مئی ۲۰۱۵

فہرست مضامین

کتاب نما

| مئی ۲۰۱۵ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق ، مولانا سیّد جلال الدین عمری،     مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،دہلی، بھارت۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۱۸۵ روپے (بھارتی)

محترم مولانا سیّد جلال الدین عمری کا شمار بھارت کے نام وَر علما میں ہوتا ہے۔ آپ کے قرآن و سنت کی روشنی میں عصری مسائل پر تحقیقی مقالے اور کتب نہ صرف بھارت میں بلکہ تراجم کی شکل میں یورپ ، امریکا، ترکی اور عالمِ عربی میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ اب تک ۵۰ کے لگ بھگ تصنیفات منظرعام پر آچکی ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق آپ کی تحقیقی تصنیفات میں ایک قیمتی اضافہ ہے اور موضوع پر متعلقہ مسائل کا کماحقہٗ احاطہ کرتی ہے۔ کتاب ۱۵ مباحث پر مبنی ہے اور اصولی اور عملی پہلوئوں پر مستند معلومات فراہم کرتی ہے۔ کتاب کا آغاز خاندان میں تعلقات اور عام انسانی تعلقات سے ہوتا ہے جس سے اسلام کے عمومی تصور انسانیت کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں غیرمسلموں کے ساتھ معاشرتی تعلقات،سماجی تعلقات، ازدواجی تعلقات اور کاروباری معاملات کا جائزہ قرآن و سنت اور فقہ کے ائمہ کی آرا کی روشنی میں لیا گیا ہے۔

عملی مسائل سے بحث کرتے ہوئے محترم مولانا نے جن پہلوئوں پر سیرحاصل بحث فرمائی ہے ان میں غیرمسلموں کو سلام کا حکم، مسجد میں غیرمسلم کا داخلہ، غیرمسلم سے تحائف کا تبادلہ، غیرمسلم کی شہادت، اور پھر اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے حقوق پر ایک مفصل باب باندھا ہے۔اس میں اسلامی ریاست کی خصوصیات و اصول جن میں عدل و انصاف کا قیام، مذہبی معاملات میں جبر کا نہ ہونا، اسلام کا دیگر مذاہب کے بارے میں طرزِعمل اور اہلِ کتاب کے ساتھ رویے پر بحث کی گئی ہے۔ اسلامی ریاست کے حوالے سے یہ وضاحت بھی قرآن و سنت کی روشنی میں کی گئی ہے کہ جہاد کا مقصد کسی کو مسلمان بنانا نہیں بلکہ ظلم و فساد کا دُور کرنا ہے۔

ذمیوں کے حوالے سے مستشرق اور ان سے تربیت پانے والے بے شمار مسلمان مفکرین نے بہت معذرت کے ساتھ اسلام اور ذمیوں کی بحث کی ہے۔ محترم مولانا نے بغیر کسی مداہنت کے حق کو جیساکہ وہ ہے بیان کیا ہے اور ہربات کی دلیل قرآن و سنت سے دے کر یہ واضح کیا ہے کہ ذمی دوئم درجہ کا شہری نہیں ہے۔ اس کے حقوق بھی وہی ہیں جو ایک مسلمان شہری کے ہیں۔

بین الاقوامی قانون میں ایک اہم بحث کا تعلق حالت ِ جنگ اور حالت ِ امن میں غیرمسلم اقوام کے ساتھ معاہدات و معاملات کی ہے۔ اس پر بھی تفصیلی بحث کی گئی ہے کہ معاہدوں کی حیثیت، کن حالات میں انھیں منسوخ کیا جاسکتا ہے ، اور جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔

