ت قرآن جیسے کام سے، جو کہ نیکیوں کا سرچشمہ ہے اسے وہ کب ٹھنڈے دل سے گوارا کرسکتا ہے۔ ضرور اس کی کوشش ہوگی کہ مومن کو اس سے باز رکھے۔ اور اس میں کامیاب نہ ہو، تو ایسی آفات میں مبتلا کردے جو قرأ تِ قرآن کا حقیقی فائدہ حاصل ہونے سے مانع ہوں۔(تفسیر عثمانی)
شیطان عمومی طور پہ تین طریقوں سے انسان کو قرآن پڑھنے اور سیکھنے سے روکتا ہے۔
قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا o اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا (الکہف ۱۸:۱۰۳-۱۰۴) اے نبیؐ ان سے کہو ، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔
اور سورئہ زخرف میں ارشاد ہواہے کہ:
وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَیِّضْ لَہ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہ قَرِیْنٌ o وَاِنَّہُمْ لَیَصُدُّوْنَہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ o (زخرف ۴۳: ۳۶-۳۷) جو شخص رحمن کے ذکر سے تغافل برتتا ہے ، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔ یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔
رحمن کے ذکر سے مراد اس کی یاد بھی ہے، اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی ، اور یہ قرآن بھی۔
ہمارا کام اخلاص سے قرآن سیکھنے کی کوشش کرنا ہے تاکہ اپنی زندگی اس کی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق گزار سکیں۔یہ فکر تو ہمیں یقینا ہونی چاہیے کہ ہم قرآن کتنا سیکھ پائے اور اس پہ کتنا عمل کیا؟ لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری ذمہ داری کوشش کرنا ہے نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس کو کتنا عطا فرماتا ہے۔ اجر کا تعلق نیت اور کوشش سے ہے نتائج سے نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن کو مہارت کے ساتھ پڑھتا ہے تو وہ بڑی عزت والے فرشتوں اور نبیوں کے ساتھ ہوگا۔ جس کے لیے قرآن پڑھنا مشکل ہو اور پھربھی محنت کرتا رہا تو اس کے لیے دوہرا اجر ہوگا۔ ایک قرآن پڑھنے کا دوسرا اس پر محنت کرنے کا۔(سنن ابوداؤد)
موجودہ حالات کا واحد علاج یہی ہے کہ ہم کتاب اللہ کی طرف پلٹ آئیں اور اس کو سمجھ کر پڑھنا اپنے اُوپر لازم کر لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم رسولؐ اللہ کے اس فرمان کی زد میں آجائیں جس میں رسولؐ اللہ نے بعد میں آنے والے لوگوں کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: آخری زمانے میں یا اس امت میں ایسی قوم نکلے گی کہ وہ قرآن پڑھے گی لیکن قرآن اس کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا (سنن ابنِ ماجہ)۔ اور آپ نے ان لوگوں کو شرارالخلق قرار دیا۔
اسیرِ مالٹا مولانا محمود حسن ؒنے فرمایامسلمانوں کی موجودہ پستی کے دو ہی سبب ہیں: ترکِ قرآن اور باہمی اختلاف۔ اور اس کا علاج صرف یہی ہے کہ قرآنی تعلیمات پر لوگوں کو جمع کیا جائے اور اس کی تعلیم عام کی جائے۔ گویا امت کے اختلاف کو ختم کرنے کا نسخہ بھی صرف قرآن ہی ہے۔
یہ بات شاید انھوں نے حارث بن عبداللہ اعورؓ کی درج ذیل حدیث کی بنیاد پہ کہی ہو جو انھوں امیرالمومنین حضرت علیؓ کے حوالے سے بیان کی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے پاس جبریل ؑ آئے اور کہنے لگے کہ اے محمدؐ!آپؐ کی امت آپؐ کے بعد اختلافات میں پڑ جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ جبریل ؑ! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: قرآن کریم۔ اسی کے ذریعے اللہ ہرظالم کو تہس نہس کرے گا، جو اس سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ یہ بات انھوں نے دو مرتبہ کہی۔ پھر فرمایا کہ یہ قرآن ایک فیصلہ کن کلام ہے یہ کوئی ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے، زبانوں پر یہ پرانا نہیں ہوتا، اس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے، اس میں پہلوں کی خبریں ہیں ، درمیان کے فیصلے ہیں اور بعد میں پیش آنے والے حالات ہیں ۔(متفق علیہ )
سورئہ مائدہ کی آیت ۶۸ کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمدؒ لکھتے ہیں: اسی طرح اللہ تعالیٰ ہم سے فرماتے ہیں کہ کس منہ سے تم نماز پڑھ رہے ہو جب کہ تم نے اللہ کی کتاب کو قائم نہیں کیا۔ یعنی اے قرآن والو! تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک تم قرآن کو اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اسے قائم نہیں کرتے۔(قرآنِ حکیم اور ہم،ص ۲۹)