کتاب کے آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے غیرمسلموں سے عدم تعلق کے احکام کا پس منظر بیان کیا گیا ہے تاکہ وہ شبہات جو قرآن و سنت کے جزوی مطالعے سے پیدا ہوسکتے ہیں انھیں اسلام کی کُلی تعلیمات اور اُس پس منظر میں دیکھا جائے جو ان کا سبب النزول ہے۔ یہ اہم باب ہے اور داعیانِ اسلام کے لیے اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ان تمام رواداری کے عملی مظاہروں کے باوجود جن سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے مخالفین چُن چُن کر صرف ان آیات یا احادیث کا ہی تذکرہ کرتے ہیں جن میں منکرین، مشرکین اور اہلِ کتاب کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ انھیں رازدار نہ بنائو۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مدینہ منورہ میں منافقین کی ایک جماعت بظاہر اپنے اسلام لانے کا اعلان کرنے کے باوجود، یہود اور مشرکین مکہ کے ساتھ مسلسل رابطے اور سازشوں میں مصروف تھی۔ قرآن کریم جس ہستی نے نازل فرمایا وہ العلیم اور الخبیر ہونے کی بناپر ان کی سازشوں، مکر اور چالوں سے سب سے زیادہ آگاہ تھا۔ اس لیے اسلامی دعوت کی بقا اور فروغ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کو آگاہ کیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ ان کے ظاہر پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں اپنے رازوں میں شامل نہ کیا جائے۔

یہ بات ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس سے کوئی کافر بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اس میں نہ کوئی کینہ ہے، نہ دشمنی، نہ چال بازی اور نہ کوئی ناانصافی۔ ایک بچہ بھی اپنے دشمن پر اعتماد نہیں کرتا۔ منافقین اور مشرکین کا کردار اسی بات کا مطالبہ کرتا تھا کہ ان کو بعض معاملات میں بالکل الگ رکھا جائے۔ یہی شکل بین الاقوامی قانون میں آج بھی پائی جاتی ہے۔

اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر اس کا جدید انگریزی میں ترجمہ جلد آنا چاہیے اور اسے ہر معروف کتب خانے کی زینت بننا چاہیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


نوآبادیاتی عہد میں مسلمانانِ جنوبی ایشیا کے سیاسی افکار کی جدید تشکیل: سرسیّد احمد خاں اور اقبال، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات:۶۸۔ قیمت: درج نہیں۔

ہندستان پر انگریزوں کے غلبے کے بعد ایک طرف تو بعض شخصیات کا ردعمل سامنے آیا اور دوسری طرف مزاحمت کی متعدد تحریکیں اُٹھیں۔ افراد میں سرسیّد احمد خاں اور علامہ اقبال کا ردعمل مختلف صورتوں میں نمایاں ہوا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنی تازہ کتاب میں دونوں اکابر کے ردعمل کی مختلف صورتوں کو بیان کیا ہے۔

مؤلف کہتے ہیں کہ نوآبادیاتی عہد میں ہندستان میں جن تصورات نے مسلمانوں میں ایک مستحکم شعور پیدا کرنے اور مسلم ملّت کو اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کیا، سرسیّد اور اقبال کے خیالات ہیں جو اُنھوں نے اہم سیاسی مراحل میں قوم کے سامنے پیش کیے۔  سرسیّد مسلمانوں میں وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے حقیقی مقاصد کو سمجھا اور واضح کیا کہ ہندو اور مسلمان ایک نہیں دو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو کانگریس سے دُور رہنے کی تلقین کی۔ پھر مسلمانوں کے تقلیدی اور فرسودہ و جامد خیالات کو حرکت و عمل سے بدلنے کی کوشش کی، اور اس کے لیے انھوں نے جدیدتعلیم کو مفید اور مؤثر خیال کیا۔

علامہ اقبال نے مغرب کو اور اس کی لائی ہوئی جدید تعلیم کو نسبتاً زیادہ عمیق نظروں سے دیکھا اور ہندستانیوں کو اس کے دُور رس اثرات سے آگاہ کیا۔ اُن کے نزدیک مسلمانوں کے اصل امراض: بے عملی، محکومی اور وطن پرستی تھے۔ حرکت، تبدیلی اور ذہنی انقلاب کے ذریعے ان امراض کو دُور کیا جاسکتا تھا۔

کتاب کے آخر میں سرسیّداحمد خاں کا وہ معروف خطبہ شامل ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کانگریس میں مسلمان بحیثیت قوم شامل نہیں ہیں۔ اسی طرح اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد بھی منسلک ہے جس میں اقبال نے ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کا عندیہ دیا تھا۔اس ٹھوس علمی مقالے کے آخر میں مؤلف نے ایک سو ایک تائیدی حوالے اور حواشی شامل کیے ہیں۔ مگر سرورق ساز کا فہم ناقص ہے(علامہ کو ببول کے درخت پر بٹھا دیا)۔ اسی طرح اشاریے کی کمی کھٹکتی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


شبلی کی آپ بیتی، مرتبہ : ڈاکٹر خالد ندیم۔ ناشر: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸- صفحات: ۳۷۶۔ قیمت: درج نہیں۔

مولانا شبلی نعمانی عالم دین، شاعر، ادیب، مؤرخ، سیرت نگار اور ماہرتعلیم تھے۔ سرسیّد تحریک سے بعض پہلوئوں میں اختلاف کے باوجود مسلمانوں میں تعلیم (متوازن اور بامقصد تعلیم) کے فروغ کے لیے عمربھر کوشاں رہے۔ شبلی صدی (۱۹۱۴ئ-۲۰۱۴ئ) کے موقعے پر اُن پر کتابیں اور مضامین لکھ کر اُنھیں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ پاکستان میں کم اور بھارت میں زیادہ۔ دارالمصنّفین نے معارف کا خاص نمبر شائع کیا اور ایک بین الاقوامی شبلی سیمی نار بھی منعقد کیا (حکومت ِ بھارت نے اس سیمی نار کے ۱۸ پاکستانی مدعوین میں سے کسی ایک کو بھی ویزا نہیں دیا)۔ شبلی کی حیات پر موجود متعدد کتابوں میں زیرنظر کتاب ایک منفرد اضافہ ہے۔

یہ شبلی کی ایسی خودنوشت ہے جسے اُنھوں نے خود نہیں لکھا بلکہ ڈاکٹر خالد ندیم نے اُن کی تحریروں سے اقتباسات لے کر ان کی آپ بیتی مرتب کی ہے۔ یہ شبلی کی ایک صحیح، سچی اور کھری تصویر ہے۔ اس میں شبلی کے احساسات، جذبات، ولولے، عزائم،ارادے اور منصوبے نظر آتے ہیں۔ ان سب کا منتہاے مقصود ملت ِاسلامیہ اور دین اسلام کا احیا تھا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ شبلی اپنی ملّت کے دگرگوں حالات پر کڑھتے اور اُنھیں پستی اور پس ماندگی سے نکالنے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں سوچتے تھے۔ افسوس تو یہ ہے کہ شبلی کو ایک غیرملکی استعماری حکومت میں کام کرتے ہوئے اپنوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

شبلی کی آپ بیتی پڑھتے ہوئے ہم سفرنامہ بھی پڑھتے ہیں، نام ور شخصیات پر شبلی کا تبصرہ بھی اور اُن کی شاعری سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں شبلی بے اطمینانی اور پریشانی کے عالم میں تلخ ہوجاتے ہیں۔ اس دل چسپ کتاب میں وہ دردمندی اور اضطراب بہت نمایاں ہے    جس نے شبلی کو عمربھر بے چین رکھا۔ مرتب نے بڑی محنت اور فن کاری سے آپ بیتی تیار کی ہے۔  دہلی یونی ورسٹی کے ڈاکٹر عبدالحق خالدندیم کی فہم و فراست پر انھیں داد دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’آپ بیتی کے کوائف جمع کرنے میں خون دل کی کشید کرنی پڑتی ہے… یہ قلم سے کسب ِضیا کی ایک انوکھی مثال ہے… نشاطِ کار کی قابلِ قدر مثال‘‘۔ دیباچہ نگار ڈاکٹر ممتاز احمد نے لکھا ہے کہ  ’’یہ صرف شبلی کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ ہماری عہدساز ادبی تہذیبی تاریخ کی ایک بصیرت آموز دستاویز بھی ہے‘‘۔ طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ آخر میں اشاریہ بھی شامل ہے۔ کتاب پاکستان اور بھارت سے بیک وقت شائع ہوئی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