آج ہم قرآن سنتے اور پڑھتے ہیں لیکن یہ ہماری زندگی میں تبدیلی کا باعث نہیں بن رہا۔ رسولؐ اللہ کے زمانے میں عرب کے ان پڑھ بدّو بھی جب قرآن سنتے تو ان کے جسم کانپنے لگتے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ وہ اسے اپنی زندگی سے متعلق پاتے تھے اور اس پر عمل کرکے ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے تھے۔ اسی قرآن کی برکت سے بکریاں اور اونٹ چرانے والے یہ لوگ انسانیت کے رہنما بن گئے۔ آج وہی قرآن لفظ بہ لفظ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہر زبان میں بے شمار تفاسیر بھی لکھی گئیں ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ ان بدّووں کے نزدیک قرآن ایک زندہ حقیقت تھی جس کو سن کر وہ فوراً اس پر عمل کرتے تھے۔لیکن آج ہم نے اس کو ثواب کی ایک کتاب سمجھ کر اپنی زندگی اور روح سے غیر متعلق کردیا ہے۔
کیا قرآن آج بھی ہمارے لیے ویسے ہی نفع بخش اور زندگی کو تبدیل کرنے والی کتاب بن سکتا ہے؟ اس کا جواب یقینا ہاں ہی میں ہے ۔ بس ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم قرآن کو اسی طرح پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں جس طرح دورِ اوّل میں اہلِ عرب اور صحابہ کرامؓ نے کیا۔
اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ابھی یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم نے قرآن کوسمجھ کر پڑھنا ہے۔مزید وقت ضائع کیے بغیر یہ کام آج ہی شروع کر دیں۔ کل کا انتظار نہ کریں اس لیے کہ کل کا انتظار کرنا بھی شیطان کا ایک حربہ ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیں کل کبھی نہیں آتی۔
سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم قرآن پر ایمان لے آئیں۔ یہ بات عجیب سی لگتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایمان کے دو حصے ہیں، زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں قرآن مجید پہ کامل یقین ہے لیکن ہمارا طرزِعمل اس کے خلاف ہے۔نہ ہم اس کی تلاوت باقاعدگی سے کرتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اس کے احکامات پہ ہی عمل کرتے ہیں۔ گویا ہمارا ایمان کمزور ہے۔ ہم زبان سے تو اقرار کرتے ہیں کہ یہ اللہ ربُّ العزت کا کلام ہے لیکن یقین کی دولت سے محروم ہیں۔ ورنہ جسے یہ یقین ہوجائے تو اس کا تو اوڑھنا بچھونا ہی قرآن بن جاتا ہے۔(قرآن مجید کے حقوق، چلڈرن قرآن سوسائٹی، ۱۷-وحدت روڈ لاہور)
قرآن سیکھنے کے لیے ہمیں اس کام کو اپنی زندگی کی اوّلین ترجیحات میں رکھنا ہو گا۔ ہم دنیاوی تعلیم کے لیے زندگی کے کئی سال سکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں لگا دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے بہترین سکولوں اور کالجوں کا انتخاب کرتے ہیں۔اس پر اپنا مال اور وقت خرچ کرتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ ضروری ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے لیے قرآن کی تعلیم کا کیا بندوبست کر رہے ہیں ؟ اپنے وسائل اور وقت کا کتنے فی صد اس پر خرچ کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بچے کی تعلیم یا اپنی کسی دوسری مصروفیت کے لیے تو پیسہ خرچ کرنے اور گھنٹوںوقت دینے کوتیار ہیں لیکن مفت میں قرآن سیکھنے کے لیے تھوڑا ساوقت نکالنا بھی گوارا نہیں؟ اور اس بات پہ اکتفا کر بیٹھے ہیں کہ چند سو روپوں کے عوض بچوں کو صرف ناظرہ قرآن پڑھانے کے لیے ایک قاری صاحب کا بندوبست کر لیا ہے، اور خود بغیر سمجھے قرآن پڑھنے پہ اکتفا کر لیا ہے؟
قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے وقت ہم کھلے ذہن اور دل سے اللہ کا حکم جاننے اوراسی کی آواز سننے کی کوشش کریں۔ اس میں اپنے خیالات تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمیں اپنی ہی آواز کی بازگشت سنائی دے گی اور ہم اللہ کی آواز نہیں سن سکیں گے۔ اس کام کی ابتدا میں سب سے اہم بات اخلاص نیت ہے۔ ہمارا یہ مصّمم ارادہ ہو کہ قرآن کو سمجھ کر اس کے ذریعے ہم اپنی زندگی کو تبدیل کریں گے۔ اس کا رنگ سب سے بہتر رنگ ہے۔ ہم اس میں اپنے آپ کو رنگ لیں گے۔ قرآن کو عملی طور پہ سمجھنے اور اس کے صحیح ادراک کے بارے میں مولانا سیّدابولاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب آپ اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی ہے اسی طرح قدم اٹھاتے جائیں۔ قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اس کے بتائے ہوے اصول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے جب تک وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔ (تفہیم القرآن، جلد اول، ص۳۴-۳۵)
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن پڑھنے، اس کی تعلیمات کو سمجھنے، اس پہ عمل کرنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!