نسیم حجازی کی تاریخی ناول نگاری کا تحقیقی اور تنقیدی تجزیہ، ڈاکٹر ممتازعمر۔ ناشر: انجمن ترقی اُردو، ڈی-۱۵۹، بلاک ۷، گلشن اقبال، کراچی-۷۵۳۰۰۔ صفحات: ۶۹۴۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔

تاریخی ناول نویسی میں جو کامیابی اور مقبولیت نسیم حجازی کو حاصل ہوئی وہ اُردو کے کسی دوسرے ناول نگار کے حصے میں نہیں آئی۔

زیرتبصرہ کتاب میں نسیم حجازی کے سات منتخب تاریخی ناولوں: داستانِ مجاہد، محمدبن قاسم، آخری چٹان، خاک اور خون، یوسف بن تاشفین، معظم علی، اور تلوار ٹوٹ گئی کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ان ناولوں میں مسلمانوں کے  شان دار ماضی، تاریخ کے نشیب و فراز اور عروج و زوال کے اسباب و محرکات کے ساتھ ساتھ احیاے اسلام کی جدوجہد کے لیے لازوال قربانیوں اور ایمان افروز جذبے کی خوب صورت منظرکشی کی گئی ہے جو بالخصوص نوجوانوں کو اپنی تاریخ سے شناسائی کے ساتھ عمل کے لیے اِک ولولۂ تازہ دیتی ہے۔ نسیم حجازی کے ناولوں کی وجۂ مقبولیت اور پذیرائی کا سبب بھی یہی انفرادیت ہے۔

اُردو ادب کے متعدد نقادوں کی آرا نقل کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمغنی کے مطابق: ’’نسیم حجازی کا طرزِ تحریر اُردو کی بہترین نثری روایات کا امین ہے جو علامہ شبلی، علامہ ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی کے عالمانہ مضامین میں ترقی پاکر اظہار و بیان کا مثالی معیار مقرر کرتی ہیں۔ اس طرزِ تحریر میں نفاست و شوکت اور متانت و دبازت ہے‘‘ (ص ۶۱۳)۔ ناول نگاری میں نسیم حجازی کے ادبی کام کا مقام متعین کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے: ’’نسیم حجازی اس قافلے کے نہ سالار ہیں نہ آخری آدمی۔ مسلمان اپنی نشاتِ ثانیہ کے لیے ہمیشہ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتے رہیں گے، اور تاریخی ناول یا افسانہ نگاری کی روایت زندہ رہے گی۔ عبدالحلیم شرر نے جو بیج بویا تھا اور جس کی آبیاری نسیم حجازی نے کی تھی، وہ پودا دیگر صاحبانِ قلم کی تحریروں کی صورت میں برگ و بار لا رہا ہے اور یہ روایت آگے بڑھتی رہے گی‘‘ (ص ۶۵۴)۔نسیم حجازی کے ناولوں کے بارے میں سیّدمودودی نے فرمایا تھا: ’’میں نوجوانانِ پاکستان سے [کہوں] گا کہ وہ نسیم حجازی صاحب کے ناول ضرور پڑھیں اور اپنی سنہری تاریخ کے سبق آموز واقعات سے واقفیت حاصل کریں اور ملک و قوم کی صحیح خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کریں‘‘ (ص ۶۴۶)۔(ظفرحجازی)


امریکا اور یورپ میں عورتوں کی حالتِ زار، مؤلف: ڈاکٹر عبدالغنی فاروق۔ ناشر: کتاب سراے، الحمد مارکیٹ غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات:۹۵۔قیمت :۱۰۰روپے۔

زیر نظر کتاب اخبارا ت کی خبروں ،رسائل وجرائد میں شائع شدہ مضامین اور مختلف سروے رپورٹوں کے اعدادو شمارپر مشتمل ایسی دستاویز ہے جس میں یورپ کا تاریک تر اندرون صاف دکھائی دیتاہے۔اس کتاب کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملازمتوں میں امتیازی سلوک، کم تنخواہیں،جنسی تشدد،جبری شادی اورگھریلو تشدد عام ہے۔ لاکھوں خواتین ہر سال جنسی تشدد کا نشانہ بنتی اور روزانہ بھوکی سوتی ہیں۔  اس کتاب میں ۲۰۰۳ء میں بی بی سی کے پیٹر گلائوڈ کا ایک سروے بھی شامل ہے  جس میں خواتین پر گھریلو تشدد کا جائزہ پیش کیا گیاہے۔اس سروے کے مطابق برطانیہ ۷۸ فی صد خواتین و حضرات نے کتے کو تشد دسے بچانے کے لیے پولس کو اطلاع دینا اپنا فرض بتایا، لیکن اپنے پڑوس میں مرد کی جانب سے اپنی بیوی یا گرل فرینڈ پرتشددکو ۴۷ فی صد افراد نے نجی معاملہ قرار دے کر عدم مداخلت کا عندیہ دیا۔

اس کتاب میں ان لوگوں کے لیے بڑا سبق ہے جو یورپ اور امریکا کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں اور جو ترقی ، خوش حالی اور روشن خیالی کے نام پر یورپ کی خاندان شکن معاشرت اور بے لگام کلچر کو ہم پر مسلط کرنے کے لیے ہلکان ہورہے ہیں۔ (حمید اللّٰہ خٹک)


جو اکثر یاد آتے ہیں، ابونثر (احمد حاطب صدیقی)۔ناشر: ایمل مطبوعات، ۱۲-دوسری منزل، مجاہد پلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔ فون: ۵۱۶۸۵۷۲-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۸۰ روپے۔ قیمت:۴۸۰روپے۔

مؤلف کے کالموں کا یہ مجموعہ مختلف شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ہے۔ ان خاکوں میں معلومات بھی ہیں اور تاریخ بھی، نظریات بھی ہیں اور فلسفہ بھی اور ادبی اسلوب کی چاشنی بھی۔ بعض خاکے ایسے ہیں جن کو پڑھ کر بے اختیار ہنسی چھوٹ پڑتی ہے (شفیع نقی جامعی) اور بعض ایسے ہیں کہ جن کو پڑھ کر آنکھوں سے آنسو چھلک چھلک پڑتے ہیں (میجر آفتاب حسن)۔ بعض خاکے طویل ہیں اور بعض مختصر۔ کچھ معروف شخصیات کے (افتخار عارف، پروفیسر غفوراحمد، حکیم محمد سعید، مشتاق احمد یوسفی، سلیم احمد، آباد شاہ پوری، عبدالستار افغانی) اور بعض غیرمعروف (نورمحمد پاکستانی، محسن ترمذی، استاد حسن علی، محمدگل اور ایک نامعلوم شخص)۔ خاکوں کے عنوانات بھی برمحل، بے ساختہ اور خوب ہیں۔

ابونثر کے قلم سے نکلے ہوئے یہ خاکے جہاں دردِ دل، سوز و گداز اور اسلوبِ بیان کی چاشنی سے معمور ہیں،وہیں یہ گذشتہ ۴۰سالہ عہد کی تاریخ ہے۔ خاکہ نگاری کا یہ اسلوب اور انداز ہرعمر کے افراد کے لیے سامانِ ضیافت کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ کتاب خاکہ نگاری میں نئے باب کی تمہید اور ہرلائبریری میں جگہ پانے کی حق دار ہے۔(عمران ظہور غازی)


تعارف کتب

o مجلہ الحمد کراچی (سیرت نمبر) ، مدیر: ڈاکٹر محمد اظہر سعید۔ ناشر: الحمد اکیڈمی، ۱۶۵-ای، بلاک۳، پی ای سی ایچ ایس، کراچی۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: ۹۰ روپے۔[الحمد کالج آف پروفیشنل ایجوکیشن کراچی کا مجلہ الحمد        سیرت النبیؐ کے موضوع پر ہے۔  اس مجلے نے اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے زیراہتمام سیرت النبیؐ کے موضوع پر مجلّوں کے درمیان منعقدہ مقابلہ ۲۰۱۴ء میں شرکت کر کے دوم انعام پایا۔ حمدو نعت کے بعد   کُل ۱۱مقالات شائع کیے گئے ہیں۔ یہ مقالات حکیمانہ تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفوس سیرتِ طیبہ کی روشنی میں دعوت و تبلیغ کی حکمت وعملی ، آنحضرتؐ کا نوجوانوں کے ساتھ سلوک ، رحمۃ للعالمینؐ بحیثیت بلدیاتی منتظم وغیرہ جامع انداز میں ترتیب دیے گئے ہیں۔ رسالہ اپنے مواد اور مضامین کے اعتبار سے عمدہ پیش کش ہے۔]

o چمن زار حقائق ، مرتبہ: گوہرملسیانی۔ ناشر: دارالنوادر، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۸۸۹۸۶۳۹-۰۳۰۰۔ صفحات:۲۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔[جناب گوہر ملسیانی کی نمایندہ منتخب قومی و ملّی نظموں کا یہ مجموعہ چمن زار حقائق ایک مؤثر پیش کش ہے، جو پاکستان کے نشیب و فراز، سیاسی، سماجی اور معاشی کیفیت، نظریات، تعلیماتِ قرآن اور تصوراتِ اقبال اور حکمرانوں کے غیراسلامی اقدار کی جھلک پیش کرتا ہے۔ فکرواحساس کو مہمیز دینے والے کلام کی چند نظمیں بالخصوص اُمیدطلوعِ سحر، اتحاد عالمِ اسلام، جذبات نور، حقیقت ِ وطن، رقصِ ابلیس، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے چند آنسو قابلِ ذکر ہیں۔]

o زندان سے تخت شاہی تک ، عبدالعظیم معلم ندوی۔ ناشر:معہدامام حسن البنا شہید، مکتبہ علی العلمیہ، مدینہ کالونی،بھٹکل۔صفحات:۵۶۔ قیمت: ۴۰ روپے (بھارتی)۔[یہ مختصر مگر سادہ انداز و اسلوب لیے ہوئے حضرت یوسف ؑ کے مکمل واقعے پر مشتمل قرآنی قصہ ہے۔ جس میں حضرت یوسف ؑ کی پاکیزہ زندگی کا خوب صورت نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اچھوتے انداز میں حضرت یوسف ؑ کی زندگی بطورِ نمونہ پیش کر کے نوجوان نسل کو غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے کہ آج کے دور میں جب بُرائی، ناشائستگی، بدتہذیبی اور عریانی و فحاشی اپنے لائولشکر کے ساتھ حملہ آور ہے، بچائو کیسے ممکن ہے۔]

o قومیں کیوں ہلاک ہوتی ہیں؟ ، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۹، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات:۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔[قرآنِ مجید کی روشنی میں قوموں کے زوال کے اصول، مثلاً: تکبر اور خودسر ی کی روش ، فساد فی الارض، ظلم وعدوان، فسق و فجور اور گناہوں کے ارتکاب کا تذکرہ ہے۔ مادی ترقی اور اقوامِ عالم پر بالادستی کے باوجود عقیدے اور فکر کا بگاڑ اور اخلاقی انحطاط بالآخر زوال کا سبب بنتا ہے۔ ان اصولوں کی روشنی میں مغربی اقوام کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔]

o آپ کے لیے کون سا منصوبہ مناسب ہے؟ ، محمد صالح المنجد، ترجمہ: عبدالغفور مدنی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۲۰ روپے۔[کتابچے میں بامقصد زندگی گزارنے کے لیے مختلف منصوبوں، خداداد خوابیدہ صلاحیتوں کی دریافت، منصوبوں کی کامیابی کے ضابطے اور ناکامی کے اسباب، نیز بعض کامیاب منصوبوں کا بطورِ مثال تذکرہ کیا گیا ہے۔ سلف صالحین اور نامور شخصیات کے واقعات بامقصد زندگی کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ عالمِ عرب سے اپنے موضوع پر مفید ترجمہ سامنے آیا ہے۔ ]